Fawad – Digital Outreach Team - US State Department
بن لادن کو ڈھونڈنے کیلئے کئی لاکھ فوجیوں کی کیا ضرورت تھی۔
اس ميں کوئ شک نہيں کہ افغانستان ميں فوجی کاروائ کا اہم مقصد 911 کے مجرموں کو کيفر کردار تک پہنچانا تھا۔ ليکن اس کے علاوہ يہ بھی ضروری تھا کہ مستقبل ميں دنيا کے کسی بھی حصے ميں دہشت گردی کی روک تھام کو يقينی بنايا جا سکے۔
صدر اوبامہ نے اپنی تقرير ميں يہ واضح کيا تھا کہ
"طالبان کے اسامہ بن لادن کو ہمارے حوالے کرنے سے انکار کے بعد ہی، ہم نے اپنی فوجیں افغانستان میں بھیجیں۔"
جب کسی ملک کی حکومت دہشت گردوں کو پناہ دينے اور ان کی حمايت کا فيصلہ کر لے تو پھر سوال محض چند افراد تک رسائ تک محدود نہيں رہ جاتا جيسا کہ آپ نے نشاندہی کی ہے۔
ميں آپ کو ياد دلا دوں کہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد طالبان حکومت سے پاکستان کے ذريعے دو ماہ تک مذاکرات کے ذريعے يہ مطالبہ کيا گيا کہ اسامہ بن لادن کو امريکی حکام کے حوالے کيا جائے تاکہ اس کے خلاف مقدمہ چلايا جا سکے۔ طالبان کے مسلسل انکار اور القائدہ کا ساتھ دينے کے بعد امريکہ نے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر کاروائ کا فيصلہ کيا گيا۔
يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حکومت پاکستان اور فوج نے حال ہی ميں سوات اور وزيرستان ميں مکمل فوجی آپريشنز کا آغاز کيا ہے۔ يہ فوجی کاروائياں سوات اور وزيرستان کے عوام کے خلاف نہيں ہيں۔ پاکستان کے آرمی چيف نے بھی علاقے کے لوگوں کے نام اپنے پيغام ميں يہ واضح کيا تھا۔ ان آپريشنز اور فوجی کاروائيوں کو اسی ليے ضروری سمجھا گيا تا کہ دہشت گردی کی اس لہر پر قابو پايا جا سکے جس نے پورے ملک کو متاثر کيا ہے۔
اس ميں کوئ شک نہيں کہ ان فوجی کاروائيوں کے نتيجے ميں آبادی کا بڑا حصہ متاثر ہوا ہے ليکن اس کے باوجود ملک کی بڑی سياسی جماعتوں، پبلک سروے اور سول سوسائٹی نے عمومی طور پر ان فوجی کاروائيوں کی حمايت کی ہے۔ اس کی وجہ يہی ہے کہ چند افراد کو اس بات کی اجازت نہيں دی جا سکتی کہ وہ بے گناہ افراد کو قتل کريں اور دہشت گردی کا نشانہ بنائيں۔
يہی اصول افغانستان ميں جاری امريکی کاوشوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ صدر اوبامہ اور امريکی انتظاميہ نے بارہا يہ واضح کيا ہے کہ افغان عوام کا تحفظ اہم ترجيح ہے اور ان کی مدد اور حمايت کے بغير دہشت گردی کے خلاف ديرپا کاميابی ممکن نہيں ہے۔
"ہم افغان حکومت کی ان کوششوں کی حمایت کریں گے کہ ان طالبان کے لیئے دروازہ کھول دیا جائے جو تشدد کو ترک کرنے اور اپنے ہم وطن شہریوں کے حقوق کا احترام کرنے پر تیار ہوں۔ اور ہم افغانستان کے ساتھ ایسی شراکت داری قائم کرنا چاہیں گے جس کی بنیاد باہم احترام پر ہو۔۔ان لوگوں کو الگ تھلگ کر دیا جائے جو تباہی پھیلاتے ہیں؛ ان لوگوں کو مضبوط بنایا جائے جو تعمیر کرتے ہیں؛ اس دِن کو قریب لایا جائے جب ہماری فوجیں افغانستان کو چھوڑ دیں گی؛ اور ایسی پائیدار دوستی قائم کی جائے جس میں امریکہ آپ کا شراکت دار ہو، اور کبھی آپ کا سرپرست نہ بنے ۔"
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov