Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
افغانستان اور پاکستان میں پیش قدمی کا راستہ
امریکہ کے کور آف کیڈٹس،ہماری مسلح افواج میں شامل مرد اور عورتیں، اور میرے امریکی ہم وطنو: آج رات میں آپ کو افغانستان میں امریکہ کی کوششوں کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں ۔ وہاں ہم نے جس کام کا بیڑا اٹھایا ہے اس کی نوعیت کیا ہے، وہاں ہمارے مفادات کا دائرہ کیا ہے، اور اس جنگ کو کامیابی سے اختتام تک پہنچانے کے لیئے میری انتظامیہ کیا حکمت عملی اختیار کرے گی۔ یہاں ویسٹ پوائنٹ میں ، جہاں اتنے سارے مردوں اور عورتوں نے ہماری سلامتی کی حفاظت کے لیئے تیاری کی ہے، اور ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین اقدار کی نمائندگی کا بیڑا اٹھایا ہے، ان معاملات پر اظہارِ خیال کرنا میرے لیئے غیر معمولی اعزاز کی بات ہے۔
ان اہم معاملات پر بات کرنے کے لیئے ، یہ یاد کرنا ضروری ہے کہ امریکہ اور ہمارے اتحادی آخر افغانستان میں جنگ لڑنے پر کیوں مجبور ہوئے۔ یہ لڑائی ہمارے کہنے پر شروع نہیں ہوئی۔ 11 ستمبر، 2001 کو، انیس افراد نے چار ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کیا اور انہیں تقریباً 3,000 افراد کو قتل کرنے کے لیئے استعمال کیا۔ انھوں نے ہمارے اہم ترین فوجی اور اقتصادی مراکز پر ضرب لگائی۔ انھوں نے مذہب، نسل یا زندگی میں کسی کے مقام کا لحاظ کیئے بغیر، بے گناہ مردوں ، عورتوں اور بچوں کی جانیں لیں۔ اگر ان میں سے ایک جہاز پر سوار مسافروں نے بے مثال جرأت کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا، تو یہ لوگ ہماری جمہوریت کی ایک عظیم علامت کو نشانہ بنا سکتے تھے اور مزید بہت سے لوگوں کو ہلاک کر سکتے تھے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ان لوگوں کا تعلق القاعدہ سے تھا ۔۔ یہ انتہا پسندوں کا ایک گروپ ہے جس نے بے گناہ لوگوں کو ذبح کرنے کا جواز پیدا کرنے کے لیئے، دنیا کے ایک عظیم مذہب، اسلام کومسخ کیا ہے اور اس کے تقدس کو پامال کیا ہے ۔القاعدہ کی کارروائیوں کا مرکز افغانستان میں تھا، جہاں طالبان نے انہیں پناہ دی تھی۔ طالبان ایک بے رحم، ظالمانہ اور انتہا پسند تحریک ہے جس نے ایسے وقت میں جب افغانستان برسوں تک سوویت قبضے اور خانہ جنگی سے تباہ ہو چکا تھا، اور جب امریکہ اور ہمارے دوستوں کی توجہ کسی اور طرف ہو گئی تھی، اس ملک پر قبضہ کر لیا۔
نائن الیون کے چند دِن بعد ہی، کانگریس نے القاعدہ اور ان کو پناہ دینے والوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی منظوری دے دی۔ یہ منظوری آج بھی موجود ہے۔ سینیٹ میں 98 ووٹ اس کے حمایت میں آئے اور مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔ ایوانِ نمائندگان میں 420 ووٹ حمایت میں اور ایک ووٹ مخالفت میں آیا۔ تاریخ میں پہلی بار، نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن نے آرٹیکل 5 کو استعمال کیا جس میں کہا گیا ہے کہ کسی ایک رکن ملک پر حملہ تمام رکن ممالک پر حملہ سمجھا جائے گا۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے نائن الیون کے حملوں کے جواب میں تمام ضروری اقدامات کی منظوری دی۔ امریکہ، ہماری اتحادی ممالک، اور پوری دنیا ، القاعدہ کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے اور ہماری مشترکہ سیکورٹی کی حفاظت کے لیئے متحد ہو گئی۔
اس داخلی اتحاد کے جھنڈے تلے، اور بین الاقوامی طور پر جائز اور قانونی قرار دیے جانے کے بعد، اور طالبان کے اسامہ بن لادن کو ہمارے حوالے کرنے سے انکار کے بعد ہی، ہم نے اپنی فوجیں افغانستان میں بھیجیں۔ چند مہینوں میں ہی، القاعدہ منتشر ہو گئی اور اس کے بہت سے کارندے ہلاک کر دیے گئے۔ طالبان کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا، اور فرار ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ ایک ایسی جگہ جو کئی عشروں سے خوف کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی، اب وہاں امید کی روشنی نظر آنےلگی۔ اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام ایک کانفرنس میں صدر حامد کرزئی کے تحت ایک عبوری حکومت قائم کر دی گئی۔ اورجنگ سے تباہ حال ملک میں پائیدار امن قائم کرنے کے لیئے، ایک انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس قائم ہوئی۔
پھر 2003 کے شروع میں، عراق میں ایک دوسری جنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ عراق کی جنگ کے بارے میں جو ہنگامہ خیز بحث ہوئی، اس سے سب واقف ہیں اور یہاں اسے دہرانا غیر ضروری ہو گا۔ اتنا کہنا کافی ہو گا کہ اگلے چھہ برسوں تک ہماری فوجوں، ہمارے وسائل، ہماری سفارتکاری، اور ہمارے ملک کی توجہ کا بہت بڑا حصہ، عراق کی جنگ کے لیئے وقف ہو گیا۔۔اور عراق میں مداخلت کے فیصلے کی وجہ سے امریکہ اور دنیا کے بہت سے ملکوں کے درمیان تعلقات میں خاصہ بڑا رخنہ پیدا ہو گیا۔
آج، بہت بھاری قیمت ادا کرنے کے بعد، ہم نے عراق میں پیش رفت کی ایک راہ تلاش کر لی ہے۔ جیسا کہ میں نے اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے اور اس کے بعد وعدہ کیا تھا، ہم عراق کی جنگ کو ذمہ دارانہ انداز سے اختتام تک پہنچا رہے ہیں۔ ہم اپنی جنگی بریگیڈز کو اگلی گرمیوں تک عراق سے ہٹا لیں گے، اور اپنی تمام فوجوں کو 2011 تک واپس لے آئیں گے۔ ہم یہ سب کچھ اپنے با وردی مردوں اور عورتوں کے اعلیٰ کردار کی وجہ سے کر سکے ہیں۔ (تالیاں)۔ ان کی جرأت ، ثابت قدمی اور استقامت کی بدولت، ہم نے عراقیوں کو اپنا مستقبل خود بنانے کا موقع دیا ہے، اور ہم عراق کو کامیابی سے اس کے عوام کے حوالے کرنے کے بعد، وہاں سے رخصت ہو رہے ہیں۔
لیکن اگرچہ ہم نے عراق میں بڑی سختیاں جھیلنے کے بعد شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں، افغانستان میں صورتِ حال مزید خراب ہو گئی ہے ۔ 2001 اور 2002 میں فرار ہونے کے بعد سرحد پار پاکستان میں، القاعدہ کی قیادت نے وہاں ایک محفوظ پناہ گاہ قائم کر لی۔ اگرچہ افغان عوام نے قانونی طور پر ایک جائز حکومت منتخب کی، لیکن کرپشن، منشیات کے کاروبار، پسماندہ معیشت، اور نا کافی سیکورٹی فورسز کی وجہ سے ، وہ اپنا کام نہیں کر سکی ہے۔
گذشتہ کئی برسوں کے دوران، طالبان نے القاعدہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے، اور دہ دونوں افغان حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔ طالبان نے بتدریج افغانستان کے بعض حصوں پر کنٹرول قائم کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان کے لوگوں کے خلاف روز بروز زیادہ دیدہ دلیری سے دہشت گردی کی تباہ کن کارروائیاں کر رہے ہیں۔
اس پورے عرصے کے دوران، افغانستان میں ہماری فوجوں کی سطح، عراق کے مقابلے میں بہت کم رہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب میں نے اپنا عہدہ سنبھالا، اس وقت افغانستان میں صرف 32,000 امریکی فوجی خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس کے مقابلے میں عراق کی جنگ کے عروج کے زمانے میں، وہاں ہمارے فوجیوں کی تعداد 160,000 تھی ۔افغانستان میں طالبان کے ایک بار پھر زور پکڑنے کے بعد کمانڈروں نے ان سے نمٹنے کے لیئے، بار بار مزید وسائل کی درخواست کی۔ لیکن ان کے لیئے کمک نہیں پہنچی۔یہی وجہ ہے کہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے تھوڑے دِن بعد ہی، میں نے مزید فوجیوں کی درخواست ، جو کافی عرصے سے التوا میں پڑی ہوئی تھی، منظور کر لی۔ اپنے اتحادیوں سے مشورے کے بعد، میں نے ا یک حکمت عملی کا اعلان کیا جس میں اس بات کو تسلیم کیا گیا تھا کہ افغانستان میں ہماری جنگی کوششوں، اور پاکستان میں انتہا پسندوں کی پناہ گاہوں کے درمیان بنیادی تعلق ہے ۔ میں نے ایک ہدف مقرر کیا جس کی محدود وضاحت ان الفاظ میں کی گئی تھی کہ ہمارا مقصد القاعدہ اور اس کے انتہا پسند اتحادیوں کو درہم برہم کرنا، اسے منتشر کرنا، اور شکست دینا ہے۔ میں نے امریکہ کی فوجی اور سویلین کارروائیوں کو بہتر طریقے سے مربوط کرنے کا عہد کیا ۔
اس کے بعد سے اب تک، ہم نے بعض اہم مقاصد کے حصول میں پیش رفت کی ہے ۔ القاعدہ اور طالبان کے اعلیٰ سطح کے لیڈر ہلاک کر دیے گئے ہیں، اور ہم نے ساری دنیا میں القاعدہ پر دباؤ بڑھا دیا ہے ۔پاکستان میں ، اس ملک کی فوج نے ، برسوں کے بعد ، اتنی بڑی کارروائی کی ہے۔ افغانستان میں ہم نے اور ہمارے اتحادیوں نے، طالبان کی صدارتی انتخاب کو روکنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا ۔ اگرچہ دھاندلی کی وجہ سے اس انتخاب کی قانونی حیثیت ماند پڑ گئی، لیکن انتخاب سے جو حکومت بنی ہے ، وہ افغانستان کے قوانین اور آئین کے مطابق ہے ۔
پھر بھی بہت سے چیلنج باقی ہیں۔ افغانستان کو ہم نے کھویا نہیں ہے، لیکن کئی برسوں سے وہ پیچھے کی طرف جا رہا ہے ۔ حکومت کا تختہ الٹے جانے کا کوئی فوری خطرہ نہیں ہے، لیکن طالبان نے زور پکڑ لیا ہے ۔ اگرچہ القاعدہ اتنی بڑی تعداد میں دوبارہ سامنے نہیں آئی ہے جتنی نائن الیون سے پہلے تھی، لیکن سرحد کے ساتھ ساتھ ان کی محفوظ پناہ گاہیں باقی ہیں۔ اور ہماری فورسز کے پاس مطلوبہ وسائل نہیں ہیں جن کے ذریعے وہ موئثر طریقے سے افغان سیکورٹی فورسز کو تربیت دے سکیں اور ان کے ساتھ شراکت داری قائم کر سکیں، اور آبادی کی بہتر طور سے حفاظت کرسکیں۔ افغانستان میں ہمارے نئے کمانڈر، جنرل مک کرسٹل نے بتایا ہے کہ سیکورٹی کی صورت حال ان کی توقع سے زیادہ خراب ہے ۔ حالات کو جوں کا توں نہیں رکھا جا سکتا۔
کیڈٹس کی حیثیت سے آپ نے اس خطرناک وقت میں اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کی ہیں۔ آپ میں سے بعض لوگ افغانستان میں لڑ چکے ہیں۔ بعض کی تعیناتی وہاں ہونی ہے ۔ آپ کے کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے، یہ میری ذمہ داری ہے کہ آ پ کو ایک واضح مشن دوں جو آپ کی خدمات کے شایانِ شان ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب افغانستان میں ووٹنگ مکمل ہو گئی، تو میں نے اصرار کیا کہ ہمیں اپنی حکمت عملی کا مکمل جائزہ لینا چاہیئے۔ اب میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں: میرے سامنے ایسی کوئی تجویز نہیں تھی جس کے تحت 2010 سے پہلے فوجوں کی تعیناتی ہونی تھی۔ چنانچہ جائزے کی اس مدت کے دوران، جنگ کے لیئے مطلوبہ وسائل کی فراہمی میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی ہے اور نہ ان کی فراہمی سے انکار کیا گیا ہے ۔بلکہ جائزے کے ذریعے مجھے بعض مشکل سوالات پوچھنے کا موقع ملا ہے، اور ہماری نیشنل سیکورٹی ٹیم، اور افغانستان میں ہماری فوجی اور سویلین قیادت اور اہم شراکت داروں کے ساتھ مل کر تمام متبادل راستوں کی چھان بین کا موقع ملا ہے ۔ اس معاملے میں جتنا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے، اس کی روشنی میں ، امریکی عوام اور ہمارے فوجیوں کو مجھ سے اس سے کم کسی چیز کی توقع نہیں کرنی چاہیئے۔
اب یہ جائزہ مکمل ہو چکا ہے۔ اور کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے، میں نے یہ تعین کیا ہے کہ 30,000 مزید امریکی فوجی افغانستان بھیجنا ہمارے قومی مفاد کے لیئے اہم ہے۔18 مہینوں کے بعد، ہماری فوجیں گھر واپس آنا شروع ہو جائیں گی ۔ حالات پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیئے، ہمیں ان وسائل کی ضرورت ہے۔ اس دوران ہم افغانستان کی اپنی صلاحیتوں کی تعمیر کریں گے تا کہ ہماری اپنی فوجیں افغانستان سے ذمہ دارانہ انداز میں نکل آئیں۔
میرے لیئے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا۔ میں نے عراق میں جنگ کی مخالفت ٹھیک اسی لیئے کی تھی کیوں میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں فوجی طاقت کے استعمال میں احتیاط سے کام لینا چاہیئے اور ہمیشہ یہ سوچنا چاہیئے کہ ہمارے افعال کے طویل المدت نتائج کیا ہوں گے۔ ہمیں جنگ لڑتے ہوئے اب آٹھ برس ہو چکے ہیں، اور ہمیں انسانی زندگی اور وسائل کی شکل میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے ۔ عراق کی جنگ اور دہشت گردی کے بارے میں برسوں سے جاری بحث نے قومی سلامتی کے بارے میں ہمارے اتحادکو پارہ پارہ کر دیا ہے اور اس کوشش کے لیئے انتہائی جانبدارانہ اور اختلافی ماحول پیدا کر دیا ہے ۔اور ہمیں عظیم کساد بازاری کے بعد پہلی بار جس بد ترین اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امریکی عوام کی توجہ ہماری اپنی معیشت کی تعمیرِ نو پر، اور ملک میں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے پر ہے ۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ یہ فیصلہ آپ سے مزید قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے۔۔ایسی فوج سے جس نے آپ کے گھرانوں سمیت پہلے ہی سب سے زیادہ بوجھ برداشت کیا ہے ۔۔ صدر کی حیثیت سے ، میں نے ہر ایسے امریکی کے گھرانے کے نام جس نے ان جنگوں میں اپنی زندگی کا نذرانہ دیا ہے، تعزیت کے خط پر دستخط کیئے ہیں۔ میں نے جنگوں پر بھیجنے جانے والے افراد کے والدین اور شریکِ زندگی کے خط پڑھے ہیں۔ میں والٹر ریڈ جا کر اپنے زخمی ہونے والے بہادر سپاہیوں سے مِلا ہوں ۔میں نے Dover کا سفر کیا ہے اور میں امریکی پرچم میں لپٹے ہوئے ان 18 امریکیوں کے تابوتوں کی آمد کے وقت موجود تھا جو اپنی آخری آرامگاہ پر جانے کے لیئے واپس آئے تھے۔میں نے اپنی آنکھوں سے جنگ کے ہولناک اثرات دیکھے ہیں۔ اگر میں یہ نہ سمجھتا کہ افغانستان میں امریکہ کی سلامتی اور امریکہ کے لوگوں کی حفاظت داؤ پر لگی ہوئی ہے، تو میں بخوشی اپنے ہر فوجی کی کل ہی واپسی کا حکم دے دیتا ۔
تو پھر میرے لیئے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا۔ میں یہ فیصلہ اس لیئے کر رہا ہوں کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں ہماری سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے ۔ القاعدہ جس متشدد انتہاپسندی پر عمل کرتی ہے، یہ علاقہ اس کا مرکز ہے ۔ ہم پر نائن الیون کا حملہ یہیں سے ہوا تھا، اور یہی وہ جگہ ہے جہاں سے اس وقت جب میں تقریر کر رہا ہوں، نئے حملوں کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ یہ کوئی خالی خولی خطرہ نہیں ہے، کوئی فرضی دھمکی نہیں ہے۔ صرف گذشتہ چند مہینوں میں ہی، ہم نے اپنی سرحدوں کے اندر ایسے انتہا پسندوں کو پکڑا ہے جنہیں یہاں دہشت گردی کی نئی کارروائیوں کے لیئے ، افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں سے بھیجا گیا تھا۔ اور یہ خطرہ بڑھتا ہی جائے گا اگر اس علاقے میں حالات کو مزید خراب ہونے دیا جاتا ہے اور القاعدہ دیدہ دلیری سے اپنی کارروائیاں کر سکتی ہے ۔ ہمیں القاعدہ پر دباؤ قائم رکھنا چاہیئے، اور ایسا کرنے کے لیئے، ہمیں علاقے میں اپنے شراکت داروں کے استحکام اور ان کی صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہیئے۔
یہ صحیح ہے کہ ہم اکیلے یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ صرف امریکہ کی جنگ نہیں ہے ۔ نائن الیون کے بعد سے اب تک، القاعدہ کی محفوظ پناہ گاہیں ، لندن، عمان، اور بالی کے خلاف حملوں کا ذریعہ رہی ہیں۔ افغانستان اور پاکستان، دونوں ملکوں کے عوام اور حکومتیں خطرے میں ہیں۔ نیوکلیئر اسلحہ سے لیس پاکستان میں، خطرات اور بھی زیادہ ہیں کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ القاعدہ اور دوسرے انتہا پسند نیوکلیئر ہتھیار حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور ہمارے پاس یہ سمجھنے کی وجوہ موجود ہیں کہ وہ انہیں ضرور استعمال کریں گے ۔
اِن حقائق کی روشنی میں، ہم اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ مِل کر کارروائی کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارا اولین اور بنیادی مقصد اب بھی وہی ہے: افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ کو درہم برہم کرنا، منتشر کرنا اور شکست دینا، مستقبل میں امریکہ اور ہمارے اتحادیوں کو دھمکی دینے کے صلاحیت حاصل کرنے سے روکنا۔
اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیئے، ہم افغانستان میں مندرجہ ذیل مقاصد کے حصول کی کوشش کریں گے۔ ہمیں القاعدہ کو محفوظ پناہ گاہ سے محروم کرنا چاہیئے ۔ہمیں طالبان کا زور توڑنا چاہیئے، اور انہیں حکومت کا تختہ الٹنے کی صلاحیت سے محروم کر دینا چاہیئے۔ اور ہمیں افغانستان کی سیکورٹی فورسز اور حکومت کی صلاحیت کو مضبوط بنانا چاہئیے تا کہ وہ افغانستان کے مستقبل کی ذمہ داری قبول کرنے میں پہل کر سکیں۔
ہم یہ مقاصد تین طریقوں سے حاصل کریں گے۔ اول یہ کہ ہم ایسی فوجی حکمت عملی پر عمل کریں گے جس سے طالبان کا زور ٹوٹ جائے گا اور اگلے 18مہینوں میں افغانستان کی صلاحیت میں اضافہ ہو جائے گا۔
میں جن 30,000 مزید فوجیوں کا اعلان کر رہا ہوں، وہ 2010 کے پہلے حصے میں تعینات کر دیے جائیں گے۔ یہ رفتار سب سے زیادہ ہے ، تا کہ وہ بغاوت کو نشانہ بنا سکیں اور آبادی کے اہم مراکز کو محفوظ کر سکیں۔ وہ افغان سیکیورٹی فورسز کو تربیت دینے کی ہماری صلاحیت کو بہتر بنائیں گے اور ان کے ساتھ شراکت داری قائم کریں گے تا کہ اور زیادہ افغان لڑائی میں شامل ہو سکیں۔ اور وہ ایسے حالات پیدا کرنے میں مدد دیں گے جن میں امریکہ یہ ذمہ داری افغانوں کو منتقل کر دے ۔
چونکہ یہ بین الاقوامی کوشش ہے، اس لیئے میں نے کہا ہے کہ ہماری ذمہ داری میں ہمارے اتحادی بھی شرکت کریں۔ بعض نے پہلے ہی مزید فوجی فراہم کر دیے ہیں، اور مجھے اعتماد ہے کہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں مزید مدد فراہم کی جائے گی۔ ہمارے دوستوں نے افغانستان میں ہمارے ساتھ مِل کر جنگ کی ہے، اپنا خون بہایا ہے اور اپنی جانیں دی ہیں۔ اب ہمیں اس جنگ کو کامیابی سے ختم کرنے کے لیئے اکٹھے ہونا چاہیئے۔ کیوں اب جو داؤں پر لگا ہوا ہے، وہ صرف نیٹو کی ساکھ اور اس کا اعتبار ہی نہیں ہے، بلکہ اب ہمارے اتحادیوں کی سیکورٹی، اور دنیا کی مشترکہ سیکورٹی داؤ پر لگی ہوئی ہے ۔
لیکن اگر ملا کر دیکھا جائے، تو یہ اضافی امریکی اور بین الاقوامی فوجی یہ ممکن کر دیں گے کہ ہم زیادہ تیزی سے ذمہ داری افغان فورسز کو منتقل کر دیں، اور 2011 میں جولائی کے مہینے سے اپنی فوجوں کو افغانستان سے نکالنے کا عمل شروع کر دیں۔ جیسا کہ ہم نے عراق میں کیا ہے، ہم تبدیلی کا یہ عمل ذمہ داری کے ساتھ شروع کریں گے اور زمینی حقائق کو سامنے رکھیں گے۔ ہم افغانستان کی سیکورٹی فورسز کو مشورہ اور مدد دینے کا عمل جاری رکھیں گے تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ طویل مدت میں کامیاب ہو سکیں۔لیکن افغان حکومت پر واضح ہو جائے گا ۔۔اور اس سے بھی اہم یہ بات ہے کہ افغانستان کے لوگوں کو پتہ چل جائےگا ، کہ بالآخر اپنے ملک کی ذمہ داری خود انہیں کو اٹھانی ہو گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم اپنے شراکت داروں ، اقوامِ متحدہ، اور افغان عوام کے ساتھ مِل کر ، زیادہ موئثر سویلین حکمت عملی اختیار کریں گے تا کہ حکومت بہتر سیکورٹی کا فائدہ اٹھا سکے۔
اس کوشش کی بنیاد کارکردگی پر ہو گی۔ سادہ چیک دینے کے دِن ختم ہو چکے ہیں۔ صدر کرزئی کی صدارت کی افتتاحی تقریر نے ایک نئی سمت میں سفر کرنے کا صحیح پیغام دیا۔اور آگے کی طرف بڑھتے ہوئے، ہم یہ بات واضح کر دیں گے کہ جو لوگ ہم سے مدد لیتے ہیں، ان سے ہم کِن چیزوں کی توقع کرتے ہیں۔ ہم افغان وزارتوں، گورنروں، اور مقامی لیڈروں کی حمایت کریں گے جو بد عنوانیوں کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور عوام کے مفاد میں کام کرتے ہیں۔ ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ جو لوگ غیر موئثر یا بد عنوان ہیں، ان کی جوابدہی کی جائے ۔ اور ہم اپنی امداد ایسے شعبوں میں دینے پر توجہ دیں گے ، جیسے زراعت، جن سے افغان عوا م کی زندگیوں پر فوری اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
افغانستان کے لوگ کئی عشروں سے تشدد کے سایے تلے رہ رہے ہیں۔ انہیں اپنے ملک پر قبضے کی اذیت برداشت کرنی پڑی ہے، پہلے سوویت یونین نے قبضہ کیا، اور پھر القاعدہ کے غیر ملکی جنگجوؤں نے، جنھوں نے افغان سرزمین اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کی ۔ چنانچہ، آج کی شب میں افغان عوام کو ایک بات سمجھانا چاہتا ہوں۔۔امریکہ جنگ اور اذیتوں کے اس عہد کے خاتمے کا خواہشمند ہے ۔ہمیں آپ کے ملک پر قبضہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہم افغان حکومت کی ان کوششوں کی حمایت کریں گے کہ ان طالبان کے لیئے دروازہ کھول دیا جائے جو تشدد کو ترک کرنے اور اپنے ہم وطن شہریوں کے حقوق کا احترام کرنے پر تیار ہوں۔ اور ہم افغانستان کے ساتھ ایسی شراکت داری قائم کرنا چاہیں گے جس کی بنیاد باہم احترام پر ہو۔۔ان لوگوں کو الگ تھلگ کر دیا جائے جو تباہی پھیلاتے ہیں؛ ان لوگوں کو مضبوط بنایا جائے جو تعمیر کرتے ہیں؛ اس دِن کو قریب لایا جائے جب ہماری فوجیں افغانستان کو چھوڑ دیں گی؛ اور ایسی پائیدار دوستی قائم کی جائے جس میں امریکہ آپ کا شراکت دار ہو، اور کبھی آپ کا سرپرست نہ بنے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ ہم اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے کارروائی کریں گے کہ افغانستان میں ہماری کامیابی اور پاکستان کے ساتھ ہماری شراکت داری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
ہم افغانستان میں اس لیئے موجود ہیں تا کہ ہم ایک کینسر کو ایک بار پھر ملک میں پھیلنے سے روکیں۔ لیکن اسی کینسر نے پاکستان کے سرحدی علاقے میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو سرحد کے دونوں جانب کام کر سکے۔
ماضی میں، پاکستان میں کچھ لوگ یہ دلیل دیتے رہے ہیں کہ انتہا پسندی کے خلاف جنگ سے انہیں کوئی مطلب نہیں ہے، اور پاکستان کے لیئے بہتر یہی ہے کہ وہ اس بارے میں لاتعلق رہے یا ان لوگوں کے ساتھ تصفیہ کر لے جو تشدد استعمال کرتے ہیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں، جب کراچی سے اسلام آباد تک بے گناہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں، یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ انتہا پسندی سے سب سے زیادہ خطرہ پاکستان کے لوگوں کو ہے ۔ عوام کی رائے تبدیل ہو چکی ہے ۔ پاکستان کی فوج نے سوات میں، اور جنوبی وزیرستان میں جنگی کارروائی کی ہے ۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور پاکستان دونوں کو ایک مشترک دشمن کا سامنا ہے ۔
ماضی میں ہم نے اکثر پاکستان کے ساتھ اپنے تعلق کو ایک تنگ زاویے سے دیکھا ہے ۔ وہ دِن ختم ہو چکے ہیں۔ آگے کی طرف بڑھتے ہوئے، ہم نے پاکستان کے ساتھ ایسی شراکت داری کا عہد کیا ہے جس کی بنیاد ایک دوسرے کے مفاد، باہم احترام اور باہم اعتماد پر قائم ہے ۔ ہم ان گروپوں کو نشانہ بنانے کے لیئے جن سے ہمارے ملکوں کو خطرہ ہے، پاکستان کی صلاحیت کو مضبوط بنائیں گے، اور ہم نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ ہم ایسے دہشت گردوں کے لیئے محفوظ پناہ گاہ برداشت نہیں کر سکتے، جن کے بارے میں ہمیں علم ہے کہ وہ کہاں موجود ہیں، اور جن کی عزائم واضح ہیں ۔ پاکستان کی جمہوریت اور اقتصادی ترقی کے لیئے بھی امریکہ بھاری وسائل فراہم کر رہا ہے ۔ لڑائی کی وجہ سے جو پاکستانی بے گھر ہوئے ہیں، ان کی مدد کرنے والوں میں ہمارا حصہ سب سے زیادہ ہے ۔ اور آگے کی طرف دیکھتے ہوئے، پاکستان کے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ لڑائی ختم ہونے کے کافی عرصے بعد بھی، امریکہ پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کا زبردست حامی رہے گا، تا کہ پاکستان کے لوگوں کی اعلیٰ صلاحیتیں بروئے کار لائی جا سکیں۔
ہماری حکمت عملی کے تین بنیادی عناصر یہ ہیں: تبدیلی کے لیئے ساز گار حالات پیدا کرنے کی غرض سے فوجی کوشش؛ سویلین امداد میں اضافہ جس سے مثبت اقدام کو مضبوط بنایا جا سکے؛ اور پاکستان کے ساتھ موئثر شراکت داری۔
مجھے احساس ہے کہ ہم نے جو طریقہ اپنایا ہے اس کے بارے میں مختلف قسم کی تشویش موجود ہے۔ میں مختصراً ان چند زیادہ نمایاں دلائل کے بارے میں بات کروں گا جو میں نے سنے ہیں اور جنہیں میں بہت سنجیدگی سے لیتا ہوں۔
اول تو وہ لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ افغانستان ہمارے لیئے ایک اور ویتنام ثابت ہوگا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اسے مستحکم نہیں کیا جا سکتا، اور بہتر یہ ہوگا کہ ہم وہاں سے تیزی سے نکل آئیں اور اپنے نقصانات کم کر لیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دلیل تاریخ کے غلط مطالعے پر مبنی ہے ۔ ویتنام کے بر عکس، افغانستان میں 43 ملک ہمارے اقدام کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ ویتنام کے بر عکس، ہمیں وسیع البنیاد عوامی بغاوت کا سامنا نہیں ہے ۔ اور اہم ترین بات یہ ہے کہ ویتنام کے برعکس، افغانستان سے امریکی عوام پر شر انگیز حملہ کیا گیا تھا، اور وہ اب بھی ان انتہا پسندوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں جو افغانستان کی سرحدوں کے قریب سے امریکہ کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ اس علاقے کو اس وقت چھوڑ دینے ، اور القاعدہ کے خلاف اپنی کوششیں دور فاصلے سے جاری رکھنے سے، القاعدہ کے خلاف دباؤ ڈالنے کی ہماری صلاحیت بری طرح متاثر ہو گی ، اور ہماری سرزمین اور ہمارے اتحادیوں پر مزید حملوں کا خطرہ نا قابلِ قبول حد تک بڑھ جائے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم افغانستان کو اس کی موجودہ صورت حال میں چھوڑ کر یہاں سے نہیں جاسکتے، لیکن ان کا خیا ل ہے کہ ہم انہی فوجیوں کے ساتھ، جو ہمارے پاس پہلے سے ہیں ،اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ لیکن اس سے صورت حال ویسی کی ویسی ہی رہے گی جیسی کہ اس وقت تھی جب ہم نے یہاں مداخلت کی تھی، اور جس کے نتیجے میں یہاں کے حالات بتدریج بگڑتے چلے جائیں گے۔ اور اس طرح بالآخر افغانستان میں ہمارا قیام مزید مہنگا اور طویل تر ثابت ہوگا، کیونکہ ہم کبھی بھی ایسے حالات پیدا نہیں کرسکیں گے جو افغان سیکیورٹی فورسز کی تربیت اور انہیں اپنی ذمہ داریاں خود سنبھالنے کے لیے درکار ہیں ۔
آخری بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو افغانستان کو ذمہ داریوں کی منتقلی کے لیے کسی نظام الاوقات کے تعین کے مخالف ہیں۔ درحقیقت ، کچھ تو ہماری جنگی کوشش میں ایک زیادہ ڈرامائی اور بے محابہ اضافہ چاہتے ہیں۔۔ جو ہمیں ایک عشرے تک ایک قومی تعمیر کے پراجیکٹ سے وابستہ رکھے گا۔ میں اس طریقے کو مسترد کرتا ہوں کیونکہ یہ ایسے اہداف متعین کرتا ہے جنہیں معقول اخراجات کے ساتھ حاصل کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ اور نہ ہی انہیں حاصل کرنا ہمارے مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ ذمہ داریوں کی منتقلی کے لیے کسی لائحہ عمل کے نہ ہونے سے اس احساس کی نفی ہوگی کہ ہمیں افغان حکومت کے ساتھ اپنا کام تیزی سے مکمل کرنا ہے۔یہ واضح ہونا چاہیے کہ افغانوں کو اپنی سیکیورٹی کی ذمہ داری خود سنبھالنا ہوگی اور یہ کہ امریکہ کو افغانستان میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ لڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
صد ر کی حیثیت سے میں ایسے مقاصد متعین کرنے سے انکار کرتا ہوں جو ہماری ذمہ داری ، ہمارے وسائل یا ہمارے مفادات سے بالاتر ہوں ۔ مجھے ان تمام چیلنجوں کو اہمیت دینا ہو گی جو ہماری قوم کو درپیش ہیں ۔ اور میں کسی ایک ہی چیلنج پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ صدر آئزن ہاور کے یہ الفاظ میرے ذہن میں رہتے ہیں جنہوں نے ۔۔ہماری قومی سلامتی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا ،ہر تجویزپر ایک وسیع تر تناظر میں غور کیا جانا چاہیے ،یعنی قومی پروگرامو ں میں اور ان کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
پچھلے کئی برسوں میں ہم اس توازن کو کھو چکے ہیں ۔ ہم اپنی قومی سلامتی اور اپنی معیشت کے درمیان تعلق کی اہمیت سمجھنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اقتصادی بحران کی زد میں آ کر ، ہمارے بہت سے پڑوسی اور دوست روزگار کھو چکے ہیں اور وہ اپنے بلوں کی ادائیگی کے لیے جدو جہد میں مصروف ہیں ۔ بہت سے امریکی اپنے بچوں کے سامنے موجود مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں ۔اسی دوران ، عالمی معیشت میں مسابقت بے تحاشہ بڑھ گئی ہے۔اس لیے ہم ان جنگوں پر اٹھنے والے اخراجات کو آسانی سے نظر انداز نہیں کر سکتے۔
بہر طور ، جب میں نے اپنا منصب سنبھالا تو عراق اور افغانستان کی جنگوں میں اٹھنے والے اخراجات ایک کھرب ڈالر تک پہنچ چکے تھے ۔ اب آگے بڑھتے ہوئے ، میں ان اخراجات سے کھلے طور پر اور دیانتداری کے ساتھ نمٹنے کا عزم رکھتا ہوں ۔ افغانستان میں ہمارے نئے لائحہ عمل سے امکان ہے اس سال فوج پر ہمارے لگ بھگ 30 ارب ڈالر خرچ ہوں گے ، او رمیں کانگریس کے ساتھ اس وقت ان اخراجات سے نمٹنے کےلیے قریبی طور پر کام کروں گا جب ہم اپنے خسارے کو کم کرنے پر غور و فکر کریں گے ۔
لیکن اب جب ہم عراق میں جنگ ختم کر رہے ہیں اور افغانستان میں ذمہ داری سنبھال رہے ہیں ، ہمیں یہاں اپنے ملک کو پھر سے مضبوط بنانا ہو گا ۔ ہماری خوشحالی ہماری طاقت کی بنیاد ہے۔ اس کی بدولت ہم اپنی فوج کے اخراجات اٹھاتے ہیں ۔ یہ ہماری سفارت کاری کی ضامن ہے ۔ یہ ہمارے لوگوں کی صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے اور اس کی بدولت نئی نئی صنعتوںمیں سرمایہ کاری ممکن ہوتی ہے ۔ اور اسی کی مدد سے ہم اس صدی میں اتنی کامیابی سے مسابقت کر سکیں گے جتنی کہ ہم نے گزشتہ صدی میں کی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں فوجیوں کے لیے ہماری وابستگی غیر محدود پیمانے کی نہیں ہو سکتی ۔۔۔کیوں کہ میں جس ملک کی تعمیر میں سب سے زیادہ دلچسپی رکھتا ہوں وہ ہمارا اپنا ملک ہے ۔
میں یہ بات صاف صاف کہنا چاہتا ہوں کہ ان میں سے کوئی بھی کام آسان نہیں ہو گا۔ متشدد انتہا پسندوں کے خلاف جدو جہد جلد ختم نہیں ہو گی، اور یہ افغانستان اور پاکستان سے کہیں آگے تک جاتی ہے ۔یہ ہمارے آزاد معاشرے اور دنیا میں ہماری قیادت کا ایک صبر آزما امتحان ہو گا۔ اور بڑی طاقتوں کے تنازعوں اور تقسیم کی ان واضح لائنوں کے برعکس جو بیسویں صدی کاخاصہ تھے ، ہماری جدو جہد کا دائرہ انتشار زدہ خطوں ، ناکام ریاستوں اور بکھرے ہوئے دشمنوں پر محیط ہو گا۔
اس لیے نتیجتاً امریکہ کو اپنی طاقت کا مظاہرہ اس انداز میں کرنا ہو گا کہ ہم جنگیں ختم کریں اور تنازعوں کا سد باب کریں ۔۔۔ نہ کہ صرف اس طرح کہ ہم کس طرح جنگیں کرتے ہیں۔ہمیں اپنی فوجی طاقت کا استعمال درستگی کے ساتھ اور بھر پور طریقے سے کرنا ہو گا ۔ القاعدہ اور اس کے اتحادی جہاں کہیں اپنے قدم جمانے کی کوشش کریں ۔۔۔چاہے وہ صومالیہ ہو یا یمن یا کوئی اور جگہ ۔۔۔ ان کا مقابلہ مزید دباؤ اور مضبوط شراکت داری کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔
اور اب ہم صرف فوجی قوت پر انحصار نہیں کرسکتے ۔ ہمیں اپنے وطن کی سلامتی پربھی سرمایہ کاری کرنا ہوگی کیوں کہ ہم سمندر پار ہر متشد د انتہاپسند کو پکڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ہلاک کرسکتے ہیں۔ہمیں اپنی انٹیلی جینس کوبھی بہتر اور زیادہ مربوط بنانا ہوگا تاکہ ہم پوشیدہ نیٹ ورکس سے ایک قدم آگے رہ سکیں۔
ہمیں وسیع تباہی کے ہتھیاروں کو ختم کرنا ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ میں نے قدرے آسانی سے دستیاب ہونے والے جوہری مواد کو دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے سے بچانے، جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤکوروکنے اوردنیا کو جوہری ہتھیاروں سے محفوظ بنانے کو اپنی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون بنایا ہے۔ ۔۔ کیونکہ ہر قوم کو یہ سمجھنا چاہے کہ صحیح معنوں میں سیکیورٹی پہلے سے کہیں زیادہ تباہ کن ہتھیاروں کی نہ ختم ہونے والی دوڑ سے کبھی حاصل نہیں ہوگی بلکہ حقیقی سیکیورٹی ان لوگوں کا مقدر بنے گی جو انہیں مسترد کریں گے۔
ہمیں سفارت کاری سے کام لینا ہوگا کیونکہ کوئی ایک واحد قوم ایک باہم مربوط دنیا کے چیلنجوں کا مقابلہ تن تنہا نہیں کرسکتی۔ میں نے یہ سال اپنے اتحادوں کی تجدید اور نئی شراکت داریاں قائم کرنے میں گذرا ہے۔ اور ہم نے امریکہ اور مسلم دنیا کے درمیان ایک نئی شروعات کی ہے۔ جس میں تنازعوں کا ایک سلسلہ ختم کرنے کے لیے باہمی دلچسپی کو پیش نظر رکھا گیا ہےاور جو ایسے مستقبل کی ضمانت دیتی ہے جس میں بے گناہوں کا خون بہانے والوںکو امن، خوشحالی اور انسانی وقار کے لیے ڈٹ جانے والے الگ تھلگ کردیں ۔
اور آخری بات یہ کہ ہمیں اپنی اقدار سے تقویت حاصل کرنی چاہیے۔۔۔ کیونکہ ہمیں جن چیلنجوں کا سامنا ہے، وہ بدل سکتے ہیں لیکن ہمارے عقائد نہیں بدلتے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے ملک میں ان اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے انہیں فرو غ دینا چاہیے۔۔۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں نے اذیت رسانی پر پابندی لگا دی ہے اور میں گوانتاناموبے کا قیدخانہ بند کردوں گا۔ اور ہمیں دنیا بھر کے ہر مرد، عورت اور بچےپر، جو ظلم و استبداد کی تاریکیوں میں زندگی گزار رہاہے ، یہ واضح کردینا چاہیے کہ امریکہ ان کے انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھائے گا اور وہ تمام لوگوں کے لیے آزادی، انصاف، مواقع اور وقار کے احترام کے لیے کام کرے گا۔ ہم اصل میں یہ ہیں۔ اور امریکہ کی حاکمیت کا یہی منبع ہے ، اخلاقی منبع۔
فرینک لین روز ویلٹ کے زمانے سے، ہمارے آباؤ اجداد کی خدمات اور قربانیوں کے ذریعے ہمارے ملک نے عالمی معاملات کا ایک خصوصی بوجھ برداشت کیا ہے۔ کئی براعظموں کے کئی ملکوں میں امریکیوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ہم نے دوسرے ملکوں میں ملبوں کے ڈھیروں کی تعمیر نواور ان کی معیشتوں کی ترقی میں مدد کے لیے اپنے ٹیکسوں کی آمدنی صرف کی ہے۔ ہم نے دیگر اقوام کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ سے لے کر نیٹو اورعالمی بینک تک، اداروں کا ایک ایسا نظام قائم کیا ہے جو نوع انسانی کی مشترکہ سیکیورٹی اور خوش حالی میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
ہم نے جو یہ کوششیں کی ہیں، ایسا نہیں ہوا کہ ہمیشہ ہی ان کے لیئے ہمارا شکریہ ادا کیا گیا ہو، اور ہم سے کبھی کبھی غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔لیکن کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں، امریکہ نے چھہ عشروں سے زیادہ عرصے تک دنیا کی سلامتی کی ضمانت دی ہے۔ یہ وہ دور ہے جس میں تمامتر مسائل کے باوجود، دنیا نے دیواریں گرتی دیکھی ہیں، منڈیاں کھلی ہیں، اربوں لوگ غربت کے چنگل سے نکلے ہیں، بے مثال سائنسی ترقی ہوئی ہے، اور انسانی آزادی کی سرحدیں وسیع ہوئی ہیں،
ماضی کی بڑی طاقتوں کے برعکس ، ہم نے دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ ہماری یونین استبداد کی مزاحمت پر قائم ہوئی تھی ۔ ہم دوسرے ملکوں پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے ۔ ہم کسی دوسرے ملک کے وسائل پر اپنا حق نہیں جتائیں گے ، ہم دوسرے لوگوں کو اس لیے نشانہ نہیٕں بنائیں گے کہ وہ ہم سے مختلف عقائد یا نسل کے لوگ ہیں ۔ ہم جس چیز کےلیے لڑ چکے ہیں ۔۔ ہم جس چیز کے لیے لڑتے رہیں گے ۔۔ وہ ہے ہمارے بچوں کا بہتر مستقبل۔ اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ان کی زندگیاں صرف اس صورت میں بہتر ہوں گی اگر دوسرے لوگوں کے بچے اور ان بچوں کی اولادیں آزادی کے ساتھ رہ سکیں اور انہیں مواقع فراہم ہو سکیں ۔
ایک ملک کے طور پر ، ہم اتنے جوان نہیں ہیں اور شاید اتنے معصوم نہیں ہیں جتنے ہم اس وقت تھے جب روزویلٹ صدر تھے ۔ تاہم پھر بھی ہم آزادی کے لیے ایک اعلیٰ جدو جہد کے امین ہیں۔ اور اب ہمیں ایک نئے دور کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور اخلاقی اقدار کو بروئے کار لانا ہو گا ۔
آخری بات یہ کہ ہماری سیکیورٹی اور قیادت کا ماخذ صرف ہمارا اسلحہ نہیں ہے۔۔ ۔ اس کا ماخذ ہمارے لوگ ہیں۔۔۔ وہ کارکن اور تاجر جو ہماری معیشت کی تعمیر نو کریں گے;وہ کاروباری لوگ اور محقق جو نئی صنعتیں لگائیں گے ; وہ اساتذہ جو ہمارے بچوں کو تعلیم دیں گے ; اور وہ محنت کش جو ہمارے ملک کی کمیونٹیز میں کام کرتے ہیں ; وہ سفارت کار اور پیس کورز کے رضاکار جو دنیا بھر میں امید پھیلاتے ہیں ; اور یونیفارم میں ملبوس وہ مرد اور خواتین جو قربانیوں کے اس نہ ٹوٹنے والے سلسلے کا ایک حصہ ہیں جس کے باعث ا س کرہ ارض پر لوگوں کے لیے، لوگوں کی حکومت لوگوں کے ذریعے ایک حقیقت بنی ۔
گوناگو ں نسلوں ،عقائد اور ملکوں کے لوگوں پر مشتمل یہ متنوع اور عظیم قوم ہر مسئلے پر ہمیشہ متفق نہیں ہو گی ۔۔ نہ ہی اسے ہونا چاہیے۔ لیکن میں یہ بھی جانتاہوں کہ ،ایک ملک کے طور پر ہم اپنی قیادت اس وقت تک برقرار نہیں رکھ سکتے اور اپنے دور کے ان اہم چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے جب تک ہم خود کو اس عداوت اور بد اعتمادی اور تعصب سے الگ نہیں کر لیتے جس نے حالیہ عرصے میں ہمارے قومی بحث مباحثے کو تلخی سے بھر دیا تھا ۔
یہ فراموش کرنا آسان ہے کہ جب یہ جنگ شروع ہوئی تو ہم متحد تھے ۔۔۔ ایک ہولناک حملے کی تازہ یاد نے، اور اپنی سر زمین اور اپنی عزیز اقدار کے دفاع کے عزم نے ہم سب کو ایک کر دیا تھا۔میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ ہمارے درمیان وہ ہم آہنگی دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتی۔ مجھے روح کی گہرائیوں سے یقین ہے کہ ہم ۔۔۔امریکی ہونے کے ناطے ۔۔۔ اب بھی کسی مشترکہ مقصد کے حصول کے لیےمتحد ہو سکتے ہیں ۔کیوں کہ ہماری اقدارصرف کاغذ پر تحریر سادہ الفاظ نہیں ہیں۔۔۔ وہ عقائد کا ایک مجموعہ ہیں جو ہم سب کو ایک بندھن میں پروتا ہے اور جس نے ہمیں ہماری تاریخ کے سیاہ ترین ادوار میں بھی ایک ملک اور ایک قوم کی حیثیت سے متحد رکھا ہے
امریکہ ۔۔۔ ہم ایک بڑے آزمائشی دور سے گزر رہے ہیں۔ اور ان طوفانوں کے درمیان سے ہم یہ واضح پیغام بھیج رہے ہیں کہ ہمارا نصب العین انصاف ہے ، ہماراعزم غیر متزلزل ہے ۔ ہم اس اعتماد کے ساتھ کہ جیت ہمیشہ حق کی ہوتی ہے اور اس عہد کے ساتھ آگے بڑھیں گے کہ ہم ایک ایسا امریکہ تعمیر کریں گے جو پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گا ، ایک ایسی دنیاتعمیر کریں گے جو پہلے سے زیادہ مستحکم ہو گی اور ایک ایسا مستقبل تشکیل دیں گے جہاں خوف کی اتھاہ گہرائیاں نہیں بلکہ امید کی روشن کرنیں ہر سو اجالا بکھیریں گی ۔
شکریہ ۔خدا آپ کا حامی و ناصر ہو ۔خدا ریاستہائے متحدہ امریکہ کو اپنی برکتوں سے نوازے ۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
افغانستان اور پاکستان میں پیش قدمی کا راستہ
امریکہ کے کور آف کیڈٹس،ہماری مسلح افواج میں شامل مرد اور عورتیں، اور میرے امریکی ہم وطنو: آج رات میں آپ کو افغانستان میں امریکہ کی کوششوں کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں ۔ وہاں ہم نے جس کام کا بیڑا اٹھایا ہے اس کی نوعیت کیا ہے، وہاں ہمارے مفادات کا دائرہ کیا ہے، اور اس جنگ کو کامیابی سے اختتام تک پہنچانے کے لیئے میری انتظامیہ کیا حکمت عملی اختیار کرے گی۔ یہاں ویسٹ پوائنٹ میں ، جہاں اتنے سارے مردوں اور عورتوں نے ہماری سلامتی کی حفاظت کے لیئے تیاری کی ہے، اور ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین اقدار کی نمائندگی کا بیڑا اٹھایا ہے، ان معاملات پر اظہارِ خیال کرنا میرے لیئے غیر معمولی اعزاز کی بات ہے۔
ان اہم معاملات پر بات کرنے کے لیئے ، یہ یاد کرنا ضروری ہے کہ امریکہ اور ہمارے اتحادی آخر افغانستان میں جنگ لڑنے پر کیوں مجبور ہوئے۔ یہ لڑائی ہمارے کہنے پر شروع نہیں ہوئی۔ 11 ستمبر، 2001 کو، انیس افراد نے چار ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کیا اور انہیں تقریباً 3,000 افراد کو قتل کرنے کے لیئے استعمال کیا۔ انھوں نے ہمارے اہم ترین فوجی اور اقتصادی مراکز پر ضرب لگائی۔ انھوں نے مذہب، نسل یا زندگی میں کسی کے مقام کا لحاظ کیئے بغیر، بے گناہ مردوں ، عورتوں اور بچوں کی جانیں لیں۔ اگر ان میں سے ایک جہاز پر سوار مسافروں نے بے مثال جرأت کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا، تو یہ لوگ ہماری جمہوریت کی ایک عظیم علامت کو نشانہ بنا سکتے تھے اور مزید بہت سے لوگوں کو ہلاک کر سکتے تھے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ان لوگوں کا تعلق القاعدہ سے تھا ۔۔ یہ انتہا پسندوں کا ایک گروپ ہے جس نے بے گناہ لوگوں کو ذبح کرنے کا جواز پیدا کرنے کے لیئے، دنیا کے ایک عظیم مذہب، اسلام کومسخ کیا ہے اور اس کے تقدس کو پامال کیا ہے ۔القاعدہ کی کارروائیوں کا مرکز افغانستان میں تھا، جہاں طالبان نے انہیں پناہ دی تھی۔ طالبان ایک بے رحم، ظالمانہ اور انتہا پسند تحریک ہے جس نے ایسے وقت میں جب افغانستان برسوں تک سوویت قبضے اور خانہ جنگی سے تباہ ہو چکا تھا، اور جب امریکہ اور ہمارے دوستوں کی توجہ کسی اور طرف ہو گئی تھی، اس ملک پر قبضہ کر لیا۔
نائن الیون کے چند دِن بعد ہی، کانگریس نے القاعدہ اور ان کو پناہ دینے والوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی منظوری دے دی۔ یہ منظوری آج بھی موجود ہے۔ سینیٹ میں 98 ووٹ اس کے حمایت میں آئے اور مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔ ایوانِ نمائندگان میں 420 ووٹ حمایت میں اور ایک ووٹ مخالفت میں آیا۔ تاریخ میں پہلی بار، نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن نے آرٹیکل 5 کو استعمال کیا جس میں کہا گیا ہے کہ کسی ایک رکن ملک پر حملہ تمام رکن ممالک پر حملہ سمجھا جائے گا۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے نائن الیون کے حملوں کے جواب میں تمام ضروری اقدامات کی منظوری دی۔ امریکہ، ہماری اتحادی ممالک، اور پوری دنیا ، القاعدہ کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے اور ہماری مشترکہ سیکورٹی کی حفاظت کے لیئے متحد ہو گئی۔
اس داخلی اتحاد کے جھنڈے تلے، اور بین الاقوامی طور پر جائز اور قانونی قرار دیے جانے کے بعد، اور طالبان کے اسامہ بن لادن کو ہمارے حوالے کرنے سے انکار کے بعد ہی، ہم نے اپنی فوجیں افغانستان میں بھیجیں۔ چند مہینوں میں ہی، القاعدہ منتشر ہو گئی اور اس کے بہت سے کارندے ہلاک کر دیے گئے۔ طالبان کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا، اور فرار ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ ایک ایسی جگہ جو کئی عشروں سے خوف کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی، اب وہاں امید کی روشنی نظر آنےلگی۔ اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام ایک کانفرنس میں صدر حامد کرزئی کے تحت ایک عبوری حکومت قائم کر دی گئی۔ اورجنگ سے تباہ حال ملک میں پائیدار امن قائم کرنے کے لیئے، ایک انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس قائم ہوئی۔
پھر 2003 کے شروع میں، عراق میں ایک دوسری جنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ عراق کی جنگ کے بارے میں جو ہنگامہ خیز بحث ہوئی، اس سے سب واقف ہیں اور یہاں اسے دہرانا غیر ضروری ہو گا۔ اتنا کہنا کافی ہو گا کہ اگلے چھہ برسوں تک ہماری فوجوں، ہمارے وسائل، ہماری سفارتکاری، اور ہمارے ملک کی توجہ کا بہت بڑا حصہ، عراق کی جنگ کے لیئے وقف ہو گیا۔۔اور عراق میں مداخلت کے فیصلے کی وجہ سے امریکہ اور دنیا کے بہت سے ملکوں کے درمیان تعلقات میں خاصہ بڑا رخنہ پیدا ہو گیا۔
آج، بہت بھاری قیمت ادا کرنے کے بعد، ہم نے عراق میں پیش رفت کی ایک راہ تلاش کر لی ہے۔ جیسا کہ میں نے اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے اور اس کے بعد وعدہ کیا تھا، ہم عراق کی جنگ کو ذمہ دارانہ انداز سے اختتام تک پہنچا رہے ہیں۔ ہم اپنی جنگی بریگیڈز کو اگلی گرمیوں تک عراق سے ہٹا لیں گے، اور اپنی تمام فوجوں کو 2011 تک واپس لے آئیں گے۔ ہم یہ سب کچھ اپنے با وردی مردوں اور عورتوں کے اعلیٰ کردار کی وجہ سے کر سکے ہیں۔ (تالیاں)۔ ان کی جرأت ، ثابت قدمی اور استقامت کی بدولت، ہم نے عراقیوں کو اپنا مستقبل خود بنانے کا موقع دیا ہے، اور ہم عراق کو کامیابی سے اس کے عوام کے حوالے کرنے کے بعد، وہاں سے رخصت ہو رہے ہیں۔
لیکن اگرچہ ہم نے عراق میں بڑی سختیاں جھیلنے کے بعد شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں، افغانستان میں صورتِ حال مزید خراب ہو گئی ہے ۔ 2001 اور 2002 میں فرار ہونے کے بعد سرحد پار پاکستان میں، القاعدہ کی قیادت نے وہاں ایک محفوظ پناہ گاہ قائم کر لی۔ اگرچہ افغان عوام نے قانونی طور پر ایک جائز حکومت منتخب کی، لیکن کرپشن، منشیات کے کاروبار، پسماندہ معیشت، اور نا کافی سیکورٹی فورسز کی وجہ سے ، وہ اپنا کام نہیں کر سکی ہے۔
گذشتہ کئی برسوں کے دوران، طالبان نے القاعدہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے، اور دہ دونوں افغان حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔ طالبان نے بتدریج افغانستان کے بعض حصوں پر کنٹرول قائم کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان کے لوگوں کے خلاف روز بروز زیادہ دیدہ دلیری سے دہشت گردی کی تباہ کن کارروائیاں کر رہے ہیں۔
اس پورے عرصے کے دوران، افغانستان میں ہماری فوجوں کی سطح، عراق کے مقابلے میں بہت کم رہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب میں نے اپنا عہدہ سنبھالا، اس وقت افغانستان میں صرف 32,000 امریکی فوجی خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس کے مقابلے میں عراق کی جنگ کے عروج کے زمانے میں، وہاں ہمارے فوجیوں کی تعداد 160,000 تھی ۔افغانستان میں طالبان کے ایک بار پھر زور پکڑنے کے بعد کمانڈروں نے ان سے نمٹنے کے لیئے، بار بار مزید وسائل کی درخواست کی۔ لیکن ان کے لیئے کمک نہیں پہنچی۔یہی وجہ ہے کہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے تھوڑے دِن بعد ہی، میں نے مزید فوجیوں کی درخواست ، جو کافی عرصے سے التوا میں پڑی ہوئی تھی، منظور کر لی۔ اپنے اتحادیوں سے مشورے کے بعد، میں نے ا یک حکمت عملی کا اعلان کیا جس میں اس بات کو تسلیم کیا گیا تھا کہ افغانستان میں ہماری جنگی کوششوں، اور پاکستان میں انتہا پسندوں کی پناہ گاہوں کے درمیان بنیادی تعلق ہے ۔ میں نے ایک ہدف مقرر کیا جس کی محدود وضاحت ان الفاظ میں کی گئی تھی کہ ہمارا مقصد القاعدہ اور اس کے انتہا پسند اتحادیوں کو درہم برہم کرنا، اسے منتشر کرنا، اور شکست دینا ہے۔ میں نے امریکہ کی فوجی اور سویلین کارروائیوں کو بہتر طریقے سے مربوط کرنے کا عہد کیا ۔
اس کے بعد سے اب تک، ہم نے بعض اہم مقاصد کے حصول میں پیش رفت کی ہے ۔ القاعدہ اور طالبان کے اعلیٰ سطح کے لیڈر ہلاک کر دیے گئے ہیں، اور ہم نے ساری دنیا میں القاعدہ پر دباؤ بڑھا دیا ہے ۔پاکستان میں ، اس ملک کی فوج نے ، برسوں کے بعد ، اتنی بڑی کارروائی کی ہے۔ افغانستان میں ہم نے اور ہمارے اتحادیوں نے، طالبان کی صدارتی انتخاب کو روکنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا ۔ اگرچہ دھاندلی کی وجہ سے اس انتخاب کی قانونی حیثیت ماند پڑ گئی، لیکن انتخاب سے جو حکومت بنی ہے ، وہ افغانستان کے قوانین اور آئین کے مطابق ہے ۔
پھر بھی بہت سے چیلنج باقی ہیں۔ افغانستان کو ہم نے کھویا نہیں ہے، لیکن کئی برسوں سے وہ پیچھے کی طرف جا رہا ہے ۔ حکومت کا تختہ الٹے جانے کا کوئی فوری خطرہ نہیں ہے، لیکن طالبان نے زور پکڑ لیا ہے ۔ اگرچہ القاعدہ اتنی بڑی تعداد میں دوبارہ سامنے نہیں آئی ہے جتنی نائن الیون سے پہلے تھی، لیکن سرحد کے ساتھ ساتھ ان کی محفوظ پناہ گاہیں باقی ہیں۔ اور ہماری فورسز کے پاس مطلوبہ وسائل نہیں ہیں جن کے ذریعے وہ موئثر طریقے سے افغان سیکورٹی فورسز کو تربیت دے سکیں اور ان کے ساتھ شراکت داری قائم کر سکیں، اور آبادی کی بہتر طور سے حفاظت کرسکیں۔ افغانستان میں ہمارے نئے کمانڈر، جنرل مک کرسٹل نے بتایا ہے کہ سیکورٹی کی صورت حال ان کی توقع سے زیادہ خراب ہے ۔ حالات کو جوں کا توں نہیں رکھا جا سکتا۔
کیڈٹس کی حیثیت سے آپ نے اس خطرناک وقت میں اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کی ہیں۔ آپ میں سے بعض لوگ افغانستان میں لڑ چکے ہیں۔ بعض کی تعیناتی وہاں ہونی ہے ۔ آپ کے کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے، یہ میری ذمہ داری ہے کہ آ پ کو ایک واضح مشن دوں جو آپ کی خدمات کے شایانِ شان ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب افغانستان میں ووٹنگ مکمل ہو گئی، تو میں نے اصرار کیا کہ ہمیں اپنی حکمت عملی کا مکمل جائزہ لینا چاہیئے۔ اب میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں: میرے سامنے ایسی کوئی تجویز نہیں تھی جس کے تحت 2010 سے پہلے فوجوں کی تعیناتی ہونی تھی۔ چنانچہ جائزے کی اس مدت کے دوران، جنگ کے لیئے مطلوبہ وسائل کی فراہمی میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی ہے اور نہ ان کی فراہمی سے انکار کیا گیا ہے ۔بلکہ جائزے کے ذریعے مجھے بعض مشکل سوالات پوچھنے کا موقع ملا ہے، اور ہماری نیشنل سیکورٹی ٹیم، اور افغانستان میں ہماری فوجی اور سویلین قیادت اور اہم شراکت داروں کے ساتھ مل کر تمام متبادل راستوں کی چھان بین کا موقع ملا ہے ۔ اس معاملے میں جتنا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے، اس کی روشنی میں ، امریکی عوام اور ہمارے فوجیوں کو مجھ سے اس سے کم کسی چیز کی توقع نہیں کرنی چاہیئے۔
اب یہ جائزہ مکمل ہو چکا ہے۔ اور کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے، میں نے یہ تعین کیا ہے کہ 30,000 مزید امریکی فوجی افغانستان بھیجنا ہمارے قومی مفاد کے لیئے اہم ہے۔18 مہینوں کے بعد، ہماری فوجیں گھر واپس آنا شروع ہو جائیں گی ۔ حالات پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیئے، ہمیں ان وسائل کی ضرورت ہے۔ اس دوران ہم افغانستان کی اپنی صلاحیتوں کی تعمیر کریں گے تا کہ ہماری اپنی فوجیں افغانستان سے ذمہ دارانہ انداز میں نکل آئیں۔
میرے لیئے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا۔ میں نے عراق میں جنگ کی مخالفت ٹھیک اسی لیئے کی تھی کیوں میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں فوجی طاقت کے استعمال میں احتیاط سے کام لینا چاہیئے اور ہمیشہ یہ سوچنا چاہیئے کہ ہمارے افعال کے طویل المدت نتائج کیا ہوں گے۔ ہمیں جنگ لڑتے ہوئے اب آٹھ برس ہو چکے ہیں، اور ہمیں انسانی زندگی اور وسائل کی شکل میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے ۔ عراق کی جنگ اور دہشت گردی کے بارے میں برسوں سے جاری بحث نے قومی سلامتی کے بارے میں ہمارے اتحادکو پارہ پارہ کر دیا ہے اور اس کوشش کے لیئے انتہائی جانبدارانہ اور اختلافی ماحول پیدا کر دیا ہے ۔اور ہمیں عظیم کساد بازاری کے بعد پہلی بار جس بد ترین اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امریکی عوام کی توجہ ہماری اپنی معیشت کی تعمیرِ نو پر، اور ملک میں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے پر ہے ۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ یہ فیصلہ آپ سے مزید قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے۔۔ایسی فوج سے جس نے آپ کے گھرانوں سمیت پہلے ہی سب سے زیادہ بوجھ برداشت کیا ہے ۔۔ صدر کی حیثیت سے ، میں نے ہر ایسے امریکی کے گھرانے کے نام جس نے ان جنگوں میں اپنی زندگی کا نذرانہ دیا ہے، تعزیت کے خط پر دستخط کیئے ہیں۔ میں نے جنگوں پر بھیجنے جانے والے افراد کے والدین اور شریکِ زندگی کے خط پڑھے ہیں۔ میں والٹر ریڈ جا کر اپنے زخمی ہونے والے بہادر سپاہیوں سے مِلا ہوں ۔میں نے Dover کا سفر کیا ہے اور میں امریکی پرچم میں لپٹے ہوئے ان 18 امریکیوں کے تابوتوں کی آمد کے وقت موجود تھا جو اپنی آخری آرامگاہ پر جانے کے لیئے واپس آئے تھے۔میں نے اپنی آنکھوں سے جنگ کے ہولناک اثرات دیکھے ہیں۔ اگر میں یہ نہ سمجھتا کہ افغانستان میں امریکہ کی سلامتی اور امریکہ کے لوگوں کی حفاظت داؤ پر لگی ہوئی ہے، تو میں بخوشی اپنے ہر فوجی کی کل ہی واپسی کا حکم دے دیتا ۔
تو پھر میرے لیئے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا۔ میں یہ فیصلہ اس لیئے کر رہا ہوں کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں ہماری سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے ۔ القاعدہ جس متشدد انتہاپسندی پر عمل کرتی ہے، یہ علاقہ اس کا مرکز ہے ۔ ہم پر نائن الیون کا حملہ یہیں سے ہوا تھا، اور یہی وہ جگہ ہے جہاں سے اس وقت جب میں تقریر کر رہا ہوں، نئے حملوں کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ یہ کوئی خالی خولی خطرہ نہیں ہے، کوئی فرضی دھمکی نہیں ہے۔ صرف گذشتہ چند مہینوں میں ہی، ہم نے اپنی سرحدوں کے اندر ایسے انتہا پسندوں کو پکڑا ہے جنہیں یہاں دہشت گردی کی نئی کارروائیوں کے لیئے ، افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں سے بھیجا گیا تھا۔ اور یہ خطرہ بڑھتا ہی جائے گا اگر اس علاقے میں حالات کو مزید خراب ہونے دیا جاتا ہے اور القاعدہ دیدہ دلیری سے اپنی کارروائیاں کر سکتی ہے ۔ ہمیں القاعدہ پر دباؤ قائم رکھنا چاہیئے، اور ایسا کرنے کے لیئے، ہمیں علاقے میں اپنے شراکت داروں کے استحکام اور ان کی صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہیئے۔
یہ صحیح ہے کہ ہم اکیلے یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ صرف امریکہ کی جنگ نہیں ہے ۔ نائن الیون کے بعد سے اب تک، القاعدہ کی محفوظ پناہ گاہیں ، لندن، عمان، اور بالی کے خلاف حملوں کا ذریعہ رہی ہیں۔ افغانستان اور پاکستان، دونوں ملکوں کے عوام اور حکومتیں خطرے میں ہیں۔ نیوکلیئر اسلحہ سے لیس پاکستان میں، خطرات اور بھی زیادہ ہیں کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ القاعدہ اور دوسرے انتہا پسند نیوکلیئر ہتھیار حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور ہمارے پاس یہ سمجھنے کی وجوہ موجود ہیں کہ وہ انہیں ضرور استعمال کریں گے ۔
اِن حقائق کی روشنی میں، ہم اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ مِل کر کارروائی کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارا اولین اور بنیادی مقصد اب بھی وہی ہے: افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ کو درہم برہم کرنا، منتشر کرنا اور شکست دینا، مستقبل میں امریکہ اور ہمارے اتحادیوں کو دھمکی دینے کے صلاحیت حاصل کرنے سے روکنا۔
اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیئے، ہم افغانستان میں مندرجہ ذیل مقاصد کے حصول کی کوشش کریں گے۔ ہمیں القاعدہ کو محفوظ پناہ گاہ سے محروم کرنا چاہیئے ۔ہمیں طالبان کا زور توڑنا چاہیئے، اور انہیں حکومت کا تختہ الٹنے کی صلاحیت سے محروم کر دینا چاہیئے۔ اور ہمیں افغانستان کی سیکورٹی فورسز اور حکومت کی صلاحیت کو مضبوط بنانا چاہئیے تا کہ وہ افغانستان کے مستقبل کی ذمہ داری قبول کرنے میں پہل کر سکیں۔
ہم یہ مقاصد تین طریقوں سے حاصل کریں گے۔ اول یہ کہ ہم ایسی فوجی حکمت عملی پر عمل کریں گے جس سے طالبان کا زور ٹوٹ جائے گا اور اگلے 18مہینوں میں افغانستان کی صلاحیت میں اضافہ ہو جائے گا۔
میں جن 30,000 مزید فوجیوں کا اعلان کر رہا ہوں، وہ 2010 کے پہلے حصے میں تعینات کر دیے جائیں گے۔ یہ رفتار سب سے زیادہ ہے ، تا کہ وہ بغاوت کو نشانہ بنا سکیں اور آبادی کے اہم مراکز کو محفوظ کر سکیں۔ وہ افغان سیکیورٹی فورسز کو تربیت دینے کی ہماری صلاحیت کو بہتر بنائیں گے اور ان کے ساتھ شراکت داری قائم کریں گے تا کہ اور زیادہ افغان لڑائی میں شامل ہو سکیں۔ اور وہ ایسے حالات پیدا کرنے میں مدد دیں گے جن میں امریکہ یہ ذمہ داری افغانوں کو منتقل کر دے ۔
چونکہ یہ بین الاقوامی کوشش ہے، اس لیئے میں نے کہا ہے کہ ہماری ذمہ داری میں ہمارے اتحادی بھی شرکت کریں۔ بعض نے پہلے ہی مزید فوجی فراہم کر دیے ہیں، اور مجھے اعتماد ہے کہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں مزید مدد فراہم کی جائے گی۔ ہمارے دوستوں نے افغانستان میں ہمارے ساتھ مِل کر جنگ کی ہے، اپنا خون بہایا ہے اور اپنی جانیں دی ہیں۔ اب ہمیں اس جنگ کو کامیابی سے ختم کرنے کے لیئے اکٹھے ہونا چاہیئے۔ کیوں اب جو داؤں پر لگا ہوا ہے، وہ صرف نیٹو کی ساکھ اور اس کا اعتبار ہی نہیں ہے، بلکہ اب ہمارے اتحادیوں کی سیکورٹی، اور دنیا کی مشترکہ سیکورٹی داؤ پر لگی ہوئی ہے ۔
لیکن اگر ملا کر دیکھا جائے، تو یہ اضافی امریکی اور بین الاقوامی فوجی یہ ممکن کر دیں گے کہ ہم زیادہ تیزی سے ذمہ داری افغان فورسز کو منتقل کر دیں، اور 2011 میں جولائی کے مہینے سے اپنی فوجوں کو افغانستان سے نکالنے کا عمل شروع کر دیں۔ جیسا کہ ہم نے عراق میں کیا ہے، ہم تبدیلی کا یہ عمل ذمہ داری کے ساتھ شروع کریں گے اور زمینی حقائق کو سامنے رکھیں گے۔ ہم افغانستان کی سیکورٹی فورسز کو مشورہ اور مدد دینے کا عمل جاری رکھیں گے تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ طویل مدت میں کامیاب ہو سکیں۔لیکن افغان حکومت پر واضح ہو جائے گا ۔۔اور اس سے بھی اہم یہ بات ہے کہ افغانستان کے لوگوں کو پتہ چل جائےگا ، کہ بالآخر اپنے ملک کی ذمہ داری خود انہیں کو اٹھانی ہو گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم اپنے شراکت داروں ، اقوامِ متحدہ، اور افغان عوام کے ساتھ مِل کر ، زیادہ موئثر سویلین حکمت عملی اختیار کریں گے تا کہ حکومت بہتر سیکورٹی کا فائدہ اٹھا سکے۔
اس کوشش کی بنیاد کارکردگی پر ہو گی۔ سادہ چیک دینے کے دِن ختم ہو چکے ہیں۔ صدر کرزئی کی صدارت کی افتتاحی تقریر نے ایک نئی سمت میں سفر کرنے کا صحیح پیغام دیا۔اور آگے کی طرف بڑھتے ہوئے، ہم یہ بات واضح کر دیں گے کہ جو لوگ ہم سے مدد لیتے ہیں، ان سے ہم کِن چیزوں کی توقع کرتے ہیں۔ ہم افغان وزارتوں، گورنروں، اور مقامی لیڈروں کی حمایت کریں گے جو بد عنوانیوں کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور عوام کے مفاد میں کام کرتے ہیں۔ ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ جو لوگ غیر موئثر یا بد عنوان ہیں، ان کی جوابدہی کی جائے ۔ اور ہم اپنی امداد ایسے شعبوں میں دینے پر توجہ دیں گے ، جیسے زراعت، جن سے افغان عوا م کی زندگیوں پر فوری اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
افغانستان کے لوگ کئی عشروں سے تشدد کے سایے تلے رہ رہے ہیں۔ انہیں اپنے ملک پر قبضے کی اذیت برداشت کرنی پڑی ہے، پہلے سوویت یونین نے قبضہ کیا، اور پھر القاعدہ کے غیر ملکی جنگجوؤں نے، جنھوں نے افغان سرزمین اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کی ۔ چنانچہ، آج کی شب میں افغان عوام کو ایک بات سمجھانا چاہتا ہوں۔۔امریکہ جنگ اور اذیتوں کے اس عہد کے خاتمے کا خواہشمند ہے ۔ہمیں آپ کے ملک پر قبضہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہم افغان حکومت کی ان کوششوں کی حمایت کریں گے کہ ان طالبان کے لیئے دروازہ کھول دیا جائے جو تشدد کو ترک کرنے اور اپنے ہم وطن شہریوں کے حقوق کا احترام کرنے پر تیار ہوں۔ اور ہم افغانستان کے ساتھ ایسی شراکت داری قائم کرنا چاہیں گے جس کی بنیاد باہم احترام پر ہو۔۔ان لوگوں کو الگ تھلگ کر دیا جائے جو تباہی پھیلاتے ہیں؛ ان لوگوں کو مضبوط بنایا جائے جو تعمیر کرتے ہیں؛ اس دِن کو قریب لایا جائے جب ہماری فوجیں افغانستان کو چھوڑ دیں گی؛ اور ایسی پائیدار دوستی قائم کی جائے جس میں امریکہ آپ کا شراکت دار ہو، اور کبھی آپ کا سرپرست نہ بنے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ ہم اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے کارروائی کریں گے کہ افغانستان میں ہماری کامیابی اور پاکستان کے ساتھ ہماری شراکت داری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
ہم افغانستان میں اس لیئے موجود ہیں تا کہ ہم ایک کینسر کو ایک بار پھر ملک میں پھیلنے سے روکیں۔ لیکن اسی کینسر نے پاکستان کے سرحدی علاقے میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو سرحد کے دونوں جانب کام کر سکے۔
ماضی میں، پاکستان میں کچھ لوگ یہ دلیل دیتے رہے ہیں کہ انتہا پسندی کے خلاف جنگ سے انہیں کوئی مطلب نہیں ہے، اور پاکستان کے لیئے بہتر یہی ہے کہ وہ اس بارے میں لاتعلق رہے یا ان لوگوں کے ساتھ تصفیہ کر لے جو تشدد استعمال کرتے ہیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں، جب کراچی سے اسلام آباد تک بے گناہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں، یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ انتہا پسندی سے سب سے زیادہ خطرہ پاکستان کے لوگوں کو ہے ۔ عوام کی رائے تبدیل ہو چکی ہے ۔ پاکستان کی فوج نے سوات میں، اور جنوبی وزیرستان میں جنگی کارروائی کی ہے ۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور پاکستان دونوں کو ایک مشترک دشمن کا سامنا ہے ۔
ماضی میں ہم نے اکثر پاکستان کے ساتھ اپنے تعلق کو ایک تنگ زاویے سے دیکھا ہے ۔ وہ دِن ختم ہو چکے ہیں۔ آگے کی طرف بڑھتے ہوئے، ہم نے پاکستان کے ساتھ ایسی شراکت داری کا عہد کیا ہے جس کی بنیاد ایک دوسرے کے مفاد، باہم احترام اور باہم اعتماد پر قائم ہے ۔ ہم ان گروپوں کو نشانہ بنانے کے لیئے جن سے ہمارے ملکوں کو خطرہ ہے، پاکستان کی صلاحیت کو مضبوط بنائیں گے، اور ہم نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ ہم ایسے دہشت گردوں کے لیئے محفوظ پناہ گاہ برداشت نہیں کر سکتے، جن کے بارے میں ہمیں علم ہے کہ وہ کہاں موجود ہیں، اور جن کی عزائم واضح ہیں ۔ پاکستان کی جمہوریت اور اقتصادی ترقی کے لیئے بھی امریکہ بھاری وسائل فراہم کر رہا ہے ۔ لڑائی کی وجہ سے جو پاکستانی بے گھر ہوئے ہیں، ان کی مدد کرنے والوں میں ہمارا حصہ سب سے زیادہ ہے ۔ اور آگے کی طرف دیکھتے ہوئے، پاکستان کے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ لڑائی ختم ہونے کے کافی عرصے بعد بھی، امریکہ پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کا زبردست حامی رہے گا، تا کہ پاکستان کے لوگوں کی اعلیٰ صلاحیتیں بروئے کار لائی جا سکیں۔
ہماری حکمت عملی کے تین بنیادی عناصر یہ ہیں: تبدیلی کے لیئے ساز گار حالات پیدا کرنے کی غرض سے فوجی کوشش؛ سویلین امداد میں اضافہ جس سے مثبت اقدام کو مضبوط بنایا جا سکے؛ اور پاکستان کے ساتھ موئثر شراکت داری۔
مجھے احساس ہے کہ ہم نے جو طریقہ اپنایا ہے اس کے بارے میں مختلف قسم کی تشویش موجود ہے۔ میں مختصراً ان چند زیادہ نمایاں دلائل کے بارے میں بات کروں گا جو میں نے سنے ہیں اور جنہیں میں بہت سنجیدگی سے لیتا ہوں۔
اول تو وہ لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ افغانستان ہمارے لیئے ایک اور ویتنام ثابت ہوگا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اسے مستحکم نہیں کیا جا سکتا، اور بہتر یہ ہوگا کہ ہم وہاں سے تیزی سے نکل آئیں اور اپنے نقصانات کم کر لیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دلیل تاریخ کے غلط مطالعے پر مبنی ہے ۔ ویتنام کے بر عکس، افغانستان میں 43 ملک ہمارے اقدام کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ ویتنام کے بر عکس، ہمیں وسیع البنیاد عوامی بغاوت کا سامنا نہیں ہے ۔ اور اہم ترین بات یہ ہے کہ ویتنام کے برعکس، افغانستان سے امریکی عوام پر شر انگیز حملہ کیا گیا تھا، اور وہ اب بھی ان انتہا پسندوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں جو افغانستان کی سرحدوں کے قریب سے امریکہ کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ اس علاقے کو اس وقت چھوڑ دینے ، اور القاعدہ کے خلاف اپنی کوششیں دور فاصلے سے جاری رکھنے سے، القاعدہ کے خلاف دباؤ ڈالنے کی ہماری صلاحیت بری طرح متاثر ہو گی ، اور ہماری سرزمین اور ہمارے اتحادیوں پر مزید حملوں کا خطرہ نا قابلِ قبول حد تک بڑھ جائے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم افغانستان کو اس کی موجودہ صورت حال میں چھوڑ کر یہاں سے نہیں جاسکتے، لیکن ان کا خیا ل ہے کہ ہم انہی فوجیوں کے ساتھ، جو ہمارے پاس پہلے سے ہیں ،اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ لیکن اس سے صورت حال ویسی کی ویسی ہی رہے گی جیسی کہ اس وقت تھی جب ہم نے یہاں مداخلت کی تھی، اور جس کے نتیجے میں یہاں کے حالات بتدریج بگڑتے چلے جائیں گے۔ اور اس طرح بالآخر افغانستان میں ہمارا قیام مزید مہنگا اور طویل تر ثابت ہوگا، کیونکہ ہم کبھی بھی ایسے حالات پیدا نہیں کرسکیں گے جو افغان سیکیورٹی فورسز کی تربیت اور انہیں اپنی ذمہ داریاں خود سنبھالنے کے لیے درکار ہیں ۔
آخری بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو افغانستان کو ذمہ داریوں کی منتقلی کے لیے کسی نظام الاوقات کے تعین کے مخالف ہیں۔ درحقیقت ، کچھ تو ہماری جنگی کوشش میں ایک زیادہ ڈرامائی اور بے محابہ اضافہ چاہتے ہیں۔۔ جو ہمیں ایک عشرے تک ایک قومی تعمیر کے پراجیکٹ سے وابستہ رکھے گا۔ میں اس طریقے کو مسترد کرتا ہوں کیونکہ یہ ایسے اہداف متعین کرتا ہے جنہیں معقول اخراجات کے ساتھ حاصل کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ اور نہ ہی انہیں حاصل کرنا ہمارے مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ ذمہ داریوں کی منتقلی کے لیے کسی لائحہ عمل کے نہ ہونے سے اس احساس کی نفی ہوگی کہ ہمیں افغان حکومت کے ساتھ اپنا کام تیزی سے مکمل کرنا ہے۔یہ واضح ہونا چاہیے کہ افغانوں کو اپنی سیکیورٹی کی ذمہ داری خود سنبھالنا ہوگی اور یہ کہ امریکہ کو افغانستان میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ لڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
صد ر کی حیثیت سے میں ایسے مقاصد متعین کرنے سے انکار کرتا ہوں جو ہماری ذمہ داری ، ہمارے وسائل یا ہمارے مفادات سے بالاتر ہوں ۔ مجھے ان تمام چیلنجوں کو اہمیت دینا ہو گی جو ہماری قوم کو درپیش ہیں ۔ اور میں کسی ایک ہی چیلنج پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ صدر آئزن ہاور کے یہ الفاظ میرے ذہن میں رہتے ہیں جنہوں نے ۔۔ہماری قومی سلامتی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا ،ہر تجویزپر ایک وسیع تر تناظر میں غور کیا جانا چاہیے ،یعنی قومی پروگرامو ں میں اور ان کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
پچھلے کئی برسوں میں ہم اس توازن کو کھو چکے ہیں ۔ ہم اپنی قومی سلامتی اور اپنی معیشت کے درمیان تعلق کی اہمیت سمجھنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اقتصادی بحران کی زد میں آ کر ، ہمارے بہت سے پڑوسی اور دوست روزگار کھو چکے ہیں اور وہ اپنے بلوں کی ادائیگی کے لیے جدو جہد میں مصروف ہیں ۔ بہت سے امریکی اپنے بچوں کے سامنے موجود مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں ۔اسی دوران ، عالمی معیشت میں مسابقت بے تحاشہ بڑھ گئی ہے۔اس لیے ہم ان جنگوں پر اٹھنے والے اخراجات کو آسانی سے نظر انداز نہیں کر سکتے۔
بہر طور ، جب میں نے اپنا منصب سنبھالا تو عراق اور افغانستان کی جنگوں میں اٹھنے والے اخراجات ایک کھرب ڈالر تک پہنچ چکے تھے ۔ اب آگے بڑھتے ہوئے ، میں ان اخراجات سے کھلے طور پر اور دیانتداری کے ساتھ نمٹنے کا عزم رکھتا ہوں ۔ افغانستان میں ہمارے نئے لائحہ عمل سے امکان ہے اس سال فوج پر ہمارے لگ بھگ 30 ارب ڈالر خرچ ہوں گے ، او رمیں کانگریس کے ساتھ اس وقت ان اخراجات سے نمٹنے کےلیے قریبی طور پر کام کروں گا جب ہم اپنے خسارے کو کم کرنے پر غور و فکر کریں گے ۔
