امريکی قوم سے صدر اوبامہ کا خطاب

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

افغانستان اور پاکستان میں پیش قدمی کا راستہ

امریکہ کے کور آف کیڈٹس،ہماری مسلح افواج میں شامل مرد اور عورتیں، اور میرے امریکی ہم وطنو: آج رات میں آپ کو افغانستان میں امریکہ کی کوششوں کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں ۔ وہاں ہم نے جس کام کا بیڑا اٹھایا ہے اس کی نوعیت کیا ہے، وہاں ہمارے مفادات کا دائرہ کیا ہے، اور اس جنگ کو کامیابی سے اختتام تک پہنچانے کے لیئے میری انتظامیہ کیا حکمت عملی اختیار کرے گی۔ یہاں ویسٹ پوائنٹ میں ، جہاں اتنے سارے مردوں اور عورتوں نے ہماری سلامتی کی حفاظت کے لیئے تیاری کی ہے، اور ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین اقدار کی نمائندگی کا بیڑا اٹھایا ہے، ان معاملات پر اظہارِ خیال کرنا میرے لیئے غیر معمولی اعزاز کی بات ہے۔

ان اہم معاملات پر بات کرنے کے لیئے ، یہ یاد کرنا ضروری ہے کہ امریکہ اور ہمارے اتحادی آخر افغانستان میں جنگ لڑنے پر کیوں مجبور ہوئے۔ یہ لڑائی ہمارے کہنے پر شروع نہیں ہوئی۔ 11 ستمبر، 2001 کو، انیس افراد نے چار ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کیا اور انہیں تقریباً 3,000 افراد کو قتل کرنے کے لیئے استعمال کیا۔ انھوں نے ہمارے اہم ترین فوجی اور اقتصادی مراکز پر ضرب لگائی۔ انھوں نے مذہب، نسل یا زندگی میں کسی کے مقام کا لحاظ کیئے بغیر، بے گناہ مردوں ، عورتوں اور بچوں کی جانیں لیں۔ اگر ان میں سے ایک جہاز پر سوار مسافروں نے بے مثال جرأت کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا، تو یہ لوگ ہماری جمہوریت کی ایک عظیم علامت کو نشانہ بنا سکتے تھے اور مزید بہت سے لوگوں کو ہلاک کر سکتے تھے۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ان لوگوں کا تعلق القاعدہ سے تھا ۔۔ یہ انتہا پسندوں کا ایک گروپ ہے جس نے بے گناہ لوگوں کو ذبح کرنے کا جواز پیدا کرنے کے لیئے، دنیا کے ایک عظیم مذہب، اسلام کومسخ کیا ہے اور اس کے تقدس کو پامال کیا ہے ۔القاعدہ کی کارروائیوں کا مرکز افغانستان میں تھا، جہاں طالبان نے انہیں پناہ دی تھی۔ طالبان ایک بے رحم، ظالمانہ اور انتہا پسند تحریک ہے جس نے ایسے وقت میں جب افغانستان برسوں تک سوویت قبضے اور خانہ جنگی سے تباہ ہو چکا تھا، اور جب امریکہ اور ہمارے دوستوں کی توجہ کسی اور طرف ہو گئی تھی، اس ملک پر قبضہ کر لیا۔

نائن الیون کے چند دِن بعد ہی، کانگریس نے القاعدہ اور ان کو پناہ دینے والوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی منظوری دے دی۔ یہ منظوری آج بھی موجود ہے۔ سینیٹ میں 98 ووٹ اس کے حمایت میں آئے اور مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔ ایوانِ نمائندگان میں 420 ووٹ حمایت میں اور ایک ووٹ مخالفت میں آیا۔ تاریخ میں پہلی بار، نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن نے آرٹیکل 5 کو استعمال کیا جس میں کہا گیا ہے کہ کسی ایک رکن ملک پر حملہ تمام رکن ممالک پر حملہ سمجھا جائے گا۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے نائن الیون کے حملوں کے جواب میں تمام ضروری اقدامات کی منظوری دی۔ امریکہ، ہماری اتحادی ممالک، اور پوری دنیا ، القاعدہ کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے اور ہماری مشترکہ سیکورٹی کی حفاظت کے لیئے متحد ہو گئی۔

اس داخلی اتحاد کے جھنڈے تلے، اور بین الاقوامی طور پر جائز اور قانونی قرار دیے جانے کے بعد، اور طالبان کے اسامہ بن لادن کو ہمارے حوالے کرنے سے انکار کے بعد ہی، ہم نے اپنی فوجیں افغانستان میں بھیجیں۔ چند مہینوں میں ہی، القاعدہ منتشر ہو گئی اور اس کے بہت سے کارندے ہلاک کر دیے گئے۔ طالبان کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا، اور فرار ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ ایک ایسی جگہ جو کئی عشروں سے خوف کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی، اب وہاں امید کی روشنی نظر آنےلگی۔ اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام ایک کانفرنس میں صدر حامد کرزئی کے تحت ایک عبوری حکومت قائم کر دی گئی۔ اورجنگ سے تباہ حال ملک میں پائیدار امن قائم کرنے کے لیئے، ایک انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس قائم ہوئی۔

پھر 2003 کے شروع میں، عراق میں ایک دوسری جنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ عراق کی جنگ کے بارے میں جو ہنگامہ خیز بحث ہوئی، اس سے سب واقف ہیں اور یہاں اسے دہرانا غیر ضروری ہو گا۔ اتنا کہنا کافی ہو گا کہ اگلے چھہ برسوں تک ہماری فوجوں، ہمارے وسائل، ہماری سفارتکاری، اور ہمارے ملک کی توجہ کا بہت بڑا حصہ، عراق کی جنگ کے لیئے وقف ہو گیا۔۔اور عراق میں مداخلت کے فیصلے کی وجہ سے امریکہ اور دنیا کے بہت سے ملکوں کے درمیان تعلقات میں خاصہ بڑا رخنہ پیدا ہو گیا۔

آج، بہت بھاری قیمت ادا کرنے کے بعد، ہم نے عراق میں پیش رفت کی ایک راہ تلاش کر لی ہے۔ جیسا کہ میں نے اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے اور اس کے بعد وعدہ کیا تھا، ہم عراق کی جنگ کو ذمہ دارانہ انداز سے اختتام تک پہنچا رہے ہیں۔ ہم اپنی جنگی بریگیڈز کو اگلی گرمیوں تک عراق سے ہٹا لیں گے، اور اپنی تمام فوجوں کو 2011 تک واپس لے آئیں گے۔ ہم یہ سب کچھ اپنے با وردی مردوں اور عورتوں کے اعلیٰ کردار کی وجہ سے کر سکے ہیں۔ (تالیاں)۔ ان کی جرأت ، ثابت قدمی اور استقامت کی بدولت، ہم نے عراقیوں کو اپنا مستقبل خود بنانے کا موقع دیا ہے، اور ہم عراق کو کامیابی سے اس کے عوام کے حوالے کرنے کے بعد، وہاں سے رخصت ہو رہے ہیں۔

لیکن اگرچہ ہم نے عراق میں بڑی سختیاں جھیلنے کے بعد شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں، افغانستان میں صورتِ حال مزید خراب ہو گئی ہے ۔ 2001 اور 2002 میں فرار ہونے کے بعد سرحد پار پاکستان میں، القاعدہ کی قیادت نے وہاں ایک محفوظ پناہ گاہ قائم کر لی۔ اگرچہ افغان عوام نے قانونی طور پر ایک جائز حکومت منتخب کی، لیکن کرپشن، منشیات کے کاروبار، پسماندہ معیشت، اور نا کافی سیکورٹی فورسز کی وجہ سے ، وہ اپنا کام نہیں کر سکی ہے۔

گذشتہ کئی برسوں کے دوران، طالبان نے القاعدہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے، اور دہ دونوں افغان حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔ طالبان نے بتدریج افغانستان کے بعض حصوں پر کنٹرول قائم کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان کے لوگوں کے خلاف روز بروز زیادہ دیدہ دلیری سے دہشت گردی کی تباہ کن کارروائیاں کر رہے ہیں۔

اس پورے عرصے کے دوران، افغانستان میں ہماری فوجوں کی سطح، عراق کے مقابلے میں بہت کم رہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب میں نے اپنا عہدہ سنبھالا، اس وقت افغانستان میں صرف 32,000 امریکی فوجی خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس کے مقابلے میں عراق کی جنگ کے عروج کے زمانے میں، وہاں ہمارے فوجیوں کی تعداد 160,000 تھی ۔افغانستان میں طالبان کے ایک بار پھر زور پکڑنے کے بعد کمانڈروں نے ان سے نمٹنے کے لیئے، بار بار مزید وسائل کی درخواست کی۔ لیکن ان کے لیئے کمک نہیں پہنچی۔یہی وجہ ہے کہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے تھوڑے دِن بعد ہی، میں نے مزید فوجیوں کی درخواست ، جو کافی عرصے سے التوا میں پڑی ہوئی تھی، منظور کر لی۔ اپنے اتحادیوں سے مشورے کے بعد، میں نے ا یک حکمت عملی کا اعلان کیا جس میں اس بات کو تسلیم کیا گیا تھا کہ افغانستان میں ہماری جنگی کوششوں، اور پاکستان میں انتہا پسندوں کی پناہ گاہوں کے درمیان بنیادی تعلق ہے ۔ میں نے ایک ہدف مقرر کیا جس کی محدود وضاحت ان الفاظ میں کی گئی تھی کہ ہمارا مقصد القاعدہ اور اس کے انتہا پسند اتحادیوں کو درہم برہم کرنا، اسے منتشر کرنا، اور شکست دینا ہے۔ میں نے امریکہ کی فوجی اور سویلین کارروائیوں کو بہتر طریقے سے مربوط کرنے کا عہد کیا ۔

اس کے بعد سے اب تک، ہم نے بعض اہم مقاصد کے حصول میں پیش رفت کی ہے ۔ القاعدہ اور طالبان کے اعلیٰ سطح کے لیڈر ہلاک کر دیے گئے ہیں، اور ہم نے ساری دنیا میں القاعدہ پر دباؤ بڑھا دیا ہے ۔پاکستان میں ، اس ملک کی فوج نے ، برسوں کے بعد ، اتنی بڑی کارروائی کی ہے۔ افغانستان میں ہم نے اور ہمارے اتحادیوں نے، طالبان کی صدارتی انتخاب کو روکنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا ۔ اگرچہ دھاندلی کی وجہ سے اس انتخاب کی قانونی حیثیت ماند پڑ گئی، لیکن انتخاب سے جو حکومت بنی ہے ، وہ افغانستان کے قوانین اور آئین کے مطابق ہے ۔

پھر بھی بہت سے چیلنج باقی ہیں۔ افغانستان کو ہم نے کھویا نہیں ہے، لیکن کئی برسوں سے وہ پیچھے کی طرف جا رہا ہے ۔ حکومت کا تختہ الٹے جانے کا کوئی فوری خطرہ نہیں ہے، لیکن طالبان نے زور پکڑ لیا ہے ۔ اگرچہ القاعدہ اتنی بڑی تعداد میں دوبارہ سامنے نہیں آئی ہے جتنی نائن الیون سے پہلے تھی، لیکن سرحد کے ساتھ ساتھ ان کی محفوظ پناہ گاہیں باقی ہیں۔ اور ہماری فورسز کے پاس مطلوبہ وسائل نہیں ہیں جن کے ذریعے وہ موئثر طریقے سے افغان سیکورٹی فورسز کو تربیت دے سکیں اور ان کے ساتھ شراکت داری قائم کر سکیں، اور آبادی کی بہتر طور سے حفاظت کرسکیں۔ افغانستان میں ہمارے نئے کمانڈر، جنرل مک کرسٹل نے بتایا ہے کہ سیکورٹی کی صورت حال ان کی توقع سے زیادہ خراب ہے ۔ حالات کو جوں کا توں نہیں رکھا جا سکتا۔

کیڈٹس کی حیثیت سے آپ نے اس خطرناک وقت میں اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کی ہیں۔ آپ میں سے بعض لوگ افغانستان میں لڑ چکے ہیں۔ بعض کی تعیناتی وہاں ہونی ہے ۔ آپ کے کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے، یہ میری ذمہ داری ہے کہ آ پ کو ایک واضح مشن دوں جو آپ کی خدمات کے شایانِ شان ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب افغانستان میں ووٹنگ مکمل ہو گئی، تو میں نے اصرار کیا کہ ہمیں اپنی حکمت عملی کا مکمل جائزہ لینا چاہیئے۔ اب میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں: میرے سامنے ایسی کوئی تجویز نہیں تھی جس کے تحت 2010 سے پہلے فوجوں کی تعیناتی ہونی تھی۔ چنانچہ جائزے کی اس مدت کے دوران، جنگ کے لیئے مطلوبہ وسائل کی فراہمی میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی ہے اور نہ ان کی فراہمی سے انکار کیا گیا ہے ۔بلکہ جائزے کے ذریعے مجھے بعض مشکل سوالات پوچھنے کا موقع ملا ہے، اور ہماری نیشنل سیکورٹی ٹیم، اور افغانستان میں ہماری فوجی اور سویلین قیادت اور اہم شراکت داروں کے ساتھ مل کر تمام متبادل راستوں کی چھان بین کا موقع ملا ہے ۔ اس معاملے میں جتنا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے، اس کی روشنی میں ، امریکی عوام اور ہمارے فوجیوں کو مجھ سے اس سے کم کسی چیز کی توقع نہیں کرنی چاہیئے۔

اب یہ جائزہ مکمل ہو چکا ہے۔ اور کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے، میں نے یہ تعین کیا ہے کہ 30,000 مزید امریکی فوجی افغانستان بھیجنا ہمارے قومی مفاد کے لیئے اہم ہے۔18 مہینوں کے بعد، ہماری فوجیں گھر واپس آنا شروع ہو جائیں گی ۔ حالات پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیئے، ہمیں ان وسائل کی ضرورت ہے۔ اس دوران ہم افغانستان کی اپنی صلاحیتوں کی تعمیر کریں گے تا کہ ہماری اپنی فوجیں افغانستان سے ذمہ دارانہ انداز میں نکل آئیں۔

میرے لیئے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا۔ میں نے عراق میں جنگ کی مخالفت ٹھیک اسی لیئے کی تھی کیوں میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں فوجی طاقت کے استعمال میں احتیاط سے کام لینا چاہیئے اور ہمیشہ یہ سوچنا چاہیئے کہ ہمارے افعال کے طویل المدت نتائج کیا ہوں گے۔ ہمیں جنگ لڑتے ہوئے اب آٹھ برس ہو چکے ہیں، اور ہمیں انسانی زندگی اور وسائل کی شکل میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے ۔ عراق کی جنگ اور دہشت گردی کے بارے میں برسوں سے جاری بحث نے قومی سلامتی کے بارے میں ہمارے اتحادکو پارہ پارہ کر دیا ہے اور اس کوشش کے لیئے انتہائی جانبدارانہ اور اختلافی ماحول پیدا کر دیا ہے ۔اور ہمیں عظیم کساد بازاری کے بعد پہلی بار جس بد ترین اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امریکی عوام کی توجہ ہماری اپنی معیشت کی تعمیرِ نو پر، اور ملک میں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے پر ہے ۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ یہ فیصلہ آپ سے مزید قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے۔۔ایسی فوج سے جس نے آپ کے گھرانوں سمیت پہلے ہی سب سے زیادہ بوجھ برداشت کیا ہے ۔۔ صدر کی حیثیت سے ، میں نے ہر ایسے امریکی کے گھرانے کے نام جس نے ان جنگوں میں اپنی زندگی کا نذرانہ دیا ہے، تعزیت کے خط پر دستخط کیئے ہیں۔ میں نے جنگوں پر بھیجنے جانے والے افراد کے والدین اور شریکِ زندگی کے خط پڑھے ہیں۔ میں والٹر ریڈ جا کر اپنے زخمی ہونے والے بہادر سپاہیوں سے مِلا ہوں ۔میں نے Dover کا سفر کیا ہے اور میں امریکی پرچم میں لپٹے ہوئے ان 18 امریکیوں کے تابوتوں کی آمد کے وقت موجود تھا جو اپنی آخری آرامگاہ پر جانے کے لیئے واپس آئے تھے۔میں نے اپنی آنکھوں سے جنگ کے ہولناک اثرات دیکھے ہیں۔ اگر میں یہ نہ سمجھتا کہ افغانستان میں امریکہ کی سلامتی اور امریکہ کے لوگوں کی حفاظت داؤ پر لگی ہوئی ہے، تو میں بخوشی اپنے ہر فوجی کی کل ہی واپسی کا حکم دے دیتا ۔

تو پھر میرے لیئے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا۔ میں یہ فیصلہ اس لیئے کر رہا ہوں کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں ہماری سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے ۔ القاعدہ جس متشدد انتہاپسندی پر عمل کرتی ہے، یہ علاقہ اس کا مرکز ہے ۔ ہم پر نائن الیون کا حملہ یہیں سے ہوا تھا، اور یہی وہ جگہ ہے جہاں سے اس وقت جب میں تقریر کر رہا ہوں، نئے حملوں کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ یہ کوئی خالی خولی خطرہ نہیں ہے، کوئی فرضی دھمکی نہیں ہے۔ صرف گذشتہ چند مہینوں میں ہی، ہم نے اپنی سرحدوں کے اندر ایسے انتہا پسندوں کو پکڑا ہے جنہیں یہاں دہشت گردی کی نئی کارروائیوں کے لیئے ، افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں سے بھیجا گیا تھا۔ اور یہ خطرہ بڑھتا ہی جائے گا اگر اس علاقے میں حالات کو مزید خراب ہونے دیا جاتا ہے اور القاعدہ دیدہ دلیری سے اپنی کارروائیاں کر سکتی ہے ۔ ہمیں القاعدہ پر دباؤ قائم رکھنا چاہیئے، اور ایسا کرنے کے لیئے، ہمیں علاقے میں اپنے شراکت داروں کے استحکام اور ان کی صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہیئے۔

یہ صحیح ہے کہ ہم اکیلے یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ صرف امریکہ کی جنگ نہیں ہے ۔ نائن الیون کے بعد سے اب تک، القاعدہ کی محفوظ پناہ گاہیں ، لندن، عمان، اور بالی کے خلاف حملوں کا ذریعہ رہی ہیں۔ افغانستان اور پاکستان، دونوں ملکوں کے عوام اور حکومتیں خطرے میں ہیں۔ نیوکلیئر اسلحہ سے لیس پاکستان میں، خطرات اور بھی زیادہ ہیں کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ القاعدہ اور دوسرے انتہا پسند نیوکلیئر ہتھیار حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور ہمارے پاس یہ سمجھنے کی وجوہ موجود ہیں کہ وہ انہیں ضرور استعمال کریں گے ۔

اِن حقائق کی روشنی میں، ہم اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ مِل کر کارروائی کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارا اولین اور بنیادی مقصد اب بھی وہی ہے: افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ کو درہم برہم کرنا، منتشر کرنا اور شکست دینا، مستقبل میں امریکہ اور ہمارے اتحادیوں کو دھمکی دینے کے صلاحیت حاصل کرنے سے روکنا۔

اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیئے، ہم افغانستان میں مندرجہ ذیل مقاصد کے حصول کی کوشش کریں گے۔ ہمیں القاعدہ کو محفوظ پناہ گاہ سے محروم کرنا چاہیئے ۔ہمیں طالبان کا زور توڑنا چاہیئے، اور انہیں حکومت کا تختہ الٹنے کی صلاحیت سے محروم کر دینا چاہیئے۔ اور ہمیں افغانستان کی سیکورٹی فورسز اور حکومت کی صلاحیت کو مضبوط بنانا چاہئیے تا کہ وہ افغانستان کے مستقبل کی ذمہ داری قبول کرنے میں پہل کر سکیں۔

ہم یہ مقاصد تین طریقوں سے حاصل کریں گے۔ اول یہ کہ ہم ایسی فوجی حکمت عملی پر عمل کریں گے جس سے طالبان کا زور ٹوٹ جائے گا اور اگلے 18مہینوں میں افغانستان کی صلاحیت میں اضافہ ہو جائے گا۔

میں جن 30,000 مزید فوجیوں کا اعلان کر رہا ہوں، وہ 2010 کے پہلے حصے میں تعینات کر دیے جائیں گے۔ یہ رفتار سب سے زیادہ ہے ، تا کہ وہ بغاوت کو نشانہ بنا سکیں اور آبادی کے اہم مراکز کو محفوظ کر سکیں۔ وہ افغان سیکیورٹی فورسز کو تربیت دینے کی ہماری صلاحیت کو بہتر بنائیں گے اور ان کے ساتھ شراکت داری قائم کریں گے تا کہ اور زیادہ افغان لڑائی میں شامل ہو سکیں۔ اور وہ ایسے حالات پیدا کرنے میں مدد دیں گے جن میں امریکہ یہ ذمہ داری افغانوں کو منتقل کر دے ۔

چونکہ یہ بین الاقوامی کوشش ہے، اس لیئے میں نے کہا ہے کہ ہماری ذمہ داری میں ہمارے اتحادی بھی شرکت کریں۔ بعض نے پہلے ہی مزید فوجی فراہم کر دیے ہیں، اور مجھے اعتماد ہے کہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں مزید مدد فراہم کی جائے گی۔ ہمارے دوستوں نے افغانستان میں ہمارے ساتھ مِل کر جنگ کی ہے، اپنا خون بہایا ہے اور اپنی جانیں دی ہیں۔ اب ہمیں اس جنگ کو کامیابی سے ختم کرنے کے لیئے اکٹھے ہونا چاہیئے۔ کیوں اب جو داؤں پر لگا ہوا ہے، وہ صرف نیٹو کی ساکھ اور اس کا اعتبار ہی نہیں ہے، بلکہ اب ہمارے اتحادیوں کی سیکورٹی، اور دنیا کی مشترکہ سیکورٹی داؤ پر لگی ہوئی ہے ۔

لیکن اگر ملا کر دیکھا جائے، تو یہ اضافی امریکی اور بین الاقوامی فوجی یہ ممکن کر دیں گے کہ ہم زیادہ تیزی سے ذمہ داری افغان فورسز کو منتقل کر دیں، اور 2011 میں جولائی کے مہینے سے اپنی فوجوں کو افغانستان سے نکالنے کا عمل شروع کر دیں۔ جیسا کہ ہم نے عراق میں کیا ہے، ہم تبدیلی کا یہ عمل ذمہ داری کے ساتھ شروع کریں گے اور زمینی حقائق کو سامنے رکھیں گے۔ ہم افغانستان کی سیکورٹی فورسز کو مشورہ اور مدد دینے کا عمل جاری رکھیں گے تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ طویل مدت میں کامیاب ہو سکیں۔لیکن افغان حکومت پر واضح ہو جائے گا ۔۔اور اس سے بھی اہم یہ بات ہے کہ افغانستان کے لوگوں کو پتہ چل جائےگا ، کہ بالآخر اپنے ملک کی ذمہ داری خود انہیں کو اٹھانی ہو گی۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہم اپنے شراکت داروں ، اقوامِ متحدہ، اور افغان عوام کے ساتھ مِل کر ، زیادہ موئثر سویلین حکمت عملی اختیار کریں گے تا کہ حکومت بہتر سیکورٹی کا فائدہ اٹھا سکے۔
اس کوشش کی بنیاد کارکردگی پر ہو گی۔ سادہ چیک دینے کے دِن ختم ہو چکے ہیں۔ صدر کرزئی کی صدارت کی افتتاحی تقریر نے ایک نئی سمت میں سفر کرنے کا صحیح پیغام دیا۔اور آگے کی طرف بڑھتے ہوئے، ہم یہ بات واضح کر دیں گے کہ جو لوگ ہم سے مدد لیتے ہیں، ان سے ہم کِن چیزوں کی توقع کرتے ہیں۔ ہم افغان وزارتوں، گورنروں، اور مقامی لیڈروں کی حمایت کریں گے جو بد عنوانیوں کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور عوام کے مفاد میں کام کرتے ہیں۔ ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ جو لوگ غیر موئثر یا بد عنوان ہیں، ان کی جوابدہی کی جائے ۔ اور ہم اپنی امداد ایسے شعبوں میں دینے پر توجہ دیں گے ، جیسے زراعت، جن سے افغان عوا م کی زندگیوں پر فوری اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

افغانستان کے لوگ کئی عشروں سے تشدد کے سایے تلے رہ رہے ہیں۔ انہیں اپنے ملک پر قبضے کی اذیت برداشت کرنی پڑی ہے، پہلے سوویت یونین نے قبضہ کیا، اور پھر القاعدہ کے غیر ملکی جنگجوؤں نے، جنھوں نے افغان سرزمین اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کی ۔ چنانچہ، آج کی شب میں افغان عوام کو ایک بات سمجھانا چاہتا ہوں۔۔امریکہ جنگ اور اذیتوں کے اس عہد کے خاتمے کا خواہشمند ہے ۔ہمیں آپ کے ملک پر قبضہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہم افغان حکومت کی ان کوششوں کی حمایت کریں گے کہ ان طالبان کے لیئے دروازہ کھول دیا جائے جو تشدد کو ترک کرنے اور اپنے ہم وطن شہریوں کے حقوق کا احترام کرنے پر تیار ہوں۔ اور ہم افغانستان کے ساتھ ایسی شراکت داری قائم کرنا چاہیں گے جس کی بنیاد باہم احترام پر ہو۔۔ان لوگوں کو الگ تھلگ کر دیا جائے جو تباہی پھیلاتے ہیں؛ ان لوگوں کو مضبوط بنایا جائے جو تعمیر کرتے ہیں؛ اس دِن کو قریب لایا جائے جب ہماری فوجیں افغانستان کو چھوڑ دیں گی؛ اور ایسی پائیدار دوستی قائم کی جائے جس میں امریکہ آپ کا شراکت دار ہو، اور کبھی آپ کا سرپرست نہ بنے ۔

تیسری بات یہ ہے کہ ہم اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے کارروائی کریں گے کہ افغانستان میں ہماری کامیابی اور پاکستان کے ساتھ ہماری شراکت داری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

ہم افغانستان میں اس لیئے موجود ہیں تا کہ ہم ایک کینسر کو ایک بار پھر ملک میں پھیلنے سے روکیں۔ لیکن اسی کینسر نے پاکستان کے سرحدی علاقے میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو سرحد کے دونوں جانب کام کر سکے۔

ماضی میں، پاکستان میں کچھ لوگ یہ دلیل دیتے رہے ہیں کہ انتہا پسندی کے خلاف جنگ سے انہیں کوئی مطلب نہیں ہے، اور پاکستان کے لیئے بہتر یہی ہے کہ وہ اس بارے میں لاتعلق رہے یا ان لوگوں کے ساتھ تصفیہ کر لے جو تشدد استعمال کرتے ہیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں، جب کراچی سے اسلام آباد تک بے گناہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں، یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ انتہا پسندی سے سب سے زیادہ خطرہ پاکستان کے لوگوں کو ہے ۔ عوام کی رائے تبدیل ہو چکی ہے ۔ پاکستان کی فوج نے سوات میں، اور جنوبی وزیرستان میں جنگی کارروائی کی ہے ۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور پاکستان دونوں کو ایک مشترک دشمن کا سامنا ہے ۔

ماضی میں ہم نے اکثر پاکستان کے ساتھ اپنے تعلق کو ایک تنگ زاویے سے دیکھا ہے ۔ وہ دِن ختم ہو چکے ہیں۔ آگے کی طرف بڑھتے ہوئے، ہم نے پاکستان کے ساتھ ایسی شراکت داری کا عہد کیا ہے جس کی بنیاد ایک دوسرے کے مفاد، باہم احترام اور باہم اعتماد پر قائم ہے ۔ ہم ان گروپوں کو نشانہ بنانے کے لیئے جن سے ہمارے ملکوں کو خطرہ ہے، پاکستان کی صلاحیت کو مضبوط بنائیں گے، اور ہم نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ ہم ایسے دہشت گردوں کے لیئے محفوظ پناہ گاہ برداشت نہیں کر سکتے، جن کے بارے میں ہمیں علم ہے کہ وہ کہاں موجود ہیں، اور جن کی عزائم واضح ہیں ۔ پاکستان کی جمہوریت اور اقتصادی ترقی کے لیئے بھی امریکہ بھاری وسائل فراہم کر رہا ہے ۔ لڑائی کی وجہ سے جو پاکستانی بے گھر ہوئے ہیں، ان کی مدد کرنے والوں میں ہمارا حصہ سب سے زیادہ ہے ۔ اور آگے کی طرف دیکھتے ہوئے، پاکستان کے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ لڑائی ختم ہونے کے کافی عرصے بعد بھی، امریکہ پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کا زبردست حامی رہے گا، تا کہ پاکستان کے لوگوں کی اعلیٰ صلاحیتیں بروئے کار لائی جا سکیں۔

ہماری حکمت عملی کے تین بنیادی عناصر یہ ہیں: تبدیلی کے لیئے ساز گار حالات پیدا کرنے کی غرض سے فوجی کوشش؛ سویلین امداد میں اضافہ جس سے مثبت اقدام کو مضبوط بنایا جا سکے؛ اور پاکستان کے ساتھ موئثر شراکت داری۔

مجھے احساس ہے کہ ہم نے جو طریقہ اپنایا ہے اس کے بارے میں مختلف قسم کی تشویش موجود ہے۔ میں مختصراً ان چند زیادہ نمایاں دلائل کے بارے میں بات کروں گا جو میں نے سنے ہیں اور جنہیں میں بہت سنجیدگی سے لیتا ہوں۔

اول تو وہ لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ افغانستان ہمارے لیئے ایک اور ویتنام ثابت ہوگا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اسے مستحکم نہیں کیا جا سکتا، اور بہتر یہ ہوگا کہ ہم وہاں سے تیزی سے نکل آئیں اور اپنے نقصانات کم کر لیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دلیل تاریخ کے غلط مطالعے پر مبنی ہے ۔ ویتنام کے بر عکس، افغانستان میں 43 ملک ہمارے اقدام کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ ویتنام کے بر عکس، ہمیں وسیع البنیاد عوامی بغاوت کا سامنا نہیں ہے ۔ اور اہم ترین بات یہ ہے کہ ویتنام کے برعکس، افغانستان سے امریکی عوام پر شر انگیز حملہ کیا گیا تھا، اور وہ اب بھی ان انتہا پسندوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں جو افغانستان کی سرحدوں کے قریب سے امریکہ کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ اس علاقے کو اس وقت چھوڑ دینے ، اور القاعدہ کے خلاف اپنی کوششیں دور فاصلے سے جاری رکھنے سے، القاعدہ کے خلاف دباؤ ڈالنے کی ہماری صلاحیت بری طرح متاثر ہو گی ، اور ہماری سرزمین اور ہمارے اتحادیوں پر مزید حملوں کا خطرہ نا قابلِ قبول حد تک بڑھ جائے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم افغانستان کو اس کی موجودہ صورت حال میں چھوڑ کر یہاں سے نہیں جاسکتے، لیکن ان کا خیا ل ہے کہ ہم انہی فوجیوں کے ساتھ، جو ہمارے پاس پہلے سے ہیں ،اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ لیکن اس سے صورت حال ویسی کی ویسی ہی رہے گی جیسی کہ اس وقت تھی جب ہم نے یہاں مداخلت کی تھی، اور جس کے نتیجے میں یہاں کے حالات بتدریج بگڑتے چلے جائیں گے۔ اور اس طرح بالآخر افغانستان میں ہمارا قیام مزید مہنگا اور طویل تر ثابت ہوگا، کیونکہ ہم کبھی بھی ایسے حالات پیدا نہیں کرسکیں گے جو افغان سیکیورٹی فورسز کی تربیت اور انہیں اپنی ذمہ داریاں خود سنبھالنے کے لیے درکار ہیں ۔

آخری بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو افغانستان کو ذمہ داریوں کی منتقلی کے لیے کسی نظام الاوقات کے تعین کے مخالف ہیں۔ درحقیقت ، کچھ تو ہماری جنگی کوشش میں ایک زیادہ ڈرامائی اور بے محابہ اضافہ چاہتے ہیں۔۔ جو ہمیں ایک عشرے تک ایک قومی تعمیر کے پراجیکٹ سے وابستہ رکھے گا۔ میں اس طریقے کو مسترد کرتا ہوں کیونکہ یہ ایسے اہداف متعین کرتا ہے جنہیں معقول اخراجات کے ساتھ حاصل کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ اور نہ ہی انہیں حاصل کرنا ہمارے مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ ذمہ داریوں کی منتقلی کے لیے کسی لائحہ عمل کے نہ ہونے سے اس احساس کی نفی ہوگی کہ ہمیں افغان حکومت کے ساتھ اپنا کام تیزی سے مکمل کرنا ہے۔یہ واضح ہونا چاہیے کہ افغانوں کو اپنی سیکیورٹی کی ذمہ داری خود سنبھالنا ہوگی اور یہ کہ امریکہ کو افغانستان میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ لڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

صد ر کی حیثیت سے میں ایسے مقاصد متعین کرنے سے انکار کرتا ہوں جو ہماری ذمہ داری ، ہمارے وسائل یا ہمارے مفادات سے بالاتر ہوں ۔ مجھے ان تمام چیلنجوں کو اہمیت دینا ہو گی جو ہماری قوم کو درپیش ہیں ۔ اور میں کسی ایک ہی چیلنج پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ صدر آئزن ہاور کے یہ الفاظ میرے ذہن میں رہتے ہیں جنہوں نے ۔۔ہماری قومی سلامتی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا ،ہر تجویزپر ایک وسیع تر تناظر میں غور کیا جانا چاہیے ،یعنی قومی پروگرامو ں میں اور ان کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

پچھلے کئی برسوں میں ہم اس توازن کو کھو چکے ہیں ۔ ہم اپنی قومی سلامتی اور اپنی معیشت کے درمیان تعلق کی اہمیت سمجھنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اقتصادی بحران کی زد میں آ کر ، ہمارے بہت سے پڑوسی اور دوست روزگار کھو چکے ہیں اور وہ اپنے بلوں کی ادائیگی کے لیے جدو جہد میں مصروف ہیں ۔ بہت سے امریکی اپنے بچوں کے سامنے موجود مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں ۔اسی دوران ، عالمی معیشت میں مسابقت بے تحاشہ بڑھ گئی ہے۔اس لیے ہم ان جنگوں پر اٹھنے والے اخراجات کو آسانی سے نظر انداز نہیں کر سکتے۔

بہر طور ، جب میں نے اپنا منصب سنبھالا تو عراق اور افغانستان کی جنگوں میں اٹھنے والے اخراجات ایک کھرب ڈالر تک پہنچ چکے تھے ۔ اب آگے بڑھتے ہوئے ، میں ان اخراجات سے کھلے طور پر اور دیانتداری کے ساتھ نمٹنے کا عزم رکھتا ہوں ۔ افغانستان میں ہمارے نئے لائحہ عمل سے امکان ہے اس سال فوج پر ہمارے لگ بھگ 30 ارب ڈالر خرچ ہوں گے ، او رمیں کانگریس کے ساتھ اس وقت ان اخراجات سے نمٹنے کےلیے قریبی طور پر کام کروں گا جب ہم اپنے خسارے کو کم کرنے پر غور و فکر کریں گے ۔

لیکن اب جب ہم عراق میں جنگ ختم کر رہے ہیں اور افغانستان میں ذمہ داری سنبھال رہے ہیں ، ہمیں یہاں اپنے ملک کو پھر سے مضبوط بنانا ہو گا ۔ ہماری خوشحالی ہماری طاقت کی بنیاد ہے۔ اس کی بدولت ہم اپنی فوج کے اخراجات اٹھاتے ہیں ۔ یہ ہماری سفارت کاری کی ضامن ہے ۔ یہ ہمارے لوگوں کی صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے اور اس کی بدولت نئی نئی صنعتوںمیں سرمایہ کاری ممکن ہوتی ہے ۔ اور اسی کی مدد سے ہم اس صدی میں اتنی کامیابی سے مسابقت کر سکیں گے جتنی کہ ہم نے گزشتہ صدی میں کی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں فوجیوں کے لیے ہماری وابستگی غیر محدود پیمانے کی نہیں ہو سکتی ۔۔۔کیوں کہ میں جس ملک کی تعمیر میں سب سے زیادہ دلچسپی رکھتا ہوں وہ ہمارا اپنا ملک ہے ۔

میں یہ بات صاف صاف کہنا چاہتا ہوں کہ ان میں سے کوئی بھی کام آسان نہیں ہو گا۔ متشدد انتہا پسندوں کے خلاف جدو جہد جلد ختم نہیں ہو گی، اور یہ افغانستان اور پاکستان سے کہیں آگے تک جاتی ہے ۔یہ ہمارے آزاد معاشرے اور دنیا میں ہماری قیادت کا ایک صبر آزما امتحان ہو گا۔ اور بڑی طاقتوں کے تنازعوں اور تقسیم کی ان واضح لائنوں کے برعکس جو بیسویں صدی کاخاصہ تھے ، ہماری جدو جہد کا دائرہ انتشار زدہ خطوں ، ناکام ریاستوں اور بکھرے ہوئے دشمنوں پر محیط ہو گا۔

اس لیے نتیجتاً امریکہ کو اپنی طاقت کا مظاہرہ اس انداز میں کرنا ہو گا کہ ہم جنگیں ختم کریں اور تنازعوں کا سد باب کریں ۔۔۔ نہ کہ صرف اس طرح کہ ہم کس طرح جنگیں کرتے ہیں۔ہمیں اپنی فوجی طاقت کا استعمال درستگی کے ساتھ اور بھر پور طریقے سے کرنا ہو گا ۔ القاعدہ اور اس کے اتحادی جہاں کہیں اپنے قدم جمانے کی کوشش کریں ۔۔۔چاہے وہ صومالیہ ہو یا یمن یا کوئی اور جگہ ۔۔۔ ان کا مقابلہ مزید دباؤ اور مضبوط شراکت داری کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔

اور اب ہم صرف فوجی قوت پر انحصار نہیں کرسکتے ۔ ہمیں اپنے وطن کی سلامتی پربھی سرمایہ کاری کرنا ہوگی کیوں کہ ہم سمندر پار ہر متشد د انتہاپسند کو پکڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ہلاک کرسکتے ہیں۔ہمیں اپنی انٹیلی جینس کوبھی بہتر اور زیادہ مربوط بنانا ہوگا تاکہ ہم پوشیدہ نیٹ ورکس سے ایک قدم آگے رہ سکیں۔
ہمیں وسیع تباہی کے ہتھیاروں کو ختم کرنا ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ میں نے قدرے آسانی سے دستیاب ہونے والے جوہری مواد کو دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے سے بچانے، جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤکوروکنے اوردنیا کو جوہری ہتھیاروں سے محفوظ بنانے کو اپنی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون بنایا ہے۔ ۔۔ کیونکہ ہر قوم کو یہ سمجھنا چاہے کہ صحیح معنوں میں سیکیورٹی پہلے سے کہیں زیادہ تباہ کن ہتھیاروں کی نہ ختم ہونے والی دوڑ سے کبھی حاصل نہیں ہوگی بلکہ حقیقی سیکیورٹی ان لوگوں کا مقدر بنے گی جو انہیں مسترد کریں گے۔

ہمیں سفارت کاری سے کام لینا ہوگا کیونکہ کوئی ایک واحد قوم ایک باہم مربوط دنیا کے چیلنجوں کا مقابلہ تن تنہا نہیں کرسکتی۔ میں نے یہ سال اپنے اتحادوں کی تجدید اور نئی شراکت داریاں قائم کرنے میں گذرا ہے۔ اور ہم نے امریکہ اور مسلم دنیا کے درمیان ایک نئی شروعات کی ہے۔ جس میں تنازعوں کا ایک سلسلہ ختم کرنے کے لیے باہمی دلچسپی کو پیش نظر رکھا گیا ہےاور جو ایسے مستقبل کی ضمانت دیتی ہے جس میں بے گناہوں کا خون بہانے والوںکو امن، خوشحالی اور انسانی وقار کے لیے ڈٹ جانے والے الگ تھلگ کردیں ۔

اور آخری بات یہ کہ ہمیں اپنی اقدار سے تقویت حاصل کرنی چاہیے۔۔۔ کیونکہ ہمیں جن چیلنجوں کا سامنا ہے، وہ بدل سکتے ہیں لیکن ہمارے عقائد نہیں بدلتے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے ملک میں ان اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے انہیں فرو غ دینا چاہیے۔۔۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں نے اذیت رسانی پر پابندی لگا دی ہے اور میں گوانتاناموبے کا قیدخانہ بند کردوں گا۔ اور ہمیں دنیا بھر کے ہر مرد، عورت اور بچےپر، جو ظلم و استبداد کی تاریکیوں میں زندگی گزار رہاہے ، یہ واضح کردینا چاہیے کہ امریکہ ان کے انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھائے گا اور وہ تمام لوگوں کے لیے آزادی، انصاف، مواقع اور وقار کے احترام کے لیے کام کرے گا۔ ہم اصل میں یہ ہیں۔ اور امریکہ کی حاکمیت کا یہی منبع ہے ، اخلاقی منبع۔

فرینک لین روز ویلٹ کے زمانے سے، ہمارے آباؤ اجداد کی خدمات اور قربانیوں کے ذریعے ہمارے ملک نے عالمی معاملات کا ایک خصوصی بوجھ برداشت کیا ہے۔ کئی براعظموں کے کئی ملکوں میں امریکیوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ہم نے دوسرے ملکوں میں ملبوں کے ڈھیروں کی تعمیر نواور ان کی معیشتوں کی ترقی میں مدد کے لیے اپنے ٹیکسوں کی آمدنی صرف کی ہے۔ ہم نے دیگر اقوام کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ سے لے کر نیٹو اورعالمی بینک تک، اداروں کا ایک ایسا نظام قائم کیا ہے جو نوع انسانی کی مشترکہ سیکیورٹی اور خوش حالی میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

ہم نے جو یہ کوششیں کی ہیں، ایسا نہیں ہوا کہ ہمیشہ ہی ان کے لیئے ہمارا شکریہ ادا کیا گیا ہو، اور ہم سے کبھی کبھی غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔لیکن کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں، امریکہ نے چھہ عشروں سے زیادہ عرصے تک دنیا کی سلامتی کی ضمانت دی ہے۔ یہ وہ دور ہے جس میں تمامتر مسائل کے باوجود، دنیا نے دیواریں گرتی دیکھی ہیں، منڈیاں کھلی ہیں، اربوں لوگ غربت کے چنگل سے نکلے ہیں، بے مثال سائنسی ترقی ہوئی ہے، اور انسانی آزادی کی سرحدیں وسیع ہوئی ہیں،

ماضی کی بڑی طاقتوں کے برعکس ، ہم نے دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ ہماری یونین استبداد کی مزاحمت پر قائم ہوئی تھی ۔ ہم دوسرے ملکوں پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے ۔ ہم کسی دوسرے ملک کے وسائل پر اپنا حق نہیں جتائیں گے ، ہم دوسرے لوگوں کو اس لیے نشانہ نہیٕں بنائیں گے کہ وہ ہم سے مختلف عقائد یا نسل کے لوگ ہیں ۔ ہم جس چیز کےلیے لڑ چکے ہیں ۔۔ ہم جس چیز کے لیے لڑتے رہیں گے ۔۔ وہ ہے ہمارے بچوں کا بہتر مستقبل۔ اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ان کی زندگیاں صرف اس صورت میں بہتر ہوں گی اگر دوسرے لوگوں کے بچے اور ان بچوں کی اولادیں آزادی کے ساتھ رہ سکیں اور انہیں مواقع فراہم ہو سکیں ۔

ایک ملک کے طور پر ، ہم اتنے جوان نہیں ہیں اور شاید اتنے معصوم نہیں ہیں جتنے ہم اس وقت تھے جب روزویلٹ صدر تھے ۔ تاہم پھر بھی ہم آزادی کے لیے ایک اعلیٰ جدو جہد کے امین ہیں۔ اور اب ہمیں ایک نئے دور کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور اخلاقی اقدار کو بروئے کار لانا ہو گا ۔

آخری بات یہ کہ ہماری سیکیورٹی اور قیادت کا ماخذ صرف ہمارا اسلحہ نہیں ہے۔۔ ۔ اس کا ماخذ ہمارے لوگ ہیں۔۔۔ وہ کارکن اور تاجر جو ہماری معیشت کی تعمیر نو کریں گے;وہ کاروباری لوگ اور محقق جو نئی صنعتیں لگائیں گے ; وہ اساتذہ جو ہمارے بچوں کو تعلیم دیں گے ; اور وہ محنت کش جو ہمارے ملک کی کمیونٹیز میں کام کرتے ہیں ; وہ سفارت کار اور پیس کورز کے رضاکار جو دنیا بھر میں امید پھیلاتے ہیں ; اور یونیفارم میں ملبوس وہ مرد اور خواتین جو قربانیوں کے اس نہ ٹوٹنے والے سلسلے کا ایک حصہ ہیں جس کے باعث ا س کرہ ارض پر لوگوں کے لیے، لوگوں کی حکومت لوگوں کے ذریعے ایک حقیقت بنی ۔

گوناگو ں نسلوں ،عقائد اور ملکوں کے لوگوں پر مشتمل یہ متنوع اور عظیم قوم ہر مسئلے پر ہمیشہ متفق نہیں ہو گی ۔۔ نہ ہی اسے ہونا چاہیے۔ لیکن میں یہ بھی جانتاہوں کہ ،ایک ملک کے طور پر ہم اپنی قیادت اس وقت تک برقرار نہیں رکھ سکتے اور اپنے دور کے ان اہم چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے جب تک ہم خود کو اس عداوت اور بد اعتمادی اور تعصب سے الگ نہیں کر لیتے جس نے حالیہ عرصے میں ہمارے قومی بحث مباحثے کو تلخی سے بھر دیا تھا ۔

یہ فراموش کرنا آسان ہے کہ جب یہ جنگ شروع ہوئی تو ہم متحد تھے ۔۔۔ ایک ہولناک حملے کی تازہ یاد نے، اور اپنی سر زمین اور اپنی عزیز اقدار کے دفاع کے عزم نے ہم سب کو ایک کر دیا تھا۔میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ ہمارے درمیان وہ ہم آہنگی دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتی۔ مجھے روح کی گہرائیوں سے یقین ہے کہ ہم ۔۔۔امریکی ہونے کے ناطے ۔۔۔ اب بھی کسی مشترکہ مقصد کے حصول کے لیےمتحد ہو سکتے ہیں ۔کیوں کہ ہماری اقدارصرف کاغذ پر تحریر سادہ الفاظ نہیں ہیں۔۔۔ وہ عقائد کا ایک مجموعہ ہیں جو ہم سب کو ایک بندھن میں پروتا ہے اور جس نے ہمیں ہماری تاریخ کے سیاہ ترین ادوار میں بھی ایک ملک اور ایک قوم کی حیثیت سے متحد رکھا ہے
امریکہ ۔۔۔ ہم ایک بڑے آزمائشی دور سے گزر رہے ہیں۔ اور ان طوفانوں کے درمیان سے ہم یہ واضح پیغام بھیج رہے ہیں کہ ہمارا نصب العین انصاف ہے ، ہماراعزم غیر متزلزل ہے ۔ ہم اس اعتماد کے ساتھ کہ جیت ہمیشہ حق کی ہوتی ہے اور اس عہد کے ساتھ آگے بڑھیں گے کہ ہم ایک ایسا امریکہ تعمیر کریں گے جو پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گا ، ایک ایسی دنیاتعمیر کریں گے جو پہلے سے زیادہ مستحکم ہو گی اور ایک ایسا مستقبل تشکیل دیں گے جہاں خوف کی اتھاہ گہرائیاں نہیں بلکہ امید کی روشن کرنیں ہر سو اجالا بکھیریں گی ۔

