افغان امن معاہدہ کا ڈراپ سین: اب پاکستان کیا کرے گا
08/09/2019 سید مجاہد علی
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے طالبان کے ساتھ طے شدہ خفیہ ملاقات منسوخ اور امن مذاکرات معطل کرنے کا اعلان سب سے زیادہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لئے ایک اچانک دھماکہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان تحریک انصاف کی حکومت خارجہ پالیسی کے جو خد و خال سامنے لائی ہے، اس میں چاروں طرف امریکہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہی چورن پاکستانی عوام کو بھی بیچا جارہا تھا کہ افغان امن معاہدہ کے لئے امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ اس لئے بھارت ہو یا ایف اے ٹی ایف امریکہ کو پاکستان کی مدد کرنا پڑے گی۔ ٹرمپ کے اچانک اعلان سے یہ گمان فوری طور پر ریزہ ریزہ ہوگیا ہے۔
طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کے حوالے سے صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتہ کے دوران طالبان کے حملہ کو عذر کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس حملہ میں ایک امریکی اور ایک اطالوی فوجی سمیت بارہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ دوحہ میں سال بھر تک ہونے والے مذاکرات کے دوران طالبان کے حملے جاری رہے تھے۔ کسی بھی مرحلہ پر نہ تو طالبان نے جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی تھی اور نہ امریکہ نے اس بات پر اصرار کیا تھا۔ اس لئے اب ایک ایسے موقع پر جب امن معاہدہ کا ابتدائی مسودہ تیار کیاجاچکا تھا اور ٹرمپ کے اپنے ٹوئٹ پیغامات کے مطابق طالبان لیڈر اور افغان صدر آج کیمپ ڈیوڈ میں ان سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کرنے والے تھے تو اس اچانک تبدیلی قلب کی وجہ چار روز قبل کیا گیا ایک حملہ نہیں ہو سکتا۔ اس کی بہت سی دوسری وجوہات بھی ہوں گی جو مذاکرات کی گرمجوشی اور فریقین کی طرف سے مثبت پیش رفت کے دعوؤں کی جلو میں سامنے نہیں آسکیں۔
مذاکرات معطل کرنے اور طالبان لیڈروں کے ساتھ خفیہ ملاقات سے انکار کرکے صدر ٹرمپ نے دراصل امریکی عوام اور دنیاکو یہ پیغام دیا ہے کہ امریکہ مستقبل قریب میں افغانستان سے اپنی افواج نکالنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ یعنی 2020 میں دوبارہ صدر منتخب ہونے کے لئے صدر ٹرمپ کامیابی کے اس دعوے کے ساتھ انتخابی مہم نہیں چلائیں گے کہ وہ افغانستان کی 18 سال پرانی جنگ ختم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اب وہ عوام کو یہ یقین دلائیں گے کہ افغانستان میں جمہوریت کے تسلسل اور امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے امریکی افواج کا وہاں رہنا بے حد ضروری ہے۔
صدر ٹرمپ کا یہ پالیسی اعلان پاکستان کی اس توقع کے لئے بھی دھچکے کی حیثیت رکھتا ہے کہ امریکی افواج کو جلد یا بدیر افغانستان سے جانا ہی ہے، اس لئے اس کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لئے پاکستان کو تیار رہنا ہوگا۔ ٹرمپ کے اس فیصلہ سے اس اندیشہ میں بھی اضافہ ہوگا کہ افغانستان میں بھارتی اثر و نفوذ میں اضافہ ہو اور امریکی صدر بھارت کو افغانستان میں سیکورٹی کے حوالے سے بھی کردار تفویض کرنے کی کوشش کریں۔ صدر ٹرمپ اور امریکی جرنیل پاکستان کے بارے میں بداعتمادی کا شکار ہیں۔ اب طالبان کے ساتھ تصادم کا ایک نیا دور شروع کرتے ہوئے پاکستان کو ایک بار پھر نشانے پر لیا جائے گا۔
یوں تو صدر ٹرمپ نے مذاکرات معطل کرنے اور افغان امن معاہدہ کے منصوبہ کو پس پشت ڈالنے کا اعلان کرتے ہوئے سارا بوجھ طالبان پر ڈالنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ ’یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ جھوٹے مفاد کے لیے طالبان نے کابل حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ وہ مزید کتنی دہائیوں تک لڑنا چاہتے ہیں؟ ‘ حالانکہ یہ سوال امریکہ کو خود اپنے آپ سے کرنا چاہیے تھا کہ وہ افغانستان میں اپنی مرضی کا نظام لانے کے لئے آخر کتنی مزید دہائیوں تک وہاں انسانوں کا خون بہاتا رہے گا۔
یہ درست ہے کہ طالبان نے اپنی جد و جہد میں دہشت گردی کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا اور بے دریغ انسانی خون بہایا گیا لیکن انسانی خون ارزاں کرنے کے الزام سے امریکہ خود کو بھی بری الذمہ نہیں کرسکتا۔ امریکی افواج کے انسانیت سوز جبر کے نشان ویت نام سے لے کر عراق تک تلاشکیے جاسکتے ہیں۔ گزشتہ دودہائیوں میں افغانستان میں اپنی مرضی کا نظام تھوپنے کے لئے تسلسل سے افغان باشندوں کی زندگیوں کو نشانے پر رکھا گیا ہے۔
انسانی زندگی کا ا حترام کبھی امریکی خارجہ پالیسی کی بنیاد نہیں رہا۔ اس نے ہمیشہ اپنے جغرافیائی اور اسٹریجک مفادات کے لئے افواج تعینات کیں، لوگوں کو ہلاک کیا یا ایسی حکومتوں کی پشت پناہی کی جنہوں نے ظلم و جبر کی المناک کہانیاں رقم کی ہیں۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت، یمن پر سعودی اتحاد کی تسلسل سے بمباری اور انسانی جانوں کا ضیاع یا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی استبداد کی درپردہ تائید و سرپرستی کرتے ہوئے امریکہ نے صرف اپنے مفاد کو مقدم رکھا ہے۔ اب طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کو معطل کرتے ہوئے صدر ٹرمپ اگرچہ طالبان کو ہی مورد الزام ٹھہرا سکتے تھے لیکن اس فیصلہ کے متعدد عوامل موجود ہیں جن کے بارے میں آنے والے دنوں میں معلومات سامنے آنے لگیں گی۔
افغان امن معاہدہ میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے کہ امریکہ افغان عوام کے مزاج کو سمجھنے سے قاصر رہا ہے۔ طالبان نے امریکہ کے ساتھ قابض فوج کے طور پر مذاکراتکیے تھے تاکہ غیر ملکی فوجوں کے وہاں سے نکلنے کی راہ ہموار ہوسکے۔ جبکہ امریکہ کے نمائندے اور قیادت پورا وقت یہ امید لگائے بیٹھے رہے کہ طالبان کے ساتھ معاہدہ کے بعد اس کی قیادت کو افغان حکومت کے ساتھ معاملات کرنے اور موجودہ آئین کو تسلیم کرنے پر مجبور کرلیا جائے گا۔
شاید اسی مقصد سے کیمپ ڈیوڈ میں اس خفیہ ملاقات کا اہتمام کیا گیا تھا جس کے بعد صدر ٹرمپ کسی جادوگر کی طرح ہیٹ سے کبوتر نکالنے جیسا کرتب دکھاتے ہوئے طالبان قیادت اور صدر اشرف غنی کے ساتھ فوٹو سیشن کرتے اور اپنی سفارتی کامیابی کا اعلان کرتے۔ لگتا ہے کہ طالبان نے اس سفارتی شعبدہ بازی کا حصہ بننے سے انکار کیا ہے اور وہ اپنے اس مؤقف پر قائم رہے ہیں کہ نہ اشرف غنی کی حکومت سے مذاکرات ہوں گے اور نہ ہی موجودہ افغان آئین کو تسلیم کیا جائے گا۔ اس کے بعد ٹرمپ کو ملاقات منسوخ کرنے اور اس کا الزام طالبان پر عائد کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
یہ بحث کرنے سے پہلے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاملات کیسے طے ہوتے ہیں اور افغانستان میں حالات کس کروٹ بیٹھتے ہیں، پاکستان کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ اب کیا کرے گا۔ اس کی خارجہ اور سیکورٹی پالیسی کا رخ کیا ہوگا۔ اب وہ بھارت کی سفارتی جارحیت اور سیاسی ہٹ دھرمی کا مقابلہ کیسے کرے گا۔ اب سی پیک سے انحراف کرتے ہوئے امریکہ کو قریب ترین حلیف سمجھنے کی نظر ثانی شدہ پالیسی کے تسلسل کے لئے کیا کیا جائے گا؟ یہ سارے بہت اہم سوال ہیں اور ان کا پاکستان کی مستقبل اور موجودہ سیاسی اور معاشی چیلنجز سے گہرا تعلق ہے۔
یہ بات درست ہے کہ امریکہ اس وقت دنیا کی اکلوتی سپر پاور ہے اور اس سے گریز کی کوئی صورت موجود نہیں ہے۔ البتہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو متنوع اور متوازن رکھنے میں کامیاب نہیں ہے۔ اس وقت اس کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پالیسی کے خلاف عالمی تعاون حاصل کرنا اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلنے کی کوشش کرنا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان قوم سے خطاب میں بتا چکے ہیں کہ بھارت پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اور یہ کہ اس اقدام کے پاکستانی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے اور وہ دیوالیہ ہوجائے گا۔
تاہم پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے ساتھ تعلق بہتر بنانے کے لئے جو حکمت عملی تیار کی ہوئی ہے، وہ امریکہ کی سرپرستی کی محتاج ہے۔ اس ساری سوچ کا بنیاد ی نکتہ یہی رہا ہے کہ امریکہ چونکہ ستمبر تک طالبان کے ساتھ معاہدہ کرکے افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنا چاہتا ہے، اس لئے اسے پاکستان کی ہر ممکن سفارتی مدد کرنا پڑے گی۔ اس قیاس کی معراج عمران خان کے دورہ امریکہ کو سمجھا گیا تھا جب صدر ٹرمپ نے اپنے معمول کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم کے بارے میں توصیفی فقرے اداکیے تھے۔ اب جبکہ امریکہ کو افغانستان میں امن کے لئے پاکستان کی فوری اور شدید ضرورت نہیں رہے گی تو پاکستان، امریکہ کے سفارتی سہارے کا متبادل کہاں سے تلاش کرے گا؟ کیوں کہ پاکستانی حکمت عملی میں کبھی پلان بی کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔
ٹرمپ کے اعلان، افغان امن معاہدے کے ڈراپ سین اور پاکستان کے لئے بڑھتے ہوئے اندرونی اور بیرونی خطروں سے نمٹنے کے لئے صرف ایک پیج والی حکمت عملی کی بجائے سب کو ایک پیج پر لانے کی پالیسی بنانے کی ضرورت ہوگی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے پالیسی سازوں کو سیکھنا پڑے گا کہ انگریزی محاورے کے مطابق ’تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھنے‘ کا انجام ہمیشہ اچھا نہیں ہوتا۔