سید ابرار
محفلین
میرا خیال ہے ”ذاتیات پر حملہ “ کی بجائے اگر ہم زیر نظر مضمون پر بحث کریں تو زیادہ بھتر ہے
جھا ں تک گا لی پر رد عمل کی بات ہے ، تو یہ ایک ”حقیقت “ کا ذکر ہے ، ”سنت “ کا نھیں ، ممکن ہے آپ کے اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں سمجھانے کی وجہ سے اگر کوئی مجھے ذاتی طور پر ”گالی “ دے تو میں اس ”ردعمل “ سے اپنے آپ کو بچا ؤں ، لیکن اگر کوئی میرے سامنے نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ”گالی “ دے یا ”مکہ “ اور ” مدینہ “ پر حملہ کی بات کرے تو معاف کیجئے میں آپ کے اس موقف سے اتفاق نھیں کرسکتا کہ مجھے ”صبر وتحمل “ کا مظاھرہ کرنا چاھئے ،
ایک مسلمان نے جب ایک مقدمہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو ماننے سے انکار کردیا تو خود حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی گردن اڑائی تھی ، یہ ”محبت “ کی بات ہے ،
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مغربی دنیا تو اپنے مفادات کے لئے پوری طرح متحد ہے ، اور ہم آپس میں اختلاف و انتشار کا شکار ہیں ، احمدی نزاد نے اسرائیل پر حملہ کی صرف بات کی تو نتیجہ یہ نکلا کہ ”پابندی “ لگادی گئی ، اور ”القاعدہ “ نے امریکہ پر حملہ کے صرف ”بیانات “ داغے تو اس کو بنیاد بناکر افغانستان میں خون کی ندیا ں بھادی گئی ، محترم یہ آج ہمارے ”افکار “ کی بزدلی ہے ، جس کے نتیجہ میں ہمیں یہ سب جھیلنا پڑرہا ہیں ،
آپ کا نظریہ فکر کوئی نیا نھیں ہے ، جس وقت ڈنمارک میں گستاخانہ کارٹون شائع کئے گئے تھے ، اس وقت بھی بہت سے حضرات ایسے تھے جو تھذیب ، شائستگی ، اور انسانیت کی تلقین کررہے تھے ، میں نیچے جو اقتباس دے رہا ہوں اسے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کیجئے ، یہ خاور بلال صاحب نے ان لوگوں کے جواب میں تحریر کیا تھا جو گستا خ نبی صلی اللہ علیہ وسل کے واقعہ کے بعد مغرب کی وکالت نیز مسلمانوں کو ”صبر وتحمل “ کی تلقین فرمارہے تھے
میں جو کھنا چاھتا ہوں وہ اس اقتباس میں موجود ہے
جھا ں تک گا لی پر رد عمل کی بات ہے ، تو یہ ایک ”حقیقت “ کا ذکر ہے ، ”سنت “ کا نھیں ، ممکن ہے آپ کے اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں سمجھانے کی وجہ سے اگر کوئی مجھے ذاتی طور پر ”گالی “ دے تو میں اس ”ردعمل “ سے اپنے آپ کو بچا ؤں ، لیکن اگر کوئی میرے سامنے نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ”گالی “ دے یا ”مکہ “ اور ” مدینہ “ پر حملہ کی بات کرے تو معاف کیجئے میں آپ کے اس موقف سے اتفاق نھیں کرسکتا کہ مجھے ”صبر وتحمل “ کا مظاھرہ کرنا چاھئے ،
ایک مسلمان نے جب ایک مقدمہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو ماننے سے انکار کردیا تو خود حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی گردن اڑائی تھی ، یہ ”محبت “ کی بات ہے ،
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مغربی دنیا تو اپنے مفادات کے لئے پوری طرح متحد ہے ، اور ہم آپس میں اختلاف و انتشار کا شکار ہیں ، احمدی نزاد نے اسرائیل پر حملہ کی صرف بات کی تو نتیجہ یہ نکلا کہ ”پابندی “ لگادی گئی ، اور ”القاعدہ “ نے امریکہ پر حملہ کے صرف ”بیانات “ داغے تو اس کو بنیاد بناکر افغانستان میں خون کی ندیا ں بھادی گئی ، محترم یہ آج ہمارے ”افکار “ کی بزدلی ہے ، جس کے نتیجہ میں ہمیں یہ سب جھیلنا پڑرہا ہیں ،
آپ کا نظریہ فکر کوئی نیا نھیں ہے ، جس وقت ڈنمارک میں گستاخانہ کارٹون شائع کئے گئے تھے ، اس وقت بھی بہت سے حضرات ایسے تھے جو تھذیب ، شائستگی ، اور انسانیت کی تلقین کررہے تھے ، میں نیچے جو اقتباس دے رہا ہوں اسے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کیجئے ، یہ خاور بلال صاحب نے ان لوگوں کے جواب میں تحریر کیا تھا جو گستا خ نبی صلی اللہ علیہ وسل کے واقعہ کے بعد مغرب کی وکالت نیز مسلمانوں کو ”صبر وتحمل “ کی تلقین فرمارہے تھے
میں جو کھنا چاھتا ہوں وہ اس اقتباس میں موجود ہے
ربط یہ ہےآخر معذرتوں کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ایک پٹاخہ پھٹا اور چلے مغرب سے اس کی معذرت کرنے کہ صاحب ہم تو امن پسند لوگ ہیں۔لگتا ہے ١١ستمبر کے بعد اچانک دنیا کے مظلوموں کو امن کا ہیضہ پھوٹ پڑا ہے اور معذرتوں کی الٹیاں ہیں کہ رکنے میں نہیں آرہیں۔امن کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کو نظر بھی آنا چاہیئےغربی دنیا کوئوں کی طرح متحد ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کوے باطل پہ مجتمع ہیں۔ آپ باطل کے بال کو ہاتھ لگا کر دیکھئے، ساری مغربی دنیا کائیں کائیں کرتی ہوئی آپ کی بوٹیاں نوچنے آجائےگی۔ مگر مسلمان جو حق پر جمع ہونے کے دعویدار ہیں، کوئی ان کے نبی کی بھی اہانت کردے تو خود مسلمانوں کا ایک طبقہ کہہ رہا ہے کہ صاحب جو ہو رہا ہے ہونے دیجئے، شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ ڈال کر بیٹھ جایئے، یہودیوں پر امریکا اور یورپ میں ذراسی نکتہ چینی بھی ہوجاتی ہے تو وہ آسمان سر پر اٹھالیتے ہین۔ اگر ہم اپنے دین اور نبی کریم کا دفاع بھی نہیں کرسکے تو پھر ہم کرہی کیا سکتے ہیں۔؟
ساری دنیا کے ایک ارب تیس کروڑ مسلمان ہیں جوکچھ اور کیا ایک نبی کریم کی ناموس کی حفاظت بھی نہیں کرپارہے ۔ ایسا کیوں ہورہاہے؟ اس کی وجہ بھی ظاہر ہے ہم سب کے پاس کرنے کیلئے بہت کام ہیں۔ کوئی صحافت میں مصروف، کوئی سیاست میں، کسی کو عہدہ عزیز، کسی کومنصب سے پیار، کسی کو دانشوری سے عشق، کسی کو اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا کا مسئلہ، کسی کومغرب سے بات کرنی ہے، کسی کو یورپ سے چیت فرمانی ہے
پورا مغرب رسول اکرم کے خاکے شائع کرے اور اسےcelebrateکرے تو مسلمانوں کا کام اس کے سوا کیا ہے کہ وہ صبر کریں اور قانون کی پاسداری کریں۔ آپ کی اس دانشورانہ سوچ کا مقصد صرف یہ نظر آتا ہے کہ کسی طرح اسلام کو بے چہرہ اور مسلمانوں کو پالتو بنا کر پیش کیا جائے۔اور پھر اس کی مارکیٹنگ بھی کی جائے۔
آپ نے سنا ہوگا گستاخی رسول کا مشہور واقعہ جس میں لاہور کے نوجوان غازی علم دین نے اپنی قوم کی لاج رکھ لی تھی، ورنہ اس وقت بھی عقل کے میدان میں دانشوری کے گھوڑے دوڑانے والے گھپ اندھیرے میں فلسفے کی روشنی میں یہی فرما رہے تھے کہ صاحب وفاداری کا مطاہرہ کریں۔ایک طرف منہ کے شہسواروں کی فوج ظفر موج مسلمانوں کو امن کی افیون کی ٹافیاں بانٹ رہی تھی دوسری طرف علامہ اقبال جب لاہور کے نوجوان شہید غازی علم دین کو لحد میں اتارنے لگے تو ایک تاریخ ساز جملہ کہاں تھا، کہ؛
اسیں گلاں کرتے رہ گئے تے ترکھان دا منڈا بازی لے گیا!
لاہور کے اس نوجوان کی سزا ختم کروانے کے سلسلے میں مسلمانوں کے اکابرین کو اندازہ تھا کہ اقبال واحد شخصیت ہیں جن کی سفارش انگریز سرکار نہیں ٹال سکتی لیکن اس معاملے کی اقبال نے معذرت کرلی اور ایک تاریخ ساز شعر کہا؛
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدرو قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر
مجھے یقین ہے کہ مغرب کے کنویں کے مینڈک اب بھی مسلمانوں کو تہذیب، شائستگی، انسانیت، امن اور قانون پر لیکچر پلاتے رہیں گے۔ لیکن اقبال کہہ گئے تھےکہ
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے تو جائے
تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی
احترام آدمیت کو ختم کرنے اور تقدیس کی دھجیاں بکھیرنے میں مغرب کا کوئی ثانی نہیں، وہ ہر بار مسلانوں کو ایک نئے طریقے سے زچ کرتے ہیں اور مسلمان ہیں کہ اب کے مارکے دیکھ والی کیفیت ہےاور وہ پھر ایک بار ماردیتا ہے اور پھر یہ کہتے ہیں اب کے مار کے دیکھ۔
باطل پرست خود اعتمادی کی علامت بنے ہوئے ہیں اور جو قیامت تک باقی رہنے والی صداقت کے علمبردار ہیں وہ بغلیں جھانک رہے ہیں۔وہ جن کی میراث غزوہ بدر اور کربلا ہے وہ ذلت کی زندگی پر پوری طرح مطمئن ہیں۔ یاد رکھیں کہ میں اور آپ تو ختم ہوجائیں گے لیکن پائندہ رہنے والی حقیقت اسلام ہی ہے۔ اگر ہم اسلام کی سربلندی کا پرچم نہیں تھامیں گے تو یہ کام اللہ کسی اور سے لے لے گا لیکن اس سورج کو تو اب چڑھنا ہی ہے۔ کسی کے آنکھیں بند کرنے سے اس پر کوئی فرق نہیں آئے گا، آپ اور میں اگر منہ موڑیں گے تو منہ کی کھائیں گے، لیکن یہ چڑھتا سورج ہے آئیے چڑھتے سورج کی پوجا کریں۔