امت مسلمہ کا مشترکہ عقیدہ : 2 وحی : وحی جلی + وحی خفی

باذوق

محفلین
امت مسلمہ کا مشترکہ عقیدہ :
2 قسم کی وحی = وحی جلی + وحی خفی

السلام علیکم محترم اراکین !
سب سے پہلے تو عرض ہے کہ اس تھریڈ کا مواد میرا نہیں ہے بلکہ محفل ہی کی لائیبریری سے اخذ کیا گیا ہے۔ جس کے لئے مرتبین کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔
مجھے یہ تھریڈ شروع کرنے کی ضرورت پر درج ذیل اقتباس نے مجبور کیا ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
باذوق صاحب، لگتا ہے آپ کی سمجھ میں اس خطاب کی وجہ نہیں آئی۔ جو شخص قرآن سے باہر وحی کا قائل ہو وہ کیونکر مرتد نہیں ہے؟
میں نے نا چاہتے ہوئے بھی آُپ کا نام تبدیل کردیا تھا - باذوق سے ایک شخص کرکے۔ لیکن میری رائے ایک ایسے شخص کے بارے میں بلند ہونا بہت مشکل ہے جو قران سے باہر وحی کا قائل ہو۔ اور اس کی ترویج کرتا ہو۔ روایتوں میں‌من پسند روایتیں مانتا ہو اور دوسرے فرقہ کی روایتوں کا انکار کرتا ہو۔ جن کتب کو نا خدا اور نا رسول نے ماننے کو کہا ہو ان کو ماننے کا اصرار کرتا ہو۔

خاص طور پر جب آپ کہتے ہیں کہ:
وحی مکمل طور پر قرآن میں ریکارڈ نہیں‌ہوسکی اس لئے لوگوں‌نے بعد میں روایات کی کتب میں اس بکھری ہوئی وحی کو ریکارڈ کیا


تو میرے نزدیک یہ ایک غیر معمولی بات ہے۔ رسول اکرم پر الزام ہے کہ انہوں نے قرآن پورا نہیں پہنچایا، یہ اہانت رسول ہے۔ اللہ پر الزام ہے کہ اللہ تعالی نے جانتے بوجھتے ہوئے، اپنے دین کے مکمل ہونے کا اعلان کردیا جب کہ اصل وحی 250 سال تک ریکارڈ‌ہی نہ ہو سکی - نعوذ باللہ۔ یہ اللہ پر الزام ہے لاحول ولا قوۃ

اس پر احتجاج اس وقت تک رہے گا جب تک کہ میں اپنی آنکھ سے آپ کی طرف سے اس کی تردید نہ دیکھ لوں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایک بھی مسلمان ایسا ہے جو یہ سمجھتا ہو کہ اللہ کی نازل کردہ وحی کو ایمانداری سے رسول اکرم نے قرآن میں ریکارڈ نہیں کیا۔ آُپ چونکہ ایسا کہنے والے پہلے انسان ہیں لہذا آُپ کو ڈایرکٹلی خطاب کرنا ضروری تھا اور ہے۔
قارئین سے ادباً گذارش ہے کہ اقتباسِ بالا کے درج ذیل فقروں پر غور فرمائیں :
  • جو شخص قرآن سے باہر وحی کا قائل ہو وہ کیونکر مرتد نہیں ہے؟
  • میری رائے ایک ایسے شخص کے بارے میں بلند ہونا بہت مشکل ہے جو قران سے باہر وحی کا قائل ہو۔ اور اس کی ترویج کرتا ہو۔
  • اللہ تعالی نے جانتے بوجھتے ہوئے، اپنے دین کے مکمل ہونے کا اعلان کردیا جب کہ اصل وحی 250 سال تک ریکارڈ‌ہی نہ ہو سکی - نعوذ باللہ۔ یہ اللہ پر الزام ہے لاحول ولا قوۃ
  • میں نہیں سمجھتا کہ ایک بھی مسلمان ایسا ہے جو یہ سمجھتا ہو کہ اللہ کی نازل کردہ وحی کو ایمانداری سے رسول اکرم نے قرآن میں ریکارڈ نہیں کیا۔

قارئین !!
کیا یہ جملے "منکرینِ حدیث" کے رٹے رٹائے جملے نہیں ہیں؟
کیا اب بھی ہم یہ نہیں مانیں گے کہ :
جو شخص قرآن سے ہٹ کر جو وحی (حدیث) ہے اس کا یوں دیدہ دلیری سے انکار کر رہا ہو ، وہ بلاشبہ منکرِ حدیث ہے !
قرآن سے باہر کی وحی کی قائل تو ساری امت مسلمہ (سوائے منکرینِ حدیث) ہے ، کیا یہ ساری امت صرف ایک شخص کے فرمان کے تحت "مرتد" قرار پا جائے گی ؟؟ لاحول ولا قوة !!

میری رائے ایک ایسے شخص کے بارے میں بلند ہونا بہت مشکل ہے جو قران سے باہر وحی کا قائل ہو۔ اور اس کی ترویج کرتا ہو۔
حضرت !! آپ کی رائے کی بلندیوں یا پستیوں سے امت مسلمہ کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
ایسے افراد شوق سے بش / براؤن کی گود میں بیٹھیں یا مستشرقین کی بانہوں سے لٹکیں ، ہمیں کیوں اعتراض ہوگا بھلا؟
ذرا آنکھیں کھلی رکھا کریں تو ہم آپ کو بتائیں کہ قرآن سے باہر کی وحی کی تائید میں خود آپ کی محفل پر ، خود آپ کی لائیبریری ٹیم ، اردو کتابیں ڈجیٹائز کر رہی ہے۔
متقدمین ائمہ علماء و محدثین کو ایک طرف رکھئے ۔۔۔۔ ذرا ہم کو بتا دیں کہ کیا آپ کا یہی جملہ مولانا مودودی ، جسٹس تقی عثمانی یا جسٹس پیر کرم شاہ الازہری کے لیے بھی ہے؟؟
کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی " قرآن سے باہر وحی " کی تائید و ترویج میں ۔۔۔
مولانا مودودی کی کتاب یہاں پڑھ لی جائے
جسٹس تقی عثمانی کی کتاب یہاں سے ڈاؤن لوڈ کر لی جائے
جسٹس پیر کرم شاہ الازہری کی کتاب القلم فورم پر یہاں ملاحظہ کی جائے۔


اور اب براہ مہربانی ذرا یہ بتا دیا جائے کہ ہم دورِ حاضر کے درج بالا تین معروف علماء کرام کی تحقیق کا یقین کریں یا کسی ایرے غیرے کی اول جلول ہفوات کا ؟؟

اللہ تعالی نے جانتے بوجھتے ہوئے، اپنے دین کے مکمل ہونے کا اعلان کردیا جب کہ اصل وحی 250 سال تک ریکارڈ‌ہی نہ ہو سکی -
میں نہیں سمجھتا کہ ایک بھی مسلمان ایسا ہے جو یہ سمجھتا ہو کہ اللہ کی نازل کردہ وحی کو ایمانداری سے رسول اکرم نے قرآن میں ریکارڈ نہیں کیا۔

ان دو سوالوں کے جواب میں کافی پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو قسم کی وحی نازل کی ہے۔ ایک قرآن (وحی جلی / وحی متلو) اور دوسرے حدیث (وحی خفی / وحی غیر متلو)۔ اوپر جو تین کتب کے حوالے دئے گئے ہیں ، ان میں ان دونوں قسم کی وحی کی تفصیلات درج ہیں۔ اگر کوئی اس کو نہیں مانتا تو نہ مانے۔
لیکن ائمہ و علماء پر بے تکے الزامات لگانے کا حق بہرحال کسی کو بھی دیا نہیں جا سکتا !!

اگلی پوسٹ میں مولانا مودودی کی متذکرہ کتاب سے وہ مفید اقتباسات یہاں لگائے جا رہے ہیں تاکہ "منکرینِ حدیث" کے قلم سے نکلی بیہودہ گوئی کی موثر اور بروقت روک تھام کی جا سکے !!

===​
 

باذوق

محفلین
بشکریہ : اردو محفل کا تھریڈ : سنت کی آئینی حیثیت از سید مودودی
کمپوزنگ : قسیم حیدر ، شمشاد

وحی پر ایمان کی وجہ

آپ کا پہلا سوال یہ ہے کہ: “جہاں تک ایمان لانے اور اطاعت کرنے کا تعلق ہے کیا وحی کے دونوں حصے یکساں حیثیت رکھتے ہیں”۔

اس سوال کا صحیح جواب آدمی کی سمجھ میں اچھی طرح نہیں آ سکتا جب تک کہ وہ پہلے یہ نہ سمجھ لے کہ وحی پر ایمان لانے اور اس کی اطاعت کرنے کی اصل بنیاد کیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ وحی خواہ وہ کسی نوعیت کی بھی ہو، براہ راست ہمارے پاس نہیں آئی ہے کہ ہم بجائے خود اس کے منزل من اللہ ہونے کو جانیں اور اس کی اطاعت کریں۔ وہ تو ہمیں رسولؐ کے ذریعہ سے ملی ہے اور رسولؐ ہی نے ہمیں بتایا ہے کہ یہ ہدایت میرے پاس خدا کی طرف سے آئی ہے۔ قبل اس کے کہ ہم وحی پر (یعنی اس کے من جانب اللہ ہونے پر) ایمان لائیں، ہم رسولؐ پر ایمان لاتے ہیں اور اس کو اللہ تعالیٰ کا سچا نمائندہ تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہی یہ نوبت آ سکتی ہے کہ ہم رسولؐ کے بیان پر اعتماد کر کے اس وحی کو خدا کی بھیجی ہوئی وحی مانیں اور اس کی اطاعت کریں۔ پس اصل چیز وحی پر ایمان نہیں بلکہ رسولؐ پر ایمان اور اس کی تصدیق ہے۔ اور اسی کی تصدیق کا نتیجہ ہے کہ ہم نے وحی کو وحیِ خداوندی مانا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس بات کو یوں سمجھیے کہ رسولؐ کی رسالت پر ہمارے ایمان کی وجہ قرآن نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس قرآن پر ہمارے ایمان کی وجہ رسولؐ کی رسالت پر ایمان ہے۔ واقعات کی ترتیب یہ نہیں ہے کہ پہلے قرآن ہمارے پاس آیا اور اس نے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) سے ہمارا تعارف کرایا ہو، اور اس کے بیان کو صحیح جان کر ہم نے حضورؐ کو خدا کا رسول تسلیم کیا ہو۔ بلکہ صحیح ترتیبِ واقعات یہ ہے کہ پہلے محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے آ کر رسالت کا دعوٰی پیش کیا، پھر جس نے بھی ان کو رسولِ برحق مانا اس نے ان کی اس بات کو بھی برحق مان لیا کہ یہ قرآن جو وہ پیش فرما رہے ہیں، یہ کلام محمدؐ نہیں بلکہ کلام اللہ ہے۔

