امريکہ – دوست يا دشمن ؟ کچھ حقائق

نایاب

لائبریرین
میرے محترم فواد بھائی
سن 1968 سے جب صرف پانچ سال کا تھا ۔ امریکہ حضور کی دوستی سے آگاہ ہوا تھا ۔
بلاشبہ امریکہ اک ایسا دوست ہے جس کے ہوتے دشمن کی کوئی بھی ضرورت نہیں ہے ۔
پاکستان کو کھوکھلا ہوتے دیکھا ہے اس دوستی کے سہارے ۔
دوست ہمارا ہے اور پیٹھ ہمارے دشمنوں کی تھپکتے ہمیں آس امید پر بہلاتا ہے ۔
ہمارے قلبی و جگری دوست کا سن اکہتر کا چلا بحری بیڑہ اب تک نہ پہنچ پایا ۔
کشمیر آج تک آزاد نہ ہو پایا ۔
اس دوست کی دوستی نبھانے میں روس سے پنگا لیا ۔
ہیروئن و کلاشنکوف ۔ بم دھماکوں کے تحفوں کو دل و جاں سے قبول فرمایا ہم نے
روس تو پھر بھی ہمیں اک سٹیل مل دے گیا ۔
ایف سکسٹین جو ہمارے دوست نے اپنے پاس محفوظ کر لیئے تھے ۔
بمشکل اپنے دوست کو یہ ثبوت دیکر حاصل کیے کہ
ہم کاغذ کی واشر ڈال کر بھی اڑا لیتے ہیں ان شاہینوں کو ۔۔۔
میرے محترم بس کریں ہم بھر پائے ایسی دوستی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
یہ بھی لکھیں کہ کتنے معصوم پاکستانیوں کو قتل کر چکا ہے امریکا اب تک (بشمول ڈرون)
نیز امریکا جس کے اپنے بزدل فوجی پیمپر باندھ کے ٹینکوں میں بیٹھتے رہتے ہیں اور پاکستانی فوج کے کتنے ہزار سپاہی یہ نام نہاد دوست اپنی نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں بھینٹ چڑھا چکا ہے؟
 
یہ بھی لکھیں کہ کتنے معصوم پاکستانیوں کو قتل کر چکا ہے امریکا اب تک (بشمول ڈرون)
نیز امریکا جس کے اپنے بزدل فوجی پیمپر باندھ کے ٹینکوں میں بیٹھتے رہتے ہیں اور پاکستانی فوج کے کتنے ہزار سپاہی یہ نام نہاد دوست اپنی نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں بھینٹ چڑھا چکا ہے؟

:laughing::laughing::laughing:
 

محمداحمد

لائبریرین
فواد صاحب،

جن لوگوں کے اپنے اُن کے دوست نہ ہوں انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی "غیر" اُن کا دوست ہے یا نہیں۔

آپ بے کار کی باتوں میں ناحق اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔
 
فواد صاحب-آپ پانی میں مدھانی چلا کر مکھن نکالنا چاہتے ہیں جو کہ ناممکن بات ہے۔
اب ہم لوگ اتنے بھی بیوقوف نہیں کہ امریکہ کو جگری یار سمجھتے پھریں
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں دہشت گردی کے عفريت، سيلاب کی تباہ کاريوں اور حاليہ برسوں ميں ديگر قدرتی آفات کے نتيجے ميں لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہونے پاکستانيوں کی مدد کے حوالے سے انسانی بنيادوں پر کی جانے والی امريکی کوششوں پر بعض افراد کی تنقيد، تحفظات اور خدشات کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔

يہ کوئ پہلا موقع نہيں ہے کہ امريکہ نے خالص انسانی بنيادوں پر کسی بيرون ملک کے افراد کی بحالی کے ضمن میں عالمی کوششوں ميں مرکزی کردار ادا کيا ہے۔ امريکی حکومت، متعدد نجی تنظيموں اور عام امريکی عوام نے سياسی اور سفارتی تعلقات کی نوعيت اور حالات سے بالاتر ہو کر ہميشہ مدد کی اپيل پر اپنا کردار ادا کيا ہے۔ چاہے وہ ہيٹی ميں زلزلے کی تباہی ہو (2010)، ايران میں 2004 کا زلزلہ ہو، پاکستان ميں 2005 کا زلزلہ ہو يا سال 2005 ميں سونامی سے آنے والی تباہی ہو، ہم نے ہميشہ غير مشروط طور پر مقامی حکومتوں اور انتظاميہ کی ضروريات اور درخواست کے عين مطابق ہر ممکن معاشی، تکنيکی اور لاجسٹک مدد فراہم کی ہے۔

جو لوگ پاکستان کے عام عوام کے ليے امريکی کوششوں پر سوال اٹھا رہے ہيں اور اس حوالے سے اپنے شکوک بيان کر رہے ہيں، ان سے ميرا بھی ايک سوال ہے۔ حکومت پاکستان، نجی تنظيموں اور سول سوسائٹی کی جانب سے مختلف سيکٹرز اور کئ جاری ترقياتی منصوبوں کے ليے مسلسل مدد کے لیے کی جانے والی اپيلوں پر ہمارا کيا ردعمل ہونا چاہیے؟ کيا آپ واقعی سمجھتے ہيں کہ جن پاکستانیوں کو امريکی کوششوں کی نتيجے ميں خوراک اور رہائش دستياب ہو رہی ہے، وہ اس بات کو فوقيت ديں گے کہ ان کی مدد نہ کی جائے؟

کيا کوئ واقعی يہ سمجھتا ہے کہ سيلاب سے متاثرہ پاکستانيوں کی بحالی اور عام لوگوں کے ليے ضروريات زندگی کی اشياء مہيا کرنے کے ليے ہنگامی بنيادوں پر کی جانے والی امريکی کوششوں کو ختم کر کے اور لوگوں کی مدد کے ليے کی جانے والی اپيلوں کو نظرانداز کر کے قوم کی بہتر خدمت کی جا سکتی ہے؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
یہ بھی لکھیں کہ کتنے معصوم پاکستانیوں کو قتل کر چکا ہے امریکا اب تک (بشمول ڈرون)


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


اس حوالے سے جو غلط تاثر اور منطق استعمال کر کے امريکہ پر شديد تنقيد کی جاتی ہے اس کی بنياد اس غلط سوچ پر مبنی ہے کہ امريکہ اور پاکستان کی حکومتيں اور دونوں ممالک کی فوجی قيادتيں گويا ايک دوسرے کے خلاف برسر پيکار ہيں۔

اس بات کا حقيقت سے دور کا بھی واسطہ نہيں ہے۔

اس کے باوجود کہ امريکہ اور پاکستان کے مابين تعلقات مختلف اوقات اور حالات کے پيش نظر اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہيں، تمام فريقين اور دونوں جانب متعلقہ حکام اس بات پر کلی طور پر متفق ہيں کہ دونوں ممالک ايک دوسرے کے دشمن نہيں بلکہ اسٹريجک اتحادی ہيں جنھيں اپنے اختلافات دور کر کے ايسا طريقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے جس سے دونوں فريقين کے مقاصد کے حصول کے ليے مثبت نتائج حاصل کيے جا سکيں۔ ميں نے درجنوں ايسی سرکاری رپورٹس اور دستاويزات کے لنکس يہاں پوسٹ کيے ہیں جن میں دونوں ممالک کے مابين دو طرفہ تعلقات اور طويل المدت معاہدوں کو اجاگر کيا گيا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امريکہ پاکستان کے خلاف حالت جنگ ميں نہيں ہے۔

