امریکی اعتراضات۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیفی

محفلین
چین ہرسال فوج کی توسیع پر اربوں ڈالر خرچ کررہا ہے، امریکا


بیجنگ (ریڈیو رپورٹ) بحرالکاہل میں امریکی افواج کے کمانڈر ایڈمرل ولیم فالن نے کہا ہے کہ بیجنگ اپنی فوج میں جو توسیع کررہا ہے وہ ایک ایسے ملک کے لئے جسے کسی بیرونی خطرے کا سامنا نہ ہو‘ بہت زیادہ ہے۔ امریکی ریڈیو وائس آف امریکا کے مطابق گزشتہ کئی سال سے چین اپنی افواج کو جدید خطوط پر استوار کررہا ہے جس پر وہ ہرسال اربوں ڈالر خرچ کررہا ہے۔اس نے نئے لڑاکا جیٹ طیارے‘ میزائل نظام‘ جوہری آبدوزیں اور دوسرا فوجی سازوسامان خریدا ہے۔ زیادہ تر یہ سامان روس سے خریدا گیا ہے۔ چین کے دورے پر گئے ہوئے ایڈمرل ولیم فالن کا کہنا ہے کہ وہ چین کے لئے کوئی بیرونی خطرہ نہیں دیکھتے۔ اس لئے فوجی صلاحیت میں توسیع ملکی پیداوار اور ترقی کے مطابق ہونی چاہیے۔ چینی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس سال فوجی اخراجات میں 12 فیصد کا اضافہ کیا ہے‘ جبکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حقیقی اعدادوشمار غالباً اس سے کہیں زیادہ ہوں۔ گزشتہ جولائی میں امریکی محکمہ دفاع نے چین کی فوجی توسیع کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی تھی اور کہا تھا کہ یہ توسیع اس خطے میں دوسروں مثلاً تائیوان کے لئے خطرہ ہوسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
امریکا کا اپنے فوجی اخراجات بارے کیا خیال ہے۔ کیا دنیا میں صرف امریکا کو فوجی قوت رکھنے کی ضرورت ہے۔

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
 

الف نظامی

لائبریرین
جی ہاں امریکی اپنی توسیع پسندانہ اور سامراجیانہ مفادات کیلیے منافقت کی تمام حدیں عبور کرنا جائز سمجھتا ہے۔ اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کا تو کسی کو خیال نہیں آتا۔ بڑا ایران کا درد اٹھا ہوا ہے اس کے پیٹ میں۔
 

زیک

مسافر
امریکہ کی اس معاملے میں منافقت اپنی جگہ اگرچہ یہ منافقت سب میں پائی جاتی ہے مثلاً پاکستان اور ہندوستان بہت شور مچاتے ہیں اگر دوسرا کوئی اسلحہ حاصل کرے۔ خیر واپس موضوع پر آتے ہوئے میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ چین کوئی اچھا ملک نہیں ہے وہ اپنے شہریوں کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کرتا اور چینی ترکستان کے مسلمانوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں تو آپ لوگوں کو علم ہو گا ہی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جی ہاں اور امریک بڑا اچھا ملک ہے اور ادھر مسلمانوں سے بڑا مبی بر انصاف رویہ رکھا جاتا ہے اور وہ انسانی حقوق کا علمبردار ہے۔ تیل پینا تو صرف مزاح کے طور ہر ہے۔ خون پینا بھی محض دل لگی ہے اس کی۔
چین میں یہ باتیں ہر گز نہیں۔
پاکس چین دوستی زندہ باد۔
 

الف نظامی

لائبریرین
میں پھر کہہ رہا ہوں کہ یہ مسلمانوں کی بات ہو رہی ہے کشمیر میں ایک لاکھ سے زاید اور گجرات کا قتلِ عام۔ او آئی سی میں بھارت کی شمولیت کسی طرح ممکن نہیں بنا سکتے۔ چین والی بات امریکیوں کا پروپگنڈا ہوگا۔ اور ویسے بھی امریکہ اب چین سے خطرہ محسوس کر رہا ہے۔
 

زیک

مسافر
اس تھریڈ پر مسلمانوں یا انڈیا کی نہیں چین کی بات ہو رہی ہے۔

چین کے democide کے بارے میں میں نے آپ کو بتا دیا آگے آپ مانیں یا نہ مانیں آپ کی مرضی۔
 
بات چین پر امریکی اعتراض کی ہو رہی ہے۔ اگر چین کو کوئی خطرہ نہیں جو کہ ایک غلط مفروضہ ہے تو امریکہ تو بالکل بھی کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ چین کے پڑوس میں بھارت ہے جس سے ایک جنگ ہو چکی ہے اور افغانستان، نئی آزاد روسی ریاستیں جن میں سے کچھ امریکہ کے زیر اثر ہیں اور وہاں اس کے فوجی اڈے بھی ہیں۔ تائیوان کا مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا اور اس پر چین کے تحفظات ہیں۔ امریکہ کو اب کس سے خطرہ ہے ایک زمانے میں روس تھا اب تو پوری دنیا امریکہ جارحیت کا شکار ہے- ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود جنگ چھیڑ رکھی ہے امریکہ نے اور لاکھوں بے گناہوں کی موت کا ذمہ دار بن رہا ہے۔
 

دوست

محفلین
چین اگرچہ پاکستان کا دوست ہے تاہم اس دوستی کے پیچھے مفادات چھپے ہوئے ہیں۔ اس میں‌کوئی شک والی بات نہیں۔ ترکستان کے مسلمانوں‌کے ساتھ چین کا سلوک واقعی ناروا ہے۔ یہاں‌تک سنا گیا ہے کہ وہاں‌ہان چینی نسل کے لوگوں‌کو لاکر بسایا جارہا ہے تاکہ مسلمان بغاوت نہ کرسکیں۔سارے چین کا تیل وہاں‌سے نکلتاہے اور تیل کی صنعت پر ہان چینی لوگ قابض ہیں‌مقامی آبادی لیبر میں‌کام کرتی ہے۔
وہ لوگ چین سے بے زار نہیں‌ہونگے تو اور کیا کریں گے۔
 
دوست نے کہا:
چین اگرچہ پاکستان کا دوست ہے تاہم اس دوستی کے پیچھے مفادات چھپے ہوئے ہیں۔ اس میں‌کوئی شک والی بات نہیں۔ ترکستان کے مسلمانوں‌کے ساتھ چین کا سلوک واقعی ناروا ہے۔ یہاں‌تک سنا گیا ہے کہ وہاں‌ہان چینی نسل کے لوگوں‌کو لاکر بسایا جارہا ہے تاکہ مسلمان بغاوت نہ کرسکیں۔سارے چین کا تیل وہاں‌سے نکلتاہے اور تیل کی صنعت پر ہان چینی لوگ قابض ہیں‌مقامی آبادی لیبر میں‌کام کرتی ہے۔
وہ لوگ چین سے بے زار نہیں‌ہونگے تو اور کیا کریں گے۔

شاکر آپ کی اس بات سے میں متفق ہوں کہ جو ظلم ہے وہ ظلم ہی رہے گا چاہے دوست کرے یا دشمن۔ چین میں انسانی حقوق کی حالت تسلی بخش نہیں ہے مگر امریکہ نے اس خاص سمت کبھی بھی اشارہ نہیں کیا کہ چین اپنے ملک میں بسنے والے مسلمانوں سے ناروا سلوک بند کرے ، کیوں
جواب سیدھا ہے امریکہ خود سب سے بڑھ کر یہ کام کر رہا ہے اس لیے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں اسے چین روس بھارت اور اسرایئل کی حمایت حاصل ہے کیونکہ یہ سب ممالک بھی اپنے ملکوں میں یہی کام کر رہے ہیں اور اس طرح ان کے ہاتھ ایک ایسا بہانہ آگیا جس سے ان کے تمام مظالم کو جواز میسر آگیا ہے۔
 

زیک

مسافر
محب علوی نے کہا:
چین میں انسانی حقوق کی حالت تسلی بخش نہیں ہے مگر امریکہ نے اس خاص سمت کبھی بھی اشارہ نہیں کیا کہ چین اپنے ملک میں بسنے والے مسلمانوں سے ناروا سلوک بند کرے ، کیوں

امریکہ کی رپورٹ چین میں انسانی حقوق کی خلاف‌ورزیوں سے متعلق۔ اس میں Uighur پر تلاش کریں۔
 

زیک

مسافر
ہیروشیما: 80000
ناگاساکی: 40000
عراق: 100000 لانسٹ کے ایک مضمون کے مطابق
افغانستان: معلوم نہیں
ویت‌نام: شاید 2 سے 3 ملین کل۔ ان میں سے کتنوں کی ذمہ‌داری امریکہ پر ہے کچھ کہہ نہیں سکتا۔

یہ سب جمع بھی کر لیں اور اس میں اضافہ بھی کر لیں تو 4 ملین بنتے ہیں۔ یہ higher limit ہے۔
 

جیسبادی

محفلین
ایک اندازے کے مطابق جب یورپی لوگوں نے امریکہ "دریافت" کیا تو یہاں 50 ملین اصلی باشندے آباد تھے۔ کہانیوں کے مطابق smallpox سے مر گئے۔
 

زیک

مسافر
جیسبادی نے کہا:
ایک اندازے کے مطابق جب یورپی لوگوں نے امریکہ "دریافت" کیا تو یہاں 50 ملین اصلی باشندے آباد تھے۔ کہانیوں کے مطابق smallpox سے مر گئے۔

دو باتیں:

1۔ آپ شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ کے بر اعظموں کو ملک امریکہ سے کنفیوز کر رہے ہیں۔
2۔ اگر ہم 500 یا 1000 سال قبل تک کا دیکھیں تو اور بہت لوگ بھی مارے گئے دنیا کے مختلف علاقوں میں۔ ان کو مارنے کی ذمہ‌داری کا تعین کرنا تھوڑا مشکل ہے۔ اسی لئے بیسویں اور اکیسویں صدی تک ہی محدود رکھا جائے تو بہتر ہو گا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پاک چین دوستی کو امریکہ پر قربان نہیں کرنا چاہیے۔ امریکہ نے ہمیں کیا دیا ہے۔ اکہتر میں ان کا بحری بیڑا کدھر تھا۔
پاک چین دوستی زندہ باد۔
پاک چین دوستی پر اصل میں اعتراض بھارت اور امریکہ کو ہے۔ سوچنا چاہیے کہ کیوں ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے:

جنگ اخبار نے کہا:
یہ انداز فکر کیا ہے!,,,,,حرفیہ…محمد ساجد خان
پاکستان کے عوام گزشتہ چند دنوں سے ایک عجیب صورتحال سے دوچار ہیں۔ پاکستان کے مہربان اور مخلص دوست اور واحد عالمی طاقت امریکہ سب کی توجہ بنا ہوا ہے۔ گزشتہ سال کے تباہ کن زلزلہ کے بعد امریکی امداد ایک قابل اعتبار دوست کی حیثیت میں پاکستان کے لئے بہت ہی مددگار بنی۔ امریکہ نے ہر ممکن طریقہ سے زلزلہ زدگان کے لئے مالی اور تکنیکی مدد بلا تامل شروع کی۔ اس نے خصوصی طور پر اپنے ہیلی کاپٹر ہنگامی طور پر پاکستان کے حوالے کئے اور وہ مسلسل ایک لمبے عرصہ تک تباہ حال علاقے میں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مالی طور پر بھی ایک خطیر رقم علاقائی تعمیر نو کے لئے دینے کا وعدہ کیا۔ پھر اقوام متحدہ میں بھی پاکستان کے لئے امدادی سرگرمیوں میں مشاورت کی۔ امریکہ دہشت گردی کی جنگ میں ہمارا اہم ترین حلیف ہے اس نے ہماری سرحدوں کی موثر نگرانی کے لئے بہت ضروری اسلحہ اور سامان حرب دیا۔ اس کے علاوہ دہشت گردوں کے گرد دائرہ تنگ کرنے کے لئے اس نے ہمارے تمام ایئرپورٹوں پر جدید ترین نگرانی کا خصوصی نظام دیا۔ اس خصوصی نظام کی وجہ سے پاکستان سے فضائی انسانی سمگلنگ میں بہت کمی ہوئی۔ پاکستان سے باہر جانے اور آنے والوں کی مکمل نگرانی ہونے لگی۔ امریکہ نے یہ تمام امداد باہمی مشورے اور مشاورت کے ساتھ دی اور ہمارے عوام کو اندازہ نہیں کہ امریکی توجہ اور امداد سے پاکستان عالمی سیاست میں اہم حیثیت کا حامل ملک تصور ہونے لگا ہے۔ باجوڑ میں امریکی حملہ پاکستان کے عوام کے لئے حیران کن تھا۔ پھر ہماری اپوزیشن نے تو آسمان ہی سر پر اٹھا لیا اور ان تمام حقائق کو نظر انداز کر دیا جو اس حملہ کا باعث بنے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ اس کارروائی پر صدر پاکستان کو امریکہ سے گلہ کرنا چاہئے۔ جبکہ اصولی اور اخلاقی طور پر قانون اور قاعدے کے مطابق امریکی سفیر کو دفتر خارجہ میں عوامی ردعمل سے آگاہ کیا گیا۔ پھر امریکہ اپنے طور پر بھی اس تمام صورتحال سے آگاہ تھا۔ اس سلسلہ میں امریکی موقف بڑا واضح رہا ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ اور کارروائی باہمی معلومات کے تبادلے کے بعد کی گئی تھی اور اس کا معقول جواز بھی ہے اور اب تک اس کارروائی میں مرنے والوں کی شناخت مکمل نہیں ہو سکی ہے۔ امریکہ بھی اس معاملہ پر تحقیق کر رہا ہے۔ اس معاملہ پر صدر پاکستان کی خاموشی بھی بڑا مثبت ردعمل تھا اور اب جو انہوں نے کہا ہے کہ باجوڑ میں القاعدہ پر منسلک غیر ملکیوں کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں یہ بھی بڑا معنی خیز ہے جبکہ پاکستان کے وزیر اعظم نے بڑے لطیف پیرائے میں اس معاملہ کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ہماری اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ وزیراعظم پاکستان شوکت عزیز اپنا دورہ امریکہ منسوخ کر دیں۔ جبکہ ان کے دورہ کی وجہ سے پا کستان کو اپنا موقف زیادہ بہتر طریقہ سے پیش کرنے کا موقعہ ملا ہے اور انہوں نے امریکہ میں ہر فورم پر اس حملہ کی نوعیت کے بارے میں واضح ردعمل کا اظہار کیا ہے اوریقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کہ مستقبل میں ایسا کوئی بھی عمل کرنے سے پیشتر اس کے محرکات کے بارے میں پاکستان کو اعتماد میں لیا جائے گا آج تک کسی بھی پاکستانی وزیراعظم نے اتنے واضح انداز میں اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ شوکت عزیز صاحب نے امریکی دوستوں کو باور کروایا کہ پاکستان نے امریکی دوستی کے لئے باہمی مشاورت کو ہمیشہ اہمیت دی ہے اور دہشت گردی کی جنگ میں وہ امریکہ کے شانہ بشانہ شریک ہے۔ پھر پا کستان نے دنیا بھر سے سب سے زیادہ دہشت گرد لوگوں کی نشاندہی کی ہے۔ جس کا احساس امریکہ کو ہے اور امریکی صدرنے کئی بار پاکستان کے کردار کی تعریف کی ہے اور پاکستان سے دوستی کو اہمیت دی ہے۔ اگرچہ کچھ معاملات میں پاکستان کی طرف سے ایسے اقدامات بھی کئے گئے ہیں جن پر امریکہ کا ردعمل محفوظ ہے۔ ہمارے یہاں آئے دن امریکہ کے بارے میں منفی ردعمل کا اظہار مختلف طبقہ فکر کرتے رہتے ہیں جو کہ حقائق کے برعکس ایک غیر ضروری سلسلہ ہے۔ جس سے عوام کو اصل حقائق سے دور کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہمارے طالب علم اور تارکین وطن ایک کثیر تعداد میں امریکہ میں مقیم ہیں اور امریکہ کو ان لوگوں کی اہمیت کا احساس ہے۔ پھر ہمارے اندرون ملک اس قسم کے قول و کردار سے بین الاقوامی تعلقات پر بھی منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ باجوڑ میں جو کچھ بھی ہوا وہ کسی طرح بھی قابل قبول نہیں۔ مگر اس معاملہ کو مناسب طریقہ سے طے کرنے کے لئے حوصلے اور ظرف کی ضرورت ہے۔ اگر باہمی معلومات کے تبادلہ میں دونوں طرف سے کوئی غلط فہمی ہے تو اس کواعلیٰ سطح پر غور فکر کرکے دور کیا جانا چاہئے اس معاملہ میں جناب شوکت عزیز کا رویہ اور کردار سب سے زیادہ مناسب اور موثر ہے۔ شوکت عزیز نے امریکہ میں اپنا مقدمہ بہت خوبصورت انداز میں پیش کرکے عوامی جذبات سے آگاہ کیا اور امریکہ کو اندازہ ہوگیا ہے کہ کسی کارروائی سے پہلے زیادہ اعتماد اور تعلق کی ضرورت ہے۔ امریکی حکومت ہمارے سماجی ڈھانچے کے لئے ہمارے عدالتی نظام کے لئے اور ہمارے دفاعی معاملات کے لئے ایک اچھے دوست کی حیثیت میں بہت مدد فراہم کر رہا ہے اور ان تبدیلیوں کا نتیجہ ایک روشن خیال اور ترقی پسند پاکستان کی صورت میں انشاء اللہ جلد نظر آئے گا۔ ہماری اپوزیشن کو ایسے معاملات میں تنگ نظری کی بجائے متبادل تجاویز کے ذریعے حکومت کو عوام کے مفادات کے تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور امریکی سرکار سے بھی اپنا تعلق خاطر رکھنا چاہئے تاکہ امریکہ کے تھینک ٹینکس کو اندازہ ہو سکے۔ کہ پاکستان میں تبدیلی لانے کے خواہش مند لوگ بھی زمینی حقائق سے واقف ہیں۔ کیا امریکی سفیر کو ناپسندیدہ شخص قرار دینے سے اپوزیشن فاتح بن جائے گی۔ سچ اور اخلاق کے ذریعے اپنا اور عوام کے مفاد کا بہتر تحفظ کیا جا سکتا ہے اور عوام کے مفاد کی جنگ اتفاق سے زیادہ اچھے طریقہ سے لڑی جاسکتی ہے۔

میری ناقص رائے کے مطابق ہر چیز کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ انسانی شعور اتنی ترقی کر جاتا کہ ہم لوگ ایک دوسرے کی مخالفت کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے اچھی چیزیں سیکھ سکتے اور دنیا محبت و امن کا گہوارہ بنتا۔

مگر یہاں حالات بالکل ہی اس کی ضد نظر آ رہے ہیں۔

انسانی تہذیب و شعور کی ترقی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے نفرت بڑھ رہی ہے۔ اس کا ثبوت امریکہ میں بنیاد پرستوں کا آنا، انڈیا میں بے جے پی کا آنا وغیرہ شامل ہے۔

خود ہمارے پیارے وطن میں چیزیں صحیح ڈگر پر نہیں چل رہیں اور نفرت کا عالم ہے۔ بہت سے دینی حلقے ایک دوسرے کو بالکل ہی برداشت نہیں کر سکتے۔ کفر و شرک کے فتوے عام ہیں۔ اور دوسروں کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی گذارنے کی اجازت دینے کے لیے بالکل تیار نہیں۔

بہرحال موضوع پر پلٹتے ہیں۔ عوام کی طرف سے اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج بہت اچھا ہے اور امریکہ ایسی غلطی دوبارہ کرتے ہوئے کئی مرتبہ سوچے گا۔

دوسری طرف، جب تک ریاست کے اندر ایک اور ریاست قائم ہے جو غیر قانونی چیزوں میں ملوث ہے، اُس وقت تک شاید یہ ڈرامہ بار بار دہرایا جاتا رہے۔

بہت سخت وقت ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ساتھ کس کا دیں کیونکہ دونوں طرف کے فریقین ہی غلطی پر لگتے ہیں۔
 
Top