یہ ایک ایسی بدیہی پوزیشن ہے جس سے کوئی معقول آدمی انکار نہیں کر سکتا۔ اس پوزیشن کو اگر آپ مانتے ہیں تو اپنی جگہ خود غور کیجیے کہ جس رسولؐ کے اعتماد پر ہم نے قرآن کو وحی مانا ہے وہی رسولؐ اگر ہم سے یہ کہے کہ مجھے قرآن کے علاوہ بھی خدا کی طرف سے ہدایات اور احکام بذریعہ وحی ملتے ہیں، تو اس کی تصدیق نہ کرنے کی آخر کیا وجہ ہے؟ اور آخر رسولؐ کے ذریعہ سے آنے والی ایک وحی اور دوسری وحی میں فرق کیوں ہو؟ جب ایمان بالرسالت ہی وحی پر ایمان کی اصل بنیاد ہے تو اطاعت کرنے والے کے لیے اس سے کیا فرق واقع ہوتا ہے کہ رسولؐ نے خدا کا ایک حکم قرآن کی کسی آیت کی شکل میں ہمیں پہنچایا ہے یا اسے اپنے کسی فرمان یا عمل کی شکل میں؟ مثال کے طور پر پانچ وقت کی نماز بہرحال ہم پر فرض ہے اور امت اس کو فرض مانتی ہے باوجودیکہ قرآن کی کسی آیت میں یہ حکم نہیں آیا کہ “اے مسلمانو! تم پر پانچ وقت کی نماز فرض کی گئی ہے”۔ سوال یہ ہے کہ اگر قرآن میں بھی یہ حکم آ جاتا تو اس کی فرضیت اور اس کی تاکید میں کیا اضافہ ہو جاتا؟ اس وقت بھی یہ ویسی ہی فرض ہوتی جیسی اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد سے فرض ہے۔

ما انزل اللہ سے کیا مراد ہے؟

آپ کا دوسرا سوال یہ ہے کہ:

“قرآن نے جہاں ما انزل الیک کہا ہے کیا اس سے مراد صرف قرآن ہے یا وحی کا مذکورہ صدر حصہ بھی؟”

اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں “نازل کرنے” کے ساتھ “کتاب” یا “ذکر” یا “فرقان” وغیرہ کی تصریح کی گئی ہے۔ صرف اسی جگہ ما انزل اللہ سے مراد قرآن ہے۔ رہے وہ مقامات جہاں کوئی قرینہ ان الفاظ کو قرآن کے لیے مخصوص نہ کر رہا ہو، وہاں یہ الفاظ ان تمام ہدایات و تعلیمات پر حاوی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہم کو ملی ہیں، خواہ وہ آیات قرآنی کی صورت میں ہوں، یا کسی اور صورت میں۔ اس کی دلیل خود قرآن مجید ہی میں موجود ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر صرف قرآن ہی نازل نہیں ہوا ہے بلکہ کچھ اور چیزیں بھی نازل ہوئی ہیں۔ سورۃ نساء میں ارشاد ہوا ہے:

و انزل اللہ علیک الکتاب والحکمۃ و علمک ما لم تکن تعلم (آیت: ۱۱۳)

“اور اللہ نے تیرے اوپر نازل کی کتاب اور حکمت اور تجھے سکھایا وہ کچھ جو تو نہ جانتا تھا”

یہی مضمود سورۃ بقرۃ میں بھی ہے:؂

واذکروا نعمۃ اللہ علیکم و ما انزل علیکم من الکتاب والحکمۃ یعظکم بہ (آیت:۲۳۱)

“ اور یاد رکھو اپنے اوپر اللہ کے احسان کو، اور اس کتاب اور حکمت کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے۔ اللہ تمہیں اس کا پاس رکھنے کی نصیحت فرماتا ہے”

اسی بات کو سورۃ احزاب میں دہرایا گیا ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر کی خواتین کو نصیحت فرمائی گئی ہے کہ:

واذکرن ما یتلیٰ فی بیوتکن من ایٰت اللہ والحکمۃ (آیت:۳۴)

اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر کتاب کے علاوہ ایک چیز “حکمت” بھی نازل کی گئی تھی جس کی تعلیم آپ لوگوں کو دیتے تھے۔ اس کا مطلب آخر اس کے سوا کیا ہے کہ جس دانائی کے ساتھ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم قرآن مجید کی اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام کرتے اور قیادت و رہنمائی کے فرائض انجام دیتے تھے، وہ محض آپ کی آزادانہ ذاتی قوت فیصلہ (Private Judgment) نہ تھی بلکہ یہ چیز بھی اللہ نے آپ پر نازل کی تھی۔ نیز یہ کوئی ایسی چیز تھی جسے آپ خود ہی استعمال نہ کرتے تھے بلکہ لوگوں کو سکھاتے بھی تھے (یعلمکم الکتاب و الحکمۃ)۔ اور ظاہر ہے کہ یہ سکھانے کا عمل یا تو قول کی صورت میں ہو سکتا تھا یا فعل کی صورت میں۔ اس لیے امت کو آنحضرتؐ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وہ دو چیزیں ملی تھیں۔ ایک کتاب۔ دوسری حکمت، حضورؐ کے اقوال میں بھی اور افعال کی صورت میں بھی۔


پھر قرآن مجید ایک اور چیز کا ذکر بھی کرتا ہے جو اللہ نے کتاب کے ساتھ نازل کی ہے:

اللَّهُ الَّذِي أَنزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ (الشورٰی:۱۷)

“اللہ ہی ہے جس نے نازل کی کتاب حق کے ساتھ اور میزان”

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحدید:۲۵)

“ہم نے اپنے رسولوں کو روشن نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں”

یہ “میزان” جو کتاب کے ساتھ نازل کی گئی ہے، ظاہر ہے کہ وہ ترازو تو نہیں ہے جو ہر بنیے کی دوکان پر رکھی ہوئی مل جاتی ہے بلکہ اس سے مراد کوئی ایسی چیز ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق انسانی زندگی میں توازن قائم کرتی ہے، اس کے بگاڑ کو درست کرتی ہے اور افراط و تفریط کو دور کر کے انسانی اخلاق و معاملات کو عدل پر لاتی ہے۔ کتاب کے ساتھ اس چیز کو انبیاء پر “نازل” کرنے کے صاف معنی یہ ہیں کہ انبیاء کو اللہ تعالیٰ نے بطور خاص اپنے پاس سے وہ رہنمائی کی صلاحیت عطا فرمائی تھی جس سے انہوں نے کتاب اللہ کے منشا کے مطابق افراد اور معاشرے اور ریاست میں نظام عدل قائم کیا۔ یہ کام ان کی ذاتی قوت اجتہاد اور رائے پر منحصر نہ تھا، بلکہ اللہ کی نازل کردہ میزان سے تول تول کر وہ فیصلہ کرتے تھے کہ حیات انسانی کے مرکب میں کس جز کا کیا وزن ہونا چاہیے۔

پھر قرآن ایک تیسری چیز کی بھی خبر دیتا ہے جو کتاب کے علاوہ نازل کی گئی تھی:

فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنزَلْنَا وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (التغابن:۸)

“پس ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولؐ پر اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے”

فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِيَ أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الاعراف:۱۵۷)

“پس جو لوگ ایمان لائیں اس رسولؐ پر اور اس کی تعظیم و تکریم کریں اوراس کی مدد کریں اور اس نور کے پیچھے چلیں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے وہی فلاح پانے والے ہیں”

قَدْ جَاءكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ يَهْدِي بِهِ اللّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ (المائدۃ:۱۵۔ ۱۶)

“تمہارے پاس آ گیا ہے اللہ کی طرف سے نور اور کتاب مبین جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو جو اس کی مرضی کی پیروی کرنے والا ہے، سلامتی کی راہ دکھاتا ہے”

ان آیات میں جس “نور” کا ذکر کیا گیا ہے وہ کتاب سے الگ ایک چیز تھا، جیسا کہ تیسری آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں۔ اور یہ نور بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول پر نازل کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد وہ علم و دانش اور وہ بصیرت و فراست ہی ہو سکتی ہے جو اللہ نے حضور کو عطا فرمائی تھی۔ جس سے آپؐ نے زندگی کی راہوں میں صحیح اور غلط کا فرق واضح فرمایا، جس کی مدد سے زندگی کے مسائل حل کیے، اور جس کی روشنی میں کام کر کے آپ نے اخلاق و روحانیت، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت اور قانون و سیاست کی دنیا میں انقلاب عظیم برپا کر دیا۔ یہ کسی پرائیویٹ آدمی کا کام نہ تھا، جس نے بس خدا کی کتاب پڑھ پڑھ کر اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق جدوجہد کر ڈالی ہو۔ بلکہ یہ خدا کے اس نمائندے کا کام تھا جس نے کتاب کے ساتھ براہ راست خدا ہی سے علم اور بصیرت کی روشنی بھی پائی تھی۔

ان تصریحات کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن جب ہمیں دوسری سب چیزوں کو چھوڑ کر صرف ما انزل اللہ کی پیروی کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس سے مراد محض قرآن ہی کی پیروی نہیں ہوتی، بلکہ اس حکمت اور نور اور اس میزان کی پیروی بھی ہوتی ہے جو قرآن کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی تھی اور جس کا ظہور لا محالہ حضورؐ کی سیرت و کردار اور حضورؐ کے اقوال و افعال ہی میں ہو سکتا تھا۔ اسی لیے قرآن کہیں یہ کہتا ہے کہ ما انزل اللہ کی پیروی کرو (مثلًا آیت ۳۰۷ میں)، اور کہیں یہ ہدایت کرتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کرو (مثلًا آیات ۳۱:۳۔ ۳۳، ۲۱ اور ۱۵۶:۷ میں)۔ اگر یہ دو مختلف چیزیں ہوتیں تو ظاہر ہے کہ قرآن کی ہدایات متضاد ہو جاتیں۔

سنت کہاں ہے

آپ کا تیسرا سوال یہ ہے:

“وحی کا یہ دوسرا حصہ کہاں ہے؟ کیا قرآن کی طرح اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی خدا نے لی ہوئی ہے؟”

اس سوال کے دو حصے الگ الگ ہیں۔ پہلا حصہ یہ ہے کہ “وحی کا یہ دوسرا حصہ کہاں ہے؟” بعینہ٘ یہ سوال آپ پہلے مجھ سے کر چکے ہیں اور میں اس کا مفصل جواب دے چکا ہوں۔ مگر آپ اسے پھر اس طرح دوہرا رہے ہیں کہ گویا آپ کو سرے سے کوئی جواب ملا ہی نہیں۔ براہ کرم اپنا اولین خط اٹھا کر دیکھیے جس میں سوال نمبر ۲ کا مضمون وہی تھا جو آپ نے اس تازہ سوال کا ہے۔ اس کے بعد میرا دوسرا خط ملاحظہ فرمائیے جس میں، مَیں نے آپ کو اس سوال کا تفصیلی جواب دیا ہے۔ (فوٹ نوٹ: ملاحظہ ہو کتاب ہذا، صفحہ نمبر ۳۵، ۳۷) اب آپ کا اسی سوال کو پھر پیش کرنا اور میرے پہلے جواب کو بالکل نظر انداز کر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ یا تو آپ اپنے ہی خیالات میں گم رہتے ہیں اور دوسرے کی کوئی بات آپ کے ذہن تک پہنچنے کا راستہ ہی نہیں پاتی، یا پھر آپ یہ بحث برائے بحث فرما رہے ہیں۔

کیا سنت کی حفاظت بھی خدا نے کی ہے؟

رہا آپ کے سوال کا دوسرا حصہ تو اس کا جواب سننے سے پہلے ذرا اس بات پر غور کر لیجیے کہ قرآن کی حفاظت کی ذمہ داریاں جو اللہ میاں نے لے لی تھی، اس کو انہوں نے براہ راست عملی جامہ پہنایا، یا انسانوں کے ذریعہ سے اس کو عملی جامہ پہنوایا؟ ظاہر ہے آپ اس کا کوئی جواب اس کے سوا نہیں دے سکتے کہ اس حفاظت کے لیے انسان ہی ذریعہ بنائے گئے۔ اور عملًا یہ حفاظت اس طرح ہوئی کہ حضورؐ سے جو قرآن لوگوں کو ملا تھا اس کو اسی زمانہ میں ہزاروں آدمیوں نے لفظ بلفظ یاد کر لیا، پھر ہزاروں سے لاکھوں، اور لاکھوں سے کروڑوں اس کو نسلا بعد نس لیتے اور یاد کرتے چلے گئے، حتی کہ یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں رہا کہ قرآن کا کوئی لفظ دنیا سے محو ہو جائے، یا اس میں کسی وقت کوئی ردوبدل ہو اور وہ فورًًا نوٹس میں نہ آ جائے، یہ حفاظت کا غیر معمولی انتظام آج تک دنیا کی کسی دوسری کتاب کے لیے نہیں ہو سکا ہے اور یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کا کیا ہوا انتظام ہے۔

اچھا، اب ملاحظہ فرمائیے کہ جس رسولؐ کو ہمیشہ کے لیے اور تمام دنیا کے لے رسول بنایا گیا تھا اور جس کے بعد نبوت کا دروازہ بند کر دینے کا بھی اعلان کر دیا گیا تھا، اس کے کارنامہ حیات کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایسا محفوظ فرمایا کہ آج تک تاریخ انسانی میں گزرے ہوئے کسی نبی، کسی پیشوا، کسی لیڈر اور رہنما اور کسی بادشاہ یا فاتح کا کارنامہ اس طرح محفوظ نہیں رہا ہے اور یہ حفاظت بھی انہیں ذرائع سے ہوئی ہے جن ذرائع سے قرآن کی حفاظت ہوئی ہے، ختم نبوت کا اعلان بجائے خود یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرر کیے ہوئے آخری رسولؐ کی رہنمائی اور اس کے نقوش قدم کو قیامت تک زندہ رکھنے کی ذمہ داری لے لی ہے تاکہ اس کی زندگی ہمیشہ انسان کی رہنمائی کرتی رہے اور اس کے بعد کسی نئے رسول کے آنے کی ضرورت باقی نہ رہے۔ اب آپ خود دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے فی الواقع جریدہ عالم پر ان نقوش کو کیسا ثبت کیا ہے کہ آج تک کوئی طاقت انہیں مٹا نہیں سکتی۔ کیا آپ کو نظر نہیں آتا کہ یہ وضو، یہ پنچ وقتہ نماز، یہ اذان، یہ مساجد کی باجماعت نماز، یہ عیدین کی نماز، یہ حج کے مناسک، یہ بقر عید کی قربانی، یہ زکٰوۃ کی شرحیں، یہ ختنہ، یہ نکاح و طلاق و وراثت کے قاعدے، یہ حرام و حلال کے ضابطے اور اسلامی تہذیب و تمدن کے دوسرے بہت سے اصول اور طور طریقے جس روز نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے شروع کیے اسی روز سے وہ مسلم معاشرے میں ٹھیک اسی طرح رائج ہو گئے جس طرح قرآن کی آیتیں زبانوں پر چڑھ گئیں، اور پھر ہزاروں سے لاکھوں اور لاکھوں سے کروڑوں مسلمان دنیا کے ہر گوشے میں نسلًا بعد نسل ان کی اسی طرح پیروی کرتے چلے آ رہے ہیں جس طرح ان کی ایک نسل سے دوسری نسل قرآن لیتی چلی آ رہی ہے۔ ہماری تہذیب کا بنیادی ڈھانچہ رسول پاک کی جن سنتوں پر قائم ہے، ان کے صحیح ہونے کا ثبوت بعینہ٘ وہی ہے جو قرآن پاک کے محفوظ ہونے کا ثبوت ہے۔ اس کو جو شخص چیلنج کرتا ہے وہ دراصل قرآن کی صحت کو چیلنج کرنے کا راستہ اسلام کے دشمنوں کو دکھاتا ہے۔

پھر دیکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی اور آپ کے عہد کی سوسائٹی کا کیسا مفصل نقشہ، کیسی جزئی تفصیلات کے ساتھ، کیسے مستند ریکارڈ کی صورت میں آج ہم کو مل رہا ہے۔ ایک ایک واقعہ اور ایک ایک قول و فعل کی سند موجود ہے، جس کا جانچ کر ہر وقت معلوم کیا جا سکتا ہے کہ روایت کہاں تک قابل اعتماد ہے۔ صرف ایک انسان کے حالات معلوم کرنے کی خاطر اس دَور کے کم و بیش 6 لاکھ انسانوں کے حالات مرتب کر دیئے گئے تاکہ ہر وہ شخص جس نے کوئی روایت اس انسان عظیمؐ کا نام لے کر بیان کی ہے اس کی شخصیت کو پرکھ کا رائے قائم کی جا سکے کہ ہم اس کے بیان پر کہاں تک بھروسہ کر سکتے ہیں۔ تاریخی تنقید کا ایک وسیع علم انتہائی باریک بینی کے ساتھ صرف اس مقصد کے لیے مدون ہو گیا کہ اس ایک فرد فرید کی طرف جو بات بھی منسوب ہو اسے ہر پہلو سے جانچ پڑتا کر کے صحت کا اطمینان کر لیا جائے۔ کیا دنیا کی پوری تاریخ میں کوئی اور مثال بھی ایسی ملتی ہے کسی ایک شخص کے حالات محفوظ کرنے کے لیے انسانی ہاتھوں سے یہ اہتمام عمل میں آیا ہو؟ اگر نہیں ملتی اور نہیں مل سکتی، تو کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ اس اہتمام کے پیچھے بھی وہی خدائی تدبیر کارفرما ہے جو قرآن کی حفاظت میں کارفرما رہی ہے؟

وحی سے مراد کیا چیز ہے؟

آپ کا چوتھا سوال یہ ہے:

“قرآن کے ایک لفظ کی جگہ عربی کا دوسرا لفظ جو اس کے مترادف المعنی ہو، رکھ دیا جائے تو کیا اس لفظ کو “وحی منزل من اللہ” سمجھ لیا جائے گا؟ کیا وحی کے مذکورہ بالا دوسرے حصے کی بھی یہی کیفیت ہے؟”

یہ ایسا مہمل سوال آپ نے کیا ہے کہ میں کسی پڑھے لکھے آدمی سے اس کی توقع نہ رکھتا تھا۔ آخر یہ کس نے آپ سے کہہ دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قرآن کے شارح اس معنی میں ہیں کہ آپ نے تفسیر بیضاوی یا جلالین کی طرح کی کوئی تفسیر لکھی تھی جس میں قرآن کے عربی الفاظ کی تشریح میں کچھ دوسرے مترادف عربی الفاظ درج کر دیئے تھے اور ان تفسیری فقروں کو اب کوئی شخص “وحی منزل من اللہ” کہہ رہا ہے۔ جو بات آپ سے بار بار کہی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغمبرانہ حیثیت سے جو کچھ بھی کیا اور کہا ہے وہ بربنائے وحی ہے۔ آپ کا پورا پیغمبرانہ کارنامہ اپنی پرائیویٹ حیثیت میں نہ تھا بلکہ خدا کے نمائندہ مجاز ہونے کی حیثیت میں تھا۔ اس حیثیت میں آپ کوئی کام بھی خدا کی مرضی کے خلاف یا اس کے بغیر نہ کر سکتے تھے۔ ایک معلم، ایک مربی، ایک مصلح اخلاق، ایک حکمران ہونے کی حیثیت میں آپ نے جتنا کام بھی کیا وہ سب دراصل خدا کے رسول ہونے کی حیثیت میں آپ کا کام تھا۔ اس میں خدا کی وحی آپ کی رہنمائی اور نگرانی کرتی تھی، اور کہیں ذرا سی چوک بھی ہو جاتی تو خدا کی وضی بروقت اس کی اصلاح کر دیتی تھی۔ اس وحی کو اگر آپ اس معنی میں لیتے ہیں کہ قرآن کے الفاظ کی تشریح میں کچھ عربی زبان کے مترادف الفاظ نازل ہو جاتے تھے تو میں سوائے اس کے اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ "بریں عقل و دانش بباید گریست"۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ وحی لازمًا الفاظ کی صورت ہی میں نہیں ہوتی۔ وہ ایک خیال کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے جو دل میں ڈالا جائے۔ وہ ذہن و فکر کے لیے ایک رہنمائی بھی ہو سکتی ہے۔ وہ ایک معاملہ کا صحیح فہم بخشنے اور ایک مسئلے کا ٹھیک حل یا ایک موقع کے لیے مناسب تدبیر سجھانے کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔ وہ محض ایک روشنی بھی ہو سکتی ہے جس میں آدمی اپنا راستہ صاف دیکھ لے۔ وہ ایک سچا خواب بھی ہو سکتی ہے اور وہ پردے کے ییچھے سے ایک آواز یا فرشتے کے ذریعہ سے آیا ہوا ایک پیغام بھی ہو سکتی ہے۔ عربی زبان میں وحی کے لفظی معنی "اشارہ لطیف" کےہیں۔ انگریزی میں اس سے قریب تر لفظ (Inspiration) ہے۔ اگر آپ عربی نہیں جانتے تو انگریزی زبان ہی کی کسی لغت میں اس لفظ کی تشریح دیکھ لیں۔ اس کے بعد آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ لفظ کےمقابلہ میں لفظ رکھنے کا یہ عجیب و غریب تصور، جسے آپ وحی کے معنی میں لے رہے ہیں، کیسا طفلانہ ہے۔

