امتِ مسلمہ میں شرک

583955888410534
 

الشفاء

لائبریرین
سبحان اللہ والحمد للہ ولا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا بااللہ العلی العظیم۔۔۔
والسلام علیکم۔۔۔:)
 
آیات تو لکھی ہیں مگر
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں والی بات ہے
اور توحید کے یہ اقسام کون سی آیات اور کون سی احادیث سے لیے ہیں ابن تیمیہ سے پہلے کسی ایک صحابی یاتابعی کا قول بتادیں ان اقسام پر....
یا حضور نے کسی کو مسلمان بناتے وقت یہ کہا ہو کہ توحید کی تین قسمیں ہیں ؟؟؟
یہ اقسام بدعت ہے جس کے موجد ابن تیمیہ ہیں
آپ قرآن حديث کی بات کریں فلاں نے کیا کہا یہ ہمارے نزدیک دلیل نہیں ہے اور نہ کوئی رسول اکرم کے علاوہ اس امت میں معصوم ہے ..
جہاں تک شاعری کا سوال ہے تو شعرا کا اپنا انداز اپنا نہج ہوتا ہے اب آپ جب غالب کافر کہے گا اس کافر کو مفتی والا شرعی کافر سے جوڑیں گے تو کیسے کام چلے گا
شخصیات سے زیادہ نظریات پر بات کریں اور اہل کلمہ کے بارے میں اچها گمان رکهیں
اور جن پر آپ نے یہ کفر و شرک کی بارش برسائی ان کے بارے میں بس یہی کہوں گا جو رسول عربی نے کہا تھا
أفلا شققت عن قلبه
تم نے ان کا دل چیر کے کیوں نہیں دیکھ لیا ؟
ان سب اشعار میں تاویل کی کئی صورتیں ہیں بلکہ شاعری کی زبان میں یہ سب الفاظ شرعی دلالت کے حامل نہیں ہوتے
 
عبداللہ امانت محمدی صاحب آپ سے ایک سوال ہے کہ آپ مختصر لفظوں میں شرک کی کیا تعریف کرتے ہیں؟
شرک کی تعریف
اللہ تعالیٰ کی ذات ، صفات یا عبادات میں کسی دوسرے کو شریک کرنا ، مثلا : ’’ ذبح ، نذر و نیاز ، ڈر ، خوف ،اللہ میں سے کسی کو سمجھنا ، مشکل کشا ،داتا،غوث و دستگیر، گنج بخش ، رزق دینے والا ،مصیبت دور کرنے والا، عزت یا ذلت دینے والا ، موت یا زندگی دینے والا، حاجت روا ، غریب نواز یا کسی کی ایسی تعظیم و فرمانبرداری کرنا جیسی اللہ کی کی جاتی ہے شرک کہلاتا ہے ۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
شبیر حسین اور آبی ٹو کول صاحب ! میں نے شرک سے متعلقہ آیات ہی لکھیں ہیں ۔ آپ کو اگر سمجھ نہیں آتا تو اس میں میرا کیا قصور ہے ۔
" بڑی گل دسی ہووے دی جئےآپنے ولوں ہیں جی "
اجی حضور یہ آپ نے کیا کوئی انکشاف فرمایا ہے ؟؟؟ یا پھر معاذ اللہ کیا ان آیات کا نزول آج پہلی بار بطور الہام جناب پر ہواہے ؟؟؟ یا پھر جناب نے ان آیات پر مبنی کوئی گمشدہ مخطوطہ "تلاشا "ہے کہ امت 1400 سوسال سے ان کی تلاش میں سرگرداں تھی اور ماری ماری پھر رہی تھی کہ تکمیل توحید کی آیات مصحف سے غائب ہیں تو جناب نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور داد تحقیق دیتے ہوئے کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھا ؟؟؟
اجی حضور آپکی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ آیات اور مشرکین مکہ کی مذمت میں ورودہ ان جیسی ہی دیگر آیات ازل سے کلام الٰہی کا حصہ ہیں اور امت گذشتہ چودہ سو سال سے انکی تلاوت تواترا کرتی چلی آرہی ہے جبکہ انھی آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کرنے والوں کو بقول امام بخاری علیہ رحمہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے خوارج اور بدترین مخلوق قرار دیا تھا ۔۔۔۔
میرے محترم آیات کونقل کردینا ہی اصل کام نہیں ہوتا ایسے تو ہم سارے کا سارا قرآن پاک اور تمام کی تمام صحاح ستہ یہاں کاپی پیسٹ کرسکتے ہیں مگر اس سے ہوگا کیا ؟ کیا ہمارا دعوٰی اور مؤقف فقط ان آیات کے کاپی پیسٹ دے مارنے سے ہی درست ثابت ہوجائے گا ؟؟؟ نہیں نہیں اور ہرگز نہیں ۔۔۔
میرے چندا اصل بات آیات کا نقل کرنا نہیں بلکہ انھے درست محل استدلال میں پیش کرنا ہوتا ہے اور دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ جس آیت سے جو دعوٰی آپ کررہے ہیں اس سے کس طرح سے آپ استدلال فرما رہے ہیں اور آپ کا استدلال آخر ہے کیا؟؟نیز جو دلیل آپ اثبات "محل استدلال" میں دے رہے ہیں آخراس دلیل میں آپکے دعوٰی کے مطابق " دلیلیت " کیا ہے ؟؟؟ وہ اس لیے حضور کہ جب دعوٰی کے مطابق دلائل دیئے جاتے ہیں تو تجزیہ کرنے کے لیے فقط دلیل نہیں دیکھی جاتی بلکہ اس دلیل کا دلیل ہونا دیکھا جاتا ہے۔ یعنی دلیل کی" دلیلیت " کے دعوٰی کے مطابق مستدل ہونے کو دلالت کی جملہ اقسام کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے تب کہیں جاکر نتیجہ پر پہنچا جاتا ہے۔ فاعتبروا یااولی الابصار۔والسلام
 
آخری تدوین:
شریک کرنے سے آپ کیا مراد لیتے ہیں؟ کیا آپ کا مطلب ہے کہ کسی دوسرے میں وہی صفت تسلیم کی جائے جو اللہ تعالی کی ہے؟
شرک نکلا ہے لفظ "شراکت" سے جس کا مطلب ہے ساجھے داری یا Partnership شریعت میں ،ظاہری اور باطنی عبادات کے کام جیسے ذبح،نذر ونیاز،دعا ڈر،خوف امید اورمحبت، جوصرف اورصرف اللہ کے لیےہونی چاہیے، وہ غیر اللہ کےلیےکی جائیں تو اسے شرک کہتے ہیں، شرک توحید کی مخالفت اور ضد کا نام ہے۔ شرک حقیقت میں یہ ہے کہ :مخلوق کی عبادت کی جائےاوراللہ کی تعظیم کرنے جیسا مخلوق کی تعظیم کی جائے، اللہ کے کاموں میں اللہ کےاسماء اوراللہ کی خاص صفتوں میں غیر اللہ کو شریک کیاجائے،
 
میں آپ کی یاد تازہ کرنے کے لئے ایک مرتبہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیں شرک کے متعلق احادیث لکھنے لگا ہوں، مثلا:
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ میری امت کے کچھ قبیلے بتوں کی پرستش کرنے لگیں گے اور (بت پرستی میں ) مشرکوں سے جاملیں گے ‘‘ ، (ابن ماجہ :۳۹۵۲ ) ۔سیدنا ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ : ’’ میرے پاس میرے رب کا ایک آنے والا (فرشتہ )آیا ۔ اس نے مجھے خوشخبری دی کہ میری امت سے جو کوئی اس حال میں مرے کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اس نے کوئی شریک نہ ٹھہرایا ہوتو وہ جنت میں جائے گا ‘‘ ، (بخاری : ۱۲۳۷ ) ۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ ہر نبی کی ایک دعا قبول کی جاتی ہے ، ہر نبی نے اپنی دعا میں جلدی کی اور میں نے اپنی دعا اپنی امت کی شفاعت کے لیے قیامت والے دن کے لیے چھپا رکھی ہے اور میری دعا ’’ان شاء اﷲ‘‘ ، میری امت میں سے ہر اس آدمی کو پہنچے گی جو اس حالت میں فوت ہوا کہ وہ اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا ‘‘ ، (مسلم:۴۹۱) ۔ سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ۔۔۔اے ابن آدم ! اگر تو روئے زمین کے برابر بھی گناہ لے کر آئے پھر مجھ سے اس حالت میں ملاقات کرے کہ تو میرے ساتھ کچھ بھی شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں روئے زمین کے برابر ہی تجھے مغفرت عطا کر دوں گا‘‘ ، (ترمذی : ۳۳۱۰) ۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اسلام لائے پھر شرک کرے اسلام کے بعد اﷲ تعالیٰ اس کا کوئی عمل قبول نہیں فرماتے یہاں تک کہ شرک کرنے والوں کو چھوڑ کر مسلمانوں میں شامل ہوجائے ‘‘ ، (ابنِ ماجہ :۲۵۳۶ ) ۔ اور سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ سے مروی ہے ، جب سورۃ الانعام کی یہ آیت اتری جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں گناہوں (ظلم ) کی آمیزش نہیں کی ، تو آپ ﷺ کے اصحاب نے کہا یا رسول اﷲ ! ﷺ یہ تو بہت ہی مشکل ہے ۔ ہم میں کون ایسا ہے جس نے گناہ (ظلم ) نہیں کیا ۔ تب ا ﷲ پاک نے سورۃ لقمان کی یہ آیت اتاری ’’ ان الشرک لظلم عظیم ‘‘ ، کہ بیشک شرک بڑا ظلم ہے ‘‘ ، (بخاری :۳۲) ۔
 
شرک نکلا ہے لفظ "شراکت" سے جس کا مطلب ہے ساجھے داری یا Partnership شریعت میں ،ظاہری اور باطنی عبادات کے کام جیسے ذبح،نذر ونیاز،دعا ڈر،خوف امید اورمحبت، جوصرف اورصرف اللہ کے لیےہونی چاہیے، وہ غیر اللہ کےلیےکی جائیں تو اسے شرک کہتے ہیں، شرک توحید کی مخالفت اور ضد کا نام ہے۔ شرک حقیقت میں یہ ہے کہ :مخلوق کی عبادت کی جائےاوراللہ کی تعظیم کرنے جیسا مخلوق کی تعظیم کی جائے، اللہ کے کاموں میں اللہ کےاسماء اوراللہ کی خاص صفتوں میں غیر اللہ کو شریک کیاجائے،
یعنی اللہ تعالی کے سوا کسی اور وہ صفت مانی جائے جو اللہ تعالی کی ہے ۔ آپ کا کہنا یہ ہے کہ ذبح،نذر ونیاز،دعا ڈر،خوف امید اورمحبت، جوصرف اورصرف اللہ کے لیےہونی چاہیے یہ صفات کسی اور میں تسلیم نا کی جائیں۔
لیکن اللہ تبارک و تعالی کی تو اور بھی بہت سی صفات ہیں جیسے دیکھنا، سننا ، بو جاننا، جو اللہ تبارک و تعالی کے سوا دوسری مخلوقات میں پائی جاتی ہیں۔ تو اگر آپ کے کلیے کو درست مان لیا جائے کہ اللہ کی صفات کسی دوسرے میں ماننا شرک ہے تو پھر کوئی بھی شخص شرک سے پاک نہیں رہے گا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
خدا کی صفات لامحدود ہیں۔ یعنی اگر وہ دیکھتا ہے اور انسان بھی دیکھتا ہے تو انسان کا اور اس کا دیکھنا برابر نہیں ہیں۔ وہ سنتا ہے اور انسان سنتا ہے تو انسان کا سننا محدود اور اس کا لامحدود ہے۔ اللہ کی بعض صفات بندوں کے لیے ممنوع ہیں یا ان میں نہیں پائی جاسکتیں جیسے اس کا عبادت کے لائق ہونا اور انسان کا نہ ہونا۔ وہ غرور کرے تو جائز ہے جیسے متکبر اس کا نام ہے اور آپ کریں تو ناجائز ہے کیونکہ آپ کے پاس ایسی کوئی صفت ہی نہیں جس پر غرور کیا جاسکے۔
 
خدا کی صفات لامحدود ہیں۔ یعنی اگر وہ دیکھتا ہے اور انسان بھی دیکھتا ہے تو انسان کا اور اس کا دیکھنا برابر نہیں ہیں۔ وہ سنتا ہے اور انسان سنتا ہے تو انسان کا سننا محدود اور اس کا لامحدود ہے۔
ایک اور فرق اللہ اور بندے کی صفات میں ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کی صفات ذاتی ہیں اور مخلوق کی صفات عطائی ہیں خالق یعنی اللہ تعالی کی عطا کردہ ہیں۔ رب کریم جسے چاہے اپنی صفت محدود عطا کرے کسی کو کیا اعتراض کا حق ہے؟ :)
 
اللہ تبارک و تعالی کی تو اور بھی بہت سی صفات ہیں جیسے دیکھنا، سننا ، بو جاننا، جو اللہ تبارک و تعالی کے سوا دوسری مخلوقات میں پائی جاتی ہیں۔ تو اگر آپ کے کلیے کو درست مان لیا جائے کہ اللہ کی صفات کسی دوسرے میں ماننا شرک ہے تو پھر کوئی بھی شخص شرک سے پاک نہیں رہے گا۔
اللہ تعالیٰ کی بعض صفات ایسی ہیں کہ قرآن پاک میں ان کا اطلاق بندوں پر بھی کیا گیا ہے۔مثلاً:اللہ تعالیٰ سمیع اور بصیر ہے تو انسان کے لیے بھی سمیع اور بصیر کا اطلاق ہوا ہے۔ (۷۶/الدھر:۲)

لیکن اللہ تعالیٰ کا سمیع وبصیر ہونا اس کی شان کے مطابق ہے اور بندے کا سمیع و بصیر ہونا اس کی شان کے لائق ہے۔یعنی بندے کی سماعت و بصارت انتہائی محدود ہے۔کیونکہ بندہ پس پردہ نہ کوئی چیز دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی سن سکتا ہے ،جبکہ اللہ تعالیٰ ایسے عیوب و نقائص سے پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی صراحت فرمائی ہے کہ‘‘اس کی ذات و صفات میں کوئی دوسرا اس جیسا نہیں ہے ۔’’ (۴۲/الشوریٰ:۱۱)
جیسا کہ شاہد شاہنواز بھائی نے بتایا کہ بعض صفات انسانوں کے لیے ممنوع ہیں ، مثال کے طور پر:
ا رشادباری تعالیٰ ہے:‘‘کون ہے جو بے قرار کی پکار سنتا ہے جبکہ وہ اسے پکارتا ہے اور کون اس کی تکلیف کو رفع کرتا ہے اور کون ہے جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور کوئی اللہ بھی ہے۔’’(۲۷/النمل:۶۲)

اس آیت کریمہ سےمعلوم ہوا سب سے بڑا فریاد سننے والا ،یعنی غوث اعظم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے ،عبدالقادر جیلانی نہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:‘‘یقیناًتو ہی بہت بڑی عطا دینے والا ہے۔’’ (۳/آل عمران:۸)

اس آیت کریمہ سے پتا چلتا ہے کہ اللہ ہی سب سے بڑھ کر دینے والا یعنی داتا ہے علی ہجویریؒ داتا نہیں ہیں۔ انہوں نے تو خود اپنی کتاب‘‘کشف المحجوب’’میں اپنے متعلق داتا ہونے کی پرزور الفاظ میں تردید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:‘‘اے لوگو !تم سب اللہ تعالیٰ کے در کےفقیر ہو وہ اللہ تو غنی و حمید ہے۔’’(۳۵/فاطر:۱۵)

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہی غریبوں کو نوازنے والا ہے اس کے علاوہ اور کوئی غریب نواز نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

‘‘اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کسی مشکل میں ڈال دے تو اس کے علاوہ اسے کوئی دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تمہیں کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کوکوئی ہٹانے والا نہیں ۔’’(۱۰/یونس:۱۰۷)

اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ تمام مشکلات حل کرنے والا ،یعنی مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ ہے حضرت علیؓ نہیں ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے بعد ایک دعا پڑھتے تھے جس میں یہی مضمون بیان ہوا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے :‘‘اے اللہ !جسے تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جس سے تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی صاحب حیثیت کو اس کی حیثیت تیرے مقابلے میں نفع نہیں پہنچاسکتی۔’’(صحیح بخاری،کتاب الدعوات:۶۳۳۰)

لیکن بد قسمتی سے ہم تک قوالیوں کے ذریعے پیغام پہنچایا جا رہا ہے کہ انبیاء ؑ اور اولیاء ؒ رازق ہیں ۔ مثلاََ قوالی ہے کہ : ’’ میں سنی عقیدت والا ہوں ، اے تو کیوں مجھ سے جلتا ہے ۔ اک میں کیا سارا زمانہ بھی ، میرے خواجہ کے در پے پلتا ہے ۔ یہاں خواجہ کا سکہ چلتا ہے ، خواجہ کا سکہ چلتا ہے ‘‘ ۔ جبکہ الرحمن فرماتے ہیں : ’’ اور وہ ( مشرک ) اﷲ تعالیٰ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین سے انہیں کچھ بھی روزی نہیں دے سکتے اور نہ کچھ قدرت رکھتے ہیں ‘‘ ، ( النحل : ۷۳ ) ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ : ’’ جس وقت خواجہ نہیں تھا اس وقت سارا زمانہ کس کا دیا کھاتا تھا ؟ ‘‘
لوگ غیراﷲ سے اولادمانگتے ہیں ، مثلاََ : ’’ بابا شاہ جمال پتر دے رتا لال‘‘ ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اﷲ تعالیٰ ہی کے لیے ہے ، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے ۔ یا انہیں جمع کر دیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے ، وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے ‘‘ ، ( الشوری : ۴۹ تا ۵۰ ) ۔
جن کو اﷲ اولاد دے پھر وہ دوسروں کو اﷲ کا شریک کرے ، ان کے بارے میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ وہ اﷲ پاک ایسا ہے جس نے تم کو ایک تن واحد سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کی طرف مائل ہو کر راحت حاصل کرے پھر جب میاں نے بیوی سے قربت کی تو اس کو ہلکا سا حمل رہ گیا ۔ سو وہ اس کو لئے ہوئے چلتی پھرتی رہی ، پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں میاں بیوی اﷲ سے جو ان کا مالک ہے دعا کرنے لگے کہ اگر تو نے ہم کو صحیح سالم اولاد دے دی تو ہم خوب شکر گزاری کریں گے ۔ سو جب اﷲ نے دونوں کو صحیح سالم اولاد دے دی تو اﷲ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اﷲ کے شریک قرار دینے لگے ، سو اﷲ پاک ہے ان کے شرک سے ۔ کیا ایسوں کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہ کر سکیں اور وہ خود ہی پیدا کئے گئے ہوں ۔ اور وہ ان کو کسی قسم کی مدد نہیں دے سکتے اور وہ خود اپنی بھی مدد نہیں کر سکتے ۔ اور اگر تم ان کو کوئی بات بتلانے کو پکارو تو تمہارے کہنے پر نہ چلیں تمہارے اعتبار سے دونوں امر برابر ہیں خواہ تم ان کو پکارو یا تم خاموش رہو ۔ واقعی تم اﷲ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم ہی جیسے بندے ہیں سو تم ان کو پکارو پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا کر دیں اگر تم سچے ہو ۔ کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہوں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ کسی چیز کو تھام سکیں ، یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوں ، یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں آپ کہہ دیجئے ! تم اپنے سب شرکا کو بلا لو ، پھر میری ضرر رسانی کی تدبیر کرو پھر مجھ کو ذرا مہلت مت دو ۔یقیناًمیرا مدد گار اﷲ تعالیٰ ہے جس نے کتاب نازل فرمائی اور وہ نیک بندوں کی مدد کرتا ہے ۔ اور تم جن لوگوں کو اﷲ کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کر سکتے اور نہ وہ اپنی مدد کر سکتے ہیں ۔ اور ان کو اگر کوئی بات بتلانے کو پکارو تو اس کو نہ سنیں اور ان کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں اور وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۸۹ تا ۱۹۸ ) ۔
کہا جاتا ہے کہ : ’’ تقدیر بدلنے والے دا ہے وچ لاہور دے دیرا ‘‘ ۔ جبکہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ آپ ( ﷺ ) کہہ دیجئے کہ تمہارے لیے اﷲ کی طرف سے کسی چیز کا بھی احتیار کون رکھتا ہے ؟ اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو یا تمہیں کوئی نفع دینا چاہے تو ، بلکہ تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اﷲ خوب با خبر ہے ‘‘ ، ( الفتح : ۱۱ ) ۔
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کہتے ہیں ایک دن میں نبی اکرم ﷺ کے پیچھے ( سوار ) تھا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ اے لڑکے میں تجھے چند کلمے سکھاتا ہوں ( جو یہ ہیں ) اﷲ تعالیٰ کے احکام کی حفاظت کر اﷲ تعالیٰ تمہاری حفاظت فرمائے گا ، اﷲ تعالیٰ کو یاد کر تو ، تو اسے اپنے ساتھ پائے گا ، جب سوال کرنا ہو تو صرف اﷲ تعالیٰ سے سوال کر ، جب مدد مانگنا ہو تو صرف اﷲ تعالیٰ سے مانگ ، اور اچھی طرح جان لے کہ اگر سارے لوگ تجھے نفع پہنچانے کے لئے اکٹھے ہو جائیں تو کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکیں گے سوائے اس کے جو اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور اگر سارے لوگ تجھے نقصان پہنچانا چاہیں تو تجھے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے سوائے اس کے جو اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے ، قلم ( تقدیر لکھنے والے ) اٹھا لئے گئے ہیں اور صحیفے جن میں تقدیر لکھی گئی ہے خشک ہو چکے ہیں ‘‘ ، ( ترمذی ) ، ( کتاب التوحید ، ص : ۱۳۴ ) ۔
 

ثاقب عبید

محفلین
شبیر حسین اور آبی ٹو کول صاحب ! میں نے شرک سے متعلقہ آیات ہی لکھیں ہیں ۔ آپ کو اگر سمجھ نہیں آتا تو اس میں میرا کیا قصور ہے ۔

بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے ؟
اف لکم ولما تعبدون من دون اللہ افلا تعقلون *

آپ ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں
گرہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

جس معاشرے میں پھیلی غلط فہمی کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ یا تو بے پر کی اڑائی ہوئی ہے یا پھر کانوں سے سنی ہوئی بات ہے
جس کو ’’معاشرے میں پھیلی غلط فہمی‘‘ کہنا اسے ضرورت سے زیادہ توجہ دینا ہے۔ یہ کوئی مستند عالم دین کا دعوی نہیں ہے۔
کیا آپ تفسیر احسن البیان کا تفسیر ابن کثیر سے اختلاف ملاحظہ نہیں فرمارہے ہیں؟
علمائے سلف خیر سے قریب تر ہیں ان کے موقف کی طرف رجوع کرنا بہتر ہے۔
یہاں کسی نے شرک کی حمایت نہیں کی ہے۔
جس آیت کا حوالہ آپ نے دیا ہے اور اسے حالات حاضرہ پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے اس پر بحث ہے۔
آبی ٹوکول کا انداز جارحانہ سہی مگر ان کا غصہ بجا ہے۔
شبیر حسین تاب نے بھی آپ کو یہ نکتہ سمجھانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔
براہ کرم مزید احادیث کا پلندہ نہ لائیں بلکہ یہ بتائیں کہ کیا آپ تفسیر احسن البیان کے موقف کو امام طبری کے موقف سے زیادہ ’’صحیح‘‘ مانتے ہیں؟ اگر ہاں تو کیوں
 
ا رشادباری تعالیٰ ہے:‘‘کون ہے جو بے قرار کی پکار سنتا ہے جبکہ وہ اسے پکارتا ہے اور کون اس کی تکلیف کو رفع کرتا ہے اور کون ہے جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور کوئی اللہ بھی ہے۔’’(۲۷/النمل:۶۲)

اس آیت کریمہ سےمعلوم ہوا سب سے بڑا فریاد سننے والا ،یعنی غوث اعظم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے ،عبدالقادر جیلانی نہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:‘‘یقیناًتو ہی بہت بڑی عطا دینے والا ہے۔’’ (۳/آل عمران:۸)

اس آیت کریمہ سے پتا چلتا ہے کہ اللہ ہی سب سے بڑھ کر دینے والا یعنی داتا ہے علی ہجویریؒ داتا نہیں ہیں۔ انہوں نے تو خود اپنی کتاب‘‘کشف المحجوب’’میں اپنے متعلق داتا ہونے کی پرزور الفاظ میں تردید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:‘‘اے لوگو !تم سب اللہ تعالیٰ کے در کےفقیر ہو وہ اللہ تو غنی و حمید ہے۔’’(۳۵/فاطر:۱۵)

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہی غریبوں کو نوازنے والا ہے اس کے علاوہ اور کوئی غریب نواز نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

‘‘اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کسی مشکل میں ڈال دے تو اس کے علاوہ اسے کوئی دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تمہیں کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کوکوئی ہٹانے والا نہیں ۔’’(۱۰/یونس:۱۰۷)

اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ تمام مشکلات حل کرنے والا ،یعنی مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ ہے حضرت علیؓ نہیں ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے بعد ایک دعا پڑھتے تھے جس میں یہی مضمون بیان ہوا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے :‘‘اے اللہ !جسے تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جس سے تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی صاحب حیثیت کو اس کی حیثیت تیرے مقابلے میں نفع نہیں پہنچاسکتی۔’’(صحیح بخاری،کتاب الدعوات:۶۳۳۰)
ہر صفت میں ذاتی اور سب سے بڑا بلاشبہ اللہ تبارک و تعالی ہے ۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالی نے فریاد سننے کی طاقت، حاجت روا کرنے، دینے کی، غریبوں کو نوازنے کی طاقت یا صلاحیت کسی اور کی عطانہیں کی :) یقیناً رب عطاکرتا ہے اپنے بندوں کو :)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
شرک سے مراد اللہ کے ساتھ کسی کو شریک سمجھنا ہے۔ (میں "کرنا "اس لیے نہیں لکھ رہا کیونکہ حقیقتا یہ وہ عمل ہے جو کیا نہیں جاسکتا، خدا ایک ہے، اس کا کوئی شریک ہے ہی نہیں)۔ جو بات ناجائز ہے اس کی حمایت کوئی نہیں کرتا۔ ہاں، کسی کو علم نہیں تو الگ بات ہے۔ میں نے ملتان میں خود دیکھا کہ ایک ولی اللہ کے مزار پر ایک عورت سجدہ کرنے لگی تو ساتھ موجود ایک بوڑھی خاتون جو شاید اس کی ماں تھی یا ساس، اس نے اسے روک لیا۔ دیگر لوگ بھی اس کے خلاف تھے۔ سجدہ صرف اللہ کو جائز ہے۔ اس بات پر امت کا اجماع ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ امت کے بہت سے فرقے ہیں اور ان میں سے صرف ایک ہی حق پر ہے جو تعداد میں سب سے زیادہ ہے۔ فرقے بنتے اس وجہ سے ہیں کہ بہت عرصے سے رائج ایک اصول کے خلاف جو کہ درست ہوتا ہے، کوئی شخص اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ وہ غلط ہے یا اس میں فلاں سقم ہے۔ اب جو لوگ اس کی اتباع کرتے ہیں وہ محض دلیل کو جائز سمجھتے ہوئے اس کا ساتھ دے رہے ہوتے ہیں۔ یوں ایک نیا فرقہ جنم لے لیتا ہے۔ بھیڑیا اسی بھیڑ کو ہمیشہ اپنا نشانہ بناتا ہے جو پورے ریوڑ سے الگ ہو کر چل رہی ہو۔ یہی ایسے شخص اور اس کی اتباع کرنے والوں کا حال ہوتا ہے۔
جتنے بھی لوگ مسلمان ہیں، ان کو علم ہونا چاہئے کہ کفریہ اور شرکیہ باتیں کون سی ہیں۔ ان سے بچیں۔ لیکن عام امت کو مشرک اور کافر سمجھنا ہی وہ رویہ ہے جس کی بنیاد پر دہشت گردی اور شدت پسندانہ سوچ جنم لیتی ہے۔ اسلام نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ کفر کی مخالفت کی جائے اور کافر کے خلاف جہاد کیا جائے۔ لیکن جہاد سے مراد قتال اور صرف قتال ہے، یہ سوچ غلط ہے۔ پہلے آپ کو اپنا کردار دوسروں کے سامنے پیش کرنا ہے کہ آپ کتنے بڑے موحد اور خدا پرست ہیں۔ جس چیز کو شرک قرار دیتے ہیں، خود اس سے کتنا بچتے ہیں۔ اگر میں سنی ہوں تو تمام شیعہ لوگ کافر اور بت پرست ہیں یا میں بریلوی ہوں تو تمام دیوبندی کافر ہیں، یہ سوچ ذہن میں پیدا ہوسکتی ہے اور اس کا پیدا ہونا منطقی ہے کیونکہ اگر آپ درست ہیں تو وہ کیسے درست ہوسکتے ہیں جو آپ سے مختلف راستہ اختیار کرتے ہیں اگر درست ہیں تو آپ کو بھی ان ہی کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ اگر نہیں کرتے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ ان کو غلط سمجھتے ہیں۔ صراطِ مستقیم تو ایک ہی ہے۔ الگ الگ راہوں پر چلنے والے تمام ہی لوگ درست کیسے ہوسکتے ہیں؟ لیکن اگر وہ غلط ہیں تو اس کا مطلب یہ بھی نہ لیجئے کہ وہ کافر ہیں۔ ان کے اور آپ کے عقیدے میں فرق ہے اور جینے کا اختیار اگر اللہ نے ان کو عطا کیا ہے تو آپ ان سے یہ چھین نہیں سکتے۔ وہ جنت میں جائیں گے یا جہنم میں، یہ معاملہ اللہ پر چھوڑ دیجئے۔ جہاد کرنا ہی ہے تو معاشرے میں موجود برائیوں کے خلاف کیجئے۔ تعلیم کو عام کیجئے جس کی ہم میں اتنی کمی ہے کہ ڈگریاں ساتھ لیے لیے پھرنے کے باوجود بھی ہم نہ اردو ٹھیک بول سکتے ہیں نہ انگریزی۔ ہمیں ایک ایسے سسٹم میں جکڑ دیا گیا ہے جہاں سے سیدھی راہ کون سی ہے یہ تمیز ہی مشکل ہوجاتی ہے۔ جہاد کرنا ہی ہے تو اس سسٹم کے خلاف کیجئے۔ عام لوگوں کو مشرک اور کافر کہہ کر ان کے خلاف جہاد کرنا بنیادی طور پر غریبوں پر تلوار اٹھانے کی طرح ایک قابل نفرت بات ہے۔ طاقتور کو درست نہیں کریں گے تو کمزور درست نہیں ہوسکتے اور برائی کا راستہ نہیں روکا جاسکتا۔ دلائل سے بات تو ایک کافر بھی ثابت کرسکتا ہے۔ اسلام نے کردار کو دلیل قرار دیا ہے اور وہ آج کہیں نظر نہیں آتا۔ اس دلیل کو دعوتِ تبلیغ کا ذریعہ بنائیے۔ جہاں شمع جلتی ہے پروانے خودبخود اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ آپ درست طریقے سے ہدایت دینا شروع کیجئے، ہدایت کےمتلاشی آپ کے اردگرد جمع ہوجائیں گے۔ امن پسندی اور صلح جوئی اسلام کا طریقہ ہے۔ اگر اسلام تلوار سے پھیلا ہوتا تو آج ہم کردار کی بجائے ہتھیار کی دلیلیں دے رہے ہوتے اور ان کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوتی۔
 
تفسيرقول الله تعالى:{ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } 106: يوسف
قال الإمام الطبري –رحمه الله- في تفسيرها:القول في تأويل قوله تعالى :{ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ }
قال أبو جعفر: يقول تعالى ذكره: وما يُقِرُّ أكثر هؤلاء = الذين وصَفَ عز وجل صفتهم بقوله وكأين من آية في السموات والأرض يمرُّون عليها وهم عنها معرضون ) = بالله أنه خالقه ورازقه وخالق كل شيء =( إلا وهم مشركون )، في عبادتهم الأوثان والأصنام ، واتخاذهم من دونه أربابًا ، وزعمهم أنَّ له ولدًا ، تعالى الله عما يقولون.
* * *
وبنحو الذي قلنا في ذلك قال أهل التأويل .
* ذكر من قال ذلك:
حدثنا ابن وكيع ، قال: حدثنا عمران بن عيينة ، عن عطاء بن السائب ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس وما يؤمن أكثرهم بالله ) الآية ، قال: من إيمانهم، إذا قيل لهم: مَن خلق السماء؟ ومن خلق الأرض؟ ومن خلق الجبال؟ قالوا: الله . وهم مشركون.
حدثنا هناد ، قال: حدثنا أبو الأحوص ، عن سماك ، عن عكرمة ، في قوله وما يؤمن أكثرهم بالله إلا وهم مشركون ) ، قال: تسألهم: مَن خلقهم؟ ومن خلق السماوات والأرض ، فيقولون: الله . فذلك إيمانهم بالله ، وهم يعبدون غيره.
حدثنا أبو كريب ، قال: حدثنا وكيع ، عن إسرائيل ، عن جابر ، عن عامر، وعكرمة وما يؤمن أكثرهم بالله ) الآية ، قالا يعلمون أنه ربُّهم ، وأنه خلقهم ، وهم يشركون به.قال ابن كثير-رحمه الله- في تفسيره للآية:وقوله:{ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ }قال ابن عباس: من إيمانهم، إذا قيل لهم: من خلق السموات؟ ومن خلق الأرض؟ ومن خلق الجبال؟ قالوا: "الله"، وهم مشركون به. وكذا قال مجاهد، وعطاء وعكرمة، والشعبي، وقتادة، والضحاك، وعبد الرحمن بن زيد بن أسلم.
وهكذا في الصحيحين (2) أن المشركين كانوا يقولون في تلبيتهم: لبيك لا شريك لك، إلا شريكًا هو لك، تملكه وما ملك. وفي الصحيح: أنهم كانوا إذا قالوا: "لبيك لا شريك لك" يقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: "قَدْ قَدْ"، أي حَسْبُ حَسْبُ، لا تزيدوا على هذا (3) .
وقال الله تعالى: { إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ } [لقمان: 13] وهذا هو الشرك الأعظم الذي يعبد مع الله غيره، كما في الصحيحين. عن ابن مسعود قلت: يا رسول الله، أيّ الذنب أعظم؟ قال
: "أن تجعل لله ندا وهو خَلَقَك" (4) .
وقال الحسن البصري في قوله: { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } قال: ذلك المنافق يعمل إذا عمل رياء الناس، وهو مشرك بعمله ذاك، يعني قوله تعالى: { إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلاةِ قَامُوا كُسَالَى يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلا قَلِيلا } [النساء: 142].
وثمَّ شرك آخر خفي لا يشعر به غالبًا فاعله، كما روى حماد بن سلمة، عن عاصم بن أبي النَّجُود، عن عُرْوَة قال: دخل حذيفة على مريض، فرأى في عضده سيرًا فقطعه -أو: انتزعه -ثم قال:{ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ }
قال العلامة السعدي –رحمه الله-في تفسير الآية:{ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } فهم وإن أقروا بربوبية الله تعالى، وأنه الخالق الرازق المدبر لجميع الأمور، فإنهم يشركون في ألوهية الله وتوحيده، فهؤلاء الذين وصلوا إلى هذه الحال لم يبق عليهم إلا أن يحل بهم العذاب، ويفجأهم العقاب وهم آمنون، ولهذا قال:
{ أَفَأَمِنُوا } أي: الفاعلون لتلك الأفعال، المعرضون عن آيات الله { أَنْ تَأْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ } أي: عذاب يغشاهم ويعمهم ويستأصلهم، { أَوْ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً } أي: فجأة { وَهُمْ لا يَشْعُرُونَ } أي: فإنهم قد استوجبوا لذلك، فليتوبوا إلى الله، ويتركوا ما يكون سببا في عقابهم.وقال العلامة الشنقيطي-رحمه الله- في تفسير الآية:
قال ابن عباس ، والحسن ، ومجاهد ، وعامر والشعبي ، وأكثر المفسرين : إن معنى هذه الآية أن أكثر الناس ، وهم الكفار ما كانوا يؤمنون بالله بتوحيدهم له في ربوبيته إلا وهم مشركون به غيره في عبادته .
فالمراد بإيمانهم اعترافهم بأنه ربهم الذي هو خالقهم ومدبر شؤونهم ، والمراد بشركهم عبادتهم غيره معه ، والآيات الدالة على هذا المعنىكثيرة جداً ، كقوله : { قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السمآء والأرض أَمَّن يَمْلِكُ السمع والأبصار وَمَن يُخْرِجُ الحي مِنَ الميت وَيُخْرِجُ الميت مِنَ الحي وَمَن يُدَبِّرُ الأمر فَسَيَقُولُونَ الله فَقُلْ أَفَلاَ تَتَّقُونَ } [ يونس : 31 ] ، وكقوله : { وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ الله فأنى يُؤْفَكُونَ } [ الزخرف : 87 ] ، وقوله : { وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السماوات والأرض لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ العزيز العليم } [ الزخرف : 9 ] ، وقوله : { وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السماوات والأرض وَسَخَّرَ الشمس والقمر لَيَقُولُنَّ الله فأنى يُؤْفَكُونَ } [ العنكبوت : 61 ] ، وقوله { وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ مَّن نَّزَّلَ مِنَ السمآء مَآءً فَأَحْيَا بِهِ الأرض مِن بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ الله قُلِ الحمد لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ } [ العنكبوت : 63 ] ، وقوله { قُل لِّمَنِ الأرض وَمَن فِيهَآ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلاَ تَذَكَّرُونَ قُلْ مَن رَّبُّ السماوات السبع وَرَبُّ العرش العظيم سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلاَ تَتَّقُونَ قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجْيِرُ وَلاَ يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ فأنى تُسْحَرُونَ } [ المؤمنون : 84 - 89 ] إلى غير ذلك من الآيات .
ومع هذا فإنهم قالوا : { أَجَعَلَ الآلهة إلها وَاحِداً إِنَّ هذا لَشَيْءٌ عُجَابٌ } [ ص : 5 ] .
وهذه الآيات القرآنية تدل على ان توحيد الربوبية لا ينقذ من الكفر إلا إذا كان معه توحيد العبادة ، أي عبادة الله وحده لا شريك له ، ويدل لذلك قوله تعالى : { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بالله إِلاَّ وَهُمْ مُّشْرِكُونَ } .
وفي هذه الآية الكريمة إشكال : وهو أن المقرر في علم البلاغة أن الحال قيد لعاملها وصف لصاحبها وعليه . فإن عامل هذه الجلمة الحالية الذي هو يؤمن مقيد بها ، فيصير المعنى تقييد إيمانهم بكونهم مشركين ، وهو مشكل لما بين الإيمان والشرك من المنافاة .

قال مقيدة - عفا الله عنه :
لم ار من شفى الغليل في هذا الإشكال ، والذي يظهر لي - والله تعالى أعلم - أن هذا الإيمان المقيد بحال الشرك إنما هو إيمان لغوي لا شرعي . لأن من يعبد مع الله غيره لا يصدق عليه اسم الإيمان ألبتة شرعاً . أما الإيمان اللغوي فهو يشمل كل تصديق ، فتصديق الكافر بأن الله هو الخالق الرزاق يصدق عليه اسم الإيمان لغة مع كفره بالله ، ولا يصدق عليه اسم الإيمان شرعاً .
وإذا حققت ذلك علمت أن الإيمان اللغوي يجامع الشرك فلا إشكال في تقييده به ، وكذلك الإسلام الموجود دون الإيمان في قوله تعالى : { قُل لَّمْ تُؤْمِنُواْ ولكن قولوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الإيمان فِي قُلُوبِكُمْ } [ الحجرات : 14 ] فهو الإسلام اللغوي . لأن الإسلام الشرعي لا يوجد ممن لم يدخل الإيمان في قلبه ، والعلم عند الله تعالى .

وقال بعض العلماء : « نزلت آية { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بالله إِلاَّ وَهُمْ مُّشْرِكُونَ }في قوله الكفار في تلبيتهم : لبيك لا شريك لك إلا شريكاً هو لك تملكه وما ملك » وهو راجع إلى ما ذكرنا .كلام نفيس لشيخ الاسلام ابن تيمية-رحمه الله-:فَإِنْ اعْتَرَفَ الْعَبْدُ أَنَّ اللَّهَ رَبُّهُ وَخَالِقُهُ ؛ وَأَنَّهُ مُفْتَقِرٌ إلَيْهِ مُحْتَاجٌ إلَيْهِ عَرَفَ الْعُبُودِيَّةَ الْمُتَعَلِّقَةَ بِرُبُوبِيَّةِ اللَّهِ وَهَذَا الْعَبْدُ يَسْأَلُ رَبَّهُ فَيَتَضَرَّعُ إلَيْهِ وَيَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ لَكِنْ قَدْ يُطِيعُ أَمْرَهُ ؛ وَقَدْ يَعْصِيهِ وَقَدْ يَعْبُدُهُ مَعَ ذَلِكَ ؛ وَقَدْ يَعْبُدُ الشَّيْطَانَ وَالْأَصْنَامَ . وَمِثْلُ هَذِهِ الْعُبُودِيَّةِ لَا تُفَرِّقُ بَيْنَ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَلَا يَصِيرُ بِهَا الرَّجُلُ مُؤْمِنًا . كَمَا قَالَ تَعَالَى : { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } فَإِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا يُقِرُّونَ أَنَّ اللَّهَ خَالِقُهُمْ وَرَازِقُهُمْ وَهُمْ يَعْبُدُونَ غَيْرَهُ قَالَ تَعَالَى : { وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ } وَقَالَ تَعَالَى : { قُلْ لِمَنِ الْأَرْضُ وَمَنْ فِيهَا إنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ } { سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ } إلَى قَوْلِهِ : { قُلْ فَأَنَّى تُسْحَرُونَ } وَكَثِيرٌ مِمَّنْ يَتَكَلَّمُ فِي الْحَقِيقَةِ وَيَشْهَدُهَا يَشْهَدُ هَذِهِ الْحَقِيقَةَ وَهِيَ " الْحَقِيقَةُ الْكَوْنِيَّةُ " الَّتِي يَشْتَرِكُ فِيهَا وَفِي شُهُودِهَا وَمَعْرِفَتِهَا الْمُؤْمِنُ وَالْكَافِرُ وَالْبَرُّ وَالْفَاجِرُ وَإِبْلِيسُ مُعْتَرِفٌ بِهَذِهِ الْحَقِيقَةِ ؛ وَأَهْلُ النَّارِ .

ربط


ما شأاللہ!!!!! بہت خوب آبی ٹو کول صاحب۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
میں آپ کی یاد تازہ کرنے کے لئے ایک مرتبہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیں شرک کے متعلق احادیث لکھنے لگا ہوں، مثلا:
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ میری امت کے کچھ قبیلے بتوں کی پرستش کرنے لگیں گے اور (بت پرستی میں ) مشرکوں سے جاملیں گے ‘‘ ، (ابن ماجہ :۳۹۵۲ ) ۔۔
السلام علیکم معزز قارئین کرام !
مسلمانوں کو مشرک قرار دینے کے شوق میں مبتلا حضرات کی پہلی قرآنی دلیل کا حال تو اوپر آپ نے" امہات التفاسیر" کے حوالہ سے ملاحظہ فرمالیا اب آتے ہیں موصوف کی پیش کردہ سب سے پہلی روایت سنن ابن ماجہ کی طرف سب سے پہلے سنن ابن ماجہ سے اس روایت کا مکمل متن بمع سند پیش خدمت ہے ۔۔۔
3952 حدثنا هشام بن عمار حدثنا محمد بن شعيب بن شابور حدثنا سعيد بن بشير عن قتادة أنه حدثهم عن أبي قلابة الجرمي عبد الله بن زيد عن أبي أسماء الرحبي عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال زويت لي الأرض حتى رأيت مشارقها ومغاربها وأعطيت الكنزين الأصفر أو الأحمر والأبيض يعني الذهب والفضة وقيل لي إن ملكك إلى حيث زوي لك وإني سألت الله عز وجل ثلاثا أن لا يسلط على أمتي جوعا فيهلكهم به عامة وأن لا يلبسهم شيعا ويذيق بعضهم بأس بعض وإنه قيل لي إذا قضيت قضاء فلا مرد له وإني لن أسلط على أمتك جوعا فيهلكهم فيه ولن أجمع عليهم من بين أقطارها حتى يفني بعضهم بعضا ويقتل بعضهم بعضا وإذا وضع السيف في أمتي فلن يرفع عنهم إلى يوم القيامة وإن مما أتخوف على أمتي أئمة مضلين وستعبد قبائل من أمتي الأوثان وستلحق قبائل من أمتي بالمشركين وإن بين يدي الساعة دجالين كذابين قريبا من ثلاثين كلهم يزعم أنه نبي ولن تزال طائفة من أمتي على الحق منصورين لا يضرهم من خالفهم حتى يأتي أمر الله عز وجل قال أبو الحسن لما فرغ أبو عبد الله من هذا الحديث قال ما أهوله ۔۔
مفھوم:ہشام بن عمار، محمد بن شعیب بن شابو ر، سعید بن بشیر، قتادہ، ابو قلابہ، عبد اللہ بن زید، ابو اسماء، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا زمین میرے لئے سمیٹ دی گئی یہاں تک کہ میں نے زمین کے مشرق و مغرب کو دیکھ لیا اور مجھے دونوں خزانے (یا سرخ) اور سفید یعنی سونا اور چاندی دیئے گئے اور مجھے کہا گیا کہ تمہاری (امت کی) سلطنت وہی تک ہو گی جہاں تک تمہارے لئے زمین سمیٹی گئی اور میں نے اللہ سے تین دعائیں مانگیں اول یہ کہ میری امت پر قحط نہ آئے کہ جس سے اکثر امت ہلاک ہو جائے دوم یہ کہ میری امت فرقوں اور گروہوں میں نہ بٹے اور (سوم یہ کہ) ان کی طاقت ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہو (یعنی باہم کشت و قتال نہ کریں ) مجھے ارشاد ہوا کہ جب میں (اللہ تعالی) کوئی فیصلہ کر لیتا ہوں تو کوئی اسے رد نہیں کر سکتا میں تمہاری امت پر ایسا قحط ہرگز مسلط نہ کروں گا جس میں سب یا (اکثر) ہلاکت کا شکار ہو جائیں اور میں تمہاری امت پر اطراف و اکناف ارض سے تمام دشمن اکٹھے نہ ہونے دوں گا یہاں تک کہ یہ آپس میں نہ لڑیں اور ایک دوسرے کو قتل کریں اور جب میری امت میں تلوار چلے گی تو قیامت تک رکے گی نہیں اور مجھے اپنی امت کے متعلق سب سے زیادہ خوف گمراہ کرنے والے حکمرانوں سے ہے اور عنقریب میری امت کے کچھ قبیلے بتوں کی پرستش کرنے لگیں گے اور (بت پرستی میں ) مشرکوں سے جا ملیں گے اور قیامت کے قریب تقریباً جھوٹے اور دجال ہوں گے ان میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے اور میری امت میں ایک طبقہ مسلسل حق پر قائم رہے گا ان کی مد د ہوتی رہے گی (منجانب اللہ) کہ ان کے مخالف ان کا نقصان نہ کر سکیں گے (کہ بالکل ہی ختم کر دیں عارضی شکست اس کے منافی نہیں ) یہاں تک کہ قیامت آ جائے امام ابو الحسن (تلمیذ ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ جب امام ابن ماجہ اس حدیث کو بیان کر کے فارغ ہوئے تو فرمایا یہ حدیث کتنی ہولناک ہے۔۔۔



سنن ابن ماجہ کی یہ طویل روایت ہے روایت کہ متن پر درایتا کلام کرنے سے پہلے ہم اسکی سند کا حال بیان کردیتے ہیں۔۔۔ اس روایت میں ایک راوی سعید بن بشیر ہیں آئیے درج ذیل مین دیکھتے ہین کہ فن جرح تعدیل کے علماء انکے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ۔۔
یہ طبقہ راوۃ میں سے آٹھویں طبقہ کہ راوی ہیں کی جنکی عمومی تعریف ضعیف کہہ کرائی جاتی ہے۔۔۔
جبکہ امام بو أحمد الحاكم کے نزدیک یہليس بالقوي ہیں۔
امام جرجانی انکا تعارف۔۔۔يهم في الشيء بعد الشيء ويغلط والغالب على حديثه الاستقامة والغالب عليه الصدق کہہ کر کرواتے ہیں
أبو بكر البيهقي کے نزدیک یہ ضعیف ہیں۔

امام ابو حاتم الرازی کے نزدیک ان سے حدیث لکھنا تو جائز مگر احتجاج کرنا درست نہیں چناچہ وہ فرماتے ہیں۔۔محله الصدق، يكتب حديثه ولا يحتج به۔
أبو حاتم بن حبان البستي فرماتے ہین ۔۔۔رديء الحفظ فاحش الخطأ يروي عن قتادة مالا يتابع عليه وعن عمرو بن دينار ما ليس يعرف من حديثه


امام ابو داؤد السجستانی کے نزدیک بھی ضعیف ہیں۔۔
جبکہ امام أبو زرعة الرازي کی رائے بھی امام ابو حاتم والی ہے یعنی انکی رایات سے احتجاج نہیں کیا جائے گا ۔۔

أحمد بن حنبل کی رائے : ضعف أمره، ومرة: أنتم أعلم به
جبکہ
أحمد بن شعيب النسائي کے نزدیک بھی ضعيف
ابن حجر العسقلاني کے نزدیک بھی ضعيف
اور الدارقطني کے نزدیک ليس بالقوي في الحديث ہیں
جبکہ دیگر الفاظ جرح و تعدیل دیگر ائمہ سے ذیل مین ہیں ۔۔

دحيم الدمشقيي ضعفونه، ومرة: وثقه وقال: كان مشيختنا يقولون: هو ثقة، لم يكن قدريا
زكريا بن يحيى الساج يحدث عن قتادة بمناكير
سعيد بن عبد العزيز التنوخي : خذ عنه التفسير ودع ما سوى ذلك فإنه كان حاطب ليل، ومرة: تكلم فيه الناس، ومرة: صدق بث هذا يرحمك الله في جندنا فإن الناس عندنا كأنهم ينتقصونه
سفيان بن عيينة :حافظ
شعبة بن الحجاج: صدوق الحديث، ومرة: صدوق اللسان، ومرة: ثقة
عبد الأعلى بن مسهر الغساني : ضعيف منكر الحديث
عبد الرحمن بن مهدي :حدث عنه ثم تركه
علي بن المديني: كان ضعيفا
عمرو بن علي الفلاس : كان يحدث عنه ثم تركه

محمد بن إسماعيل البخاري يتكلمون في حفظه، وهو يحتمل، نراه الدمشقي
محمد بن سعد كاتب الواقدي :قدري
محمد بن عبد الله بن نمير : منكر الحديث ليس بشيء ليس بقوي الحديث
محمد بن عثمان التنوخي : قيل له كان سعيد بن بشير قدريا قال معاذ الله
جبکہ امام جرح و تعدیل امام يحيى بن معين فرماتے ہیں :من رواية عباس قال: ليس بشيء، ومن رواية عثمان بن سعيد قال: ضعيف، وفي رواية ابن محرز، قال: عنده أحاديث غرائب، عن قتادة، وليس حديثه بكل ذاك قيل له: سمع من قتادة بالبصرة ؟ قال: فأين


یہ تو تھی سند کی حیثیت جس میں ائمہ کبھی "ضعیف "کبھی "کثیر الخطا "کبھی "وہمی" یعنی ایک روایت کے الفاظ دوسری میں ملادینے والا کبھی" لیس بالقوی" کبھی" حاطب لیل " یعنی اندھیرے میں لکڑیاں اکھٹی کرنے والا کبھی" لیس بشئی"اور کبھی اسکی روایت سے احتجاج نہ کرنے کا حکم دیتے ہیں حتٰی کے" منکر حدیث" جیسے الفاظ جرح سے بھی ان پر جرح ثابت ہے۔
توثابت ہوا کہ ایک ایسی روایت سے ہمارے موصوف ایک ایسے اصولی مسئلہ کا استنباط فرمارہے کہ جس مسئلہ یعنی (کفر و شرک کے اطلاق) میں استدلال کے لیے دلائل قطعیہ درکار ہوں انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
یعنی ائمہ جرح و تعدیل تو عام مسائل فقیہہ میں بھی ان سے استدلال کو" يكتب حديثه ولا يحتج به" کہہ کر ناجائز ٹھراتے ہوں جبکہ ہمارے موصوف ان سے ایک اصولی مسئلہ میں استدلال فرمارہے ہیں فیال للعجب ۔
معزز قارئین کرام اس روایت کی سند پر مختصر بحث کے بعد اب آئیے اسکے متن کا خود روایت کے سیاق و سباق کی روشنی میں انتہائی مختصر جائزہ لیتے ہیں ۔۔
یہ ایک طویل روایت ہے کہ جسے امام ابن ماجہ نے اپنی " سنن ابن ماجه» كتاب الفتن» باب ما يكون من الفتن" میں روایت کیا ہے ۔ جبکہ روایت شروع ہورہی ہے ان الفاظ کے ساتھ یعنی ۔۔۔۔۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا زمین میرے لئے سمیٹ دی گئی یہاں تک کہ میں نے زمین کے مشرق و مغرب کو دیکھ لیا اور مجھے دونوں خزانے (یا سرخ) اور سفید یعنی سونا اور چاندی دیئے گئے (روم کا سکہ سونے کا اور ایران کا چاندی کا ہوتا تھا) اور مجھے کہا گیا کہ تمہاری (امت کی) سلطنت وہی تک ہو گی جہاں تک تمہارے لئے زمین سمیٹی گئی اور میں نے اللہ سے تین دعائیں مانگیں اول یہ کہ میری امت پر قحط نہ آئے کہ جس سے اکثر امت ہلاک ہو جائے دوم یہ کہ میری امت فرقوں اور گروہوں میں نہ بٹے اور (سوم یہ کہ) ان کی طاقت ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہو۔۔۔۔۔۔
یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو انکی امت اور انکی حکومت دکھائی گئی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خدشات تھے انھے دعا کی صورت میں اللہ جد مجدہ کے حضور پیش فرمادیا جن میں سے پہلا خدشہ قحط سے امت کی مجموعی ہلاکت پر تھا دوسرا امت کا تفرقے میں نہ پڑنے کا تھا جبکہ تیسرا امت کے آپسی باہمی قتال پر تھا ۔۔ اب سوال یہ پیدا ہوا ہوتا کہ جس شرک کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے مٹانے کے لئے آئے تھے اور جس کا خطرہ" ہمارے ممدوح" کو امت پر سب سے زیادہ ہے چاہیے تو تھا کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی قرآن پاک کے مقرر کردہ اس سب سے بڑئے گناہ اور ناقابل معافی جرم یعنی شرک سے برات کی امت کے لیے دعا فرماتے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس حوالہ سے امت سے مطمئن ہیں چناچہ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے بڑئے گناہ (شرک)جس کا تعلق دنیا اور آخرت ہر دو سے ہےاور جو ظلم عظیم بھی ہے، میں امت کے ملوث ہونے کے خطرہ کی بجائے جن تین ممکنہ خطرات سے بچاؤ کی دعا فرمائی ان کا تعلق دنیا میں رہتے ہوئے امت کی ظاہری شان و شوکت و اتحادو اتفاق سے تھا۔ یعنی اول امت کی ہلاکت بذریعہ قحط دوم امت کی شیرازہ بندی کا فرقہ بندی سے نقصان اور سوم ان سب کے نتیجہ میں امت کے باہمی جدا ل و قتال کی صورت میں امت کا کمزور سے کمزور ترین ہوجانے کا خطرہ تھا ۔
حیرت ہے صحیحین کی روایت کے مفھوم کے مطابق تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم احد کے شہدا پر دعا فرمانے کے بعد علی الاعلان یہ فرمائیں کہ انھے امت کے شرک ملوث ہوجانے کا کوئی خطرہ نہیں بلکہ حب دنیا میں گرفتار ہونے کا خطرہ ہے۔
لیکن ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیا ہے کہ جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ امت کی بابت معاذاللہ علم ہے اور نام نہاد خدشہ شرک ہمہ وقت لاحق رہتاہے ۔
معزز قارئین کرام اسی روایت کو دیگر ائمہ نے بھی مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے کہ جن میں سے چند روایات میں امت کے مشرکین قبائل سے مل جانے اور اوثان کی عبادت کرنےکے شرک والا مفھوم بیان ہی نہیں ہوا جیسے سنن ترمذی کی یہ روایت ۔۔حدثنا قتيبة حدثنا حماد بن زيد عن أيوب عن أبي قلابة عن أبي أسماء الرحبي عن ثوبان قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله زوى لي الأرض فرأيت مشارقها ومغاربها وإن أمتي سيبلغ ملكها ما زوي لي منها وأعطيت الكنزين الأحمر والأبيض وإني سألت ربي لأمتي أن لا يهلكها بسنة عامة وأن لا يسلط عليهم عدوا من سوى أنفسهم فيستبيح بيضتهم وإن ربي قال يا محمد إني إذا قضيت قضاء فإنه لا يرد وإني أعطيتك لأمتك أن لا أهلكهم بسنة عامة وأن لا أسلط عليهم عدوا من سوى أنفسهم فيستبيح بيضتهم ولو اجتمع عليهم من بأقطارها أو قال من بين أقطارها حتى يكون بعضهم يهلك بعضا ويسبي بعضهم بعضا ۔۔۔۔۔۔
جبکہ ابوداؤد کی اس سے ملتی جلتی ایک روایت میں قبائل کی بت پرستی کا ذکر ہوا ہے مگر اسکی شرح عون المعبود میں احمد شمس الحق العظيم آبادي نے اس روایت کے ان الفاظ یعنی ۔۔۔

۔۔۔۔ولا تقوم الساعة حتى تلحق قبائل من أمتي بالمشركين وحتى تعبد قبائل من أمتي الأوثان ۔ ۔۔ ۔ ۔ کی شرح درج ذیل الفاظ کے تحت فرمائی ہے ۔۔
( بالمشركين ) :منها ما وقع بعد وفاته صلى الله عليه وسلم في خلافة الصديق رضي الله عنه ( الأوثان ) : أي الأصنام حقيقة
یعنی قبائل کا مرتد ہوکر مشرکین سے مل جانے کا یہ وقوعہ خلافت صدیق میں انجام پا چکا ۔۔


معززقارئین کرام یہ تو تھی اس روایت پر مختصر ترین بحث کہ جس سے یہ ثابت ہوا کہ اولا روایت ضعیف ہے دوم عقیدہ جیسے قطعی الدلالۃ اور قطعی الثبوت موضوع پر اس قسم کی ضعیف خبر واحد سے استدلال ہرگز درست نہیں جبکہ برسبیل تنزل اگر روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو تب بھی یہ خبر واحد ہےچناچہ توحید و شرک کی بحث میں اس سے ضمنی استدلال تو درست ہوسکتا ہے مگر حتمی نہیں۔
یعنی اسے اپنے موقف کے حق میں ضمنی طور پر" سپورٹیو" دلائل کی صورت میں پیش کیا جاسکتا ہے وہ بھی درایتا صحت متن کی روشنی میں ۔ جبکہ متن سے استدلال کا حال تو ہم اوپر قرآن وسنت اور عقلی دلائل کی روشنی میں خوب واضح کرچکے ۔۔۔فاعتبروایااولی الابصار ۔ ۔والسلام
 

دیوان

محفلین
تمہید
قرآن کریم نے جتنا زور توحید کے اثبات اور شریک کی تردید پر دیا ہے اتنا زور کسی دوسرے مسئلے پر نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے:
ان الشرک لظلم عظیم (لقمان: 13)
یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
قرآن پاک بتاتا ہے کہ تمام انبیا کی دعوت کا مرکزی نکتہ ایک ہی تھا: لا الہ الا اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی بھی الہ نہیں ہے۔
وما ارسلنا من قبلك من رسول الا نوحي اليه انه لا اله الا انا فاعبدون (الانبیاء: 25)
اور جو پیغمبر ہم نےتم سے پہلے بھیجے ان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی الہ نہیں تو میری ہی عبادت کرو
اللہ تعالیٰ کے قانون میں شرک کتنی بری چیز ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ سورۃ انعام میں اللہ تعالیٰ اٹھارہ انبیائے کرام علیہم السلام کے نام گنوانے کے بعد فرماتے ہیں:
ولو اشركوا لحبط عنهم ما كانوا يعملون (الانعام)
اور اگر وہ لوگ بھی شرک کرتے تو جو عمل وہ کرتے تھے سب ضائع ہو جاتے
یعنی مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات کے کسی کو شریک ٹھہرانا کس قدر ناپسند ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ کو خطاب کرے کے کہا جارہا ہے:
ولقد اوحي اليك والى الذين من قبلك لئن اشركت ليحبطن عملك ولتكونن من الخاسرين (الزمر: 65)
اور (اے محمدﷺ) تمہاری طرف اور ان (پیغمبروں) کی طرف جو تم سے پہلے ہو چکے ہیں یہی وحی بھیجی گئی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے عمل برباد ہوجائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں ہوجاؤ گے۔
گو کہ نبی سے شرک ہونا ناممکن ہے لیکن امت کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے۔
انہ من یشرک باللہ فقد حرم اللہ علیہ الجنۃ و ماوہ النار وما للظٰلمین من انصار (المائدہ: 72)
یقینا جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر بہشت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کون سے ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ان تجعل للہ ندا و ھو خلقک (صحیح البخاری)
کہ تو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرائے حالانکہ اسی نے تجھے پیدا کیا ہے۔
حضرت ابوہریرۃؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کی ایک مخصوص دعا ایسی ہوتی ہے جس کو درجہ قبولیت حاصل ہوتا ہے اور ہرنبی نے ایسی دعا دنیا کے اندر ہی کر لی ہے لیکن میں نے وہ دعا ابھی تک نہیں کی وہ دعا میں نے اپنی امت کی شفاعت کے لیے چھوڑ رکھی ہے۔ لیکن یہ دعا کس کے حق میں قبول ہو گی؟ پڑھیے:
فھی نائلۃ ان شاء اللہ من مات من امتی لایشرک باللہ شئیا (صحیح مسلم)
تو وہ دعا اللہ تعالیٰ کے حکم سے میری امت میں سے ہر اس شخص کو پہنچ سکتی ہے جس کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرایا۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان کے شرک میں ملوث ہوجانے کا خطرہ ہے۔
حضرت ابودرداءؓ فرماتے ہیں مجھے میرے محبوب ﷺ نے یہ وصیت کی ہے:
ان لاتشرک باللہ شیئا وان قطعت او حرقت (سنن ابن ماجہ)
کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا چاہے تم ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں یا قتل کردیے جاؤ۔
خلاصہ یہ کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے۔ مشرک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بنا رہے گا۔ اس کے باوجود لوگ شرکیہ عقائد اور اعمال میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ قلب کی گہرائیوں سے اپنے اعمال کو اسلام کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس تمام تر گمراہی کی بنیادی وجہ ایک ہے وہ یہ کہ عام مسلمان سمجھتا ہے کہ شرک صرف بت پرستی کا نام ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام جن لوگوں میں آیا وہ بت پرست تھے۔ کیونکہ وہ بت پرست تھے اس لیے وہ تمام آیتیں اور حدیثیں جن میں شرک کی برائی آئی ہے ان سے بت پرستی والا شرک ہی مراد ہے۔
اس مضمون میں اس مغالطے کا جائزہ لے کر حقیقت بیان کی گئی ہے۔آیئے سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ مشرکین عرب کا خود اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں کیا عقیدہ تھا۔
مشرکین عرب کا عقیدہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں
کیا مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکاری تھے۔ یقینا نہیں! مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکاری نہیں تھے۔ وہ نہ صرف اس کے ہونے کے قائل تھے بلکہ بہت ساری چیزوں کو وہ صرف اسی کی طرف منسوب کرتے تھے مثلا مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کو آسمانوں اور زمین کا خالق اور رازق، کائنات کے امور کو چلانے والا، اور ہر چیز کا اختیار رکھنے والا مانتے تھے۔ ملاحظہ کیجیے۔
خالق اللہ
ولئن سالتهم من خلقهم ليقولن الله فانى يؤفكون (الزخرف: 87)
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہہ دیں گے کہ اللہ نے۔ تو پھر یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں؟
ولئن سالتهم من خلق السمٰوٰت والارض ليقولن الله (الزمر)
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو کہہ دیں گے کہ اللہ نے
رزق دینے والا اللہ، مالک اللہ، زندگی دینے والا اللہ، موت دینے والا اللہ،دنیا کے امور چلانے والا اللہ
قل من يرزقكم من السماء والارض ام من يملك السمع والابصار ومن يخرج الحي من الميت ويخرج الميت من الحي ومن يدبر الامر فسيقولون الله فقل افلا تتقون (یونس: 31)
(ان سے) پوچھو کہ تم کو آسمان اور زمین میں رزق کون دیتا ہے یا (تمہارے) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بےجان سے جاندار کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے۔ جھٹ کہہ دیں گے کہ اللہ۔ تو کہو کہ پھر تم (اللہ سے) ڈرتے کیوں نہیں؟
زمین و آسمان کا مالک اللہ، ہر چیز کا مالک اللہ، بچانے والا اللہ، گھیرنے والا اللہ
قل لمن الارض ومن فيها ان كنتم تعلمون () سيقولون لله قل افلا تذكرون () قل من رب السمٰوٰت السبع ورب العرش العظيم() سيقولون لله قل افلا تتقون() قل من بيده ملكوت كل شيء وهو يجير ولا يجار عليه ان كنتم تعلمون() سيقولون لله قل فانى تسحرون (یونس: 84-89)
کہو کہ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ کہ زمین اور جو کچھ زمین میں ہے سب کس کا ہے؟ جھٹ بول اٹھیں گے کہ اللہ کا۔ کہو کہ پھر تم سوچتے کیوں نہیں؟ (ان سے) پوچھو کہ سات آسمانوں کا کون مالک ہے اور عرش عظیم کا (کون) مالک (ہے؟) بےساختہ کہہ دیں گے کہ یہ (چیزیں) اللہ ہی کی ہیں، کہو کہ پھر تم ڈرتے کیوں نہیں؟ کہو کہ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ کہ وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہی ہے اور وہ بچاتا ہے اور اس سے کوئی بچا نہیں سکتا، فورا کہہ دیں گے کہ (ایسی بادشاہی تو) اللہ ہی کی ہے، تو کہو پھر تم پر جادو کہاں سے پڑ جاتا ہے؟
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے۔ یہیں سے یہ بات بھی سمجھ آجاتی ہے کہ وہ بتوں کو اللہ نہیں مانتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ بتوں کا اللہ نہیں مانتے تھے تو پھر وہ بتوں کی پوجا کیوں کرتے تھے؟ درحقیقت بتوں کو وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا وسیلہ سمجھتے تھے۔ ان کا ذہن کسی پیکر محسوس کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے جڑنے کا طلبگار تھا۔ اسی لیے وہ کہتے تھے:
والذين اتخذوا من دونه اولياء ما نعبدهم الا ليقربونا الى الله زلفى (الزمر)
اور جن لوگوں نے اس کے (اللہ) سوا اور دوست بنائے ہیں (وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کی اس لئے عبادت ہیں کہ ہم کو اللہ کا مقرب بنادیں۔
ويعبدون من دون الله ما لا يضرهم ولا ينفعهم ويقولون هؤلاء شفعاؤنا عند الله (یونس )
اور یہ (لوگ) اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ ہی سکتی ہیں اور نہ کچھ بھلا ہی کر سکتی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔
(جاری ہے)​
 
Top