امتِ مسلمہ میں شرک

دیوان

محفلین
برائے مہربانی اس لڑی کو کسی اور لڑی کے ساتھ مدغم نہ کریں۔ اشتراک موضوع ضرور ہے لیکن میرے مضمون کا مزاج بالکل مختلف ہے۔ نوازش ہوگی۔

مشرکین عرب کے نیک اعمال

مشرکین عرب نہ یہ کہ اللہ کو مانتے تھے بلکہ وہ دین ابراہیمی کے بعض اعمال بھی پوری تندہی سے بجالاتے تھے۔ گو وہ بھی اپنی اصل حالت پر نہ تھے لیکن ان کا منبع شریعت ابراہیمی ہی تھا۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کیا اعمال کرتے تھے۔
مشرکین عرب نماز پڑھتے تھے
رسول اللہ ﷺ نے طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز نہ پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ اس کی وجہ آپ ﷺ نے یہ فرمائی:
ھی ساعۃ صلاۃ الکفار (سنن النسائی)
وہ کافروں کی نماز کا وقت ہے
مشرکین عرب زکوٰۃ دیتے تھے
وجعلوا لله مما ذرا من الحرث و الانعام نصيبا فقالوا هذا لله بزعمهم وهذا لشركائنا (الانعام: 136)
اور (یہ لوگ) اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی چیزوں یعنی کھیتی اور چوپایوں میں اللہ کا بھی ایک حصہ مقرر کرتے ہیں اور اپنے خیال (باطل) سے کہتے ہیں کہ یہ (حصہ) تو اللہ کا اور یہ ہمارے شریکوں کا
مشرکین عرب اعتکاف کرتے تھے
عن عمر قلت يا رسول الله اني كنت نذرت ان اعتكف ليلة في المسجد الحرام في الجاهلية قال اوف بنذرك (صحیح البخاری)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجدالحرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اپنی نذر پوری کرو۔
مشرکین عرب خدمت حرم کرتے تھے
ء جعلتم سقاية الحاج وعمارة المسجد الحرام كمن آمن بالله واليوم الآخر وجاهد في سبيل الله لا يستوون عند الله۔ (التوبہ: 19)
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد محترم یعنی (خانہٴ کعبہ) کو آباد کرنا اس شخص کے اعمال جیسا خیال کیا ہے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔ یہ لوگ اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہیں۔ اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں لکھا ہے:
قال الله: لا يستوون عند الله والله لا يهدي القوم الظالمين ) يعني: الذين زعموا انهم اهل العمارة فسماهم الله " ظالمين " بشركهم ، فلم تغن عنهم العمارة شيئا .
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یعنی وہ لوگ جو یہ زعم رکھتے ہیں کہ وہ اہل حرم ہیں اللہ نے ان کو ظالمین کا لقب دیا جس کا سبب ان کا شرک تھا جس کی وجہ سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
حرم کی تعمیر اور اس کی خدمت بہت بڑی نیکی تھی لیکن ان کے شرک کی وجہ سے یہ نیکی اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول نہیں ٹھہری۔
مشرکین عرب حج کرتے تھے
حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین عرب حج بھی کرتے تھے۔
عن عائشة رضي الله عنها ، قالت كان قريش ومن دان دينها يقفون بالمزدلفة وكانوا يسمون الحمس(صحیح البخاری)
سیدۃ عائشہؓ بتاتی ہیں کہ قریش اور جو لوگ ان کے مذہب پر تھے وہ (حج کے دوران) مزدلفہ میں ٹھہر جاتے تھے اور وہ (اپنے آپ کو) حمس (شجاع) کہتے تھے۔
صحیح بخاری کی روایت ہے کہ لوگ اسلام سے قبل برہنہ (کعبہ) کا طواف کرتے تھے۔ صحیح مسلم میں سیدۃ عائشہؓ کی روایت ہے کہ انصار اسلام سے پہلے دو بتوں کے لیے تلبیہ پڑھتے تھے جس کے بعد وہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے تھے۔
مشرکین عرب عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے
حدیث شریف میں آتاہے:
عن عائشة قالت: كان يوم عاشوراء تصومه قريش في الجاهلية (صحیح البخاری)
عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھا کرتے تھے۔
مشرکین عرب غلام آزاد کیا کرتے تھے
عاص ابن وائل جو اسلام قبول کیے بغیر ہی فوت ہوگیا اس نے مرنے سے پہلے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی اس کے بیٹے صحابی رسول ﷺ عمرو ابن عاص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا عاص کو اس سے کچھ فائدہ ہوسکتا ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لو كان مسلما فاعتقتم عنه او تصدقتم عنه او حججتم عنه بلغه ذلك (سنن ابی داؤد)
اگر (تمہارا باپ) مسلمان ہوتا اور تم اس کی طرف سے (غلام) آزاد کرتے یا صدقہ دیتے یا حج کرتے تو اسے ان کا ثواب پہنچتا
یہ شرک کی نحوست ہے کہ مشرک کو کسی نیک عمل کا ثواب بھی نہیں پہنچ سکتا۔
ان تمام مثالوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مکہ کے کفار مشرک اس لیے نہیں کہلائے کہ وہ نیک اعمال کا انکار کرتے تھے۔ ان کے کفر کا بنیادی سبب ان کا شرک تھا۔
(جاری ہے)​
 
آخری تدوین:

دیوان

محفلین
مشرکین عرب کی آپ ﷺ کے بارے میں رائے
مشرکین عرب رسول اللہ ﷺ کی دعوت قبول نہ کرنے کا سبب آپ ﷺ کی ذات نہ تھی بلکہ وہ آپ ﷺ کے اخلاق کے گرویدہ تھے۔ ایک بار ابوجہل نے آپ ﷺ سے کہا:
قد نعلم يا محمد انك تصل الرحم ، وتصدق الحديث ، ولا نكذبك ، ولكن نكذب الذي جئت به۔ (سنن الترمذی)
ترجمہ: ہم جانتے ہیں کہ بے شک آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، اور باتیں بھی سچی کرتے ہیں، ہم آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ اس چیز کو جھٹلاتے ہیں جس کو آپ لے کر آئے ہیں۔
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ مشرکین عرب کو رسول اللہ ﷺ کی ذات سے عناد نہ تھا اور وہ آپ ﷺ کے اعلی اخلاق کو مانتے تھے۔
جب رسول اللہ ﷺ نے تمام کفار مکہ کو قبول اسلام کی دعوت دینے سے پہلے اپنے بارے میں رائے لی تو انہوں نے کہا:
ما جربنا عليك الا صدقا (صحیح البخاری)
ترجمہ: ہم نے آپ سے سچ ہی سنا ہے (یعنی آپ سچے ہیں)۔
لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے لاالہ الا اللہ کی دعوت دی تو یہی لوگ آپ ﷺ پر جھوٹا ہونے کا الزام لگانے لگا۔ ایک موقع پر جب رسول اللہ ﷺ نے اس کلمے کی دعوت یوں دی:
يا ايها الناس قولوا لا اله الا الله تفلحوا (صحیح ابن حبان)
ترجمہ: اے لوگو! لا الہ الا اللہ کہو کامیاب ہوجاؤ گے
یہ سن کر ابولہب کہتا تھا:
انه صابی كاذب (مسند احمد)
ترجمہ: یقینا یہ بے دین جھوٹا ہے۔
مشرکین عرب کا شرک کیا تھا؟
اوپر بیان ہوا کہ مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار نہیں کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کو سچا جانتے تھے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ وہ کس چیز کا انکار کرتے تھے کہ اللہ کا اقرار کرنے کے باوجود وہ مشرک قرار دیے گئے؟ اس کا ایک ہی سبب تھا جس کو قرآن پاک نے اس طرح بیان کیا ہے:
اجعل الآلهة الها واحدا ان هذا لشي ء عجاب (ص: 5)
ترجمہ: کیا اس نے اتنے الہوں کی جگہ ایک ہی الہ بنا دیا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مشرکین عرب کا انکار صرف اللہ کو ایک الہ ماننےسے تھا۔
قرآن پاک نے اس کا جواب یوں دیا ہے:
لا تتخذوا الھین اثنین انما ھو الہ واحد (النحل: 51)
ترجمہ: تم دو الہ مت بناؤ الہ تو صرف ایک ہی ہے
لو كان فيهما آلهة الا الله لفسدتا فسبحان الله رب العرش عما يصفون (الانبیاء:22)
ترجمہ:اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو زمین و آسمان درہم برہم ہوجاتے
یعنی ان کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کثرت الہ کے قائل تھے جب کہ لا الہ الا اللہ ایک الہ کا تقاضا کرتا ہے۔ چنانچہ ضروری ہوا کہ یہ سمجھا جائے کہ الہ سے کیا مراد ہے۔ لیکن اس سے پہلے ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے وہ یہ کہ شرک صرف بت پرستی کا نام ہے۔ اس غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ لوگ شرکیہ عقائد اور اعمال میں ملوث ہوکر بھی اپنے آپ کو توحید پر کاربند سمجھتے ہیں۔
(جاری ہے)​
 
تمہید
قرآن کریم نے جتنا زور توحید کے اثبات اور شریک کی تردید پر دیا ہے اتنا زور کسی دوسرے مسئلے پر نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے:
ان الشرک لظلم عظیم (لقمان: 13)
یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
قرآن پاک بتاتا ہے کہ تمام انبیا کی دعوت کا مرکزی نکتہ ایک ہی تھا: لا الہ الا اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی بھی الہ نہیں ہے۔
وما ارسلنا من قبلك من رسول الا نوحي اليه انه لا اله الا انا فاعبدون (الانبیاء: 25)
اور جو پیغمبر ہم نےتم سے پہلے بھیجے ان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی الہ نہیں تو میری ہی عبادت کرو
اللہ تعالیٰ کے قانون میں شرک کتنی بری چیز ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ سورۃ انعام میں اللہ تعالیٰ اٹھارہ انبیائے کرام علیہم السلام کے نام گنوانے کے بعد فرماتے ہیں:
ولو اشركوا لحبط عنهم ما كانوا يعملون (الانعام)
اور اگر وہ لوگ بھی شرک کرتے تو جو عمل وہ کرتے تھے سب ضائع ہو جاتے
یعنی مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات کے کسی کو شریک ٹھہرانا کس قدر ناپسند ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ کو خطاب کرے کے کہا جارہا ہے:
ولقد اوحي اليك والى الذين من قبلك لئن اشركت ليحبطن عملك ولتكونن من الخاسرين (الزمر: 65)
اور (اے محمدﷺ) تمہاری طرف اور ان (پیغمبروں) کی طرف جو تم سے پہلے ہو چکے ہیں یہی وحی بھیجی گئی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے عمل برباد ہوجائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں ہوجاؤ گے۔
گو کہ نبی سے شرک ہونا ناممکن ہے لیکن امت کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے۔
انہ من یشرک باللہ فقد حرم اللہ علیہ الجنۃ و ماوہ النار وما للظٰلمین من انصار (المائدہ: 72)
یقینا جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر بہشت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کون سے ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ان تجعل للہ ندا و ھو خلقک (صحیح البخاری)
کہ تو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرائے حالانکہ اسی نے تجھے پیدا کیا ہے۔
حضرت ابوہریرۃؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کی ایک مخصوص دعا ایسی ہوتی ہے جس کو درجہ قبولیت حاصل ہوتا ہے اور ہرنبی نے ایسی دعا دنیا کے اندر ہی کر لی ہے لیکن میں نے وہ دعا ابھی تک نہیں کی وہ دعا میں نے اپنی امت کی شفاعت کے لیے چھوڑ رکھی ہے۔ لیکن یہ دعا کس کے حق میں قبول ہو گی؟ پڑھیے:
فھی نائلۃ ان شاء اللہ من مات من امتی لایشرک باللہ شئیا (صحیح مسلم)
تو وہ دعا اللہ تعالیٰ کے حکم سے میری امت میں سے ہر اس شخص کو پہنچ سکتی ہے جس کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرایا۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان کے شرک میں ملوث ہوجانے کا خطرہ ہے۔
حضرت ابودرداءؓ فرماتے ہیں مجھے میرے محبوب ﷺ نے یہ وصیت کی ہے:
ان لاتشرک باللہ شیئا وان قطعت او حرقت (سنن ابن ماجہ)
کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا چاہے تم ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں یا قتل کردیے جاؤ۔
خلاصہ یہ کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے۔ مشرک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بنا رہے گا۔ اس کے باوجود لوگ شرکیہ عقائد اور اعمال میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ قلب کی گہرائیوں سے اپنے اعمال کو اسلام کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس تمام تر گمراہی کی بنیادی وجہ ایک ہے وہ یہ کہ عام مسلمان سمجھتا ہے کہ شرک صرف بت پرستی کا نام ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام جن لوگوں میں آیا وہ بت پرست تھے۔ کیونکہ وہ بت پرست تھے اس لیے وہ تمام آیتیں اور حدیثیں جن میں شرک کی برائی آئی ہے ان سے بت پرستی والا شرک ہی مراد ہے۔
اس مضمون میں اس مغالطے کا جائزہ لے کر حقیقت بیان کی گئی ہے۔آیئے سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ مشرکین عرب کا خود اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں کیا عقیدہ تھا۔
مشرکین عرب کا عقیدہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں
کیا مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکاری تھے۔ یقینا نہیں! مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکاری نہیں تھے۔ وہ نہ صرف اس کے ہونے کے قائل تھے بلکہ بہت ساری چیزوں کو وہ صرف اسی کی طرف منسوب کرتے تھے مثلا مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کو آسمانوں اور زمین کا خالق اور رازق، کائنات کے امور کو چلانے والا، اور ہر چیز کا اختیار رکھنے والا مانتے تھے۔ ملاحظہ کیجیے۔
خالق اللہ
ولئن سالتهم من خلقهم ليقولن الله فانى يؤفكون (الزخرف: 87)
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہہ دیں گے کہ اللہ نے۔ تو پھر یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں؟
ولئن سالتهم من خلق السمٰوٰت والارض ليقولن الله (الزمر)
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو کہہ دیں گے کہ اللہ نے
رزق دینے والا اللہ، مالک اللہ، زندگی دینے والا اللہ، موت دینے والا اللہ،دنیا کے امور چلانے والا اللہ
قل من يرزقكم من السماء والارض ام من يملك السمع والابصار ومن يخرج الحي من الميت ويخرج الميت من الحي ومن يدبر الامر فسيقولون الله فقل افلا تتقون (یونس: 31)
(ان سے) پوچھو کہ تم کو آسمان اور زمین میں رزق کون دیتا ہے یا (تمہارے) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بےجان سے جاندار کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے۔ جھٹ کہہ دیں گے کہ اللہ۔ تو کہو کہ پھر تم (اللہ سے) ڈرتے کیوں نہیں؟
زمین و آسمان کا مالک اللہ، ہر چیز کا مالک اللہ، بچانے والا اللہ، گھیرنے والا اللہ
قل لمن الارض ومن فيها ان كنتم تعلمون () سيقولون لله قل افلا تذكرون () قل من رب السمٰوٰت السبع ورب العرش العظيم() سيقولون لله قل افلا تتقون() قل من بيده ملكوت كل شيء وهو يجير ولا يجار عليه ان كنتم تعلمون() سيقولون لله قل فانى تسحرون (یونس: 84-89)
کہو کہ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ کہ زمین اور جو کچھ زمین میں ہے سب کس کا ہے؟ جھٹ بول اٹھیں گے کہ اللہ کا۔ کہو کہ پھر تم سوچتے کیوں نہیں؟ (ان سے) پوچھو کہ سات آسمانوں کا کون مالک ہے اور عرش عظیم کا (کون) مالک (ہے؟) بےساختہ کہہ دیں گے کہ یہ (چیزیں) اللہ ہی کی ہیں، کہو کہ پھر تم ڈرتے کیوں نہیں؟ کہو کہ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ کہ وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہی ہے اور وہ بچاتا ہے اور اس سے کوئی بچا نہیں سکتا، فورا کہہ دیں گے کہ (ایسی بادشاہی تو) اللہ ہی کی ہے، تو کہو پھر تم پر جادو کہاں سے پڑ جاتا ہے؟
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے۔ یہیں سے یہ بات بھی سمجھ آجاتی ہے کہ وہ بتوں کو اللہ نہیں مانتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ بتوں کا اللہ نہیں مانتے تھے تو پھر وہ بتوں کی پوجا کیوں کرتے تھے؟ درحقیقت بتوں کو وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا وسیلہ سمجھتے تھے۔ ان کا ذہن کسی پیکر محسوس کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے جڑنے کا طلبگار تھا۔ اسی لیے وہ کہتے تھے:
والذين اتخذوا من دونه اولياء ما نعبدهم الا ليقربونا الى الله زلفى (الزمر)
اور جن لوگوں نے اس کے (اللہ) سوا اور دوست بنائے ہیں (وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کی اس لئے عبادت ہیں کہ ہم کو اللہ کا مقرب بنادیں۔
ويعبدون من دون الله ما لا يضرهم ولا ينفعهم ويقولون هؤلاء شفعاؤنا عند الله (یونس )
اور یہ (لوگ) اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ ہی سکتی ہیں اور نہ کچھ بھلا ہی کر سکتی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔
(جاری ہے)​
دیوان بھائی نے بہت ہی اعلیٰ جواب دئیے ہیں اب بھی اگر کوئی نہ مانے تو میں اللہ پاک کے قرآن کی وہ آیت بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں جس میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ: ’’ خَتَمَ اللّهُ عَلَى قُلُوبِهمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عظِيمٌ، {7}‘‘
 

دیوان

محفلین
پیچھے جو کچھ بیان ہوا اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین عرب نہ اللہ کا انکار کرتے تھے، نہ وہ رسول اللہ ﷺ کی دعوت کا انکار ان ﷺ کی ذات کی وجہ سے کرتے تھے نہ ہی وہ اعمال سے بھاگتے تھے۔ مزید یہکہ وہ صرف بے جان پتھروں کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی سوچ اور فکر اس سلسلے میں یہ تھی کہ یہ بت اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ اور واسطہ ہیں۔ آیئے ذرا اس چیز کو مزید سمجھتے ہیں کہ بت پرستی کیا ہے؟ بت پرست کس چیز کی عبادت کرتے ہیں؟ اگر یہ بات سمجھ میں آجائے تو یقینا شرک کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آجائے گی۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مشرکین عرب جن کو ہم بت پرست کہتے ہیں وہ درحقیقت مٹی کی مورت بنا کر اس کا ایک نام رکھ دیتے تھے اور اس کو اپنا معبود قرار دے دیتے تھے۔ اسی تراشے ہوئے پتھر کو سجدہ کرتے تھے۔اسی کے نام کا ذکر کرتے تھے۔ اس کا نام لے کر اپنی حاجتوں میں اس کو پکارتے تھے تو درحقیقت یہ انتہائی ناقص خیال ہے بلکہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اس غلط فہمی کی بنیاد یہ ہے کہ شرک صرف بت پرستی کا نام ہے۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے لا الہ الا اللہ کہنے والا کیونکہ بتوں کی پوجا نہیں کرتا لہذا وہ مشرک نہیں ہو سکتا چاہے اس کے عقیدے اور اعمال کیسے ہی ہوں۔ اس سوچ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں قرآن پاک کیا بتاتا ہے۔
حضرت عیسیؑ اور ان کی ماں کو معبود بنایا گیا
واذ قال الله یٰعيسى ابن مريم ء انت قلت للناس اتخذوني وامي الهين من دون الله قال سبحانك ما يكون لي ان اقول ما ليس لي بحق ان كنت قلته فقد علمته تعلم ما في نفسي ولا اعلم ما في نفسك انك انت علام الغيوب (المائدۃ: 116)
ترجمہ:اور (اس وقت کو بھی یاد رکھو) جب اللہ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری والدہ کوالہ مقرر کرو؟ وہ کہیں گے کہ تو پاک ہے مجھے کب شایاں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے کچھ حق نہیں اگر میں نے ایسا کہا ہوگا تو تجھ کو معلوم ہوگا (کیونکہ) جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے اسے میں نہیں جانتا بے شک تو علام الغیوب ہےح ضرت عیسیؑ اور ان کی والدہ کو الہ بنایا گیا جب کہ نہ عیسیؑ اور نہ ہی مریمؑ بت تھے۔ اور عیسائی بت پرست نہیں بلکہ وہ درحقیقت حد سے بڑھی ہوئی شخصیت پرستی کا شکار ہیں جس کی بنیادی وجہ حضرت عیسیؑ کے معجزات ہیں۔ اس بے لگام شخصیت پرستی کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو ان صفات کا حامل قرار دے دیا ہے جو ان میں نہیں تھیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے ماں کی گود ہی میں اعلان کردیا تھا:
اني عبد الله (مریم:30)
ترجمہ: میں اللہ کابندہ ہوں
لیکن عیسائی کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے بندے نہیں اس کے بیٹے ہیں۔ یہی بےلگام شخصیت پرستی شرک کا سبب بن جاتی ہے اور دین ناواقف اپنی طرف سے اللہ کے مقرب بندوں کو بندگی سے نکال کر الوہیت کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔ ٹھیک یہی کام کلمہ گو مشرک بھی کرتے ہیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ اور برزگان دین کے ساتھ وہ باتیں منسوب کرتے ہیں جن کا انہوں خود دعوی نہیں کیا بلکہ انکار ہی کیا ہے۔
علما اور صوفیوں کو معبود بنایا گیا
اتخذوا احبارهم ورهبانهم اربابا من دون الله والمسيح ابن مريم وما امروا الا ليعبدوا الها واحدا لا اله الا هو سبحانه عما يشركون۔ (التوبہ: 31)
ترجمہ:انہوں (یہودی و نصاریٰ) نے اپنے علما اور مشائخ اور مسیح ابن مریم کو الله کے سوا رب بنا لیا حالانکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ایک الہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔
جب یہ آیات نازل ہوئیں تو حضرت عدیؓ بن حاتم، جو اسلام لانے سے پہلے عیسائی تھے، نے رسول ﷺ سے دریافت کیا کہ ہم نے تو کبھی علما اور صوفیا کی عبادت نہیں کی تو قرآن پاک نے ایسا کیوں کہا؟ آپ ﷺ نے جواب دیا علما اور صوفیوں نے جو چیزیں ازخود حلال و حرام کردی تھیں (یعنی محض اپنی طرف سے نہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے) تم اس کو حجت نہیں مانتے تھے؟ حضرت عدیؓ نے کہا ضرور سمجھتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
فذٰلک عبادتھم ایاھم (سنن الترمذی)
ترجمہ:یہی تو ان کی عبادت کرنا ہے
چونکہ حلال و حرام قرار دینا اللہ تعالیٰ کا منصب ہے اس لیے اس میں کسی غیر کو شریک ٹھہرانا اس کی عبادت کرناہے۔ اس آیت میں علما اور صوفیا کا ذکر ہے کہ لوگوں نے ان کو رب بنایا او مشرک ہوئے۔ حالانکہ علما و صوفیا بت نہیں ہوتے، اور نہ ہی حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ بت تھے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے نیک بندوں کو اللہ کی کسی صفت میں شریک کرنا اس کو الہ بنانا ہے جو شرک ہے۔
نوٹ: یہاں احبار و رھبان سے مراد وہ علما و صوفیا ہیں جو محض اپنی رائے سے دین میں حلال و حرام قرار دیتے تھے۔ البتہ علمائے حق کسی مسئلے میں کوئی حکم بتاتے ہیں وہ اس میں داخل نہیں اس لیے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں حکم فرماتے ہیں۔
حضرت نوحؑ کی اولاد کو معبود بنایا گیا
وقالوا لا تذرن آلهتكم ولا تذرن ودا ولا سواعا ولا يغوث ويعوق ونسرا وقد اضلوا كثيرا ولا تزد الظالمين الا ضلالا(نوح: 23-24)
ترجمہ:اور وہ کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا
ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر یہ ان بتوں کے نام تھے جن کی قوم نوح عبادت کرتی تھی۔ ان بتوں کی حقیقت کیا تھی اس کی خبر صحیح بخاری کی اس روایت سے ملتی ہے:
اسماء رجال صالحين من قوم نوح فلما هلكوا اوحى الشيطان الى قومهم: ان انصبوا الى مجالسهم التي كانوا يجلسون انصابا وسموها باسمائهم ففعلوا فلم تعبد حتى اذا هلك اولئك ونسخ العلم عبدت
ترجمہ:یہ نام قوم نوح کے نیک لوگوں کے تھے، جن کی وفات کے بعد شیطان نے (اس قوم کے) لوگوں کوپٹی پڑھائی کہ ان (بزرگوں) کے بت بنا کر ان جگہوں پر رکھ دو جہاں یہ بزرگ بیٹھا کرتے تھے اور ان بتوں کے انہی بزرگوں پر نام بھی رکھ دو (تاکہ ان کی یاد آتی رہے)، لوگوں نے اسی طرح کیا لیکن ان مجسموں کی عبادت نہیں کی یہاں تک کہ وہ لوگ جنہوں نے یہ بت بنائے تھے مرگئے اور ان بتوں کا مقصد پس پردہ چلا گیا اور بعد میں آنے والے ان بتوں کی عبادت کرنے لگے۔
ان بتوں کی عربوں کے یہاں بھی عبادت ہوتی تھی۔اس روایت سے معلوم ہوا کہ بت پرستی اصل میں بزرگ پرستی سے شروع ہوئی۔
نیک لوگوں کو معبود بنایا گیا
افرايتم اللات والعزى (النجم: 19)
ترجمہ:بھلا تم لوگوں نے لات اور عزیٰ کو دیکھا
ترجمہ:لات اس بت کا نام تھا جس کی مشرکین عرب عبادت کرتے تھے۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کہتے ہیں:
كان اللات رجلا يلت سويق الحاج (صحیح البخاری)
ترجمہ:لات ایک آدمی کا نام تھا جو حاجیوں کو ستو گھول کر پلاتا تھا۔
جب اس کی وفات ہوگئی تو لوگوں نے اس کی قبر پر ڈیرہ ڈال دیا اور اس کی عبادت ہونے لگی (ابن کثیر)۔ یہاں بھی وہی بات نظر آئے گی کہ بت پرستی اصل میں قبر پرستی ہے جس کی بنیاد شخصیت پرستی ہے۔ بت تو ایک ظاہری شکل ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی بڑی شخصیت ہوتی ہے جس کی عظمت کم عقلوں کی عقلوں کو ماؤوف کردیتی ہے اور وہ اس عظمت کو اس قدر بڑھا دیتے ہیں کہ اس کو اللہ کے کاموں میں دخل انداز سمجھنے لگتے ہیں۔
فرشتوں کو معبود بنایا گیا
ويوم يحشرهم جميعا ثم يقول للملائكة اهؤلاء اياكم كانوا يعبدون () قالوا سبحانك انت ولينا من دونهم بل كانوا يعبدون الجن اكثرهم بهم مؤمنون (سبا: 40-41)
ترجمہ:اور جس دن وہ ان سب کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے فرمائے گا کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے، وہ کہیں گے تو پاک ہے (شریکوں سے) تو ہی ہمارا دوست ہے ان کے سوا بلکہ یہ جنات کی عبادت کرتے تھے اور ان میں سے بہت سے ان پر ایمان رکھتے تھے۔
مشرکین عرب نے فرشتوں کو معبود بنا لیا تھا جن کو اپنی حاجتوں کے وقت پکارا کرتے تھے۔
جنوں کو معبود بنایا گیا
عزی جس کا ذکر سورۃ نجم آیت 19 میں آیا ہے اس کے متعلق آتا ہے کہ وہ جنی تھی جس کی عبادت کی جاتی تھی۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت خالدؓ بن ولیدکو عزی کا معبد ختم کرنے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے جب اس کے مبعد کو منہدم کیا تو اس میں سے ایک عورت برآمد ہوئی جس کو حضرت خالدؓ نے قتل کرڈالا۔
اہل عرب کے دو مشہور بت تھے اساف اور نائلہ۔ایک روایت میں آتا ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو ایک ادھیڑ عمر کی ایک حبشی عورت واویلا کرتی اپنے رخسار نوچتی ہوئی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
تلک نائلۃ ایست ان تعبد ببلدکم ھذا ابدا (البدایۃ و النھایۃ)
ترجمہ:یہ نائلہ ہے یہ اس سے ناامید ہوچکی ہے کہ تمہارے اس شہر میں کسی وقت اس کی عبادت ہو۔
یہ نائلہ بھی عزی کی طرح کوئی پری یا جنی تھی جس کے بت کی مشرکین مکہ عبادت کرتے تھے۔
حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیلؑ کی عبادت کی گئی
مشرکین عرب نے کعبۃ اللہ کے اندر بھی بت رکھے ہوئے تھے۔ سنن ابوداؤد کی ایک روایت میں آتا ہے کہ فتح مکہ کےبعد جب رسول اللہ ﷺ نے کعبہ اللہ میں داخل ہونے کا ارادہ فرمایا تو آپ نے حکم فرمایا:
فاخرج صورة ابراهيم وإسمعيل
ترجمہ: ابراہیمؑ اور اسمعیلؑ کی تصویروں کو باہر نکال دو۔
قبر کی عبادت کی گئی
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما دونوں نے ایک کلیسا کا ذکر کیا جسے انھوں نے حبشہ میں دیکھا تو اس میں تصویریں تھیں۔ انھوں نے اس کا تذکرہ نبی کریم ﷺ سے بھی کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کا یہ قاعدہ تھا کہ اگر ان میں کوئی نیکوکار شخص مر جاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہی تصویریں بنا دیتے پس یہ لوگ خدا کی بارگاہ میں قیامت کے دن تمام مخلوق میں برے ہوں گے۔ (صحیح بخاری، کتاب الصلوۃ)
اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے مرض الموت میں یہ دعا فرمائی:
اللھم لا تجعل قبری وثنا یعبد (مؤطا امام مالک)
ترجمہ:اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی عبادت کی جائے۔
قرآن پاک میں فرعون کے یہ الفاظ آئے ہیں:
وقال فرعون ياايها الملا ما علمت لكم من اله غيري (القصص: ۳۸)
ترجمہ:اور فرعون نے کہا کہ اے اہل دربار میں تمہارا، اپنے سوا کسی کو الہ نہیں جانتا
ایک اور انداز سے اس کو سمجھیں۔ قرآن پاک میں آتا ہے:
واتخذوا من دون الله آلهة لعلهم ينصرون (یس:74)
ترجمہ:اور ان (مشرکوں) نے اللہ کے سوا (اور) الہ بنا لیے ہیں کہ شاید (وہ) ان کی مدد پہنچیں
واتخذوا من دون الله آلهة ليكونوا لهم عزا (مریم: 81)
ترجمہ:اور ان (مشرکوں) نے اللہ کے سوا اور الہ بنالئے ہیں تاکہ وہ ان کے لئے (موجب عزت و) مدد ہوں
یعنی اللہ کے علاوہ وہ جن کو بھی الہ مانتے تھے ان کو وہ اپنا مددگار سمجھتے تھے۔ پتھر کے بتوں میں ایسی کون سے قوت پوشیدہ تھی جس کی بنیاد پر مشرکین عرب ان سے مدد کی امید باندھتے تھے ان سے عزت کے طلب گار تھے؟ اس سوال کا جواب اس کے علاوہ کیا ہے کہ ان بتوں کے پیچھے شخصیات تھیں۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے ان اقوال کو غور سے پڑھیں:
ظاہر و باطن دونوں طرح کے شرک کو چھوڑنے والوں میں سے ہوجا۔ بتوں کی پرستش کرنا تو ظاہری شرک ہے اور مخلوق پر بھروسہ رکھنا اور نفع نقصان میں ان پر نگاہ ڈالنا ہے یہ باطن کا شرک ہے۔ (الفتح الربانی مجلس ۳۴)
فتوح الغیب میں فرماتےہیں:صرف بت پرستی ہی شرک نہیں بلکہ اپنی خواہش نفس کی پیروی کرنا اور خدائے عز وجل کے ساتھ دنیا اور آخرت اور وہاں کی کسی چیز کو اختیار کرنا بھی شرک ہے پس جو اللہ تعالیٰ کے سوا ہے وہ غیر اللہ ہے۔ بس جب تو اس کے سوا اس کے غیر کی طرف مائل ہوا تو بے شک تو نے غیر خدا کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا۔ ( فتوح الغیب وعظ ۷)
خلاصہ یہ ہے کہ بتوں کی اصل صاحب بت اور تصویروں کی اصل صاحب تصویر تھے۔ عقیدت پتھر کے بتوں یا کاغذی صنم (تصویر) سے نہیں ہوتی ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی شخصیت ہوتی ہے۔ مشرکین عرب بھی اصلا بتوں کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے پیچھے شخصیات تھیں جن کی عظمت کے آگے وہ جھکتے تھے جن کے متعلق یہ عقیدہ قائم کرلیا گیا تھا کہ یہ اللہ کے اس قدر قریب ہوگئے ہیں کہ ان کے واسطے سے ہم اپنی حاجتوں میں اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکتے ہیں۔ یہی سب کچھ آج بھی ہوتا ہے۔ یہ بات تو ایک معمولی سمجھ کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ایک ناتراشیدہ پتھر تو کچھ حیثیت نہ رکھے لیکن جب وہی پتھر تراش دیا جائے تو وہ معبود بن جائے جو سب کچھ کرسکتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ شرک کی ابتدفرد یا مکان کی عظمت سے شروع ہوتی ہے جو بے لگام ہوجائے تو عبادت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
(جاری ہے)​
 

دیوان

محفلین
شرک کی حقیقت
الادب المفرد اور سنن النسائی میں روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا:
ما شاء الله وشئت
ترجمہ: جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں
آپ ﷺ نے فرمایا:
جعلت لله ندا
تو نے اللہ کا شریک ٹھہرا دیا
ما شاء الله وحده
(بلکہ یوں کہو) جو اللہ چاہے
یہاں کہنے والے نے جو انداز اختیار کیا اس میں اس نے رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرح بااختیار بناڈالا کہ جو چاہے کریں جس کو رسول اللہ ﷺ نے شرک قرار دیا ۔ اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شرک صرف بتوں کی پوجا سے نہیں ہوتا بلکہ زندہ اور فوت شدہ بزرگوں کو کارخانہ الہی میں بااختیار سمجھنے سے بھی ہوتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے نجران کے عیسائیوں کو ایک خط لکھا جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فانی ادعوكم الى عبادة الله من عبادة العباد وادعوكم الى ولاية الله من ولاية العباد (تفسیر ابن کثیر)
میں تمہیں بندوں کی عبادت کے بجائے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیتا ہوں، اور بندوں کے تسلط سے نکل کر اللہ کے تسلط میں آنے کی دعوت دیتا ہوں۔(یعنی بندوں کو کارساز سمجھنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کو کارساز سمجھو)۔
عیسائیوں نے حضرت عیسیؑ کو اللہ کا بیٹا بنادیا اور اپنی حاجتوں میں ان کو پکارتے تھے۔ اس بات کو رسول اللہ ﷺ نے بندوں کی عبادت قرار دیا۔
آپ ﷺ کے ارشادات سے معلوم ہوا کہ بندوں کو اللہ کی طرح بااختیار سمجھنا شرک ہے۔
الہ کون ہوتا ہے؟
اب آئیے الہ کا مفہوم سمجھتے ہیں۔ ہمارا کلمہ لا الہ الا اللہ ایک انکار سے شروع ہوتا ہے اور ایک اقرار پر ختم ہوتا ہے۔ انکار اس بات کا کہ کوئی الہ نہیں اور اس انکار کے بعد اللہ کے ایک ہونے کا اقرار ہے۔ اس پورے کلمے میں جو چیز سمجھنے کی ہے وہ الہ کا صحیح مفہوم ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کا صحیح مفہوم ہی توحید اور شرک کے صحیح مفہوم کو متعین کرتا ہے۔ عبادت کے صحیح مفہوم کا انحصار بھی الہ کے صحیح مفہوم سے وابستہ ہے۔الہ کا صحیح مطلب جاننے کے لیے ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ قرآن پاک نے الہ کے کیا اوصاف بتائے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے اس کلمے پر غور کر لیا جائے جس کی بنیاد پر ایک شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے یعنی لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللہ ۔ اس کا ترجمہ ہے: نہیں کوئی الہ سوائے اللہ کے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس ترجمے میں لفظ کوئی (کسی طرح کا) لانے کی وجہ اِلٰہَ کے آخر پر لگا ہوا زبر ہے۔ عربی زبان میں جب لا کے بعد کسی اسم پر زبر آجائے تو اس اسم کی ہر قسم (چھوٹی، بڑی، ظاہری، باطنی) کی نفی یا انکار ہوجاتا ہے ۔ انسان اپنی خواہشات نفس کو بھی اپنا الہ بنالیتاہے۔ اور خواہشات نفس ایک باطنی چیزہے۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے:
ءرايت من اتخذ الهه هواه (الفرقان: 43)
کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے خواہش نفس کو معبود بنا رکھا ہے
بہرحال لاَ اِلٰہَ کہنے کا مطلب الہ کی ہر قسم کا انکار ہے۔ اس کامل انکار کے بعد ہی انسان الا اللہ کہنے کا حق ادا کرسکتا ہے۔ اب ذرا غور سے اس آیت کو پڑھیے:
ایاک نعبد و ایاک نستعین (الفاتحۃ)
ترجمہ: ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں
اسی کی عبادت اور اسی سے مدد یہ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللہ کا تقاضا ہے۔ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللہ اقرار ہے ایاک نعبدوایاک نستعین اس کا اظہار ہے!
اگر ایسا نہیں تو پھر انسان کی حالت وہ ہوتی جو سورۃ یوسف میں یوں بیان کی گئی ہے:
وما يؤمن اكثرهم بالله الا وهم مشركون (یوسف: 106)
ترجمہ: ان میں اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں
آیئے اب دیکھتے ہیں کہ قرآن نے الہ کے کیا اوصاف بتائے ہیں۔ ان اوصاف کا جاننا اس لیے ضروری ہے کہ انسان پورے شعور کے ساتھ لاَ اِلٰہَ (نہیں کوئی الہ) کا اعلان کرے جس کے بعد اِلَّا اللہ کی سعادت اسے حاصل ہو۔
ہر نبی کی ایک ہی دعوت اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں
وما ارسلنا من قبلك من رسول الا نوحی اليه انه لا الٰه الا انا فاعبدون ( الانبياء: 25)
اور جو پیغمبر ہم نے آپ سے پہلے بھیجے ان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی الہ نہیں تو میری ہی عبادت کرو
الہ کون: آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ، زندگی اور موت دینے والا
قل يا ايها الناس انی رسول الله اليكم جميعا الذی له ملك السمٰوٰت والارض لا الٰه الا هو يحيی ويميت (الاعراف: 158)
(اے محمدﷺ) کہہ دو کہ لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا (یعنی اس کا رسول) ہوں۔ (وہ) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے۔ اس کے سوا کوئی الہ نہیں وہی زندگانی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔
الہ کون: جس پر توکل کیا جائے
قل هو ربی لا الٰه الا هو عليه توكلت واليه متاب (الرعد: 30)
کہہ دو وہی تو میرا پروردگار ہے اس کے سوا کوئی الہ نہیں۔ میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں
الہ کون: علم والا
انما الٰهكم الله الذی لا الٰه الا هو وسع كل شيء علما (طه: 98)
تمہارا للہ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی الہ نہیں، اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے
الہ کون: رزق دینے والا
هل من خالق غير الله يرزقكم من السماء والارض لا الٰه الا هو (فاطر: 3)
کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق (اور رازق ہے) جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دے۔ اس کے سوا کوئی الہ نہیں پس تم کہاں بہکے پھرتے ہو؟
الہ کون: بادشاہی والا، عبادت کے لائق

ذٰلكم الله ربكم له الملك لا الٰه الا هو فانىٰ تصرفون ( الزمر: 16)
یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے اسی کی بادشاہی (ملکیت) ہے۔ اس کے سوا کوئی الہ نہیں پھر تم کہاں پھرے جاتے ہو؟
الہ کون: ہمیشہ زندہ، عبادت کے لائق، جس کو پکارا جائے
هو الحی لا الٰه الا هو فادعوه مخلصين له الدين (المؤمن:65)
وہ زندہ ہے (جسے موت نہیں) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تو اس کی عبادت کو خالص کر کر اسی کو پکارو۔
الہ کون: زندگی اور موت دینے والا،پالنے والا
لا الٰه الا هو يحيی ويميت ربكم ورب آبائكم الاولين ( الدخان: 8)
اس کےسواکوئی الہ نہیں (وہی)جلاتاہےاور(وہی)مارتاہے۔وہی تمہارااورتمہارےباپ داداکاپروردگارہے
الہ کون: عالم الغیب و الشھادۃ
هو الله الذی لا الٰه الا هو عالم الغيب والشهادة ( الحشر: 22)
وہی اللہ ہےجسکےسواکوئی الہ نہیں پوشیدہاورظاہرکاجاننےوالاہے
الہ کون: مشرق و مغرب کا رب، کارساز
رب المشرق والمغرب لا الٰه الا هو فاتخذه وكيلا ( المزمل: 9)
مشرق اور مغرب کا مالک (ہے اور) اس کے سوا کوئی الہ نہیں تو اسی کو اپنا کارساز بناؤ
الہ کون: عبادت کے لائق، جس کا ذکر کیا جائے
اننی انا الله لا الٰه الا انا فاعبدنی واقم الصلاة لذكری ( طه: 14)
بےشک میں ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی الہ نہیں تو میری عبادت کرو اور میری یاد کے لئے نماز پڑھا کرو
الہ کون: ہر چیز کا خالق
ذٰلكم الله ربكم خالق كل شيء لا الٰه الا هو فانىٰ تؤفكون ( المؤمن: 62)
یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔ اس کے سوا کوئی الہ نہیں پھر تم کہاں بھٹک رہے ہو؟
الہ کون: مشکل کشا
فنادىٰ فی الظلمات ان لا الٰه الا انت سبحانك انی كنت من الظالمين ( الانبياء: 87)
آخراندھیرےمیں( اللہ کو)پکارنےلگےکہ تیرےسواکوئی معبودنہیں بے شک میں ہی ظالمین میں سے ہوں
مچھلی کے پیٹ سے نجات دینا والا ایک ہی الہ ہے اسی لیے یونس علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ ہی کو پکارا۔
(جاری ہے)​
 

آصف

محفلین
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اہل بغداد ایسے ہی مناظروں میں مصروف تھے جب چنگیز خان نے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
 

دیوان

محفلین
مشرکوں سے کچھ سوالات
ام من خلق السمٰوٰت والارض وانزل لكم من السماء ماء فانبتنا به حدائق ذات بهجة ما كان لكم ان تنبتوا شجرها ء اله مع الله بل هم قوم يعدلون (النمل: 60)
بھلا کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور (کس نے) تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا۔ (ہم نے) پھر ہم ہی نے اس سے سرسبز باغ اگائے۔ تمہارا کام تو نہ تھا کہ تم ان کے درختوں کو اگاتے۔ تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے؟
یہاں الہ کے یہ اوصاف بتائے گئے ہیں:
. آسمانوں اور زمین کا بنانے والا
2. بارش برسانے والا
3. زمین سے چیزوں کا پیدا کرنے والا
ان تمام اوصاف پر غور کریں تو ایک بات واضح نظر آئے گی کہ مخلوق میں سے کسی میں یہ قدرت نہیں وہ آسمان اور زمین بنا سکے، بارش برسا سکے یا زمین سے کھیتی یا درخت اگا سکے۔ یہ کام اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ ان کو مافوق الاسباب امور کہتے ہیں۔ آیت کے اختتام پر اللہ تعالیٰ نے سوال کیا ہے:ءالهمعالله کہ کیا تم لوگ اللہ کے علاوہ بھی کسی کو الہ مانتے ہو جو یہ سب کچھ کرسکے۔ بتایا جارہا ہے کہ ایسا کرنا اللہ کے ساتھ شرک ہے۔
ام من جعل الارض قرارا وجعل خلالها انهارا وجعل لها رواسي وجعل بين البحرين حاجزا ء اله مع الله بل اكثرهم لا يعلمون (النمل: 61)
بھلا کس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے بیچ نہریں بنائیں اور اس کے لئے پہاڑ بنائے اور (کس نے) دو دریاؤں کے بیچ اوٹ بنائی (یہ سب کچھ اللہ نے بنایا) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ (ہرگز نہیں) بلکہ ان میں اکثر دانش نہیں رکھتے۔
اس آیت میں الہ کے یہ اوصاف بتائے گئے ہیں:
4. زمیں کو پیدا کرنے کے بعد اس کو برقرار رکھنے والا
5. زمین میں پانی جاری کرنے والا
6. اس پر پہاڑوں کا بوجھ ڈال کر اسے برقرار کرنے والا
7. دریاؤں اور سمندروں کو ملنے سے روکنے والا
یہاں بھی وہی بات ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو یہ سب کام انجام دے سکتی ہے۔ یہ صفات اللہ تعالیٰ کے سوا کسی میں نہیں ہیں۔ کسی اور کے لیے یہ ماننا اللہ کے ساتھ الہ ماننا ہے یعنی اللہ کا شریک ٹھہرانا ہے۔
امن يجيب المضطر اذا دعاه ويكشف السوء ويجعلكم خلفاء الارض االه مع الله قليلا ما تذكرون (النمل: 62)
بھلا کون بے قرار کی التجا قبول کرتا ہے۔ جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں مگر) تم بہت کم غور کرتے ہو
اس آیت میں الہ کے یہ اوصاف بتائے گئے ہیں:
8. مشکل گھڑی میں جس کو پکارا جائے
9. پکارنے والی کی پکار سننے والا
10. مشکل کشا یعنی سختی اور پریشانی کو دور کرنے والا
11. زمین پر خلیفہ بنانے والا
بے قرار کی پکار کو سننا اور اس کی تکلیف کو دور کرنا، زمین میں خلیفہ بنانا یہ سب بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کرنے والی ہے۔ اس کے سوا کسی کے لیے ماننا اس کے ساتھ الہ ماننا ہے۔
امن يهديكم في ظلمات البر والبحر ومن يرسل الرياح نشرا بين يدي رحمته ءاله مع الله تعالى الله عما يشركون۔ (النمل: 63)
بھلا کون تم کو جنگل اور دریا کے اندھیروں میں رستہ بتاتا ہے اور (کون) ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے خوشخبری بناکر بھیجتا ہے (یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ (ہرگز نہیں)۔ (یہ لوگ) جو شرک کرتے ہیں اللہ (کی شان) اس سے بلند ہے
اس آیت میں الہ کے یہ اوصاف بتائے گئے ہیں:
12. دریاؤں اور خشکیوں میں رہنمائی کرنے والا
13. ہوا چلانے پر قادر
یہ صفات بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی میں نہیں ہیں۔ مخلوق میں سے کسی میں ان اوصاف کو ماننا اس کی صفتوں میں شریک ٹھہرانا ہے جس کو شرک فی الصفات کہتے ہیں اور عام طور پر لوگ اسی شرک میں مبتلا ہوتے ہیں۔ مشرک بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کو ایک ہی مانتا ہے لیکن اس کی صفات میں وہ بہتوں کو شریک کرتا ہے۔
ولله الاسماء الحسنى فادعوه بها وذروا الذين يلحدون في اسمائه سيجزون ما كانوا يعملون (سورۃ الاعراف: 180)
اور خدا کے سب نام اچھے ہی اچھے ہیں، تو اس کو اس کے ناموں سے پکارا کرو اور جو لوگ اس کے ناموں میں کجی اختیار کرتے ہیں ان کو چھوڑ دو وہ جو کچھ کر رہے ہیں عنقریب اس کی سزا پائیں گے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ کے ننانوے نام ہیں (مستدرک حاکم)۔ وہ سارے نام اللہ کے صفاتی نام ہیں یعنی اس جل و علا کی صفات بیان کرتے ہیں۔
سورۃ نمل کی مذکورہ بالا آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات بیان کرنے کے بعد کہا گیا:
تعالى الله عما يشركون
(یہ لوگ) جو شرک کرتے ہیں اللہ (کی شان) اس سے بلند ہے
یعنی اوپر بیان کیے گئے تمام امور اللہ کے سوا کسی اور کے لیے ماننا اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا ہے۔ ان آیتوں کے بعد کی آیت یوں ہے:
امن يبدا الخلق ثم يعيده ومن يرزقكم من السماء والارض ءاله مع الله قل هاتوا برهانكم ان كنتم صادقين (النمل: 64)
بھلا کون خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا۔ پھر اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے اور (کون) تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے (یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں) کہہ دو کہ (مشرکو) اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو
اس آیت میں الہ کے یہ اوصاف بتائے گئے ہیں:
14. تمام مخلوق کا پیدا کرنے والا
15. موت کے بعد دوبار زندہ کرنے والا
16. رزق دینے والا
یہ صفات اللہ تعالیٰ کے سوا کسی میں نہیں ہیں۔
مذکورہ آتیوں میں جتنے امور بتائے گئے ہیں یہ سب اللہ کی قدرت کے مظہر ہیں جو کسی بھی مخلوق کی قدرت سے باہر ہیں۔ ان کو مافوق الاسباب امور یعنی اسباب سے بالاتر امور کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اسباب کا محتاج نہیں۔ انسان کوجو اسباب میسر ہیں ان کے ذریعے سے وہ ان میں سے ایک کام بھی انجام نہیں دے سکتا۔ بلکہ انسان اپنی معمولی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اسباب کا محتاج ہے۔ اسباب کے دائرے میں اللہ تعالیٰ نے اس کو کچھ اختیار ضرور دیا ہے۔ آدمی پیاس بجھانے کے لیے پانی استعمال کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے پانی استعمال کرنے کا اختیار دیاہے۔ بیماری میں دوا کا طالب ہوتا ہے ۔وہ اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے دوسرے انسانوں کی مدد کا طالب ہوتا ہے۔ یہ بھی اسباب ہی کے دائرے میں ہوتا ہے۔اسی لیے جب اپنی ضرورتوں کے لیے کسی دوسرے کو پکارتا ہےتو اسے یہ بات معلوم ہے کہ وہ شخص بھی اسباب ہی ذریعے اس کو پورا کرے گا(حاشیہ: [1])۔ نہ ہی وہ سمجھتا ہے کہ جس کو وہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے پکار رہا ہے وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ہر صورت میں اس کی ضرورت کو پورا کر دے گا۔
سورۃ نمل کی ان مذکورہ آیتوں میں الہ کی تفسیر کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قل لا يعلم من في السموات والارض الغيب الا الله (النمل: 65)
کہہ دو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے
آیئے ذرا غور کرتے ہیں کہ مخلوق سے غیب کی نفی کیوں فرمائی گئی؟
---------------------------------------
[1]: آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ کوئی بیمار شخص کسی بزرگ کو یوں پکارے کہ ڈاکٹر نے مجھے یہ دوا تجویز کی ہے آپ عطا کردیجیے۔ وہ بھی جان رہا ہوتا ہے کہ اسباب اختیار کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ اس دوا سے صحت یابی حاصل ہوجانا جو اسباب سے بالا ہے یعنی مافوق الاسباب ہے اسی کے لیے وہ کسی برزگ کو پکارتا ہے۔
 
آخری تدوین:

دیوان

محفلین
انسان کی دو خواہشیں
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
واذا اذقنا الناس رحمة فرحوا بها وان تصبهم سيئة بما قدمت ايديهم اذا هم يقنطون الروم: 36
اور جب ہم لوگوں کو اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو اس سے خوش ہو جاتے ہیں اور اگر ان کے عملوں کے سبب جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجے ہیں کوئی تکلیف پہنچے تو ناامید ہو کر رہ جاتے ہیں
انسان بنیادی طور راحت طلب ہے۔ اس راحت طلبی کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے لیے منفعت یعنی فائدہ دینے والی چیز کا طالب ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ کہ وہ ہر مضرت یعنی نقصان دینے والی چیز سے بچنا چاہتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اسی عدم راحت میں اس کا امتحان پوشیدہ ہے جس میں کامیابی کے بعد اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
ولنبلونكم بشيء من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمراتوبشر الصابرين (البقرة:155)
اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میوؤں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے توصبر کرنے والوں کو (اللہ کی خوشنودی کی) بشارت سنا دو
اس راحت کے کامل حصول کے لیے انسان دو باتیں چاہتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اپنے کام کے انجام سے آگاہ ہونا چاہتاہے تاکہ اگر اس کے کرنے میں فائدہ ہو تو اس کو انجام دے اور اگر اس کا انجام خیر نہیں تو اس سے دور ہٹ جائے۔ دوسروں لفظوں میں انسان کو غیب جاننے کی شدید خواہش ہے۔ علم غیب کی خواہش کے ساتھ وہ اپنے تمام امور پر کامل قدرت یا قوت تصرف بھی چاہتا ہے تاکہ ان کا انجام اس کی مرضی کے مطابق ہو ۔ کامل قدرت، کامل علم کا تقاضا کرتی ہے۔ کامل قدرت، کامل ملکیت کا بھی تقاضا کرتی ہے۔ اگر ملکیت ناقص ہوگی، تو قدرت بھی ناقص ہوگی۔ اگر آپ غور کریں کامل قدرت ہی وہ وصف ہے جو زندہ اور فوت شدہ بزرگان دین میں ڈھونڈا جاتا ہے (حاشیہ: 1)۔ یہ دونوں امور یعنی غیب جاننے کی خواہش اور کامل تصرف شرک کا پیش خیمہ ہیں۔ قرآن پاک نے واضح الفاظ میں بتادیا ہے کہ یہ دو امور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں۔ اسی لیے سورۃ نمل کی مذکورہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کے اظہار کے بعد آخر میں یہ بھی بتادیا کہ علم الغیب بھی کسی کو حاصل نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے! سورۃ اعراف میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺکے ذریعے انسان کی انہی دو خواہشوں کا رد کیا ہے
قل لا املك لنفسي نفعا ولا ضرا الا ما شاء الله ولو كنت اعلم الغيب لاستكثرت من الخير وما مسني السوء (الاعراف: 188)
کہہ دو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو الله چاہے اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کرلیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔
یعنی نفع پہچانا یا ضرر سے بچانا محض اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ یہ بھی بتادیا کہ علم الغیب ہوتا تو بہت سی خیر حاصل ہو سکتی ہے لیکن علم الغیب اللہ ہی کو حاصل ہے (دیکھیے حاشیہ:2 )۔
ان دو باتوں یعنی علم کامل اور تصرف کامل کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب ہم عبادت کے مفہوم کوسمجھتے ہیں۔
(جاری ہے)
------------------------------------------
1:بزرگوں کی کرامتوں کے تذکرے اسی پہلو کو اجاگر کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔
2:علم الغیب اس علم کو کہتے ہیں جو اللہ کا ذاتی علم ہے یعنی بغیر کسی کی مدد کے ، ہر چیز کو محیط ہے، ہمیشہ ہمیشہ سے ہے ، یعنی یہ نہیں کہ کبھی نہیں تھا اور اب ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی مخلوق کے لیے اس طرح کا عقیدہ رکھنا اس کی صفت میں شریک ٹھہرانا ہے، یعنی شرک ہے۔ انبیا علیہم السلام کے علم بارے میں اہل سنت والجماعت کا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ان خاص بندوں کو بے شمار علوم عطا کیے ہے جن کا احاطہ کرنا عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ خاص طور پر خاتم الانبیا ﷺ کے بحر علم کے کنارے تک پہنچنا دیگر انبیائے کرام کے لئے بھی ممکن نہیں۔ لیکن ان کا یہ خاص مقام اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے، محض اس کی عطا ہے۔ حدوثا ہے یعنی پہلے نہیں تھا اللہ تعالیٰ کے بتانے سے ہوا۔
 
جو بھائی قرآن و حدیث کو تسلیم کر لے وہ مشرک نہیں ہے ۔ میں کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ سے کچھ دلیلیں دے رہا ہوں امید ہے آپ تسلیم کر لیں گے ۔
غیب کا علم صرف اﷲ تعالیٰ کو ہے
اﷲ کے سوا کوئی مختار کل نہیں
مشکل کشا و حاجت روا صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ ہی ہے
رزق و اولاد دینے اور تقدیر بدلنے والا اﷲ کے علاوہ کوئی نہیں
اسی طرح خواجہ غلام فرید چشتی چاچڑاں شریف والے کے دیوان ، صفحہ ۲۰۷ میں لکھا ہے :
چاچڑ وانگ مدینہ جاتم تے کوٹ مٹھن بیت اللہ
رنگ بنا بے رنگی آیا کیتم روپ تجلّٰی
ظاہر دے وچ مرشد ھادی باطن دے وچ اللہ
نازک مکھڑا پیر فریدا سانوں ڈسدا ہے وجہ اللہ
لیکن بد قسمتی سے ہم تک قوالیوں کے ذریعے پیغام پہنچایا جا رہا ہے کہ انبیاء ؑ اور اولیاء ؒ رازق ہیں ۔ مثلاََ قوالی ہے کہ : ’’ میں سنی عقیدت والا ہوں ، اے تو کیوں مجھ سے جلتا ہے ۔ اک میں کیا سارا زمانہ بھی ، میرے خواجہ کے در پے پلتا ہے ۔ یہاں خواجہ کا سکہ چلتا ہے ، خواجہ کا سکہ چلتا ہے ‘
میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ : ’’ جس وقت خواجہ نہیں تھا اس وقت سارا زمانہ کس کا دیا کھاتا تھا ؟ ‘‘
بابا شاہ جمال پتر دے رتا لال‘‘ ۔
تقدیر بدلنے والے دا ہے وچ لاہور دے دیرا ‘‘
مشرکوں سے کچھ سوالات

ایڈمنز سے گزارش ہے کہ یا تو ان تمام مراسلوں کا حذف کیا جائے کہ ان میں
اکابر اولیا کرام پاک و ہند کو نام لے کر کھلے عام مشرک کہا گیا اوپر کچھ اقتباسات شامل کیے ہیں جن کا اسلام سے دور دور تک تعلق نہیں ہے۔
یا پھر میرا بھی یہ مراسلہ حذف نہ کیا جائے۔
میرا شرک کا چورن بیچنے والوں سے سوال ہے کہ کیا شرک کا یہ چورن صرف مسلمانوں کے لیے ہی رکھا ہے یا اپنے گھر کی طرف بھی کبھی نظر کی ہے ذرا ان دو شخصیات کے بارے میں بھی فتوی شرک صادر فرمائیں اور اپنے سچے ہونے کا ثبوت دیں یا پھر جو کچھ آپ نے یہاں رقم کیا ہے اس سے برات کا اظہار کریں۔


مولوی محمود حسن دیوبندی کی کتاب مرثیہ رشید احمد(گنگوہی) سے مولوی رشید احمد گنگوہی کی شان میں لکھے گئے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔ اہل ِ نظر کی نذر

خدا ان کا مربی وہ مربی تھے خلائق کے
مرے مولا مرے ہادی تھے بیشک شیخ ربّانی

مُردوں کوزندہ کیازندوں کو مرنے نہ دیا
اس مسیحائی کو دیکھیں ذری ا بن مریم

قبولیت اسے کہتے ہیں مقبول ایسے ہوتے ہیں عبید
سُود(کالا) کا ان کے لقب ہے یوسف ثانی

زبان پر اہل ِ ہو ا کی ہے کیوں اُغل ہُبل
شاید اٹھاعالم سے کوئی بانیء اسلام کا ثانی

پھرے تھے کعبہ میں بھی پوچھتے گنگوہ کاراستہ
جو رکھتے اپنے سینوں میں تھے ذوق و شوق عرفانی

حوائج دین ودنیا کے کہاں لیجائیں ہم یارب
گیا وہ قبلہ حاجات روحانی وجسمانی

نہ رکا پرنہ رکا پرنہ رکا پرنہ رکا
اس کا جوحکم تھا ، تھا سیف قضائے مُبرم

زمانہ نے دیا اسلام کوداغ اسکی فرقت کا
کہ تھا داغ غلامی جس کا تمنائے مسلمانی

وہ تھے صدیق اور فاروق پھر کہیے عجب کیاہے
شہادت نے تہجد میں قدم بوسی کی گرٹھانی

اگر ان اشعار کی سمجھ نہ آئے تو اگلے مراسلے میں ان کی تشریح بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ ان میں انبیا کی شان میں گستاخی اور اللہ کی شان میں گستاخی اور اللہ کے غیر سے مانگنے کا بھی بیان ہے
 

دیوان

محفلین
عبادت کی حقیقت
لفظ الہ کا اردو زبان میں ترجمہ معبود سے کیا جاتا ہے۔ یعنی وہ جس کی عبادت کی جائے۔ الہ میں اور عبادت میں گہرا تعلق ہے۔چنانچہ لفظ الہ کی حقیقت سمجھنے کے لیے عبادت کی حقیقت کو سمجھنا بھی ضروری ہوا۔ عبادت کی حقیقت کسی ہستی کے لیے اپنی مرضی سے قولا یا فعلا اظہار ذلت (انکساری) و عاجزی کرناہے۔اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے دو باتیں جاننا بے حد ضروری ہے۔
پہلی بات
یہ بات یقینی ہے کہ انسان کسی ہستی سے اپنے اختیار سے انتہا درجے کی عاجزی و انکساری سے پیش نہیں آتا جب تک وہ اس کے کسی کمال اور عظمت کا قائل نہیں ہو جاتا۔ یہ عظمت اس کے دل میں اس کی محبت پیدا کردیتی ہے جو اس ہستی کی تعظیم کا محرک بنتی ہے۔ جب یہ دونوں باتیں یعنی اس ہستی کی عظمت و کمال کا اعتقاد اور اس کی محبت دل میں گھر کر لیتی ہے تو اس کے نتیجے میں اس انسان سے اس ہستی کی عظمت اور تعظیم کے اظہار کے لیے کچھ اعمال وجود میں آتے ہیں جو قول و فعل دونوں صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں (حاشیہ: [1])۔ خلاصہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ہستی کی عظمت کا اعتقاد پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں اس ہستی کی عظمت کے اظہار والے اقوال و اعمال وجود میں آتے ہیں۔
دوسری بات
اب یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ کسی ہستی کے اس درجے باکمال ہونے کا عقیدہ کس طرح پیدا ہوتا ہے کہ انسان اس کی ایسی عظمت کا قائل ہوجاتا ہے کہ اس کے سامنے اپنے آپ کو عاجز سمجھنے لگتا ہے۔اس کے دو اسباب ہیں:
اول علم کامل، خواہ ذاتی،خواہ عطائی۔
دوم قدرت کامل یعنی کامل تصرف مافوق الاسباب، یعنی ہر چیز کرنے یا کروانے کی کامل قدرت خواہ ذاتی خواہ عطائی۔
اب علم کامل اور قدرت کامل کو سمجھتے ہیں۔
علم کامل
یہ بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ کسی نہ کسی درجے میں علم ہر مخلوق کو حاصل ہے۔ یہ بھی ہر شخص جانتا ہے کہ مخلوق کا علم ظاہری و باطنی اسباب کے ماتحت ہے۔ مثلا ہمیں اپنے پانچ حواسوں کے ذریعے بہت سی باتوں کا علم حاصل ہوتا ہے۔ یا کوئی انسان اپنی فکری قوتوں کے ذریعے بھی بہت کچھ جان لیتا ہے۔لیکن کوئی شخص بھی اسباب کے ذریعے سے حاصل ہونے والے علم کی وجہ سے کسی ہستی کا ایسا گرویدہ اور اتنا مرعوب نہیں ہوجاتا کہ اس کے سامنے انتہا درجے کی عاجزی و انکساری یعنی خدائی تعظیم کرنے لگے۔ ہاں جب وہ کسی ہستی کے متعلق یہ گمان کرے گا کہ اس کو اسباب سے بالا یعنی اسباب سے ہٹ کر یعنی علم مافوق الاسباب کچھ اور قوتیں حاصل ہیں جس وجہ سے وہ ایسے علوم کا حامل ہے کہ وہ ہر وقت میری ہر نقل و حرکت کو جان رہا ہے، میری ہر پکار اورثنا کو سن رہا ہے۔ وہ ہر وقت میرے ساتھ ہے تب وہ اس ہستی کا گرویدہ ہوکر اس کے لیے خدائی تعظیم کرنے لگ جائے گا۔کیونکہ وہ جانے گا کہ یہ کمالات مخلوق کے کمالات کی قسم سے نہیں ہے بلکہ خدائی کمال کی جنس سے ہے۔
قدرت کامل
قدرت کامل کے دو پہلو ہیں:
پہلا یہ کہ وہ ہستی ہر کام کرنے کی قدرت رکھتی ہے،
دوسرا یہ کہ وہ ہستی ہر کام کروانے کی قدرت رکھتی ہے (حاشیہ: [2]
ہر کام کرنے کی قدرت کا کیا مطلب ہے اس کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اللہ کے دیے ہوئے آلات ، ظاہری و باطنی، کے ذریعے عالم کی اشیا میں تصرف کرسکتا ہے یعنی ان کو اپنے تابع کرسکتاہے۔ یہ تصرف اسباب کے ماتحت ہوتا ہے۔مثلا وہ ٹھنڈے پانی کو گرم کرسکتاہے یا گرم پانی کو ٹھنڈا کرسکتا ہے۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے وہ اسباب کا پابند ہے۔ چنانچہ ٹھنڈے پانی کو گرم کرنے کے لیے اس کو آگ کا انتظام کرنا پڑے گا۔ یا گرم پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اسے برف کا انتظام کرناپڑے گا۔ انسانوں کے علاوہ بھی جاندار مخلوق میں اس طرح کے تصرف کی قوت کسی نہ کسی درجے میں موجود ہے۔ کیونکہ ہرانسان سمجھ سکتا ہےکہ اس طرح کے تصرفات وہ چاہے کتنے ہی حیران کن ہوں اسباب کے بغیر نہیں ہوسکتے۔ اس لیے کوئی انسان محض کسی کے ظاہری تصرفات کو دیکھ کر اس کا اتنا گرویدہ نہیں ہوجاتا کہ اس کی عبادت کرنے لگے۔ قدرت کامل کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ ہستی ایسی قدرت والی ہے کہ وہ جب اور جس وقت چاہے اپنی مرضی نافذ کرسکتی ہے۔ چنانچہ جب انسان کسی ہستی کے متعلق یہ مان لے کہ اس کو ایسی قدرت کامل حاصل ہے جو اسباب سے ہٹ کر یعنی مافوق الاسباب ہے تو پھر اس کی عقیدت اس درجے میں آجاتی ہے کہ وہ اس کو معبود بنانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ مثلا اگر وہ ہستی مردے کو زندہ کردے تو ہر انسان سمجھ سکتا ہے کہ یہ اسباب سے بالا بات ہے اس لیے وہ ایسی ہستی کو اپنا معبود بنانے کے لیے راضی ہو جاتا ہے اور اس سے نفع و نقصان کی امید لگاتا ہے۔ (حاشیہ: [3])۔ ان مذکورہ اوصاف یعنی علم کامل اور قدرت کامل والی ہستی جس کو انسان معبود بناتا ہے اور اس کو راضی کرنے والے اعمال کرتا ہے وہ ہستی مندرجہ ذیل چار حیثیتوں میں سے ایک حیثیت میں ہوسکتی ہے:
1) وہ معبود خود ہی علم کامل اور قدرت کامل والے اوصاف سے متصف ہے۔ اس کو معبود حقیقی کہہ لیجیے۔
2) یا وہ معبودِ حقیقی کا شریک ہو،
مشرکین عرب جب طواف کرتے تو یہ تلبیہ پڑھتے:
لبيك لا شريك لك الا شريكا هو لك تملكه وما ملك (صحیح مسلم)
ہم حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ شریک تیرا (ہی مقرر کردہ) ہے تو اس کا مالک ہے اور مالک نہیں (تیرا)۔
اس مشرکانہ تلبیے سے معلوم ہوا کہ مشرکین عرب یہ سمجھتے تھے اللہ کی ملکیت میں کچھ ہستیاں عطائی طور پر شریک تھیں (حاشیہ: [4])۔ یعنی اس نے خود کسی کو کا اپنا شریک بنالیا ہے۔
3) یا وہ معبودِ حقیقی کا مددگار ہو کہ اس کو بھی خدائی امور میں عمل دخل حاصل ہوجائے،
4) یا اس کو معبود حقیقی کے یہاں ایسی پوزیشن حاصل ہو جس کے ذریعے سے وہ معبودحقیقی سے اپنی بات (طوعا و کرہا) منوا سکتا ہے۔
جب کوئی ہستی ان اوصاف سے خالی ہو تو ایسی ہستی سے کسی نفع کی امید لگانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا یعنی اس کی عبادت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
ان چاروں میں سے دوسری، تیسری اور چوتھی شرک کی صورتیں ہیں اور قرآن پاک ان کا رد کرتا ہے۔ ان دو باتوں یعنی کامل علم اور کامل قدرت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب ہم قرآن پاک کی آتیوں پر غور کرتے ہیں۔
الله لا اله الا هو الحي القيوم لا تاخذه سنة ولا نوم له ما في السمٰوٰت وما في الارض من ذا الذي يشفع عنده الا باذنه يعلم ما بين ايديهم وما خلفهم ولا يحيطون بشيء من علمه الا بما شاء(بقرۃ: 256)
اللہ (وہ معبود برحق ہے کہ) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں زندہ ہمیشہ رہنے والا اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہیں سب اسی کا ہے کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کر سکے جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے (اسی قدر معلوم کرا دیتا ہے)
اس آیت میں جس کو آیت الکرسی (حاشیہ: [5])کہا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ دعوی کیا ہے کہ عبادت کے لائق صرف میں ہوں۔ اس کے بعد اس کے دلائل بیان کیے ہیں۔
فرمایا:لہ ما فی السمٰوٰت و ما فی الارض یعنی جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کا مالک وہی ہے۔
پھر فرمایا: من ذا الذي يشفع عنده الا باذنه یعنی کسی کو اختیار نہیں کہ اس کی مرضی کے خلاف کچھ کراسکے۔ یعنی کسی کو کوئی قدرت حاصل نہیں ہے۔
پھر فرمایا: يعلم ما بين ايديهم وما خلفهم ولا يحيطون بشيء من علمه الا بما شاء ہر چیز کا علم اسی کو ہے، کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں، مخلوق اتنا ہی جانتی ہے جتنا وہ بتانا چاہتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ شرک کے دونوں راستے یعنی علم کامل اور قدرت کامل دونوں کا رد کردیا گیا۔
وربك يخلق ما يشاء ويختار ما كان لهم الخيرة سبحان الله وتعالى عما يشركون() وربك يعلم ما تكن صدورهم وما يعلنون () وهو الله لا اله الا هو له الحمد في الاولى والآخرة وله الحكم واليه ترجعون۔ (القصص: 68-70)
اور تمہارا پروردگار جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) برگزیدہ کرلیتا ہے۔ ان کو اس کا اختیار نہیں ہے۔ یہ جو شرک کرتے ہیں اللہ اس سے پاک وبالاتر ہے، اور ان کے سینے جو کچھ مخفی کرتے اور جو یہ ظاہر کرتے ہیں تمہارا پروردگار اس کو جانتا ہے، اور وہی اللہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں دنیا اور آخرت میں اسی کی تعریف ہے اور اسی کا حکم اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔
ان آیات میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ قدرت کامل صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ اسی طرح علم الغیب بھی اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے۔
قرآن پاک نے بار بار ان دونوں باتوں یعنی علم الغیب اور تصرف کامل کا خاص اللہ کے لیےہونا بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ان الله لا يخفى عليه شيء في الارض ولا في السماء هو الذي يصوركم في الارحام كيف يشاء لا اله الا هو (آل عمران: 5-6)
اللہ (ایسا خبیر وبصیر ہے کہ) کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں وہی تو ہے جو (ماں کے پیٹ میں) جیسی چاہتا ہے تمہاری صورتیں بناتا ہے اس غالب حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں
فرمایا: ان الله لا يخفى عليه شيء في الارض ولا في السماء زمین و آسمانوں میں کوئی چیز اس سے چھپی نہیں ہے یعنی علم کامل صرف اللہ کے لیے ہونے کا بیان ہے۔
پھر فرمایا: هو الذي يصوركم في الارحام كيف يشاء ماں کے پیٹ میں جو صورت بنانا چاہتا ہے بناتا ہے، وہ کامل قدرت والا ہے۔
هو الذي خلقكم من طين ثم قضى اجلا واجل مسمى عنده ثم انتم تمترون () وهو الله في السموات وفي الارض يعلم سركم وجهركم ويعلم ما تكسبون (الانعام: 2-3)
وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر (مرنے کا) ایک وقت مقرر کر دیا اور ایک مدت اس کے ہاں اور مقرر ہے پھر بھی تم (اے کافرو اللہ کے بارے میں) شک کرتے ہو، اور آسمانوں اور زمین میں وہی (ایک) اللہ ہے تمہاری پوشیدہ اور ظاہر سب باتیں جانتا ہے اور تم جو عمل کرتے ہو سب سے واقف ہے۔
مٹی سے پیدا کرنا مافوق الاسباب ہے، پھر اس کی عمر مقرر کرنا بھی مافوق الاسباب ہے۔ اسی لیے ان دونوں کاموں کا صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خاص بتایا گیا۔
پھر فرمایا: اور آسمانوں اور زمین میں وہی (ایک) اللہ ہے تمہاری پوشیدہ اور ظاہر سب باتیں جانتا ہے اور تم جو عمل کرتے ہو سب سے واقف ہے۔ یعنی علم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے کے لیے مخصوص ہے۔
الله يبسط الرزق لمن يشاء من عباده ويقدر له ان الله بكل شيء عليم (العنکبوت:62 )
اللہ ہی اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے روزی فراخ کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے بیشک اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔
روزی کی وسعت اور تنگی بھی اللہ ہی اختیار میں ہے۔ وہ جس کے لیے جتنی روزی چاہتا ہے مقرر کرتا ہے۔ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
لله ملك السماوات والارض يخلق ما يشاء يهب لمن يشاء اناثا ويهب لمن يشاء الذكور او يزوجهم ذكرانا و اناثا ويجعل من يشاء عقيما انه عليم قدير (الشوری: 49-50)
(تمام) بادشاہت اللہ ہی کی ہے آسمانوں کی بھی اور زمین کی بھی۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے بخشتا ہے، یا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عنایت فرماتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے بےاولاد رکھتا ہے۔ وہ تو جاننے والا (اور) قدرت والا ہے
اولاد دینا بھی اسی کا اختیار ہے۔ یہ بھی اس کی قدرت کا اظہار ہے۔ قدرت والا بھی ہے اور علم والا بھی ہے۔
(جاری ہے)​
[1]: انسان جب کسی انسان سے اس کے کسی کمال کی وجہ سے انتہا درجے کی محبت کرنے لگتا ہے تو اس کے اظہار لیے بہت سے کام کرتا ہے۔ آج کل کی دنیا میں اداکاروں اور کھلاڑیوں کے ساتھ جو معاملہ ان کے مداح کرتے ہیں اس سے بات سمجھ میں آسکتی ہے۔
[2]: مشرکین کے عقیدہ شفاعت میں یہی خیال کارفرما ہوتا ہے کہ جن کی ہم عبادت کرتے ہیں وہ اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ وہ ان کے کام کراسکیں۔
[3]: عیسائیوں کو حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات دیکھ کر ان میں خدائی قوتیں کارفرما نظر آئیں۔ وہ عیسی علیہ السلام کو اللہ تو نہ کہہ سکے اللہ بیٹا کہہ دیا۔ کلمہ گو مشرک رسول اللہ ﷺ کو اور ولیوں اور بزرگوں کو اللہ تو نہیں کہہ سکتے ہیں نہ ہی عیسائیوں کی طرح اللہ کا بیٹا البتہ اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفات ان میں مانتے ہیں۔
[4]: آج کل شرک کی بنیاد یہی عقیدہ ہے کہ اللہ کے نیک بندے عطائی طور پر عالم الغیب ہیں۔ عطائی طور پر تصرف کا اختیار بھی ان کو حاصل ہے۔
[5]: آیت الکرسی کو قرآن پاک کا دل کہا جاتاہے۔ اس میں توحید کا بیان اور اس کی مخالف چیزوں کا بیان انتہائی مختصر لیکن مکمل انداز میں کیا گیا ہے۔
 
[4]: آج کل شرک کی بنیاد یہی عقیدہ ہے کہ اللہ کے نیک بندے عطائی طور پر عالم الغیب ہیں۔ عطائی طور پر تصرف کا اختیار بھی ان کو حاصل ہے۔
پچھلے مراسلے میں ایک سوا ل کیا تھا لیکن جواب نہیں آیا کیونکہ جب اپنے گھر کی بات آتی ہے تو ان کے پاس جواب نہیں ہوتا۔۔اور اکابر اولیا کرام کو مشرک ٹھہرانا۔ اور کل امت مسلمہ کو مشرک ٹھہرانا شرک کا چورن بیچنے والوں کا وطیرہ ہے۔
شرک کا چورن بیچنے والوں سے ایک اور سوال
کیا اللہ سے کوئی چیز غائب ہے ؟ اگر نہیں تو پھر کون سے غیب کا علم اللہ کے لیے ثابت کرتے ہو ؟
باقی مسلمانوں سے عرض ہے کے یہ سوال ان سے طنزیہ ہے جیسے یہ خود کرتے ہیں ویسے ہی۔جیسے کو تیسا والی مثل کے مصداق۔
شرک ٹھہرے جس میں تعظیم حبیبﷺ
اس برے مذہب پہ لعنت کیجیے
 

دیوان

محفلین
السلام علیکم،
میں صرف اپنی تحریر کا ذمہ دار ہوں۔ وہ بھی اسی صورت میں جب میری تحریر کا اقتباس پیش کیا جائے اور پھر اس پر اشکال پیش ہو انداز بھی نہ مناظرانہ ہو نہ ہی معاندانہ فقط مفاہمانہ !
والسلام
 
اگلے مراسلے میں ان کی تشریح بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ ان میں انبیا کی شان میں گستاخی اور اللہ کی شان میں گستاخی اور اللہ کے غیر سے مانگنے کا بھی بیان ہے
پہلی بات آپ ان اشعار کی تشریح پیش کریں۔
دوسری بات ہمارے نزدیک انبیا اور اللہ پاک کی شان میں گستاخی کرنے والا گندہ ترین شخص ہے۔ اور جس کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی مردوں کو زندہ کرتا ہے یا زندوں کو مردہ یا کسی کا مزار یا قبر ’’ نعوذ بااللہ کعبۃ اللہ سے افضل ہے ‘‘ ، تو ’’ وہ مشرک ہے ‘‘۔ وہ چاہیے مولوی محمود حسن دیوبندی ہو یا کسی نبی کا بیٹا یا باپ ہی کیوں نہ ہو ۔
 

دیوان

محفلین
کس کو پکارا جائے؟
اوپرالہ کون ہوتا ہے؟ کہ عنوان کے تحت واضح کیا گیا کہ الہ کے مفہوم میں کیا کچھ داخل ہے۔ اولا تو پیچھے جو کچھ بیان کیا گیا اس کے بعد یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پکارے جانے کے قابل صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ لیکن وہ مسلمان جو اپنی حاجتوں کے لیے غیراللہ کو پکارتے ہیں۔ یہاں قرآنی آیات پیش خدمت ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے پکارنے کو شرک بتایا ہے۔ ان آیات میں اس کی وضاحت ہے کہ ایسا کرنا شرک کیوں ہے۔ لیکن اس سےپہلے یہ آیات پڑھیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی شان بیان کی ہے۔
وله اسلم من في السمٰوٰت والارض طوعا وكرها و اليه يرجعون (آل عمران: 83)
سب اہل آسمان و زمین خوشی یا ناخوشی سے اللہ کے فرماں بردار ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں
وان يمسسك الله بضر فلا كاشف له الا هو وان يردك بخير فلا راد لفضله (یونس: 107)
اور اگر اللہ تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اس کا کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر تم سے بھلائی کرنی چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں۔
اور مسلمان کی شان یہ ہے:
قل ان صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين () لا شريك له وبذلك امرت وانا اول المسلمين (الانعام:162-163)
کہہ دو کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی بات کا حکم ملا ہے اور میں سب سے پہلا فرمانبردار ہوں۔
پکارے جانے کے لائق وہی ہے جو بااختیار ہو، باخبر ہو، قدرت والا ہو، سمیع و بصیرہو
والذين تدعون من دونه ما يملكون من قطمير ان تدعوهم لا يسمعوا دعاءكم ولو سمعوا ما استجابوا لكم ويوم القيامة يكفرون بشرككم ولا ينبئك مثل خبير (فاطر: 13-14)
اور جن لوگوں کو تم اس (اللہ) کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی تو (کسی چیز کے) مالک نہیں اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں اور اگر سن بھی لیں تو تمہاری بات کو قبول نہ کرسکیں اور قیامت کے دن تمہارے شرک سے انکار کردیں گے اور (اللہ) باخبر کی طرح تم کو کوئی خبر نہیں دے گا۔
یعنی اپنی حاجتوں کے لیے اسی کو پکارا جاسکتا ہے جس کو حاجتوں کو پورا کرنے کی قدرت ہو۔ غیراللہ تو کھجور کی گٹھلی پر جو باریک سی جھلی لگی ہوتی ہے اتنی چیز کے بھی مالک نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ بتائی کہ وہ زمان مکان سے ماورا ہر پکارنے والی کی پکار کو سنتا ہو۔ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔وہ بیک وقت تمام مخلوقات کی دعاؤوں کو سنتا ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قل ادعوا الذين زعمتم من دونه فلا يملكون كشف الضر عنكم ولا تحويلا (بنی اسرائیل: 56)
کہو کہ (مشرکو) جن لوگوں کی نسبت تمہیں (معبود ہونے کا) گمان ہے ان کو بلا کر دیکھو۔ وہ تم سے تکلیف کے دور کرنے یا اس کے بدل دینے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے
پکارے جانے کے لائق وہی ہے جو نفع و نقصان کا اختیار رکھتا ہو۔
ومن اضل ممن يدعو من دون الله من لا يستجيب له الى يوم القيامة وهم عن دعائهم غافلون (الاحقاف: 5)
اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے جو ایسے کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکے اور ان کو ان کے پکارنے ہی کی خبر نہ ہو۔
وهم عن دعائهم غافلون ان کو ان کے پکارنے ہی کی خبر نہ ہو۔
جو سن نہیں سکتا وہ اس کو پورا کرنے کی قدرت بھی نہیں رکھتا۔
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا یہ قول پڑھیے اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کی مخلوق کی کیا حیثیت ہے ایک بہترین مثال سے اس کو سمجھا رہے ہیں۔
’’تیرے دل کا لگاؤ مخلوق میں سے کسی چیز سے نہ رہے۔ اور تمام مخلوق کو اس شخص کی طرح بے بس اور عاجز سمجھ جس کو ایک بڑی سلطنت والے ایک بڑے رعب و دبدبے والے، ایک بڑی شان و حکم والے بادشاہ نے گرفتار کرایا ہو، اس شخص کی گردن میں طوق اور پاؤں میں بیڑیاں ہوں اور اسے ایک درخت کے ساتھ پھانسی لٹکا دے اور وہ درخت ایک ایسے دریا کے کنارے اگا ہوا ہے جس کی موجیں تیز اور جس کا پھیلاؤ وسیع اور جس کی گہرائی بہت ہو۔ پھر بادشاہ ایسے تخت پر بیٹھا ہو جس تک پہنچنا بہت مشکل ہو۔نیز اس بادشاہ نے اپنے پاس تیروں، نیزوں اور کمانوں کا ایک ایسا انبار لگا رکھا ہو جس کا اندازہ بادشاہ کے سوا کوئی نہیں کر سکتا اور یہ بادشاہ اس پھانسی پر لٹکے ہوئے شخص پر جس ہتھیار کو چاہے پھینک رہا ہے پس کیا اس شخص کے لیے جو یہ سب ماجرا دیکھے ممکن ہے کہ ایسے بادشاہ کی طرف سے نظر ہٹا لے، اس سے خوف نہ رکھے امید نہ رکھے بلکہ پھانسی لگے ہوئے شخص سے ڈرے اس سے امید رکھے، جو کوئی ایسا کرے گا وہ، جہاں تک عقل و سمجھ کا تعلق ہے، عقل و سمجھ سے خالی، دیوانہ،مجنون، حیوان مطلق اور خارج از انسانیت نہ ہوگا؟ پس اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگوبصیرت کے بعد (حق سے) اندھا ہونے سے، وصولی بارگاہ قدس کے بعد قطع ہونے سے، قرب کے بعد دوری سے، ہدایت کے بعد گمراہی سے، اور ایمان کے بعد کفر سے۔ (فتوح الغیب وعظ ۱۷ )‘‘
دعا عبادت ہے!
قرآن پاک میں دعا کا لفظ پکارنے اور عبادت کرنے کے معنوں میں آیا ہے۔ دعا اور پکارنا خود عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وقال ربكم ادعوني استجب لكم ان الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين (المومن: 60)
ترجمہ: اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا۔ جو لوگ میری عبادت سے (ازراہ )تکبر (انکار) کرتے ہیں۔ عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس سے دعا نہ کرنے والوں کو اس کی عبادت سے انکار کہا ہے یعنی دعا کرنے کو عبادت سے تعبیر کیا ہے۔
1) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
عن النعمان بن بشير قال سمعت رسول الله صلى الله عليه يقول ان الدعاء هو العبادة ثم قرا ادعوني استجب لكم (سنن الترمذی)
نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دعا عبادت ہے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے آیت پڑھی ادعوني استجب لكم
2) حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں:
عن ابن عباسؓ افضل العبادة هو الدعاء وقرا وقال ربكم ادعوني استجب لكم ان الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين. (مستدرک حاکم)
بہترین عبادت دعا ہے اور اس کےبعد یہ آیت تلاوت کی وقال ربكم ادعوني استجب لكم إن الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين
3) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
عن ابی هريرة ؓعن النبی صلى الله عليه وسلم قال اشرف العبادة الدعاء (الادب المفرد، للبخاری)
دعا تمام عبادتوں میں اشرف (اعلی ترین) عبادت ہے۔
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں:
اے اللہ کے بندو! عقل سیکھو۔ اپنے معبود کو اپنی موت سے پہلے پہچاننے کی کوشش کرو۔اپنی حاجات مانگو۔ تمہارا دن رات اس سے مانگنا اس کی عبادت ہے۔
(جاری ہے)​
 

دیوان

محفلین
یہ اس سلسلے کا آخری مضمون ہے۔اس کے تمام حقوق عام ہیں یعنی ہر شخص اس مضمون کو شائع کرسکتا ہے۔
-----------------------------------------------------------------------------
غیراللہ کو پکارنا کیوں غلط ہے؟
ياايها الناس ضرب مثل فاستمعوا له ان الذين تدعون من دون الله لن يخلقوا ذبابا ولو اجتمعوا له وان يسلبهم الذباب شيئا لا يستنقذوه منه ضعف الطالب والمطلوب (الحج: 73-74)
ترجمہ: لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ کہ جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ اس کے لئے سب مجتمع ہوجائیں۔ اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب اور مطلوب (یعنی عابد اور معبود دونوں) گئے گزرے ہیں
اس آیت سے چند باتیں واضح ہوئیں۔ مشرکین عرب کو خطاب کرکے بتایا گیا ہےکہ وہ جن کو اللہ کے سوا تم پکارتے ہو:· وہ کوئی چیز بنا نہیں سکتے کیونکہ وہ خالق نہیں ہیں۔ تخلیق ایک مافوق الاسباب (یعنی انسانی کو جو اسباب میسر ہیں ان سے بالا) امر ہے جو صرف اللہ رب العزت ہی کی صفت ہے۔· انہیں کوئی قدرت حاصل نہیں ہے۔ مکھی جیسی بے حیثیت مخلوق بھی اگر کوئی چیز لے جائے تو وہ اس کو اس سے چھڑا نہیں سکتے۔
قل افرءيتم ما تدعون من دون الله ان ارادني الله بضر هل هن كاشفات ضره او ارادني برحمة هل هن ممسكات رحمته قل حسبي الله عليه يتوكل المتوكلون (الزمر: 38)
ترجمہ: کہو کہ بھلا دیکھو تو جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔ اگر اللہ مجھ کو کوئی تکلیف پہنچانی چاہے تو کیا وہ اس تکلیف کو دور کرسکتے ہیں یا اگر مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ کہہ دو کہ مجھے اللہ ہی کافی ہے۔ بھروسہ رکھنے والے اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں
اس آیت میں مشرکین عرب کو خطاب کرکے بتایا گیا ہےکہ:· وہ جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے وہ کسی کی تکلیف دور نہیں کرسکتے یعنی وہ مشکل کشا نہیں ہوسکتے۔ مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔· وہ جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے وہ کسی کو کچھ بھی نہیں دے سکتے۔· مشرک کا بھروسہ غیراللہ پر ہوتا ہے۔· مومن کا بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہوتاہے۔
صحیح بخاری میں آتا ہے کہ جنگ احد کے دن ایک موقعے پر ابوسفیان نے کچھ باتیں کہیں اور رسول اللہ ﷺ کے حکم پر اس کا جواب دیا گیا۔ غور سے پڑھیے!
قال ابو سفيان اعل هبل (صنمهم الذي يعبدونه )
ترجمہ: ابوسفیان نے کہا: ہبل (بت کا نام) سربلند ہو (ھبل سے مدد مانگی)
فقال النبي ﷺ اجيبوه قالوا ما نقول
ترجمہ: اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کو جواب دو۔‘‘ لوگوں نے پوچھا:’’کیا کہیں؟‘‘
قال قولوا الله اعلى و اجل
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کہو، اللہ ہی کے لیے سربلندی ہے وہی بزرگ (بھی) ہے‘‘
قال ابو سفيان لنا العزى ، ولا عزى لكم
ترجمہ: اس پر ابوسفیان بولا: ’’ہمارے پاس عزی (ان کے بت کا نام) ہے اور تم لوگوں کے پاس کوئی عزی نہیں۔‘‘ (تم لوگ بے یار و مددگار ہو)
فقال النبي ﷺ اجيبوه ، قالوا : ما نقول؟ ، قال : قولوا : الله مولانا ولا مولى لكم
ترجمہ:اس پررسول اللہﷺنےحکم فرمایا: ’’اس کوجواب دو۔‘‘ لوگوں نےپوچھا:’’کیاکہیں؟‘‘ رسول اللہﷺنےفرمایا: ’’کہو، اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں۔‘‘(حاشیہ: [1])
مشرکین عرب اور کلمہ گو مشرک
مشرکین عرب بعض معاملات میں اپنے الہوں کو اپنا سفارشی اورمتصرف سمجھتے تھے لیکن بڑے بڑے کاموں اور انتہائی مشکل وقت میں وہ بھی اللہ ہی کو پکارتے تھے۔
مشرکین عرب مافوق الاسباب امور میں صرف اللہ کو پکارتے تھے پہلی مثال
ارشاد ربانی ہے:
فاذا ركبوا في الفلك دعوا الله مخلصين له الدين فلما نجاهم الى البر اذا هم يشركون (العنکبوت: 65)
ترجمہ: پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے (اور) خالص اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ ان کو نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو جھٹ شرک کرنے لگے جاتے ہیں
فرمایا:فاذا ركبوا في الفلك دعوا الله مخلصين له الدين
ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں سے بحفاظت منزل تک پہنچادینا مافوق الاسباب امر ہے، کسی مخلوق کے بس کی بات نہیں یہ بات مشرکین عرب بھی سمجھتے تھے اس لیے ایسے موقعوں پر ان کی امیدوں کا مرکز صرف اللہ ہوتا تھا۔
سنن النسائی کی ایک روایت میں آتا ہے:
حضرت عکرمہؓ بن ابوجہل فتح مکہ کے بعد اپنی جان بچانے کے لیے سمندر کے راستے فرار ہونے کے لیے ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ کشتی طوفان میں پھنس گئی تو ملاحوں نے مسافروں سے کہا:
اخلصوا فان آلهتكم لا تغني عنكم شيئا هاهنا (سنن النسائی)
ترجمہ: یعنی مشرکین عرب موجوں کے تھپیڑوں میں خالص اللہ کو یاد کرتے تھے۔ کلمہ گو مشرک کا عقیدہ کیا ہے پڑھیے: پورے اخلاص والے ہوجاؤ (یعنی پورے اخلاص سے اللہ تعالیٰ کو پکارو) کیونکہ تمہارے الہ اس موقع پر تمہارے کام نہیں آسکتے۔ کلمہ گو مشرک کیا کہتا ہے:
المدد یاغوث اعظم المدد یادستگیر
تیری نگاہ درکار ہے پیران پیر
جہاز تاجراں گرداب سے فورا نکل آیا
وظیفہ جب انہوں نے پڑھ لیا یاغوث اعظم کا
مشرکین عرب مافوق الاسباب امور میں صرف اللہ کو پکارتے تھے دوسری مثال
· قرآن پاک میں آتاہے:
قل ارايتكم ان اتٰكم عذاب الله او اتتكم الساعة اغير الله تدعون ان كنتم صادقين() بل اياه تدعون فيكشف ما تدعون اليه ان شاء وتنسون ما تشركون() (الانعام: 40-41)
ترجمہ: کہو (کافرو) بھلا دیکھو تو اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو تو کیا تم (ایسی حالت میں) اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ اگر سچے ہو (تو بتاؤ)، بلکہ (مصیبت کے وقت تم) اسی کو پکارتے ہو تو جس دکھ کے لئے اسے پکارتے ہو وہ اگر چاہتا ہے تو اس کو دور کردیتا ہے اور جن کو تم شریک بناتے ہو (اس وقت) انہیں بھول جاتے ہو
عن عمران بن حصين: قال قال النبي صلى الله عليه وسلم لابي كم تعبد اليوم الها فقال ستة في الارض وواحدا في السماء قال فايهم تعد لرغبتك ورهبتك قال الذي في السماء (سنن الترمذی)
ترجمہ: حضرت عمران بن حصین روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے باپ سے پوچھا: ’’آج کل تم کتنے الہوں کی عبادت کرتے ہو؟‘‘ (میرے باپ نے) کہا: ’’چھ زمین پر اور ایک (وہ جو) آسمان پر ہے( کی)۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے (مزید) پوچھا:’’ان میں خوف و امید کے وقت تم کس الہ کو کام کا سمجھتے ہو؟‘‘ میرے باپ نے کہا:’’وہی جو آسمانوں میں ہے۔‘‘
یعنی تمام امور میں جن میں مخلوق کا کوئی اختیار نہیں، مشرکین مکہ خوف اور امید اللہ ہی کے ساتھ رکھتے تھے۔ اب پڑھیے کلمہ گو مشرک کیا کہتا ہے:
انت شافی انت کافی فی مہمات الامور
انت حسبی انت ربی انت لی نعم الوکیل
یعنی تمام بڑے بڑے مسائل (مہمات الامور) میں مجھے شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ہی کافی ہیں۔ وہی میرے لیے کافی ہیں وہ میرے رب ہیں۔بہترین سازگار۔
مشرکین مکہ شفا اللہ سے مانگتے تھے، تیسری مثال
مشرکین عرب نے رسول اللہ ﷺ کی توحید کی دعوت سن کر آپ کو مجنون مشہور کردیا تھا اس پر ضماد نامی ایک کافر جو جھاڑ پھونک کیا کرتا تھا اس نے کہا:
لوارايت هذاالرجل لعل الله يشفيه على يدي(صحیح مسلم)
ترجمہ: اگر میرا ان پر گزر ہوا تو ممکن ہے اللہ میرے ہاتھوں ان کو شفا دے دے۔
یعنی مشرکین عرب بھی شفا کی امید اللہ تعالیٰ ہی سے رکھتے تھے۔ کلمہ گو مشرک کیا کہتا ہے ملاحظہ فرمائیے:
شفا پاتے ہیں صدہا جاں بلب امراض مہلک سے
عجب دارالشفا ہے آستانہ غوث اعظم کا
شیخ عبدالقادر جیلانی کا یہ قول ذرا غور سے پڑھیے:
تمہارے عالم جاہل ہیں اور تمہارے جاہل دھوکے باز۔ تمہارے زاہد دنیا پر حریص ہیں۔ تو دین کے بدلے دنیا نہ کما دین سے تو آخرت حاصل کی جاتی ہے۔ آپ (یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی) نے
ادعوا ربکم تضرعا و خفیۃ انہ لا یحب المعتدین (الاعراف -55)
یعنی تم اپنے رب سے دعا کرو گڑگڑاتے اور آہستہ بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں رکھتا ہے۔
کے ظاہر پر عمل کر کے تفسیر فرمائی کہ حد سے بڑھنے والے سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کے سوا دوسرے سے مانگے اور غیر اللہ سے سوال کرے۔ (ملفوظات شیخ)
خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین عرب اللہ تعالیٰ بالکل نہیں چھوڑ بیٹھے تھے اور صرف بتوں کو ہی اپنا سب کچھ نہیں سمجھ بیٹھے تھے۔ اس کے برخلاف آج شرک میں الجھے ہوئے کلمہ گو ہر چیز کی امید غیراللہ ہی سے لگائے بیٹھے ہیں۔
شفاعت کس کو کہتے ہیں؟
مشرکین عرب اپنے معبودوں کو اللہ کے یہاں سفارشی سمجھتے تھے۔ وہ کہتے تھے:
هؤلاء شفعاؤنا عند الله (یونس: 18)
ترجمہ: یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔
شفاعت کا مطلب ہے کسی دوسرے کو نفع پہنچانے یا اس سے نقصان کو دور کرنے کے لیے سفارش کرنا۔ دنیاوی اعتبار سے دیکھا جائے تو جس کی سفارش قبول کی جاتی ہے وہ یا تو وجاہت کے سبب ہوتی ہے یا چاہت کے سبب۔
وجاہت کا مطلب یہ ہے کہ سفارش کرنے والا اتنا بااختیار ہے کہ حاکم وقت اس کو ناراض کرنے کا خطرہ نہیں مول سکتا۔
چاہت کا مطلب یہ ہے کہ سفارش کرنے والی کی حیثیت ایسی ہے کہ خود حاکم وقت کو اس سے تعلق رکھنے کی ضرورت ہے لہذا وہ اس کی سفارش کو مان لیتا ہے۔یا پھر کبھی سفارش کرنے والے کے کسی احسان کا بدلہ چکانا مطلوب ہوتا ہے اس لیے اس کی سفارش قبول کرلی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ان تینوں باتوں سے بالاتر ہے۔ وہ نہ کسی چیز کی امید کرتا ہے، نہ کسی سے ڈرتا ہے اور نہ کسی کا محتاج ہے۔ سورۃ سبا آیات 23 اور 24 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قل ادعوا الذين زعمتم من دون الله
کہہ دو کہ جن کو تم اللہ کے سوا (معبود) خیال کرتے ہو ان کو بلاؤ۔
لا يملكون مثقال ذرة في السماوات ولا في الارض
وہ آسمانوں اور زمین میں ذرہ بھر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں
وما لهم فيهما من شرك
اور نہ ان میں ان کی (اللہ کے ساتھ) شرکت ہے
و ما له منهم من ظهير ()
اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے
ولا تنفع الشفاعة عنده الا لمن اذن له حتىٰ اذا فزع عن قلوبهم قالوا ماذا قال ربكم قالوا الحق وهو العلي الكبير()
اور اللہ کے ہاں (کسی کے لئے) سفارش فائدہ نہ دے گی مگر اس کے لئے جس کے بارے میں وہ اجازت بخشے۔ یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے اضطراب دور کردیا جائے گا تو کہیں گے تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے۔ (فرشتے) کہیں گے کہ حق (فرمایا ہے) اور وہ عالی رتبہ اور گرامی قدر ہے
-------------------------------------------------------------
[1]: غور کریں اہل حق اور اہل ہوی کا یہ فرق آج بھی موجود ہے۔ ایک طرف اللہ ہی اللہ دوسری طرف غیراللہ!
 
’’ شرک کی دو قسمیں ہیں ۔ شرک اکبر اور شرک اصغر ، پھر ہر ایک کی کئی اقسام ہیں ‘‘ ۔ پہلے میں شرک اکبر کی تفصیل بیان کروں گا (ان شاء اﷲ ) عبدالرحمن نے ہلکا سا جوشیلے ( Enthusiast ) انداز میں کہا ۔
اﷲ پاک اپنی ذات ، صفات اور عبادات میں یکتا اور بے مثل (Unique ) ہے ۔ اس کی ذات ، صفات اور عبادات میں کسی کو حصہ دار یا ہمسر سمجھنا شرک اکبر کہلاتا ہے ۔ شرک اکبر کی تین بڑی اقسام ہیں : ’’ ذات میں شرک ، صفات میں شرک اور عبادات میں شرک ۔ ‘‘
’’ مخلوقات میں سے کسی کو اﷲ کا بیٹا ، بیٹی یا خدا میں سے قرار دینا ، ذات میں شرک کہلاتا ہے ‘‘ ۔مثلاََ: ’’عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ اور یہودیوں نے حضرت عزیر ؑ کو اﷲ کا بیٹا کہااور مشرکین مکہ نے فرشتوں کو اﷲ کی بیٹیاں قرار دیا‘‘ ۔جیسا کہ قرآن پاک میں ہے : ’’ یہود کہتے ہیں عزیر اﷲ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اﷲ کا بیٹا ہے ‘‘ ، (التوبہ : ۳۰ ) ۔ اﷲ پاک نے فرمایا : ’’ کہہ دیجئے ساری تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ‘‘ ، (بنی اسرائیل : ۱۱۱) ۔ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ ان کا قول تو یہ ہے کہ رحمٰن نے بیٹا بنا رکھا ہے ۔ یقیناًتم بہت بری اور بھاری چیز(گھڑ کر ) لائے ہو ۔ قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں ۔ کہ وہ رحمٰن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ۔ شان رحمٰن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے ‘‘ ، (مریم : ۸۸ تا ۹۲ ) ۔
مشرکین کے متعلق اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ ان سے دریافت کیجئے ! کہ کیا تمہارے رب کے لئے تو بیٹیاں ہوں اور ان کے لئے بیٹے ؟ کیا یہ اس وقت موجود تھے جبکہ ہم نے فرشتوں کو عورت بنایا ۔ آگاہ رہو ! کہ یہ لوگ صرف اپنی افترا پردازی سے کہہ رہے ہیں ۔ کہ اﷲ
تعالیٰ کی اولاد ہے ۔ یقیناًیہ محض جھوٹے ہیں ۔ کیا اﷲ تعالیٰ نے اپنے لیے بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دی ؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے ، کیسے حکم لگاتے
پھرتے ہو ؟ کیا تم اس قدر بھی نہیں سمجھتے ؟ یا تمہارے پا س اس کی کوئی صاف دلیل ہے ۔ تو جاؤ اگر سچے ہو تو اپنی ہی کتاب لے آؤ ‘‘ ، (الصٰفٰت : ۱۴۹ تا ۱۵۷ ) ۔یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی طرح مسلمان بھی ذات میں شرک سے باز نہیں آئے ۔
ہندوستان میں کچھ علماء نے باطل رائے کو فروغ دیتے ہوئے ایک بالکل نیا عقیدہ متعارف کروایا جس کا اسلام کے ساتھ سرے سے ہی تعلق نہ تھا ۔ اُنہیں علم تھا ابن اﷲاور بنٰت اﷲ کا عقیدہ ، عیسائیوں ، یہودیوں اور مشرکین مکہ کی وجہ سے بد نام ہو چکا ہے کیوں نہ کسی نئے طریقے سے لوگوں کو گمراہ کیا جائے ۔ پہلے انہوں نے کم علم لوگوں کو بتایا کہ نبی پاک ﷺ بشر نہیں نور ہیں ، نبیوں میں ساری خوبیاں فرشتوں والی ہوتی ہیں اور انسان پر وحی نہیں اتر سکتی، وغیرہ وغیرہ ۔ پھر آخر کار عقیدت و محبت کے نام پرسید المرسلین ﷺ کے بارے میں کہا گیا : ’’ آپ ﷺ ، نور من نور اﷲ : یعنی اﷲ کے نور میں سے نور ہیں ‘‘ ، نعوذبااﷲ ۔
یہ عقیدہ قرآن و حدیث کے بالکل خلاف ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ آپ (ﷺ ) کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں ۔ (ہاں ) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے ‘‘ ، (الکھف : ۱۱۰ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ لوگوں کے پاس ہدایت پہنچ چکنے کے بعد ایمان سے روکنے والی صرف یہی چیز رہی کہ انہوں نے کہا کیا اﷲ نے ایک انسان کو ہی رسول بنا کر بھیجا ؟ ، آپ (ﷺ ) کہہ دیں کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور رہتے بستے ہوتے تو ہم بھی ان کے پاس کسی آسمانی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے ‘‘ ، (بنی اسرائیل : ۹۴ تا ۹۵ ) ۔ کتابُ اﷲ کی بہت زیادہ آیات سے واضع ہے کہ تمام انبیاء ؑ بشر تھے ، مثلاََ : ’’ (البقرۃ : ۱۵۱ ) ، (الانعام : ۵۰ ) ، (الاعراف : ۶۹ ) ، (یوسف : ۱۰۹ ) ، (ابراہیم : ۱۰ تا ۱۱ ) ، (النحل : ۴۳ ) ، (الحجر : ۳۲ تا ۳۳ ) اور (بنی اسرائیل : ۹۳ ) ‘‘ ۔
کافی وقت گزرنے کے بعد چپ چاپ کھڑے ابوبکر نے اپنی زبان کا تالا کھولا اور باغ باغ ہوتے ہوئے بولا :
’’ یہی تو میں کہتا تھا ! نبی پاک ﷺ کو نو ر کہنا ، آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کے مترادف ہے ، کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور فرشتوں نے اﷲ کے حکم سے بشر کو سجدہ بھی کیا تھا ۔ کیا نور انسانوں کے گھر پیدا ہوتے ہیں ؟ کیا نور کھاتے پیتے اور شادیاں کرواتے ہیں ؟ کیا نور کی قبر مبارک ہوتی ہے ؟‘‘
جزاک اﷲ خیر، عبدالرحمن نے مسکراتے ہوئے کہا اور اپنی بات جاری رکھی :
قرآنی دلیلوں کو پڑھنے کہ بعد کچھ لوگ کہتے ہیں : ’’ ہم فرشتوں والے نور کی نہیں بلکہ اﷲ کے نور کی بات کرتے ہیں ‘‘ ۔ اﷲ پاک پر بہتان باندھنے والو ! کیا آپ نے قرآن پاک غور سے نہیں پڑھا؟ آپ کے پاس اخبارات ، ڈائجسٹوں ، میگزینوں اور فحش سائن بورڈوں کے مطالعے کا تو وقت ہے ، کیا کتاب اﷲ میں غور و فکر نہیں کر سکتے ؟آپ ریڈیو ، ٹی وی ، وی سی آر ، ڈش ، انٹینا ، فلمیں ، ڈرامے اور شرکیہ قوالیاں دیکھ اور سُن سکتے ہو ، کیا الفرقان کی تحقیق نہیں کرسکتے ؟ کیا آپ فضول باتیں کرنے کی بجائے ترجمے کے ساتھ تلاوت نہیں سماعت فرما سکتے ؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ آپ (ﷺ ) کہہ دیجئے کہ وہ اﷲ تعالیٰ ایک (ہی ) ہے ۔ اﷲ تعالیٰ بے نیاز ہے ۔ نہ اس میں سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ۔ اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے ‘‘ ، (الا خلاص : ۱ تا ۴ ) ۔ اس سے واضع ہوا ، نہ الرّحمّن میں سے کوئی نکلا ہے اور نہ ہی اﷲ پاک کسی سے نکلے ہیں ۔ مثلاََ : ’’ اگر دودھ میں سے تھوڑا سا دودھ نکال لیا جائے تو بقیہ دودھ بھی نکلے ہوئے دودھ ہی جیسا ہوتا ہے ‘‘ ۔ ’’ دنیا کی کسی بھی چیز میں سے کچھ حصہ نکال دیں تو وہ بقیہ چیز ہی کی طرح کا ہوتا ہے ‘‘ ۔ اسی طرح اگر ہم سید المرسلین ﷺ کو ’’ نور من نور
اﷲ‘‘ سمجھیں تو ، اﷲ کے نور میں سے نور ، الرحمن جیسا ہی ہو گا ۔ جبکہ یہ عقیدہ قرآن کے الٹ ہے ،رب کعبہ فرماتے ہیں : ’’لیس کمثلہ
شیء: اس (اﷲ ) جیسی کوئی چیز نہیں ‘‘ ، (الشوریٰ : ۱۱ ) ۔ اب قرآن و حدیث سے حق عیاں ہونے کے بعد بھی اگر کوئی کہے کہ : ’’ حضرت محمد ﷺ نور من نور اﷲہیں‘‘ ، وہ بھی یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی طرح ہی اﷲ پر بہتان باندھ رہا ہے ۔ ’’ بیٹا تم نور والی آیت کیوں نہیں پڑھتے ؟ ضعیف آدمی تھوڑا نرم لہجے میں بولا ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن:
’’ بابا جی ، کونسی نور والی ؟ ‘‘
بوڑھا شخص :
جس میں اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ قد جا کم من اﷲ نور و کتب : یعنی اﷲ نے نور اور کتاب اتاری ‘‘ ، نور سے مراد نبی پاک ﷺ ہے ۔
عبدالرحمٰن:
بابا جی ، آیت جس طرح آپ نے پڑھی ہے اس طرح نہیں بلکہ : ’’ قد جاء کم من اﷲ نور و کتب مبین ‘‘ ، ہے ۔ جس کا مطلب ہے : ’’ تمہارے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے ۔ ‘‘
بھائیوں ! توجہ فرمانا اور بابا جی آپ بھی ’’نوراور کتاب مبین دونوں سے مراد قرآن کریم ہے ان کے درمیان واؤ ، مغایرت مصداق نہیں مغایرت معنی کے لئے ہے اور یہ عطف تفسیری ہے جس کی واضح دلیل قرآن کریم کی اگلی آیت ہے جس میں کہا جا رہا ہے ، یھدی بہ اﷲ ،کہ اس کے ذریعے سے اﷲ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے ۔ اگر نور اور کتاب یہ دو الگ الگ چیزیں ہوتیں تو الفاظ ، یھدی بھما اﷲ ہوتے ’’ یعنی اﷲ پاک ان دونوں کے ذریعے سے ہدایت فرماتا ہے ‘‘ ۔ قرآن کریم کی اس نص سے واضح ہو گیا کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد ایک ہی چیز یعنی قرآن کریم ہے ۔ یہ نہیں ہے کہ نور سے آنحضرت ﷺ اور کتاب سے قرآن مجید مراد ہے ‘‘ ، (تفسیر احسن البیان ، المائدۃ : تفسیر آیت ۱۵) ۔
قرآن پاک میں کئی مقام پر نور سے مراد قرآن مجید ہے ۔ اس کے علاوہ قرآن کریم میں کئی مقامات پر نور قرآن مجید کی صفت بیان ہوئی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ و انز لنا الیکم نورا مبینا : اور ہم نے تمہاری جانب واضح اور صاف نور اتار دیا ہے ‘‘ ، (النساء : ۱۷۴ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ فامنو ا باﷲ ورسولہ و النور الذی انزلنا : سو تم اﷲ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ایمان لاؤ ‘‘ ، (التغابن : ۸ ) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ ما کنت تدری ما الکتب ولا الایمان ولکن جعلنہ نورا نھدی بہ : آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے ؟ لیکن ہم نے اس کتاب کو نور بنایا ، اس سے راہنمائی کرتے ہیں ‘‘ ، (الشوریٰ : ۵۲ ) ۔ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ فالذین امنوا بہ وعزروہ ونصروہ واتبعوا النور الذی انزل معہ اولئک ھم المفلحون : سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لائے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو ان پر نازل کیا گیا ، ایسے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں ‘‘ ، (الاعراف : ۱۵۷ ) ۔
مسلمانو ! کیوں آپ سید المرسلین ﷺ کو اﷲ کا حصہ کہتے ہو حالانکہ قرآن میں بڑا واضح ہے کہ : ’’ اور انہوں نے اﷲ کے بعض بندوں کو اس کا جز ٹھہرا دیا یقیناًانسان کھلم کھلا نا شکرا ہے ‘‘ ، (الزخرف : ۱۵ ) ۔کیا آپ اﷲ تعالیٰ کے شکر گزار بندے نہیں بننا چاہتے ؟ میرے عزیز دوستو ! کیا اب بھی آپ کہیں گے کہ نبی ﷺ بشر نہیں نور ہیں ؟ بہت زیادہ لوگوں نے بلند آواز میں جواب دیا :
’’ نہیں ! اب ہم ساری زندگی اتنا بڑا گناہ نہیں کریں گے ۔ ‘‘
( ۲ )
پولیس والوں نے اگر کوئی مجرم پکڑنا ہو تو وہ ناکا لگاتے ہیں ۔ اگر گنا ہ گار بڑا ہوتو وہ بہت زیادہ ناکے لگاتے ہیں تاکہ خطا کار ایک جگہ نہ بھی پکڑا گیا تو دوسرے مقام پر قابو آ جائے گا ۔ شیطان نے بھی بد عقیدگی کو عام کرنے کے لیے ایسے ہی جال بچھائے ہیں ۔ جس کی ایک مثال عقیدہ وحدۃ الوجود بھی ہے ۔ ’’ عبدالرحمٰن صاحب قطع کلامی کی معذرت ، عقیدہ وحدۃ الوجود کیا ہے ؟ ایک نوجوان ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے بولا ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن :
’’ عقیدہ وحدۃ الوجود کا مفہوم یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کائنات کی ہرچیز میں ہے یعنی ہر چیز اﷲ ہی ہے ، (نعوذ با ﷲ )۔لغت میں وحدت الوجود : اصطلاح صوفیت میں ہرمخلوق کو خالق مطلق کا وجود سمجھنا ، (فیروز اللغات ) ۔ کچھ مسلمانوں نے یہود و نصاری اور ہندوؤں کی تعلیمات سے متاثر ہوکر ان کے عقائد کو اپنانا شروع کر دیا ۔ایسی ہی ایک مثال عقیدہ وحدۃ الوجود بھی ہے۔ یہ عقیدہ یہودیوں ، عیسائیوں اور ہندوؤں کے بعد بد قسمتی سے مسلمانوں کے بعض گروہوں کا بھی ہے ۔ جو صوفیوں ، درباری مجاوروں ، مزاری ملنگوں اور طریقتی پیروں کا گھڑا ہوا عقیدہ ہے ۔ یہ اتنا برا عقیدہ ہے کہ اس کے ماننے والے سور ، بندر ، گندگی اور دنیا کی ہر چیز کو اﷲ مانتے ہیں ، (نعوذ باﷲ ) ۔ وہ صوفی جو ہر مخلوق کو خالق کا وجود قرار دیتا ہے اسے وحدت الوجودی کہتے ہیں ‘‘ ، (فیروز اللغات ) ۔
آئیے ! ہم اس مسئلے کا فیصلہ قرآن و حدیث سے کروا لیتے ہیں ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ الرحمن علی العرش استوی : الرحمٰن عرش پر قائم ہے ‘‘ ، (طہٰ : ۵ ) ۔ دوسرے مقام پر فرمایا : ’’ اﷲ تعالیٰ وہ ہے جس نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کر دیا پھر عرش پر قائم ہو ا ، تمہارے لیے اس کے سوا کوئی مددگار اور سفارشی نہیں ۔ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔ وہ آسمان سے لے کر زمین تک (ہر ) کام کی تدبیر کرتا ہے پھر وہ (کام ) ایک ایسے دن میں اس (اﷲ ) کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے ‘‘ ، (السّجدۃ : ۴ تا۵) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ یخافون ربھم من فوقھم ویفعلون ما ےؤمرون : وہ (یعنی فرشتے ) اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ، ڈرتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں ‘‘ ، (النحل : ۵۰ ) ۔ اور چوتھے مقام پر ہے : ’’ اور یہ ذکر (قرآن ) ہم نے آپ (ﷺ ) کی طرف نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو کھول کھول کر بیان کردیں کہ ان کی طرف کیا اتارا گیا ہے اور تاکہ وہ غورو فکر کریں ‘‘ ، (النحل : ۴۴ ) ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اﷲ پاک ہی کی ساری عزت ہے (یعنی عزت دینے والا وہی ہے ) ، تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے ، جو لوگ برائیوں کے داؤں گھات میں لگے رہتے ہیں ان کے لیے سخت تر عذاب ہے ، اور ان کا یہ مکربرباد ہو جائے گا ‘‘ ، (الفاطر : ۱۰ ) ۔ اور فرمایا : ’’ کیا تم اس بات سے بے خوف ہو گئے ہو کہ جو آسمانوں پر ہے تمہیں زمین میں دھنسا دے اور اچانک زمین لرزنے لگے ‘‘ ، (الملک : ۱۶ ) ۔ عقیدہ وحدت الوجود قرآن مجید کی کئی اور آیات کے بھی خلاف ہے ، مثال کے طور پر : ’’ (الاعراف : ۵۴ ) ،(یونس : ۳ ) ، (الرعد : ۲ ) ، (الفرقان : ۵۹ ) ، (الحدید : ۴ ) ، (الملک : ۱۷ ) ، (المعارج : ۱ تا ۴ ) ، ( المؤمن : ۳۶ تا ۳۷ ) اور (النحل : ۶۴ ) ‘‘ ۔ یہ عقیدہ ۔۔۔ ’’ دیکھو بیٹا اس مرتبہ پھر آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی جس میں لکھا ہے کہ ہر چیز میں اﷲ ہے ، بوڑھے آدمی نے عبدالرحمٰن کی بات کاٹ کر دھیمی آواز میں کہا ۔ ‘‘
’’ محترم ! کونسی آیت ، عبدالرحمٰن نے سنجیدگی سے پوچھا ۔ ‘‘
ضعیف آدمی :
’’تم غلطیاں نکال دیتے ہو ! ‘‘ ، آیت تو میں نہیں پڑھوں گا لیکن اس کا ترجمہ ہے کہ : ’’ اے انسان ہم تیری شہ رگ میں ہیں یا رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن :
جناب عالیٰ ! آیت اس طرح ہے : ’’ ونحن اقرب الیہ من حبل الورید : اور ہم اس (یعنی انسان ) کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ‘‘ ، (ق : ۱۶ ) ۔ اس قرب سے مراد ہے کہ اﷲ تعالیٰ علم کے لحاظ سے انسان کے قریب ہے ۔ یعنی اﷲ پاک دلوں میں اٹھنے والے خیالوں سے بھی واقف ہے اور وہ (اﷲ ) انسان کے بارے میں اتنا کچھ جانتا ہے ، جتنا وہ (انسان ) خود اپنے بارے میں علم نہیں رکھتا ۔
مثال دیکر بات کو واضح کرتا ہوں :’’ انٹرنیٹ کے فوائد (Internet Benefits) ‘‘ ، کے طور پر کہا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے عالمی دنیا ہمارے ہاتھ میں آ گئی ہے ‘‘ ۔ کیا سارا جہان ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے ؟ ’’جی نہیں !‘‘ ، اس کا تو مطلب یہ ہے کہ : ’’ ہم جس جگہ بھی ہوں ، اپنے کمپیوٹر یا موبائل سے جو چاہیں تلاش (Search) کرسکتے اور اپنی پسندیدہ چیزیں دیکھ ، پڑھ ، سن اور دنیا کی سیر کر کے لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔ اکثر خبر چینل سے وقفہ کے وقت یہ بات سننے میں آتی ہے کہ : ’’ ناظرین یہاں پے لینا ہے ایک چھوٹا سا وقفہ ہمارے ساتھ رہیے گا ‘‘ ۔ کیا ہم ان کے ساتھ ہوتے ہیں ؟ بلکہ ان کا مقصد ہوتا ہے کہ : ’’ ہم ان کا چینل دیکھتے رہیں ‘‘ ، اسی طرح اﷲ اپنے عرش پر مستوی ہے ، لیکن اس کا علم ہر جگہ ہے کوئی بھی چیز اس سے غائب نہیں ، اور وہ دلوں کے حال تک جانتا ہے ۔
یہود و نصاری کی طرح مسلمانوں نے بھی محکمات آیات کو چھوڑ اور متشابہات آیات کے پیچھے لگ کر بے شمار خود ساختہ عقائد بنائے ۔متشابہات آیات کو اس طرح سمجھو ، جس طرح صحابہ کرامؓ نے ان آیات میں فکر کیا ۔ متشابہات آیتوں کی اپنی سمجھ کے مطابق پیروی سے امت مسلمہ میں بہت زیادہ فتنوں نے جنم لیا ۔ جن میں سب سے بڑا فتنہ فرقہ واریت ہے ۔ ’’ بھائی ! معاف کرنا ، محکمات اور متشابہات آیات سے کیا مراد ہے ؟ ایک نو عمر لڑکے نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن :
’’ محکمات سے مراد وہ آیات ہیں جن میں اوامرو نواہی ، احکام و مسائل اور قصص و حکایات ہیں جن کا مفہوم واضح اور اٹل ہے ، اور ان کے سمجھنے میں کسی کو اشکال پیش نہیں آتا ۔ اس کے برعکس آیات متشابہات وہ ہیں جو ماورا عقل حقائق جن کی حقیقت سمجھنے سے عقل انسانی قاصر ہو یا ان میں ایسی تاویل کی گنجائش ہو یا کم از کم ایسا ابہام ہو جس سے عوام کو گمراہی میں ڈالنا ممکن ہو ‘‘ ، (احسن البیان ، تفسیر العمران : ۷ ) ۔ مثال کے طور پر : ’’ الرحمن علی العرش استوی : الرحمٰن عرش پر قائم ہے ‘‘ ، (طہٰ : ۵ ) ۔ اس آیت میں تاویل کی وسعت نہیں ہے ، یہ محکم ہے ۔ اس کے برعکس : ’’ ونحن اقرب الیہ من حبل الورید : اور ہم اس (یعنی انسان ) کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ‘‘ ، (ق : ۱۶ ) ۔ اس آیت کے ذریعے عوام کو گمراہی کی طرف دھکیلا جاتا ہے ، یہ متشابہ آیت ہے۔
جو لوگ صرف متشابہات آیات کو اپنا منہج ، مسلک ، عقیدہ اور مذہب بنا لیتے ہیں ، وہ فتنے کی طلب سے گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ وہی اﷲ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح محکم (مضبوط ) آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں ۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو ان متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے ، حالانکہ ان کے حقیقی مراد کو سوائے اﷲ پاک کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ و مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ،
یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقل مند حاصل کرتے ہیں ۔ اے ہمارے رب ! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کردے اور ہمیں اپنے پا س سے رحمت عطا فرما ، یقیناًتو ہی بہت عطا دینے والا ہے ‘‘ ، (العمران : ۷ تا ۸ ) ۔
عوام وافر مقدار میں عبدالرحمٰن کے اردگرد جمع تھی ۔ توجہ کی وجہ سے ہمارے کان ، آنکھیں اور دل بھی سماعت فرما رہے تھے ۔ الفاظ پر اتنا مرکز نگاہ (Focus ) تھا کہ جیسے ذہن میں تصویر کشی کر رہے ہوں ۔ہم عبدالرحمٰن کا احساس ، دل و روح کے راستے سے محسوس کر رہے تھے ۔لوگ دنیا کے ٹی وی کو بند کرکے صرف عبدالرحمٰن کی قرآن و حدیث پر مبنی باتیں سننا پسند کر رہے تھے ۔ عبدالرحمٰن اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہہ رہا تھا :
اس آیت (یعنی ، ق : ۱۶ ) کا معنی و مفہوم وہی ہوگا جو نبی پاک ﷺ نے صحابہ اکرمؓ کو بتایا ۔ رسول اﷲ ﷺ کی احادیث تو عقیدہ وحدۃ الوجود کی تردید میں ہیں اور تائید کرتیں ہیں کہ اﷲ پاک آسمانوں کے اوپر عرش پر مستوی ہے ۔ سیدنا ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اﷲ نے فرمایا : ’’ جب اﷲ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کر چکا تو اپنی کتاب میں جو ’’ اس کے پاس عرش پر موجود ہے ‘‘ ، اس نے لکھا کہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے ‘‘ ، (بخاری : ۳۱۹۴ ) ۔ حضرت عبداﷲ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ سید المرسلین ﷺ نے فرمایا : ’’ رحم کرنے والوں پر رحمٰن بھی رحم کرتا ہے ۔ تم زمین والوں پر رحم کرو ’’ آسمان والا‘‘، تم پر رحم کرے گا ‘‘ ، (ترمذی : ۱۷۵۴ ) ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ’’ قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنے بچھونے کی طرف بلائے اور وہ انکار کرے ، تو وہ پروردگار جو ’’ آسمان کے اوپر ہے ‘‘ ، غصہ میں رہتا ہے جب تک وہ (یعنی شوہر ) اس عورت سے راضی نہ ہو ‘‘ ، (مسلم : ۳۵۴۰ ) ۔
سیدنا معاویہ بن حکم سلمیؓ نے کہا میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ (ایک مقام کا نام ہے ) کی طرف بکریاں چرایا کرتی تھی ایک دن میں وہاں آنکلا تو دیکھا کہ بھیڑیا ایک بکری کو لے گیا ہے ۔ آخر میں بھی آدمی ہوں مجھ کو بھی غصہ آ جاتا ہے ۔ جیسے دوسرں کو غصہ آتا ہے میں نے اس کو ایک طمانچہ مارا پھر میں رسول اﷲ ﷺ کے پاس آیا تو سیدالمرسلین ﷺ نے میرا یہ فعل بہت برا قرار دیا ۔ میں نے کہا : ’’ یا رسول اﷲ ﷺ ! کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کردوں ؟ ‘‘ ، آپ نے فرمایا : ’’ اس کو میرے پاس لے کر آ ‘‘ ۔ میں آپ ﷺ کے پاس لے کر گیا ۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا : ’’ اﷲ کہاں ہے ؟ ‘‘ ، اس نے کہا : ’’ آسمان پر ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ میں کون ہوں ؟ ‘‘ ، اس نے کہا : ’’ آپ ﷺ اﷲ کے رسول ہیں ‘‘، تب آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ تو اس کو آزاد کر دے یہ مومنہ ہے‘‘ ، (مسلم : ۱۱۹۹ ) ۔ کثیر تعداد احادیث، اس عقیدے کو مسترد (Reject) کرتیں ہیں ، مثلاََ : ’’ ( بخاری : ۱۱۴۵ ) ، (بخاری : ۵۵۵ ) ، (بخاری : ۴۳۵۱ ) ، (بخاری : ۷۴۳۰ ) ، ( بخاری : ۲۷۹۰ ) ، ( بخاری : ۷۴۲۱ ) اور ( مسلم : ۶۸۳۹ ) ‘‘ ۔
کیوں نہ ! صحابہ کرامؓ کے اقوال کے ترازو سے عقیدہ وحدۃ الوجود کی پیمائش کریں ؟ کون صحابہؓ ! جو حقیقی مومن تھے ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جن سے اﷲ تعالیٰ محبت کرتا ہے ۔ وہ صحابہؓ ! جو کامیاب ہو گئے اور جن کے لیے اجر عظیم ہے ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جنہوں نے دین کے لیے بے شمار تکالیف برداشت کیں ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جو کفار کے لیے سخت اور آپس میں محبت کرنے والے تھے ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جن کا کردار نجات کے لیے معیار ہے ۔ وہ صحابہ کرامؓ ! جن کے بارے میں رسول ﷲ نے فرمایا کہ : ’’ وہ بہترین لوگ ہیں ۔ ‘‘
آؤ ! صحابہؓ اور صحابیاتؓ کے اقوال سماعت فرما ؤ ۔ رسول اﷲ ﷺ کی وفات کے بعد ، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’ اے لوگو ! اگر تو محمد ﷺ تمہارے معبود تھے جن کی تم عبادت کرتے تھے تو پھر جان لو کہ تمہارے (وہ ) معبود (محمد ﷺ ) فوت ہوگئے ہیں اور اگر تم لوگوں کا معبود وہ ہے ’’ جو آسمان پر ہے ‘‘ ، تو پھر تمہارا معبود نہیں مرا ‘‘ ، (التاریخ الکبیر : ۶۲۳ ) ۔ سیدنا انسؓ کا کہنا ہے
کہ (ام المومنین ) زینب بنت حجشؓ ، سید المرسلین ﷺ کی دوسری بیگمات کو فخر کے ساتھ کہا کرتی تھیں کہ : ’’ تم لوگوں کی شادی تمہارے گھر
والوں نے کی اور میری اﷲ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے شادی کی ‘‘ ، (بخاری : ۷۴۲۰ ) ۔
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کے مرض الوفات میں حضرت ابن عباسؓ نے ان سے اندر آنے کی اجازت مانگی ، ان کے پاس ان کے بھتیجے تھے ، میں نے ان کے بھتیجے سے کہا کہ حضرت ابن عباسؓ اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں ، ان کے بھتیجے نے جھک کر حضرت عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا وہ کہنے لگیں کہ رہنے دو ( مجھ میں ہمت نہیں ہے ) اس نے کہا کہ اماں جان ! ابن عباس تو آپ کے بڑے نیک فرزند ہیں ، وہ آپ کو سلام کرنا اور رخصت کرنا چاہتے ہیں ، انہوں نے اجازت دے دی ۔ سیدنا ابن عباسؓ نے اندر آ کر کہا : ’’ آپ ( یعنی عائشہؓ ) نبی ﷺ کی تمام ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ محبوب رہیں ، اور سید المرسلین ﷺ اسی چیز کو محبوب رکھتے تھے جو طیب ہو ، لیلۃ الابواء کے موقع پر آپ کا ہار ٹوٹ کر گرپڑا تھا نبی ﷺ نے وہاں پڑاؤ کر لیا لیکن صبح ہوئی تو مسلمانوں کے پاس پانی نہیں تھا ، اﷲ نے آپ کی برکت سے پاک مٹی کے ساتھ تیمم کرنے کا حکم نازل فرما دیا ، جس میں اس امت کے لئے اﷲ نے رخصت نازل فرما دی ، اور آپ کی شان میں قرآن کریم کی آیات نازل ہو گئی تھیں ’’ جو سات آسمانوں کے اوپر سے جبریل لے کر آئے ‘‘ ، (مسند احمد : ۲۴۹۶ ) ۔
تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ دین ؒ بھی عقیدہ وحدت الوجود کے خلاف تھے ۔ امام ابو حنیفہ ؒ سے کسی نے پوچھا : ’’ جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ میرا رب زمین پر ہے یا آسمان پر تو ایسا کہنے والے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ‘‘ ، امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا : ’’ تو اس نے کفر کیا کیونکہ اﷲ تعالیٰ کہتے ہیں ’’ الرحمن علی العرش استوی : الرحمٰن عرش پر قائم ہے‘‘ ، اور اس کا عرش ساتوں آسمانوں کے اوپر ہے ۔ اس نے پھر پوچھا : ’’ اگر وہ یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ اﷲ کا عرش آسمان پر ہے یا زمین پر (تو پھر اسکا کیا حکم ہے ) ؟ ‘‘ ، تو امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا : ’’ ایسا کہنے والا کافر ہے کیونکہ اس نے اس بات سے انکار کیا کہ اﷲ کا عرش آسمانوں کے اوپر ہے اور جو اس بات سے انکار کرے وہ کافر ہے ‘‘ ، (شرح عقیدہ الطحاویہ ، صفحہ : ۲۸۸ ) ، (اﷲ کہاں ہے ؟ ، صفحہ : ۳۴ ) اور آپ یوٹیوب ( YouTube) پر بھی اس حوالہ (Reference) کے بارے میں دیکھ سکتے ہیں ، تلاش (Search )کریں (Wahdatul wajood ka Rad Imam Abu Hanifa se) ۔
عبداﷲ بن نافع ؒ کا کہنا ہے کہ امام مالک ؒ نے فرمایا : ’’ اﷲ آسمان پر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے اور اس کے علم سے کوئی چیز خارج نہیں ‘‘ ، (اعتقاد اہل السنۃ ) ، (اﷲ کہاں ہے ؟ ، صفحہ : ۳۷ تا ۳۸ ) ۔ امام الشافعی ؒ نے فرمایا : ’’ اﷲ آسمان سے اوپر اپنے عرش سے اوپر ہے ‘‘ ، (اجتماع الجیوش الاسلامےۃ ) ، ( اﷲ کہاں ہے ؟ ، صفحہ : ۳۸ ) ۔ امام احمد بن حنبل ؒ سے پوچھا گیا : ’’ کیا اﷲ عزو جلّ ساتویں آسمان کے اوپر اپنے عرش سے اوپر ، اپنی تمام مخلوق سے الگ ہے اور اسکی قدرت اور علم ہر جگہ ہے ؟ ‘‘ تو امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا : ’’ جی ہاں ! اﷲ عرش پر ہے اور اس (کے علم ) سے کچھ خارج نہیں ‘‘ ، (اجتماع الجیوش الاسلامےۃ ) ، ( اﷲ کہاں ہے ؟ ، صفحہ : ۳۸ تا ۳۹ ) ۔ ’’ انکل ! (Uncle) میں کچھ پوچھ سکتا ہوں ؟ ۱۰ سے ۱۲ سال کے بچے نے ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے کہا ۔ ‘‘
’’ جی ! کیوں نہیں ، عبدالرحمٰن نے جواب دیا ۔ ‘‘
بچہ :
’’ انکل ! مجھے بلال کہتے ہیں ‘‘ ۔ مجھے افسوس ہے ان پر جو اس (یعنی عقیدہ وحدۃالوجود ) کے قائل ہیں ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں : ’’ اگر ہر شے اﷲ ہے تو جنت اور جہنم کس لیے ؟اگرتمام چیزیں اﷲ ہیں توپھر مریم کے پیٹ میں کون تھا ؟ اگر سب جگہ اﷲ تعالیٰ ہے تو نبی پاک ﷺ کو اوپر جانے کی کیا ضرورت تھی ؟ اﷲ پاک نے قرآن مجید نازل کیا ، اگر ہر جگہ ہوتا تو دے دیتا ؟ اگر ہر چیز اﷲ ہے تو پھر ہم دعا کے لیے
ہاتھ اوپر کیوں اٹھاتے ہیں ؟ اشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ کل من علیھا فان *ویبقی وجہ ربک ذوالجلل والاکرام : (یعنی) ہر
چیز نے ختم ہو جانا ہے ۔ صرف آپ کے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی ‘‘ ،(الرحمن : ۲۶ تا ۲۷ ) ۔ میں سوال کرتا ہوں کہ : ’’ سب کچھ ختم ہو جائے گا صرف اﷲ کی ذات باقی رہے گی ۔ اگر تمام چیزوں میں اﷲ ہے یااﷲ ہیں تو پھر ختم کون ہو گا ؟ ‘‘ ، انکل ! یہ عقیدہ اتنا برا ہے کہ عقل کے بھی خلاف ہے ’’ کیا مسلمانوں نے ا س عقیدے کو تقریری (Oral) طور پر پھیلایا ہے یا تحریری (Written) نشرو اشاعت کی ہے ؟ ‘‘
عبدالرحمٰن :
’’ بلال بیٹا ! اﷲ آپ کو اجر دے اور استقامت عطا فرمائے ‘‘ ۔ لوگوں نے اس عقیدے کو تقریری اور تحریری طور پر وسعت دی ہے ۔ ایسے ایسے لوگ اس عقیدے کے قائل ہیں جن کے بارے میں آپ سوچ بھی نہیں سکتے ۔ مثال کے طور پر ، منصور حلاج کے بارے میں لکھا ہے : ’’ حضرت مرشد ؒ سے سنا تھا کہ ابن المنصور کو نماز پڑھتے کسی نے دیکھ کر پوچھا کہ جب تم خود حق (یعنی اﷲ ) ہو تو نماز کس کی پڑھتے ہو ؟ انھوں نے جواب دیا کہ میرا ظاہر میرے باطن کو سجدہ کرتا ہے ‘‘ ، (سیرت منصور حلاج ، صفحہ : ۱۴ ) ۔
ایک صاحب نے اپنے بیان (Speech) میں عقیدہ وحدت الوجود کا پرچار اس طریقے سے کیا کہ : ’’ لا کی تلوار عرش کے اوپر سے چلی ہے ، عرش زیرو زبر ، عرش کے فرشتے زیرو زبر ، عرش کے نیچے زیرو زبر۔ ساتواں ، چھٹا ، پانچواں ، چوتھا ، تیسرا ، دوسرا ، پہلا آسمان لا اور ہوا ، فضا ، خلا لا اور زمین ،آسمان ، چاند ، سورج ، تارے لا ، اور انسان ، جنات ، جن ، پرند ،چرند ، آبی ، خاکی ، ناری ، نوری ، ہوائی ، فضائی ، خلائی سب لا ہیں ، لا ہیں ۔ کوئی کچھ نہیں ہے ، کوئی کچھ نہیں ہے جو کچھ ہے وہ اﷲ ہے ، جو کچھ ہے وہ اﷲ ہے ‘‘ ،( یوٹیوب : Wahdat-ul-wajood - Molana Tariq Jameel ) ۔ آپ کو سن کر تعجب ہو گا کہ ایک کتاب میں اس عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے لکھا ہے کہ : ’’ ایک موحد (وحدت الوجودی ) سے لوگوں نے کہا کہ اگر حلوا و غلیظ ایک ہیں تو دونوں کو کھاؤ۔ انہوں نے بشکل خنزیر ہو کر گُوہ کو کھا لیا ۔ پھر بصورت آدمی ہو کر حلوہ کھا لیا اس کو حفظ مراتب کہتے ہیں جو واجب ہے ‘‘ ، (شمائم امدادیہ ، حصہ دوم ، ص : ۷۵ ) ، ( الدیوبندیۃ ، صفحہ : ۲۰۰ ) ۔
استغفر اﷲ ، نعوذ باﷲ ، لاحول ولا قوۃ الا باﷲ اور سبحن اﷲ عما یشرکونکی آوازیں ، چاروں طرف گھونج رہی تھیں اور لوگ حسرت بھری نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔لوگوں کی آنکھیں پر نم تھیں ۔ عبدالرحمن کی آنکھوں سے ضبط کی جدوجہد کے باوجود آنسو ٹپک رہے تھے ۔ عوام الناس کا افسردہ چہرہ دیکھ کر عبدالرحمن بول پڑا :
میرے بھائیوں ! میرامقصد باطل کو بے نقاب کرنا اور حق بات سمجھانا تھا ، کسی کو دکھ پہنچانا میرا مشن نہیں ہے ۔ یہ عقیدہ اپنی جڑیں اتنی مضبوط کرچکا ہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد جیسا مفسراس کی زد میں آ گیا تھا ۔عقیدہ وحدت الوجود کو مسلمانوں میں ’’ابن عربی ‘‘ ، نے متعارف کیا جس کی کتاب ’’ فصوص الحکم ‘‘ ، اسی غلیظ ترین عقیدے سے لبریز ہے ۔ ڈاکٹر اسرار صاحب بھی لکھتے ہیں :
’’ میرے نزدیک اس کا اصل حل وہ ہے جو شیخ ابن عربی ؒ نے دیا ہے ، جو میں بیان کر چکا ہوں کہ حقیقت و ماہیت وجود کے اعتبار سے خالق و مخلوق کا وجود ایک ہے ، کائنات میں وہی وجودِ بسیط سرایت کیے ہوئے ہے لیکن جہاں تعین ہو گیا تو وہ پھر غیر ہے ، اس کا عین نہیں ۔ چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ یہ کائنات کا وجود ایک اعتبار سے اﷲ تعالیٰ کے وجود کا عین اور دوسرے اعتبار سے اس کا غیر ہے ۔ یہ ابن عربی کا فلسفہ ہے ‘‘ ، (ام المسبحات یعنی سورۃ الحدید کی مختصر تشریح ، صفحہ : ۸۸ ) ۔ دوسرے مقام پر لکھتا ہے : ’’ شیخ ابن عربی کے بارے میں میں عرض کر چکا ہوں کہ جہاں تک حقیقت و ماہیتِ وجود کے بارے میں ان کی رائے کا تعلق ہے ، میں اس سے متفق ہوں اور میرا مسلک بھی وہی ہے ‘‘ ، (ام المسبحات ۔۔۔، صفحہ : ۹۱ )۔ یوٹیوب پر آپ ان کی ویڈیو بھی دیکھ سکتے ہیں ، تلاش کریں (Dr. Israr Aur Aqeedah Wahdat ul Wajood) ۔
ایک اور مفسر ، سورۃ المک کی آیت نمبر ۱۶ ، جس میں ہے کہ ’’ اﷲ آسمان پر ہے ‘‘ ، کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ : ’’ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ آ سمان میں رہتا ہے ‘‘۔لونڈی جس سے نبی پاک ﷺنے دو سوال کیے تھے اور وہ واقعہ جو حضرت خولہؓ کے متعلق حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے فرمایا ،یہ وہ خاتون ہیں جن کی شکایت سات آسمانوں پر سنی گئی ، بھی بیان کیا۔پھر کہا اس میں اس شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ قرآن ، اﷲ تعالیٰ کو آسمان میں مقیم قرار دیتا ہے ۔ لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ آسمان میں رہتا ہے ‘‘ ، ( تفہیم القرآن ) ۔
ایک وجودی نے اپنا عقیدہ ثابت کرنے کے لیے ایک قصہ بیان کیا ، کہا : ’’ رب عزوجل اس پر قادر نہیں کہ اپنے بندے پر تجلی فرما کر کلام فرمائے جو اس کی زبان سے سننے میں آئے بلا شبہ اﷲ قادر ہے اور معترض کا اعتراض باطل ، اس کا فیصلہ خود حضرت با یزید بسطامیؓ کے زمانے میں ہوچکا ، ظاہر بینوں بے خبروں نے ان سے شکایت کی کہ آپ سبحانی ما اعظم شانی (میں پاک ہوں اور میری شان بلند ہے )کہا کرتے ہیں ، فرمایا : حاشا میں نہیں کہتا ، کہا : آپ ضرور کہتے ہیں ہم سب سنتے ہیں ، فرمایا : جو ایسا کہے واجب القتل ہے میں نجوشی تمھیں اجازت دیتا ہوں جب مجھے ایسا کہتے سنو بے دریغ خنجر ماردو ، وہ سب خنجر لے کر منتظر وقت رہے یہاں تک کہ حضرت پر تجلی وارد ہوئی اور وہی سننے میں آیا سبحانی ما اعظم شانی مجھے سب عیبوں سے پاکی ہے میری شان کیا ہی بڑی ہے ۔ وہ لوگ چار طرف سے خنجر لے کر دوڑے اور حضرت پر وار کئے ، جس نے جس جگہ خنجر مارا تھا خود اس کے اسی جگہ لگا اور حضرت پر خط بھی نہ آیا ۔ جب افاقہ ( Recovered) ہوا دیکھا لوگ زخمی پڑے ہیں ، فرمایا : ’’ میں نہ کہتا تھا کہ میں نہیں کہتا وہ فرماتا ہے جسے فرمانا بجا ہے ‘‘ ، (فتاوی رضویہ ، جلد :۱۴، صفحہ : ۶۶۶ ) ۔آپ بتائیے ! سبحانی ما اعظم شانی ، کہنے والا ’’ پکا ولی ہے ‘‘ ، تو پھر فرعون کا کیا گناہ تھا ؟ ‘‘
مشرکین مکہ اور یہود و نصاری نے اﷲ پاک پر بیٹے اور بیٹیوں کا بہتان باندھا تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ اور انہوں نے اﷲ کے بعض بندوں کو اس کا جز ٹھہرا دیا یقیناًانسان کھلم کھلا نا شکرا ہے ‘‘ ، (الزخرف : ۱۵ ) ۔ ایک اور مقام پر فرمایا : ’’ ان کا قول تو یہ ہے کہ رحمٰن نے بیٹا بنا رکھا ہے ۔ یقیناًتم بہت بری اور بھاری چیز(گھڑ کر ) لائے ہو ۔ قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں ۔ کہ وہ رحمٰن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ۔ شان رحمٰن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے ‘‘ ، (مریم : ۸۸ تا ۹۲ ) ۔
مسلمانو ! تم بھی ؟ آپ نے تو تمام حدیں پار کر دیں کہ کہتے ہو : ’’ لا موجود الا اﷲ : یعنی اﷲ کے سواء کچھ بھی موجود نہیں ہے ‘‘ ۔کیا آپ نے سورۃ المائدۃ کی وہ آیت نہیں پڑھی جس میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ وہ لوگ قطعاََ کافر ہو گئے جنہوں نے کہا ، اﷲ تین میں کا تیسرا ہے ‘‘ ، (المائدۃ : ۷۳ ) ۔ وہ کافر ہیں جو تیں کہیں اور جو ہر چیز کو اﷲ کہہ دے وہ کیا ہے ؟ کیا آپ اﷲ تعالیٰ سے نڈرہو کہ : ’’ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے یا آسمان سے پتھر برسا دے ‘‘ ، کہ تم ہر چیز کو اس کا جز ثابت کرنے چلے ہو ؟ کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا کہ الفرقان میں : ’’ من دون اﷲ ، من دونہ اور غیر اﷲ ‘‘ ، بھی استعمال ہوا ہے ۔ اگر تمام مخلوقات ، خالق کا ہی حصہ تھیں تو پھر اﷲ تعالیٰ نے یہ الفاظ کیوں استعمال کیے ؟
میرے پیارو ! بہت زیادہ تعداد اس باطل عقیدے پر یقین رکھتی ہے ۔ اس کے قائل لوگوں نے بڑی موٹی موٹی کتابیں اس عقیدے کی نشرو اشاعت کے لیے شائع کیں ہیں ۔ ذات میں شرک کے حوالے سے کچھ بنیادی باتیں آپ نے سنیں ، اب ! ان شاء اﷲ چند گزارشات ’’ صفات میں شرک ‘‘ ، کے بارے آپ کے گوش گزار کروں گا ۔
یہ مضمون ’’ حد ہو گئی ! ‘‘ ، ناول سے لیا گیا ہے ۔ مکمل ناول پڑھنے یا پی ڈی ایف ( PDF) ڈون لوڈ کرنے کے لیے لنک پر کلک کریں :
Link1: Link2: http://universalurdupost.com/?p=26262
 

ماسٹر

محفلین
میں نے ایک ہندو سے پوچھا کہ آپ اپنے ہاتھ سے بنائے بتوں کی پوجا کرتے ہیں تو وہ کہنے لگا کہ ہم آپ کو اتنے بےوقوف لگتے ہیں ۔ ہم تو آپ کی طرح خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ آپ قبلہ رخ کرتے ہیں اور ہم مورتی کی طرف رخ کر کے۔
 

x boy

محفلین
بہت زبردست لڑی اور اقتباسات، جوابات ،،،
کافی علم حاصل ہوا، ایک بات کی تو سمجھ سب کوآگئی ہوگی ،،،
نیکی صرف اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی
اطاعت کا نام ہے
صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ تین افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تشریف لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں موجود نہ تھے ۔ انہوں نے پردے کے پیچھے سے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی عبادت کے بارے میں پوچھا ، ان کی خواہش تھی کہ ہماری رات کی عبادت اس کا طریقہ اور اس کا وقت بھی نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ اور وقت کے مطابق ہو ، بالکل ویسے کریں جیسے اللہ کے پیغمبر کیا کرتے تھے ۔
حدیث کے الفاظ ہیں : فلما اخبروا تقالوھا
جب انہیں پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عبادت کے بارے میں بتلایا گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کو تھوڑا سمجھا ۔ پھر خود ہی کہا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام تو وہ برگزیدہ ہستی ہیں جن کے اللہ تعالیٰ نے تمام گناہ معاف کر دئیے ہیں اور ہم چونکہ گناہ گار ہیں لہٰذا ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئیے ۔ چنانچہ تینوں نے کھڑے کھڑے عزم کر لیا ۔

ایک نے کہا میں آج کے بعد رات کو کبھی نہیں سوؤں گا بلکہ پوری رات اللہ کی عبادت کرنے میں گزاروں گا ۔
دوسرے نے کہا میں آج کے بعد ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا ۔
تیسرے نے کہا میں آج کے بعد اپنے گھر نہیں جاؤنگا اپنے گھر بار اور اہل و عیال سے علیحدہ ہو جاؤں گا تا کہ ہمہ وقت مسجد میں رہوں ۔ چنانچہ تینوں یہ بات کہہ کر چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم تشریف لے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ تین افراد آئے تھے اور انہوں نے یوں عزم ظاہر کیا ۔
جب امام الانبیاءنے یہ بات سنی تو حدیث کے الفاظ ہیں : فاحمر وجہ النبی کانما فقع علی وجھہ حب الرمان ” نبی علیہ السلام کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا یوں لگتا تھا گویا سرخ انار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر نچوڑ دیا گیا ہے اتنے غصے کا اظہار فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں کو بلا کر پوچھا کہ تم نے یہ کیا بات کی ؟ کیا کرنے کا ارادہ کیا ؟ پھر نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے اپنا عمل بتایا کہ میں تو رات کو سوتا بھی ہوں اور جاگتا بھی ہوں ، نفلی روزے رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور میرا گھر بار ہے اور میری بیویاں ہیں ۔ میں انہیں وقت بھی دیتا ہوں اور اللہ کے گھر میں بھی آتا ہوں ۔ یہ میرا طریقہ اور سنت ہے جس نے میرے اس طریقے سے اعراض کیا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہ ہے ۔ یعنی جس نے اپنے طریقے پر چلتے ہوئے پوری پوری رات قیام کیا ۔ زمانے بھر کے روزے رکھے اور پوری عمر مسجد میں گزار دی اس کا میرے دین سے میری جماعت سے میری امت سے کوئی تعلق نہ ہو گا ۔ وہ دین اسلام سے خارج ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی محنت کا نام نہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نام نیکی ہے ۔ ایک عمل اس وقت تک ” عمل صالح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تائید اور تصدیق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرمادیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رد کر دیا ۔ کیونکہ وہ عمل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور منہج کے خلاف تھا ۔ یاد رہے کہ کوئی راستہ بظاہر کتنا ہی اچھا لگتا ہو اس وقت تک اس کو اپنانا جائز نہیں جب تک اس کی تصدیق و تائید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرمادیں ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فیصلہ کن قول
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دو باتیں اگر کوئی شخص پہچان لے تو اس نے پورے دین کو پہچان لیا ۔ پورا دین اس کے پاس محفوظ ہوگیا ۔ ایک یہ کہ عبادت کس کی کرنی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے صرف اللہ تعالیٰ کی ، کسی حجر و شجر کی نہیں ، قبے اور مزار کی نہیں اور نہ ہی کسی نبی ، ولی اور فرشتے کی ۔ دوسرا یہ کہ کس طرح کرنی ہے ؟ جیسے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ۔ پس جو شخص ان دو باتوں کو پہچان لے اس نے سارے دین کو پہچان لیا اور یہ پورے دین کی اساس و بنیاد ہے ۔ اس لئے ہمیں اپنا عقیدہ ، عمل ، منہج ، معیشت و معاشرت ، سیاست سمیت دیگر تمام امور اللہ کے رسول کے طریقے کے مطابق بنانا ہوں گے تب اللہ رب العالمین انہیں شرف قبولیت سے نوازیں گے ۔ بصورت دیگر تمام اعمال ، عبادتیں اور ریاضتیں برباد ہو جائیں گی اور کسی عمل کا فائدہ نہ ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
ھل اتاک حدیث الغاشیۃ وجوہ یومئذ خاشعۃ عاملۃ ناصبۃ تصلیٰ ناراً حامیۃ ( الغاشیۃ : 1-4 )
قیامت کے دن بہت سے چہرے ذلیل و رسوا ہونگے ۔ اس لئے نہیں کہ وہ عمل نہیں کرتے تھے ، محبت اور کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ عمل کرتے تھے اور بہت زیادہ کرتے تھے عمل کرتے کرتے تھک جایا کرتے تھے لیکن یہ دھکتی ہوئی جہنم کی آگ کا لقمہ بن جائیں گے ۔ بے تحاشا عمل کرنے والے محنتیں اور ریاضتیں کرنے والے ، صبح و شام سفر کرنے والے جہنم کی آگ کا ایندھن بنیں گے ۔ کیوں ! اس لئے کہ ان کا عمل اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے کے مطابق نہ تھا ۔ قرآن و حدیث کے مطابق نہ تھا ۔ اگر عمل سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو اور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ کو بلا جھجک اور بلا چوں و چراں تسلیم کر لیا جائے تو یہی کامیابی ہے اور یہی ایمان ہے ۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے عقیدے ، عمل اور منہج کو کتاب و سنت کے مطابق بنا دے ۔ تا کہ ہم قرآن و حدیث کو ہی اپنا مرکز اطاعت ٹھہرا لیں ۔ ( آمین )۔
 
Top