سی – آئ – اے کی اسلام آباد ميں خفيہ سرگرميوں کے حوالے سے کالم اس مقبول عام طرز فکر اور صحافتی انداز تحرير کا عکاس ہے جس ميں کچھ ادھورے حقائق اور جانب دارانہ تجزيے کے ذريعے تجسس تخليق کيا جاتا ہے۔ اصل فوکس "سازش کی بو" ہوتا ہے – سچ نہيں۔
آپ کو اس کی ايک مثال ديتا ہوں۔
ہفتے کے روز ڈاکٹر شاہد مسعود جيو پر اپنے مقبول پروگرام "ميرے مطابق" ميں صدر اوبامہ کے حاليہ دورہ قاہرہ پر اپنا تجزيہ دے رہے تھے۔ اس پروگرام کے 2:52 منٹ پر وہ کہتے ہيں
http://pkpolitics.com/2009/06/06/meray-mutabiq-6-june-2009/
"يہ پوٹس کون ہے ؟ دورہ قاہرہ کے دوران سی – آئ – اے کے اہلکار صدر اوبامہ کے بارے ميں اپنے مواصلاتی نظام ميں پوٹس کی اصطلاح استعمال کرتے رہے"۔
جس کسی نے بھی امريکی حکومت ميں کام کيا ہے وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ پوٹس محض "پريذيڈينٹ آف دی يونائيٹڈ اسٹيٹس" کا مخفف ہے۔ يہ کسی ذومعنی يا خفيہ پيغام پر مشتمل کوڈ نہيں ہے جو سی – آئ – اے نے استعمال کيا۔ ہم بھی اپنے دفتری روابط ميں يہ اصطلاح اکثر استعمال کرتے ہیں۔
آپ ديکھ سکتے ہيں کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے کس طرح ايک مخصوص انداز اور طريقہ گفتگو سے ايک معمولی سی حقیقت ميں تجسس کا عنصر شامل کر ديا۔
اپنے کالم ميں "پراسرار سرگرمياں"، "کچھ مخصوص اين جی اوز" اور "مشتبہ غير ملکيوں" جيسے الفاظ استعمال کر کے حامد مير کوئ ايسے ثبوت يا حقائق نہيں پيش کر رہے جنھيں کسی انصاف کی عدالت ميں پيش کيا جا سکے۔ يہ صرف بے چينی اور ان گنت سازشی کہانيوں ميں اضافے کی کوشش ہے جس کا حقيقت سے کوئ تعلق نہيں ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov