فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
ميں يو ايس ايڈ کے حوالے سے ديے جانے والی فتوے کی مذہبی حيثيت کے حوالے سے کوئ بات نہيں کروں گا کيونکہ يہ ميرے دائرہ اختيار سے باہر ہے۔ ليکن ميں اس سوال کو اجاگر کرنا چاہوں گا جو مذہبی سکالر کی جانب سے ديے جانے والے جواب کا موجب بنا، کيونکر مذکورہ سوال ايک غلط اور دانستہ تخليق کردہ مخصوص سوچ کی غمازی کرتا ہے۔ يہ دعوی کرنا کہ خطے ميں امريکی موجودگی افغانستان پر امريکہ قبضے کا شاخسانہ اور اس زمين پر حکومت کرنے کی ہماری مبينہ خواہش کی آئينہ دار ہے، صريح غلط اور کيے جانے والے سوال ميں پنہہ واضح جانب داری کو عياں کرتا ہے۔
ميں نے فورمز پر بارہا يہ واضح کيا ہے اور ميں ايک بار پھر امريکی حکومت کے واضح موقف اور نقطہ نظر کا اعادہ کروں گا کہ ہمارا مقصد افغانستان کو فتح کرنا ہرگز نہيں ہے۔ ميری اس رائے کی بنياد حقائق اور صدر اوبامہ سميت امريکہ کی تمام سول اور فوجی قيادت کی جانب سے واضح اور آن ريکارڈ پاليسی ہے۔ ميں پھر اس نقطے کو واضح کرنا چاہوں گا کہ افغانستان ميں ہماری موجودگی اقوام متحدہ کی جانب سے منظور شدہ وسيع پيمانے پر عالمی کوششوں کا حصہ ہے۔
اس وقت افغانستان ميں مقامی حکومت کے تعاون اور اشتراک عمل سے جاری صحت، تعليم اور روزگار سے متعلق بے شمار امريکی ترقياتی منصوبے واضح ثبوت ہيں کہ امريکہ افغانستان کو فتح کرنے کی کوشش نہيں کر رہا۔ بلکہ حقيقت اس کے برعکس ہے۔
يہ نقطہ بھی اہم ہے کہ پاکستان وہ واحد اسلامی ملک نہيں ہے جو امريکہ کے ساتھ مضبوط طويل المدتی سفارتی اور اسٹريجک تعلقات کی بدولت مستفيد ہو رہا ہے۔ سعودی عرب، مصر اور انڈونيشيا سميت کئ اہم اسلامی ممالک کے ساتھ ہمارے مضبوط تعلقات کئ دہائيوں پر محيط ہيں۔
يہ ممکن نہيں ہے کہ يہ تمام مسلم ممالک اور بے شمار خود مختار عالمی تنظيميں اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے صرف اس ليے تعاون کرنے پر رضامند ہو جائيں کہ افغانستان پر قبضے کے امريکی منصوبے کو پايہ تکميل تک پہنچايا جا سکے۔
میری گزارش ہے کہ امريکی حکومت کی مدد سے کچھ جاری منصوبوں اور اقدامات پر تفصيلی نظر ڈاليں اور پھر يہ فيصلہ خود کريں کہ کيا يہ الزام لگانا انصاف پر مبنی ہے کہ امريکی امداد کا فائدہ صرف پاکستان کے امير طبقے تک محدود ہے؟
کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہیں کہ تمام تر سفارتی روابط منقطع کر کے اور تمام جاری ترقياتی منصوبوں کو ختم کر کے دونوں ممالک کے عوام کے لیے ترقی کے مواقعوں اور سہوليات کا خاتمہ ہی وہ بہترين طريقہ کار ہے جس سے دونوں ممالک کے عوام کے مابين خليج کو دور کيا جا سکتا ہے ؟
آپ کے خيال ميں جب پاکستان کی منتخب جمہوری حکومت، متعدد حکومتی ادارے اور عوامی بہبود پر مامور مختلف نجی تنظيميں سيلاب، زلزلے اور ديگر قدرتی آفات سے نبردآزما ہونے کے ليے امريکی حکومت سے مدد کی درخواست کرتی ہيں تو اس کے جواب ميں ہمارا کيا ردعمل ہونا چاہيے؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://s7.postimg.org/r8de969sb/usaid_updated2.jpg
http://www.youtube.com/edit?o=U&ns=1&video_id=hI088cRCITY