عمراعظم

محفلین
امریکہ کی ترقی،اور وہاں کے باشندوں کا اطمعنان اور خوش حالی نیز وہاں کے معاشرے کی مہذب روایات ہم سب کو یقینا" بہت اچھی لگتی ہیں۔دوستو میرا اکلوتا بیٹا بھی وہاں جا بسا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمارے وطن میں انصاف میسر نہیں ہے۔خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جو غربت کے مجرم یا کسی کے محکوم ہوں۔ امریکہ یا ایسے ہی کئی ممالک اپنے باشندوں کو بلا تفریق رنگ و نسل ، علاقائیت یا مذہب ، انصاف فراہم کرتے ہیں۔ نہ صرف ہمارے وطن میں اس کا فقدان ہے بلکہ تمام اسلامی ممالک میں بھی صورتِ حال مختلف نہیں۔زیرِبحث ممالک میں انسانوں کے ساتھ انسانیت کا رشتہ ٹوٹنے نہیں پاتا۔اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ بے روزگار ہونے کے باوجود بھیک مانگنے کی نوبت نہیں آتی۔اور عین اسلامی فلاحی مملکت کے اصولوں کی طرح سب کی دسترسی کی جاتی ہے۔
البتہ یہ صورتِ حال صرف ان کے ملکوں تک ہی محدود ہے۔دنیا کے دوسرے انسانوں سے بھی وہ ہمدردی رکھتے ہیں لیکن کسی بیوپاری کی طرح منافع کی توقع کے مطابق۔دنیا کے وسائل پر قبضہ کر کے اپنے استعمال میں لانا ان کا مقصود رہتاہے۔ اب یہ ضروری نہیں کہ اس کے لئے وہ فوج کشی ہی کریں۔ان کے لئے اب ایسے گماشتوں کی کمی نہیں جو ان کی تمام ضروریات کو پورا کریں۔
مسٹر فواد نے سعودی عرب کی مثال دی ہے۔ مسٹر فواد اگر امریکہ نسلِ انسانی کے لئے جمہوریت کو ہی بہتر نظام سمجھتا ہے تو پھر کئی ممالک میں وہ غیر جمہوری قوتوں کی حمایت کیوں کرتا ہے ؟ مجھے یقین ہے کہ جہاں بھی امریکہ کے مفاد کو خطرہ لاحق ہوتا ہے وہ وہاں فوری تبدیلی کا خواہش مند رہتا ہے۔ کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ جن میں عراق،افغانستان، لیبیا، شام اور خود پاکستان شامل ہے۔
 

Fawad -

محفلین
مسٹر فواد نے سعودی عرب کی مثال دی ہے۔ مسٹر فواد اگر امریکہ نسلِ انسانی کے لئے جمہوریت کو ہی بہتر نظام سمجھتا ہے تو پھر کئی ممالک میں وہ غیر جمہوری قوتوں کی حمایت کیوں کرتا ہے ؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکہ سياسی، معاشی اور سفارتی سطح پر ايسے بہت سے ممالک سے باہمی دلچسپی کے امور پر تعلقات استوار رکھتا ہے جس کی قيادت سے امريکی حکومت کے نظرياتی اختلافات ہوتے ہيں۔

جہاں امريکہ کے ايسے ممالک سے روابط رہے ہيں جہاں آمريت ہے، وہاں ايسے بھی بہت سے ممالک ہيں جہاں جمہوريت يا اور کوئ اور نظام حکومت ہے۔

يہ کيسی منطق ہے کہ امريکہ دنيا کے کسی بھی ملک سے روابط قائم کرنے کے ليے پہلے وہاں کا حکومتی اور سياسی نظام تبديل کرے يا ايسا حکمران نامزد کرے جو عوامی مقبوليت کی سند رکھتا ہو۔ يہ ذمہ داری اس ملک کے سياسی قائدين اور عوام کی ہوتی ہے اور کوئ بيرونی طاقت اس ضمن ميں فيصلہ کن کردار نہيں ادا کر سکتی۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

عسکری

معطل
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکہ سياسی، معاشی اور سفارتی سطح پر ايسے بہت سے ممالک سے باہمی دلچسپی کے امور پر تعلقات استوار رکھتا ہے جس کی قيادت سے امريکی حکومت کے نظرياتی اختلافات ہوتے ہيں۔

جہاں امريکہ کے ايسے ممالک سے روابط رہے ہيں جہاں آمريت ہے، وہاں ايسے بھی بہت سے ممالک ہيں جہاں جمہوريت يا اور کوئ اور نظام حکومت ہے۔

يہ کيسی منطق ہے کہ امريکہ دنيا کے کسی بھی ملک سے روابط قائم کرنے کے ليے پہلے وہاں کا حکومتی اور سياسی نظام تبديل کرے يا ايسا حکمران نامزد کرے جو عوامی مقبوليت کی سند رکھتا ہو۔ يہ ذمہ داری اس ملک کے سياسی قائدين اور عوام کی ہوتی ہے اور کوئ بيرونی طاقت اس ضمن ميں فيصلہ کن کردار نہيں ادا کر سکتی۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu


تو یہ کیسی منطق تھی کہ جیسے ہی ہماری فوج تختہ الٹتی امریکہ پابندیاں ٹھونک دیتا اور خوش قسمتی سے تینوں بار جب پابندیاں لگائی مجبوری آن کھڑی ہوئی اور امریکہ کو انہی کو کاندھے پر اٹھانا پڑا جن پر پابندیاں لگائی تھیں
ایوب خان پابندیاں - سرد جنگ کی ضرورت = پابندیاں ختم
ضیا مارشل لاء - افغان جنگ = پابندیاں ختم
مشرف مارشل لاء - پابندیاں = 11-9 پابندیاں ختم
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی حکومت دنيا بھر کے ممالک ميں اسلامی قوانين کے خاتمے کے مشن پر نہيں ہے۔ اس ضمن میں آپ کو سعودی عرب کی مثال دوں گا جہاں قانونی سازی کے عمل ميں وسيع بنيادوں پر اسلامی قوانين کا اطلاق کيا جاتا ہے۔ يہ درست ہے کہ امريکہ بہت سے قوانين اور روايات سے متفق نہيں ليکن اس کے باوجود سعودی عرب کے عوام اور ان کی حکومت سے امريکہ کے ديرينيہ تعلقات ہيں جو کئ دہائيوں پر محيط ہيں۔

اس وقت دنيا ميں قريب 50 سے زائد اسلامک ممالک ہيں اور ان ميں سے زيادہ تر ممالک سے امريکہ کے باہم احترام کے اصولوں کی بنياد پر دوستانہ تعلقات ہيں۔

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ ايسے کئ غير مسلم ممالک بھی ہیں جہاں پر کچھ روايات اور قوانين امريکی معاشرے کے اصولوں سے مطابقت نہيں رکھتے ليکن اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ ان ممالک سے سفارتی تعلقات استوار کرنے سے پہلے ان قوانين کو تبديل کرے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu

:a6:
 
امریکا کی دوستی اور دشمنی:ڈاکٹر ہنری کسنجر امریکا کی خارجہ پالیسی ہی نہیں عالمی سیاست کے باب میں بلاشبہہ ’مصلحت انگیز‘، ’فقیہ شہر‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ان کا کمال ہے کہ کبھی کبھی وہ اُس ’رند بادہ خوار‘ کا کردار بھی ادا کر جاتے ہیں جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ع
نکل جاتی ہے جس کے منہ سے سچی بات مستی میں
ان کا ایسا ہی ایک ارشاد ہے کہ دنیا کو جان لینا چاہیے کہ امریکا کی دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن یہ بھی نہ بھولیں کہ اس کی دوستی بھی کچھ کم مہنگی نہیں! پاکستان نے اس کا بار بار تجربہ کیا ہے لیکن اس کی عاقبت نااندیش قیادتوں نے شاید قسم کھا رکھی ہے کہ خود اپنے اور دوسروں کے تجربات سے کبھی کوئی سبق نہیں لیں گے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ان کا ایسا ہی ایک ارشاد ہے کہ دنیا کو جان لینا چاہیے کہ امریکا کی دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن یہ بھی نہ بھولیں کہ اس کی دوستی بھی کچھ کم مہنگی نہیں! پاکستان نے اس کا بار بار تجربہ کیا ہے لیکن اس کی عاقبت نااندیش قیادتوں نے شاید قسم کھا رکھی ہے کہ خود اپنے اور دوسروں کے تجربات سے کبھی کوئی سبق نہیں لیں گے۔
میرا خیال ہے کہ یہ فقرہ اس رنگ میں کہا گیا ہوگا کہ امریکہ کی دوستی کی اپنی قیمت چکانی پڑتی ہے جو عوام کی طرف سے مخالفت، خارجہ پالیسی میں روس یا بائیں بازو کے اتحاد کی مخالفت وغیرہ بھی ہو سکتے ہیں۔ میں ہنری کسنجر کو اتنا احمق نہیں سمجھتا کہ وہ اس طرح کھلے عام اپنے خلاف بیان دیتا :)
 

ساقی۔

محفلین
میرا خیال ہے کہ یہ فقرہ اس رنگ میں کہا گیا ہوگا کہ امریکہ کی دوستی کی اپنی قیمت چکانی پڑتی ہے جو عوام کی طرف سے مخالفت، خارجہ پالیسی میں روس یا بائیں بازو کے اتحاد کی مخالفت وغیرہ بھی ہو سکتے ہیں۔ میں ہنری کسنجر کو اتنا احمق نہیں سمجھتا کہ وہ اس طرح کھلے عام اپنے خلاف بیان دیتا :)

۔ مجھے کتاب کا نام یا د نہیں آ رہا تھا کس میں پرھا تھا یہ میں نے ۔ اس نے یہ کہا تھا
"اگر آپ امریکا کے دشمن ہیں تو آپکے بچنے کے چانسز ہیں لیکن اگر آپ امریکا کے دوست ہیں تو آپ کو دنیا کی کوئی طاقت امریکا کے چنگل سے نہیں بچاسکتی اور آپ یقیناً برے انجام کو پہنچیں گے۔"

یہی جملہ آپ یہاں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ جو کسی کالم نگار نے اپنے کالم میں کاپی کیا ہے ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
۔ مجھے کتاب کا نام یا د نہیں آ رہا تھا کس میں پرھا تھا یہ میں نے ۔ اس نے یہ کہا تھا
"اگر آپ امریکا کے دشمن ہیں تو آپکے بچنے کے چانسز ہیں لیکن اگر آپ امریکا کے دوست ہیں تو آپ کو دنیا کی کوئی طاقت امریکا کے چنگل سے نہیں بچاسکتی اور آپ یقیناً برے انجام کو پہنچیں گے۔"

یہی جملہ آپ یہاں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ جو کسی کالم نگار نے اپنے کالم میں کاپی کیا ہے ۔
بہت شکریہ ساقی۔ میں نے بہت کوشش کی ہے لیکن مجھے کہیں سے بھی یہ فقرہ ہنری کسنجر سے منسوب اقوال کی لسٹ میں نہیں ملا۔ اکثر جگہوں پر میں نے ہنری کسنجر کے مشہور اقوال دیکھے ہیں، لیکن یہ نہیں ملا۔ آپ کوئی ایسا حوالہ دے سکتے ہوں جو ترجمہ نہ ہو، بلکہ اصل شکل میں موجود ہو تو بہت آسانی رہے گی
 

عمراعظم

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکہ سياسی، معاشی اور سفارتی سطح پر ايسے بہت سے ممالک سے باہمی دلچسپی کے امور پر تعلقات استوار رکھتا ہے جس کی قيادت سے امريکی حکومت کے نظرياتی اختلافات ہوتے ہيں۔

جہاں امريکہ کے ايسے ممالک سے روابط رہے ہيں جہاں آمريت ہے، وہاں ايسے بھی بہت سے ممالک ہيں جہاں جمہوريت يا اور کوئ اور نظام حکومت ہے۔

يہ کيسی منطق ہے کہ امريکہ دنيا کے کسی بھی ملک سے روابط قائم کرنے کے ليے پہلے وہاں کا حکومتی اور سياسی نظام تبديل کرے يا ايسا حکمران نامزد کرے جو عوامی مقبوليت کی سند رکھتا ہو۔ يہ ذمہ داری اس ملک کے سياسی قائدين اور عوام کی ہوتی ہے اور کوئ بيرونی طاقت اس ضمن ميں فيصلہ کن کردار نہيں ادا کر سکتی۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu

جی فواد صاحب ! یقینا" امریکہ نے بہت سے ممالک سے تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں ۔ البتہ جیسا کہ میں نے تحریر کیا تھا " کسی بیو پاری کی طرح منافع کی توقع کے مطابق۔" مثلا" سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات مثالی ہیں لیکن اگر ان میں سے تیل کے عنصر کو نکال دیا جائے تو ؟۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جی فواد صاحب ! یقینا" امریکہ نے بہت سے ممالک سے تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں ۔ البتہ جیسا کہ میں نے تحریر کیا تھا " کسی بیو پاری کی طرح منافع کی توقع کے مطابق۔" مثلا" سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات مثالی ہیں لیکن اگر ان میں سے تیل کے عنصر کو نکال دیا جائے تو ؟۔
تیل کے بغیر تو گاڑی بھی نہیں چلتی، آپ دو ملکوں کے باہمی تعلقات چلنے یا نہ چلنے کی بات کر رہے ہیں؟
 

ساقی۔

محفلین
بہت شکریہ ساقی۔ میں نے بہت کوشش کی ہے لیکن مجھے کہیں سے بھی یہ فقرہ ہنری کسنجر سے منسوب اقوال کی لسٹ میں نہیں ملا۔ اکثر جگہوں پر میں نے ہنری کسنجر کے مشہور اقوال دیکھے ہیں، لیکن یہ نہیں ملا۔ آپ کوئی ایسا حوالہ دے سکتے ہوں جو ترجمہ نہ ہو، بلکہ اصل شکل میں موجود ہو تو بہت آسانی رہے گی
کم از کم دو سال پہلے میں نے کسی کتاب میں یہ فقرہ پڑھا تھا ۔ تو مجھے بھی بہت حیرت ہوئی تھی کہ یہ شخص امریکہ میں رہ کر اسی کے خلاف اتنی سخت رائے رکھتا ہے ۔ یہان یہ بھی بتا دوں کہ میں نے یہ فقرہ اردو کی کتاب میں پڑھا تھا ۔ کتاب کے ساتھ ہنری کسجنر کی بک یا تحریر کا حوالہ بھی تھا ۔ جو کہ میں نے چیک نہیں کیا ۔ جیسا کہ ہم پاکستانیوں کی عادت ہے ۔​
آپ کی معلومات مجھ سے بہت وسیع ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا اس نے کہا ہی نہ ہو۔ اور پھر میں نے چیلنج بھی نہیں کیا کہ یہ سچ ہے ۔ جتنی معلومات تھی میرے پاس وہ شیئر کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہر حال کوشش کرتا ہوں کہ مجھے یاد آ جائے کہ میں نے یہ تحریر کہاں پڑھی تھی۔​
 

شمشاد

لائبریرین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی حکومت دنيا بھر کے ممالک ميں اسلامی قوانين کے خاتمے کے مشن پر نہيں ہے۔ اس ضمن میں آپ کو سعودی عرب کی مثال دوں گا جہاں قانونی سازی کے عمل ميں وسيع بنيادوں پر اسلامی قوانين کا اطلاق کيا جاتا ہے۔ يہ درست ہے کہ امريکہ بہت سے قوانين اور روايات سے متفق نہيں ليکن اس کے باوجود سعودی عرب کے عوام اور ان کی حکومت سے امريکہ کے ديرينيہ تعلقات ہيں جو کئ دہائيوں پر محيط ہيں۔

اس وقت دنيا ميں قريب 50 سے زائد اسلامک ممالک ہيں اور ان ميں سے زيادہ تر ممالک سے امريکہ کے باہم احترام کے اصولوں کی بنياد پر دوستانہ تعلقات ہيں۔

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ ايسے کئ غير مسلم ممالک بھی ہیں جہاں پر کچھ روايات اور قوانين امريکی معاشرے کے اصولوں سے مطابقت نہيں رکھتے ليکن اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ ان ممالک سے سفارتی تعلقات استوار کرنے سے پہلے ان قوانين کو تبديل کرے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
سعودی حکومت کو امریکہ کیوں چھیڑے گا جہاں سے بے حساب دولت اور بے حساب تیل جو ملتا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کم از کم دو سال پہلے میں نے کسی کتاب میں یہ فقرہ پڑھا تھا ۔ تو مجھے بھی بہت حیرت ہوئی تھی کہ یہ شخص امریکہ میں رہ کر اسی کے خلاف اتنی سخت رائے رکھتا ہے ۔ یہان یہ بھی بتا دوں کہ میں نے یہ فقرہ اردو کی کتاب میں پڑھا تھا ۔ کتاب کے ساتھ ہنری کسجنر کی بک یا تحریر کا حوالہ بھی تھا ۔ جو کہ میں نے چیک نہیں کیا ۔ جیسا کہ ہم پاکستانیوں کی عادت ہے ۔​
آپ کی معلومات مجھ سے بہت وسیع ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا اس نے کہا ہی نہ ہو۔ اور پھر میں نے چیلنج بھی نہیں کیا کہ یہ سچ ہے ۔ جتنی معلومات تھی میرے پاس وہ شیئر کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہر حال کوشش کرتا ہوں کہ مجھے یاد آ جائے کہ میں نے یہ تحریر کہاں پڑھی تھی۔​
بالکل بجا کہا آپ نے۔ میں نے اسی لئے پوچھا کہ شاید آپ کے علم میں اصل قول ہو، خیر کوئی بات نہیں۔ ہنری کسنجر ہے اس کا نام یعنی ک س ن ج ر :)
 

زبیر مرزا

محفلین
میرے بہت سے رشتہ دار دوست احباب امریکہ اور دوسرے ملکوں میں مقیم ہیں۔مگر امریکہ میں سب سے زیادہ ہیں ۔وہ پاکستانی ہیں ، وہاں رہتے ہیں، امریکہ کے قانون فالو کرتے ہیں ۔اپنے مذہب پر بھی عمل پیرا ہیں اور اس میں انہیں کوئی روک ٹوک بھی نہیں ہے ۔ ان کو پاکستان سے زیادہ اپنے اس رہنے والے ملک امریکہ سے ہمدردی ہے۔ان میں سے اب ان کی اولادیں جو وہاں پیدا ہوئی ہیں ان کا ملک امریکہ ہی ہے۔ان کے نزدیک پاکستان کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ وہ ان کے آباؤاجداد کا ملک ہے۔
یہ بات کس بنیاد پرکہی جاسکتی ہے کوئی سروے رپورٹ ہے یا غیب کا علم جو امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو پاکستان سے زیادہ امریکہ کا ہمدرد
بتایا جارہا ہے کون سا پیمانہ جس سے اسےناپ اور جانچ رہے ہیں - پاکستان میں جب کوئی آفات آئی تو سب سے زیادہ فنڈ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں نے بھیجے-شوکت خانم کینسر ہسپتال ہو یا ایدھی ٹرسٹ پاکستانی بھائیوں کی فلاح میں پیش پیش امریکی شہریت رکھنے والے پاکستانی کیوں کر مشکوک گردانے جائیں گے ؟
اگرجرم امریکہ میں رہنا ہے تو برطانیہ ، میڈل ایسٹ، سعودیہ عرب اور یورپ میں مقیم پاکستانی بھی پاکستان سے زیادہ وہاں
کے خیرخواہ کہے جائیں -
 

Fawad -

محفلین
سعودی حکومت کا انسانی حقوق کا ریکارڈ سب کے سامنے ہے۔ اس پر ابھی تک امریکی حکومت نے کیا کیا؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


اس ميں کوئ شک نہيں کہ ہم اپنی جمہوری اقدار اور نظام حکومت کو مقدم سمجھتے ہيں اور ہم بلاتردد دنيا بھر ميں ان اقدار کا پرچار بھی کرتے ہيں۔ ليکن يہ سوچ غير منطقی ہے کہ ہم زبردستی دنيا کے ہر ملک ميں جمہوريت تھوپنے کی سعی کريں اور جو بھی ہمارے نظريات سے اختلاف کرے ہم اس سے سفارتی تعلقات منقطع کر ليں۔ اس قسم کا رويہ تو جمہوری اور سفارتی روايات اور ان کی بنيادی روح کے بھی منافی ہے۔
جہاں تک سعودی عرب کا سوال ہے تو اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ سعودی معاشرے ميں بہت سے قوانين اور روايات سے متفق نہيں اور اس کا اظہار عوامی سطح پر کيا جاتا ہے۔ليکن اس کے باوجود سعودی عرب کے عوام اور ان کی حکومت سے امريکہ کے ديرينيہ تعلقات ہيں جو کئ دہائيوں پر محيط ہيں۔

سعودی عرب ميں انسانی حقوق کے ريکارڈ کے حوالے سے ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکی حکومت دنيا بھر کے ممالک ميں قوانين، طرز حکومت اور ثقافتی تشخص کے خاتمے کے مشن پر نہيں ہے۔ يہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ دنيا بھر ميں ايسے بہت سے ممالک ہیں جن سے امريکہ تيل خريدتا ہے ليکن اس کے باوجود انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے تحفظات سے انھيں آگاہ کرتا رہتا ہے۔

اس وقت دنيا ميں قريب 50 سے زائد اسلامک ممالک ہيں اور ان ميں سے زيادہ تر ممالک سے امريکہ کے باہم احترام کے اصولوں کی بنياد پر دوستانہ تعلقات ہيں۔

ايسے کئ غير مسلم ممالک بھی ہیں جہاں پر کچھ روايات اور قوانين امريکی معاشرے کے اصولوں سے مطابقت نہيں رکھتے ليکن اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ ان ممالک سے سفارتی تعلقات استوار کرنے سے پہلے ان قوانين کو تبديل کرے۔

سعودی عرب سے اچھے تعلقات کے باوجود امريکی حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف مسلسل اپنا موقف واضح کيا ہے۔ اگر آپ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی انسانی حقوق کے حوالے سے سعودی عرب پر رپورٹ کا مطالعہ کريں تو آپ کو امريکہ کے تحفظات کا اندازہ ہو جائے گا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

فاتح

لائبریرین
يہ درست ہے کہ امريکہ بہت سے قوانين اور روايات سے متفق نہيں ليکن اس کے باوجود سعودی عرب کے عوام اور ان کی حکومت سے امريکہ کے ديرينيہ تعلقات ہيں جو کئ دہائيوں پر محيط ہيں۔

اس وقت دنيا ميں قريب 50 سے زائد اسلامک ممالک ہيں اور ان ميں سے زيادہ تر ممالک سے امريکہ کے باہم احترام کے اصولوں کی بنياد پر دوستانہ تعلقات ہيں۔
ہاہاہاہا
کیوں لطیفے سناتے ہو؟۔۔۔ جاننا چاہتے ہو کہ لفظ امریکی سعودی و دیگر عرب "عوام" میں کن مواقع پر استعمال ہوتا ہے؟
جسے ماں بہن کی گالی سے بھی کہیں بڑھ کے گالی دینا مقصود ہو اسے "امریکی" کہہ کر بلایا جاتا ہے۔
فواد "امریکی" صاحب
 

سید ذیشان

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


اس ميں کوئ شک نہيں کہ ہم اپنی جمہوری اقدار اور نظام حکومت کو مقدم سمجھتے ہيں اور ہم بلاتردد دنيا بھر ميں ان اقدار کا پرچار بھی کرتے ہيں۔ ليکن يہ سوچ غير منطقی ہے کہ ہم زبردستی دنيا کے ہر ملک ميں جمہوريت تھوپنے کی سعی کريں اور جو بھی ہمارے نظريات سے اختلاف کرے ہم اس سے سفارتی تعلقات منقطع کر ليں۔ اس قسم کا رويہ تو جمہوری اور سفارتی روايات اور ان کی بنيادی روح کے بھی منافی ہے۔
جہاں تک سعودی عرب کا سوال ہے تو اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ سعودی معاشرے ميں بہت سے قوانين اور روايات سے متفق نہيں اور اس کا اظہار عوامی سطح پر کيا جاتا ہے۔ليکن اس کے باوجود سعودی عرب کے عوام اور ان کی حکومت سے امريکہ کے ديرينيہ تعلقات ہيں جو کئ دہائيوں پر محيط ہيں۔

سعودی عرب ميں انسانی حقوق کے ريکارڈ کے حوالے سے ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکی حکومت دنيا بھر کے ممالک ميں قوانين، طرز حکومت اور ثقافتی تشخص کے خاتمے کے مشن پر نہيں ہے۔ يہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ دنيا بھر ميں ايسے بہت سے ممالک ہیں جن سے امريکہ تيل خريدتا ہے ليکن اس کے باوجود انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے تحفظات سے انھيں آگاہ کرتا رہتا ہے۔

اس وقت دنيا ميں قريب 50 سے زائد اسلامک ممالک ہيں اور ان ميں سے زيادہ تر ممالک سے امريکہ کے باہم احترام کے اصولوں کی بنياد پر دوستانہ تعلقات ہيں۔

ايسے کئ غير مسلم ممالک بھی ہیں جہاں پر کچھ روايات اور قوانين امريکی معاشرے کے اصولوں سے مطابقت نہيں رکھتے ليکن اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ ان ممالک سے سفارتی تعلقات استوار کرنے سے پہلے ان قوانين کو تبديل کرے۔

سعودی عرب سے اچھے تعلقات کے باوجود امريکی حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف مسلسل اپنا موقف واضح کيا ہے۔ اگر آپ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی انسانی حقوق کے حوالے سے سعودی عرب پر رپورٹ کا مطالعہ کريں تو آپ کو امريکہ کے تحفظات کا اندازہ ہو جائے گا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu

آپ بیشک سفارتی تعلقات رکھیں، لیکن ڈکٹیرز کو تو سپورٹ نہ کریں۔ مڈل ایسٹ میں اسرائیل کے بعد واحد قدرے جمہوری ملک ایران ہے اور سے آپ کے سفارتی تعلقات کیسے ہیں؟

جہاں تک اندرونی معاملات میں مداخلت کی بات ہے تو اس وقت سی آئی اے شام میں FSA کو ہتھیار پہنچانے میں مدد دے رہی ہے۔ یہ رہی نیویارک ٹائمز کی رپورٹ۔ اور ادھر آپ مسلمان مملک سے سفارتی تعلقات کی بات کرتے ہیں- امریکہ شام میں وہی کر رہا ہے جو 80 کی دہائی میں افغانستان میں کیا تھا۔

کبھی موقع ملے تو اپنے ہی ملک کے رائٹر نوم چومسکی کا بھی مطالعہ کریں۔ ہم یہاں پر اردو میں ضرور لکھتے ہیں لیکن جاہل نہیں ہیں کہ آپ کی رام کہانیوں پر یقین کر لیں گے۔
 
Top