امريکی قوم سے صدر اوبامہ کا خطاب

عارف یہ تم نے سو باتوں‌کی ایک بات کہہ دی ہے، میری پچھلی پوسٹ میں بھی اسی نوعیت کی بات تھی کہ ہم لوگ بیچ میں رہ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں تاکہ اچھے بنے رہیں، کھل کر ظالمان کی مخالفت نہیں کرتے، کچھ لوگ تو ان کے ساتھ سیاسی وابستگی رکھتے ہیں جو کہ سمجھ میں‌آتی ہے ، لیکن عوام الناس کو اب کھل کر انہیں شکست فاش دینا ہوگی۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

کچھ اخباری تجزيوں کے برعکس ان خبروں ميں کوئ صداقت نہيں ہے کہ افغانستان ميں امريکی سفارت خانہ طالبان کے کچھ گروہوں سے خفيہ مذاکرات کے کسی عمل ميں ملوث ہے۔ طالبان اور ديگر عسکريت پسندوں کی افغان معاشرے ميں شموليت کے حوالے سے ہماری پوزيشن ميں کوئ تبديلی نہيں آئ ہے۔ ہم افغان حکومت کی جانب سے افغان آئين کے اصولوں کے مطابق عسکريت پسندوں اور ديگر بدظن افراد کو دوبارہ معاشرے کا جزو بنانے کے عمل اور اس ضمن ميں کی جانے والی کوششوں کی حمايت کرتے ہيں ليکن يہ عمل افغان قيادت کے ذريعے انجام پانا چاہيے۔

افغانستان ميں طالبان کے حوالے سے امريکی پاليسی ميں تبديلی کے حوالے سے جو خبريں منظر عام پر آ رہی ہيں وہ کوئ نئ پاليسی نہيں ہے۔ اس ضمن ميں صدر اوبامہ کی حاليہ تقرير اور پاليسی بيان محض اس بات کی توثيق تھا کہ جو مسلح گروپ دہشت گردی کو ترک کر کے امن معاہدوں کا حصہ بننا چاہتے ہيں اور قانونی طريقے سے سياسی دائرے ميں شامل ہونا چاہتے ہيں انھيں اس کا پورا موقع ديا جائے گا۔ اور يہ پاليسی افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک کے گروپوں کے ليے يکساں ہے۔ اس ضمن ميں صدر اوبامہ کی تقرير کا وہ حصہ پيش ہےجس ميں انھوں نے واضح کيا ہے کہ افغانستان ميں امن معاہدوں اور مصالحتی کوششوں کے عمل کی امريکی حکومت حمايت کرتی ہے۔

"ہم افغان حکومت کی ان کوششوں کی حمایت کریں گے کہ ان طالبان کے لیئے دروازہ کھول دیا جائے جو تشدد کو ترک کرنے اور اپنے ہم وطن شہریوں کے حقوق کا احترام کرنے پر تیار ہوں"۔

اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ افغانستان اور پاکستان کی حکومتيں کی جانب سے مصالحتی عمل کے ضمن ميں پاليسياں موجود ہيں۔

ہم پہلے بھی اور اب بھی ان پاليسيوں کی حمايت کرتے ہيں ليکن اس کے لیے يہ لازمی ہے کہ جو گروپ يا افراد اس ميں ملوث ہوں وہ دہشت گردی کی روش ترک کر کے مسائل کے حل کے ليے سياسی فريم ورک کے اندر رہ کر کام کريں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
فواد : مجھے نہیں معلوم کہ آپ کے ادارے کے اصل اغراض و مقاصد کیا ہیں ، لیکن اگر مختلف فورمزپر ہونے والے بحث و مباحثے کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ عوامی رائے عامہ کے مطابق کر اپنی پالیسیاں بناتے ہیں‌، تو گزارش یہ ہے کہ ہم اپنے عوام سے تو یہ کہہ کہہ کر تھک گئے ہیں‌کہ دوغلی پالیساں چھوڑ کر حقیقت کا سامنا کریں، اسی طرح آپ کی حکومت سے بھی یہی گزارش ہے کہ وہ یا تو کھل کر پاکستان کی حمایت کرے یا نہ کرے، مطلب یہ کہ اسے افغان پالیسی سے زیادہ بھارت پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، افغان پاکستان کے دہکتے ہوئے خطے میں بھارت کو ملوث کرنا آگ کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے جلتی پر تیل کا کام دے گا اور پھر پاکستان، امریکہ ، اور اتحادیوں کی جتنی بھی کوششیں‌ہیں دہشت گردی کے خلاف ہیں اسکے مطلوبہ نتائج نکل نہیں‌پائیں‌گے۔ اس بارے میں‌پاکستان کے عوام چاہے وہ انتہا پسند ہوں‌یا روشن خیال، انکے جذبات بہت حساس واقع ہوئے ہیں اور یہ جنگی حکمت عملی کبھی کامیاب نہیں‌ہوگی۔ کیا خیال ہے اس بارے میں کچھ روشنی ڈالیئے گا۔
 
فواد صاحب سے ڈسکشن کا میرے نزدیک کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ ہماری آپکی طرح اپنی ذاتی رائے اور ذاتی خیالات نہیں لکھتے بلکہ یہ انکی جاب ہے۔ ۔ ۔ انکا زورِ استدلال اور انکی تائید و مخالفت کسی ادارے کی متعین کردہ گائڈلائنز کے تحت ہیں ۔اور ضروری نہیں کہ یہ انکے ضمیر کی ہی آواز ہو۔ (ود ڈیو رسپکٹ آف کورس)
 

dxbgraphics

محفلین
کچھ اخباری تجزيوں کے برعکس ان خبروں ميں کوئ صداقت نہيں ہے کہ افغانستان ميں امريکی سفارت خانہ طالبان کے کچھ گروہوں سے خفيہ مذاکرات کے کسی عمل ميں ملوث ہے۔ طالبان اور ديگر عسکريت پسندوں کی افغان معاشرے ميں شموليت کے حوالے سے ہماری پوزيشن ميں کوئ تبديلی نہيں آئ ہے۔ ہم افغان حکومت کی جانب سے افغان آئين کے اصولوں کے مطابق عسکريت پسندوں اور ديگر بدظن افراد کو دوبارہ معاشرے کا جزو بنانے کے عمل اور اس ضمن ميں کی جانے والی کوششوں کی حمايت کرتے ہيں ليکن يہ عمل افغان قيادت کے ذريعے انجام پانا چاہيے۔

افغانستان ميں طالبان کے حوالے سے امريکی پاليسی ميں تبديلی کے حوالے سے جو خبريں منظر عام پر آ رہی ہيں وہ کوئ نئ پاليسی نہيں ہے۔ اس ضمن ميں صدر اوبامہ کی حاليہ تقرير اور پاليسی بيان محض اس بات کی توثيق تھا کہ جو مسلح گروپ دہشت گردی کو ترک کر کے امن معاہدوں کا حصہ بننا چاہتے ہيں اور قانونی طريقے سے سياسی دائرے ميں شامل ہونا چاہتے ہيں انھيں اس کا پورا موقع ديا جائے گا۔ اور يہ پاليسی افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک کے گروپوں کے ليے يکساں ہے۔ اس ضمن ميں صدر اوبامہ کی تقرير کا وہ حصہ پيش ہےجس ميں انھوں نے واضح کيا ہے کہ افغانستان ميں امن معاہدوں اور مصالحتی کوششوں کے عمل کی امريکی حکومت حمايت کرتی ہے۔

"ہم افغان حکومت کی ان کوششوں کی حمایت کریں گے کہ ان طالبان کے لیئے دروازہ کھول دیا جائے جو تشدد کو ترک کرنے اور اپنے ہم وطن شہریوں کے حقوق کا احترام کرنے پر تیار ہوں"۔

اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ افغانستان اور پاکستان کی حکومتيں کی جانب سے مصالحتی عمل کے ضمن ميں پاليسياں موجود ہيں۔

ہم پہلے بھی اور اب بھی ان پاليسيوں کی حمايت کرتے ہيں ليکن اس کے لیے يہ لازمی ہے کہ جو گروپ يا افراد اس ميں ملوث ہوں وہ دہشت گردی کی روش ترک کر کے مسائل کے حل کے ليے سياسی فريم ورک کے اندر رہ کر کام کريں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

طالبان جب افغانستان میں تھے ان کے تشدد کی کچھ تفصیلات دے دیں۔

اور امریکہ کے تشدد سے اخبارات بھرے پڑے ہیں۔ عراق افغانستان میں لاکھوں کا قتل عام یہ طالبان سے بھی بڑے مجرم ہیں ۔ لیکن بات وہیں آکر ختم ہوجاتی ہے کہ فری میسنری کے سینکڑوں سالوں کی کوششیں اتنی رنگ لا چکی ہیں کہ اگر امریکہ کہتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد ہیں تو دنیا مان رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ہی اصل دہشت گرد ہے۔ نہ کہ طالبان اور خصوصی طور پر پاکستان


اگر آج پاکستان افغانستان میں امریکی فوجیوں کے قیام کی مخالفت کرے تو آپ کو بھی پتہ ہے کہ امریکہ و اتحادی ذلیل و خوار ہوکر پاکستان سے نکلیں گے۔ اس کے علاوہ امریکہ ہمارا دوست نہیں ہے بلکہ آستین کا سانپ ہے۔ پاکستان کا دوست تو چین ہے جس نے بوقت ضرورت پاکستان کی ہر ممکن مدد کی ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

طالبان جب افغانستان میں تھے ان کے تشدد کی کچھ تفصیلات دے دیں۔

افغانستان ميں 1995 سے 2001 تک ان کے دور حکومت کے حوالے سے کچھ حقائق پيش خدمت ہيں۔ انھيں پڑھيں اور خود فيصلہ کريں

افغانستان ميں ایک عورت کی اوسط عمر 44 سال تھی۔
افغانستان ميں ہر 3 ميں سے 1 عورت جسمانی تشدد کا نشانہ بنتی تھی۔
70 سے 80 فيصد عورتوں کی شادياں جبری طور پر کی جاتی تھيں۔
افغانستان ميں 87 فيصد عورتيں ان پڑھ تھيں۔

طالبان کے قوانين کے مطابق 7 سال سے زائد عمر کی کسی لڑکی کو تعليم حاصل کرنے کی اجازت نہيں تھی۔ طالبان کے اس قانون نے افغانستان کے کمزور تعليمی نظام کی بنياديں ہلا کر رکھ دی تھيں۔ صرف کابل کے اندر 7793 خواتين اساتذہ کو نوکری سے نکال ديا گيا جس کے نتيجے ميں 63 سکول فوری طور پر بند کر ديے گئے۔ ان اقدامات سے 106256 طالبات اور 148223 طلبا کا تعليمی مستقبل داؤ پر لگ گيا جس ميں 8000 طالبات طالبان کی حکومت سے پہلے يونيورسٹی ميں انڈر گريجويٹ ليول تک پہنچ چکی تھيں۔

ايک رپورٹ کے مطابق طالبان کے دور حکومت ميں 97 فيصد خواتين شديد ذہنی دباؤ کے باعث مختلف نفسياتی بيماريوں کا شکار تھيں اور 71 فيصد مختلف جسمانی بيماريوں کا شکار تھيں اس کی بڑی وجہ يہ تھی کہ تمام ہسپتالوں ميں خواتين ڈاکٹروں کو برطرف کرديا گيا تھا۔

اکتوبر 1996 ميں ايک عورت کا انگوٹھا سرعام اس ليے کاٹ ديا گيا کيونکہ اس نے نيل پالش لگانے کا جرم کيا تھا۔

5 مئ 1997 کو کير انٹرنيشنل کی ايک ٹيم وزارت داخلہ کی باقاعدہ اجازت لے کر خوراک کی تقسيم کے ايک پروگرام کے ليے افغانستان کے دورے پر تھی۔ طالبان نے اس ٹيم کی خواتين کو سرعام تشدد کا نشانہ بنايا اور پبلک لاؤڈ سپيکر پر ان کی تضحيک کی۔

طالبان کے مظالم کے ثبوت کے طور پر ميرے پاس بے شمار ويڈيوز اور تصاوير موجود ہيں ليکن ميں ايک پبلک فورم پر ان کی اشاعت مناسب نہيں سمجھتا کيونکہ اس فورم کے پڑھنے والوں ميں خواتين بھی شامل ہيں۔
ليکن طالبان کا اصلی چہرہ دکھانے کے ليے آپ کو ايک ويڈيو کا لنک دے رہا ہوں۔

http://www.rawa.us/movies/zarmeena.mpg

16 نومبر 1999 کو کابل کے غازی سپورٹس اسٹيڈيم ميں زرمينہ نامی ايک خاتون کو 30000 افراد کی موجودگی ميں سر پر گولی مار کر ہلاک کر ديا گيا۔ اس سے پہلے زرمينہ کو 3 سال تک زير حراست رکھ کر غير انسانی تشدد کا نشانہ بنايا گيا۔ زرمينہ سات بچوں کی ماں تھی۔

26 ستمبر 2001 کو کابل ميں طالبان کے ہاتھوں خواتين پر تشدد کا ايک منظر جو راوا نامی تنظيم کے ايک رکن نے فلم بند کيا۔

http://www.rawa.us/movies/beating.mpg

ايک اعتراض جو ميں نے اکثر فورمز پر ديکھا ہے وہ يہ ہے کہ 11 ستمبر 2001 سے پہلے طالبان کے مظالم پر امريکہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظيموں نے کبھی آواز بلند نہيں کی اور 11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد اچانک طالبان کو مجرم قرار دے ديا گيا۔ يہ تاثر حقائق کے منافی ہے۔

30 جنوری 1998 کو يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی جانب سے افغانستان ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں کے خلاف ايک خصوصی رپورٹ شائع کی گئ جو آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.afghanistannewscenter.com/news/1998/february/feb3c1998.htm

11 جون 1997 کو ايمينسٹی انٹرنيشنل کی جانب سے افغانستان ميں خواتين پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے رپورٹ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.amnesty.org/en/library/info/ASA11/005/1997

اگست 1998 ميں فزيشن فار ہيومن رائٹس نامی تنظيم کی جانب سے "طالبان کی عورتوں کے خلاف جنگ" کے عنوان سے ايک مفصل رپورٹ شائع کی گئ جو کسی بھی ايسے شخص کی آنکھيں کھولنے کے ليے کافی ہے جو يہ سمجھتا ہے کہ طالبان کے دور حکومت ميں افغانستان امن کہ گہوارہ تھا۔

http://physiciansforhumanrights.org/library/documents/reports/talibans-war-on-women.pdf

نومبر1995 ميں اقوام متحدہ کے ادارے يونيسيف نے طالبان کے زير اثر تمام علاقوں ميں تعليم کی مد ميں دی جانے والی امداد پر مکمل بين لگا ديا کيونکہ طالبان نے لڑکيوں کی تعليم پر پابندی لگا دی تھی جو کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے قوانين کے منافی ہے۔

1995 ميں بيجينگ ميں منعقد کی جانے والی خواتين کے حقوق کی کانفرنس ميں افغانستان کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اقدامات کی توثيق کر دی گئ۔

1996 ميں برطانيہ کی سیو دا چلڈرن نامی تنظيم نے افغانستان کو دی جانے والی امداد پر مکمل پابندی لگا دی کيونکہ طالبان کی جانب سے افغانستان کی خواتين تک اس امداد کی منتقلی ناممکن بنا دی گئ۔

7 اکتوبر 1996 کو اقوام متحدہ کے سيکرٹی جرنل پطرس غالی نے افغانستان ميں طالبان کے مظالم کے بارے ميں جو کہا وہ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.hri.org/cgi-bin/brief?/news/world/undh/96-10-07.undh.html

1999 ميں امريکی سيکرٹری آف اسٹيٹ ميڈلين آلبرائٹ نے طالبان کے حوالے سے کہا کہ " افغانستان ميں عورتوں اور لڑکيوں پر ہونے والے مظالم سنگين جرم ہيں اور ان مظالم کو روکنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے"۔

کسی بھی موضوع کے حوالے سے متضاد رائے رکھنا درست ہے لیکن يہ رائے محض جذبات اور عمومی تاثر پر مبنی نہيں ہونی چاہيے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

فواد صاحب کا حوصلہ ہے کہ اردو محفل سمیت بہت ساری سائٹس پہ ہم جیسوں کی دل آزاری کا ساماں مہیا کرتے کرتے تھکتے نہیں ہیں۔ اور ہم فضول کی بحث میں پڑتے نہیں کہ اس سے حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ اور ویسے بھی ہر کسی کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے تو جناب ہم ان کے سنہری اقوال کو قہرِ درویش بر جانِ درویش کے مصداق ہمہ تن گوش ہو کر سنتے ہیں ۔ اگر وہ کبھی کچھ اچھا لکھ دیں تو سر دھنتے ہیں بہ صورت دیگر سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔ اور مؤخر الذکر صورت ’حال" زیادہ تر دیکھنے کو ملتی ہے۔
نہ ہمارے لکھنے سے کچھ بدلنے والا ہے اور نہ فواد صاحب کی حکمت سورج کو مغرب سے طلوع کروانے والی ہے



آپ کی رائے محترم ليکن ميں آپ کے نقطہ نظرسے اختلاف کروں گا۔ فورمز پر ميری موجودگی کے دو مقاصد ہيں۔ يہ درست ہے کہ ميں مختلف ايشوز کے حوالے سے امريکی حکومت کا نقطہ نظر اور درست پاليسی بيان کرتا ہوں ليکن اس کے ساتھ ميں مختلف موضوعات پر عام پاکستانيوں کے جذبات، ان کی رائے اور تحفظات بھی جاننے کی کوشش کرتا ہوں۔ اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے منسلک امريکی اہلکاروں سے اپنی ملاقاتوں ميں آپ لوگوں کے جذبات اور آراء سے سب کو آگاہ کرتا ہوں۔

مختلف پاکستانی فورمز پر آراء کے تبادلے سے مجھے فورمز کے ممبران کے خيالات اور عمومی تاثر سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے جو ميں اپنی ہفتہ وار رپورٹس، ميٹنگز اور مختلف تھنک ٹينکس کے سيمينار اور کانفرنسز ميں اجاگر کرتا رہتا ہوں۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ ماضی ميں امريکہ اور پاکستان کی حکومتوں کے مابين تعلقات مختلف مواقعوں پر ناہموار رہے ہيں۔ اس بات کا اظہار تو خود صدر اوبامہ نے بھی اپنی تقرير ميں کيا تھا۔

"ماضی میں ہم نے اکثر پاکستان کے ساتھ اپنے تعلق کو ایک تنگ زاویے سے دیکھا ہے ۔ وہ دِن ختم ہو چکے ہیں۔ آگے کی طرف بڑھتے ہوئے، ہم نے پاکستان کے ساتھ ایسی شراکت داری کا عہد کیا ہے جس کی بنیاد ایک دوسرے کے مفاد، باہم احترام اور باہم اعتماد پر قائم ہے"۔

موجودہ امريکی انتظاميہ کی جانب سے عوام کی سطح پر رابطے ميں وسعت کی اہميت اور ضرورت کے حوالے سے جس ارادے اور عزم کا اظہار کيا گيا ہے اس کی بہترين مثال سيکرٹری کلنٹن کا حاليہ دورہ پاکستان تھا۔

امريکہ کا سخت ترين نقاد بھی يہ تسليم کرے گا کہ پاکستان کی عوام سے رابطے کے ضمن ميں ان کی کاوشوں کی مثال ماضی ميں نہيں ملتی۔ انھوں نے ٹی وی چينلز کو براہراست انٹرويو بھی ديے۔ انھوں نے ٹی وی اينکرز، نيوز ميکرز اور تجزيہ نگاروں کے ساتھ بے تکلف گفتگو بھی کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے ٹاؤن ہال ميٹنگز ميں بھی شرکت کی اور تمام تر سيکورٹی خطرات اور اطلاعات کے باوجود طالب علموں کے اجتماعات سے بھی خطاب کيا۔

ان تمام تر اقدامات کا مقصد دونوں ممالک کے مابين رابطے کے فقدان کو کم کرنا تھا تاکہ طويل المدت تعلقات کی بنياد رکھی جا سکے۔ ماضی ميں رابطوں اور درست معلومات بروقت ميسر نہ ہونے سے جو خلا پيدا ہوتا رہا ہے اس کو اکثر اوقات ڈس انفارميشن، شکوک وشبہات، خدشات اور بے بنياد سازشی کہانيوں کے ذريعے پر کيا جاتا رہا ہے۔

امريکہ کی موجودہ حکومت نے پاکستان کی عوام تک رسائ کی اہميت کو تسليم کيا ہے۔ اس ضمن ميں کاوشوں کی تکميل کے لیے 32 ملين ڈالرز کی رقم مختص کی گئ ہے جس کا مقصد پاکستان ميں امريکہ اور اس کی پاليسيوں کی وضاحت کرنا ہے۔ اس منصوبے ميں بات چيت کے فروغ اور تعليم کے بہتر مواقع فراہم کرنا شامل ہے جس کے نتيجے ميں امريکہ اور پاکستان کے عوام کو درپيش مشترکہ چيلنجز کے حوالے سے ايک صحت مند بحث ممکن ہو سکے گي۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
فواد ، میں‌ کچھ دیر کے لیے آپ کے مہیا کردہ تمام اعداد و شمار کو من و عن تسلیم کر لیتا ہوں افغانستان میں عورتوں کی حالت زار کے متعلق باوجود اس کے حقیقت کے اس میں اچھی خاصی غلط بیانیاں شامل ہیں

2001 سے اب تک عورتوں کی حالت میں کتنی بہتری آئی ہے اس کی تفصیل ذرا گہرائی سے پیش کریں تو میں اور بہت سے پاکستانی مستفید ہوں گے اور یاد رہے تفصیل گہرائی میں ہونی چاہیے نہ کہ چند سکول یا چند ہزار خواتین کی حالت زار پر گفتگو۔
 

اظفر

محفلین
بقول فواد
افغانستان ميں ہر 3 ميں سے 1 عورت جسمانی تشدد کا نشانہ بنتی تھی۔
70 سے 80 فيصد عورتوں کی شادياں جبری طور پر کی جاتی تھيں۔
؎



فواد ذرا بتانا امریکہ میں روزانہ کتنی لڑکیوں کے ساتھ جبری زیادتی ہوتی ہے ۔ نہیں معلوم تو میں تم لوگوں کے اداروں کی ہی رپورٹس دے دیتا ہوں
اپنا ملک سنبھالا نہیں‌جاتا چلے دوسروں کی طرف
 
میں بھی یہی کہتا ہوں کہ امریکہ کو تو سنبھال لو اچھی طرح ساری دنیا کی جان چھوڑ دو بھائی ، بہت ظلم ستم کا بازار سجا لیا۔

عام امریکی کی زندگی بھی کسی جہنم سے کم نہیں رہ گئی۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

فواد ذرا بتانا امریکہ میں روزانہ کتنی لڑکیوں کے ساتھ جبری زیادتی ہوتی ہے ۔ نہیں معلوم تو میں تم لوگوں کے اداروں کی ہی رپورٹس دے دیتا ہوں


آپ نے بالکل درست کہا ہے۔ اس ميں کو‏ئ شک نہيں ہے کہ امريکہ ميں بھی جرائم ہوتے ہیں اور دنيا کے کسی بھی ملک کی طرح امريکی معاشرے ميں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزياں ہوتی ہيں۔ ليکن يہ بات بذات خود ميرے نقطہ نظر کو واضح کر رہی ہے کہ آپ امريکہ ميں ہونے والے جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں کے اعداد وشمار بے شمار امريکی حکومتی تنظيموں کی رپورٹوں کی بنياد پر پيش کر سکتے ہيں۔

طالبان کے دور حکومت ميں ڈھائے جانے والے مظالم کا امريکی معاشرے ميں ہونے والے جرائم سے کسی بھی طرح موازنہ نہيں کيا جا سکتا اس کی وجہ يہ ہے کہ افغانستان ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزياں براہ راست اس حکومتی نظام کی وجہ سے تھيں جسے حکومت چلانے والے عہديداروں نے انتخابات کے معروف طيقہ کار کے برعکس نہ صرف استعمال کيا بلکہ اپنے اثر ورسوخ ميں اضافے کے ليے اسے مزيد وسعت اور سپورٹ فراہم کرتے رہے۔

اپنے دور حکومت ميں طالبان نے ملک ميں ہونے والے انسانيت سوز مظالم کو کبھی تسليم نہيں کيا۔

امريکہ ميں يہ معاملہ نہيں ہے۔ جيسا کہ کچھ دوستوں نے خود واضح کيا ہے کہ امريکی معاشرے ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں کے ضمن ميں بے شمار حکومتی رپورٹس اور اعداد وشمار پيش کيے جا سکتے ہيں۔ يہ امر ايک شفاف نظام اور ايک ايسی حکومت کے ارادے اور عزم کو ظاہر کرتا ہے جو اپنے شہريوں کی حقوق کی حفاظت کو مقدم سمجھتی ہے اور انہيں تحفظ فراہم کرنے کے ليے ايسے قوانين کا اطلاق يقينی بنانے کے ليے کوشاں رہتی ہے جو ملکی آئين کے عين مطابق ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

میں بھی یہی کہتا ہوں کہ امریکہ کو تو سنبھال لو اچھی طرح ساری دنیا کی جان چھوڑ دو بھائی ، بہت ظلم ستم کا بازار سجا لیا۔


افغانستان ميں فوجی کاروائ کی وجہ نہ تو طالبان کا طرز حکومت تھا، نہ ہی ان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزياں اور مخصوض سوچ اور خيالات اس فوجی کاروائ کا سبب بنے۔

اس حقيقت کے باوجود کہ امريکہ نے کبھی بھی طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا اور ان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں پر ہر سطح پر تنقيد بھی کی تھی، ان کے خلاف کبھی بھی براہراست فوجی کاروائ نہيں کی گئ۔ سال 1995 اور 2001 کے درميان طالبان افغانستان ميں برسراقتدار رہے۔ يہاں تک کہ 11 ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد بھی فوجی کاروائ کی بجائے اس بات کی کوشش کی گئ کہ طالبان حکومت کو اس بات آمادہ کيا جائے کہ وہ اسامہ بن لادن کو امريکی حکام کے حوالے کريں۔

کیا آپ يہ سمجھتے ہيں کہ طالبان کی جانب سے غير ملکی دہشت گردوں کو پناہ دينا برحق اور جائز تھا؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

اظفر

محفلین
طالبان کے دور حکومت ميں ڈھائے جانے والے مظالم کا امريکی معاشرے ميں ہونے والے جرائم سے کسی بھی طرح موازنہ نہيں کيا جا سکتا اس کی وجہ يہ ہے کہ افغانستان ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزياں براہ راست اس حکومتی نظام کی وجہ سے تھيں جسے حکومت چلانے والے عہديداروں نے انتخابات کے معروف طيقہ کار کے برعکس نہ صرف استعمال کيا بلکہ اپنے اثر ورسوخ ميں اضافے کے ليے اسے مزيد وسعت اور سپورٹ فراہم کرتے رہے۔

اپنے دور حکومت ميں طالبان نے ملک ميں ہونے والے انسانيت سوز مظالم کو کبھی تسليم نہيں کيا۔
جناب یہ تو آپ کا دعوی ہے نا ۔ میں کم سے کم 15 ایسے لوگوں سے خود ہوں ملا جنہوں نے طالبان کے دور حکومت میں وہاں‌کا وزٹ کیا تھا ۔ ان سب کے آراء تو اس سے الٹ ہے۔ آپ امریکہ میں بیٹھے کس ٹیکنالوجی کی بنیاد پر یہ کہہ سکتے ہیں طالبان نے فلاں فلاں غلط کیا تھا۔ جنہوں نے آنکھوں سے دیکھا ہے ان کی مانیں یا جنہوں نے ٹیکنالوجی کی مدد سے ماضی بدلنے کی کوشش کی ہے ان کی مانیں ِ؟
 

