بشکریہ :
اردو محفل کا تھریڈ :
سنت کی آئینی حیثیت از سید مودودی
کمپوزنگ :
قسیم حیدر ، شمشاد
وحی پر ایمان کی وجہ
آپ کا پہلا سوال یہ ہے کہ: “جہاں تک ایمان لانے اور اطاعت کرنے کا تعلق ہے کیا وحی کے دونوں حصے یکساں حیثیت رکھتے ہیں”۔
اس سوال کا صحیح جواب آدمی کی سمجھ میں اچھی طرح نہیں آ سکتا جب تک کہ وہ پہلے یہ نہ سمجھ لے کہ وحی پر ایمان لانے اور اس کی اطاعت کرنے کی اصل بنیاد کیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ وحی خواہ وہ کسی نوعیت کی بھی ہو، براہ راست ہمارے پاس نہیں آئی ہے کہ ہم بجائے خود اس کے منزل من اللہ ہونے کو جانیں اور اس کی اطاعت کریں۔ وہ تو ہمیں رسولؐ کے ذریعہ سے ملی ہے اور رسولؐ ہی نے ہمیں بتایا ہے کہ یہ ہدایت میرے پاس خدا کی طرف سے آئی ہے۔ قبل اس کے کہ ہم وحی پر (یعنی اس کے من جانب اللہ ہونے پر) ایمان لائیں، ہم رسولؐ پر ایمان لاتے ہیں اور اس کو اللہ تعالیٰ کا سچا نمائندہ تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہی یہ نوبت آ سکتی ہے کہ ہم رسولؐ کے بیان پر اعتماد کر کے اس وحی کو خدا کی بھیجی ہوئی وحی مانیں اور اس کی اطاعت کریں۔ پس اصل چیز وحی پر ایمان نہیں بلکہ رسولؐ پر ایمان اور اس کی تصدیق ہے۔ اور اسی کی تصدیق کا نتیجہ ہے کہ ہم نے وحی کو وحیِ خداوندی مانا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس بات کو یوں سمجھیے کہ رسولؐ کی رسالت پر ہمارے ایمان کی وجہ قرآن نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس قرآن پر ہمارے ایمان کی وجہ رسولؐ کی رسالت پر ایمان ہے۔ واقعات کی ترتیب یہ نہیں ہے کہ پہلے قرآن ہمارے پاس آیا اور اس نے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) سے ہمارا تعارف کرایا ہو، اور اس کے بیان کو صحیح جان کر ہم نے حضورؐ کو خدا کا رسول تسلیم کیا ہو۔ بلکہ صحیح ترتیبِ واقعات یہ ہے کہ پہلے محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے آ کر رسالت کا دعوٰی پیش کیا، پھر جس نے بھی ان کو رسولِ برحق مانا اس نے ان کی اس بات کو بھی برحق مان لیا کہ یہ قرآن جو وہ پیش فرما رہے ہیں، یہ کلام محمدؐ نہیں بلکہ کلام اللہ ہے۔
یہ ایک ایسی بدیہی پوزیشن ہے جس سے کوئی معقول آدمی انکار نہیں کر سکتا۔ اس پوزیشن کو اگر آپ مانتے ہیں تو اپنی جگہ خود غور کیجیے کہ جس رسولؐ کے اعتماد پر ہم نے قرآن کو وحی مانا ہے وہی رسولؐ اگر ہم سے یہ کہے کہ مجھے قرآن کے علاوہ بھی خدا کی طرف سے ہدایات اور احکام بذریعہ وحی ملتے ہیں، تو اس کی تصدیق نہ کرنے کی آخر کیا وجہ ہے؟ اور آخر رسولؐ کے ذریعہ سے آنے والی ایک وحی اور دوسری وحی میں فرق کیوں ہو؟ جب ایمان بالرسالت ہی وحی پر ایمان کی اصل بنیاد ہے تو اطاعت کرنے والے کے لیے اس سے کیا فرق واقع ہوتا ہے کہ رسولؐ نے خدا کا ایک حکم قرآن کی کسی آیت کی شکل میں ہمیں پہنچایا ہے یا اسے اپنے کسی فرمان یا عمل کی شکل میں؟ مثال کے طور پر پانچ وقت کی نماز بہرحال ہم پر فرض ہے اور امت اس کو فرض مانتی ہے باوجودیکہ قرآن کی کسی آیت میں یہ حکم نہیں آیا کہ “اے مسلمانو! تم پر پانچ وقت کی نماز فرض کی گئی ہے”۔ سوال یہ ہے کہ اگر قرآن میں بھی یہ حکم آ جاتا تو اس کی فرضیت اور اس کی تاکید میں کیا اضافہ ہو جاتا؟ اس وقت بھی یہ ویسی ہی فرض ہوتی جیسی اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد سے فرض ہے۔
ما انزل اللہ سے کیا مراد ہے؟
آپ کا دوسرا سوال یہ ہے کہ:
“قرآن نے جہاں ما انزل الیک کہا ہے کیا اس سے مراد صرف قرآن ہے یا وحی کا مذکورہ صدر حصہ بھی؟”
اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں “نازل کرنے” کے ساتھ “کتاب” یا “ذکر” یا “فرقان” وغیرہ کی تصریح کی گئی ہے۔ صرف اسی جگہ ما انزل اللہ سے مراد قرآن ہے۔ رہے وہ مقامات جہاں کوئی قرینہ ان الفاظ کو قرآن کے لیے مخصوص نہ کر رہا ہو، وہاں یہ الفاظ ان تمام ہدایات و تعلیمات پر حاوی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہم کو ملی ہیں، خواہ وہ آیات قرآنی کی صورت میں ہوں، یا کسی اور صورت میں۔ اس کی دلیل خود قرآن مجید ہی میں موجود ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر صرف قرآن ہی نازل نہیں ہوا ہے بلکہ کچھ اور چیزیں بھی نازل ہوئی ہیں۔ سورۃ نساء میں ارشاد ہوا ہے:
و انزل اللہ علیک الکتاب والحکمۃ و علمک ما لم تکن تعلم (آیت: ۱۱۳)
“اور اللہ نے تیرے اوپر نازل کی کتاب اور حکمت اور تجھے سکھایا وہ کچھ جو تو نہ جانتا تھا”
یہی مضمود سورۃ بقرۃ میں بھی ہے:
واذکروا نعمۃ اللہ علیکم و ما انزل علیکم من الکتاب والحکمۃ یعظکم بہ (آیت:۲۳۱)
“ اور یاد رکھو اپنے اوپر اللہ کے احسان کو، اور اس کتاب اور حکمت کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے۔ اللہ تمہیں اس کا پاس رکھنے کی نصیحت فرماتا ہے”
اسی بات کو سورۃ احزاب میں دہرایا گیا ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر کی خواتین کو نصیحت فرمائی گئی ہے کہ:
واذکرن ما یتلیٰ فی بیوتکن من ایٰت اللہ والحکمۃ (آیت:۳۴)
اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر کتاب کے علاوہ ایک چیز “حکمت” بھی نازل کی گئی تھی جس کی تعلیم آپ لوگوں کو دیتے تھے۔ اس کا مطلب آخر اس کے سوا کیا ہے کہ جس دانائی کے ساتھ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم قرآن مجید کی اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام کرتے اور قیادت و رہنمائی کے فرائض انجام دیتے تھے، وہ محض آپ کی آزادانہ ذاتی قوت فیصلہ (Private Judgment) نہ تھی بلکہ یہ چیز بھی اللہ نے آپ پر نازل کی تھی۔ نیز یہ کوئی ایسی چیز تھی جسے آپ خود ہی استعمال نہ کرتے تھے بلکہ لوگوں کو سکھاتے بھی تھے (یعلمکم الکتاب و الحکمۃ)۔ اور ظاہر ہے کہ یہ سکھانے کا عمل یا تو قول کی صورت میں ہو سکتا تھا یا فعل کی صورت میں۔ اس لیے امت کو آنحضرتؐ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وہ دو چیزیں ملی تھیں۔ ایک کتاب۔ دوسری حکمت، حضورؐ کے اقوال میں بھی اور افعال کی صورت میں بھی۔
پھر قرآن مجید ایک اور چیز کا ذکر بھی کرتا ہے جو اللہ نے کتاب کے ساتھ نازل کی ہے:
اللَّهُ الَّذِي أَنزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ (الشورٰی:۱۷)
“اللہ ہی ہے جس نے نازل کی کتاب حق کے ساتھ اور میزان”
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحدید:۲۵)
“ہم نے اپنے رسولوں کو روشن نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں”
یہ “میزان” جو کتاب کے ساتھ نازل کی گئی ہے، ظاہر ہے کہ وہ ترازو تو نہیں ہے جو ہر بنیے کی دوکان پر رکھی ہوئی مل جاتی ہے بلکہ اس سے مراد کوئی ایسی چیز ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق انسانی زندگی میں توازن قائم کرتی ہے، اس کے بگاڑ کو درست کرتی ہے اور افراط و تفریط کو دور کر کے انسانی اخلاق و معاملات کو عدل پر لاتی ہے۔ کتاب کے ساتھ اس چیز کو انبیاء پر “نازل” کرنے کے صاف معنی یہ ہیں کہ انبیاء کو اللہ تعالیٰ نے بطور خاص اپنے پاس سے وہ رہنمائی کی صلاحیت عطا فرمائی تھی جس سے انہوں نے کتاب اللہ کے منشا کے مطابق افراد اور معاشرے اور ریاست میں نظام عدل قائم کیا۔ یہ کام ان کی ذاتی قوت اجتہاد اور رائے پر منحصر نہ تھا، بلکہ اللہ کی نازل کردہ میزان سے تول تول کر وہ فیصلہ کرتے تھے کہ حیات انسانی کے مرکب میں کس جز کا کیا وزن ہونا چاہیے۔
پھر قرآن ایک تیسری چیز کی بھی خبر دیتا ہے جو کتاب کے علاوہ نازل کی گئی تھی:
فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنزَلْنَا وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (التغابن:۸)
“پس ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولؐ پر اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے”
فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِيَ أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الاعراف:۱۵۷)
“پس جو لوگ ایمان لائیں اس رسولؐ پر اور اس کی تعظیم و تکریم کریں اوراس کی مدد کریں اور اس نور کے پیچھے چلیں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے وہی فلاح پانے والے ہیں”
قَدْ جَاءكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ يَهْدِي بِهِ اللّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ (المائدۃ:۱۵۔ ۱۶)
“تمہارے پاس آ گیا ہے اللہ کی طرف سے نور اور کتاب مبین جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو جو اس کی مرضی کی پیروی کرنے والا ہے، سلامتی کی راہ دکھاتا ہے”
ان آیات میں جس “نور” کا ذکر کیا گیا ہے وہ کتاب سے الگ ایک چیز تھا، جیسا کہ تیسری آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں۔ اور یہ نور بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول پر نازل کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد وہ علم و دانش اور وہ بصیرت و فراست ہی ہو سکتی ہے جو اللہ نے حضور کو عطا فرمائی تھی۔ جس سے آپؐ نے زندگی کی راہوں میں صحیح اور غلط کا فرق واضح فرمایا، جس کی مدد سے زندگی کے مسائل حل کیے، اور جس کی روشنی میں کام کر کے آپ نے اخلاق و روحانیت، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت اور قانون و سیاست کی دنیا میں انقلاب عظیم برپا کر دیا۔ یہ کسی پرائیویٹ آدمی کا کام نہ تھا، جس نے بس خدا کی کتاب پڑھ پڑھ کر اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق جدوجہد کر ڈالی ہو۔ بلکہ یہ خدا کے اس نمائندے کا کام تھا جس نے کتاب کے ساتھ براہ راست خدا ہی سے علم اور بصیرت کی روشنی بھی پائی تھی۔
ان تصریحات کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن جب ہمیں دوسری سب چیزوں کو چھوڑ کر صرف ما انزل اللہ کی پیروی کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس سے مراد محض قرآن ہی کی پیروی نہیں ہوتی، بلکہ اس حکمت اور نور اور اس میزان کی پیروی بھی ہوتی ہے جو قرآن کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی تھی اور جس کا ظہور لا محالہ حضورؐ کی سیرت و کردار اور حضورؐ کے اقوال و افعال ہی میں ہو سکتا تھا۔ اسی لیے قرآن کہیں یہ کہتا ہے کہ ما انزل اللہ کی پیروی کرو (مثلًا آیت ۳۰۷ میں)، اور کہیں یہ ہدایت کرتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کرو (مثلًا آیات ۳۱:۳۔ ۳۳، ۲۱ اور ۱۵۶:۷ میں)۔ اگر یہ دو مختلف چیزیں ہوتیں تو ظاہر ہے کہ قرآن کی ہدایات متضاد ہو جاتیں۔
سنت کہاں ہے
آپ کا تیسرا سوال یہ ہے:
“وحی کا یہ دوسرا حصہ کہاں ہے؟ کیا قرآن کی طرح اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی خدا نے لی ہوئی ہے؟”
اس سوال کے دو حصے الگ الگ ہیں۔ پہلا حصہ یہ ہے کہ “وحی کا یہ دوسرا حصہ کہاں ہے؟” بعینہ٘ یہ سوال آپ پہلے مجھ سے کر چکے ہیں اور میں اس کا مفصل جواب دے چکا ہوں۔ مگر آپ اسے پھر اس طرح دوہرا رہے ہیں کہ گویا آپ کو سرے سے کوئی جواب ملا ہی نہیں۔ براہ کرم اپنا اولین خط اٹھا کر دیکھیے جس میں سوال نمبر ۲ کا مضمون وہی تھا جو آپ نے اس تازہ سوال کا ہے۔ اس کے بعد میرا دوسرا خط ملاحظہ فرمائیے جس میں، مَیں نے آپ کو اس سوال کا تفصیلی جواب دیا ہے۔ (فوٹ نوٹ: ملاحظہ ہو کتاب ہذا، صفحہ نمبر ۳۵، ۳۷) اب آپ کا اسی سوال کو پھر پیش کرنا اور میرے پہلے جواب کو بالکل نظر انداز کر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ یا تو آپ اپنے ہی خیالات میں گم رہتے ہیں اور دوسرے کی کوئی بات آپ کے ذہن تک پہنچنے کا راستہ ہی نہیں پاتی، یا پھر آپ یہ بحث برائے بحث فرما رہے ہیں۔
کیا سنت کی حفاظت بھی خدا نے کی ہے؟
رہا آپ کے سوال کا دوسرا حصہ تو اس کا جواب سننے سے پہلے ذرا اس بات پر غور کر لیجیے کہ قرآن کی حفاظت کی ذمہ داریاں جو اللہ میاں نے لے لی تھی، اس کو انہوں نے براہ راست عملی جامہ پہنایا، یا انسانوں کے ذریعہ سے اس کو عملی جامہ پہنوایا؟ ظاہر ہے آپ اس کا کوئی جواب اس کے سوا نہیں دے سکتے کہ اس حفاظت کے لیے انسان ہی ذریعہ بنائے گئے۔ اور عملًا یہ حفاظت اس طرح ہوئی کہ حضورؐ سے جو قرآن لوگوں کو ملا تھا اس کو اسی زمانہ میں ہزاروں آدمیوں نے لفظ بلفظ یاد کر لیا، پھر ہزاروں سے لاکھوں، اور لاکھوں سے کروڑوں اس کو نسلا بعد نس لیتے اور یاد کرتے چلے گئے، حتی کہ یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں رہا کہ قرآن کا کوئی لفظ دنیا سے محو ہو جائے، یا اس میں کسی وقت کوئی ردوبدل ہو اور وہ فورًًا نوٹس میں نہ آ جائے، یہ حفاظت کا غیر معمولی انتظام آج تک دنیا کی کسی دوسری کتاب کے لیے نہیں ہو سکا ہے اور یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کا کیا ہوا انتظام ہے۔
اچھا، اب ملاحظہ فرمائیے کہ جس رسولؐ کو ہمیشہ کے لیے اور تمام دنیا کے لے رسول بنایا گیا تھا اور جس کے بعد نبوت کا دروازہ بند کر دینے کا بھی اعلان کر دیا گیا تھا، اس کے کارنامہ حیات کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایسا محفوظ فرمایا کہ آج تک تاریخ انسانی میں گزرے ہوئے کسی نبی، کسی پیشوا، کسی لیڈر اور رہنما اور کسی بادشاہ یا فاتح کا کارنامہ اس طرح محفوظ نہیں رہا ہے اور یہ حفاظت بھی انہیں ذرائع سے ہوئی ہے جن ذرائع سے قرآن کی حفاظت ہوئی ہے، ختم نبوت کا اعلان بجائے خود یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرر کیے ہوئے آخری رسولؐ کی رہنمائی اور اس کے نقوش قدم کو قیامت تک زندہ رکھنے کی ذمہ داری لے لی ہے تاکہ اس کی زندگی ہمیشہ انسان کی رہنمائی کرتی رہے اور اس کے بعد کسی نئے رسول کے آنے کی ضرورت باقی نہ رہے۔ اب آپ خود دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے فی الواقع جریدہ عالم پر ان نقوش کو کیسا ثبت کیا ہے کہ آج تک کوئی طاقت انہیں مٹا نہیں سکتی۔ کیا آپ کو نظر نہیں آتا کہ یہ وضو، یہ پنچ وقتہ نماز، یہ اذان، یہ مساجد کی باجماعت نماز، یہ عیدین کی نماز، یہ حج کے مناسک، یہ بقر عید کی قربانی، یہ زکٰوۃ کی شرحیں، یہ ختنہ، یہ نکاح و طلاق و وراثت کے قاعدے، یہ حرام و حلال کے ضابطے اور اسلامی تہذیب و تمدن کے دوسرے بہت سے اصول اور طور طریقے جس روز نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے شروع کیے اسی روز سے وہ مسلم معاشرے میں ٹھیک اسی طرح رائج ہو گئے جس طرح قرآن کی آیتیں زبانوں پر چڑھ گئیں، اور پھر ہزاروں سے لاکھوں اور لاکھوں سے کروڑوں مسلمان دنیا کے ہر گوشے میں نسلًا بعد نسل ان کی اسی طرح پیروی کرتے چلے آ رہے ہیں جس طرح ان کی ایک نسل سے دوسری نسل قرآن لیتی چلی آ رہی ہے۔ ہماری تہذیب کا بنیادی ڈھانچہ رسول پاک کی جن سنتوں پر قائم ہے، ان کے صحیح ہونے کا ثبوت بعینہ٘ وہی ہے جو قرآن پاک کے محفوظ ہونے کا ثبوت ہے۔ اس کو جو شخص چیلنج کرتا ہے وہ دراصل قرآن کی صحت کو چیلنج کرنے کا راستہ اسلام کے دشمنوں کو دکھاتا ہے۔
پھر دیکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی اور آپ کے عہد کی سوسائٹی کا کیسا مفصل نقشہ، کیسی جزئی تفصیلات کے ساتھ، کیسے مستند ریکارڈ کی صورت میں آج ہم کو مل رہا ہے۔ ایک ایک واقعہ اور ایک ایک قول و فعل کی سند موجود ہے، جس کا جانچ کر ہر وقت معلوم کیا جا سکتا ہے کہ روایت کہاں تک قابل اعتماد ہے۔ صرف ایک انسان کے حالات معلوم کرنے کی خاطر اس دَور کے کم و بیش 6 لاکھ انسانوں کے حالات مرتب کر دیئے گئے تاکہ ہر وہ شخص جس نے کوئی روایت اس انسان عظیمؐ کا نام لے کر بیان کی ہے اس کی شخصیت کو پرکھ کا رائے قائم کی جا سکے کہ ہم اس کے بیان پر کہاں تک بھروسہ کر سکتے ہیں۔ تاریخی تنقید کا ایک وسیع علم انتہائی باریک بینی کے ساتھ صرف اس مقصد کے لیے مدون ہو گیا کہ اس ایک فرد فرید کی طرف جو بات بھی منسوب ہو اسے ہر پہلو سے جانچ پڑتا کر کے صحت کا اطمینان کر لیا جائے۔ کیا دنیا کی پوری تاریخ میں کوئی اور مثال بھی ایسی ملتی ہے کسی ایک شخص کے حالات محفوظ کرنے کے لیے انسانی ہاتھوں سے یہ اہتمام عمل میں آیا ہو؟ اگر نہیں ملتی اور نہیں مل سکتی، تو کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ اس اہتمام کے پیچھے بھی وہی خدائی تدبیر کارفرما ہے جو قرآن کی حفاظت میں کارفرما رہی ہے؟
وحی سے مراد کیا چیز ہے؟
آپ کا چوتھا سوال یہ ہے:
“قرآن کے ایک لفظ کی جگہ عربی کا دوسرا لفظ جو اس کے مترادف المعنی ہو، رکھ دیا جائے تو کیا اس لفظ کو “وحی منزل من اللہ” سمجھ لیا جائے گا؟ کیا وحی کے مذکورہ بالا دوسرے حصے کی بھی یہی کیفیت ہے؟”
یہ ایسا مہمل سوال آپ نے کیا ہے کہ میں کسی پڑھے لکھے آدمی سے اس کی توقع نہ رکھتا تھا۔ آخر یہ کس نے آپ سے کہہ دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قرآن کے شارح اس معنی میں ہیں کہ آپ نے تفسیر بیضاوی یا جلالین کی طرح کی کوئی تفسیر لکھی تھی جس میں قرآن کے عربی الفاظ کی تشریح میں کچھ دوسرے مترادف عربی الفاظ درج کر دیئے تھے اور ان تفسیری فقروں کو اب کوئی شخص “وحی منزل من اللہ” کہہ رہا ہے۔ جو بات آپ سے بار بار کہی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغمبرانہ حیثیت سے جو کچھ بھی کیا اور کہا ہے وہ بربنائے وحی ہے۔ آپ کا پورا پیغمبرانہ کارنامہ اپنی پرائیویٹ حیثیت میں نہ تھا بلکہ خدا کے نمائندہ مجاز ہونے کی حیثیت میں تھا۔ اس حیثیت میں آپ کوئی کام بھی خدا کی مرضی کے خلاف یا اس کے بغیر نہ کر سکتے تھے۔ ایک معلم، ایک مربی، ایک مصلح اخلاق، ایک حکمران ہونے کی حیثیت میں آپ نے جتنا کام بھی کیا وہ سب دراصل خدا کے رسول ہونے کی حیثیت میں آپ کا کام تھا۔ اس میں خدا کی وحی آپ کی رہنمائی اور نگرانی کرتی تھی، اور کہیں ذرا سی چوک بھی ہو جاتی تو خدا کی وضی بروقت اس کی اصلاح کر دیتی تھی۔ اس وحی کو اگر آپ اس معنی میں لیتے ہیں کہ قرآن کے الفاظ کی تشریح میں کچھ عربی زبان کے مترادف الفاظ نازل ہو جاتے تھے تو میں سوائے اس کے اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ "بریں عقل و دانش بباید گریست"۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ وحی لازمًا الفاظ کی صورت ہی میں نہیں ہوتی۔ وہ ایک خیال کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے جو دل میں ڈالا جائے۔ وہ ذہن و فکر کے لیے ایک رہنمائی بھی ہو سکتی ہے۔ وہ ایک معاملہ کا صحیح فہم بخشنے اور ایک مسئلے کا ٹھیک حل یا ایک موقع کے لیے مناسب تدبیر سجھانے کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔ وہ محض ایک روشنی بھی ہو سکتی ہے جس میں آدمی اپنا راستہ صاف دیکھ لے۔ وہ ایک سچا خواب بھی ہو سکتی ہے اور وہ پردے کے ییچھے سے ایک آواز یا فرشتے کے ذریعہ سے آیا ہوا ایک پیغام بھی ہو سکتی ہے۔ عربی زبان میں وحی کے لفظی معنی "اشارہ لطیف" کےہیں۔ انگریزی میں اس سے قریب تر لفظ (Inspiration) ہے۔ اگر آپ عربی نہیں جانتے تو انگریزی زبان ہی کی کسی لغت میں اس لفظ کی تشریح دیکھ لیں۔ اس کے بعد آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ لفظ کےمقابلہ میں لفظ رکھنے کا یہ عجیب و غریب تصور، جسے آپ وحی کے معنی میں لے رہے ہیں، کیسا طفلانہ ہے۔
آپ کا پانچواں سوال یہ ہے:
"بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و سلم ) نے نبوت پانے کے بعد اپنی زندگی کے آخری سانس تک جو کچھ کیا وہ خدا کی طرف سے وحی تھا۔ کیا آپ ان کے ہمنوا ہیں؟ اگر نہیں تو اس باب میں آپ کا عقیدہ کیا ہے؟"
اس سوال کا جواب سوال نمبر 4 میں آ گیا ہے اور جو عقیدہ میں نے اوپر بیان کیا ہے وہ "بعض لوگوں" کا نہیں بلکہ آغاز اسلام سے آج تک تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے۔
محض تکرار سوال
آپ کا چھٹا سوال یہ ہے:
"اگر آپ سمجھتے ہیں کہ حضورؐ کے بعض ارشادات وحی الٰہی تھے اور بعض وحی نہ تھے تو آپ فرمائیں گے کہ حضورؐ کے جو ارشادات وحی تھے، ان کا مجموعہ کہاں ہے؟ نیز آپ کے جو ارشادات وحی نہ تھے، مسلمانوں کے لیے ایمان و اطاعت کے اعتبار سے ان کی حیثیت کیا ہے؟"
اس سوال کے پہلے حصے میں آپ نے اپنے سوال نمبر ۳ کو پھر دہرا دیا ہے۔ اور اس کا جواب وہی ہے جو اوپر اسی سوال کا دیا جا چکا ہے۔ دوسرے حصے میں آپ نے اس بات کا اعادہ کیا ہے جو اس سے پہلے اپنے خط نمبر ۲ میں آپ بیان فرماچکے ہیں اور میں اس کا جواب عرض کر چکا ہوں۔ شبہ ہوتا ہے کہ آپ میرے جوابات کو غور سے پڑھتے بھی نہیں ہیں اور ایک ہی طرح کے سوالات کو دہراتے چلے جاتے ہیں۔
ایمان و کفر کا مدار
آپ کا ساتواں سوال یہ ہے:
“اگر کوئی شخص قرآن کریم کی کسی آیت کے متعلق یہ کہہ دے کہ وہ “منزل من اللہ” نہیں ہے تو آپ اس سے متفق ہوں گے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص احادیث کے موجودہ مجموعوں میں سے کسی حدیث کے متعلق یہ کہے کہ وہ خدا کی وحی نہیں تو کیا وہ بھی اسی طرح دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا؟”
اس کا جواب یہ ہے کہ احادیث کے موجودہ مجموعوں سے جن سنتوں کی شہادت ملتی ہے ان کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک قسم کی سنتیں وہ ہیں جن کے سنت ہونے پر امت شروع سے آج تک متفق رہی ہے، یعنی بالفاظ دیگر وہ متواتر سنتیں ہیں اور امت کا ان پر اجماع ہے۔ ان میں سے کسی کو ماننے سے جو شخص بھی انکار کرے گا وہ اسی طرح دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا جس طرح قرآن کی کسی آیت کا انکار کرنے والا خارج از اسلام ہو گا۔ دوسری قسم کی سنتیں وہ ہیں جن کے ثبوت میں اختلاف ہے یا ہو سکتا ہے۔ اس قسم کی سنتوں میں سے اگر کسی کے متعلق اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میری تحقیق میں فلاں سنت ثابت نہیں ہے اس لیے میں اسے قبول نہیں کرتا تو اس قول سے اس کے ایمان پر قطعًا کوئی آنچ نہ آئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم علمی حیثیت سے اس کی رائے کو صحیح سمجھیں یا غلط۔ لیکن اگر وہ یہ کہے کہ یہ واقعی سنت رسولؐ ہو بھی تو میں اس کی اطاعت کا پابند نہیں ہوں تو اس کے خارج از اسلام ہونے میں قطعًا کوئی شبہ نہیں، کیونکہ وہ رسولؐ کی حیثیتِ حکمرانی (Authority) کو چیلنج کرتا ہے جس کی کوئی گنجائش دائرہ اسلام میں نہیں ہے۔
کیا احکام سنت میں ردوبدل ہو سکتا ہے؟
آپ کا آٹھواں سوال یہ ہے:
“رسول اللہ (صلعم) نے دین کے احکام کی بجاآوری کے لیے جو صورتیں تجویز فرمائی ہیں کیا کسی زمانے کی مصلحتوں کے لحاظ سے ان کی جزئیات میں ردوبدل کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کیا اس قسم کا ردوبدل قرآن کی جزئیات میں بھی کیا جا سکتا ہے؟”
اس کا جواب یہ ہے کہ قرآنی احکام کے جزئیات ہوں یا ثابت شدہ سنت رسولؐ کے کسی حکم کی جزئیات، دونوں کے اندر صرف اسی صورت میں اور اسی حد تک ردوبدل ہو سکتا ہے جب اور جس حد تک حکم کے الفاظ کسی ردوبدل کی اجازت دیتے ہوں، یا کوئی دوسری نص ایسی ملتی ہو جس کسی مخصوص حالت کے لیے کسی خاص قسم کے احکام میں ردوبدل کی اجازت دیتی ہو۔ اس کی ماسوا کوئی مومن اپنے آپ کو کسی حال میں بھی خدا اور رسولؐ کے احکام میں ردوبدل کر لینے کا مختار و مجاز تصور نہیں کر سکتا۔ البتہ ان لوگوں کا معاملہ دوسرا ہے جو اسلام سے نکل کر مسلمان رہنا چاہتے ہیں۔ ان کا طریق کار یہی ہے کہ پہلے رسول کو آئین و قانون سے بے دخل کر کے “قرآن بلا محمد” کی پیروی کا نرالا مسلک ایجاد کریں، پھر قرآن سےپیچھا چھڑانے کے لیے اس کی ایسی من مانی تاویلات شروع کر دیں جنہیں دیکھ کر شیطان بھی اعتراف کمال پر مجبور ہو جائے۔
خاکسار۔۔ ۔ ۔ ۔ ابو الاعلٰی
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