يہ امر قابل افسوس ہے کہ ميڈيا پر کچھ تجزيہ نگار مشترکہ فوجی کاروائيوں کے حوالے سے تفصيلی تبصرے پيش کرتے ہيں، باوجود اس کے کہ اکثر صحافيوں کو تو ان علاقوں تک رسائ ہی حاصل نہيں ہے جہاں فوجی آپريشنز جاری ہيں۔ اس ضمن ميں پيش کی جانے والی اکثر آراء افواہوں، سنی سنائ باتوں، بغير تصديق کے مبہم کہانيوں اور بغض اوقات ايک مخصوص سياسی ايجنڈے کی تکميل کے ليے دانستہ غلط رپورٹنگ پر مبنی ہوتی ہيں۔

ايک تازہ اخباری خبر کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان دہشت گردوں نے سرحدوں کی دونوں جانب بے گناہ شہريوں کے قتل کے ذريعے جو جنگ شروع کر رکھی ہے اس ميں تقدس اور عظمت کا کوئ عمل دخل نہيں ہے۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2012/06/120608_peshawar_blast_pics_rwa.shtml


خطے ميں امريکی کوششيں صرف انھی عناصر کے خلاف مخصوص ہيں۔ يہ بات بھی اہم ہے کہ اپنی ان کاوشوں ميں ہم تنہا نہيں ہیں۔ ہم پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں جو خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہمارے مضبوط اتحادی اور شراکت دار ہيں۔ ہم ٹيکنالوجی اور اينٹيلی جينس سميت وسائل کی تقسيم ميں بھی شراکت دار ہیں۔
اس ضمن ميں حال ہی میں پاکستانی آرمی کے ميجر جرنل غيور محمود کا تجزيہ اور نقطہ نظر بھی سامنے آيا ہے جس ميں انھوں نے زمين پر موجود صورت حال کے حوالے سے بريفنگ دی ہے۔ ايک مخصوص سياسی ايجنڈے کی تکمیل کے ليے دانستہ اخترا کی گئ افواہوں کے برعکس انھوں نے کم از کم کچھ اعداد وشمار پيش کيے ہيں۔

http://articles.cnn.com/2011-03-10/world/pakistan.drone.attacks_1_drone-strikes-militants-on-pakistani-soil-north-waziristan?_s=PM:WORLD

اس کے علاوہ دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے حاليہ بيان بھی توجہ طلب ہے جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ان مشترکہ فوجی کاروائيوں کا اصل ہدف کون ہے اور يہی عناصر اس ضمن ميں مسلسل نقصان اٹھا رہے ہيں۔

http://news.yahoo.com/blogs/lookout/taliban-warns-u-drone-strikes-153252109.html%3b_ylc=X3oDMTNubjlnazU1BF9TAzIxNDU4OTIzMDEEYWN0A21haWxfY2IEY3QDYQRpbnRsA3VzBGxhbmcDZW4tVVMEcGtnA2M2MGYwNWMxLWQ4NzEtMzBhNC1hYjY2LWZhNjY0ZTZlZmRkYgRzZWMDbWl0X3NoYXJlBHNsawNtYWlsBHRlc3QD%3b_ylv=3



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu




 

فاتح

لائبریرین
مٹی پاؤ حکومتوں کے مابین اختلاف اور اتفاق پر۔۔۔ یہ پوچھا تھا کہ کتنے معصوم اور نہتے پاکستانی بچوں عورتوں اور مردوں کو قتل کیا ہے آپ نے اب تک ڈرون وغیرہ کے نام پر؟
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


کچھ رائے دہندگان نے فورمز پر يہ بالکل درست کہا ہے کہ امريکی حکومت اپنے شہريوں کے مفادات کو مقدم سمجھتی ہے اور يہی ان کے نزديک سب سے اہم مقصد ہے۔ دنيا ميں کسی بھی ملک کی طرح امريکی حکومتی عہديداروں کو بھی بحثيت مجموعی اس بات کا مينڈيٹ ديا جاتا ہے کہ وہ اپنے شہريوں کے مفادات کا تحفظ کريں، ان کی زندگيوں کو محفوظ بنائيں اور عالمی سطح پر ترقی کے مواقع فراہم کريں۔ يہ نا تو کوئ خفيہ ايجنڈا ہے اور نا ہی کو پيچيدہ سازش۔ يہ عالمی سطح پر ايک تسليم شدہ حقيقت ہے کہ منتخب حکومتيں اپنے لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔


ليکن اس ضمن ميں ميرا ايک سوال ہے۔ امريکی عوام کے مفادات کے ليے بہتر کيا ہے؟ زيادہ سے سے زيادہ دوست بنانا جو مختلف سطحوں پر رائج خليج کو پار کر کے ايسے مواقع پيدا کريں جس سے باہم مفادات کے معاملات کو حل کيا جا سکے يا دانستہ امريکہ سے نفرت کو پروان چڑھا کر زيادہ سے زيادہ دشمن تيار کرنا بہتر لائحہ عمل ہے؟


کونسا طريقہ کار دانش کے اصولوں سے ميل کھاتا ہے اور امريکی مفادات کے تحفظ کے ہمارے تسليم شدہ مقصد کے قريب تر لے کے جا سکتا ہے؟


دنيا ميں آپ کے جتنے دوست ہوں گے، عوام کے معيار زندگی کو بہتر کرنے کے اتنے ہی زيادہ مواقع آپ کے پاس ہوں گے۔ اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے امداد کے عالمی پروگرامز دو ممالک کے عوام کے مفاد اور بہتر زندگی کے مواقع فراہم کرنے کے ليے ايک دوسرے کی مشاورت سے تشکيل ديے جاتے ہيں۔


يہ کيسی منطق ہے کہ مقامی آبادی کے لیے شروع کيےجانے والے ترقياتی منصوبے جس ميں ان کی اپنی ذمہ داری بھی شامل ہو وہ پاکستان کی رياست کو کمزور کرنے کا سبب بن سکتے ہيں؟


اس ميں کوئ شک نہيں کہ افغانستان ميں اپنے مقاصد کے حصول کے ليے امريکہ ايک فعال، مستحکم اور مضبوط پاکستان کی ضرورت کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے۔ يہ بھی واضح رہے کہ ان مقاصد کا حصول پاکستان کے بھی بہترين مفاد ميں ہے۔ اس کے علاوہ امريکی حکومت اس خطے اور دنيا ميں پاکستان کی ايک قد آور اور اہم مسلم ملک کی حيثيت کو بھی تسليم کرتی ہے۔ پاکستان کا استحکام اور اس کا دفاع نا صرف پاکستان بلکہ خطے اور دنيا کے بہترين مفاد ميں ہے۔ امريکہ اور عالمی برادری يہ توقع رکھتی ہے کہ حکومت پاکستان اپنی سرحدوں کو محفوظ بنا کر پورے ملک پر اپنی رٹ قائم کرے۔


امريکہ پاکستان ميں ايک منتخب جمہوری حکومت کو کامياب ديکھنے کا خواہ ہے جو نہ صرف ضروريات زندگی کی بنيادی سہولتيں فراہم کرے بلکہ اپنی رٹ بھی قائم کرے۔ اس ضمن میں امريکہ نے ترقياتی منصوبوں کے ضمن ميں کئ سالوں سے مسلسل امداد دی ہے۔ انتہا پسندی کی وہ سوچ اور عفريت جس نے دنيا کے بڑے حصے کو متاثر کيا ہے اس کے خاتمے کے لیے يہ امر انتہائ اہم ہے۔


ميں پھر اپنے سوال کی جانب واپس آؤں گا کہ جو ميں نے تھريڈ کے آغاز ميں کيا تھا کہ اس حقيقت کو سامنے رکھتے ہوئے کہ امريکہ اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے اور دنيا بھر ميں امريکيوں کی جانوں کو تحفظ دينے کے ليے طويل المدت بنيادوں پر مضبوط اسٹريجک اتحاد تشکيل دينے کا خواہاں ہے اور اسی ضمن ميں کئ دہائيوں سے پاکستان کو امداد بھی فراہم کر رہا ہے تو کيا اس تناظر ميں آپ امريکہ کو دوست گردانتے ہيں يا دشمن؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