آپ کا پانچواں سوال یہ ہے:
"بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و سلم ) نے نبوت پانے کے بعد اپنی زندگی کے آخری سانس تک جو کچھ کیا وہ خدا کی طرف سے وحی تھا۔ کیا آپ ان کے ہمنوا ہیں؟ اگر نہیں تو اس باب میں آپ کا عقیدہ کیا ہے؟"
اس سوال کا جواب سوال نمبر 4 میں آ گیا ہے اور جو عقیدہ میں نے اوپر بیان کیا ہے وہ "بعض لوگوں" کا نہیں بلکہ آغاز اسلام سے آج تک تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے۔
محض تکرار سوال

آپ کا چھٹا سوال یہ ہے:
"اگر آپ سمجھتے ہیں کہ حضورؐ کے بعض ارشادات وحی الٰہی تھے اور بعض وحی نہ تھے تو آپ فرمائیں گے کہ حضورؐ کے جو ارشادات وحی تھے، ان کا مجموعہ کہاں ہے؟ نیز آپ کے جو ارشادات وحی نہ تھے، مسلمانوں کے لیے ایمان و اطاعت کے اعتبار سے ان کی حیثیت کیا ہے؟"
اس سوال کے پہلے حصے میں آپ نے اپنے سوال نمبر ۳ کو پھر دہرا دیا ہے۔ اور اس کا جواب وہی ہے جو اوپر اسی سوال کا دیا جا چکا ہے۔ دوسرے حصے میں آپ نے اس بات کا اعادہ کیا ہے جو اس سے پہلے اپنے خط نمبر ۲ میں آپ بیان فرماچکے ہیں اور میں اس کا جواب عرض کر چکا ہوں۔ شبہ ہوتا ہے کہ آپ میرے جوابات کو غور سے پڑھتے بھی نہیں ہیں اور ایک ہی طرح کے سوالات کو دہراتے چلے جاتے ہیں۔
ایمان و کفر کا مدار

آپ کا ساتواں سوال یہ ہے:
“اگر کوئی شخص قرآن کریم کی کسی آیت کے متعلق یہ کہہ دے کہ وہ “منزل من اللہ” نہیں ہے تو آپ اس سے متفق ہوں گے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص احادیث کے موجودہ مجموعوں میں سے کسی حدیث کے متعلق یہ کہے کہ وہ خدا کی وحی نہیں تو کیا وہ بھی اسی طرح دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا؟”
اس کا جواب یہ ہے کہ احادیث کے موجودہ مجموعوں سے جن سنتوں کی شہادت ملتی ہے ان کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک قسم کی سنتیں وہ ہیں جن کے سنت ہونے پر امت شروع سے آج تک متفق رہی ہے، یعنی بالفاظ دیگر وہ متواتر سنتیں ہیں اور امت کا ان پر اجماع ہے۔ ان میں سے کسی کو ماننے سے جو شخص بھی انکار کرے گا وہ اسی طرح دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا جس طرح قرآن کی کسی آیت کا انکار کرنے والا خارج از اسلام ہو گا۔ دوسری قسم کی سنتیں وہ ہیں جن کے ثبوت میں اختلاف ہے یا ہو سکتا ہے۔ اس قسم کی سنتوں میں سے اگر کسی کے متعلق اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میری تحقیق میں فلاں سنت ثابت نہیں ہے اس لیے میں اسے قبول نہیں کرتا تو اس قول سے اس کے ایمان پر قطعًا کوئی آنچ نہ آئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم علمی حیثیت سے اس کی رائے کو صحیح سمجھیں یا غلط۔ لیکن اگر وہ یہ کہے کہ یہ واقعی سنت رسولؐ ہو بھی تو میں اس کی اطاعت کا پابند نہیں ہوں تو اس کے خارج از اسلام ہونے میں قطعًا کوئی شبہ نہیں، کیونکہ وہ رسولؐ کی حیثیتِ حکمرانی (Authority) کو چیلنج کرتا ہے جس کی کوئی گنجائش دائرہ اسلام میں نہیں ہے۔
کیا احکام سنت میں ردوبدل ہو سکتا ہے؟

آپ کا آٹھواں سوال یہ ہے:
“رسول اللہ (صلعم) نے دین کے احکام کی بجاآوری کے لیے جو صورتیں تجویز فرمائی ہیں کیا کسی زمانے کی مصلحتوں کے لحاظ سے ان کی جزئیات میں ردوبدل کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کیا اس قسم کا ردوبدل قرآن کی جزئیات میں بھی کیا جا سکتا ہے؟”
اس کا جواب یہ ہے کہ قرآنی احکام کے جزئیات ہوں یا ثابت شدہ سنت رسولؐ کے کسی حکم کی جزئیات، دونوں کے اندر صرف اسی صورت میں اور اسی حد تک ردوبدل ہو سکتا ہے جب اور جس حد تک حکم کے الفاظ کسی ردوبدل کی اجازت دیتے ہوں، یا کوئی دوسری نص ایسی ملتی ہو جس کسی مخصوص حالت کے لیے کسی خاص قسم کے احکام میں ردوبدل کی اجازت دیتی ہو۔ اس کی ماسوا کوئی مومن اپنے آپ کو کسی حال میں بھی خدا اور رسولؐ کے احکام میں ردوبدل کر لینے کا مختار و مجاز تصور نہیں کر سکتا۔ البتہ ان لوگوں کا معاملہ دوسرا ہے جو اسلام سے نکل کر مسلمان رہنا چاہتے ہیں۔ ان کا طریق کار یہی ہے کہ پہلے رسول کو آئین و قانون سے بے دخل کر کے “قرآن بلا محمد” کی پیروی کا نرالا مسلک ایجاد کریں، پھر قرآن سےپیچھا چھڑانے کے لیے اس کی ایسی من مانی تاویلات شروع کر دیں جنہیں دیکھ کر شیطان بھی اعتراف کمال پر مجبور ہو جائے۔
خاکسار۔۔ ۔ ۔ ۔ ابو الاعلٰی

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

باذوق

محفلین
35 – وحی کی اقسام از روئے قرآن

اعتراض : " آپ نے وحی خداوندی کی مختلف اقسام کے ثبوت میں سورۃ الشوریٰ کی آیت 51 پیش فرمائی ہے اس کا ترجمہ آپ نے یہ کیا ہے :

" کسی بشر کے لیے یہ نہیں ہے کہ اللہ اس سے گفتگو کرئے مگر وحی کے طریقے پر یا پردے کے پیچھے سے یا اس طرح کہ ایک پیغام بر بھیجے اور وہ اللہ کے اذن سے وحی کرے جو کچھ اللہ چاہتا ہو، وہ برتر اور حکیم ہے۔"

اول تو آپ نے (میری قرآنی بصیرت کے مطابق) اس آیت کے آخری حصے کے معنی ہی نہیں سمجھے۔ میں اس آیت سے یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں اللہ تعالٰی صرف انبیائے کرام سے ہمکلام ہونے کے طریقوں کے متعلق بیان نہیں کر رہا بلکہ اس میں بتایا یہ گیا ہے کہ اس کا ہر بشر کے ساتھ بات کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسانوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک حضرات انبیائے کرام اور دوسرے غیر نبی انسان۔ اس آیت کے پہلے دو حصوں میں حضرات انبیائے کرام سے کلام کرنے کے دو طریقوں کا ذکر ہے۔ ایک طریقے کو وحی سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے مطلب ہے قلب نبوی پر وحی کا نزول جو حضرت جبریل کی وساطت سے ہوتا تھا اور دوسرا طریقہ تھا براہ راست خدا کی آواز جو پردے کے پیچھے سے سنائی دیتی تھی۔ اور اس کا خصوصی ذکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تذکرہ میں ملتا ہے۔ اس کے متعلق قرآن کریم میں وضاحت سے ہے کہ کلم اللہ موسیٰ تکلیما (164:4 ) اور دوسرے مقام پر ہے کہ حضرت موسیٰ نے اس کی خواہش ظاہر کی کہ جو ذات مجھ سے یوں پس پردہ کلام کرتی ہے میں اسے بے نقاب دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس حصے کا یہ مفہوم لینا کہ انبیائے کرام کو خوابوں خوابوں کے ذریعے وحی ملا کرتی تھی۔ کسی طرح بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔ آیت کے تیسرے حصے میں یہ بتایا گیا ہے کہ عام انسانوں سے خدا کا بات کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ان کی طرف رسول بھیجتا ہے۔ اس رسول کی طرف خدا وحی کرتا ہے اور رسول اس وحی کو عام انسانوں تک پہنچاتا ہے۔ بالفاظ دیگر ہم جب قرآن کریم پڑھتے ہیں تو خدا ہم سے باتیں کر رہا ہوتا ہے۔"

جواب : "قرآنی بصیرت" کا جو نمونہ یہاں پیش فرمایا گیا ہے اس کا طول و عرض معلوم کرنے کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ قرآن مجید میں سورۃ شوریٰ کا پانچواں رکوع نکال کر دیکھ لیجیئے۔ جس آیت کے یہ معنی ڈاکٹر صاھب بیان فرما رہے ہیں، ٹھیک اس کے بعد والی آیت میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے :

و کذلک او حینا الیک روحا من امرنا ماکنت تدری ما الکتب ولا الایمان ولکن جعلنہ نورا نھدی بہ من نشآ من عبادنا وانک لتھدی الٰی صراط مستقیم (آیت 52 )۔

اور اس طرح (اے نبی) ہم نے وحی کی تمہاری طرف اپنے فرمان کی روح، تم کو پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے، مگر ہم نے اس کو ایک نور بنا دیا جس کے ذریعہ سے ہم رہنمائی کرتے ہیں جس کی چاہتے ہیں اپنے بندوں سے، اور یقینا تم رہنمائی کرتے ہو راہ راست کی طرف۔"

اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ آیت کا کوئی حصہ بھی عام انسانوں تک کدا کی باتیں پہنچنے کی صورت بیان نہیں کر رہا ہے بلکہ اس میں صرف وہ طریقے بتائے گئے ہیں جن سے اللہ تعالٰی اپنے نبی تک اپنی بات پہنچاتا ہے۔ فرمان خداوندی پہنچنے کے جن تین طریقوں کا اس میں ذکر کیا گیا ہے انہی کی طرف اس آیت میں وکذالک (اور اسی طرح) کا لفظ اشارہ کر رہا ہے یعنی اللہ تعالٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ انہی تین طریقوں سے ہم نے اپنے فرمان کی روح تمہاری طرف وحی کی ہے۔ روحا من امرنا سے مراد جبریل امین نہیں لیے جا سکتے، کیونکہ اگر وہ مراد ہوتے تو اوحینا الیک کہنے کے بجائے ارسلنا الیک فرمایا جاتا۔ اس لیے "فرمان کی روح" سے مراد وہ تمام ہدایات ہیں جو مذکورہ تین طریقوں سے حضورﷺ پر وحی کی گئیں۔ پھر آخری دو فقروں میں واقعات کی ترییب یہ بتائی گئی ہےکہ اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کی رہنمائی اس نور سے کر دی جو "روح فرمان" کی شکل میں اس کے پاس بھیجا گیا، اور اب وہ بندہ صراط مستقیم کی طرف لوگوں کی رہنمائی کر رہا ہے۔ تاہم اگر سیاق و سباق کو نظر انداز کر کے صرف اسی ایک آیت پر نگاہ مرکوز کر لی جائے جس کی تفسیر ڈاکٹر صاحب فرما رہے ہیں تب بھی اس کا وہ مطلب نہیں نکلتا جو انہوں نے اس سے نکالنے کی کوشش کی ہے، وہ آیت کے تیسرے حصے کا مطلب یہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی عام انسانوں کی طرف رسول بھیجتا ہے، رسول کی طرف خدا وحی کرتا ہے اور رسول اس وحی کو عام انسانوں تک پہنچاتا ہے۔ حالانکہ آیت کے الفاظ یہ ہیں : او یرسل رسولا فیوحی باذنہ ما یشآ (یا بھیجے ایک پیغام بر پھر وہ وحی کرے اس کے حکم سے جو وہ چاہے)۔ اس فقرے میں اگر "رسول" سے مراد فرشتے کے بجائےبشر رسول لیا جائے تو اس کے معنی یہ بن جائیں گے کہ رسول عام انسانوں پر وحی کرتا ہے۔ کیا واقعی عام انسانوں پر انبیا علیہم السلام وحی کیا کرتے تھے؟ وحی کے تو معنی ہی اشارہ لطیف اور کلام خفی کے ہیں۔ یہ لفظ نہ تو ازروئے لغت اس تبلیغ کے لیے استعمال ہو سکتا ہے جو انبیا علیہم السلام خلق خدا کے درمیان علانیہ کرتے تھے اور نہ قرآن ہی میں کہیں اسے اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے یہاں تو رسول کا لفظ صاف طور پر اس فرشتے کے لیے استعمال ہوا ہے جو انبیا کے پاس وحی لاتا تھا۔ اسی کی پیغام بری کو وحی کرنے کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور کیا جا سکتا ہے۔

36 – وحی غیر متلو پر ایمان، ایمان بالرسول کا جز ہے۔

اعتراض : " جو وحی انبیائے کرام کو ملتی تھی اس کی مختلف قسموں کا ذکر قرآن میں کہیں نہیں آیا۔ نہ ہی قرآن میں کہیں یہ ذکر آیا ہے کہ قرآن صرف ایک قسم کی وحی کا مجموعہ ہے اور باقی اقسام کی وحییں جو رسول اللہ کو دی گئی تھیں وہ کہیں اور درج ہیں۔ اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے خود قرآن کریم میں یہ کہلوایا گیا ہے کہ اوحی الی ھذا القرآن (سورۃ انعام:19 ) "میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا۔" کیا قرآن میں کسی ایک جگہ بھی درج ہے کہ میری طرف قرآن وحی کیا گیا اور اس کے علاوہ اور وحی بھی ملی ہے جو اس میں درج نہیں۔ اصل یہ ہے کہ آپ وحی کی اہمیت کو سمجھے ہی نہیں۔ وحی پر ایمان لانے سے ایک شخص مومن ہو سکتا ہے اور یہ ایمان تمام و کمال وحی پر ایمان لانا ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ وحی کے ایک حصے پر ایمان لایا جائے اور دوسرے حصے پر ایمان نہ لایا جائے۔"

جواب : اس بات کا ثبوت اس سے پہلے اسی مراسلت کے سلسلے میں دیا جا چکا ہے کہ قرآن کے علاوہ بھی حضور پر وحی کے ذریعہ سے احکام نازل ہوتے تھے (ملاحظہ ہو، کتاب ہذا صفحہ ( 118 تا 125 )۔ رہا یہ سوال کہ اس دوسری قسم کی وحی پر ایمان لانے کا حکم کہاں دیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس پر ایمان لانا دراصل ایمان بالرسالت کا ایک لازمی جزو ہے۔ اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب کے علاوہ اپنے رسول پر ایمان لانے کا جو حکم دیا ہے وہ خود اس بات کا متقضی ہے کہ رسول جو ہدایت و تعلیم بھی دیں اس پر ایمان لایا جائے، کیونکہ وہ منجانب اللہ ہے۔ ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ (النسا:80 ) "جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔" وان تتطیوہ تھتدوا (النور:84 ) اگر تم اس کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے۔" اولک الذین ھدی اللہ فیھدئھم افتدہ (الانعام:91 ) " یہ انبیا وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے، پس تم ان کی ہدایت کی پیروی کرو۔"

شاید ڈاکٹر صاحب کو معلوم نہیں ہے کہ متعدد انبیا ایسے گزرے ہیں جن پر کوئی کتاب نازل نہیں کی گئی۔ کتاب تو کبھی نبی کے بغیر نہیں آئی ہے لیکن نبی کتاب کے بغیر بھی آئے ہیں اور لوگ ان کی تعلیم و ہدایت پر ایمان لانے اور اس کا اتباع کرنے پر اسی طرح مامور تھے جس طرح کتاب اللہ پر ایمان لانے اور اس کا اتباع کرنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا۔ خود کتاب لانے والے انبیا پر بھی اول روز ہی سے وحی متلو نازل ہونا کچھ ضروری نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات کا نزول اس وقت شروع ہوا جب وہ فرعون کے غرق ہو جانے کے بعد بنی اسرائیل کو لے کر طور کے دامن میں پہنچے (ملاحظہ ہو سورۃ اعراف رکوع 16 - 17، سورۃ قصص آیات 40 – 43 )۔

زمانہ قیام مصر میں ان پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود فرعون اور مصر کا ہر باشندہ ان باتوں پر ایمان لانے کے لیے مامور تھا جنہیں وہ اللہ کی طرف سے پیش کرتے تھے، حتیٰ کہ انہی پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے وہ اپنے لشکروں سمیت مستحق عذاب ہوا۔

منکرین حدیث کو اگر اس چیز کے ماننے سے انکار ہے تو میں ان سے پوچھتا ہوں کہ قرآن کی موجودہ ترتیب کے من جانب اللہ ہونے پر آپ ایمان رکھتے ہیں یا نہیں؟ قرآن میں خود اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ یہ کتاب پاک بہ یک وقت ایک مرتب کتاب کی شکل میں نازل نہیں ہوئی ہے بلکہ اسے مختلف اوقات میں بتدریج تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا گیا ہے (بنی اسرائیل : 106، الفرقان : 32 )۔ دوسرے طرف قرآن ہی میں یہ صراحت بھی ہے کہ اللہ تعالٰی نے اسے مرتب کر کے پڑھوا دینے کا ذمہ خود لیا تھا۔ ان علینا جمعہ و قرانہ فاتبع قرانہ (القیامہ: 17، 18 )۔ اس سے قطع طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کی موجودہ ترتیب براہ راست اللہ تعالٰی کی ہدایت کے تحت ہوئی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی مرضی سے خود مرتب نہیں کر لیا ہے۔ اب کیا کسی شخص کو قرآن میں کہیں یہ حکم ملتا ہے کہ اس کی سورتوں کو اس ترتیب کے ساتھ پڑھا جائے اور اس کی متفرق آیتوں کو کہاں کس سیاق و سباق میں رکھا جائے؟ اگر قرآن میں اس طرح کی کوئی ہدایت نہیں ہے، اور ظاہر ہے کہ نہیں ہے، تو لا محالہ کچھ خارج از قرآن ہدایات ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالٰی سے ملی ہوں گی جن کے تحت آپ نے یہ کتاب پاک اس ترتیب سے خود پڑھی اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی کو پڑھوائی۔ مزید برآں اسی سورۃ قیامہ میں اللہ تعالٰی یہ بھی فرماتا ہے کہ ثم ان علینا بیانہ " پھر اس کا مطلب سمجھانا بھی ہمارے ذمہ ہے" (آیت : 19 )۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے احکام و تعلیمات کی جو تشریح و تعبیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول و عمل سے کرتے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ذہن کی پیداوار نہ تھی بلکہ جو ذات پاک آپ پر قرآن نازل کرتی تھی وہی آپ کو اس کا مطلب بھی سمجھاتی تھی اور اس کی وضاحت طلب امور کی وضاحت بھی کرتی تھی۔ اسے ماننے سے کوئی ایسا شخص انکار کیسے کر سکتا ہے جو قرآن پر ایمان رکھتا ہو۔

