ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے:
جنگ اخبار نے کہا:
یہ انداز فکر کیا ہے!,,,,,حرفیہ…محمد ساجد خان
پاکستان کے عوام گزشتہ چند دنوں سے ایک عجیب صورتحال سے دوچار ہیں۔ پاکستان کے مہربان اور مخلص دوست اور واحد عالمی طاقت امریکہ سب کی توجہ بنا ہوا ہے۔ گزشتہ سال کے تباہ کن زلزلہ کے بعد امریکی امداد ایک قابل اعتبار دوست کی حیثیت میں پاکستان کے لئے بہت ہی مددگار بنی۔ امریکہ نے ہر ممکن طریقہ سے زلزلہ زدگان کے لئے مالی اور تکنیکی مدد بلا تامل شروع کی۔ اس نے خصوصی طور پر اپنے ہیلی کاپٹر ہنگامی طور پر پاکستان کے حوالے کئے اور وہ مسلسل ایک لمبے عرصہ تک تباہ حال علاقے میں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مالی طور پر بھی ایک خطیر رقم علاقائی تعمیر نو کے لئے دینے کا وعدہ کیا۔ پھر اقوام متحدہ میں بھی پاکستان کے لئے امدادی سرگرمیوں میں مشاورت کی۔ امریکہ دہشت گردی کی جنگ میں ہمارا اہم ترین حلیف ہے اس نے ہماری سرحدوں کی موثر نگرانی کے لئے بہت ضروری اسلحہ اور سامان حرب دیا۔ اس کے علاوہ دہشت گردوں کے گرد دائرہ تنگ کرنے کے لئے اس نے ہمارے تمام ایئرپورٹوں پر جدید ترین نگرانی کا خصوصی نظام دیا۔ اس خصوصی نظام کی وجہ سے پاکستان سے فضائی انسانی سمگلنگ میں بہت کمی ہوئی۔ پاکستان سے باہر جانے اور آنے والوں کی مکمل نگرانی ہونے لگی۔ امریکہ نے یہ تمام امداد باہمی مشورے اور مشاورت کے ساتھ دی اور ہمارے عوام کو اندازہ نہیں کہ امریکی توجہ اور امداد سے پاکستان عالمی سیاست میں اہم حیثیت کا حامل ملک تصور ہونے لگا ہے۔ باجوڑ میں امریکی حملہ پاکستان کے عوام کے لئے حیران کن تھا۔ پھر ہماری اپوزیشن نے تو آسمان ہی سر پر اٹھا لیا اور ان تمام حقائق کو نظر انداز کر دیا جو اس حملہ کا باعث بنے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ اس کارروائی پر صدر پاکستان کو امریکہ سے گلہ کرنا چاہئے۔ جبکہ اصولی اور اخلاقی طور پر قانون اور قاعدے کے مطابق امریکی سفیر کو دفتر خارجہ میں عوامی ردعمل سے آگاہ کیا گیا۔ پھر امریکہ اپنے طور پر بھی اس تمام صورتحال سے آگاہ تھا۔ اس سلسلہ میں امریکی موقف بڑا واضح رہا ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ اور کارروائی باہمی معلومات کے تبادلے کے بعد کی گئی تھی اور اس کا معقول جواز بھی ہے اور اب تک اس کارروائی میں مرنے والوں کی شناخت مکمل نہیں ہو سکی ہے۔ امریکہ بھی اس معاملہ پر تحقیق کر رہا ہے۔ اس معاملہ پر صدر پاکستان کی خاموشی بھی بڑا مثبت ردعمل تھا اور اب جو انہوں نے کہا ہے کہ باجوڑ میں القاعدہ پر منسلک غیر ملکیوں کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں یہ بھی بڑا معنی خیز ہے جبکہ پاکستان کے وزیر اعظم نے بڑے لطیف پیرائے میں اس معاملہ کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ہماری اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ وزیراعظم پاکستان شوکت عزیز اپنا دورہ امریکہ منسوخ کر دیں۔ جبکہ ان کے دورہ کی وجہ سے پا کستان کو اپنا موقف زیادہ بہتر طریقہ سے پیش کرنے کا موقعہ ملا ہے اور انہوں نے امریکہ میں ہر فورم پر اس حملہ کی نوعیت کے بارے میں واضح ردعمل کا اظہار کیا ہے اوریقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کہ مستقبل میں ایسا کوئی بھی عمل کرنے سے پیشتر اس کے محرکات کے بارے میں پاکستان کو اعتماد میں لیا جائے گا آج تک کسی بھی پاکستانی وزیراعظم نے اتنے واضح انداز میں اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ شوکت عزیز صاحب نے امریکی دوستوں کو باور کروایا کہ پاکستان نے امریکی دوستی کے لئے باہمی مشاورت کو ہمیشہ اہمیت دی ہے اور دہشت گردی کی جنگ میں وہ امریکہ کے شانہ بشانہ شریک ہے۔ پھر پا کستان نے دنیا بھر سے سب سے زیادہ دہشت گرد لوگوں کی نشاندہی کی ہے۔ جس کا احساس امریکہ کو ہے اور امریکی صدرنے کئی بار پاکستان کے کردار کی تعریف کی ہے اور پاکستان سے دوستی کو اہمیت دی ہے۔ اگرچہ کچھ معاملات میں پاکستان کی طرف سے ایسے اقدامات بھی کئے گئے ہیں جن پر امریکہ کا ردعمل محفوظ ہے۔ ہمارے یہاں آئے دن امریکہ کے بارے میں منفی ردعمل کا اظہار مختلف طبقہ فکر کرتے رہتے ہیں جو کہ حقائق کے برعکس ایک غیر ضروری سلسلہ ہے۔ جس سے عوام کو اصل حقائق سے دور کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہمارے طالب علم اور تارکین وطن ایک کثیر تعداد میں امریکہ میں مقیم ہیں اور امریکہ کو ان لوگوں کی اہمیت کا احساس ہے۔ پھر ہمارے اندرون ملک اس قسم کے قول و کردار سے بین الاقوامی تعلقات پر بھی منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ باجوڑ میں جو کچھ بھی ہوا وہ کسی طرح بھی قابل قبول نہیں۔ مگر اس معاملہ کو مناسب طریقہ سے طے کرنے کے لئے حوصلے اور ظرف کی ضرورت ہے۔ اگر باہمی معلومات کے تبادلہ میں دونوں طرف سے کوئی غلط فہمی ہے تو اس کواعلیٰ سطح پر غور فکر کرکے دور کیا جانا چاہئے اس معاملہ میں جناب شوکت عزیز کا رویہ اور کردار سب سے زیادہ مناسب اور موثر ہے۔ شوکت عزیز نے امریکہ میں اپنا مقدمہ بہت خوبصورت انداز میں پیش کرکے عوامی جذبات سے آگاہ کیا اور امریکہ کو اندازہ ہوگیا ہے کہ کسی کارروائی سے پہلے زیادہ اعتماد اور تعلق کی ضرورت ہے۔ امریکی حکومت ہمارے سماجی ڈھانچے کے لئے ہمارے عدالتی نظام کے لئے اور ہمارے دفاعی معاملات کے لئے ایک اچھے دوست کی حیثیت میں بہت مدد فراہم کر رہا ہے اور ان تبدیلیوں کا نتیجہ ایک روشن خیال اور ترقی پسند پاکستان کی صورت میں انشاء اللہ جلد نظر آئے گا۔ ہماری اپوزیشن کو ایسے معاملات میں تنگ نظری کی بجائے متبادل تجاویز کے ذریعے حکومت کو عوام کے مفادات کے تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور امریکی سرکار سے بھی اپنا تعلق خاطر رکھنا چاہئے تاکہ امریکہ کے تھینک ٹینکس کو اندازہ ہو سکے۔ کہ پاکستان میں تبدیلی لانے کے خواہش مند لوگ بھی زمینی حقائق سے واقف ہیں۔ کیا امریکی سفیر کو ناپسندیدہ شخص قرار دینے سے اپوزیشن فاتح بن جائے گی۔ سچ اور اخلاق کے ذریعے اپنا اور عوام کے مفاد کا بہتر تحفظ کیا جا سکتا ہے اور عوام کے مفاد کی جنگ اتفاق سے زیادہ اچھے طریقہ سے لڑی جاسکتی ہے۔
میری ناقص رائے کے مطابق ہر چیز کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ انسانی شعور اتنی ترقی کر جاتا کہ ہم لوگ ایک دوسرے کی مخالفت کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے اچھی چیزیں سیکھ سکتے اور دنیا محبت و امن کا گہوارہ بنتا۔
مگر یہاں حالات بالکل ہی اس کی ضد نظر آ رہے ہیں۔
انسانی تہذیب و شعور کی ترقی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے نفرت بڑھ رہی ہے۔ اس کا ثبوت امریکہ میں بنیاد پرستوں کا آنا، انڈیا میں بے جے پی کا آنا وغیرہ شامل ہے۔
خود ہمارے پیارے وطن میں چیزیں صحیح ڈگر پر نہیں چل رہیں اور نفرت کا عالم ہے۔ بہت سے دینی حلقے ایک دوسرے کو بالکل ہی برداشت نہیں کر سکتے۔ کفر و شرک کے فتوے عام ہیں۔ اور دوسروں کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی گذارنے کی اجازت دینے کے لیے بالکل تیار نہیں۔
بہرحال موضوع پر پلٹتے ہیں۔ عوام کی طرف سے اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج بہت اچھا ہے اور امریکہ ایسی غلطی دوبارہ کرتے ہوئے کئی مرتبہ سوچے گا۔
دوسری طرف، جب تک ریاست کے اندر ایک اور ریاست قائم ہے جو غیر قانونی چیزوں میں ملوث ہے، اُس وقت تک شاید یہ ڈرامہ بار بار دہرایا جاتا رہے۔
بہت سخت وقت ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ساتھ کس کا دیں کیونکہ دونوں طرف کے فریقین ہی غلطی پر لگتے ہیں۔