آفت

محفلین
سابق امریکی صدر جارج بش اپنے دور صدارت میں عراق اور افغانستان کے خلاف جنگ کو "کروسیڈ" کہتے تھے ۔ عراق میں جوہری یتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ کر کے وہاں جو قیامت ڈھائی گئی کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں تھی ۔ کیا وہاں سے جوہری ہتھیار ملے؟؟؟؟ عراق مین تو طالبان کی حکومت نہیں تھی بلکہ ماضی میں ان ہی کا منظور نظر صدام حسین صدر تھا ۔ نائن الیون کی حقیقت بھی ابھی تک پوشیدہ ہے ۔ کچھ لوگ اسے ڈرامہ کہتے ہیں اور کچھ اسامہ بن لادن سے اس کا تعلق جوڑتے ہیں ۔ اسامہ بن لادن بھی امریکہ کی سپورٹ سے یہاں سویت یونین سے لڑنے آیا تھا ۔ امریکہ کا ماضی دیکھ کر حال کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ ماضی مین طالبان کو امریکہ کی خاموش سپورٹ رہی ہے ۔ پاکستان مین ہر حکومت امریکہ کی مرضی سے بنتی ہے اور ختم ہوتی ہے ۔ ایٹم بم کا پروگرام شروع ہوا تو ذوالفقار بھٹو کو مروا دیا گیا ۔ نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کیے تو انہیں وزارت عظمٰی سے ہاتھ دھونے پڑے ۔ سویت یونین تحلیل ہوا تو ضیاء الحق کے طیارے کو اڑا دیا گیا ۔ مشرف کی ڈبل پالیسی سے تنگ آ کر اسے بھی فارغ کر دیا گیا ۔ بے نظیر بھٹو امریکہ سے ڈیل کر کے آئیں تو اپنے ساتھ عوام کا جم غفیر دیکھ کر امریکہ کے خلاف بولنے لگیں اور پھر انہین بھی رستے سے ہٹا دیا گیا ۔ امریکہ کی پوری ہسٹری ایسے ہی کارناموں سے بھری پڑی ہے بس ہم ہی اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے اس وقت ملک میں موجود تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں امریکہ کی فرمانبردار ہیں ۔
 

dxbgraphics

محفلین
محترم فواد صاحب
افغانستان ميں ہر 3 ميں سے 1 عورت جسمانی تشدد کا نشانہ بنتی تھی۔
جھوٹ کی ایک انتہا ہوتی ہے۔ تفصیلات ذرا فراہم کر دیجئے۔ البتہ امریکہ میں ایک گھنٹے میں 28 کے قریب ریپ ہوتے ہیں جبکہ اس کے برعکس پاکستان یا افغانستان میں ایسا بلکل نہیں۔محفل پر اکثر چند دوستوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پہلے اپنی ذات پر ایک بات لاگو کرنی چاہئے پھر دوسروں کو تلقین کرنی چاہیئے ۔ تو بلکل ویسے ہی امریکہ پہلے اپنے ملک میں جرائم کا اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا تدارک کرے پھر دوسروں پر تنقید کرے۔ ہم بلکل آپ کا ساتھ دینگے۔ انسانی حقوق کی پامالیوں کی انتہا تو یہ ہے کہ adult فلمیں آپ ہی کی یورپ میں بنتی ہیں جس میں جنسی بے راہ روی کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔ جو کہ فری میسنز کا ایک مشن ہے دجال کے آنے کے لئے ویسے حالات بنانا۔
خود تو نو اعشاریہ دو فیصد ہومو سیکس میں مبتلا ہیں دوسروں پر تنقید کرنے چلا ہے ۔ اگر محفل کے قوانین کا انسانیت کا تقاضہ نہ ہوتا تو میں آپ کو ایک ایک آئینہ دکھاتا کہ کیا کیا ہورہا ہے جو کچھ انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں میں سے گھناونی پامالی ہورہی ہے وہ امریکہ میں‌ہی ہورہی ہے۔

70 سے 80 فيصد عورتوں کی شادياں جبری طور پر کی جاتی تھيں
جناب arrangeشادی کو جبری شادی کہنا یقینا امریکہ والوں کی بے وقوفی ہوتی ہے جتنی بھی ارینج شادیاں ہوتی ہیں وہ کامیاب ہی ہوتی ہیں۔ پورے پاکستان میں آج بھی بلکہ محفل پر بھی زیادہ تر دوستوں کی شادیاں arrange ہی ہوئی ہونگی۔ تو اسے جبری مان لیں۔ اور آپ ہی کی مغربی تنظیمیں یہ رپورٹیں بناتی ہی کہ loveمیرج کی نسبت arrange میرج کامیاب ہوتی ہیں۔

طالبان کے قوانين کے مطابق 7 سال سے زائد عمر کی کسی لڑکی کو تعليم حاصل کرنے کی اجازت نہيں تھی۔ طالبان کے اس قانون نے افغانستان کے کمزور تعليمی نظام کی بنياديں ہلا کر رکھ دی تھيں۔ صرف کابل کے اندر 7793 خواتين اساتذہ کو نوکری سے نکال ديا گيا جس کے نتيجے ميں 63 سکول فوری طور پر بند کر ديے گئے۔ ان اقدامات سے 106256 طالبات اور 148223 طلبا کا تعليمی مستقبل داؤ پر لگ گيا جس ميں 8000 طالبات طالبان کی حکومت سے پہلے يونيورسٹی ميں انڈر گريجويٹ ليول تک پہنچ چکی تھيں
شاید ہی ان میں سے کوئی زندہ بچا ہو امریکیوں کی بمباریوں میں۔پورے افغانستان کو تو قبرستان بنا دیا ہے