لیکن اب جب ہم عراق میں جنگ ختم کر رہے ہیں اور افغانستان میں ذمہ داری سنبھال رہے ہیں ، ہمیں یہاں اپنے ملک کو پھر سے مضبوط بنانا ہو گا ۔ ہماری خوشحالی ہماری طاقت کی بنیاد ہے۔ اس کی بدولت ہم اپنی فوج کے اخراجات اٹھاتے ہیں ۔ یہ ہماری سفارت کاری کی ضامن ہے ۔ یہ ہمارے لوگوں کی صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے اور اس کی بدولت نئی نئی صنعتوںمیں سرمایہ کاری ممکن ہوتی ہے ۔ اور اسی کی مدد سے ہم اس صدی میں اتنی کامیابی سے مسابقت کر سکیں گے جتنی کہ ہم نے گزشتہ صدی میں کی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں فوجیوں کے لیے ہماری وابستگی غیر محدود پیمانے کی نہیں ہو سکتی ۔۔۔کیوں کہ میں جس ملک کی تعمیر میں سب سے زیادہ دلچسپی رکھتا ہوں وہ ہمارا اپنا ملک ہے ۔
میں یہ بات صاف صاف کہنا چاہتا ہوں کہ ان میں سے کوئی بھی کام آسان نہیں ہو گا۔ متشدد انتہا پسندوں کے خلاف جدو جہد جلد ختم نہیں ہو گی، اور یہ افغانستان اور پاکستان سے کہیں آگے تک جاتی ہے ۔یہ ہمارے آزاد معاشرے اور دنیا میں ہماری قیادت کا ایک صبر آزما امتحان ہو گا۔ اور بڑی طاقتوں کے تنازعوں اور تقسیم کی ان واضح لائنوں کے برعکس جو بیسویں صدی کاخاصہ تھے ، ہماری جدو جہد کا دائرہ انتشار زدہ خطوں ، ناکام ریاستوں اور بکھرے ہوئے دشمنوں پر محیط ہو گا۔
اس لیے نتیجتاً امریکہ کو اپنی طاقت کا مظاہرہ اس انداز میں کرنا ہو گا کہ ہم جنگیں ختم کریں اور تنازعوں کا سد باب کریں ۔۔۔ نہ کہ صرف اس طرح کہ ہم کس طرح جنگیں کرتے ہیں۔ہمیں اپنی فوجی طاقت کا استعمال درستگی کے ساتھ اور بھر پور طریقے سے کرنا ہو گا ۔ القاعدہ اور اس کے اتحادی جہاں کہیں اپنے قدم جمانے کی کوشش کریں ۔۔۔چاہے وہ صومالیہ ہو یا یمن یا کوئی اور جگہ ۔۔۔ ان کا مقابلہ مزید دباؤ اور مضبوط شراکت داری کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔
اور اب ہم صرف فوجی قوت پر انحصار نہیں کرسکتے ۔ ہمیں اپنے وطن کی سلامتی پربھی سرمایہ کاری کرنا ہوگی کیوں کہ ہم سمندر پار ہر متشد د انتہاپسند کو پکڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ہلاک کرسکتے ہیں۔ہمیں اپنی انٹیلی جینس کوبھی بہتر اور زیادہ مربوط بنانا ہوگا تاکہ ہم پوشیدہ نیٹ ورکس سے ایک قدم آگے رہ سکیں۔
ہمیں وسیع تباہی کے ہتھیاروں کو ختم کرنا ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ میں نے قدرے آسانی سے دستیاب ہونے والے جوہری مواد کو دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے سے بچانے، جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤکوروکنے اوردنیا کو جوہری ہتھیاروں سے محفوظ بنانے کو اپنی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون بنایا ہے۔ ۔۔ کیونکہ ہر قوم کو یہ سمجھنا چاہے کہ صحیح معنوں میں سیکیورٹی پہلے سے کہیں زیادہ تباہ کن ہتھیاروں کی نہ ختم ہونے والی دوڑ سے کبھی حاصل نہیں ہوگی بلکہ حقیقی سیکیورٹی ان لوگوں کا مقدر بنے گی جو انہیں مسترد کریں گے۔
ہمیں سفارت کاری سے کام لینا ہوگا کیونکہ کوئی ایک واحد قوم ایک باہم مربوط دنیا کے چیلنجوں کا مقابلہ تن تنہا نہیں کرسکتی۔ میں نے یہ سال اپنے اتحادوں کی تجدید اور نئی شراکت داریاں قائم کرنے میں گذرا ہے۔ اور ہم نے امریکہ اور مسلم دنیا کے درمیان ایک نئی شروعات کی ہے۔ جس میں تنازعوں کا ایک سلسلہ ختم کرنے کے لیے باہمی دلچسپی کو پیش نظر رکھا گیا ہےاور جو ایسے مستقبل کی ضمانت دیتی ہے جس میں بے گناہوں کا خون بہانے والوںکو امن، خوشحالی اور انسانی وقار کے لیے ڈٹ جانے والے الگ تھلگ کردیں ۔
اور آخری بات یہ کہ ہمیں اپنی اقدار سے تقویت حاصل کرنی چاہیے۔۔۔ کیونکہ ہمیں جن چیلنجوں کا سامنا ہے، وہ بدل سکتے ہیں لیکن ہمارے عقائد نہیں بدلتے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے ملک میں ان اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے انہیں فرو غ دینا چاہیے۔۔۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں نے اذیت رسانی پر پابندی لگا دی ہے اور میں گوانتاناموبے کا قیدخانہ بند کردوں گا۔ اور ہمیں دنیا بھر کے ہر مرد، عورت اور بچےپر، جو ظلم و استبداد کی تاریکیوں میں زندگی گزار رہاہے ، یہ واضح کردینا چاہیے کہ امریکہ ان کے انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھائے گا اور وہ تمام لوگوں کے لیے آزادی، انصاف، مواقع اور وقار کے احترام کے لیے کام کرے گا۔ ہم اصل میں یہ ہیں۔ اور امریکہ کی حاکمیت کا یہی منبع ہے ، اخلاقی منبع۔
فرینک لین روز ویلٹ کے زمانے سے، ہمارے آباؤ اجداد کی خدمات اور قربانیوں کے ذریعے ہمارے ملک نے عالمی معاملات کا ایک خصوصی بوجھ برداشت کیا ہے۔ کئی براعظموں کے کئی ملکوں میں امریکیوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ہم نے دوسرے ملکوں میں ملبوں کے ڈھیروں کی تعمیر نواور ان کی معیشتوں کی ترقی میں مدد کے لیے اپنے ٹیکسوں کی آمدنی صرف کی ہے۔ ہم نے دیگر اقوام کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ سے لے کر نیٹو اورعالمی بینک تک، اداروں کا ایک ایسا نظام قائم کیا ہے جو نوع انسانی کی مشترکہ سیکیورٹی اور خوش حالی میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
ہم نے جو یہ کوششیں کی ہیں، ایسا نہیں ہوا کہ ہمیشہ ہی ان کے لیئے ہمارا شکریہ ادا کیا گیا ہو، اور ہم سے کبھی کبھی غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔لیکن کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں، امریکہ نے چھہ عشروں سے زیادہ عرصے تک دنیا کی سلامتی کی ضمانت دی ہے۔ یہ وہ دور ہے جس میں تمامتر مسائل کے باوجود، دنیا نے دیواریں گرتی دیکھی ہیں، منڈیاں کھلی ہیں، اربوں لوگ غربت کے چنگل سے نکلے ہیں، بے مثال سائنسی ترقی ہوئی ہے، اور انسانی آزادی کی سرحدیں وسیع ہوئی ہیں،
ماضی کی بڑی طاقتوں کے برعکس ، ہم نے دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ ہماری یونین استبداد کی مزاحمت پر قائم ہوئی تھی ۔ ہم دوسرے ملکوں پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے ۔ ہم کسی دوسرے ملک کے وسائل پر اپنا حق نہیں جتائیں گے ، ہم دوسرے لوگوں کو اس لیے نشانہ نہیٕں بنائیں گے کہ وہ ہم سے مختلف عقائد یا نسل کے لوگ ہیں ۔ ہم جس چیز کےلیے لڑ چکے ہیں ۔۔ ہم جس چیز کے لیے لڑتے رہیں گے ۔۔ وہ ہے ہمارے بچوں کا بہتر مستقبل۔ اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ان کی زندگیاں صرف اس صورت میں بہتر ہوں گی اگر دوسرے لوگوں کے بچے اور ان بچوں کی اولادیں آزادی کے ساتھ رہ سکیں اور انہیں مواقع فراہم ہو سکیں ۔
ایک ملک کے طور پر ، ہم اتنے جوان نہیں ہیں اور شاید اتنے معصوم نہیں ہیں جتنے ہم اس وقت تھے جب روزویلٹ صدر تھے ۔ تاہم پھر بھی ہم آزادی کے لیے ایک اعلیٰ جدو جہد کے امین ہیں۔ اور اب ہمیں ایک نئے دور کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور اخلاقی اقدار کو بروئے کار لانا ہو گا ۔
آخری بات یہ کہ ہماری سیکیورٹی اور قیادت کا ماخذ صرف ہمارا اسلحہ نہیں ہے۔۔ ۔ اس کا ماخذ ہمارے لوگ ہیں۔۔۔ وہ کارکن اور تاجر جو ہماری معیشت کی تعمیر نو کریں گے;وہ کاروباری لوگ اور محقق جو نئی صنعتیں لگائیں گے ; وہ اساتذہ جو ہمارے بچوں کو تعلیم دیں گے ; اور وہ محنت کش جو ہمارے ملک کی کمیونٹیز میں کام کرتے ہیں ; وہ سفارت کار اور پیس کورز کے رضاکار جو دنیا بھر میں امید پھیلاتے ہیں ; اور یونیفارم میں ملبوس وہ مرد اور خواتین جو قربانیوں کے اس نہ ٹوٹنے والے سلسلے کا ایک حصہ ہیں جس کے باعث ا س کرہ ارض پر لوگوں کے لیے، لوگوں کی حکومت لوگوں کے ذریعے ایک حقیقت بنی ۔
گوناگو ں نسلوں ،عقائد اور ملکوں کے لوگوں پر مشتمل یہ متنوع اور عظیم قوم ہر مسئلے پر ہمیشہ متفق نہیں ہو گی ۔۔ نہ ہی اسے ہونا چاہیے۔ لیکن میں یہ بھی جانتاہوں کہ ،ایک ملک کے طور پر ہم اپنی قیادت اس وقت تک برقرار نہیں رکھ سکتے اور اپنے دور کے ان اہم چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے جب تک ہم خود کو اس عداوت اور بد اعتمادی اور تعصب سے الگ نہیں کر لیتے جس نے حالیہ عرصے میں ہمارے قومی بحث مباحثے کو تلخی سے بھر دیا تھا ۔
یہ فراموش کرنا آسان ہے کہ جب یہ جنگ شروع ہوئی تو ہم متحد تھے ۔۔۔ ایک ہولناک حملے کی تازہ یاد نے، اور اپنی سر زمین اور اپنی عزیز اقدار کے دفاع کے عزم نے ہم سب کو ایک کر دیا تھا۔میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ ہمارے درمیان وہ ہم آہنگی دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتی۔ مجھے روح کی گہرائیوں سے یقین ہے کہ ہم ۔۔۔امریکی ہونے کے ناطے ۔۔۔ اب بھی کسی مشترکہ مقصد کے حصول کے لیےمتحد ہو سکتے ہیں ۔کیوں کہ ہماری اقدارصرف کاغذ پر تحریر سادہ الفاظ نہیں ہیں۔۔۔ وہ عقائد کا ایک مجموعہ ہیں جو ہم سب کو ایک بندھن میں پروتا ہے اور جس نے ہمیں ہماری تاریخ کے سیاہ ترین ادوار میں بھی ایک ملک اور ایک قوم کی حیثیت سے متحد رکھا ہے
امریکہ ۔۔۔ ہم ایک بڑے آزمائشی دور سے گزر رہے ہیں۔ اور ان طوفانوں کے درمیان سے ہم یہ واضح پیغام بھیج رہے ہیں کہ ہمارا نصب العین انصاف ہے ، ہماراعزم غیر متزلزل ہے ۔ ہم اس اعتماد کے ساتھ کہ جیت ہمیشہ حق کی ہوتی ہے اور اس عہد کے ساتھ آگے بڑھیں گے کہ ہم ایک ایسا امریکہ تعمیر کریں گے جو پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گا ، ایک ایسی دنیاتعمیر کریں گے جو پہلے سے زیادہ مستحکم ہو گی اور ایک ایسا مستقبل تشکیل دیں گے جہاں خوف کی اتھاہ گہرائیاں نہیں بلکہ امید کی روشن کرنیں ہر سو اجالا بکھیریں گی ۔
شکریہ ۔خدا آپ کا حامی و ناصر ہو ۔خدا ریاستہائے متحدہ امریکہ کو اپنی برکتوں سے نوازے ۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov