آصف اثر
معطل
اتنا قتلِ عام امریکہ کے شروع کردہ دہشت گردی سے نہیں ہوا جتنا امریکہ نے مسلمانوں کو قتل کیا۔یہ حقیقت ہے۔دنیا نے دیکھا ، دیکھ رہی ہے اور دیکھے گی۔ اس کے لیے کسی اعدادوشمار کی ضرورت نہیں۔فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
آپ کی دليل نا صرف يہ کہ ناقابل فہم ہے بلکہ حقائق کے بھی منافی ہے۔ آپ کا دعوی ہے کہ امريکی حکومت مسلمانوں کے قتل عام کو سرے سے کوئ اہميت ہی نہيں ديتی۔ تاہم اس ضمن ميں آپ اعداد وشمار کو بالکل نظرانداز کر رہے ہيں۔
سال 2011 ميں امريکی حکومت کے ايک ادارے کی رپورٹ شائع کی گئ جس ميں اس حقيقت کو واضح کيا گيا کہ دہشت گردی کے واقعات کے نتيجے ميں ہلاک ہونے والے بے گناہ شہريوں کی اکثريت يعنی کہ 82 سے 97 فيصد تک مسلمان ہيں۔
اس رپورٹ ميں پيش کيے جانے والے تفصيلی اعداد وشمار آّپ اس لنک پر ديکھ سکتے ہيں۔
Country Reports on Terrorism 2011 National Counterterrorism Center: Annex of Statistical Information
جب امريکی حکومت سرکاری طور پر اس حقيقت کو تسليم بھی کر رہی ہے اور اس کو اجاگر بھی کر رہی ہے کہ عالمی دہشت گردی کا شکار ہونے والوں ميں اکثريت مسلمانوں کی ہے تو پھر تو منطقی اعتبار سے آپ کے دعوے ميں اگر کوئ بھی صداقت ہوتی تو اس صورت ميں امريکی حکومت دہشت گردی کے عالمی عفريت کو نظرانداز کر رہی ہوتی۔ ليکن حقيقت تو يہ ہے کہ امريکی حکومت اس خطرے سے نبرد آزما ہونے کے ليے اپنے بے شمار وسائل فراہم کر رہی ہے۔
امریکہ کا سخت ترين نقاد بھی اس حقيقت کو تسليم کرے گا کہ امريکہ عالمی دہشت گردی سے سدباب کے ليے ہر ممکن کاوش کر رہا ہے۔
امريکی کاوش کو درست تناظر ميں سمجھنے کے ليے داعش کے خلاف جاری کاوشوں ميں امريکی امداد کے حوالے سے کچھ اعداد وشمار پيش ہيں۔ ياد رہے کہ داعش ايک ايسی دہشت گرد تنظيم ہے جو پورے خطے ميں مسلمانوں کو نا صرف يہ کہ قتل کر رہی ہے بلکہ مسلمان ممالک کے ليے ايک مشترکہ خطرہ بن چکی ہے۔
فروری 28 2017 تک داعش کے خلاف جاری فوجی آپريشنز، جن کا آغاز اگست 8 2014 کو ہوا تھا، امريکی حکومت اب تک 9۔11 بلين ڈالرز خرچ کر چکی ہے اور قريب 936 دنوں پر محيط ان آپريشنز پر يوميہ 8۔12 ملين ڈالرز کی لاگت آ رہی ہے۔
Special Report: Inherent Resolve
چاہے وہ پاکستانی حکومت يا ان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحيتوں ميں اضافے کے ليے مختض کيے جانے والے بے شمار وسائل ہوں، جو پاکستانی شہريوں کی حفاظت کو يقینی بنانے کے ليے فراہم کيے گئے۔ يا پھر افغانستان کے عام شہريوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ليے افغان حکومت کی مدد کے ليے فراہم کيے جانے وسائل ہوں، امريکہ سے زيادہ دنيا کے کسی اور ملک نے اپنا کردار ادا نہيں کيا ہے۔
اس بات کی ايک منطقی، قابل قبول اور عقل پر مبنی توجيہہ موجود ہے کہ عالمی برادری بشمول اسلامی ممالک اب اس بات پر متفق ہيں کہ ان قوتوں کے خلاف مشترکہ کاوشوں اور وسائل کا اشتراک وقت کی اہم ضرورت ہے جو نا تو سرحدوں کی حرمت کو مانتے ہيں، نا ہی متنوع ثقافتی اقدار کا پاس رکھتے ہيں۔ يہ دہشت گرد ديگر مذاہب کے ضمن ميں عدم رواداری کے ساتھ عمومی طورپر ہر اس عنصر کے خلاف نفرت کے جذبات رکھتے ہيں جو ان کی وحشيانہ طرز زندگی اور مخصوص مذہبی سوچ سے ميل نا کھاتا ہو اور اس ضمن ميں وہ دنيا بھر ميں مسلمانوں کی اکثريت کو بھی اسی پيرائے ميں ديکھتے ہيں۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter
USUrduDigitalOutreach
Digital Outreach Team (@doturdu) • Instagram photos and videos
Us Dot
آپ ملازم ہیں بھلے اس طرح کے رپورٹس جاری کرتے رہیے۔