37 – کیا وحی غیر متلو بھی جبریل ہی لاتے تھے؟

اعتراض : " آپ نے لکھا ہے کہ قرآن کریم میں صرف وہی وحی درج ہے جو حضرت جبریل کی وساطت سے حضور پر نازل ہوئی تھی۔ پہلے تو یہ فرمایئے کہ آپ کو یہ کہاں سے معلوم ہو گیا کہ رسول اللہ کی طرف کوئی وحی حضرت جبریل کی وساطت کے بغیر بھی آتی تھی؟ دوسرے غالبا آپ کو اس کا علم نہیں کہ جس وحی کو آپ جبریل کی وساطت کے بغیر وحی کہتے ہیں (یعنی حدیث) اس کے متعلق حدیث کو وحی ماننے والوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اسے بھی جبریل لے کر اسی طرح نازل ہوتے تھے جس طرح قرآن کو لے کر ہوتے تھے (ملاحظہ فرمایئے جامع بیان العلم) اس لیے آپ کا یہ بیان خود آپ کے گروہ کے نزدیک بھی قابل قبول نہیں۔ْ"

جواب : یہ عجیب مرض ہے کہ جس بات کا ماخذ بار بار بتایا جا چکا ہے اسی کے متعلق پوچھا جاتا ہے کہ اس کا ماخذ کیا ہے۔ سورۃ شوریٰ کی آیت 51 جس پر ابھی ڈاکٹر صاحب خود بحث کر آئے ہیں اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ انبیا پر وحی جبریل کی وساطت کے بغیر بھی نازل ہوتی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے جامع بیان العلم کی شکل بھی نہیں دیکھی ہے اور یونہی کہیں سے اس کا حوالہ نقل کر دیا ہے۔ اس کتاب میں تو حسان بن عطیہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ کان الوحی ینزل علیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و یحضرہ جبریل بالسنہ التی تفسر ذالک۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تھی اور جبریل آ کر اس کی توضیح کرتے اور اس پر عمل کا طریقہ بتاتے تھے۔ اس سے یہ مطلب کہاں نکلا کہ ہر وحی جبریل ہی لاتے تھے؟ اس سے تو صرف یہ بات نکلتی ہے کہ جبریل قرآن کے سوا دوسری وحیاں بھی لاتے تھے۔ "جبریل بھی لاتے، اور جبریل ہی لاتے" کا فرق سمجھنا کوئی بڑا مشکل کام نہیں ہے۔

38 – کتاب اور حکمت ایک ہی چیز ہیں یا الگ الگ

اعتراض : " آپ نے یہ دلیل دی ہے کہ خدا نے " کتاب و حکمت " دونوں کو منزل من اللہ کہا ہے۔ کتاب سے مراد قرآن ہے اور حکمت سے مراد سنت یا حدیث۔ آپ کی اس قرآن دانی پر جس قدر بھی ماتم کیا جائے، کم ہے۔ بندہ نواز، کتاب و حکمت میں واو عطف کی نہیں (جس کے معنی " اور " ہوتے ہیں، یہ واؤ تغیری ہوتی ہے۔ اس کا ثبوت خود قرآن میں موجود ہے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن کو خود حکیم (حکمت والا) کہا ہے۔ یٰسین والقرآن الحکیم دوسری جگہ الکتب کی جگہ الحکیم کہا ہے۔ تلک الحکیم (2:31)۔

جواب : منکرین حدیث اس غلط فہمی میں ہیں کہ حرف واؤ کے معنی لینے میں آدمی کو پوری آزادی ہے، جہاں چاہے اسے عاطفہ قرار دے لے اور جہاں چاہے تفسیری کہہ دے۔ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ عربی زبان ہی میں نہیں، کسی زبان کے ادب میں بھی الفاظ کے معنی متعین کرنے کا معاملہ اس طرح الل ٹپ نہیں ہے۔ واؤ کو تفسیری صرف اسی صورت میں قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ دو لفظ جن کے درمیان یہ حرف آیا ہو، باہم مترادف المعنی ہوں، یا قرینے سے یہ معلوم ہو رہا ہو کہ قائل انہیں مترادف قرار دینا چاہتا ہے۔ یہی اردو زبان میں لفظ " اور " کے استعمال کا طریقہ ہے کہ اسے تفسیری صرف اسی وقت قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ وہ ہم معنی الفاظ کے درمیان آئے۔ جیسے کوئی شخص کہے " یہ جھوٹ اور افترا ہے۔" لیکن جہاں یہ صورت نہ ہو وہاں واؤ کا استعمال یا تو دو الگ الگ چیزوں کا جمع کرنے کے لیے ہو گا، یا عام کو خاص پر، یا خاص کو عام پر عطف کرنے کے لیے ہو گا۔ ایسے مقامات پر واؤ کے تفسیری ہونے کا دعویٰ بالکل مہمل ہے۔

اب دیکھئے، جہاں تک عربی زبان کا تعلق ہے اس کی رو سے تو ظاہر ہی ہے کہ کتاب اور حکمت مترادف الفاظ نہیں بلکہ دونوں الگ معنوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ رہا قرآن، تو اس کے استعمالات سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حکمت کو وہ کتاب کا ہم معنی قرار دیتا ہے۔ سورۃ نحل میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے ادع الٰی سبیل ربک بالحکمۃ " اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ دعوت دو۔" کیا اس کا مطلب یہ ہے قرآن کے ساتھ دعوت دو؟

حضرت عیسیٰ کے متعلق سورۃ زخرف میں فرمایا قال قد جئنکم بالحکمۃ " اس نے کہا میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں۔" کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کتاب لے کر آیا ہوں؟ سورۃ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے ومن یوت الحکمۃ فقد لوتی خیرا کثیرا " جسے حکمت دی گئی اسے بڑی دولت دے دی گئی۔" کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے کتاب دی گئی؟ سورۃ لقمان میں حکیم لقمان کے متعلق فرمایا ولقد انینا لقمن الحکمۃ "ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی۔" کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ کتاب عطا کی تھی؟ دراصل قرآن میں کہیں بھی کتاب بول کر حکمت مراد نہیں لی گئی ہے اور نہ حکمت بول کر کتاب مراد لی گئی ہے۔ کتاب کا لفظ جہاں بھی آیا ہے، آیات الہٰی کے مجموعہ کے لیے ایا ہے اور حکمت کا لفظ جہاں بھی آیا ہے، اس دانائی کے معنی میں آیا ہے جس سے انسان حقائق کے سمجھنے اور فکر و عمل میں صحیح رویہ اختیار کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ یہ چیز کتاب میں بھی ہو سکتی ہے۔ کتاب کے باہر بھی ہو سکتی ہے، اور کتاب کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے۔ کتاب کے لیے جہاں "حکیم" کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، اس کے معنی تو یہ ضرور ہیں کہ کتاب کے اندر حکمت ہے، مگر یہ معنی نہیں ہیں کہ کتاب خود حکمت ہے یا حکمت صرف کتاب میں ہے اور اس کے باہر کوئی حکمت نہیں ہے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب اور حکمت نازل ہونے کا یہ مطلب لینا درست نہیں ہو گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسل پر صرف کتاب نازل کی گئی، بلکہ اس کے صحیح معنی یہ ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب کے ساتھ وہ دانائی بھی نازل کی گئی جس سے آپ اس کتاب کا منشا ٹھیک ٹھیک سمجھیں اور انسانی زندگی میں اس کو بہترین طریقے سے نافذ کر کے دکھا دیں۔ اسی طرح یعلمھم الکتبِ والحکمۃ کے معنی یہ ہر گز نہیں ہیں کہ آپ صرف کتاب کے الفاظ پڑھوا دیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ لوگوں کو کتاب کا مطلب سمجھائیں اور انہیں اس دانش مندی کی تعلیم و تربیت دیں جس سے لوگ دنیا کے نظام زندگی کو کتاب اللہ کے منشا کے مطابق ڈھالنے کے قابل ہو جائیں۔

تمام شد !!
 
معذرت چاہتا ہوں لیکن اس مضمون میں دی گئی کسی آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کوئی وحی جو رسول اللہ کی طرف بھیجی گئی وہ ادھر ادھر پڑی تھی اور قرآن میں موجود نہیں ہے۔ یہ ایک ناکام کوشش ہے اپنے عقائد کو قرآن سے ثابت کرنے کی، کچھ اس طرح کے قرآن ہی باطل قرار پائے۔ طرح طرح کی تاویلات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ کتب جو 250 سال بعد لکھی گئی ہیں وہ بھی وحی ہے۔ جبکہ نا اللہ تعالی نے اور نا رسول اللہ نے ان کتب پر ایمان لانے کو کہا ہے۔ مزید یہ کہ ان کتب کی اصل بھی کہیں موجود نہیں‌ہے۔

کیسے کمال کی بات ہے کہ وہ وحی جو سنی فرقہ کی کتب روایات میں ہے وہ شیعہ فرقہ کو قبول نہیں اور جو شیعہ فرقہ کی کتب روایات میں ہے وہ سنی فرقہ کو قبول نہیں۔ باقی فرقوں کی تو بات ہی چھوڑیں۔ افسوس کہ قرآن کو چھوڑا تو نبی کو چھوڑا اور اللہ کو چھوڑا۔ کیوں تفرقہ ڈالتے ہو ‌بھائی؟ کسی یکجائی سے اب عہد غلامی کرلو، ملت احمد مرسل کو مقامی کرلو۔ اپنے نبیوں‌کو سچ ثابت کرنے کے لئے ہر ٹیڑھی کھیر لاتے ہیں ۔ اس ساری بحث کو شروع کرنے کا مقصد ہے کہ ان کتب روایات پر مثل قرآن ایمان لایا جائے جو طرح طرح سے عورتوں کے حقوق کو دبانے کے لیے، عورتوں کا معاشرہ میں مقام کم کرنے لے لئے لکھی گئی ہیں۔ غلامی کو فرقہ واریت کو فروغ‌دیتی ہیں۔ اپنے سیاسی منافع کے لئے لکھی گئی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ایسے خدا ترس اور اللہ سے ڈرنے والے لوگ موجود ہیں جو قرآن اور سنت کی مدد سے پاکستان کے قوانین بنارہے ہیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
کیا اللہ تعالی نے جسطرح وحی جلی کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے کیا اسی طرح وحی خفی کی بھی حفاظت کا ذمہ لیا ہے ؟ اگر نہیں تو وحی خفی یعنی احادیث کیسے وحی قرار پا سکتی ہیں - کیا اللہ نے قرآن میں احادیث کو وحیِ خفی کہا ہے یا یہ بھی ہم انسانوں‌کی اختراع ہے؟
 
تمام کی تمام وحی یعنی اللہ تعلای کی وہ آیات جو رسول اکرم پر نازل ہوئیں، قران حکیم میں‌مکمل طور پر موجود ہے۔ اس سے باہر کسی وحی کے بارے میں رسول اکرم یا اللہ تعالی نے نہیں اشارہ کیا۔ ایسا ماننے والے لوگ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔

شاید وحی خفی وہ وحی ہے جو رسول اکرم کے بعد روایات کی شکل میں بعد کے نبیوں پر نازل ہوتی رہی ہے۔ جن لوگوں‌کا نبی بخاری ہے مسلم ہے ان کا نبی محمد الرسول اللہ کس طور ہو سکتا ہے۔

منکر الحدیث اور منکر الرسول۔ مولویت کی اختراع کردہ وہ عیارانہ اصطلاحات ہیں جو اس شخص کے لئے استعمال کی جاتی تھیں جس کو مرتد قرار دے کر مارنا ہوتا تھا۔ یہ اصطلاحات خاص طور پر مغلیہ سلطنت میں‌ استعمال ہوتی رہیں۔ مقصد ان عیاریوں‌کا یہ تھا کہ قرآن میں‌اپنی پسند کی سنی سنائی کا پیوند لگایا جائے اور اس طرح ہر اس شخص کو جو قرآن پر مبنی اسلام پر ہو اس کو قتل کر دیا جائے۔ بے شمار مسلمان اور قرآن پڑھنے والے اشخاص‌نے جب بھی ان روایات پر مبنی اسلام پر کوئی بھی اعتراض‌کیا - مولویوں نے ایسے اشخاص پر منکر الحدیث اور منکر رسول کا فتوی لگا کر ان کو قتل کر دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ جو قرآن میں کسی مزید کتاب کا پیوند لگاتا ہے وہ منکر الرسول، منکر اللہ ، منکر القرآن اور منکر سنت ہے۔ رسول اکرم نے اللہ کی ہدایت پر جس کتاب پر ایمان لانے کے لئے کہا وہ صرف اور صرف قرآن حکیم ہے۔ اللہ اور اس کے رسول نے کہاں‌ فرمایا کہ چند کتب بعد میں بھی آئین گی ان پر بھی ایمان لے آنا۔ قرآن ہر پچھلی کتاب کی کسوٹی ہے اور ہر رسول اکرم سے منسوب ہر روایت کو قرآن کی روشنی میں جانچنے کا حکم ہمارے رسول کا ہی ہے۔ یہ وہ اصول ہے جو منکر القرآن اور منکر الرسول کو بہت ہی ناگوار گزرتا ہے۔ جوں ہی قرآن کی کوئی آیت پیش کی جائے یہ لوگ فوراً‌ اس آیت کو اپنی کتب روایت سے غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتےہیں۔ اللہ تعالی واضح الفاظ میں اعلان کرچکے ہیں کہ ان کا پیغام کس دن مکمل ہوا اور اس کے بعد کوئی پیغام نہیں‌آیا۔ بس کچھ لوگ اپنے عقیدوں کے غلام ہیں۔
 

باذوق

محفلین
تمام کی تمام وحی یعنی اللہ تعلای کی وہ آیات جو رسول اکرم پر نازل ہوئیں، قران حکیم میں‌مکمل طور پر موجود ہے۔ اس سے باہر کسی وحی کے بارے میں رسول اکرم یا اللہ تعالی نے نہیں اشارہ کیا۔ ایسا ماننے والے لوگ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔

شاید وحی خفی وہ وحی ہے جو رسول اکرم کے بعد روایات کی شکل میں بعد کے نبیوں پر نازل ہوتی رہی ہے۔ جن لوگوں‌کا نبی بخاری ہے مسلم ہے ان کا نبی محمد الرسول اللہ کس طور ہو سکتا ہے۔

منکر الحدیث اور منکر الرسول۔ مولویت کی اختراع کردہ وہ عیارانہ اصطلاحات ہیں جو اس شخص کے لئے استعمال کی جاتی تھیں جس کو مرتد قرار دے کر مارنا ہوتا تھا۔ یہ اصطلاحات خاص طور پر مغلیہ سلطنت میں‌ استعمال ہوتی رہیں۔ مقصد ان عیاریوں‌کا یہ تھا کہ قرآن میں‌اپنی پسند کی سنی سنائی کا پیوند لگایا جائے اور اس طرح ہر اس شخص کو جو قرآن پر مبنی اسلام پر ہو اس کو قتل کر دیا جائے۔ بے شمار مسلمان اور قرآن پڑھنے والے اشخاص‌نے جب بھی ان روایات پر مبنی اسلام پر کوئی بھی اعتراض‌کیا - مولویوں نے ایسے اشخاص پر منکر الحدیث اور منکر رسول کا فتوی لگا کر ان کو قتل کر دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ جو قرآن میں کسی مزید کتاب کا پیوند لگاتا ہے وہ منکر الرسول، منکر اللہ ، منکر القرآن اور منکر سنت ہے۔ رسول اکرم نے اللہ کی ہدایت پر جس کتاب پر ایمان لانے کے لئے کہا وہ صرف اور صرف قرآن حکیم ہے۔ اللہ اور اس کے رسول نے کہاں‌ فرمایا کہ چند کتب بعد میں بھی آئین گی ان پر بھی ایمان لے آنا۔ قرآن ہر پچھلی کتاب کی کسوٹی ہے اور ہر رسول اکرم سے منسوب ہر روایت کو قرآن کی روشنی میں جانچنے کا حکم ہمارے رسول کا ہی ہے۔ یہ وہ اصول ہے جو منکر القرآن اور منکر الرسول کو بہت ہی ناگوار گزرتا ہے۔ جوں ہی قرآن کی کوئی آیت پیش کی جائے یہ لوگ فوراً‌ اس آیت کو اپنی کتب روایت سے غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتےہیں۔ اللہ تعالی واضح الفاظ میں اعلان کرچکے ہیں کہ ان کا پیغام کس دن مکمل ہوا اور اس کے بعد کوئی پیغام نہیں‌آیا۔ بس کچھ لوگ اپنے عقیدوں کے غلام ہیں۔
انکارِ حدیث یا اثباتِ وحی خفی پر میں نے سب سے پہلی پوسٹ میں تین روابط دئے ہیں۔ مزید ایک اور ربط کے ساتھ دوبارہ پیش خدمت ہیں :

اسی " قرآن سے باہر وحی " کی تائید و ترویج میں ۔۔۔
مولانا مودودی کی کتاب یہاں پڑھ لی جائے
جسٹس تقی عثمانی کی کتاب یہاں سے ڈاؤن لوڈ کر لی جائے
جسٹس پیر کرم شاہ الازہری کی کتاب القلم فورم پر یہاں ملاحظہ کی جائے۔

مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری کی کتاب "انکارِ حدیث - حق یا باطل" یہاں سے حاصل کریں

اب دیکھ لیجئے کہ جن "لوگوں" پر جناب محترم فاروق سرور خان گرم ہو کر کہہ رہے ہیں ۔۔۔
ایسا ماننے والے لوگ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
جن لوگوں‌کا نبی بخاری ہے مسلم ہے ان کا نبی محمد الرسول اللہ کس طور ہو سکتا ہے۔
جو قرآن میں کسی مزید کتاب کا پیوند لگاتا ہے وہ منکر الرسول، منکر اللہ ، منکر القرآن اور منکر سنت ہے۔
کچھ لوگ اپنے عقیدوں کے غلام ہیں۔

ان "لوگوں" میں چاروں مشہور مکاتبِ فکر کے نام ، ان کی کتابوں کے حوالے سے میں نے پیش کر دئے ہیں کہ صاحبانِ علم و بصیرت خود تحقیق کر لیں۔
اور جان لیں کہ ان چاروں اسمائے گرامی ۔۔۔
مولانا مودودی / جسٹس تقی عثمانی / جسٹس پیر کرم شاہ الازہری / مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری
میں خود محترم فاروق سرور خان صاحب کا نام کہاں اور کیسے فٹ بیٹھتا ہے؟

عقلمند کو اشارہ کافی ہونا چاہئے !!
 
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ، جزاک اللہ خیرا ، بھائی با ذوق ، ماشاء اللہ آپ نے کافی محنت سے یہ سارا مواد تیار اور مہیا کیا ہے ، اللہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کا یہ نیک عمل قبول فرمائے اور آپ لوگوں کو اپنی شان رحیمی کے مطابق بہترین اجر عطا فرمائے ، اگر اجازت ہو تو کیا میں بھی آپ کی اس بحث میں شامل ہو سکتا ہوں ؟ و السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میری گزارش ہے کہ کسی غیر ضروری مباحثے کے آغاز سے گریز کیا جائے۔ شکریہ۔
 
میری گزارش ہے کہ کسی غیر ضروری مباحثے کے آغاز سے گریز کیا جائے۔ شکریہ۔
السلام علیکم ، نبیل بھائی ، نیک مشورے کا شکریہ ، غیر ضروری کچھ بھی نہ ہو گا ، اور نہ پہلے تھا ، میں بھائی فاروق سرور سے ان کے مذہب کے بارے میں چند بنیادی نکات سمجھنا چاہتا ہوں ، موسیقی والے دھاگے میں اسی طرف آ رہا تھا ، یقین جانیے میں نے اس بحث کو روکنے کے لیے ایک آخری جواب لکھ کر پوسٹ کرنے کے لیے ارسال کا بٹن دبایا تو تو اگلے صفحے پر اس دھاگے کو گرہ لگا دیے جانے کا پیغام نہ منہ چڑا دیا ، بہر حال اسی میں اللہ کی طرف سے ہم سب کے لیے بہتری تھی ، کیونکہ وہاں معاملہ خارج از ایمان قرار دینے تک جا پہنچا تھا ، اور یہاں بھی ابتدا کچھ ایسے ہی مقالے سے ہوئی ہے ،
انشا اللہ اگلے مراسلے میں ، کسی بھی کلمہ گو کے ایمان پر حکم لگانے کا حکم بیان کروں گا تا کہ ہم لوگ بحث کرتے ہوئے اپنی حدود کو یاد رکھیں ، اللہ ہی جس کو چاہے ہدایت دیتا ہے ، و السلام علیکم ۔
 

شمشاد

لائبریرین
محترم اگر آپ محترم فاروق سرور صاحب سے ان کے مذہب کے بارے میں چند بنیادی نکات سمجھنا چاہتے ہیں تو الگ سے ایک دھاگہ کھول لیں جہاں صرف آپ اور محترم فاروق سرور صاحب بات کر لیں۔

والسلام
 

نبیل

تکنیکی معاون
اگر یہ معاملہ صرف فاروق بھائی کے نظریات جاننے سے متعلق ہے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ ان سے ذاتی رابطہ کرکے بات کر لی جائے۔ اور میری گزارش ہے کہ کچھ توجہ اس فورم کے اصل مقصد کی جانب بھی دیا کریں۔ ہمارا اصل مقصد تعلیم اور تحقیق ہے نہ کہ مناظروں میں وقت ضائع کرنا۔
والسلام
 
اگر یہ معاملہ صرف فاروق بھائی کے نظریات جاننے سے متعلق ہے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ ان سے ذاتی رابطہ کرکے بات کر لی جائے۔ اور میری گزارش ہے کہ کچھ توجہ اس فورم کے اصل مقصد کی جانب بھی دیا کریں۔ ہمارا اصل مقصد تعلیم اور تحقیق ہے نہ کہ مناظروں میں وقت ضائع کرنا۔
والسلام
السلام علیکم ، بھائی نبیل ، میں بھی مقصد تعلیم و تحقیق ہی ہے ، اور میرے بھائی شاید آپ مجھ سے زیادہ یہ جانتے ہوں گے کہ تعلیم میں تو کم ہو لیکن تحقیق میں سوال وجواب کثرت سے ہوتے ہیں ، اگر اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک دوجے کا حق و عزت برقرار رکھتے ہوئے علمی سوال و جواب ہوں تو ان شا اللہ کوئی حرج نہیں ہوتا بلکہ باذن اللہ فائدہ ہوتا ہے ، اور میں اسی منہج ہر قائم رہنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں ، اولا تو ان شا اللہ ایسا ہو گا نہیں ، لیکن اگر کہیں آپ صاحبان ایسی کوئی بات دیکھیں جو غیر اسلامی ، غیر اخلاقی ہو تو آپ صاحبان مجھے سرزنش کر سکتے ہیں ، و السلام علیکم ۔
 
محترم اگر آپ محترم فاروق سرور صاحب سے ان کے مذہب کے بارے میں چند بنیادی نکات سمجھنا چاہتے ہیں تو الگ سے ایک دھاگہ کھول لیں جہاں صرف آپ اور محترم فاروق سرور صاحب بات کر لیں۔

والسلام
السلام علیکم ، شمشاد بھائی ، آپ کی تجویز بڑی اچھی ہے ، جزاک اللہ خیرا ، کچھ باتیں منظر عام پر ہیں اور ان کو وہیں سمجھا جانا بہتر ہے کہ میرے ساتھ اوروں کا بھی بھلا ہو جائے گا ان شا اللہ ،
ایک بات جاننا چاہتا ہوں جو ہمارے اس موضوع سے متعلق تو نہیں ، لیکن آپ سے متعلق ضرور ہے ، میں قران و سنت والے فورمز قرانی آیات کے ریفرنس کے بارے میں ایک دھاگے میں کچھ جواب لکھنا چاہ رہا تھا لیکن مجھ پیغام ملتا ہے کہ میں وہاں ارسال نہیں کر سکتا ، کیا یہ فورمز کے کسی خود کار نطام کی وجہ سے ہے ؟
آپ کے راہنما جواب کا منتظر رہوں گا ان شا اللہ ، والسلام علیکم ۔
 

شمشاد

لائبریرین
و علیکم السلام

آپ شاید لائبریری والے زمرے میں کچھ لکھنا چاہ رہے ہیں۔ تو عرض ہے کہ وہاں صرف لائبریری ٹیم ممبر ہی لکھ سکتے ہیں۔
آپ مجھے ربط دیں کہ کہاں لکھنا چاہ رہے ہیں۔
 
برادران ، موضوع اگر پر توجہ دیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اصول پرستی بہر طور شخصیت پرستی سے بہتر ہے۔ یہی ہمارے رب کا اور رسول کا پیغام ہے۔ وہ ہیرو، وہ مسیحا، وہ نبی، وہ واحد مکمل و معصوم شخص آ بھی گیا اور اللہ کا پیغام پہنچا بھی گیا۔ لیکن کچھ لوگ اب تک اپنی انسان پرستی اور ہیرو پرستی کی توقیت کے لئے نئے بت ڈھونڈھ رہے ہیں۔ لہذا ان کی نگاہ کسی بھی بندہ کی ذات سے بلند ہو کر اصولوں پر نہیں‌جاتی۔ تو بھائی اپنا اپنا مذہب بتانے کے بجائے اللہ کے اصولوں پر اور اللہ کے اصولوں سے بات کیجئے کہ یہی اصول نبی کی سنت بھی ہیں۔

پپیغام نمبر 11 کے بعد ، اس سمیت سب پیغام بے کار اور موضوع سے لا تعلق ہیں۔ ان کو حذف کردیجئے۔
 
و علیکم السلام

آپ شاید لائبریری والے زمرے میں کچھ لکھنا چاہ رہے ہیں۔ تو عرض ہے کہ وہاں صرف لائبریری ٹیم ممبر ہی لکھ سکتے ہیں۔
آپ مجھے ربط دیں کہ کہاں لکھنا چاہ رہے ہیں۔
السلام علیکم ، شمشاد بھائی ، ایک تو حالت حاضرہ ، اسلام اور معاشرہ ، میں ، اسلام میں عورت کا مقام ہے ، یہاں بھی مجھے صرف شکریہ ادا کرنے کا موقع میسر ہے ، اور دوسرا واقعی ہی ڈیجیٹل اردو لائبریری پراجیکٹ ،قران و سنت ، تاریخ حدیث شریف ہے ،
معلومات مہیا کرنے پر جزاک اللہ خیرا ، لائبریری تک رسائی کے لیے کیا معیار ہے ؟
و السلام علیکم ۔
 
برادران ، موضوع اگر پر توجہ دیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اصول پرستی بہر طور شخصیت پرستی سے بہتر ہے۔ یہی ہمارے رب کا اور رسول کا پیغام ہے۔ وہ ہیرو، وہ مسیحا، وہ نبی، وہ واحد مکمل و معصوم شخص آ بھی گیا اور اللہ کا پیغام پہنچا بھی گیا۔ لیکن کچھ لوگ اب تک اپنی انسان پرستی اور ہیرو پرستی کی توقیت کے لئے نئے بت ڈھونڈھ رہے ہیں۔ لہذا ان کی نگاہ کسی بھی بندہ کی ذات سے بلند ہو کر اصولوں پر نہیں‌جاتی۔ تو بھائی اپنا اپنا مذہب بتانے کے بجائے اللہ کے اصولوں پر اور اللہ کے اصولوں سے بات کیجئے کہ یہی اصول نبی کی سنت بھی ہیں۔

پپیغام نمبر 11 کے بعد ، اس سمیت سب پیغام بے کار اور موضوع سے لا تعلق ہیں۔ ان کو حذف کردیجئے۔
السلام علیکم ، فاروق بھائی ، اچھی بات کہی ، انسان آج تک اپنی انسان پرستی اور ہیرو پرستی کی توقیت (میں اضافے ) کے لیے نئے نئے بت ڈھونڈ رہا ہے ، ماشاء اللہ بہت اچھی بات ہے ،
بلندی نگاہ والی بات بھی بہت اچھی ہے ، تھوڑا سا اضافہ کرتا چلوں ، نگاہ کا کسی بھی بندہ کی ذات سے بلند ہو کر (سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ) اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے مقرر کردہ اصولوں تک جانی ہی چاہیے ، اور انہین اصولوں کی کسوٹی پر اپنا مذہب و مسلک و منہج پرکھنا چاہیے ،
ہیغام رقم ۱۱ کے بعد کے پیغامات حذف کر دیے جانے کی تجویز بھی بہت مناسب ہے ، اس میں سے اگر پیغام رقم ۱۲ کو مستثنی کر دیا جائے تو ان شاء اللہ زیادہ بہتر ہے ، و السلام علیکم۔
 

شمشاد

لائبریرین
السلام علیکم ، شمشاد بھائی ، ایک تو حالت حاضرہ ، اسلام اور معاشرہ ، میں ، اسلام میں عورت کا مقام ہے ، یہاں بھی مجھے صرف شکریہ ادا کرنے کا موقع میسر ہے ، اور دوسرا واقعی ہی ڈیجیٹل اردو لائبریری پراجیکٹ ،قران و سنت ، تاریخ حدیث شریف ہے ،
معلومات مہیا کرنے پر جزاک اللہ خیرا ، لائبریری تک رسائی کے لیے کیا معیار ہے ؟
و السلام علیکم ۔

و علیکم السلام

عادل بھائی جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ " اسلام میں عورت کا مقام" والا دھاگہ انتظامیہ نے مقفل کر دیا ہے۔ اس دھاگے پر اب مزید کوئی پیغام پوسٹ نہیں ہو سکتا، یہاں تک کہ انتظامیہ اس کو غیر مقفل نہ کر دے۔

ڈیجیٹل اردو لائبریری کی انچارج سیدہ شگفتہ ہیں۔ وہی آپ کو اس معاملے میں صحیح طور پر بتا سکتی ہیں۔ ویسے اس زمرے میں بحث مباحثہ بالکل نہیں ہوتا۔ یہاں صرف کتابیں اردوانے کا کام ہوتا ہے۔
 
Top