شکریہ ۔خدا آپ کا حامی و ناصر ہو ۔خدا ریاستہائے متحدہ امریکہ کو اپنی برکتوں سے نوازے ۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ہم نے عراقیوں کو اپنا مستقبل خود بنانے کا موقع دیا ہے، اور ہم عراق کو کامیابی سے اس کے عوام کے حوالے کرنے کے بعد، وہاں سے رخصت ہو رہے ہیں۔www.state.gov
کس قدر بھونڈا مذاق ہے۔ ۔پوری انسانیت کی آنکھوں میں دھول جھنکنے کی ایک احمقانہ کوشش:notlistening:

Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
مجھے یقین ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں ہماری سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے ۔www.state.gov
تو آپ یہاں سے تشریف کا ٹوکرا لے کیوں نہیں جاتے۔ خس کم جہاں پاک ہو جائے گا
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
ہم پر نائن الیون کا حملہ یہیں سے ہوا www.state.gov
بدترین جھوٹ۔ ۔شرم آنی چاہیئے اتنے بڑے ملک کے صدر کو اس چوری اور سینہ زوری کا مظاہرہ کرنے پر۔ نائن الیون کے مبینہ دہشتگردوں میں سے ایک بھی افغانی نہیں تھا۔ سب سعودی تھے۔ اور انکی تربیت بھی امریکہ میں ہی ہوئی تھی:shameonyou:

Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
ہمیں وسیع تباہی کے ہتھیاروں کو ختم کرنا ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ میں نے قدرے آسانی سے دستیاب ہونے والے جوہری مواد کو دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے سے بچانے، جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤکوروکنے اوردنیا کو جوہری ہتھیاروں سے محفوظ بنانے کو اپنی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون بنایا ہے۔ ۔۔ کیونکہ ہر قوم کو یہ سمجھنا چاہے کہ صحیح معنوں میں سیکیورٹی پہلے سے کہیں زیادہ تباہ کن ہتھیاروں کی نہ ختم ہونے والی دوڑ سے کبھی حاصل نہیں ہوگی بلکہ حقیقی سیکیورٹی ان لوگوں کا مقدر بنے گی جو انہیں مسترد کریں گے۔
www.state.gov
دوسرے لفظوں میں پاکستان کو دھمکی دی جا رہی ہے اور آئندہ آنے والے دنوں میں یہی راگ بار بار الاپا جائے گا جیسے عراق پر حملے سے پہلے رائے عامہ کو ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن کے نام پر تشکیل دیا گیا تھا۔ ۔ ۔بے شرم لوگ۔
 
محمود غزنوی صاحب ، یہ موضوع نہایت حساس نوعیت کا ہے اور اس پر لوگوں کی مختلف آراء موجود ہیں اور بہت سے لوگ اس بحث میں‌مدلل گفتگو کرنا چاہیں گے، تاہم آپ نے فوری طور پرجس نوعیت کی سطحی و جذباتی تحریر پیش کی ہے اس پر نظر ثانی کیجئے اور کوشش کریں کہ فوری طور پر کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل سوچ سمجھ کر اقتباس لیں اور پھر مدلل جواب دیں، جو باتیں دنیا بھر پہ عیاں ہیں اسے کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے ، بن لادن تورا بورا سے ہی تو یہ منصوبہ بندی کر رہے تھے اور جہادی ٹریننگ کیمپ چلا رہے تھے، کیا یہ غلط ہے ؟ امریکی فوج عراق سے واپس جا چکی ہے ، عراقی حکومت کو نظم و نسق سونپ کر، کیا یہ غلط ہے؟ پاکستان کی عسکری قوت کو مظبوط کرنے کے لئے کیا آپ بھارت سےf-16 & f-17 خریدیں‌گے یا روس آپ کی مدد کرے گا؟ یقینی طور پر معاشی، تکنیکی ، عسکری ، تجارتی و تعلیمی میدان میں امریکہ ہی ہمارے لئے سود مند ہے ، تو پھر تشریف کا ٹوکرہ لے جانے کے بعد کون آپ کی مدد کرے گا، بھارت نے اگر ممبئی حملوں کے بعد پاکستان پر جارحانہ کاروائی نہیں کی تو اسکے پیچھے ایک بڑا عالمی دباؤ تھا ، اس لئے گزارش ہے کہ جہاں میں‌آپ کے خیالات کی قدر کرتا ہوں وہیں امید رکھتا ہوں‌کہ جوابات ایسے دیجئے کہ کوئی ہماری ہنسی نہ اڑا سکے اس سے ہم کسی کی مدد نہیں بلکہ اپنے لئے مشکل پیدا کر لیتے ہیں۔ امید ہے برا نہ منائیں گے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

تو آپ یہاں سے تشریف کا ٹوکرا لے کیوں نہیں جاتے۔ خس کم جہاں پاک ہو جائے گا

اس میں کوئ شک نہيں کہ اس ايشو کے حوالے سے آپ کی ايک مخصوص سوچ اور نقطہ نظر ہے۔ جہاں تک آپ کا يہ کہنا ہے کہ امريکی افواج کو افغانستان سے فوری طور پر نکل جانا چاہيےتو اس حوالے سے يہ بتا دوں کہ امريکی حکام بھی يہی چاہتے ہيں کہ جلد از جلد فوجيوں کو واپس بلايا جائے ليکن اس ضمن ميں کچھ زمينی حقائق بھی مدنظر رہنے چاہيے ۔ دہشت گردی کے جس خطرے نے امريکہ اور عالمی برادری کو اس نقطہ پر پہنچايا جہاں فوجی کاروائ ہی واحد آپشن تھا، وہ خطرہ آج بھی موجود ہے۔ صدر اوبامہ نے اپنی تقرير ميں اسی نقطے کی وضاحت کی تھی۔

"اگر میں یہ نہ سمجھتا کہ افغانستان میں امریکہ کی سلامتی اور امریکہ کے لوگوں کی حفاظت داؤ پر لگی ہوئی ہے، تو میں بخوشی اپنے ہر فوجی کی کل ہی واپسی کا حکم دے دیتا ۔

میں یہ فیصلہ اس لیئے کر رہا ہوں کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں ہماری سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ یہ صرف امریکہ کی جنگ نہیں ہے ۔ نائن الیون کے بعد سے اب تک، القاعدہ کی محفوظ پناہ گاہیں ، لندن، عمان، اور بالی کے خلاف حملوں کا ذریعہ رہی ہیں۔ افغانستان اور پاکستان، دونوں ملکوں کے عوام اور حکومتیں خطرے میں ہیں۔"

اس کے علاوہ آپ خطے ميں امريکہ کے اتحادی ممالک کے تجزيے اور رائے کو بھی ملحوظ رکھيں۔ پاکستان کے وزير خارجہ سميت بہت سے ماہرين خطے ميں ديرپا امن کو يقينی بنانے کے ليے امريکہ کی افغانستان ميں موجودگی کے حق ميں ہيں۔

http://img227.imageshack.us/img227/2596/clipimage001g.jpg

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
fawad – digital outreach team – us state department

افغانستان اور پاکستان میں پیش قدمی کا راستہ

امریکہ کے کور آف کیڈٹس،ہماری مسلح افواج میں شامل مرد اور عورتیں، اور میرے امریکی ہم وطنو: آج رات میں آپ کو افغانستان میں امریکہ کی کوششوں کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں ۔ وہاں ہم نے جس کام کا بیڑا اٹھایا ہے اس کی نوعیت کیا ہے، وہاں ہمارے مفادات کا دائرہ کیا ہے، اور اس جنگ کو کامیابی سے اختتام تک پہنچانے کے لیئے میری انتظامیہ کیا حکمت عملی اختیار کرے گی۔ یہاں ویسٹ پوائنٹ میں ، جہاں اتنے سارے مردوں اور عورتوں نے ہماری سلامتی کی حفاظت کے لیئے تیاری کی ہے، اور ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین اقدار کی نمائندگی کا بیڑا اٹھایا ہے، ان معاملات پر اظہارِ خیال کرنا میرے لیئے غیر معمولی اعزاز کی بات ہے۔

ان اہم معاملات پر بات کرنے کے لیئے ، یہ یاد کرنا ضروری ہے کہ امریکہ اور ہمارے اتحادی آخر افغانستان میں جنگ لڑنے پر کیوں مجبور ہوئے۔ یہ لڑائی ہمارے کہنے پر شروع نہیں ہوئی۔ 11 ستمبر، 2001 کو، انیس افراد نے چار ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کیا اور انہیں تقریباً 3,000 افراد کو قتل کرنے کے لیئے استعمال کیا۔ انھوں نے ہمارے اہم ترین فوجی اور اقتصادی مراکز پر ضرب لگائی۔ انھوں نے مذہب، نسل یا زندگی میں کسی کے مقام کا لحاظ کیئے بغیر، بے گناہ مردوں ، عورتوں اور بچوں کی جانیں لیں۔ اگر ان میں سے ایک جہاز پر سوار مسافروں نے بے مثال جرأت کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا، تو یہ لوگ ہماری جمہوریت کی ایک عظیم علامت کو نشانہ بنا سکتے تھے اور مزید بہت سے لوگوں کو ہلاک کر سکتے تھے۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ان لوگوں کا تعلق القاعدہ سے تھا ۔۔ یہ انتہا پسندوں کا ایک گروپ ہے جس نے بے گناہ لوگوں کو ذبح کرنے کا جواز پیدا کرنے کے لیئے، دنیا کے ایک عظیم مذہب، اسلام کومسخ کیا ہے اور اس کے تقدس کو پامال کیا ہے ۔القاعدہ کی کارروائیوں کا مرکز افغانستان میں تھا، جہاں طالبان نے انہیں پناہ دی تھی۔ طالبان ایک بے رحم، ظالمانہ اور انتہا پسند تحریک ہے جس نے ایسے وقت میں جب افغانستان برسوں تک سوویت قبضے اور خانہ جنگی سے تباہ ہو چکا تھا، اور جب امریکہ اور ہمارے دوستوں کی توجہ کسی اور طرف ہو گئی تھی، اس ملک پر قبضہ کر لیا۔


اس داخلی اتحاد کے جھنڈے تلے، اور بین الاقوامی طور پر جائز اور قانونی قرار دیے جانے کے بعد، اور طالبان کے اسامہ بن لادن کو ہمارے حوالے کرنے سے انکار کے بعد ہی، ہم نے اپنی فوجیں افغانستان میں بھیجیں۔ چند مہینوں میں ہی، القاعدہ منتشر ہو گئی اور اس کے بہت سے کارندے ہلاک کر دیے گئے۔ طالبان کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا، اور فرار ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ ایک ایسی جگہ جو کئی عشروں سے خوف کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی، اب وہاں امید کی روشنی نظر آنےلگی۔ اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام ایک کانفرنس میں صدر حامد کرزئی کے تحت ایک عبوری حکومت قائم کر دی گئی۔ اورجنگ سے تباہ حال ملک میں پائیدار امن قائم کرنے کے لیئے، ایک انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس قائم ہوئی۔

آج، بہت بھاری قیمت ادا کرنے کے بعد، ہم نے عراق میں پیش رفت کی ایک راہ تلاش کر لی ہے۔ جیسا کہ میں نے اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے اور اس کے بعد وعدہ کیا تھا، ہم عراق کی جنگ کو ذمہ دارانہ انداز سے اختتام تک پہنچا رہے ہیں۔ ہم اپنی جنگی بریگیڈز کو اگلی گرمیوں تک عراق سے ہٹا لیں گے، اور اپنی تمام فوجوں کو 2011 تک واپس لے آئیں گے۔ ہم یہ سب کچھ اپنے با وردی مردوں اور عورتوں کے اعلیٰ کردار کی وجہ سے کر سکے ہیں۔ (تالیاں)۔ ان کی جرأت ، ثابت قدمی اور استقامت کی بدولت، ہم نے عراقیوں کو اپنا مستقبل خود بنانے کا موقع دیا ہے، اور ہم عراق کو کامیابی سے اس کے عوام کے حوالے کرنے کے بعد، وہاں سے رخصت ہو رہے ہیں۔

لیکن اگرچہ ہم نے عراق میں بڑی سختیاں جھیلنے کے بعد شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں، افغانستان میں صورتِ حال مزید خراب ہو گئی ہے ۔ 2001 اور 2002 میں فرار ہونے کے بعد سرحد پار پاکستان میں، القاعدہ کی قیادت نے وہاں ایک محفوظ پناہ گاہ قائم کر لی۔ اگرچہ افغان عوام نے قانونی طور پر ایک جائز حکومت منتخب کی، لیکن کرپشن، منشیات کے کاروبار، پسماندہ معیشت، اور نا کافی سیکورٹی فورسز کی وجہ سے ، وہ اپنا کام نہیں کر سکی ہے۔

گذشتہ کئی برسوں کے دوران، طالبان نے القاعدہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے، اور دہ دونوں افغان حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔ طالبان نے بتدریج افغانستان کے بعض حصوں پر کنٹرول قائم کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان کے لوگوں کے خلاف روز بروز زیادہ دیدہ دلیری سے دہشت گردی کی تباہ کن کارروائیاں کر رہے ہیں۔

اس پورے عرصے کے دوران، افغانستان میں ہماری فوجوں کی سطح، عراق کے مقابلے میں بہت کم رہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب میں نے اپنا عہدہ سنبھالا، اس وقت افغانستان میں صرف 32,000 امریکی فوجی خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس کے مقابلے میں عراق کی جنگ کے عروج کے زمانے میں، وہاں ہمارے فوجیوں کی تعداد 160,000 تھی ۔افغانستان میں طالبان کے ایک بار پھر زور پکڑنے کے بعد کمانڈروں نے ان سے نمٹنے کے لیئے، بار بار مزید وسائل کی درخواست کی۔ لیکن ان کے لیئے کمک نہیں پہنچی۔یہی وجہ ہے کہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے تھوڑے دِن بعد ہی، میں نے مزید فوجیوں کی درخواست ، جو کافی عرصے سے التوا میں پڑی ہوئی تھی، منظور کر لی۔ اپنے اتحادیوں سے مشورے کے بعد، میں نے ا یک حکمت عملی کا اعلان کیا جس میں اس بات کو تسلیم کیا گیا تھا کہ افغانستان میں ہماری جنگی کوششوں، اور پاکستان میں انتہا پسندوں کی پناہ گاہوں کے درمیان بنیادی تعلق ہے ۔ میں نے ایک ہدف مقرر کیا جس کی محدود وضاحت ان الفاظ میں کی گئی تھی کہ ہمارا مقصد القاعدہ اور اس کے انتہا پسند اتحادیوں کو درہم برہم کرنا، اسے منتشر کرنا، اور شکست دینا ہے۔ میں نے امریکہ کی فوجی اور سویلین کارروائیوں کو بہتر طریقے سے مربوط کرنے کا عہد کیا ۔

اس کے بعد سے اب تک، ہم نے بعض اہم مقاصد کے حصول میں پیش رفت کی ہے ۔ القاعدہ اور طالبان کے اعلیٰ سطح کے لیڈر ہلاک کر دیے گئے ہیں، اور ہم نے ساری دنیا میں القاعدہ پر دباؤ بڑھا دیا ہے ۔پاکستان میں ، اس ملک کی فوج نے ، برسوں کے بعد ، اتنی بڑی کارروائی کی ہے۔ افغانستان میں ہم نے اور ہمارے اتحادیوں نے، طالبان کی صدارتی انتخاب کو روکنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا ۔ اگرچہ دھاندلی کی وجہ سے اس انتخاب کی قانونی حیثیت ماند پڑ گئی، لیکن انتخاب سے جو حکومت بنی ہے ، وہ افغانستان کے قوانین اور آئین کے مطابق ہے ۔

پھر بھی بہت سے چیلنج باقی ہیں۔ افغانستان کو ہم نے کھویا نہیں ہے، لیکن کئی برسوں سے وہ پیچھے کی طرف جا رہا ہے ۔ حکومت کا تختہ الٹے جانے کا کوئی فوری خطرہ نہیں ہے، لیکن طالبان نے زور پکڑ لیا ہے ۔ اگرچہ القاعدہ اتنی بڑی تعداد میں دوبارہ سامنے نہیں آئی ہے جتنی نائن الیون سے پہلے تھی، لیکن سرحد کے ساتھ ساتھ ان کی محفوظ پناہ گاہیں باقی ہیں۔ اور ہماری فورسز کے پاس مطلوبہ وسائل نہیں ہیں جن کے ذریعے وہ موئثر طریقے سے افغان سیکورٹی فورسز کو تربیت دے سکیں اور ان کے ساتھ شراکت داری قائم کر سکیں، اور آبادی کی بہتر طور سے حفاظت کرسکیں۔ افغانستان میں ہمارے نئے کمانڈر، جنرل مک کرسٹل نے بتایا ہے کہ سیکورٹی کی صورت حال ان کی توقع سے زیادہ خراب ہے ۔ حالات کو جوں کا توں نہیں رکھا جا سکتا۔

کیڈٹس کی حیثیت سے آپ نے اس خطرناک وقت میں اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کی ہیں۔ آپ میں سے بعض لوگ افغانستان میں لڑ چکے ہیں۔ بعض کی تعیناتی وہاں ہونی ہے ۔ آپ کے کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے، یہ میری ذمہ داری ہے کہ آ پ کو ایک واضح مشن دوں جو آپ کی خدمات کے شایانِ شان ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب افغانستان میں ووٹنگ مکمل ہو گئی، تو میں نے اصرار کیا کہ ہمیں اپنی حکمت عملی کا مکمل جائزہ لینا چاہیئے۔ اب میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں: میرے سامنے ایسی کوئی تجویز نہیں تھی جس کے تحت 2010 سے پہلے فوجوں کی تعیناتی ہونی تھی۔ چنانچہ جائزے کی اس مدت کے دوران، جنگ کے لیئے مطلوبہ وسائل کی فراہمی میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی ہے اور نہ ان کی فراہمی سے انکار کیا گیا ہے ۔بلکہ جائزے کے ذریعے مجھے بعض مشکل سوالات پوچھنے کا موقع ملا ہے، اور ہماری نیشنل سیکورٹی ٹیم، اور افغانستان میں ہماری فوجی اور سویلین قیادت اور اہم شراکت داروں کے ساتھ مل کر تمام متبادل راستوں کی چھان بین کا موقع ملا ہے ۔ اس معاملے میں جتنا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے، اس کی روشنی میں ، امریکی عوام اور ہمارے فوجیوں کو مجھ سے اس سے کم کسی چیز کی توقع نہیں کرنی چاہیئے۔

اب یہ جائزہ مکمل ہو چکا ہے۔ اور کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے، میں نے یہ تعین کیا ہے کہ 30,000 مزید امریکی فوجی افغانستان بھیجنا ہمارے قومی مفاد کے لیئے اہم ہے۔18 مہینوں کے بعد، ہماری فوجیں گھر واپس آنا شروع ہو جائیں گی ۔ حالات پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیئے، ہمیں ان وسائل کی ضرورت ہے۔ اس دوران ہم افغانستان کی اپنی صلاحیتوں کی تعمیر کریں گے تا کہ ہماری اپنی فوجیں افغانستان سے ذمہ دارانہ انداز میں نکل آئیں۔

میرے لیئے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا۔ میں نے عراق میں جنگ کی مخالفت ٹھیک اسی لیئے کی تھی کیوں میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں فوجی طاقت کے استعمال میں احتیاط سے کام لینا چاہیئے اور ہمیشہ یہ سوچنا چاہیئے کہ ہمارے افعال کے طویل المدت نتائج کیا ہوں گے۔ ہمیں جنگ لڑتے ہوئے اب آٹھ برس ہو چکے ہیں، اور ہمیں انسانی زندگی اور وسائل کی شکل میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے ۔ عراق کی جنگ اور دہشت گردی کے بارے میں برسوں سے جاری بحث نے قومی سلامتی کے بارے میں ہمارے اتحادکو پارہ پارہ کر دیا ہے اور اس کوشش کے لیئے انتہائی جانبدارانہ اور اختلافی ماحول پیدا کر دیا ہے ۔اور ہمیں عظیم کساد بازاری کے بعد پہلی بار جس بد ترین اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امریکی عوام کی توجہ ہماری اپنی معیشت کی تعمیرِ نو پر، اور ملک میں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے پر ہے ۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ یہ فیصلہ آپ سے مزید قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے۔۔ایسی فوج سے جس نے آپ کے گھرانوں سمیت پہلے ہی سب سے زیادہ بوجھ برداشت کیا ہے ۔۔ صدر کی حیثیت سے ، میں نے ہر ایسے امریکی کے گھرانے کے نام جس نے ان جنگوں میں اپنی زندگی کا نذرانہ دیا ہے، تعزیت کے خط پر دستخط کیئے ہیں۔ میں نے جنگوں پر بھیجنے جانے والے افراد کے والدین اور شریکِ زندگی کے خط پڑھے ہیں۔ میں والٹر ریڈ جا کر اپنے زخمی ہونے والے بہادر سپاہیوں سے مِلا ہوں ۔میں نے dover کا سفر کیا ہے اور میں امریکی پرچم میں لپٹے ہوئے ان 18 امریکیوں کے تابوتوں کی آمد کے وقت موجود تھا جو اپنی آخری آرامگاہ پر جانے کے لیئے واپس آئے تھے۔میں نے اپنی آنکھوں سے جنگ کے ہولناک اثرات دیکھے ہیں۔ اگر میں یہ نہ سمجھتا کہ افغانستان میں امریکہ کی سلامتی اور امریکہ کے لوگوں کی حفاظت داؤ پر لگی ہوئی ہے، تو میں بخوشی اپنے ہر فوجی کی کل ہی واپسی کا حکم دے دیتا ۔

تو پھر میرے لیئے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا۔ میں یہ فیصلہ اس لیئے کر رہا ہوں کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں ہماری سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے ۔ القاعدہ جس متشدد انتہاپسندی پر عمل کرتی ہے، یہ علاقہ اس کا مرکز ہے ۔ ہم پر نائن الیون کا حملہ یہیں سے ہوا تھا، اور یہی وہ جگہ ہے جہاں سے اس وقت جب میں تقریر کر رہا ہوں، نئے حملوں کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ یہ کوئی خالی خولی خطرہ نہیں ہے، کوئی فرضی دھمکی نہیں ہے۔ صرف گذشتہ چند مہینوں میں ہی، ہم نے اپنی سرحدوں کے اندر ایسے انتہا پسندوں کو پکڑا ہے جنہیں یہاں دہشت گردی کی نئی کارروائیوں کے لیئے ، افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں سے بھیجا گیا تھا۔ اور یہ خطرہ بڑھتا ہی جائے گا اگر اس علاقے میں حالات کو مزید خراب ہونے دیا جاتا ہے اور القاعدہ دیدہ دلیری سے اپنی کارروائیاں کر سکتی ہے ۔ ہمیں القاعدہ پر دباؤ قائم رکھنا چاہیئے، اور ایسا کرنے کے لیئے، ہمیں علاقے میں اپنے شراکت داروں کے استحکام اور ان کی صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہیئے۔

یہ صحیح ہے کہ ہم اکیلے یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ صرف امریکہ کی جنگ نہیں ہے ۔ نائن الیون کے بعد سے اب تک، القاعدہ کی محفوظ پناہ گاہیں ، لندن، عمان، اور بالی کے خلاف حملوں کا ذریعہ رہی ہیں۔ افغانستان اور پاکستان، دونوں ملکوں کے عوام اور حکومتیں خطرے میں ہیں۔ نیوکلیئر اسلحہ سے لیس پاکستان میں، خطرات اور بھی زیادہ ہیں کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ القاعدہ اور دوسرے انتہا پسند نیوکلیئر ہتھیار حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور ہمارے پاس یہ سمجھنے کی وجوہ موجود ہیں کہ وہ انہیں ضرور استعمال کریں گے ۔

اِن حقائق کی روشنی میں، ہم اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ مِل کر کارروائی کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارا اولین اور بنیادی مقصد اب بھی وہی ہے: افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ کو درہم برہم کرنا، منتشر کرنا اور شکست دینا، مستقبل میں امریکہ اور ہمارے اتحادیوں کو دھمکی دینے کے صلاحیت حاصل کرنے سے روکنا۔

اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیئے، ہم افغانستان میں مندرجہ ذیل مقاصد کے حصول کی کوشش کریں گے۔ ہمیں القاعدہ کو محفوظ پناہ گاہ سے محروم کرنا چاہیئے ۔ہمیں طالبان کا زور توڑنا چاہیئے، اور انہیں حکومت کا تختہ الٹنے کی صلاحیت سے محروم کر دینا چاہیئے۔ اور ہمیں افغانستان کی سیکورٹی فورسز اور حکومت کی صلاحیت کو مضبوط بنانا چاہئیے تا کہ وہ افغانستان کے مستقبل کی ذمہ داری قبول کرنے میں پہل کر سکیں۔

ہم یہ مقاصد تین طریقوں سے حاصل کریں گے۔ اول یہ کہ ہم ایسی فوجی حکمت عملی پر عمل کریں گے جس سے طالبان کا زور ٹوٹ جائے گا اور اگلے 18مہینوں میں افغانستان کی صلاحیت میں اضافہ ہو جائے گا۔

میں جن 30,000 مزید فوجیوں کا اعلان کر رہا ہوں، وہ 2010 کے پہلے حصے میں تعینات کر دیے جائیں گے۔ یہ رفتار سب سے زیادہ ہے ، تا کہ وہ بغاوت کو نشانہ بنا سکیں اور آبادی کے اہم مراکز کو محفوظ کر سکیں۔ وہ افغان سیکیورٹی فورسز کو تربیت دینے کی ہماری صلاحیت کو بہتر بنائیں گے اور ان کے ساتھ شراکت داری قائم کریں گے تا کہ اور زیادہ افغان لڑائی میں شامل ہو سکیں۔ اور وہ ایسے حالات پیدا کرنے میں مدد دیں گے جن میں امریکہ یہ ذمہ داری افغانوں کو منتقل کر دے ۔

چونکہ یہ بین الاقوامی کوشش ہے، اس لیئے میں نے کہا ہے کہ ہماری ذمہ داری میں ہمارے اتحادی بھی شرکت کریں۔ بعض نے پہلے ہی مزید فوجی فراہم کر دیے ہیں، اور مجھے اعتماد ہے کہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں مزید مدد فراہم کی جائے گی۔ ہمارے دوستوں نے افغانستان میں ہمارے ساتھ مِل کر جنگ کی ہے، اپنا خون بہایا ہے اور اپنی جانیں دی ہیں۔ اب ہمیں اس جنگ کو کامیابی سے ختم کرنے کے لیئے اکٹھے ہونا چاہیئے۔ کیوں اب جو داؤں پر لگا ہوا ہے، وہ صرف نیٹو کی ساکھ اور اس کا اعتبار ہی نہیں ہے، بلکہ اب ہمارے اتحادیوں کی سیکورٹی، اور دنیا کی مشترکہ سیکورٹی داؤ پر لگی ہوئی ہے ۔

لیکن اگر ملا کر دیکھا جائے، تو یہ اضافی امریکی اور بین الاقوامی فوجی یہ ممکن کر دیں گے کہ ہم زیادہ تیزی سے ذمہ داری افغان فورسز کو منتقل کر دیں، اور 2011 میں جولائی کے مہینے سے اپنی فوجوں کو افغانستان سے نکالنے کا عمل شروع کر دیں۔ جیسا کہ ہم نے عراق میں کیا ہے، ہم تبدیلی کا یہ عمل ذمہ داری کے ساتھ شروع کریں گے اور زمینی حقائق کو سامنے رکھیں گے۔ ہم افغانستان کی سیکورٹی فورسز کو مشورہ اور مدد دینے کا عمل جاری رکھیں گے تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ طویل مدت میں کامیاب ہو سکیں۔لیکن افغان حکومت پر واضح ہو جائے گا ۔۔اور اس سے بھی اہم یہ بات ہے کہ افغانستان کے لوگوں کو پتہ چل جائےگا ، کہ بالآخر اپنے ملک کی ذمہ داری خود انہیں کو اٹھانی ہو گی۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہم اپنے شراکت داروں ، اقوامِ متحدہ، اور افغان عوام کے ساتھ مِل کر ، زیادہ موئثر سویلین حکمت عملی اختیار کریں گے تا کہ حکومت بہتر سیکورٹی کا فائدہ اٹھا سکے۔
اس کوشش کی بنیاد کارکردگی پر ہو گی۔ سادہ چیک دینے کے دِن ختم ہو چکے ہیں۔ صدر کرزئی کی صدارت کی افتتاحی تقریر نے ایک نئی سمت میں سفر کرنے کا صحیح پیغام دیا۔اور آگے کی طرف بڑھتے ہوئے، ہم یہ بات واضح کر دیں گے کہ جو لوگ ہم سے مدد لیتے ہیں، ان سے ہم کِن چیزوں کی توقع کرتے ہیں۔ ہم افغان وزارتوں، گورنروں، اور مقامی لیڈروں کی حمایت کریں گے جو بد عنوانیوں کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور عوام کے مفاد میں کام کرتے ہیں۔ ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ جو لوگ غیر موئثر یا بد عنوان ہیں، ان کی جوابدہی کی جائے ۔ اور ہم اپنی امداد ایسے شعبوں میں دینے پر توجہ دیں گے ، جیسے زراعت، جن سے افغان عوا م کی زندگیوں پر فوری اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

افغانستان کے لوگ کئی عشروں سے تشدد کے سایے تلے رہ رہے ہیں۔ انہیں اپنے ملک پر قبضے کی اذیت برداشت کرنی پڑی ہے، پہلے سوویت یونین نے قبضہ کیا، اور پھر القاعدہ کے غیر ملکی جنگجوؤں نے، جنھوں نے افغان سرزمین اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کی ۔ چنانچہ، آج کی شب میں افغان عوام کو ایک بات سمجھانا چاہتا ہوں۔۔امریکہ جنگ اور اذیتوں کے اس عہد کے خاتمے کا خواہشمند ہے ۔ہمیں آپ کے ملک پر قبضہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہم افغان حکومت کی ان کوششوں کی حمایت کریں گے کہ ان طالبان کے لیئے دروازہ کھول دیا جائے جو تشدد کو ترک کرنے اور اپنے ہم وطن شہریوں کے حقوق کا احترام کرنے پر تیار ہوں۔ اور ہم افغانستان کے ساتھ ایسی شراکت داری قائم کرنا چاہیں گے جس کی بنیاد باہم احترام پر ہو۔۔ان لوگوں کو الگ تھلگ کر دیا جائے جو تباہی پھیلاتے ہیں؛ ان لوگوں کو مضبوط بنایا جائے جو تعمیر کرتے ہیں؛ اس دِن کو قریب لایا جائے جب ہماری فوجیں افغانستان کو چھوڑ دیں گی؛ اور ایسی پائیدار دوستی قائم کی جائے جس میں امریکہ آپ کا شراکت دار ہو، اور کبھی آپ کا سرپرست نہ بنے ۔

تیسری بات یہ ہے کہ ہم اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے کارروائی کریں گے کہ افغانستان میں ہماری کامیابی اور پاکستان کے ساتھ ہماری شراکت داری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

ہم افغانستان میں اس لیئے موجود ہیں تا کہ ہم ایک کینسر کو ایک بار پھر ملک میں پھیلنے سے روکیں۔ لیکن اسی کینسر نے پاکستان کے سرحدی علاقے میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو سرحد کے دونوں جانب کام کر سکے۔

ماضی میں، پاکستان میں کچھ لوگ یہ دلیل دیتے رہے ہیں کہ انتہا پسندی کے خلاف جنگ سے انہیں کوئی مطلب نہیں ہے، اور پاکستان کے لیئے بہتر یہی ہے کہ وہ اس بارے میں لاتعلق رہے یا ان لوگوں کے ساتھ تصفیہ کر لے جو تشدد استعمال کرتے ہیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں، جب کراچی سے اسلام آباد تک بے گناہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں، یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ انتہا پسندی سے سب سے زیادہ خطرہ پاکستان کے لوگوں کو ہے ۔ عوام کی رائے تبدیل ہو چکی ہے ۔ پاکستان کی فوج نے سوات میں، اور جنوبی وزیرستان میں جنگی کارروائی کی ہے ۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور پاکستان دونوں کو ایک مشترک دشمن کا سامنا ہے ۔

ماضی میں ہم نے اکثر پاکستان کے ساتھ اپنے تعلق کو ایک تنگ زاویے سے دیکھا ہے ۔ وہ دِن ختم ہو چکے ہیں۔ آگے کی طرف بڑھتے ہوئے، ہم نے پاکستان کے ساتھ ایسی شراکت داری کا عہد کیا ہے جس کی بنیاد ایک دوسرے کے مفاد، باہم احترام اور باہم اعتماد پر قائم ہے ۔ ہم ان گروپوں کو نشانہ بنانے کے لیئے جن سے ہمارے ملکوں کو خطرہ ہے، پاکستان کی صلاحیت کو مضبوط بنائیں گے، اور ہم نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ ہم ایسے دہشت گردوں کے لیئے محفوظ پناہ گاہ برداشت نہیں کر سکتے، جن کے بارے میں ہمیں علم ہے کہ وہ کہاں موجود ہیں، اور جن کی عزائم واضح ہیں ۔ پاکستان کی جمہوریت اور اقتصادی ترقی کے لیئے بھی امریکہ بھاری وسائل فراہم کر رہا ہے ۔ لڑائی کی وجہ سے جو پاکستانی بے گھر ہوئے ہیں، ان کی مدد کرنے والوں میں ہمارا حصہ سب سے زیادہ ہے ۔ اور آگے کی طرف دیکھتے ہوئے، پاکستان کے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ لڑائی ختم ہونے کے کافی عرصے بعد بھی، امریکہ پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کا زبردست حامی رہے گا، تا کہ پاکستان کے لوگوں کی اعلیٰ صلاحیتیں بروئے کار لائی جا سکیں۔

ہماری حکمت عملی کے تین بنیادی عناصر یہ ہیں: تبدیلی کے لیئے ساز گار حالات پیدا کرنے کی غرض سے فوجی کوشش؛ سویلین امداد میں اضافہ جس سے مثبت اقدام کو مضبوط بنایا جا سکے؛ اور پاکستان کے ساتھ موئثر شراکت داری۔

مجھے احساس ہے کہ ہم نے جو طریقہ اپنایا ہے اس کے بارے میں مختلف قسم کی تشویش موجود ہے۔ میں مختصراً ان چند زیادہ نمایاں دلائل کے بارے میں بات کروں گا جو میں نے سنے ہیں اور جنہیں میں بہت سنجیدگی سے لیتا ہوں۔

اول تو وہ لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ افغانستان ہمارے لیئے ایک اور ویتنام ثابت ہوگا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اسے مستحکم نہیں کیا جا سکتا، اور بہتر یہ ہوگا کہ ہم وہاں سے تیزی سے نکل آئیں اور اپنے نقصانات کم کر لیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دلیل تاریخ کے غلط مطالعے پر مبنی ہے ۔ ویتنام کے بر عکس، افغانستان میں 43 ملک ہمارے اقدام کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ ویتنام کے بر عکس، ہمیں وسیع البنیاد عوامی بغاوت کا سامنا نہیں ہے ۔ اور اہم ترین بات یہ ہے کہ ویتنام کے برعکس، افغانستان سے امریکی عوام پر شر انگیز حملہ کیا گیا تھا، اور وہ اب بھی ان انتہا پسندوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں جو افغانستان کی سرحدوں کے قریب سے امریکہ کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ اس علاقے کو اس وقت چھوڑ دینے ، اور القاعدہ کے خلاف اپنی کوششیں دور فاصلے سے جاری رکھنے سے، القاعدہ کے خلاف دباؤ ڈالنے کی ہماری صلاحیت بری طرح متاثر ہو گی ، اور ہماری سرزمین اور ہمارے اتحادیوں پر مزید حملوں کا خطرہ نا قابلِ قبول حد تک بڑھ جائے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم افغانستان کو اس کی موجودہ صورت حال میں چھوڑ کر یہاں سے نہیں جاسکتے، لیکن ان کا خیا ل ہے کہ ہم انہی فوجیوں کے ساتھ، جو ہمارے پاس پہلے سے ہیں ،اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ لیکن اس سے صورت حال ویسی کی ویسی ہی رہے گی جیسی کہ اس وقت تھی جب ہم نے یہاں مداخلت کی تھی، اور جس کے نتیجے میں یہاں کے حالات بتدریج بگڑتے چلے جائیں گے۔ اور اس طرح بالآخر افغانستان میں ہمارا قیام مزید مہنگا اور طویل تر ثابت ہوگا، کیونکہ ہم کبھی بھی ایسے حالات پیدا نہیں کرسکیں گے جو افغان سیکیورٹی فورسز کی تربیت اور انہیں اپنی ذمہ داریاں خود سنبھالنے کے لیے درکار ہیں ۔

آخری بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو افغانستان کو ذمہ داریوں کی منتقلی کے لیے کسی نظام الاوقات کے تعین کے مخالف ہیں۔ درحقیقت ، کچھ تو ہماری جنگی کوشش میں ایک زیادہ ڈرامائی اور بے محابہ اضافہ چاہتے ہیں۔۔ جو ہمیں ایک عشرے تک ایک قومی تعمیر کے پراجیکٹ سے وابستہ رکھے گا۔ میں اس طریقے کو مسترد کرتا ہوں کیونکہ یہ ایسے اہداف متعین کرتا ہے جنہیں معقول اخراجات کے ساتھ حاصل کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ اور نہ ہی انہیں حاصل کرنا ہمارے مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ ذمہ داریوں کی منتقلی کے لیے کسی لائحہ عمل کے نہ ہونے سے اس احساس کی نفی ہوگی کہ ہمیں افغان حکومت کے ساتھ اپنا کام تیزی سے مکمل کرنا ہے۔یہ واضح ہونا چاہیے کہ افغانوں کو اپنی سیکیورٹی کی ذمہ داری خود سنبھالنا ہوگی اور یہ کہ امریکہ کو افغانستان میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ لڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

صد ر کی حیثیت سے میں ایسے مقاصد متعین کرنے سے انکار کرتا ہوں جو ہماری ذمہ داری ، ہمارے وسائل یا ہمارے مفادات سے بالاتر ہوں ۔ مجھے ان تمام چیلنجوں کو اہمیت دینا ہو گی جو ہماری قوم کو درپیش ہیں ۔ اور میں کسی ایک ہی چیلنج پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ صدر آئزن ہاور کے یہ الفاظ میرے ذہن میں رہتے ہیں جنہوں نے ۔۔ہماری قومی سلامتی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا ،ہر تجویزپر ایک وسیع تر تناظر میں غور کیا جانا چاہیے ،یعنی قومی پروگرامو ں میں اور ان کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

پچھلے کئی برسوں میں ہم اس توازن کو کھو چکے ہیں ۔ ہم اپنی قومی سلامتی اور اپنی معیشت کے درمیان تعلق کی اہمیت سمجھنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اقتصادی بحران کی زد میں آ کر ، ہمارے بہت سے پڑوسی اور دوست روزگار کھو چکے ہیں اور وہ اپنے بلوں کی ادائیگی کے لیے جدو جہد میں مصروف ہیں ۔ بہت سے امریکی اپنے بچوں کے سامنے موجود مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں ۔اسی دوران ، عالمی معیشت میں مسابقت بے تحاشہ بڑھ گئی ہے۔اس لیے ہم ان جنگوں پر اٹھنے والے اخراجات کو آسانی سے نظر انداز نہیں کر سکتے۔

بہر طور ، جب میں نے اپنا منصب سنبھالا تو عراق اور افغانستان کی جنگوں میں اٹھنے والے اخراجات ایک کھرب ڈالر تک پہنچ چکے تھے ۔ اب آگے بڑھتے ہوئے ، میں ان اخراجات سے کھلے طور پر اور دیانتداری کے ساتھ نمٹنے کا عزم رکھتا ہوں ۔ افغانستان میں ہمارے نئے لائحہ عمل سے امکان ہے اس سال فوج پر ہمارے لگ بھگ 30 ارب ڈالر خرچ ہوں گے ، او رمیں کانگریس کے ساتھ اس وقت ان اخراجات سے نمٹنے کےلیے قریبی طور پر کام کروں گا جب ہم اپنے خسارے کو کم کرنے پر غور و فکر کریں گے ۔

لیکن اب جب ہم عراق میں جنگ ختم کر رہے ہیں اور افغانستان میں ذمہ داری سنبھال رہے ہیں ، ہمیں یہاں اپنے ملک کو پھر سے مضبوط بنانا ہو گا ۔ ہماری خوشحالی ہماری طاقت کی بنیاد ہے۔ اس کی بدولت ہم اپنی فوج کے اخراجات اٹھاتے ہیں ۔ یہ ہماری سفارت کاری کی ضامن ہے ۔ یہ ہمارے لوگوں کی صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے اور اس کی بدولت نئی نئی صنعتوںمیں سرمایہ کاری ممکن ہوتی ہے ۔ اور اسی کی مدد سے ہم اس صدی میں اتنی کامیابی سے مسابقت کر سکیں گے جتنی کہ ہم نے گزشتہ صدی میں کی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں فوجیوں کے لیے ہماری وابستگی غیر محدود پیمانے کی نہیں ہو سکتی ۔۔۔کیوں کہ میں جس ملک کی تعمیر میں سب سے زیادہ دلچسپی رکھتا ہوں وہ ہمارا اپنا ملک ہے ۔

میں یہ بات صاف صاف کہنا چاہتا ہوں کہ ان میں سے کوئی بھی کام آسان نہیں ہو گا۔ متشدد انتہا پسندوں کے خلاف جدو جہد جلد ختم نہیں ہو گی، اور یہ افغانستان اور پاکستان سے کہیں آگے تک جاتی ہے ۔یہ ہمارے آزاد معاشرے اور دنیا میں ہماری قیادت کا ایک صبر آزما امتحان ہو گا۔ اور بڑی طاقتوں کے تنازعوں اور تقسیم کی ان واضح لائنوں کے برعکس جو بیسویں صدی کاخاصہ تھے ، ہماری جدو جہد کا دائرہ انتشار زدہ خطوں ، ناکام ریاستوں اور بکھرے ہوئے دشمنوں پر محیط ہو گا۔

اس لیے نتیجتاً امریکہ کو اپنی طاقت کا مظاہرہ اس انداز میں کرنا ہو گا کہ ہم جنگیں ختم کریں اور تنازعوں کا سد باب کریں ۔۔۔ نہ کہ صرف اس طرح کہ ہم کس طرح جنگیں کرتے ہیں۔ہمیں اپنی فوجی طاقت کا استعمال درستگی کے ساتھ اور بھر پور طریقے سے کرنا ہو گا ۔ القاعدہ اور اس کے اتحادی جہاں کہیں اپنے قدم جمانے کی کوشش کریں ۔۔۔چاہے وہ صومالیہ ہو یا یمن یا کوئی اور جگہ ۔۔۔ ان کا مقابلہ مزید دباؤ اور مضبوط شراکت داری کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔

اور اب ہم صرف فوجی قوت پر انحصار نہیں کرسکتے ۔ ہمیں اپنے وطن کی سلامتی پربھی سرمایہ کاری کرنا ہوگی کیوں کہ ہم سمندر پار ہر متشد د انتہاپسند کو پکڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ہلاک کرسکتے ہیں۔ہمیں اپنی انٹیلی جینس کوبھی بہتر اور زیادہ مربوط بنانا ہوگا تاکہ ہم پوشیدہ نیٹ ورکس سے ایک قدم آگے رہ سکیں۔
ہمیں وسیع تباہی کے ہتھیاروں کو ختم کرنا ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ میں نے قدرے آسانی سے دستیاب ہونے والے جوہری مواد کو دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے سے بچانے، جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤکوروکنے اوردنیا کو جوہری ہتھیاروں سے محفوظ بنانے کو اپنی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون بنایا ہے۔ ۔۔ کیونکہ ہر قوم کو یہ سمجھنا چاہے کہ صحیح معنوں میں سیکیورٹی پہلے سے کہیں زیادہ تباہ کن ہتھیاروں کی نہ ختم ہونے والی دوڑ سے کبھی حاصل نہیں ہوگی بلکہ حقیقی سیکیورٹی ان لوگوں کا مقدر بنے گی جو انہیں مسترد کریں گے۔

ہمیں سفارت کاری سے کام لینا ہوگا کیونکہ کوئی ایک واحد قوم ایک باہم مربوط دنیا کے چیلنجوں کا مقابلہ تن تنہا نہیں کرسکتی۔ میں نے یہ سال اپنے اتحادوں کی تجدید اور نئی شراکت داریاں قائم کرنے میں گذرا ہے۔ اور ہم نے امریکہ اور مسلم دنیا کے درمیان ایک نئی شروعات کی ہے۔ جس میں تنازعوں کا ایک سلسلہ ختم کرنے کے لیے باہمی دلچسپی کو پیش نظر رکھا گیا ہےاور جو ایسے مستقبل کی ضمانت دیتی ہے جس میں بے گناہوں کا خون بہانے والوںکو امن، خوشحالی اور انسانی وقار کے لیے ڈٹ جانے والے الگ تھلگ کردیں ۔

اور آخری بات یہ کہ ہمیں اپنی اقدار سے تقویت حاصل کرنی چاہیے۔۔۔ کیونکہ ہمیں جن چیلنجوں کا سامنا ہے، وہ بدل سکتے ہیں لیکن ہمارے عقائد نہیں بدلتے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے ملک میں ان اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے انہیں فرو غ دینا چاہیے۔۔۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں نے اذیت رسانی پر پابندی لگا دی ہے اور میں گوانتاناموبے کا قیدخانہ بند کردوں گا۔ اور ہمیں دنیا بھر کے ہر مرد، عورت اور بچےپر، جو ظلم و استبداد کی تاریکیوں میں زندگی گزار رہاہے ، یہ واضح کردینا چاہیے کہ امریکہ ان کے انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھائے گا اور وہ تمام لوگوں کے لیے آزادی، انصاف، مواقع اور وقار کے احترام کے لیے کام کرے گا۔ ہم اصل میں یہ ہیں۔ اور امریکہ کی حاکمیت کا یہی منبع ہے ، اخلاقی منبع۔

فرینک لین روز ویلٹ کے زمانے سے، ہمارے آباؤ اجداد کی خدمات اور قربانیوں کے ذریعے ہمارے ملک نے عالمی معاملات کا ایک خصوصی بوجھ برداشت کیا ہے۔ کئی براعظموں کے کئی ملکوں میں امریکیوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ہم نے دوسرے ملکوں میں ملبوں کے ڈھیروں کی تعمیر نواور ان کی معیشتوں کی ترقی میں مدد کے لیے اپنے ٹیکسوں کی آمدنی صرف کی ہے۔ ہم نے دیگر اقوام کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ سے لے کر نیٹو اورعالمی بینک تک، اداروں کا ایک ایسا نظام قائم کیا ہے جو نوع انسانی کی مشترکہ سیکیورٹی اور خوش حالی میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

ہم نے جو یہ کوششیں کی ہیں، ایسا نہیں ہوا کہ ہمیشہ ہی ان کے لیئے ہمارا شکریہ ادا کیا گیا ہو، اور ہم سے کبھی کبھی غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔لیکن کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں، امریکہ نے چھہ عشروں سے زیادہ عرصے تک دنیا کی سلامتی کی ضمانت دی ہے۔ یہ وہ دور ہے جس میں تمامتر مسائل کے باوجود، دنیا نے دیواریں گرتی دیکھی ہیں، منڈیاں کھلی ہیں، اربوں لوگ غربت کے چنگل سے نکلے ہیں، بے مثال سائنسی ترقی ہوئی ہے، اور انسانی آزادی کی سرحدیں وسیع ہوئی ہیں،

ماضی کی بڑی طاقتوں کے برعکس ، ہم نے دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ ہماری یونین استبداد کی مزاحمت پر قائم ہوئی تھی ۔ ہم دوسرے ملکوں پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے ۔ ہم کسی دوسرے ملک کے وسائل پر اپنا حق نہیں جتائیں گے ، ہم دوسرے لوگوں کو اس لیے نشانہ نہیٕں بنائیں گے کہ وہ ہم سے مختلف عقائد یا نسل کے لوگ ہیں ۔ ہم جس چیز کےلیے لڑ چکے ہیں ۔۔ ہم جس چیز کے لیے لڑتے رہیں گے ۔۔ وہ ہے ہمارے بچوں کا بہتر مستقبل۔ اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ان کی زندگیاں صرف اس صورت میں بہتر ہوں گی اگر دوسرے لوگوں کے بچے اور ان بچوں کی اولادیں آزادی کے ساتھ رہ سکیں اور انہیں مواقع فراہم ہو سکیں ۔

ایک ملک کے طور پر ، ہم اتنے جوان نہیں ہیں اور شاید اتنے معصوم نہیں ہیں جتنے ہم اس وقت تھے جب روزویلٹ صدر تھے ۔ تاہم پھر بھی ہم آزادی کے لیے ایک اعلیٰ جدو جہد کے امین ہیں۔ اور اب ہمیں ایک نئے دور کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور اخلاقی اقدار کو بروئے کار لانا ہو گا ۔

آخری بات یہ کہ ہماری سیکیورٹی اور قیادت کا ماخذ صرف ہمارا اسلحہ نہیں ہے۔۔ ۔ اس کا ماخذ ہمارے لوگ ہیں۔۔۔ وہ کارکن اور تاجر جو ہماری معیشت کی تعمیر نو کریں گے;وہ کاروباری لوگ اور محقق جو نئی صنعتیں لگائیں گے ; وہ اساتذہ جو ہمارے بچوں کو تعلیم دیں گے ; اور وہ محنت کش جو ہمارے ملک کی کمیونٹیز میں کام کرتے ہیں ; وہ سفارت کار اور پیس کورز کے رضاکار جو دنیا بھر میں امید پھیلاتے ہیں ; اور یونیفارم میں ملبوس وہ مرد اور خواتین جو قربانیوں کے اس نہ ٹوٹنے والے سلسلے کا ایک حصہ ہیں جس کے باعث ا س کرہ ارض پر لوگوں کے لیے، لوگوں کی حکومت لوگوں کے ذریعے ایک حقیقت بنی ۔

گوناگو ں نسلوں ،عقائد اور ملکوں کے لوگوں پر مشتمل یہ متنوع اور عظیم قوم ہر مسئلے پر ہمیشہ متفق نہیں ہو گی ۔۔ نہ ہی اسے ہونا چاہیے۔ لیکن میں یہ بھی جانتاہوں کہ ،ایک ملک کے طور پر ہم اپنی قیادت اس وقت تک برقرار نہیں رکھ سکتے اور اپنے دور کے ان اہم چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے جب تک ہم خود کو اس عداوت اور بد اعتمادی اور تعصب سے الگ نہیں کر لیتے جس نے حالیہ عرصے میں ہمارے قومی بحث مباحثے کو تلخی سے بھر دیا تھا ۔

یہ فراموش کرنا آسان ہے کہ جب یہ جنگ شروع ہوئی تو ہم متحد تھے ۔۔۔ ایک ہولناک حملے کی تازہ یاد نے، اور اپنی سر زمین اور اپنی عزیز اقدار کے دفاع کے عزم نے ہم سب کو ایک کر دیا تھا۔میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ ہمارے درمیان وہ ہم آہنگی دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتی۔ مجھے روح کی گہرائیوں سے یقین ہے کہ ہم ۔۔۔امریکی ہونے کے ناطے ۔۔۔ اب بھی کسی مشترکہ مقصد کے حصول کے لیےمتحد ہو سکتے ہیں ۔کیوں کہ ہماری اقدارصرف کاغذ پر تحریر سادہ الفاظ نہیں ہیں۔۔۔ وہ عقائد کا ایک مجموعہ ہیں جو ہم سب کو ایک بندھن میں پروتا ہے اور جس نے ہمیں ہماری تاریخ کے سیاہ ترین ادوار میں بھی ایک ملک اور ایک قوم کی حیثیت سے متحد رکھا ہے
امریکہ ۔۔۔ ہم ایک بڑے آزمائشی دور سے گزر رہے ہیں۔ اور ان طوفانوں کے درمیان سے ہم یہ واضح پیغام بھیج رہے ہیں کہ ہمارا نصب العین انصاف ہے ، ہماراعزم غیر متزلزل ہے ۔ ہم اس اعتماد کے ساتھ کہ جیت ہمیشہ حق کی ہوتی ہے اور اس عہد کے ساتھ آگے بڑھیں گے کہ ہم ایک ایسا امریکہ تعمیر کریں گے جو پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گا ، ایک ایسی دنیاتعمیر کریں گے جو پہلے سے زیادہ مستحکم ہو گی اور ایک ایسا مستقبل تشکیل دیں گے جہاں خوف کی اتھاہ گہرائیاں نہیں بلکہ امید کی روشن کرنیں ہر سو اجالا بکھیریں گی ۔

شکریہ ۔خدا آپ کا حامی و ناصر ہو ۔خدا ریاستہائے متحدہ امریکہ کو اپنی برکتوں سے نوازے ۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

جیو اور جینے دو بھائی میرےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے۔ اس خطاب کی کئی باتیں مجھے اچھی لگیں لیکن جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو شاید وہ ڈھکے چھپے لفظوں میں باندی سے منکوحہ کے درجے میں لائی جا رہی ہے کیونکہ باندی آنکھیں دکھا سکتی ہے منکوحہ شاید نہ دکھا پائے ۔


بس اللہ باقی ۔ ہر شے فانی
 
فیصل آپ نے بہت مناسب بات کی ہے، لیکن آپ ہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کہوں گا کہ رشتے کو کوئی نام تو دینا ہی پڑتا ہے، کب تک باندی بن کر رہیں گے، دوستی کو رشتہ داری میں‌بدلنے میں‌کوئی حرج نہیں۔
 

arifkarim

معطل
بن لادن تورا بورا سے ہی تو یہ منصوبہ بندی کر رہے تھے اور جہادی ٹریننگ کیمپ چلا رہے تھے،
اور انکو امداد بھی امریکہ ہی کی طرف سے آرہی تھی تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ بن لادن کو ڈھونڈنے کیلئے کئی لاکھ فوجیوں کی کیا ضرورت تھی۔ کچھ ایجنٹس یہ کام با آسانی کر سکتے تھے۔ امریکی بھی تو کئی خفیہ مقامات پر دوسرے ممالک کیخلاف سازشی کیمپس چلاتے ہیں تو اسامہ بن لادن نے وہی فعل امریکہ کیخلاف کرکے کیسا گناہ کر دیا۔

کب تک باندی بن کر رہیں گے، دوستی کو رشتہ داری میں‌بدلنے میں‌کوئی حرج نہیں۔
امریکہ کی ابتک کی دوستی کے نتائج تو ہمنے دیکھ لئے۔ اب آپس میں شادی کر لینے میں‌کیا حرج ہے؟
 

ساجد

محفلین
پاکستان کے ساتھ رسمیں اور وعدے کب نبھائے جائیں گے یہ تو نا معلوم ہے لیکن اوباما چونکہ اپنی عوام سے مخاطب تھے اس لئیے ان کی تقریر یہ تاثر دے رہی ہے کہ انہوں نے کم از کم امریکی عوام میں افغان جنگ کے متعلق بڑھتے ہوئے اعتراض و اضطراب کو سمجھ لیا ہے۔ وہ خود اقرار کر رہے ہیں کہ وہ جلد سے جلد افغانستان سے نکلنا چاہ رہے ہیں کیوں کہ امریکہ اب افغانستان میں بلینک چیک تقسیم نہیں کر سکتا ۔ شاید اسی لئیے اب افغان عوام پر بھی زور دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے اندر اتحاد پیدا کریں اور پاکستان پہ بھی دباؤ بڑھایا گیا ہے کہ وہ "دہشت گردوں" کا قلع قمع کرے۔
جو مجموعی تصویر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ اب افغانستان سے نکلنے کا حتمی فیصلہ کر چکا ہے۔ لیکن وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئیے اب پاکستان میں فضا سازگار کرنا چاہتا ہے ۔ کچھ سخت جملوں اور پھر پاکستان کے ساتھ وسیع تعاون کا اوبامہ کا بیان اوبامہ کی جھنجھلاہٹ کا بھی عکاس ہے۔ اوبامہ کو ان کے پیش رو بش کی نسبت ایک معتدل مزاج امریکی صدر کہا جا سکتا ہے لیکن امریکی نظام حکومت میں شخصی پسند و ناپسند کی بجائے قوانین اور اداروں کا سکہ چلتا ہے اور ان اداروں کی سابقہ پالیسیوں نے نہ صرف پوری دنیا میں ناکام پالیسیوں کی وجہ سے شہرت پائی ہے بلکہ مسلم کش پالیسیاں بنانے کا الزام بھی ان پہ اکثر لگتا رہتا ہے۔ اوبامہ کے لئیے یہ آسان نہ ہو گا کہ وہ ان اداروں کو اپنی پالیسی کے تابع کر سکیں۔ بہر حال ان کی تقریر میں امید کا ایک پیغام ضرور ہے۔
9/11 کے واقعات اور ان کے اسباب آج تک متنازعہ ہیں اور ان پہ پاکستان کے عوام کو ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے عوام کی اکثریت کو جن سوالوں کے جواب درکار ہیں وہ کبھی نہیں دئیے جا سکے۔ امریکی حکومت کے مؤقف کو اب خود امریکہ میں سخت مزاحمت کا سامنا ہے اور نیٹو ممالک کے عوام بھی اب ان واقعات کی بنیاد پہ چھیڑی جانے والی جنگ کے مخالف بنتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں اوبامہ کا سابقہ امریکی مؤقف دہرا کر اس جنگ کو جائز قرار دینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ 30000 افراد کا لشکر ایک جنگ زدہ ملک میں بھیجنے کے لئیے عوام کے سامنے کوئی دلیل تو لانا ہی تھی۔
اوبامہ نے 2011 کے جولائی مہینہ سے افغانستان سے امریکی انخلا کا جو اعلان کیا ہے اس کو حتمی نہیں کہا جا سکتا۔ اگر عالمی کساد بازاری کا موجودہ عالم برقرار رہا تو یہ واپسی قبل از وقت بھی ہو سکتی ہے اور امریکی افواج کو ایسی صورت میں انتہائی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ بہ صورت دیگر واپسی کا یہ عمل اگلے چار سال تک بھی معلق ہو سکتا ہے ۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد میں حالیہ اضافہ امریکی بجٹ پہ انتہائی بھاری ہے اور اگر امریکی معیشت بہت تیزی سے نہ سنبھلی تو روس جیسے حالات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
اوبامہ نے ایک بہت بڑی حقیقت کو سمجھ لیا ہے کہ افغان جنگ جیتی نہیں جا سکتی اور جوں جوں یہ جنگ طول پکڑے گی امریکہ کے لئیے مشکلات بڑھتی جائیں گی۔ فوجی اعتبار سے دیکھا جائے تو کسی بھی آپریشن کا اتنے لمبے عرصہ تک جاری رہنا فوجیوں میں اکتاہٹ اور بد دلی پیدا کرتا ہے۔ جبکہ آپریشن کی طوالت چھاپہ ماروں کے لئیے فائدہ مند ہوتی ہے۔ 2009 میں افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں پہ گھات لگا کر ہونے والے حملوں میں اچانک اضافہ اسی بات کی طرف نشان دہی کر رہا ہے۔
تمام حقائق و شواہد رواں سال کے وسط میں ہی اس طرف رہنمائی کر رہے تھے کہ امریکہ افغان جنگ کا جوا ہار چکا ہے۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ نے اس کا ابھی تک اقرار نہیں کیا ہے شاید اس کے پیچھے کوئی سیاسی مصلحت ہے اور اسی مصلحت کے تحت مزید فوج بھیجی جا رہی ہے تا کہ "دشمن" پہ اپنی کمزوری ظاہر نہ ہونے دی جائے۔
اوبامہ کی تقریر پہ جذباتی رد عمل کی بجائے حقیقت جاننے کا رویہ اپنایا جائے تو اسے پاکستان کے لئیے ایک اچھا شگون سمجھنا چاہئیے کہ اب امریکہ نے کم از کم اس خطے سے کوچ کا ارادہ ظاہر کر دیا ہے۔ ہیلری نے ٹھیک کہا ہے کہ پاکستان کو اپنے داخلی مسائل خود حل کرنے ہیں۔ اب ہماری منتخب جمہوری حکومت کہلائے جانے والی زرداری اور گیلانی انتظامیہ کا بھی امتحان ہے کہ وہ ان حالات میں پاکستان کے لئیے کیا بہتری تلاش کر سکتی ہے۔ کیا کرپشن اور بد انتظامی کو لگام ڈال کر یہ انتظامیہ اس قابل بن سکے گی کہ امریکہ ان پہ یقین کر کے پاکستان کی اقتصادی امداد جاری رکھے؟ کیا اس میں اتنی اہلیت ہے کہ امریکی مفادات کو پاکستان کے مفادات اور اس کی اقتصادی بہتری کے ہم آہنگ کر سکے؟
میرے خیال میں اگر امریکہ پاکستان کی حکومت پہ ڈو مور کا مطالبہ کرنے کی بجائے کرپشن ختم کرنے اور نظام حکومت میں صحت مند جمہوری اصولوں کے فروغ کے لئیے دباؤ ڈالے تو یہ نہ صرف امریکی مفادات کے لئیے ایک بہتریں حکمت عملی ہو گی بلکہ پاکستانی عوام میں امریکہ کے خلاف پایا جانے والا منفی تاثر بھی قابل ذکر حد تک کم ہو گا۔
پاکستان کے عوام غلط امریکی پالیسیوں اور آمروں پہ امریکی دست شفقت کا خمیازہ آج دہشت گردی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ اگر اوبامہ حقیقت میں دنیا کے بارے میں ایک نیا وژن رکھتے ہیں کہ جو تشدد کی دنیا نہ ہو تو انہیں ان امریکی اداروں کو اپنی پالیسیوں پہ نظر ثانی کے لئیے زور ڈالنا ہو گا کہ جن کی ہٹ دھرمی اور منافقت بھری پالیسیوں نے نہ صرف دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال رکھا ہے بلکہ امریکی عوام کو بھی پوری دنیا میں غیر محفوط کر دیا ہے۔ اگر اوبامہ نے اپنے پیش رو بش کی روش پہ ہی اپنا سفر جاری رکھا تو دنیا کے لئیے کوئی اچھی خبر نہ ہو گی۔
 
مدلل جواب دیں، جو باتیں دنیا بھر پہ عیاں ہیں اسے کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے ، بن لادن تورا بورا سے ہی تو یہ منصوبہ بندی کر رہے تھے اور جہادی ٹریننگ کیمپ چلا رہے تھے، کیا یہ غلط ہے ؟
جی یہ غلط ہی ہے۔ ۔ ۔غاروں میں رہنے والے چند گمراہ لوگ یہ کام قطعاّ نہیں کرسکتے تھے۔ جب آپ کو بھی پتہ ہے کہ سب مبیّنہ دہشت گرد سعودی تھے اور امریکہ سے ہی انہوں نے تعلیم و تربیت حاصل کی۔ ۔ ۔افغانستان کا اس میں کیا قصور؟ اگر بالفرض انکی ڈوریاں افغانستان سے ہلائی جا رہی تھیں تو امریکی حکومت نے حملے سے پیشتر یہ شرائط رکھی تھیں کہ افغانستان بن لادن اور القاعدہ لیڈرز کو امریکہ کے حوالے کردے۔ ۔ ۔گویا چند اشخاص کی گرفتاری کے نام پر اتنا بڑا فوجی آپریشن کیا گیا۔ ۔ کیا اس سے بھی زیادہ بچگانہ کوئی بات ہوسکتی ہے۔؟۔ ۔ بھائی یہ کھڑاگ جسکے نتیجے میں امریکی معیشت تباہ ہونے کے قریب ہوگئی ہے کیا صرف چند اشخاص کو گرفتار کرنے کیلئے کیا گیا تھا؟ ۔ ۔ ۔ہماری عقلِ سلیم تو اس ڈھکوسلے کو قبول نہیں کرتی۔
امریکی فوج عراق سے واپس جا چکی ہےعراقی حکومت کو نظم و نسق سونپ کر، کیا یہ غلط ہے؟
سبحان اللہ۔ ۔ ۔ابھی امریکی فوج واپس نہیں گئی ادھر ہی ہے۔ اور آپ اسکے جانے کی بات کرتے ہیں تو یہ بھی ضرور سوچئے گا کہ وہ یہاں آئی کیا کرنے تھی؟ عراق میں تو کوئی ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن نہیں نکلے۔ نہ ہی وہاں کسی القاعدہ کا وجود تھا صدام کے زمانے میں۔ ۔ ۔ بھائی آپ کیں نہیں سوچتے کہ کم از کم 6 لاکھ عراقی اس جنگ میں بلاوجہ ہلاک کیئے جاچکے ہیں اور آپ فرما رہے ہیں کہ یہ تو امریکہ کی بڑائی اور عظمت ہے کہ وہ یہاں سے جا رہا ہے۔ اور معصومیت سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا یہ غلط ہے؟

پاکستان کی عسکری قوت کو مظبوط کرنے کے لئے کیا آپ بھارت سےf-16 & f-17 خریدیں‌گے یا روس آپ کی مدد کرے گا؟ یقینی طور پر معاشی، تکنیکی ، عسکری ، تجارتی و تعلیمی میدان میں امریکہ ہی ہمارے لئے سود مند ہے ، تو پھر تشریف کا ٹوکرہ لے جانے کے بعد کون آپ کی مدد کرے گا،
آپ چائنہ کو بھول رہے ہیں ابھی حال ہی میں پاکستان نے کئی اہم کامیابیاں اس میدان میں حاصل کی ہیں۔ آبدوزیں ہم فرانس سے لیتے ہیں اور ویسے بھی جیو پولیٹیکل تناظر میں پاکستان کا بہترین حلیف چائنہ ہی بنتا ہے امریکہ تو قطعاّ نہیں۔ لیاقت علی کے دور میں روس کا ہاتھ جھٹک کر امریکہ کی گود میں بیٹحنے کی جو پالیسی اختیار کی گئی تھی اسکے نتیجے میں پاکستان کو صرف نقصان ہی ہوا ہے فائدہ کوئی نہیں۔ یہ بھی مت بھولیں کہ پاکستان سٹیل مل بھی روس کی مدد سے لگی تھی۔
بھارت نے اگر ممبئی حملوں کے بعد پاکستان پر جارحانہ کاروائی نہیں کی تو اسکے پیچھے ایک بڑا عالمی دباؤ تھا ، اس لئے گزارش ہے کہ جہاں میں‌آپ کے خیالات کی قدر کرتا ہوں وہیں امید رکھتا ہوں‌کہ جوابات ایسے دیجئے کہ کوئی ہماری ہنسی نہ اڑا سکے اس سے ہم کسی کی مدد نہیں بلکہ اپنے لئے مشکل پیدا کر لیتے ہیں۔ امید ہے برا نہ منائیں گے۔
جی نہیں آپ ذرا غور کریں کہ جس وقت بش نے مشرف کو کال کی تھی کہ 'یا تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف'۔ ۔ تو اس وقت 10 لاکھ انڈین آرمی آپکے بارڈر پر بٹائی جاچکی تھی اس پارلیمنٹ اٹیک کے ڈرامے کے بعد تاکہ پاکستان کی لیڈرشپ کے پاس امریکہ کی ہمنوائی کے علاوہ کوئی آپشن باقی نہ بچے۔ ورنی ایسے کبھی ہوتا ہے کہ 4 آدمی کسی پارلیمنٹ پر نام نہاد حملہ کریں اور اسکو جواز بنا کر 10 لاکھ فوج ایک سال تک بارڈر پر کھڑی رکھی جائے۔ ۔ ہم تو اسے ایک بڑے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
 

dxbgraphics

محفلین
fawad – digital outreach team – us state department

جس نے ایسے وقت میں جب افغانستان برسوں تک سوویت قبضے اور خانہ جنگی سے تباہ ہو چکا تھا، اور جب امریکہ اور ہمارے دوستوں کی توجہ کسی اور طرف ہو گئی تھی، اس ملک پر قبضہ کر لیا۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

امریکہ کے مفاد ختم ہوگئے تو توجہ ہٹالی گئی اور طالبان کو چھوڑ دیا گیا۔
ہیلری کلنٹن ویڈیو کانفرنس میں اعتراف کر چکی ہیں کہ سویت یونین کے خلاف طالبان کو امریکہ نے افغانستان میں لاکھڑا کیا۔

ابھی تو صرف چند ایک پیراگراف پڑھے ہیں۔ اور بھی مکاریاں اور فریب ہیں اس خطاب میں
 

ساجد

محفلین
امریکہ کے مفاد ختم ہوگئے تو توجہ ہٹالی گئی اور طالبان کو چھوڑ دیا گیا۔
ہیلری کلنٹن ویڈیو کانفرنس میں اعتراف کر چکی ہیں کہ سویت یونین کے خلاف طالبان کو امریکہ نے افغانستان میں لاکھڑا کیا۔

ابھی تو صرف چند ایک پیراگراف پڑھے ہیں۔ اور بھی مکاریاں اور فریب ہیں اس خطاب میں
جی ہاں ، اس خطاب میں بہت زیادہ فریب ہیں۔ اور بہت ساری باتیں محض مفروضوں کی بنیاد پہ کہی گئی ہیں۔ لیکن ہر ملک کا سربراہ جب اپنے عوام سے مخاطب ہوتا ہے تو ان کی ہمدردیاں اور اپنی نئی پالیسی کے لئیے کثرت رائے اپنے حق میں کرنے کے لئیے ایسی باتیں ضرور کہتا ہے جو حقیقت سے دور ہوتی ہیں لیکن الفاظ کی جادوگری سے ان میں حقیقت کا رنگ بھرا جاتا ہے۔
بہت بہتر ہوتا اگر اوبامہ نسبتاً زیادہ بہادری کا مظاہرہ کرتے اور امریکی عوام سے ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرانے کا وعدہ کرتے۔
 

ساجد

محفلین
محمود غزنوی صاحب ، یہ موضوع نہایت حساس نوعیت کا ہے اور اس پر لوگوں کی مختلف آراء موجود ہیں اور بہت سے لوگ اس بحث میں‌مدلل گفتگو کرنا چاہیں گے، تاہم آپ نے فوری طور پرجس نوعیت کی سطحی و جذباتی تحریر پیش کی ہے اس پر نظر ثانی کیجئے اور کوشش کریں کہ فوری طور پر کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل سوچ سمجھ کر اقتباس لیں اور پھر مدلل جواب دیں، جو باتیں دنیا بھر پہ عیاں ہیں اسے کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے ، بن لادن تورا بورا سے ہی تو یہ منصوبہ بندی کر رہے تھے اور جہادی ٹریننگ کیمپ چلا رہے تھے، کیا یہ غلط ہے ؟
امریکی فوج عراق سے واپس جا چکی ہے ، عراقی حکومت کو نظم و نسق سونپ کر، کیا یہ غلط ہے؟
پاکستان کی عسکری قوت کو مظبوط کرنے کے لئے کیا آپ بھارت سےf-16 & f-17 خریدیں‌گے یا روس آپ کی مدد کرے گا؟ یقینی طور پر معاشی، تکنیکی ، عسکری ، تجارتی و تعلیمی میدان میں امریکہ ہی ہمارے لئے سود مند ہے ، تو پھر تشریف کا ٹوکرہ لے جانے کے بعد کون آپ کی مدد کرے گا، بھارت نے اگر ممبئی حملوں کے بعد پاکستان پر جارحانہ کاروائی نہیں کی تو اسکے پیچھے ایک بڑا عالمی دباؤ تھا ، اس لئے گزارش ہے کہ جہاں میں‌آپ کے خیالات کی قدر کرتا ہوں وہیں امید رکھتا ہوں‌کہ جوابات ایسے دیجئے کہ کوئی ہماری ہنسی نہ اڑا سکے اس سے ہم کسی کی مدد نہیں بلکہ اپنے لئے مشکل پیدا کر لیتے ہیں۔ امید ہے برا نہ منائیں گے۔
ایسا کب ہو گیا؟
 

زھرا علوی

محفلین
مجھے تو مجموعی طور ہر امریکی پالیسی میں ایک مثبت تبدیلی محسوس ہوئی اس تقریر میں۔۔۔
القاعدہ کو اسلام ایسے عظیم مذہب کے لیے ایک دھبہ قرار دینا۔۔ اور ماضی میں پاکستان کی طرف ایک تنگ نظرئیے کا اقرار اور مستقبل میں اس بات کی تلافی کی یقین دہانی۔۔۔
 

آفت

محفلین
امریکہ ماضی میں بھی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتا رہا ہے اور پاکستان سے اکثر وعدے کر کے اور مطلب پورا ہو جانے کے بعد آنکھیں بھی کئی مواقع پر پھیر چکا ہے ۔ پاکستان کو چاہیئے کہ وہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ہر پوائنٹ پر اچھی طرح سوچ سمجھ کر اقدام کرے ۔ مشرف کی طرح ایک فون کال پر اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دینا عقلمندی نہیں ہو گی -
سویت یونین کے خلاف پاکستان کی کافی مدد کی گئی اور بہت سی امداد کا وعدہ کیا گیا لیکن جیسے ہی سویت یونین افغانستان سے نکلا سب فراموش کر دیا گیا ۔ حتٰی کہ پاکستان کے لیئے بنائے گئے ایف سکسٹین بھی اپنے پاس روک لیے جس کی قیمت پاکستان ادا کر چکا تھا ۔ مزے کی بات یہ ہے ان طیاروں کو کئی سال اپنے پاس روکنے اور ان کی حفاظت پر آنے والے اخراجات بھی پاکستان سے لیے گیے۔ یہ لڑاکا طیارے نائن الیون کے بعد ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت پڑنے کے بعد پاکستان کو دیے گئے ۔
جس کی لاٹھی اس کی بھینس
 
تمام احباب کے لئے گزارش ہے کہ میرے تمام تر خیالات امریکہ دشمنی پر نہیں بلکہ پاکستان کی محبت پر مبنی ہوتے ہیں، اگر ہم اپنے دلوں سے نفرت نکال دیں اور اپنے وطن کی بہتری کے لئے سوچیں تو فکر کے تمام منطقی زاویے امریکہ، یورپ و چین کی دوستی کی تائید کرتے ہیں، باقی سب جذباتی باتیں ہیں، اسامہ ، القائدہ یا طالبان کی جنگ ہماری نہیں یہ ہمارے خیالات، طرز معاشرت اور مذہبی سوچ کی عکاس نہیں ہے اس لئے یا تو اس کی کھل کر حمایت کریں یا کھل کر مخالفت کریں یہ بیچ میں رہنے کی عادت قوموں کو تباہ کر دیتی ہے۔
 
تمام احباب کے لئے گزارش ہے کہ میرے تمام تر خیالات امریکہ دشمنی پر نہیں بلکہ پاکستان کی محبت پر مبنی ہوتے ہیں، اگر ہم اپنے دلوں سے نفرت نکال دیں اور اپنے وطن کی بہتری کے لئے سوچیں تو فکر کے تمام منطقی زاویے امریکہ، یورپ و چین کی دوستی کی تائید کرتے ہیں، باقی سب جذباتی باتیں ہیں، اسامہ ، القائدہ یا طالبان کی جنگ ہماری نہیں یہ ہمارے خیالات، طرز معاشرت اور مذہبی سوچ کی عکاس نہیں ہے اس لئے یا تو اس کی کھل کر حمایت کریں یا کھل کر مخالفت کریں یہ بیچ میں رہنے کی عادت قوموں کو تباہ کر دیتی ہے۔
فاروقی صاحب ہم بھی امریکہ کی مخالفت نفرت کی بنیاد پر نہیں کرتے بلکہ حالاتِ حاضرہ اور تاریخ کے تجزیے کی بنیاد پر منطقی استدلال سے ہی اس معاملے میں امریکہ کی مخالفت پر شرحِ صدر رکھتے ہیں۔
اسامہ، القائدہ اور طالبان و ظالمان کے خیالات، طرزِ معاشرت اور مذہبی سوچ یقیناّ ہم سے مختلف ہے اور ہمارے نزدیک غلط ہے لیکن اس سے امریکہ بہادر کی معصومیت ثابت نہیں ہوتی۔ کم از کم منطق تو یہی کہتی ہے ۔ ہم القاعدہ و ظالبان کی کھل کر مذمّت کرتے ہیں لیکن اسکے ساتھ ساتھ امریکہ بھی ہماری نظر میں ان دونوں گروہوں سے کہیں بڑھ کر ظالم و جابر ، استحصالی اور استعماری قوّت ہے۔ ہمارے نزدیک ہمارے وطن کی بہتری امریکہ سے جان چھڑا لینے میں ہی ہے۔:)
اور قبلہ بیچ میں رہنے کی عادت یا مجبوری ہماری نہیں۔ آپ کو یقیناّ حق حاصل ہے امریکہ کی حمایت کا (برِّ اعظم امریکہ میں رہتے ہوے امریکہ اور امریکی پالیسیوں کی مخالفت کرنا امیگرینٹس کیلئےیقیناّ ایک مشکل بات ہے):)۔ ۔ براہِ کرم اس بات کو ذاتی طور پر نہ لیجئے گا۔:)
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ميں مختلف فورمز پر صدر اوبامہ کی تقرير کے ردعمل ميں لوگوں کی رائے پڑھ رہا ہوں۔ کچھ تجزيہ نگار امريکی شکست کی اصطلاح کثرت سے استعمال کر رہے ہيں اور سال 2011 ميں افغانستان سے امريکی انخلاء کو افغانستان ميں امريکہ کی ناکامی کے ثبوت کے طور پر پيش کر رہے ہیں۔

اس ضمن میں يہ وضاحت ضروری ہے کہ سال 2011 محض اس عمل کا نقطہ آغاز ہے جس کی طوالت يا نقطہ انجام کی تشريح نہيں کی گئ ہے۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ افغان فورسز تک سيکورٹی معاملات کی منتقلی کے عمل کی رفتار اور اس عمل کے ٹائم فريم کا دارومدار زمينی حقائق پر ہو گا جن کے بارے ميں 18 ماہ قبل پيشن گوئ کرنا ممکن نہيں ہے۔ دوسرے لفظوں ميں صدر اوبامہ نے 18 ماہ کا جو اعلان کيا ہے وہ افغانستان کے ہاتھ ميں معاملات کی مکمل منتقلی کے عمل کا نقطہ آغاز ہے۔

افغانستان ميں امريکی موجودگی کا مقصد کسی بيرونی ملک پر کامياب قبضہ کی کوشش نہيں ہے۔ صدر اوبامہ نے بھی اسی نقطے کی وضاحت اپنی تقرير میں کی تھی

"یہ یاد کرنا ضروری ہے کہ امریکہ اور ہمارے اتحادی آخر افغانستان میں جنگ لڑنے پر کیوں مجبور ہوئے۔ یہ لڑائی ہمارے کہنے پر شروع نہیں ہوئی۔ اس داخلی اتحاد کے جھنڈے تلے، اور بین الاقوامی طور پر جائز اور قانونی قرار دیے جانے کے بعد، اور طالبان کے اسامہ بن لادن کو ہمارے حوالے کرنے سے انکار کے بعد ہی، ہم نے اپنی فوجیں افغانستان میں بھیجیں۔"

جو دوست افغانستان ميں امريکی شکست کا حوالہ ديتے ہيں ميں ان کو ياد دلانا چاہوں گا کہ دہشت گردوں سے شکست اور ان کے مطالبات کے سامنے ہتھيار ڈالنے کا آپشن امريکہ سميت دنيا کے کسی ملک کے پاس نہيں ہے۔ ايسی شکست جس صورت حال کو جنم دے گی اس کا تصور دنيا بھر ميں القائدہ کے سينکڑوں خودکش حملوں اور دہشت گردوں کی کاروائيوں کے تناظر ميں کيا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی کے عفريت کو شکست دينا اور اس کے نتيجے ميں بے گناہ شہریوں کی جانوں کی حفاظت ہماری اولين ترجيح ہے۔

اس ضمن میں ہمارے پاس شکست کا آپشن نہيں ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
Top