امریکی ٹھمری

یہاں بھی امریکی ٹھمری والے بہت ہے
col1.gif

col1a.gif


جنگ
 
بیٹے امریکی ٹھمری اس کالم میں‌نظر نہیں ائےگی مگر غور سے دیکھو گے توبہت سے لوگ اس میں مشغول نظر ائیں‌گے۔
 

بلال

محفلین
یوم تکبیر اور بیتے لمحات ,,,,سحر ہونے تک …ڈاکٹرعبدالقدیرخان

مندرجہ بالا کالم کمپیوٹر کی اصل اردو میں۔۔۔
گیارہ سال پیشتر 28مئی 1998ئکو پاکستان نے چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکہ کر کے ایٹمی کلب میں شمولیت اختیار کر لی تھی ۔ یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جس سے پوری پاکستانی قوم اور دنیائے اسلام کا سر بلند ہو گیا۔ اگرچہ مغربی ممالک کو یقین تھا کہ ہمارے پاس ایٹمی صلاحیت ہے اور ہم جب چاہیں دھماکہ کر سکتے ہیں لیکن کہاوت ہے کہ جب تک دیکھ نہ لو یقین نہیں آتا ۔ 1984ء میں ہم نے یہ صلاحیت حاصل کر لی تھی اور میں نے 10دسمبر 1984ئکو جنرل ضیاء الحق صدر وقت کو تحریری طور پر اس سے آگاہ کر دیا تھا اور اس کی تصدیق جنرل خالد محمود عارف نے Deceptionنامی کتاب کے مصنف ایڈریان لیوی Adrian Levy کو دیئے ہوئے ایک انٹرویو میں کی تھی ۔ ایٹمی دھماکو ں سے پیشتر 6/اپریل 1998ئکو کے آر ایل نے لمبی مار والے بیلسٹک میزائل غوری کاکامیاب تجربہ کیا تھا اور بارہ سو کلو میٹر دور ہدف کو صحیح نشانہ بنا دیا تھا ۔ اس سے ہندوستان کی ہوا نکل گئی تھی اور ان کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ اب نہ وہ پاکستان کو دھمکیاں دے سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں بلیک میل کر سکتے ہیں۔ اس تمام کام میں مرحوم شہید ذوالفقار علی بھٹو ، مرحوم جنرل ضیاء الحق ، جناب غلام اسحاق خان ، مرحوم آغا شاہی ، شہید بینظیر بھٹو صاحبہ، میاں نواز شریف صاحب ، جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل عبدالوحید کاکڑ نے نہایت کلیدی رول ادا کیا تھا۔ایٹمی دھماکوں اور میزائل کی تیاری میں کے آر ایل کے کلیدی رول پر تما م سابقہ وزرائے اعظم ، صدور مملکت اور افواج پاکستان کے سربراہوں نے تحریری بیان دیئے ہیں جو کے آر ایل کی 25 سالہ کارکردگی کے مضمون میں پور ی طرح بیان کئے گئے ہیں دراصل سب سے مصدقہ بیان جناب غلام اسحاق خان کا ہے جو انہوں نے ایک خط میں جناب زاہد ملک کو تحریر ی طور پر دیا تھا کیونکہ وہ اس پروگرام کے سربراہ تھے اور 1976ء سے 1993ء تک ہرکام سے واقف تھے ان کا بیان حرف ِآخر ہے۔ میرے پاکستان آنے ، مشکلات کا سامنا اور کام میں کامیابی حاصل کرنے پر لاتعداد مضامین شائع ہو چکے ہیں کہ ان کی تفصیل دینا نا ممکن ہے ۔ میں یہاں صرف اس وقت کے حکمران پرویز مشرف کی اس تقریر کا متن پیش کرتا ہوں جو اس نے ایوان صدر میں ڈاکٹر اشفاق اور میری ریٹائرمنٹ پر الوداعی ڈنر سے پیشتر کی تھی۔ اس ڈنر میں وزراء، اعلیٰ سول و فوجی افسران اور سائنسدان شامل تھے۔ میں یہاں صرف اپنے اور کے آرایل کے بارے میں بیان پیش کر رہا ہوں۔
”آج ہم یہاں وطن عزیز کے نہایت سینئر اور شہرہ آفاق سائنس دانوں اور اپنے قومی ہیروزکو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں تو میری سوچیں مئی 1974ء کے اس اہم دن کی طرف لوٹ جاتی ہیں جب بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تھا اور جنوبی ایشیاء کی سلامتی کے منظر کو بدلتے ہوئے پاکستان کے لئے انتہائی نامساعد صور تحال پیدا کر دی تھی۔ 1971ء میں پاکستان کے دولخت ہونے کے فوراً بعد اس واقعے نے ہمارے عدم تحفظ اور جراحت پذیر ہونے کے احساس کو مزید گہرا کر دیا تھا۔ ہمارے روایتی عدم توازن میں ایک اور سبب کا اضافہ ہو گیا تھا اور پاکستان کو اپنی حفاظت کے بارے میں لاحق تشویش کئی گنا بڑھ گئی تھی۔ اس موقع پرعالمی برادری نے روایتی علامتی ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرلی تھی۔ پاکستان کو تن تنہا ہی بھارت کی ایٹمی بلیک میلنگ اور دھمکیوں کا سامنا کرنا تھا اور دوسری طرف ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کا نام تک نہ تھا، ایسی صورت میں ہم سب پاکستانیوں کو صرف خدا کا ہی کا آسرا تھا۔حقیقی معنوں میں مدد کے لئے آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ہم نے ہمت نہ ہاری اور ہمارا عزم قائم رہا۔
آخر کار اللہ تعالیٰ نے قوم کی دعائیں سن لیں، ہماری حالت پر رحم آگیا اور ایک معجزہ رونما ہوا۔ پردہ غیب سے ایک بلند قامت اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل نابغہ کا ظہور ہوا اور یہ نابغہ روزگار ڈاکٹر عبدلقدیر خان تھے ، ایسے نابغہ جنہوں نے تن تنہا قوم کو ایٹمی صلاحیت سے مالا مال کر دیا۔ ان مشکل حالات میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آمد نے ایسی قوم کو جو اپنے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا تھی اور جو عمل کے بجائے خالی خولی وعدوں اور جھوٹی سچی یقین دہانیوں کے بہلاوے کی عادی ہو چکی تھی اس کو اُمید رجائیت اور نیا حوصلہ اور اعتماد دیا۔
خواتین و حضرات ! آنے والے سال ، واقعات اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی کامیابیاں ناقابل فراموش ، اَنمِٹ اور پاکستان کی تاریخ کا عظیم الشان باب ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم نے انتہائی مشکل حالات میں رکاٹوں ، بین الاقوامی پابندیوں اور کربناک آپریشن کے علی الرغم اس حال میں اپنی شب و روز محنت شاقہ سے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کا سرمایہ افتخار کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز جنہیں بعد میں بجا طور پر خان ریسرچ لیبارٹریز کا نام دیا گیا ایسے عالم میں قائم کی کہ عملاً اس سے قبل کچھ بھی نہ تھا اور انہوں نے خالی ہاتھ کام شروع کیاتھا، پھر چند ہی سالوں میں انہوں نے اور ان کے جرأت مند ساتھیوں نے ملک کو انتہائی افزودہ یورینیم کی صورت میں پہلا انشقاق پذیر مواد (افزودہ یورینیم ) دیا اور یوں اسکور بھارت کے برابر کردیا۔ یہ کامیابی و کامرانی کی زندہ داستان ہے کہ وہ اپنی مادرِ وطن کے لئے ایک مقصد، ایک ہدف کے حصول کے لئے سرگرم ہوئے اور اپنی زندگی ہی میں اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچتے دیکھا اور اپنے اہل وطن سے بے مثال خراجِ تحسین و توصیف وصول کیااور قوم ان کی ہمیشہ کے لئے احسان مند اور مقروض ہو گئی۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے اس سے قبل کوئی قوم کسی ایک فرد کی اس قدر کامیابیوں کی مرہونِ منت نہیں ہوئی۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا دوبارہ نشان امتیاز حاصل کرناان کے منفرد پاکستانی ہونے کا ثبوت ہے اور وہ واحد پاکستانی ہیں جنہیں یہ اعزاز دوبار دیا گیا اور یہ احسان مند قوم کی طرف سے ان کی عظمت و احسان کا اعتراف ہے اور وہ واقعتاً اس اعزازکے اہل ہیں۔
جناب ڈاکٹر صاحب ! مجھے یہ بات رسمی طور پر ریکارڈ پر لانے کی اجازت دیجئے کہ آپ نے قوم کو جو کچھ دیا اس کے لئے یہ قوم نہ صرف آج بلکہ آئندہ بھی آپ کی ممنون ِ احسان رہے گی۔ آپ ہمارے قومی ہیرو ہیں اور ہماری آئندہ نسلوں کے لئے مَبداء فیض ہیں۔ کوئی شخص بھی آپ سے یہ اعزاز چھین نہیں سکتا ۔ تاریخ میں آپ کا مقام متعین ہو چکا ہے ۔ آپ ہمیشہ کے لئے امر ہو گئے اور سرِفہرست رہیں گے۔ہم آپ کو سلام کرتے ہیں اور اپنے دل کی گہرائی سے اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
جیسا کہ اکثر کہتا ہوں کہ مایوسیوں کے اتھاہ سمندر میں، پاکستان کا ایٹمی صلاحیت حاصل کرنا کسی قوم کی کامیابی کی بے مثال کہانی ہے۔ یہ بے لوث ایثار ، ان مجاہدوں نے پاکستان کو منفرد ایٹمی قوت کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ انہوں نے امت مسلمہ کو افتخار بخشا ہے۔ وہ پاکستانیوں کے بہترین نمائندہ ہیں اور انہوں نے ثابت کر دکھایا ہے کہ جب ہم ارادہ کرلیں تو پھر پہاڑوں کو بھی ہلادیتے ہیں وہ اپنا رنگ بدل لیتے ہیں سب احساس فرض اور قوت ایمانی کا نتیجہ ہے۔“)
بعد میں ان صاحب نے بفیض مصلحت امریکہ کی ٹھمری پر ناچنا شروع کر دیا اور نہایت ہی پست اخلاق کی عکاسی کی۔ (جاری ہے)
روزنامہ جنگ
 

خرم

محفلین
جی بالکل جنہوں نے بم کی تمام مکینکس تیار کیں ان کا کسی نے نام بھی نہ لیا اور جنہوں نے پانچ فیصد کام کیا وہ سب کریڈٹ دھڑلے سے لوٹتے رہے۔ فرنٹ مین کا کام ہی یہ ہوتا ہے بھیا۔ کام دوسرے کرتے ہیں واہ واہ اس کی ہوتی ہے لیکن جب پھر قربانی کا وقت آتا ہے تو چھری بھی اسی پر پھرتی ہے۔ اب اگر زیادہ شوق ہو تو ڈاکٹر صاحب کے وہ تمام کارنامے بھی بیان کر دیتے ہیں جن کی بنا پر ان کی بلے بلے ہوتی تھی اور ان کی حقیقت بھی ویسے ایک سوال۔ یہ جو غوری میزائل ہے، جو ڈاکٹر صاحب کے ادارے نے "بنایا"‌تھا اس کے متعلق کسی کو کچھ معلوم ہے؟ ایسی ہی حقیقت کچھ ان کے باقی کاموں‌کی بھی ہے۔
 

فرخ

محفلین
جی بالکل جنہوں نے بم کی تمام مکینکس تیار کیں ان کا کسی نے نام بھی نہ لیا اور جنہوں نے پانچ فیصد کام کیا وہ سب کریڈٹ دھڑلے سے لوٹتے رہے۔ فرنٹ مین کا کام ہی یہ ہوتا ہے بھیا۔ کام دوسرے کرتے ہیں واہ واہ اس کی ہوتی ہے لیکن جب پھر قربانی کا وقت آتا ہے تو چھری بھی اسی پر پھرتی ہے۔ اب اگر زیادہ شوق ہو تو ڈاکٹر صاحب کے وہ تمام کارنامے بھی بیان کر دیتے ہیں جن کی بنا پر ان کی بلے بلے ہوتی تھی اور ان کی حقیقت بھی ویسے ایک سوال۔ یہ جو غوری میزائل ہے، جو ڈاکٹر صاحب کے ادارے نے "بنایا"‌تھا اس کے متعلق کسی کو کچھ معلوم ہے؟ ایسی ہی حقیقت کچھ ان کے باقی کاموں‌کی بھی ہے۔

ہمت بھائی کچھ ٹھیک ہی کہ رہے ہیں۔ ٹھمری کا کچھ پتا چل رہا ہے;)

خرم، برادر یہ کہانی پھر آپ اپنی زبانی ہی سُنا ڈالئے، مگر اچھا ہو کہ کچھ دلائل اور حوالہ جات کے ساتھ۔ :confused:
 

خرم

محفلین
جسے ابتداء میں غوری کہا جاتا تھا وہ شمالی کوریا کا Nodong میزائل تھا جو بالکل تیار حالت میں پاکستان منتقل کیا گیا تھا۔ اسی لئے جب اس کے پہلے تجربہ کا اعلان کیا گیا تو میزائل پورے کیمو فلاج میں تھا۔ تجرباتی میزائل سفید و سیاہ رنگ میں چلائے جاتے ہیں جیسا کہ شاہین میزائلوں کے سلسلہ میں رہا ہے۔ اس میزائل کی پاکستان آمد کے ایک گواہ خلد آشیانی ماموں جان تھے جو بتایا کرتے تھے کہ انہیں ٹرینوں اور ٹرکوں میں لوڈ کرکے بھیجا گیا تھا۔ ایک دفعہ این ایل سی کے ٹرالر کو صادق آباد سے ایک بہت بڑی ڈھکی ہوئی گول سلنڈر نما چیز لے جاتے دیکھ کر تو میں بھی کافی عرصہ حیران ہوتا رہا تھا کہ وہ کیا چیز تھی۔ شاہین میزائل کی کامیابی کے بعد پاکستان نے خود میزائل کی تیاری کی صلاحیت حاصل کرلی تھی سو غوری کے بعد کے ورژن پاکستان میں تیار کردہ ہیں لیکن ابتدائی کھیپ بنی بنائی آئی تھی اور ڈاکٹر صاحب نے بلے بلے کروائی تھی کہ شمالی کوریا سے تعلقات کا اعتراف سفارتی مصلحت کے خلاف تھا۔ اسی طرح اکثر چیزیں جو کے آر ایل بناتی تھی ان دنوں میں وہ چینی مال کا پاکستانی چھاپا ہوتی تھیں۔ وجہ وہی پرانی لیکن ڈاکٹر صاحب کی بلے بلے ہوتی تھی سو ہوتی رہی۔ ویسے بھی ڈاکٹر صاحب تو میٹیلرجی کے آدمی ہیں، ایٹم بم بنانا تو ان کا کام ہی نہیں۔ یورینیم کے ری ایکٹر کی ڈرائنگز وہ یقیناَ پاکستان لائے تھے اور بلاشبہ یہ بہت بڑا کام تھا لیکن انہیں کریڈٹ اس سے بہت زیادہ دیا جاتا رہا ہے صرف اس لئے کہ اصل کام کرنے والے صیغہ راز میں رہیں۔ نیس کام تو بہت بعد میں بنا لیکن اٹامک انرجی کمیشن یورینیم کی افزودگی کے لئے ساٹھ کی دہائی سے کام کر رہا تھا اور بم کی تیاری میں بھی نوے فیصد یا اس سے زائد ان کا کام تھا۔ جو بم ٹیسٹ کئے گئے تھے ان کی فائرنگ پن ڈیزائن کرنے والے تو میرے روم میٹ بھی رہے ہیں۔
 

فرخ

محفلین
جسے ابتداء میں غوری کہا جاتا تھا وہ شمالی کوریا کا nodong میزائل تھا جو بالکل تیار حالت میں پاکستان منتقل کیا گیا تھا۔ اسی لئے جب اس کے پہلے تجربہ کا اعلان کیا گیا تو میزائل پورے کیمو فلاج میں تھا۔ تجرباتی میزائل سفید و سیاہ رنگ میں چلائے جاتے ہیں جیسا کہ شاہین میزائلوں کے سلسلہ میں رہا ہے۔ اس میزائل کی پاکستان آمد کے ایک گواہ خلد آشیانی ماموں جان تھے جو بتایا کرتے تھے کہ انہیں ٹرینوں اور ٹرکوں میں لوڈ کرکے بھیجا گیا تھا۔ ایک دفعہ این ایل سی کے ٹرالر کو صادق آباد سے ایک بہت بڑی ڈھکی ہوئی گول سلنڈر نما چیز لے جاتے دیکھ کر تو میں بھی کافی عرصہ حیران ہوتا رہا تھا کہ وہ کیا چیز تھی۔ شاہین میزائل کی کامیابی کے بعد پاکستان نے خود میزائل کی تیاری کی صلاحیت حاصل کرلی تھی سو غوری کے بعد کے ورژن پاکستان میں تیار کردہ ہیں لیکن ابتدائی کھیپ بنی بنائی آئی تھی اور ڈاکٹر صاحب نے بلے بلے کروائی تھی کہ شمالی کوریا سے تعلقات کا اعتراف سفارتی مصلحت کے خلاف تھا۔ اسی طرح اکثر چیزیں جو کے آر ایل بناتی تھی ان دنوں میں وہ چینی مال کا پاکستانی چھاپا ہوتی تھیں۔ وجہ وہی پرانی لیکن ڈاکٹر صاحب کی بلے بلے ہوتی تھی سو ہوتی رہی۔ ویسے بھی ڈاکٹر صاحب تو میٹیلرجی کے آدمی ہیں، ایٹم بم بنانا تو ان کا کام ہی نہیں۔ یورینیم کے ری ایکٹر کی ڈرائنگز وہ یقیناَ پاکستان لائے تھے اور بلاشبہ یہ بہت بڑا کام تھا لیکن انہیں کریڈٹ اس سے بہت زیادہ دیا جاتا رہا ہے صرف اس لئے کہ اصل کام کرنے والے صیغہ راز میں رہیں۔ نیس کام تو بہت بعد میں بنا لیکن اٹامک انرجی کمیشن یورینیم کی افزودگی کے لئے ساٹھ کی دہائی سے کام کر رہا تھا اور بم کی تیاری میں بھی نوے فیصد یا اس سے زائد ان کا کام تھا۔ جو بم ٹیسٹ کئے گئے تھے ان کی فائرنگ پن ڈیزائن کرنے والے تو میرے روم میٹ بھی رہے ہیں۔
میں اس قسم کی کہانیاں پہلے بھی سنتا آیا ہوں اور اسکی ممکنات کو نظرانداز نہیں کرتا۔
آپ یہ کیوں توقع کرتے ہیں کہ ایک چیز جو دنیا میں بن چُکی ہے وہی دوسرا ملک سرے سے نئی بنائے۔ اصل مقصد تو صلاحیت اور اس چیز کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اب اگر پہلے سے بنے ہوئے آلات اور ڈیزائن لے کر اس پر کام کیا جائے جو یہ میرے نزدیک عقلمندی کی نشانی ہے۔ یوں اس چیز کو زیادہ بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
کیا ہندوستان نے اپنا ایٹمی نظام بالکل سرے سے خود نیا ڈیزائن کیا تھا؟ کیا اسے برطانیہ اور اسرائیل نے سپورٹ نہیں کیا؟
کیا اسرائیل نے سرے سے ہر چیز خود ایجاد کی؟
اور کیا ہم اپنے سے پہلے لوگوں کی تحقیق سے فائدہ نہیں اُٹھاتے؟
اور ان حالات میں جب امریکہ اور دیگر بڑی طاقتیں کسی اور کو برداشت نہ کررہی ہوں اور ہر ایک سے ایٹمی ٹیکنالوجی نہ اپنانے کے معاہدے پر دستخط لئے جا رہے ہوں، میرا خیا ل ہے پاکستان نے جیسے بھی یہ صلاحتیں حاصل کیں، بالکل ٹھیک کیا۔
اگر پاکستان نے کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی لے کے اسےایٹمی ٹیکنالوجی میں‌مدد دی ہے اور ایران کی بھی مد دکی ہے، تو میرے خیال میں اچھا کیا ہے۔

اگر امریکہ اور دیگر طاقتوں کو ایٹمی صلاحیت رکھنے کا حق حاصل ہے تو پھر سب کو حاصل ہے۔
 

خرم

محفلین
بھیا میں اس حق کی تو بات ہی نہیں کررہا۔ اس وقت میزائل لینے کا فیصلہ بالکل درست تھا اور وقت کی ضرورت تھی۔ میں تو صرف یہ عرض کرنا چاہ رہا تھا کہ حقیقت اور "بڑھک"‌میں‌کافی فرق ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا کام تھا "بڑھکیں"‌مارنا اور یہ ان کی ذمہ داری تھی۔ وہ کام انہوں‌نے کیا اور بہت اچھا کیا لیکن جس مقصد کے لئے ان سے بڑھکیں مروائی جاتی تھیں اسی مقصد کے لئے انہیں قربانی کا بکرا بھی بنایا گیا تو پھر اسے بھی ڈیل کا حصہ ہی سمجھنا چاہئے۔
 

زیک

مسافر
مجھے اس کہانی میں چپ ہی رہنا چاہیئے ورنہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور مزید کے بارے میں بہت کچھ ہے کہنے کو۔
 
بیٹے امریکی ٹھمری اس کالم میں‌نظر نہیں ائےگی مگر غور سے دیکھو گے توبہت سے لوگ اس میں مشغول نظر ائیں‌گے۔

ہمت علی بھائی ٹھمری ہو ، تین تال ہو ، دادرہ ہو یا کہروہ ہو، لے ہو یا تال ہو، سچ سب کو پتہ ہے پھر جانے کیوں ہن اس کو نظر انداز کر جاتے ہیں :rollingonthefloor:
 
جسے ابتداء میں غوری کہا جاتا تھا وہ شمالی کوریا کا Nodong میزائل تھا جو بالکل تیار حالت میں پاکستان منتقل کیا گیا تھا۔ اسی لئے جب اس کے پہلے تجربہ کا اعلان کیا گیا تو میزائل پورے کیمو فلاج میں تھا۔ تجرباتی میزائل سفید و سیاہ رنگ میں چلائے جاتے ہیں جیسا کہ شاہین میزائلوں کے سلسلہ میں رہا ہے۔ اس میزائل کی پاکستان آمد کے ایک گواہ خلد آشیانی ماموں جان تھے جو بتایا کرتے تھے کہ انہیں ٹرینوں اور ٹرکوں میں لوڈ کرکے بھیجا گیا تھا۔ ایک دفعہ این ایل سی کے ٹرالر کو صادق آباد سے ایک بہت بڑی ڈھکی ہوئی گول سلنڈر نما چیز لے جاتے دیکھ کر تو میں بھی کافی عرصہ حیران ہوتا رہا تھا کہ وہ کیا چیز تھی۔ شاہین میزائل کی کامیابی کے بعد پاکستان نے خود میزائل کی تیاری کی صلاحیت حاصل کرلی تھی سو غوری کے بعد کے ورژن پاکستان میں تیار کردہ ہیں لیکن ابتدائی کھیپ بنی بنائی آئی تھی اور ڈاکٹر صاحب نے بلے بلے کروائی تھی کہ شمالی کوریا سے تعلقات کا اعتراف سفارتی مصلحت کے خلاف تھا۔ اسی طرح اکثر چیزیں جو کے آر ایل بناتی تھی ان دنوں میں وہ چینی مال کا پاکستانی چھاپا ہوتی تھیں۔ وجہ وہی پرانی لیکن ڈاکٹر صاحب کی بلے بلے ہوتی تھی سو ہوتی رہی۔ ویسے بھی ڈاکٹر صاحب تو میٹیلرجی کے آدمی ہیں، ایٹم بم بنانا تو ان کا کام ہی نہیں۔ یورینیم کے ری ایکٹر کی ڈرائنگز وہ یقیناَ پاکستان لائے تھے اور بلاشبہ یہ بہت بڑا کام تھا لیکن انہیں کریڈٹ اس سے بہت زیادہ دیا جاتا رہا ہے صرف اس لئے کہ اصل کام کرنے والے صیغہ راز میں رہیں۔ نیس کام تو بہت بعد میں بنا لیکن اٹامک انرجی کمیشن یورینیم کی افزودگی کے لئے ساٹھ کی دہائی سے کام کر رہا تھا اور بم کی تیاری میں بھی نوے فیصد یا اس سے زائد ان کا کام تھا۔ جو بم ٹیسٹ کئے گئے تھے ان کی فائرنگ پن ڈیزائن کرنے والے تو میرے روم میٹ بھی رہے ہیں۔

خرم آپ نے توڈاکٹر صاحب کا پورا ہی کونڈہ کردیا۔ویسے آپ جس کوریائی میزائل کے بارے میں خامہ فرسائی کر رہے ہیں تو یہ بات بہت دفعہ کی جاچکی ہے لیکن آپ جو یہ کہ رہے ہیں کہ کوریا ئی میزائل پوری تیار حالت میں یہاں‌منتقل کیا گیا تو یہ تو باکل درست نہیں ہے
Nodong یا Rodong کی بنسبت غوری اول بھی زیادہ بہتر کارکردگی کا حامل تھا اس کی رینج ہتھیار لے جانے کی صلاحیت اور ٹھیک نشانہ کی صلاحیت میرے خیال میں کوریائی میزائل سے کافی بہتر رہی ہے۔ تو یہ ہو سکتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی کوریا ہی سے لی گئی ہو لیکن اس میں بزید بہتری یقینا پاکستانی سائندانوں کا کارنامہ ہے اور اب تو غوری 3 بھی پاکستان بنا رہا ہے جو کوریائی میزائل سے بہت بہتر ہے
 

خرم

محفلین
جی بھیا بعد کے میزائلوں‌کی بابت تو عرض کیا کہ وہ پاکستان میں بنے اور نیس کام کے شاہین سیریز کے تجربات کے بعد ان کے علم سے بھی استفادہ کیا گیا۔ میں تو بالکل ابتدائی میزائلوں کی بات کر رہا ہوں جب دھومیں مچی ہوئی تھیں۔ اب تو میزائل کا تجربہ ہوتا ہے تو ایک دوکالمی سی سُرخی لگ جاتی ہے۔ جب غوری کا اعلان ہوا تھا تو آج بھی یاد ہے ایک اخبار کی شہہ سُرخی تھی " پرتھوی کا غرور ٹوٹ گیا" :)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہمت علی نے ہر اس دھاگے سے فرار کر جانا ہوتا ہے جہاں کسی سوال کا جواب دینا ہو ۔ ۔ ۔ جب سوال کا جواب دینا ہو تو ہمت علی کی ہمت کو کچھ ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ پھر اس کے بعد یہ کسی دوسرے دھاگے پر پاکستان دشمنی میں مشغول !!
 
ہمت علی نے ہر اس دھاگے سے فرار کر جانا ہوتا ہے جہاں کسی سوال کا جواب دینا ہو ۔ ۔ ۔ جب سوال کا جواب دینا ہو تو ہمت علی کی ہمت کو کچھ ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ پھر اس کے بعد یہ کسی دوسرے دھاگے پر پاکستان دشمنی میں مشغول !!

مگر بہنا جی آخر تک فرار ممکن ہے ؟
 

arifkarim

معطل
پاک اٹامک کمیشن جو ایوب خان کے دور سے کام کر رہا ہے۔ اسکے شروع کرنے والے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام آج غداری و کفر کے فتوں میں لپٹے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے کسی تعلیمی نصاب میں‌انکا نام نہیں ہے۔ کیا یہی کافی نہیں ہے ثبوت کے طور پر کہ کرتا کوئی ہے لیکن بھرتا کوئی اور ہے!
 

فرخ

محفلین
بھیا میں اس حق کی تو بات ہی نہیں کررہا۔ اس وقت میزائل لینے کا فیصلہ بالکل درست تھا اور وقت کی ضرورت تھی۔ میں تو صرف یہ عرض کرنا چاہ رہا تھا کہ حقیقت اور "بڑھک"‌میں‌کافی فرق ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا کام تھا "بڑھکیں"‌مارنا اور یہ ان کی ذمہ داری تھی۔ وہ کام انہوں‌نے کیا اور بہت اچھا کیا لیکن جس مقصد کے لئے ان سے بڑھکیں مروائی جاتی تھیں اسی مقصد کے لئے انہیں قربانی کا بکرا بھی بنایا گیا تو پھر اسے بھی ڈیل کا حصہ ہی سمجھنا چاہئے۔

ممکن ہے ایسا ہے، مگر میں ایسے لوگوں سے مل چُکا ہوں جو ایک سے زیادہ علوم میں مہارت اور ڈگری رکھتے ہیں۔ تو کیا یہ ممکن نہیں کہ ڈاکٹر صاحب ایک سے زیادہ علوم میں بھی مہارت رکھتے ہوں؟
اور ظاہر ہے اس قسم کے کام اکیلے تو کوئی نہیں‌کرتا۔ ایٹم بم کا فارمولا ایجاد کرنے والے نے ایٹم بم اکیلے نہیں‌بنایا تھا، اس کے ساتھ بھی ایک ٹیم تھی۔
 

فرخ

محفلین
ہمت علی نے ہر اس دھاگے سے فرار کر جانا ہوتا ہے جہاں کسی سوال کا جواب دینا ہو ۔ ۔ ۔ جب سوال کا جواب دینا ہو تو ہمت علی کی ہمت کو کچھ ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ پھر اس کے بعد یہ کسی دوسرے دھاگے پر پاکستان دشمنی میں مشغول !!

آپکا یہ سوالات والا مسئلہ ابھی تک حل نہیں‌ہوا؟
:noxxx:
 

خرم

محفلین
پاک اٹامک کمیشن جو ایوب خان کے دور سے کام کر رہا ہے۔ اسکے شروع کرنے والے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام آج غداری و کفر کے فتوں میں لپٹے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے کسی تعلیمی نصاب میں‌انکا نام نہیں ہے۔ کیا یہی کافی نہیں ہے ثبوت کے طور پر کہ کرتا کوئی ہے لیکن بھرتا کوئی اور ہے!
ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان کے لئے بہت کام کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انہیں مسلمان مان لیں۔ اپنی آخری عمر میں وہ خود بھی پاکستان کے بارے میں کوئی اچھے الفاظ نہیں استعمال کرتے تھے۔ ان کا نام تو تعلیمی نصاب میں پڑھایا جاتا تھا لیکن بہرحال وہ پہلے "مسلمان" نوبل انعام یافتہ نہیں تھے جیسا کہ کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ لکھا جائے پہلے پاکستانی ضرور تھے۔ اور یورینیم کو افزودہ کرنے کا کام آئی ایچ عثمانی نے شروع کیا تھا میری یادداشت کے مطابق لیکن بہرحال ویپن گریڈ یورینیم کی ٹیکنالوجی ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کی مرہون منت ہے۔

فرخ بھیا ڈاکٹر صاحب کی مہارت ان کے اپنے شعبہ میں تھی اور دوسری پی آر میں۔ اس کے سوا اور کسی مہارت سے میں واقف نہیں۔
 
Top