سید ذیشان

محفلین
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔

یہ بھی لکھیں کہ کتنے معصوم پاکستانیوں کو قتل کر چکا ہے امریکا اب تک (بشمول ڈرون)
نیز امریکا جس کے اپنے بزدل فوجی پیمپر باندھ کے ٹینکوں میں بیٹھتے رہتے ہیں اور پاکستانی فوج کے کتنے ہزار سپاہی یہ نام نہاد دوست اپنی نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں بھینٹ چڑھا چکا ہے؟

یہ پیمپر والی بات تو خاصی غیر معقول ہے۔(پیمپر اگر استعمال کرتے بھی ہیں تو وہ چہرے سے پسینہ خشک کرنے کے لئے) بے شک دشمن ہی کیوں نہ ہو لیکن سچ یہ ہے امریکی فوجیوں کو بزدل نہیں کہا جا سکتا۔
 
پیمپر اگر استعمال کرتے بھی ہیں تو وہ چہرے سے پسینہ خشک کرنے کے لئے
:-o پیمپر کا یہ استعمال کہاں ہوتا ہے؟؟

03_07.gif
 

سید زبیر

محفلین
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔



یہ پیمپر والی بات تو خاصی غیر معقول ہے۔(پیمپر اگر استعمال کرتے بھی ہیں تو وہ چہرے سے پسینہ خشک کرنے کے لئے) بے شک دشمن ہی کیوں نہ ہو لیکن سچ یہ ہے امریکی فوجیوں کو بزدل نہیں کہا جا سکتا۔

ذرا ان بہادر فوجیوں کی مہمات دیکھیں کیسے کیسے معرکے سرانجام دیے ہیں ویتنام، سوڈان ، صومالیہ، عراق اور اب افغانستان۔۔۔ تن تنہا نہیں دنیا کے بہترین جنگجووں کے ہمراہ چڑھائی۔۔۔نتائج سے مغربی ویب سائٹس بھری ہوئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ آج دس سال سے تختہ مشق بننے کے باوجود افغان سمجھ رہا ہے کہ وہی جیتے گا ۔۔۔ دیوانگی کی انتہا ہے
 

سید ذیشان

محفلین
ذرا ان بہادر فوجیوں کی مہمات دیکھیں کیسے کیسے معرکے سرانجام دیے ہیں ویتنام، سوڈان ، صومالیہ، عراق اور اب افغانستان۔۔۔ تن تنہا نہیں دنیا کے بہترین جنگجووں کے ہمراہ چڑھائی۔۔۔ نتائج سے مغربی ویب سائٹس بھری ہوئی ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ آج دس سال سے تختہ مشق بننے کے باوجود افغان سمجھ رہا ہے کہ وہی جیتے گا ۔۔۔ دیوانگی کی انتہا ہے

میں کسی کی طرفداری نہیں کر رہا۔ اور اگر کروں گا بھی تو کم از کم ظالموں کی نہیں (جو کہ امریکی فوج ہے)۔ میں نے ایک حقیقت بیان کی ہے چاہے اسے مانیں یا نہ مانیں یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہے۔
 
اس کی امریکی ایمبیسی نے تردید کی تھی۔ شیرین مزاری کے علاوہ اس خبر کی کیا سورس ہے؟
تو کیا آپ کے خیال میں وہ اس کی تصدیق کرتے؟؟ یہ خبر بنیادی طور پر انصار عباسی کی بریک کی ہوئی ہے اور اس کا سورس بہتر وہی بتا سکتے ہیں بہر کیف میں تو ڈاکٹڑ شریں مزاری کی اس بات پر یقین رکھتا ہوں
purely on humanitarian grounds, let us not stand in the way of the Us soldier and his diaper
 
Top