26 ستمبر 2001 کو کابل ميں طالبان کے ہاتھوں خواتين پر تشدد کا ايک منظر جو راوا نامی تنظيم کے ايک رکن نے فلم بند کيا
جناب جب افغانستان کی جانب امریکہ بڑھنے لگا تو پوری ورلڈ میڈیا پشاور میں پہنچ گئی تھی ۔ اور الجزیرہ کے رپورٹر عمر العیساوی کی کوریج میں میں نے ان کی معاونت کی تھی۔ جن جن جگہ پر جلوس اور مظاہرے ہونے ہوتے وہاں بی بی سی اور سی این این سے پہلے پہنچ جاتے۔
میڈیا کے داو پیچ سے خوب واقف ہوں۔ اور جب عمر العیساوی نے پھر یہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے چند آدمی چاہئیں جو نقاب پہن کر مشینیں ہاتھوں میں لیکر ایک جگہ سے گذر رہے ہوں ۔ جس پرمیں نے انکارکرتے ہوئے ان کو خدا حافظ کہہ دیا۔ اسلام کو بدنام کرنے کے لئے اکثر اوقات ایسی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں۔ آپ نے تو ایک ویڈیو پیش کی ہے میں آپ کو درجنوں ویڈیوز پیش کر سکتا ہوں جس سے امریکہ کی اسلام دشمنی ظاہر ہوتی ہے۔

1999 ميں امريکی سيکرٹری آف اسٹيٹ ميڈلين آلبرائٹ نے طالبان کے حوالے سے کہا کہ " افغانستان ميں عورتوں اور لڑکيوں پر ہونے والے مظالم سنگين جرم ہيں اور ان مظالم کو روکنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے"
اورامریکہ نے عراق افغانستان جنگ میں ہزاروں کا افراد کو ہلاک کیا ڈرون حملوں میں آئے دن مطلوبہ افراد کی بجائے بے گناہوں کو ہلاک کر رہا ہے۔ اس کی ذمہ داری کس پر آئے گی۔
 

فرخ

محفلین
میں قرآن پاک کی ‌ایک بات قدم قدم پر پوری ہوتے دیکھتا ہوں۔ جس کا مفہوم کہ:
یہود و نصارٰ آپس میں‌تو دوست ہو سکتے ہیں، کبھی تمہارے دوست نہیں ہوسکتے

اور تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ جس دن سے امریکہ ہماری سرحدوں پر آیا ہے، دھشت گردی کا ایک بازار گرم کیا جا چُکا ہے۔ امریکہ کے لوگ جو بات منہ سے کہتے ہیں، پیٹھ پیچھے سے کر کچھ اور رہے ہوتے ہیں۔

امریکہ کی اسرائیل جیسے گھٹیا دھشت گرد کو اندھی سپورٹ اور نہتے فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر آنکھیں بند رکھنا۔ ہمارے دشمنوں کو اندر ہی اندر سپورٹ دینا جس میں ہندوستان سر فہرست ہے۔ اور اسی سلسلے میں‌افغانستان میں ہندوستان کی مدد سے ‌دھشت گردوں کو تربیت دے کر پاکستان میں "پاکستانی طالبان" کے نام سے داخل کرنا، وغیرہ وغیرہ، یہ سب وہ باتیں ہیں جو امریکہ کے لوگ خود بھی جانتے ہیں۔

آپ موجودہ حالات کا بغور جائزہ لیں اور پھر یہودیوں‌کے گریٹر اسرائیل کا منصوبہ سامنے رکھیں تو سمجھ میں کھل کر آجائے گی کہ جن علاقوں‌میں امریکہ نے جنگیں مسلط کر رکھیں ہیں اور ان کے نتیجے میں لاکھوں عورتوں، بچوں اور نہتے لوگوں کا خون کیا جا رہا ہے، وہ دراصل کس کی ضرورت ہے؟

عراق پر جن جھوٹی باتوں کو بنیاد بنا کر حملہ کیا گیا اور لاکھوں عورتوں اور بچوں کا قتل عام بھی کیا گیا، اور امریکی فوج نے جو خواتین کی بے حرمتیاں بھی کیں، ان سنگین جرائم پر بھی امریکی حکومت محض یہ کہتی ہے کہ ہمیں اس پر افسوس ہے، حالانکہ جب وہ جرائم کیئے جا رہے ہوتے ہیں، اسوقت ان کی آنکھوں میں سؤر کے بال آجاتے ہیں۔

فواد صاحب اور دیگر امریکہ سے محبت کرنے والے اصحاب ہمیشہ یہ رونا روتے ہیں کہ امریکی حکومت نے کبھی ان الزامات کو تسلیم نہیں کیا۔ ۔۔ او بھائی وہ اتنی بے وقوف نہیں کہ ایسے الزامات کو تسلیم کر لے۔ ان الزامات کی تصدیق ان سے پیدا شدہ حالات خود ہی کر دیتے ہیں۔ بلیک واٹر والا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

پاکستان ان کو اس لئے بھی کھٹکتا ہے، کہ یہ ان ممالک میں سے ہے جو اسرائیل کو تسلیم نہیں‌کرتے۔ اسی لئے انہوں نے مشرف جیسے گھٹیا غدار کو حکومت میں لانے کی سازش کی اور پھر جس نے پوری کوشش کی کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے۔

امریکہ کے دانت دکھانے کے اور ہیں اور کھانے کے اور۔۔۔۔۔یہ کبھی کسی کا دوست نہیں ہو سکتا۔

میں اب بھی یہی کہوں‌گا۔ کہ یہ یہودو نصارٰ اور ان کے چاہنے والے بظاہر مسلمان نظر آنے والے لوگ کبھی ہمارے دوست نہیں ہو سکتے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

سابق امریکی صدر جارج بش اپنے دور صدارت میں عراق اور افغانستان کے خلاف جنگ کو "کروسیڈ" کہتے تھے ۔


اگر آپ انگلش زبان کی لغت ميں لفظ "کروسيڈ" کا مطلب ديکھيں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کے جو معنی درج ہيں وہ "ايک مقصد کے حصول کے ليے منظم کوشش" ہے۔ آپ کسی لفظ کا تجزيہ اس ثقافت اور تناظر سے الگ کر کے نہيں کر سکتے جس ميں وہ استعمال کيا گيا ہے۔ امريکی معاشرے ميں منشيات کے خلاف جنگ يا کسی نشے کے خلاف کی جانے والی کوشش اور ايسے ہی کئ موقعوں پر اس لفظ کا استعمال عام بات ہے۔ جب صدر بش نے اس لفظ کا استعمال کيا تھا تو اس کا مطلب دہشت گردی کے خلاف ايک مضبوط و مربوط اور منظم عالمی کوشش کے حوالے سے تھا۔ انھوں نے اسلام يا کسی مذہبی تصادم کا ذکر تک نہيں کيا تھا۔ يہ جنگ براہراست ان دہشت گردوں کے خلاف تھی جنھوں نے امريکہ پر حملہ کيا تھا۔

عراق اور افغانستان کے خلاف فوجی کاروائ صليبی جنگ ہرگز نہيں تھی۔ حقیقت يہ ہے کہ امريکہ حکومت ميں پاليسی ميکرز 800 سال پہلے واقعات کے بارے ميں کوئ "جنون" نہيں رکھتے۔ يہ سمجھنا ضروری ہے کہ امريکی آئين سيکولر ہے اور امريکی فوج مذہبی محرکات اور واقعات کی بنياد پر اپنے فيصلے نہيں کرتی۔ امريکی فوج کے رينکس ميں مسلمانوں سميت ہر مذہب کے افراد موجود ہيں۔

ميرے نزديک يہ امر خاصہ حیران کن ہے کہ اکثر تجزيہ نگار انتہائ جذباتی انداز ميں "کروسيڈ" کے ايک لفظ اور ريفرنس کو اس ثبوت اور دليل کے طور پر پيش کرتے ہيں کہ عراق اور افغانستان ميں فوجی کاروائياں مذہبی نظريات کے تناظر ميں کی گئيں ليکن وہ اس بات کو يکسر نظرانداز کر ديتے ہيں کہ مذہب کا غلط استعمال تو دہشت گردوں کی جانب سے کيا گيا تھا۔

اس ضمن ميں آپ کی توجہ ايک رپورٹ کی طرف دلوانا چاہتا ہوں جو مارچ 2006 ميں شائع کی گئ تھی۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=820348&da=y

اس رپورٹ ميں دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے اپنی سوچ کی ترويج کے ليے استعمال کيے جانے والے تشہيری مواد کی تفصيلات موجود ہيں۔ اس رپورٹ کو پڑھے بغير اگر آپ اس ميں موجود تصويروں اور پوسٹرز پر سرسری نظر ڈاليں تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ ان تنظيموں کی تمام تر اشتہاری مہم اور جدوجہد کا مرکز امريکہ سے نفرت کو فروغ دے کر مذہب کی آڑ ميں جذبات کو بھڑکانہ ہے۔

آخر ميں صرف اتنا کہوں گا کہ امريکہ اسلام کا دشمن نہيں ہے۔ عالمی تعلقات عامہ کی بنياد اور اس کی کاميابی کا انحصار مذہبی وابستگی پر نہيں ہوتا۔ اس اصول کا اطلاق امريکہ سميت تمام مسلم ممالک پر ہوتا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

عراق مین تو طالبان کی حکومت نہیں تھی بلکہ ماضی میں ان ہی کا منظور نظر صدام حسین صدر تھا ۔ ۔

عراق کی تاريخ کے حوالے سے آپ کی معلومات بالکل غلط ہيں۔ صدام حسين 1968 ميں باتھسٹ پارٹی کی بغاوت کے ذريعے اقتدار کے ايوانوں ميں آئے تھے۔ اس کے بعد 1979 ميں انھوں نے اپنی پارٹی کے اندر بغاوت کے ذريعے ليڈرشپ حاصل کر لی۔ 1980 ميں صدام نے ايران پر اس وقت حملہ کيا جب ايران اندرونی طور پر بہت سے مسائل کا شکار تھا۔

جہاں تک ايران سے جنگ کا سوال ہے تو عراق کو اسلحہ امريکہ نے نہيں بلکہ روس نے فراہم کيا تھا۔ آپ يہ کيسے دعوی کر سکتے ہيں کہ صدام کو امريکہ کنٹرول کر رہا تھا جبکہ صدام حکومت کی جانب سے امريکہ کو متعدد چيلجنجز کا سامنا تھا اور صدام حکومت کے دوران عراق ميں امريکہ مخالف پراپيگنڈا اپنے عروج پر تھا۔ اگر صدام امريکہ کے کنٹرول ميں ہوتا تو يہ صورت حال کبھی نہ ہوتی۔

ماضی ميں امريکہ کا جھکاؤعراق کی طرف رہا ہے اورامريکہ ايرانی فوجوں کی نقل وحرکت کے حوالے سےانٹيلی ايجنس اسپورٹ بھی مہيا کرتا رہا ہے ليکن ايسا اس وقت ہوا جب ايران کا پلڑا جنگ ميں بھاری تھا۔ ياد رہے کہ يہ وہی دور تھا جب ايران ميں امريکی سفارت کار اور شہری 444 دنوں تک زير حراست رہے جس کی وجہ سے امريکہ ميں ايران کے خلاف جذبات پائے جاتے تھے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
Top