Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
طالبان جب افغانستان میں تھے ان کے تشدد کی کچھ تفصیلات دے دیں۔
افغانستان ميں 1995 سے 2001 تک ان کے دور حکومت کے حوالے سے کچھ حقائق پيش خدمت ہيں۔ انھيں پڑھيں اور خود فيصلہ کريں
افغانستان ميں ایک عورت کی اوسط عمر 44 سال تھی۔
افغانستان ميں ہر 3 ميں سے 1 عورت جسمانی تشدد کا نشانہ بنتی تھی۔
70 سے 80 فيصد عورتوں کی شادياں جبری طور پر کی جاتی تھيں۔
افغانستان ميں 87 فيصد عورتيں ان پڑھ تھيں۔
طالبان کے قوانين کے مطابق 7 سال سے زائد عمر کی کسی لڑکی کو تعليم حاصل کرنے کی اجازت نہيں تھی۔ طالبان کے اس قانون نے افغانستان کے کمزور تعليمی نظام کی بنياديں ہلا کر رکھ دی تھيں۔ صرف کابل کے اندر 7793 خواتين اساتذہ کو نوکری سے نکال ديا گيا جس کے نتيجے ميں 63 سکول فوری طور پر بند کر ديے گئے۔ ان اقدامات سے 106256 طالبات اور 148223 طلبا کا تعليمی مستقبل داؤ پر لگ گيا جس ميں 8000 طالبات طالبان کی حکومت سے پہلے يونيورسٹی ميں انڈر گريجويٹ ليول تک پہنچ چکی تھيں۔
ايک رپورٹ کے مطابق طالبان کے دور حکومت ميں 97 فيصد خواتين شديد ذہنی دباؤ کے باعث مختلف نفسياتی بيماريوں کا شکار تھيں اور 71 فيصد مختلف جسمانی بيماريوں کا شکار تھيں اس کی بڑی وجہ يہ تھی کہ تمام ہسپتالوں ميں خواتين ڈاکٹروں کو برطرف کرديا گيا تھا۔
اکتوبر 1996 ميں ايک عورت کا انگوٹھا سرعام اس ليے کاٹ ديا گيا کيونکہ اس نے نيل پالش لگانے کا جرم کيا تھا۔
5 مئ 1997 کو کير انٹرنيشنل کی ايک ٹيم وزارت داخلہ کی باقاعدہ اجازت لے کر خوراک کی تقسيم کے ايک پروگرام کے ليے افغانستان کے دورے پر تھی۔ طالبان نے اس ٹيم کی خواتين کو سرعام تشدد کا نشانہ بنايا اور پبلک لاؤڈ سپيکر پر ان کی تضحيک کی۔
طالبان کے مظالم کے ثبوت کے طور پر ميرے پاس بے شمار ويڈيوز اور تصاوير موجود ہيں ليکن ميں ايک پبلک فورم پر ان کی اشاعت مناسب نہيں سمجھتا کيونکہ اس فورم کے پڑھنے والوں ميں خواتين بھی شامل ہيں۔
ليکن طالبان کا اصلی چہرہ دکھانے کے ليے آپ کو ايک ويڈيو کا لنک دے رہا ہوں۔
http://www.rawa.us/movies/zarmeena.mpg
16 نومبر 1999 کو کابل کے غازی سپورٹس اسٹيڈيم ميں زرمينہ نامی ايک خاتون کو 30000 افراد کی موجودگی ميں سر پر گولی مار کر ہلاک کر ديا گيا۔ اس سے پہلے زرمينہ کو 3 سال تک زير حراست رکھ کر غير انسانی تشدد کا نشانہ بنايا گيا۔ زرمينہ سات بچوں کی ماں تھی۔
26 ستمبر 2001 کو کابل ميں طالبان کے ہاتھوں خواتين پر تشدد کا ايک منظر جو راوا نامی تنظيم کے ايک رکن نے فلم بند کيا۔
http://www.rawa.us/movies/beating.mpg
ايک اعتراض جو ميں نے اکثر فورمز پر ديکھا ہے وہ يہ ہے کہ 11 ستمبر 2001 سے پہلے طالبان کے مظالم پر امريکہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظيموں نے کبھی آواز بلند نہيں کی اور 11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد اچانک طالبان کو مجرم قرار دے ديا گيا۔ يہ تاثر حقائق کے منافی ہے۔
30 جنوری 1998 کو يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی جانب سے افغانستان ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں کے خلاف ايک خصوصی رپورٹ شائع کی گئ جو آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔
http://www.afghanistannewscenter.com/news/1998/february/feb3c1998.htm
11 جون 1997 کو ايمينسٹی انٹرنيشنل کی جانب سے افغانستان ميں خواتين پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے رپورٹ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔
http://www.amnesty.org/en/library/info/ASA11/005/1997
اگست 1998 ميں فزيشن فار ہيومن رائٹس نامی تنظيم کی جانب سے "طالبان کی عورتوں کے خلاف جنگ" کے عنوان سے ايک مفصل رپورٹ شائع کی گئ جو کسی بھی ايسے شخص کی آنکھيں کھولنے کے ليے کافی ہے جو يہ سمجھتا ہے کہ طالبان کے دور حکومت ميں افغانستان امن کہ گہوارہ تھا۔
http://physiciansforhumanrights.org/library/documents/reports/talibans-war-on-women.pdf
نومبر1995 ميں اقوام متحدہ کے ادارے يونيسيف نے طالبان کے زير اثر تمام علاقوں ميں تعليم کی مد ميں دی جانے والی امداد پر مکمل بين لگا ديا کيونکہ طالبان نے لڑکيوں کی تعليم پر پابندی لگا دی تھی جو کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے قوانين کے منافی ہے۔
1995 ميں بيجينگ ميں منعقد کی جانے والی خواتين کے حقوق کی کانفرنس ميں افغانستان کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اقدامات کی توثيق کر دی گئ۔
1996 ميں برطانيہ کی سیو دا چلڈرن نامی تنظيم نے افغانستان کو دی جانے والی امداد پر مکمل پابندی لگا دی کيونکہ طالبان کی جانب سے افغانستان کی خواتين تک اس امداد کی منتقلی ناممکن بنا دی گئ۔
7 اکتوبر 1996 کو اقوام متحدہ کے سيکرٹی جرنل پطرس غالی نے افغانستان ميں طالبان کے مظالم کے بارے ميں جو کہا وہ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔
http://www.hri.org/cgi-bin/brief?/news/world/undh/96-10-07.undh.html
1999 ميں امريکی سيکرٹری آف اسٹيٹ ميڈلين آلبرائٹ نے طالبان کے حوالے سے کہا کہ " افغانستان ميں عورتوں اور لڑکيوں پر ہونے والے مظالم سنگين جرم ہيں اور ان مظالم کو روکنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے"۔
کسی بھی موضوع کے حوالے سے متضاد رائے رکھنا درست ہے لیکن يہ رائے محض جذبات اور عمومی تاثر پر مبنی نہيں ہونی چاہيے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov