امریکی حملہ،گیارہ پاکستانی فوجی شہید۔ حملہ بزدلانہ ہے، جارحیت ہے: پاکستان

پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں افغان سرحد کے قریب امریکی فوج کے ’فضائی‘ حملے میں گیارہ پاکستانی فوجیوں سمیت بیس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں پاکستانی فوج کا ایک افسر بھی شامل ہے۔

پاکستان فوج کے ترجمان نے افغانستان میں موجود اتحادی فوج کی طرف سے اس حملے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری تعاون کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔

مزید پڑھیں
 

گرو جی

محفلین
اس طرح تو ہوتا ہے اس طر؁‌ح کے کاموں میں‌
یہی بات تو ہمت علی کو ہم پرسوں سے سمجھا رہے ہیں
کہ بھائی عدلیہ کی آزادی کیو‌ں‌ ضروری ہے
 
ش

شوکت کریم

مہمان
بہت پرانی کہاوت پڑی تھی دو بیلوں کی مگر کاش کہ ہمارے صاحبان اقتدار کی سمجھ میں بھی آ گئی ہوتی پہلے تو اسی فوج کے ہاتھوں عوام کو مروایا گیا ۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس فوج کو مارا جا رہا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ استغفر اللہ مسلم کی آنکھیں پھر بند ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ناپائیدار زندگی کیلئے یہ فوج اپنے ہی بھائیوں بہنوں کو مار رہی ہے اور خود اپنے ہی دوستوں (بقول صاحبان اقتدار( کے ہاتھوں مر رہی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جواب میں کیا صرف ایک بیان ۔۔۔۔۔۔۔ کیا زندگی اور موت امریکیوں کے ہاتھ میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مسلم تو دس کافروں کے بدلے میں‌ ہے یہ کم سے کم تعداد رکھی گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہاں بیس مسلم جن میں گیارہ فوجی بھی شامل ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کسی شمار میں ہی نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اورجواب میں‌ صرف ایک بیان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف ایک بیان۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانی تو چھوڑیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ان چھ لاکھ سورماون کا خون بھی پانی ہو گیا ہے جو نہیں کھولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدلے میں کم ازکم بیس تو مار دیتے۔۔۔۔
 

باسم

محفلین
سب سے بڑے دہشت گرد ہیں اور امن کے علمبردار کہلواتے ہیں
وضاحت مانگو تو ایران طہران کے قصے سناتے ہیں
کیونکہ جھوٹ بینک بھی دیوالیہ ہوگیا ہے
کچھ بعید نہیں کہ یوں وضاحت کریں:
"یہ کوئی پاکستانی فوجی نہیں تھے بلکہ دہشت گرد تھے جو فوجی وردیاں پہنے فوجی چوکیوں میں بیٹھے تھے اور ان میں ایک القاعدہ کا ماسٹر مائنڈ تھا جو کاندھے پر اسٹار لگائے بیٹھا تھا"
ان سے کیا گلہ اپنوں کی زبانوں پر بھی چھالے ہیں
 

خرم

محفلین
غالباًایک تزویراتی غلطی ہے جس کی معافی امریکی جلد مانگ لیں گے۔ کچھ برس قبل اسی طرح بمباری میں کینیڈا کے بھی نو فوجی مارے گئے تھے۔
 

حسن علوی

محفلین
حد ھے بے غیرتی کی جو ہمارے صدر صاحب اب بھی منہ میں‌گولیاں ڈالے تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ آج اگر اس حرکت کا منہ توڑ جواب نہ دیا گیا تو کل تک بات سرحدوں سے اندر ہمارے ایوانوں میں بھی آ سکتی ھے۔ مجھے تو نیٹو کے ایک اہلکار کی اس شانِ بے نیازی پر حیرانی ہو رہی ھے جس میں اس نے کہا " اس جھڑپ میں ان کا (نیٹو کا) کوئی جانی نقصان نہیں ہوا جبکہ انہیں دوسری(پاکستانی افواج) طرف ہلاک ہونے والے افراد کے بارے میں کوئی علم نہیں۔"
کوئی غیرت مند حکمران ہو تو اس جارحیت کا ایسا منہ توڑ جواب دے کہ دوبارہ میلی آنکھ اٹھانے کی ہمت نہ کرے کوئی۔ ملک کی سالمیت اور بقا کے لیئے اس حملے کا مؤثر جواب دینا انتہائی ضروری ھے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اس وقت قوم جذبات میں ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ قوم جذبات میں بھی ہوش میں رہے۔

مختلف انگلش اخبارات کی خبریں پڑھنے کے بعد جو صورتحال میرے سامنے ہے وہ یہ ہے:

۱۔ افغان سرچد پر کم از کم 60 مسلح طالبان موجود تھے جنکا پیچھا کرتے ہوئے ناٹو پاکستانی علاقے تک پہنچ گئی۔

۲۔ پاکستانی اردو میڈیا نے تاثر دیا ہے کہ ناٹو پاکستانی علاقے میں چوکی قائم کر رہے تھے جس پر اختلاف ہو گیا اور جنگ چھڑ گئی اور طالبان پاک افواج کی مدد کے لیے ناٹو سے لڑ پڑے۔

بہرحال انگلش میڈیا کے مطابق ناٹو نے سرحد کے "متنازعہ علاقے" [یعنی وہ علاقہ جسکا تعین نہیں ہے کہ پاکستان میں ہے یا افغانستان، وہاں پاکستانی چوکی کے سامنے اپنی چوکی بنانی چاہی۔ مگر پاکستانی فوجیوں سے "خوش دلانہ" ماحول میں بات کرنے کے بعد انہوں نے چوکی بنانے کا ارادہ ملتوی کر دیا [خوشدلانہ بات چیت کے الفاظ پاک فوج کے ترجمان نے استعمال کیے ہیں]

۳۔ مگر جب ناٹو فوجی واپس جا رہے تھے تو ان مسلح طالبان نے راکٹوں اور دیگر اسلحہ کے ساتھ ان ناٹو افواج پر حملہ کر دیا اور جنگ چھڑ گئی۔
اب صورتحال یہ تھی کہ اس پاکستانی علاقے میں دونوں طالبان اور ناٹو افواج اسلحے کے ساتھ لڑتے رہے، مگر یہ پتا نہیں کہ اس دوران پاک افواج کیا کر رہی تھی۔ جبکہ یہ پاکستانی علاقہ تھا اور صرف پاک فوج کو حق حاصل تھا کہ ان کا کنٹرول ہو۔ مگر حقیقت میں طالبان کا کنٹرول ہے اور وہ جو چاہے کرتی ہے اور اس میں ناٹو افواج پر مسلسل حملے بھی شامل ہیں۔

۴۔ ناٹو افواج کی مدد کے لیے ناٹو فضائیہ آ گئی جس نے اس علاقے میں بمباری کی جس کی زد میں اسی علاقے کی "ایک دوسری چوکی" آ گئی [یہ تاثر غلط ہے کہ وہ چوکی بمباری کی زد میں آئی ہے کہ جہاں پاک چوکی کے قریب اونچائی پر ناٹو افواج چوکی بنانا چاہتے تھے۔


////////////////////////////////////

میری ناقص رائے میں پاک فوج کو اب کھل کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ آیا وہ دہشت گردی کے خلاف نامی اس جنگ میں ناٹو کی حلیف ہے ۔۔۔۔۔ یا پھر طالبان کی حلیف اور کھل کر اس کی حمایت کرتی ہے کہ طالبان پاک زمین کو استعمال کرتے ہوئے ناٹو افواج پر حملے جاری رکھیں۔ مگر پاک حکومت اپنے ہی علاقے میں غیر جانبدار تماشائی کا کردار ادا کرنا چاہتی ہے، جو کہ ناممکن ہے۔ [بلکہ اگر تماشائی ہی بنے رہنا ہے تو کم از کم علاقے سے اپنی فوجیں تو واپس بلا لو، ورنہ ان دو بیلوں کی جنگ کے درمیان پھنس کر مسلسل اپنا نقصان ہی ہوتا رہے گا۔]

ایک باوقار قوم وہ ہوتی ہے جو کسی نظم و ضبط کی پابند ہو اور ہر علاقے میں قانون کی بالادستی ہو۔ مگر جب ایک قوم میں کچھ مسلح دھڑے اتنے مضبوط ہو جائیں کہ حکومت انکے آگے جھک کر ہتھیار ڈال دے اور انہیں قانون سے بالاتر کر کے انہیں کو قانون بنا دے،، تو ایسے قوم زیادہ دیر تک باوقار قوم نہیں رہ سکتی۔ اگر ہمیں غیروں سے ٹکر لینی ہے تو سب سے پہلے ہمیں اپنے اندر کے ناسوروں کو دور کرنا ہے اور اسی کے بعد غیر اقوام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں۔ مگر جب اندر کے ناسوروں نے ہی قوم کو بیمار کر دیا ہو تو پھر بہت مشکل ہو جائے گی۔
یہ پاکستانی علاقہ ہے اور یہاں صرف پاکستانی قانون لاگو ہونا چاہیے اور پاک فوج کے پاس کنٹرول ہونا چاہیے۔ مگر جب طالبان ان علاقوں میں پاکستان فوج کو مار مار کر خون میں لت پت کریں گی اور اپنا کنٹرول قائم کر کے افغانستان میں دہشت گردی اور خود کش حملے کریں گی اور پاکستان حکومت کھڑے ہو کر خاموش تماشائی بن کر تماشا دیکھنا چاہے گی تو اس سب کا صرف ایک ہی منطقی نتیجہ آخر میں نکلے گا، اور وہ ہے کہ یہ پاکستانی زمین ان دو بیلوں طالبان اور امریکہ کے لیے میدان جنگ بنے گی اور جو کوئی اور وہاں موجود ہو گا، وہ بھی ان دو بیلوں کے درمیان آ کر نقصان اٹھائے گا۔


میں نے قوم کو متنبہ کر دیا تھا، بلکہ بہت سامنے کی بات ہے کہ اس دو رخی پالیسی کا آخری نتیجہ کیا ہو گا۔ تو آج جب ناٹو اور طالبان یہ جنگ پاک زمین پر لڑ رہے ہیں تو پھر قوم کیوں حیران ہو رہی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
امریکی غلطی سے اتنے بندے ماردیتے ہیں تو سوچ سمجھ کر کتنے مارتے ہوں گے۔

امریکہ غیر ہے۔ مگر ہم سوچتے سمجھتے یہ کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ جب طالبان پاکستانی زمین پر پاک فوج کے جوانوں کو خون میں نہلاتے ہوئے افغانستان میں اپنی دہشت گرد سرگرمیاں جاری رکھیں گے تو وہ وقت نہیں آئے گا جب یہ طالبان اور ناٹو پاک زمین پر دو بیلوں کے مانند ایک دوسرے سے لڑ رہے ہوں گے اور سب سے زیادہ نقصان اس میں پاکستان کا ہو گا۔

آپ لوگ امریکہ کو کمزور سمجھتے ہیں، یا پھر بے وقوف۔

مگر آپ اپنی اس دنیا سے باہر آئیے۔ امریکہ بے وقوف ہے اور نہ کمزور۔ جب طالبان اپنی دہشت گرد سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے پاک فوج کو مار مار کر نکال دیں گے اور اس زمین کو دوسروں کے خلاف استعمال کریں گے، تو بہت جلد امریکہ اس زمین پر جنگ لڑ رہا ہو گا۔

اور آپ رہیئیے اپنی خیالی دنیا میں کہ امریکہ کمزور ہے، مگر جب امریکہ جان بوجھ کر حملہ آور ہو گا تو ان پاکستانی طالبان کا وہی حشر ہو گا جو کہ افغانی طالبان کو ہوا تھا، یعنی غریب پاکستنان کو امریکہ کے نشانے پر چھوڑ کر خود اپنی جانیں بچانے کے لیے پہاڑوں اور غاروں میں بھاگتے پھر رہے ہوں گے۔

قوم آخر کب یہ حقیقت قبول کرے گی کہ اگر طالبان کو پاکستانی سرزمین پر ایسے ہیں دہشت گرد کاروائیاں جاری رکھنے دی گئی تو وہ دن دور نہیں جب اس پاکستانی سرزمین پر طالبان اور امریکہ جنگ لڑ رہے ہوں گے اور شاید بیچ میں سب سے زیادہ پاک فوج پس رہی ہو گی۔
 

خرم

محفلین
طاقت کا خلا تو ہمیشہ پُر ہو کر رہتا ہے۔ اگر پاکستان اپنی حدود میں اپنی حکومت کی عملداری نہیں قائم کر سکتا تو اوروں سے یہ توقع کیوں کہ وہ اس ٹوٹی پھوٹی علامتی سرحد کا احترام کریں۔ ایسی سرحد جس کا احترام طالبان پر فرض نہیں اس کا احترام امریکہ پر کیوں فرض ہو؟ اگر طالبان زور زبردستی سے ایک علاقے میں اپنا کنٹرول قائم کر سکتے ہیں تو امریکہ بھی اسی طرح زور زبردستی سے اس علاقے میں اپنا کنٹرول قائم کر سکتا ہے۔ فوجیوں‌کا کیا ہے؟ جب طالبان کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں تب کونسا کسی کی آنکھ نم ہوئی جو اب مگر مچھ کے آنسوؤں سے کام چلا رہے ہیں؟ بات سیدھی سی ہے۔ یا تو پاکستان اپنے علاقے سے طالبان کو امریکہ پر حملہ کرنے سے روکے اور اگر پاکستان ایسا خود نہیں کرسکتا تو امریکہ جو کرسکے گا وہ کرے گا۔ یہ حملہ یقیناً ایک غلطی ہے لیکن اگر کوئی یہ توقع کرتا ہے کہ طالبان امریکیوں پر پاکستان سے جا جاکر حملے کرتے رہیں گے اور امریکی پاکستانی فوج کی شکل دیکھ دیکھ کر صبر کرتے رہیں گے تو یہ حماقت کی انتہا ہے۔ یا آپ اپنی ذمہ داری ادا کیجئے وگرنہ پھر نتائج بھگتئے۔ امریکی کوئی آپ کے عاشق تو ہیں نہیں کہ آپ کی طرف سے پھینکا ہوا ہر پتھر چوم کر سجاتے جائیں۔ یہ الگ بات کہ لوگوں کو یہ خواہش ضرور ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ خواہشیں اگر گھوڑے ہوتیں تو احمق ان پر سواری کرتے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
قوم خرم برادر کی اس پوسٹ پر غور کرے۔ اس میں دانائی کی بہت اہم بات ہے جسے آج اور اس وقت ہمیں سمجھنے کی بہت ضرورت ہے۔
 

دوست

محفلین
یہ بزدل بس مذمت ہی کرسکتے ہیں اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ فوجی مریں یا بے گناہ شہری انھوں نے بیان جاری کرکے فارغ ہوجانا ہے اور دوسرے زنخوں نے بینچ بجا کر۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
طاقت کا خلا تو ہمیشہ پُر ہو کر رہتا ہے۔ اگر پاکستان اپنی حدود میں اپنی حکومت کی عملداری نہیں قائم کر سکتا تو اوروں سے یہ توقع کیوں کہ وہ اس ٹوٹی پھوٹی علامتی سرحد کا احترام کریں۔ ایسی سرحد جس کا احترام طالبان پر فرض نہیں اس کا احترام امریکہ پر کیوں فرض ہو؟ اگر طالبان زور زبردستی سے ایک علاقے میں اپنا کنٹرول قائم کر سکتے ہیں تو امریکہ بھی اسی طرح زور زبردستی سے اس علاقے میں اپنا کنٹرول قائم کر سکتا ہے۔ فوجیوں‌کا کیا ہے؟ جب طالبان کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں تب کونسا کسی کی آنکھ نم ہوئی جو اب مگر مچھ کے آنسوؤں سے کام چلا رہے ہیں؟ بات سیدھی سی ہے۔ یا تو پاکستان اپنے علاقے سے طالبان کو امریکہ پر حملہ کرنے سے روکے اور اگر پاکستان ایسا خود نہیں کرسکتا تو امریکہ جو کرسکے گا وہ کرے گا۔ یہ حملہ یقیناً ایک غلطی ہے لیکن اگر کوئی یہ توقع کرتا ہے کہ طالبان امریکیوں پر پاکستان سے جا جاکر حملے کرتے رہیں گے اور امریکی پاکستانی فوج کی شکل دیکھ دیکھ کر صبر کرتے رہیں گے تو یہ حماقت کی انتہا ہے۔ یا آپ اپنی ذمہ داری ادا کیجئے وگرنہ پھر نتائج بھگتئے۔ امریکی کوئی آپ کے عاشق تو ہیں نہیں کہ آپ کی طرف سے پھینکا ہوا ہر پتھر چوم کر سجاتے جائیں۔ یہ الگ بات کہ لوگوں کو یہ خواہش ضرور ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ خواہشیں اگر گھوڑے ہوتیں تو احمق ان پر سواری کرتے۔

ذرا غور کیجئے قبائلی اس طرح‌اس ملک کے شہری نہیں ہیں جیسے میں اور آپ وہ صدیوں سے آزاد چلے آ رہے ہیں اور جب انگریز کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور لاکھوں "امن پسند مسلمان" تلواریں بیچ کر مصلے لئے بیتھے تھے جیسے کہ آج اس وقت بھی یہ لوگ ایسےہی تھی اور بدترین حالات میں‌ بھی باقی اقوام کی طرح‌ لم لیٹ نہیں ہو گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آپ چلے ہیں‌ انکو سرحد کی لائن کا درس دینے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بحثیت مسلم آپ کیلئے سرحد کیا ہے۔
پیارے نبی کا ارشاد ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہے اور جب جسم کے کسی حصے میں‌ درد ہوتا ہے تو سارے جسم کو محسوس ہوتا ہے۔ اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کہ جن کی شاعری کا حوالہ بڑا دیا جاتا ہے صرف علمیت جھاڑنے کیلئے مگر کبھی غور نہیں کیا گیا۔ ان کا تصور امت کیا تھا ، مسلم سرحد کے حوالے سے انکا نقطہ نظر کیا تھا ۔ شاہین اور خودی کا درس کیا تھا۔
میرے بھائی اگر آپ سرحدوں کی بات کرتے ہیں تو پھر ہندوستان پر ہمارا حق کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت سرحدوں کو کیوں‌پامال کیا گیا۔ اور یہاں‌ کے رہنے والے امن پسندوں‌پر جنگ کیوں‌ مسلط کی گئی۔۔۔۔۔ اگر یہ سرحدیں ہی مقدس ہیں‌تو پھر ہندوستان صرف ہندو کا ہے۔۔۔۔۔۔ یورپ صرف گوروں کا ہے ۔ ایران صرف پارسیوں کا ہے اور فلسطین یہودیوں کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور طارق بن زیاد سب سے بڑا قابض ہے کہ سمندر پار کر کے دوسروں‌کے علاقہ پر قبضہ کئے رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کشمیر ڈوگرہ کا ہے کہ اس نے رقم خرچ کر کے خریدا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کیا کیا حق ہے کہ کشمیر مانگتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سرحدوں کی پاسداری کرو اور کشمیر کو بھول جائو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سرحدوں کی پاسداری کرو اور چھوڑ دو ہندوستان اور لوٹ جاو اپنی اصل کی طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوٹ جاو اگر کہیں تمہارا اپنا بھی کوئی ملک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
خدارا مسئلہ سمجھیں اور یہ افیون کے ٹیکے یہ اور یہ اپنے بھائیوں کہ لاشوں پر بیٹھ کر امن کے راگ الاپنا بند کریں۔ پوری دنیا میں ہر روز مسلم ذبح ہو رہا ہے ۔ اور لوگوں کو اپنی اپنی سرحد کی پڑی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلم ایک قوم ہے اور بس جہاں‌بھی وہ ہے جس کونے میں‌بھی ہے سب ایک قوم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساری زمین مسلم کی ہے کہ ساری زمین اللہ کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
شوکت برادر،

آپ کے جذبات اور دل کا درد قابلِ ستائش ہے۔

بہرحال مختلف چیزوں کو دیکھنے کے زاویے مختلف ہو سکتے ہیں۔ میری آپ سے گذارش یہ ہے کہ آپ چیزوں کو اس زاویے سے دیکھیں کہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب بھی کوئی معاہدہ کیا تو اُس معاہدہ کا ہمیشہ پاس کیا۔ جن یہودی قبائل سے معاہدے ہوئے، اں کی سرحدوں کو کبھی خود سے پہلے پامال نہیں کیا حالانکہ اُس زمانے میں بھی ساری زمین اللہ کی تھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ معاہدے اس لیے کرنے پڑے کیونکہ اُس وقت مسلم قوم بہت کمزور تھی اور حالات کا تقاضہ تھا کہ یہ معاہدے کیے جائیں کیونکہ اگر کفار مکہ، اور مدینہ کے یہودیوں اور آس پاس کے دیگر قبائل سے ایک ہی وقت میں ٹکر لے لی جاتی تو یہ نومولود مسلم امت شاید ساری کی ساری قتل ہو جاتی۔ چنانچہ رسول اللہ [ص[ نے اپنے اس عمل سے پیغام دیا کہ مسلم قوم حالات کے مطابق فیصلہ کرے، اور چاہے حالات کے تحت مجبور ہو کر ہی کوئی معاہدہ ہوا ہو، مگر اُس کی آخری وقت تک پاسداری کی جائے۔

////////////////////////////

آج مسلمان علم و ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے ہونے کی وجہ سے بہت پیچھے ہے اور اُس نے اپنی بقا کے لیے اقوام متحدہ کے تحت کچھ معاہدے کیے ہیں۔

یہ اقوام متحدہ کے تحت کیے گئے معاہدے ہی تھے کہ جب افغانستان کے طالبان امریکی حملے کے بعد غاروں میں جان بچانے اور چھپنے کے لیے اپنی نہتی عوام کو چھوڑ کر بھاگ رہے تھے تو امریکہ بہادر یہ ہمت نہیں کر سکا وہ معصوم افغان نہتی شہری آبادی پر کھل کر بمباری کر سکے۔ اگر اقوام متحدہ کے یہ معاہدے نہ ہوتے تو طاقتور کی طرف سے قتل عام معمول کے مطابق جاری رہتا اور کوئی شور نہ اٹھتا۔

طالبان کا ظلم یہ ہے کہ وہ کسی چیز کو نہیں مانتے [اور اس میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان بھی نہیں مانتے کہ معاہدے کی پاسداری کریں] ، بلکہ طالبان چاہتے ہیں کہ وہ سرحد پار کر کے ناٹو افواج پر حملے جاری رکھیں اور پھر جب ناٹو افواج پلٹ کر حملہ کریں تو پاک فوج انکا ناٹو فوج کے خلاف دفاع کریں۔ خرم برادر نے اس عجیب و غریب منطق پر بہت اچھی بات لکھی ہے جو ہر کسی کو سمجھ میں آ جانی چاہیے، مگر اگر ہم جان بوجھ کر اس سے آنکھیں بند کرتے رہے تو جلد ہم تباہی کے دھانے تک پہنچ سکتے ہیں۔
 

mfdarvesh

محفلین
یہ سب پرویز مشرف کے کارنامے ہیں ابھی بہت کچھ باقی ہے یہ تو پہلی آقساط ہیں
 
غالباًایک تزویراتی غلطی ہے جس کی معافی امریکی جلد مانگ لیں گے۔ کچھ برس قبل اسی طرح بمباری میں کینیڈا کے بھی نو فوجی مارے گئے تھے۔

امریکی طیاروں کا دوسرا حملہ


پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں افغان سرحد کے قریب انگوراڈہ میں امریکی طیاروں نے ایک پہاڑی سلسلے پر بمباری کی ہے۔اس کے علاوہ مارٹر کے مزید دس گولے پاکستان کی سرحدی حدود میں گرے ہیں۔ دونوں واقعات میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے۔

مزید پڑھیں
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
بھائی وہ دن دور نہیں ( خدا نہ کریں ) کہ یہ کفر کے چیلے پھر بھی امریکہ کی ہی بولی بولیں گے اور کہیں گے نعوذ باللہ کہ اب خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ پر بھی حملہ کرنا چاہیے کیونکہ سعودی حکومت عراق میں مجاہدین کی امداد کر رہی ہے ( بہانہ ڈھونڈنے کے لیے )
شرم کا مقام ہے
وہ مجھے تو ایک مولانا صاحب کی بات بہت اچھی لگتی ہے

بزدلی اور کمزور دلی بے شک ایک عیب ہے ، ایک بیماری ہے اور ایک مصیبت ہے اسی لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر تاکید کے ساتھ اس سے پناہ مانگا کرتے تھے اور صحابہ کرام کا بھی معمول تھا کہ وہ اس مرض سے پناہ مانگتے تھے اور بعض صحابہ کرام کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں تو باقاعدہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعاء کی درخواست کی یہ یارسول اللہ میرے لیے دعاء فرما دیجئے کہ اللہ تعالٰی مجھ سے بزدلی اور زیادہ سونے کے مرض کو دور کر دے۔
رات دن بزدلی کے شر سے اللہ کی پناہ پکڑنے اور اس مرض سے بچنے کے لیے مسلسل دعائیں کرنے کی برکت سے اللہ تعالٰی نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں سے اس بیماری کو نکال دیا چنانچہ وہ روم سے ڈرے نہ فارس سے ۔ انہیں نہ منافق دبا سکے نہ کافر وہ اکیلے تھے نہتے تھے مگر وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور اس سے ایک شوشہ برابر دستبردار نہ ہوئے بڑی بڑی مسلح فوجوں نے انہیں گھیر ا مگر وہ گھبرانے اور ڈرنے کی بجائے شیروں کی طرح للکارتے ہوئے اپنی ٹوٹی ہوئی تلوار یں لے کر میدانوں میں نکلے اور انہوں نے ان لشکروں اور فوجوں کو کاٹ کر رکھ دیا ۔ جنگل کے درندے اگر ان کے راستے میں آئے تو انہوں نے انہیں بھی للکارا اور بالآخر اپنا حکم ماننے پر مجبور کر دیا خوفناک گہرائی والے سمندر اور دریا ان کے راستے میں آئے تو انہوں نے بلا خطر اپنے گھوڑے ان میں ڈال دیئے ۔ یہ ان کی شجاعت اور دلیری ہی تھی کہ انہوں نے میدان جنگ میں ہاتھی دیکھے تو زندگی میں پہلی بار دیکھے جانے والے اس ٹینک نما جانور سے ڈرنے کی بجائے وہ اس سے بھی نبرد آزما ہوگئے ۔ انہوں نے سروں پر عمامے اور جسم پر پیوند لگی لنگیاں باندھ رکھی تھیں مگر پھر بھی انہوں نے روم و فارس کے شاہانہ عسکری جاہ و جمال کو روند کر رکھ دیا ۔ مگر آج بزدلی کا مرض مسلمانوں میں ایک وبا کی طرح پھیل چکا ہے اور افسوس یہ ہے کہ اب اسے مرض نہیں نزاکت طبع سمجھا جاتا ہے آج بزدلی کو عیب نہیں بلکہ عقلمندی شمار کیا جاتا ہے چنانچہ بظاہر عقلمند اور حقیقت میں بزدلی کے گندے مرض میں مبتلا لوگ رات دن مسلمانوں کو کافروں سے ڈراتے رہتے ہیں اور انہیں کافروں کی طاقت سے مرعوب کرنے کی مذموم کوشش کرتے رہتے ہیں یہ لوگ اپنے لچے دار باتوں اور چرب زبانی کے ذریعے جہاد کو فساد اور اور مجاہدین کو فسادی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے بزدلی کے مرض پر پردہ ڈالنے کے لیے مجاہدین کی برائیاں بیان کرتے ہیں یہ وہ بد قسمت لوگ ہیں جن کے دل میں کبھی جہاد کا خیال ہی نہیں آیا ۔ اور نہ انہوں نے خود یا اپنی اولاد کو جہاد میں بھیجنے کی کبھی نیت کی ہے لیکن وہ اپنے اس روحانی روگ کو چھپاتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آج کل کہیں بھی شرعی جہاد نہیں ہو رہا یا آج کل مخلص مجاہدین موجود نہیں ہیں یا اب فلاں عمل جہاد کا قائم مقام بن چکا ہے چنانچہ ہم فلاں فلاں دینی کام کرکے مجاہدین سے بھی افضل ہیں ان لوگوں کے دل اسلام کی عظمت کے احساس سے خالی اور دنیا سے کفر کو مٹانے کے جذبے سے محروم ہیں ۔ یہ لوگ اپنے سائے سے بھی ڈرتے ہیں اور وہ مجاہدین کی حمایت بھی اس لیے نہیں کرتے کہ کہیں انہیں وقت سے پہلے موت نہ آجائے ان لوگوں کی زبانیں بہت چلتی ہیں مگر ان کے دلوں سے بزدلی کی بد بو آتی ہے یہ بزدل لوگ اسلام کے لیے کچھ قر بان کرنے لیے تیار نہیں ہوتے وہ مساجد کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کرتے وہ مظلوم مسلمانوں کی مدد کی نیت تک نہیں کرتے ، اور قرآن مجید کی اس پکار پر لبیک نہیں کہتے جو اس نے مظلوموں کی مدد کے لیے بلند کی ہے ۔ یہ لوگ ناقابل اعتبار ہوتے ہیں کیونکہ وہ جان کے خوف سے کبھی بھی گمراہی کے گڑھے میں گر سکتے ہیں یا دنیاوی لالچ میں پڑھ کر دین کو بدلنے کی ناجائز کوشش کر سکتے ہیں ۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کی محبت کے لیے اسی لیے منتخب فرمایا کہ وہ جان دینے والے تھے اور حق کی خاطر لڑنے والے تھے ۔ ورنہ کوئی بزدل شخص جو بزدلی کو مرض بھی نہ سمجھتا ہو اس قابل نہیں ہوتا کہ کسی نبی کی صحبت میں رہ سکے ۔ کیونکہ اسی طرح کا ڈر پوک شخص تو ہر مشکل وقت میں صرف جان ہی بچائے گا جبکہ نبی اور ان کے رفقاء جان دے کر ایمان بچاتے ہیں اور وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ۔
اے مسلمانو ! آج کے ماحول نے کم و بیش ہم سب میں بزدلی کے اس مرض کو عام کر دیا ہے اور ہم اللہ کے شیروں کی اولاد ہو کر بزدل گیدڑ جیسی زندگی گزار رہے ہیں اور دنیاوی اشیاء کے غلام بنتے جا رہے ہیں ہمیں سب سے پہلے یہ معمول بنانا چاہئے کہ روزانہ پانچ وقت کی نماز کے بعد بزدلی اور کم ہمتی کے مرض سے پناہ مانگا کریں اور اللہ تعالٰی سے ان امراض کے ازالے کی دعاء کیا کریں ۔ دوسرا کام ہمیں یہ کرنا چاہئے کہ ہم اپنے اسلاف خصوصاً حضرات صحابہ کرام اور امت کے مجاہدین کے واقعات بکثرت پڑھا کریں اور انہیں بیان کریں ۔ بے شک ان حضرات کا تذکرہ ہی دلوں سے بزدلی کو باہر نکال پھینکتا ہے ۔
اسی طرح ہمیں اپنے اوپر جبر کرکے خود کو گھمسان کی لڑائیوں میں لے جانا چاہئے یہ وہ عمل ہے جو بہت جلد بزدلی کا خاتمہ کر دیتا ہے ۔
یا د رکھئے بزدلی ایک شرم ناک مرض ہے جو انسان کے لیے دنیا آخرت میں شرمندگی کا باعث ہے ۔ اس لیے ہمیں اس بات سے شرم کرنی چاہئے کہ ہم اللہ تعالٰی کے حضور اس حال میں پیش ہوں کہ ہمار ے اندر اللہ کے لیے جان دینے کا جذبہ نہ ہو ۔ بلکہ ہم بذدلی میں مبتلا رہے ہوں ۔
یا اللہ ہمیں قیامت کے دن کی شرمندگی سے بچا اور ہمیں بزدلی کے مرض سے نجات عطاء فرما اور ہمیں شجاعت ، دلیری ، جانبازی اور سر فروشی کی نعمت عطاء فرما۔ آمین ثم آمین


اللہ اکبر کبیرا
 
Top