با ادب

محفلین
میرا شمار ان بچوں میں ہوتا تھا جو پیدائشی اور فطری طور پہ ڈرے سہمے ہوئے ہوتے ہیں ۔ ذرا سی گھوری سے دب جاتے ہیں ۔ ایسی فطرت پہ قائم بچے بالعموم اور بالخصوص مستقیمی قسم کے بچے ہوتے ہیں ۔ میرا شمار بھی ان ہی مستقیمی بچوں میں ہوتا تھا ۔ ( یہ میری اپنی رائے ہے ) ۔ ہماری والدہ محترمہ اور دادی جان کا ہم سب بچوں کی زندگی پر بڑا گہرا اثر رہا ہے ۔دونوں ہی بے تحاشا قسم کی نیک اور دین سے محبت کرنے والی خواتین تھیں ۔جہاں سے دین کی کوئی بات پتہ چلی سمعنا و اطعنا کی مثال بن جاتیں ۔ جان لینے کی دیر ہوتی بلا تاخیر عمل کر ڈالتی تھیں ۔ جو جو نیکی کی باتیں انھوں نے سیکھیں مرتے دم تک ان پر عمل پیرا رہیں ۔ ۔نماز پنجگانہ سے لے کر تہجد ، چاشت ، اشراق ، اوابین نوافل میرے ہوش سنبھالنے سے لے کر ان کر مرتے دم تک انکا معمول رہے ۔

یہ راز مجھے آج تک معلوم نہ ہو سکا کہ ان کو اتنا وقت کیسے مل جایا کرتا تھا ۔ اپنا حال تو یہ ہے کہ سردیوں کے موسم میں فجر پڑھ کر جب کام شروع کیے تو ظہر کا وقت بھی مشکل سے ملتا ۔ ابھی ظہر پڑھ کر ٹلے نہیں کہ عصر ہو گئی ۔ مارے باندھے کھینچا تانی میں اٹھے جھکے سلام پھیرا ابھی دعا سے بھی فارغ نہ ہوئے تھے کہ مولوی صاحب نے پھر سے اذان دے ڈالی ۔ لیجیے جناب ! شام ہوگئی ۔ صبح کے شروع کیے گئے کام شیطان کی آنت کی طرح لمبے ہوئے چلے جاتے ہیں ۔ نہ کام ختم ہونے میں آتے ہیں نہ نمازیں خشوع و خضوع سے انجام دینا ممکن ۔ روز ارادہ ہوتا ہے کہ آج مغرب پڑھ کر شام کی دعائیں ہی تسلی سے پڑھ ڈالوں گی ۔ پر ارادہ ارادہ ہی رہا ۔ روز سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں کہ ہماری "قوم" میں کھانے پینے کا جھمیلہ بڑھ گیا ہے یا موجودہ "نسل" کا یہ عالم ہے ۔ ایسی کھاؤ کہ سب ہڑپ کر جائے پھر بھی بھوک ہے کہ مٹنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔

صبح سے رات ہو گئی خاتون خانہ کی زندگی کھانے پینے میں الجھی ہے اور ایسی الجھی ہے کہ کیا کسی بالم کی لٹ الجھی ہوگی ۔کھاتے پکاتے کھلاتے پلاتے زندگی تمام ہو گئی ۔

مارے باندھے عشاء پڑھی جاتی ہے ۔ پھر بستر سنبھالنے پر اگلے دن کی خبر لاتے ہیں ۔ کیسا تہجد ، کون سی چاشت ، کیسی اشراق اور کہاں کے اوابین ۔

زندگی یوں ہی بیت جاتی اور کسی دن سرہانے عزرائیلؑ کھڑے ساتھ چلنے کا تقاضا کرتے ۔ لیکن کہانی میں ٹوئسٹ اور زندگی میں یوٹرن ( اسے عمران خان والا یو ٹرن ہر گز نہ سمجھا جائے) آگیا ۔ ایمان کی تقویت کے لیے امام صاحب آموجود ہوئے ۔

کسی دن بر سبیل تذکرہ دنیا کے جھمیلوں کی داستان انھیں جا سنائی ۔ مصائب زندگی اور مشکلات زمانہ کا فطرت زنانہ کے باعث وہ رونا رویا وہ رونا رویا ، عین ممکن تھا ملک میں سیلاب کا خطرہ پیدا ہو جاتا ۔ پر امام صاحب زمانہ شناس و حالات آشنا تھے سیلاب کا سد باب کرنے کی خاطر فورا بند باندھ ڈالا کہ اگر حالات ھنگامی ہوگئے تو زیادہ نقصان کا خطرہ ٹل جائے ( امام صاحب تھے ہمارے پیارے ملک کے وزیر اعظم تو نہیں کہ بند باندھنے کا خیال سیلاب کے بعد آئے اور وہ بھی صرف خیال کی حد تک )
پوچھنے لگے بی بی زندگی سے اتنی اکتائی کیوں رہتی ہو ؟
عرض کیا امام صاحب وقت میں برکت ہی نہ رہی اور وقت ہی کا کیا پوچھتے ہیں صحت میں ، روزی میں کسی چیز میں برکت نہ رہی ۔ "برکت" روٹھ گئی ہے امام صاحب ۔
بی بی مشکل کیا ہے روٹھ گئی ہے تو منا ڈالو ۔
(ایسا جی برا ہوا کہ پوچھیے مت ۔ بھلا امام اور مخول کا کوئی جوڑ بھی تو ہو )
بزرگو ! آپ ہی منانے کا کوئی نسخہ ارشاد فرما دیں( ہمیں تو فی زمانہ منانے کا ایک ہی ٹوٹکہ آتا تھا ۔گانا گا کر منانا ۔ اور بے سرے ایسے کہ اس ٹوٹکے سے تو آج تک روٹھے سیاں نہ منے برکت کیسے اور کیونکر ماننے لگی ۔ طرہ یہ کہ برکت ہے بھی مونث ٹیڑھی پسلی ۔ ۔ ۔ )
کہا دیکھو بی بی یہ تو نہایت آسان بات ہے برکت کو جو جس چیزیں نا پسند ہیں انھیں گھر سے باہر پھینک آؤ ۔ ماحول سازگار ہوگا تو خود ہی گھر کی راہ لے گی
اے لو جی ! (بڑاہی آسان حل ہے )
اور برکت کو کیا نہیں پسند امام صاحب ؟ ( چاہے امام صاحب خبطی سمجھیں پر اب حل دے ہی رہے ہیں تو سیاق و سباق سے بھی آگاہ کر دیں )
فرماتے ہیں گھر میں ٹی وی ہے ؟
امام صاحب کوئی پوچھنے والی بات پوچھیں ۔ ٹی وی کے بغیر کوئی گھر دیکھا ہے آج کے زمانے میں ؟
موسیقی سے لگاؤ ہے کیا ۔ سنتی ہو ؟
امام صاحب موسیقی تو روح کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (باقی بات امام صاحب کی گھوری سے دب گئی )
گھر کا کام کیا خود کرتی ہو ؟
نہیں جی وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( اب میں کیا ماسی ہوں ؟ )
پڑھی لکھی ہو ؟
ارے واہ ۔ ۔ پوری سولہ جماعتیں پڑھ رکھی ہیں یہ ڈھیروں ڈگریاں بھی ہیں جی ۔
بچوں کو تو خود پڑھاتی ہوگی بی بی ؟
( ہائیں ۔ یعنی اب میں یہ کرنے کو رہ گئی کیا ۔ ٹیوشن والے مر گئے کیا )
نہیں جی وہ آج کل کے بچے گھر مین کہاں پڑھتے ہیں
تو بی بی پھر سارا دن کرتی کیا ہو ؟
(ارے ) امام صاحب اتنے کام ہیں اتنے کام ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے ۔ ارے سردیوں کی نماز ہی لے لیں ۔ مولوی صاحب کے تو کان مین کسی نے کہہ رکھا ہے کہ جوں ہی یہ بی بی سلام پھیریں تو عصر کی اذان دینے میں ایک لمحے کی دیری نہ کرنا ۔ اور عصر پہ کیا موقوف سلسلہ درسلسلہ ربط ٹوٹنے نہ دینا ۔
رات کو جلدی سو جاتی ہو بی بی ؟

( آج تو لگتا تھا امام صاحب سٹھیا گئے تھے ) وہی تو رونا ہے جناب سوتے سوتے 12 تو بج ہی جاتے ہیں ۔
امام صاحب کو چپ لگ گئی ۔ ( میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ میرا مسئلہ دنیا کے پیچیدہ مسئلوں میں سے ایک ہے پر میری کوئی مانے تب نا )
کافی دیر امام صاحب مراقبے میں رہتے ہیں ۔ آخر ہمت کر کے ہم نے ہی آواز دے ڈالی ۔ امام صاحب کوئی حل بتائیں برکت کیسے آئے گی ؟
بی بی برکت کی نا پسندیدہ چیزوں کو گھر سے ہٹا دع اور پسندیدہ کو لےآؤ برکت بھی پیچھے پیچھے چلی آئے گی ۔
(یعنی ڈھاک کے وہی تین پات )
مزید سوالات کی تاب مجھ میں نہ تھی ۔ گو سمجھ اب بھی نہ ائی تھی ۔

آپ میں سے اگر کسی کو برکت کی پسندیدہ اشیاء کا علم ہو تو براہ مہربانی مجھے ضرور مطلع فرمائیے گا ۔ انھیں خریدنا میرا کام ہے اپ صرف اطلاع دے دیجیے ۔
والسلام
برکت کی متلاشی
ایک دین دار خاتون ۔

امامیات از سمیرا امام ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
یا حیرت ، آپ کے بھی وہی مسائل ہیں جو قریب قریب ہمارے ہیں . لیکن ہمیں تو امام صاحب بھی نہیں نصیب ...کوئی حل ملا تو ہمیں بھی بتائیے گا :):)
 

با ادب

محفلین
یا حیرت ، آپ کے بھی وہی مسائل ہیں جو قریب قریب ہمارے ہیں . لیکن ہمیں تو امام صاحب بھی نہیں نصیب ...کوئی حل ملا تو ہمیں بھی بتائیے گا :):)
دیکھیے گر کسی نے حل بھیجا تو آپ بھی لگے ہاتھوں مستفید ہو جائیے گا۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
آپ نے اکثر یہ مشورہ سنا ہوگا کہ

’’بی بی! تم تو
دو اذانیں کبھی مندر میں، کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں‘‘​

لیکن آپ کے لیے ہمارا پُر خلوص مشورہ یہ ہے کہ آپ اس برکت کے مسئلے پر تین حرف بھیجیں اور سنجیدگی کے ساتھ ایک کونے میں بیٹھ کر لکھنا شروع کردیں۔ اس سے آپ کو کوئی فائدہ ہونہ ہو، اردو محفل کو خاص طور پر اور عوام الناس کو عمومی فائدہ یہ ہوگا کہ ایک عدد بہترین ’لکھارن ‘ ہاتھ آئے گی۔ موجودہ دور صرف قحط الرجال کا ہی دور نہیں بلکہ قحط النسا کا دور بھی ہے۔ لکھیے اور صرف لکھیے۔

امید ہے ہمارا مشورہ پسند آئے گا۔
 

با ادب

محفلین
آپ نے اکثر یہ مشورہ سنا ہوگا کہ

’’بی بی! تم تو
دو اذانیں کبھی مندر میں، کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں‘‘​

لیکن آپ کے لیے ہمارا پُر خلوص مشورہ یہ ہے کہ آپ اس برکت کے مسئلے پر تین حرف بھیجیں اور سنجیدگی کے ساتھ ایک کونے میں بیٹھ کر لکھنا شروع کردیں۔ اس سے آپ کو کوئی فائدہ ہونہ ہو، اردو محفل کو خاص طور پر اور عوام الناس کو عمومی فائدہ یہ ہوگا کہ ایک عدد بہترین ’لکھارن ‘ ہاتھ آئے گی۔ موجودہ دور صرف قحط الرجال کا ہی دور نہیں بلکہ قحط النسا کا دور بھی ہے۔ لکھیے اور صرف لکھیے۔

امید ہے ہمارا مشورہ پسند آئے گا۔
ہائیں ۔
 

اے خان

محفلین
اچھی تحریر ہے ماشاءاللہ
جس چیز میں برکت چاہئیے. اس کا تھوڑا سا حصہ اللہ کے دربار میں صدقہ کریں
 
آپ نے اکثر یہ مشورہ سنا ہوگا کہ

’’بی بی! تم تو
دو اذانیں کبھی مندر میں، کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں‘‘​

لیکن آپ کے لیے ہمارا پُر خلوص مشورہ یہ ہے کہ آپ اس برکت کے مسئلے پر تین حرف بھیجیں اور سنجیدگی کے ساتھ ایک کونے میں بیٹھ کر لکھنا شروع کردیں۔ اس سے آپ کو کوئی فائدہ ہونہ ہو، اردو محفل کو خاص طور پر اور عوام الناس کو عمومی فائدہ یہ ہوگا کہ ایک عدد بہترین ’لکھارن ‘ ہاتھ آئے گی۔ موجودہ دور صرف قحط الرجال کا ہی دور نہیں بلکہ قحط النسا کا دور بھی ہے۔ لکھیے اور صرف لکھیے۔

امید ہے ہمارا مشورہ پسند آئے گا۔
مرشد کی رائے سے ہم بھی صد فی صد اتفاق کرتے ہیں، با ادب آپا۔ برکت ہی نہیں، پورے نظامِ تصوف کی خدمت میں آداب عرض کر کے اس کوچے سے نکلیے۔
میں نے شروع میں بھی عرض کیا تھا کہ آپ میں اچھا لکھنے کی صلاحیت ہے۔ جہاں تک آپ کی تحریر کے صوفیانہ اور امامیانہ رنگ کا تعلق ہے تو وہ البتہ مجھے ذرا خطرناک معلوم ہوتا ہے۔ ادب کے سلسلے میں یہ ایک کھلا راز ہے کہ لکھنے والے کو ذاتی طور پر ہی نہیں، معاشرے کی سطح پر بھی سچا ہونا چاہیے۔ اسی وجہ سے لوگ منٹو کو اشفاق احمد سے بڑا لکھاری جانتے ہیں۔ ورنہ اشفاق صاحب کی تحریروں کا سا تقدس منٹو سے بےحیا میں کہاں؟ مگر منٹو خود بھی سچ کہتا تھا اور معاشرے کی سطح پر بھی اس کی باتیں سچ ہی تھیں۔ اشفاق احمد مرحوم شاید خود بھی اپنے قد سے بڑی باتیں کرتے تھے اور معاشرتی رویوں کی سطح پر تو ان کی تحریریں سفید نہیں تو گلابی جھوٹ ضرور تھیں۔
فن کار اپنے عقائد کی سطح پر مومن نہیں فلسفی ہوتا ہے۔ وہ کسی طے شدہ نظریے کی عینک لگا کر معاشرے کو نہیں دیکھتا بلکہ ننگی آنکھوں سے مشاہدہ کر کے اس کا رنگ جانچتا ہے۔ آپ نے تو بہت موٹی عینک چڑھا رکھی ہے۔ اس میں سے نظر آنے والے بہت کم رنگ اصلی ہیں۔
آپ کی نگارش میں ایک چاشنی ہے۔ مگر اسے آپ مکھیوں پر ضائع کر رہی ہیں۔ زندگی کا تلخابہ پینے والے بہت سے بےکسوں کو اس کی ضرورت ہے۔ مکھیاں اڑا کر انسانوں پر کرم فرمائیے!
اس رائے کو دلیل کے ساتھ یا بغیر دلیل کے رد کرنے کا حق بہرحال آپ کے پاس ہے!
 

با ادب

محفلین
مرشد کی رائے سے ہم بھی صد فی صد اتفاق کرتے ہیں، با ادب آپا۔ برکت ہی نہیں، پورے نظامِ تصوف کی خدمت میں آداب عرض کر کے اس کوچے سے نکلیے۔
میں نے شروع میں بھی عرض کیا تھا کہ آپ میں اچھا لکھنے کی صلاحیت ہے۔ جہاں تک آپ کی تحریر کے صوفیانہ اور امامیانہ رنگ کا تعلق ہے تو وہ البتہ مجھے ذرا خطرناک معلوم ہوتا ہے۔ ادب کے سلسلے میں یہ ایک کھلا راز ہے کہ لکھنے والے کو ذاتی طور پر ہی نہیں، معاشرے کی سطح پر بھی سچا ہونا چاہیے۔ اسی وجہ سے لوگ منٹو کو اشفاق احمد سے بڑا لکھاری جانتے ہیں۔ ورنہ اشفاق صاحب کی تحریروں کا سا تقدس منٹو سے بےحیا میں کہاں؟ مگر منٹو خود بھی سچ کہتا تھا اور معاشرے کی سطح پر بھی اس کی باتیں سچ ہی تھیں۔ اشفاق احمد مرحوم شاید خود بھی اپنے قد سے بڑی باتیں کرتے تھے اور معاشرتی رویوں کی سطح پر تو ان کی تحریریں سفید نہیں تو گلابی جھوٹ ضرور تھیں۔
فن کار اپنے عقائد کی سطح پر مومن نہیں فلسفی ہوتا ہے۔ وہ کسی طے شدہ نظریے کی عینک لگا کر معاشرے کو نہیں دیکھتا بلکہ ننگی آنکھوں سے مشاہدہ کر کے اس کا رنگ جانچتا ہے۔ آپ نے تو بہت موٹی عینک چڑھا رکھی ہے۔ اس میں سے نظر آنے والے بہت کم رنگ اصلی ہیں۔
آپ کی نگارش میں ایک چاشنی ہے۔ مگر اسے آپ مکھیوں پر ضائع کر رہی ہیں۔ زندگی کا تلخابہ پینے والے بہت سے بےکسوں کو اس کی ضرورت ہے۔ مکھیاں اڑا کر انسانوں پر کرم فرمائیے!
اس رائے کو دلیل کے ساتھ یا بغیر دلیل کے رد کرنے کا حق بہرحال آپ کے پاس ہے!
اف ۔ ۔ ۔ ۔ مجال ہے کچھ پلے پڑا ہو
 

با ادب

محفلین
کس حکیم نے کہا کہ میں نے تصوف ،معاشرے یا کسی بھی مضمون پہ کچھ لکھنے کی جسارت کی ہے ۔ آج تک جو بھی لکھا اسے میری سوانح حیات جانیے ۔ اب حیات کے جو بھی رنگ ہیں چاہے وہ تصوف پہ مبنی ہوں معاشرت پہ یا کسی بھی عنوان پہ ۔ اب کوئی یہ کہے کہ آپ اپنی زندگی کی کہانی میں کوئی اور رنگ ڈال لیں تو اب تو بیت چکا جو بیتنا تھا ۔
ہاں اگر میں نے کبھی معاشرے کے کرداروں پہ لکھا تو آپ کی رائے کو سنجیدگی سے مد نظر رکھا جائے گا
 

با ادب

محفلین
جہان تک بات ہے منٹو بڑا لکھاری ہے یا اشفاق احمد ۔ تو یہاں مجھے آپکی رائے سے اختلاف ہے ۔ یہ اپنی اپنی پسند کا سوال ہے ۔ اور زندگی کے مختلف رنگوں کا بھی ۔ اشفاق احمد نے زندگی کے ایک رنگ پہ لکھا جب کہ منٹو نے ایک بالکل الگ رنگ کی بات کی ہے ۔ اگر کوئی یہ فرمائے کہ منٹو جو کہتا ہے وہ کہیں پایا نہیں جاتا تو بھی غلط ہے اور اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اشفاق احمد ماورائی باتیں کرتا ہے تو بھی غلط ۔ ہر لکھاری کا لکھنے کا اور زندگی کو پرکھنے اور جانچنے کا اپنا انداز ہے ۔ اور زندگی کو برتنے کا بھی ۔ جو جس نگاہ سے دیکھتا ہے اس نگاہ کو بیان کرے گا ۔ تصوف میری زندگی کا اہم ترین جز رہا ھے ۔ اگر مجھ سے کہا جائے کہ مادہ پرستی کے تناظر میں ہی لکھا جائے تو اپنی فطرت کے خلاف چلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ پھر ایک اور بات میں نے جب بھی لکھا اس میں جھوٹ یا تخیل کا کوئی شائبہ بھی نہیں ۔ میرے لئیے حقیقت کی دنیا فقط قلم ہے ۔ اور آزادی کی دنیا بھی ۔ جہاں میں قلم کو آزاد چھوڑ دیتی ہوں جو لکھے ۔ میں نے کبھی اس حوالے سے نہیں لکھا کہ یہ کوئی کمرشل تحریر ہے یا نہیں ۔ وہ تحریر میں خود ہوں ۔ اور جو میں ہوں وہ یہی سب یے ۔ بہر حال آپ کی رائے قابل صد احترام ہے ۔ کوشش کروں گی کہ کبھی تخیل پہ مبنی کچھ لکھ سکوں ۔ تو معاشرے کے چبھتے تپتے تکلیف دہ رویوں پہ ضرور لکھوں گی ۔ ابھی تو میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتی ۔
 

با ادب

محفلین
آپ نے اکثر یہ مشورہ سنا ہوگا کہ

’’بی بی! تم تو
دو اذانیں کبھی مندر میں، کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں‘‘​

لیکن آپ کے لیے ہمارا پُر خلوص مشورہ یہ ہے کہ آپ اس برکت کے مسئلے پر تین حرف بھیجیں اور سنجیدگی کے ساتھ ایک کونے میں بیٹھ کر لکھنا شروع کردیں۔ اس سے آپ کو کوئی فائدہ ہونہ ہو، اردو محفل کو خاص طور پر اور عوام الناس کو عمومی فائدہ یہ ہوگا کہ ایک عدد بہترین ’لکھارن ‘ ہاتھ آئے گی۔ موجودہ دور صرف قحط الرجال کا ہی دور نہیں بلکہ قحط النسا کا دور بھی ہے۔ لکھیے اور صرف لکھیے۔

امید ہے ہمارا مشورہ پسند آئے گا۔
خلیل صاحب مشورہ تو بہت خوب ہے اور میں اذان دینے کو تیار بھی ہو گئی ۔ بچوں سے عرض گزاری بیٹا میں نے اذان دینی ہے ذرا مسجد تک چھوڑ آوء ۔ سوچا کلیسا اور صحرا کا نمبر بعد کے لئیے چھوڑے دیتے ہیں ۔ بچے فرمانے لگے آپا وقت نکال کر جلد ہی دماغی امراض کے معالج کے پاس لے جائیں گے ۔
پھر بات آئی برکت پہ تین حرف بھیجنے کی تو بھی ہم تیار ۔ پر سوچا برکت کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ۔ اگر تین حرف کہہ دئیے تو جدائی قرار واقع پائے گی اور حلالہ کے ضمن میں ہم امام ابو حنیفہ کے رائے کے قائل نہیں اور جمہور کے ہاں اس معاملے میں قطعا کوئی گنجائش نہیں ۔
 

با ادب

محفلین
اور پھر سوچا اس بڑھاپے میں مندر کا نام لیا تو مرتد قرار دئیے جائیں گے ۔ چل چلاوء کا وقت ہے ۔ یہ نہ ہو بعد از مرگ اپنا خون ہی نماز جنازہ پڑھنے سے انکاری ہو ۔
 
Top