امامیات (کالم 3)

با ادب

محفلین
امام صاحب سے کچھ سیکھا یا نہ سیکھا ہو مگر ایک بات سیکھی بھی اور گرہ سے بھی باندھ لی ۔ امام صاحب فرمایا کرتے تھے بات کے ہمیشہ دونوں پہلوءوں کو غور سے دیکھو اچھی طرح غور کر کے بین السطور کو سمجھو ۔
جیسا کہ میں عرض کر چکی ہوں کہ میں کنوئیں کا مینڈک تھی ۔بین السطور میں الجھ کہ رہ گئ ۔ مجھے تو سامنے کا واضح لکھا سنا سمجھ میں دیر سے آتا ہے بین السطور کو کیا سمجھنا ۔
پوری دنیا معاشی بحران کا شکار ہے ۔ خبروں میں پڑھا ،سنا لیکن یقین نہ آتا ۔ مجھے لگتا دنیا میں مجھ سے بڑھ کر مفلوک الحال شاید ہی کوئ ہو ۔ غربت میرے ہی چہرے سے ٹپکی پڑتی ہے ۔ ہر غریب نادار کی طرح جیسے جیب کی حالت تھی ایسے ہی صحت کی حالت بھی تھی ۔ جیب میں دمڑی سے محروم ،صحت تندرستی سے محروم ۔ خون کی کمی ، کیلشیئم کی کمی یہ کمی وہ کمی ۔
کمائ کا وحد ذریعہ ایک پرائیویٹ سکول نوکری تھی ۔
نوکری کا بھی کیا ہی پوچھتے ہیں صاحبو ۔ استاد کی تو دین و دنیا خوار ہے ۔ خوبئ تقدیر سے گر سولہ سال میں دو حرف سیکھ لئے ہوتے ہیں تو چاہتا ہے کہ یہ دو حرف اگلی نسل تک ضرور منتقل کر دے ورنہ قوم کا عظیم نقصان ہو جائے گا ۔ ساری زندگی اساتذہ اور کتابوں نے استاد کی عزت اور عظمت کی ایسی سنہری دنیا سے متعارف کیئے رکھا کہ مجھے لگتا استادی سے بڑھ کر کوئ پیشہ دنیا میں موجودہی نہیں ۔
"استادی پیغمبروں کا پیشہ ہے"
" استاد روحانی ماں باپ ہوتے ہیں "
یہ اور اس طرح کے بہت سے اقوال نے میرے دل میں بچپن سے اتھل پتھل مچائے رکھی ۔ استاد میرے لئیے پرستان کی مخلوق تھے ۔ جس کے آگے تعظیم کے دربار لگے ہوتے ۔ جو آتا سر جھکاتا آداب بجا لاتا ۔ طلبہ ہیں تو استاد پہ فدا ، طلبہ کے والدین ہیں تو بند بند اور پورپور تشکر میں بندھے ہیں کہ اولاد کو علم کی دولت سے فیض یاب کرنے والی ہستی کا کیونکر شکریہ ادا کر پائیں گے ۔
الغرض میرے تصور نے استاد کے عزت اور مرتبے کا ایسا نقشہ کھینچ رکھا تھا کہ یونیورسٹی کے زمانے تک اساتذہ کے سامنے اونچی آواز میں بات تک کرنا گوارا نہ کی ۔ استاد کے آگے چلنے تک کو جہنم کی بڑھکتی ہوئ آگ سمجھا۔
لیکن دوستو کیا بتایئں تمھیں ۔ ۔ ۔ ۔
امام صاحب اکثر شعر فرمایا کرتے تھے
سخت مشکل ہے کیا بتائیں تمھیں
یاد رکھیں کہ بھول جائیں تمھیں
باقی شعر پہ اتنا غور کرنا گوارا نہ کیا لیکن کیا بتائیں تمھیں کی تکرار دل کو بھا گئی ۔
تو میں کہہ رہی تھی کہ کیا بتائیں تمھیں ۔ جب خواب گھروندےٹوٹتے ہیں تو کیسے کیسے ستم ڈھاتے ہیں ۔ میرا گھروندہ بھی مسمار ہوا ۔
ایسے ایسے مسمار ہوا کہ رام کتھا سنانے بیٹھیں تو عمر یہیں بیت جائے ۔ لیکن میرا عنوان تھا معاشی بحران ۔
صاحبو ! کبھی کسی نے بتایا ہی نہ تھا کہ تعظیم اور عزت کے مرقع مجسمے کی ضروریات بھی ہوتی ہیں ۔ یہ شفاف کانچ کا پتلا ایک عدد پیٹ کا بھی مالک ہوتا ہے ۔ اور پاپی پیٹ نہ استاد بننے دیتا ہے اور نہ استادی کرنے دیتا ہے ۔
استاد بنیں تو کیسے بنیں ۔ دل میں قوم کے معماروں کا درد موجود ہے جناب عالی لیکن دل سے ذرا نیچے کے مقام پہ ایک عدد پیٹ بھی موجود ہے ۔
دل تڑپتا ہے آو قوم کے معماروں میں تمھارے روشن مستقبل کا ضامن ہوں ۔ پیٹ کی آہ و بکا ہے کم بخت ہمارے ایندھن کا بھی تو سوچ کہ اس ایندھن کے بغیر تیری گاڑی کیونکر چلے گی ۔ یہ جو تو معماروں کو پروں پہ سوار کر کے اڑان بھرنے کی تیاری میں ہے اس اڑان کے لئے توانائی ہم ہی نے فراہم کرنی ہے ۔ اور ہمیں اس توانائی کے لئیے ایندھن چاہئے ۔
عزیز دوستو! ایندھن کی کہانی سے آپ بخوبی واقف ہیں ۔ پوری دنیا میں لڑائی ایک اسی ایندھن کی ہے ۔ امریکہ ،اسرائیل ،روس ( اس سے زیادہ ممالک کے نام مجھے نہیں آتے) سب نے ان بے چارے عرب ممالک پہ دھاوا کیوں بول رکھا ہے ۔ ؟ اسی پاپی ایندھن کے واسطے ۔

اے میرے معصوم ننھے منے پیٹ ! ایندھن پہ سارا قبضہ فرنگ کا ہے ۔ اور میری ان تک رسائ کہاں ؟

میں تو ایک معمولی استاد ہوں ۔ اور استاد کہاں میں تو ایک معمولی استانی ہوں ۔ اور استانی ہونا کیا ہوتا ہے ۔ میرے بھائی بہنو !یہ ایک دقیق مسئلہ ہے اور تفصیل طلب ہے ۔ لیکن آپ کی تشفی کے لئے بتائے دیتے ہیں کہ استانی کس مخلوق کو کہا جاتا ہے ۔
میں نے جن جن پرائیو یٹ سکولوں کے چکر لگائے اور جن جن سکولوں کے درشن اور پوجا پاٹ کی ان تمام سکولوں میں اگر استاد نامی بلا موجود ہو تی تو وہ بلا زیادہ تنخواہ کی حقدار ٹھرائی جاتی ۔ گرچہ ڈگری ایک جیسی ہو محنت ایک جیسی ہو ذہانت بے چاری استانی کی چاہے زیادہ ہی کیوں نہ ہو ۔
غریب کے پاس عزت نفس نامی کوئی شے نہیں ہوتی ۔ دنیا کے تمام امیر حضرات کے پاس پیدائشی لائسنس ہے کہ جب چاہے جہاں چاہے غریب کو لتاڑ کے رکھ دے اور خوب خوب لتاڑے ۔ زیادہ سے زیادہ کیا کرے گا ؟ دم دبا کے بھاگ جائے گا اس سے زیادہ اس کے اختیار میں اور ہے ہی کیا ؟ ۔
عزت نفس اور غریبی کا کوئی تال میل نہیں بنتا ۔ ایک مشرق ہے تو دوسرا مغرب ۔
مشرق روشن ،اجلا ،چمکدار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مغرب تاریک،اندھیارااور سیاہ۔ ۔
بحیثیت ایک غریب کے میں بھی ان ہی عادات و خصائل سے آراستہ تھی ۔ عزت نفس نامی شے کو سلا کر ۔ ڈھیٹ بن کے (ایندھن کی خاطر ) سوال پوچھنے کی جسارت کر ہی ڈالی ایک دن کہ صاحبان یہ تنخواہ کے معاملے میں اگر محمود وایاز بلکہ محمودہ و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو جائیں تو یقین جانئیے درسگاہ کو کیا ہی مسجد سے کم مقام نصیب ہو جائے ۔
صاحبانوں نے تیوری چڑھائ نخوت سے ناک سکیڑی زمین کے کیڑے پہ نظر ڈالی اور گویا ہوئے "انھیں گھر چلانا ہوتا ہے "
ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم ۔ ۔ ۔
گھر تو نا چیز کو بھی چلانا تھا ۔ مگر " حکم زباں بندی " تھا ۔
آخر کو ایک بات کا کتنا رویا جا سکتا ہے ۔ میری عقل تو ویسے بھی ذرا سی گھوری سے دب جاتی ہے ۔ اونچی آواز سے دل پتے کی طرح لرزنے لگتا ہے ۔ دل کو لرزتا چھوڑ کہ ہم معمار بنانے کی جستجو میں سرگرم ہو گئے ۔ (گو اس سرگرمی کے لئے ایندھن کی سخت کمی تھی ) پر بات امام صاحب کی ۔ ۔ ۔
کیا بتائیں تمھیں ۔ ۔ ۔
 

غدیر زھرا

لائبریرین
حقیقت...انسان ارادے تو بہت باندھتا ہے کہ اس پیشے کو اپنا کر کیا کیا نہ کیا جائے لیکن زمینی حقائق اس کے ہوش ٹھکانے لگا دیتے ہیں..پھر یہ احساس بھی دامن گیر رہتا ہے کہ ہم واقعی اپنے جذبے کی وجہ سے اس پیشے کو اپنائے ہوئے ہیں یا پاپی پیٹ کی وجہ سے..بہرحال رزق کو اپنے پیشے سے مخلص ہو کر جس حد تک حلال کیا جا سکتا ہے کیا جانا چاہیے..
باقی رہی بات "محمودہ اور ایاز" کے فرق کی تو اس پر مزید روشنی ڈالیے کہ پرائیویٹ سکولز میں شاید یہ وطیرہ ہو ورنہ گورنمنٹ تو سب کو ایک جتنا پے کرتی ہے ہاں البتہ خواتین کو معاشرتی دباؤ کی وجہ سے کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے..

ویسے میرے خیال میں پاکستان میں خواتین ٹیچنگ کے شعبے میں مردوں سے زیادہ مواقع رکھتی ہیں :)
 

با ادب

محفلین
حقیقت...انسان ارادے تو بہت باندھتا ہے کہ اس پیشے کو اپنا کر کیا کیا نہ کیا جائے لیکن زمینی حقائق اس کے ہوش ٹھکانے لگا دیتے ہیں..پھر یہ احساس بھی دامن گیر رہتا ہے کہ ہم واقعی اپنے جذبے کی وجہ سے اس پیشے کو اپنائے ہوئے ہیں یا پاپی پیٹ کی وجہ سے..بہرحال رزق کو اپنے پیشے سے مخلص ہو کر جس حد تک حلال کیا جا سکتا ہے کیا جانا چاہیے..
باقی رہی بات "محمودہ اور ایاز" کے فرق کی تو اس پر مزید روشنی ڈالیے کہ پرائیویٹ سکولز میں شاید یہ وطیرہ ہو ورنہ گورنمنٹ تو سب کو ایک جتنا پے کرتی ہے ہاں البتہ خواتین کو معاشرتی دباؤ کی وجہ سے کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے..

ویسے میرے خیال میں پاکستان میں خواتین ٹیچنگ کے شعبے میں مردوں سے زیادہ مواقع رکھتی ہیں :)
بہن خیال اور حقیقت کی دنیا میں بڑا فرق پایا جاتا ہے
 

غدیر زھرا

لائبریرین
بہن خیال اور حقیقت کی دنیا میں بڑا فرق پایا جاتا ہے
مجھے شاید میرے خیال کی نسبت میری رائے میں لکھنا چاہیے تھا..اور میں نے رائے میدان کے باہر کھڑے ہو کر نہیں دی اس میں موجود رہ کر دی ہے یعنی میں خود بھی اسی شعبے سے ہوں..بہرحال آپ کی بات پرائیویٹ اداروں کے لحاظ سے درست ہو سکتی ہے..میں نے گورنمنٹ کے اداروں کے حوالے سے اپنا موقف دیا کیونکہ خواتین نہ صرف اوپن میرٹ سے زیادہ سیٹس لیتی ہیں ٹیچنگ کے شعبے میں بلکہ کوٹا کی سیٹس بھی لیتی ہیں اور یوں بھی ہمارے معاشرہ میں یہ چلن زیادہ پایا جاتا ہے کہ مرد حضرات اس شعبے کی طرف کم رجحان رکھتے ہیں ان کے پاس اور فیلڈز کی چوائس ہوتی ہے..جب کہ ہمارے ہاں دیہی علاقوں میں زیادہ تر خواتین کو اسی پیشے کو چننے کی اجازت ہے (یہ بھی میرا خیال نہیں تجربہ اور مشاہدہ ہے) :)
 

با ادب

محفلین
مجھے شاید میرے خیال کی نسبت میری رائے میں لکھنا چاہیے تھا..اور میں نے رائے میدان کے باہر کھڑے ہو کر نہیں دی اس میں موجود رہ کر دی ہے یعنی میں خود بھی اسی شعبے سے ہوں..بہرحال آپ کی بات پرائیویٹ اداروں کے لحاظ سے درست ہو سکتی ہے..میں نے گورنمنٹ کے اداروں کے حوالے سے اپنا موقف دیا کیونکہ خواتین نہ صرف اوپن میرٹ سے زیادہ سیٹس لیتی ہیں ٹیچنگ کے شعبے میں بلکہ کوٹا کی سیٹس بھی لیتی ہیں اور یوں بھی ہمارے معاشرہ میں یہ چلن زیادہ پایا جاتا ہے کہ مرد حضرات اس شعبے کی طرف کم رجحان رکھتے ہیں ان کے پاس اور فیلڈز کی چوائس ہوتی ہے..جب کہ ہمارے ہاں دیہی علاقوں میں زیادہ تر خواتین کو اسی پیشے کو چننے کی اجازت ہے (یہ بھی میرا خیال نہیں تجربہ اور مشاہدہ ہے) :)
معاف کیجیئے گا آپ شاید برا مان گئیں ۔ مجھے دیہی علاقوں کا ا ندازہ نہیں ۔ اور یہاں بات گورنمنٹ کے اداروں کی نہیں پرائیویٹ سسٹم سکولز کی کی گئ ہے ۔ جہاں یہی رواج رائج ہے ۔
 

با ادب

محفلین
میری معلومات میں خاصا اضافہ ہو رہا ہے یہ جان کر کہ طر ز تحریر سے علاقوں کا پتہ چلتا ہے ۔ اگر میں چیچہ وطنی سے ہوں تو تحریر کیسی ہو گی ؟
 

با ادب

محفلین
کیا کے پی کے میں مواقع کم میسر ہیں؟ یہاں پر امام کی جھلک معدوم ہوگئ ہے جبکہ استاد واضح ہوگیا ہے
نور سعدیہ بہن امامیات کسی امام صاحب کی سوانح حیات نہیں کہ میں ہر روز ان کے بارے میں ایک قصہ بیان کروں ۔ امام ایک سوچ ایک وژن کا نام ہے ۔ انداز چونکہ باقی اصناف سے شاید مختلف یے اس لیئے اصل مدعے کی بجائے قاری امام کی شخصیت کو لے کے بیٹھ جاتا ہے ۔
امام اس دنیا میں موجود کوئی بھی ہستی نہیں ۔ جیسے شیخ اور ساقی کوئی ہستی نہیں ۔
 
وہ کیسے بھائی صاحب ؟
میری معلومات میں خاصا اضافہ ہو رہا ہے یہ جان کر کہ طر ز تحریر سے علاقوں کا پتہ چلتا ہے ۔ اگر میں چیچہ وطنی سے ہوں تو تحریر کیسی ہو گی ؟
عظیم فلسفی خاتون اپنے اندازے کے بارے میں وضاحت فرما دیں گی۔

البتہ اپنے اندازے کے بارے میں مکمل تحقیق کر کے آپکو 48 گهنٹے میں رپورٹ پیش کردوں گا۔ :cool2:
 

با ادب

محفلین
عظیم فلسفی خاتون اپنے اندازے کے بارے میں وضاحت فرما دیں گی۔

البتہ اپنے اندازے کے بارے میں مکمل تحقیق کر کے آپکو 48 گهنٹے میں رپورٹ پیش کردوں گا۔ :cool2:
عظیم ماہر نجوم! بہن نور سعدیہ نے لکھا کیا کے پی کے میں کم مواقع میسر ہیں ۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ وہ مجھ سے کے پی کے کا کیوں پوچھ رہی ہیں ۔ میرا کے پی کے سے تعلق ۔ آپ ماہر علم نجوم صاحب نے فرمایا آپکے انداز تحریر سے اندازہ لگایا ہوگا ۔ تو مجھے سمجھ نہیں آئی آپکی بات کی کہ کسی ک انداز تحریر سے کے پی کے کا کیا تعلق؟ ۔
 
آخری تدوین:
عظیم ماہر نجوم! بہن نور سعدیہ نے لکھا کیا کے پی کے میں کم مواقع میسر ہیں ۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ وہ مجھ سے کے پی کے کا کیوں پوچھ رہی ہیں ۔ میرا کے پی کے سے تعلق ۔ آپ ماہر علم نجوم صاحب نے فرمایا آپکے انداز تحریر سے اندازہ لگایا ہوگا ۔ تو مجھے سمجھ نہیں آئی آپکی بات کی کہ کسی ک انداز تحریر سے کے پی کے کا کیا تعلق؟ ۔
میں نے 'ہو گا ' کہا ہے نا یعنی یہ بهی اندازہ ہی ہے۔
اور اب آپ ہی مجھ سے میرے اندازے کی بابت پوچھ رہے ہیں ۔
کوئی بتلاو کہ ہم بتلائیں کیا ۔
آپ سے نہیں پوچها جی۔ عظیم فلسفی خاتون محفلین نور سعدیہ شیخ ہیں۔
 
Top