ایچ اے خان
معطل
یہاں بھی امریکی ٹھمری والے بہت ہے
جنگ
جنگ
ہمت علی صاحب اس میں نہ تو مجھے ٹھمری نظر نہ آرہی ہے اور نہ ہی داررہ کی کوئی شکل موجود ہے
جی بالکل جنہوں نے بم کی تمام مکینکس تیار کیں ان کا کسی نے نام بھی نہ لیا اور جنہوں نے پانچ فیصد کام کیا وہ سب کریڈٹ دھڑلے سے لوٹتے رہے۔ فرنٹ مین کا کام ہی یہ ہوتا ہے بھیا۔ کام دوسرے کرتے ہیں واہ واہ اس کی ہوتی ہے لیکن جب پھر قربانی کا وقت آتا ہے تو چھری بھی اسی پر پھرتی ہے۔ اب اگر زیادہ شوق ہو تو ڈاکٹر صاحب کے وہ تمام کارنامے بھی بیان کر دیتے ہیں جن کی بنا پر ان کی بلے بلے ہوتی تھی اور ان کی حقیقت بھی ویسے ایک سوال۔ یہ جو غوری میزائل ہے، جو ڈاکٹر صاحب کے ادارے نے "بنایا"تھا اس کے متعلق کسی کو کچھ معلوم ہے؟ ایسی ہی حقیقت کچھ ان کے باقی کاموںکی بھی ہے۔
میں اس قسم کی کہانیاں پہلے بھی سنتا آیا ہوں اور اسکی ممکنات کو نظرانداز نہیں کرتا۔جسے ابتداء میں غوری کہا جاتا تھا وہ شمالی کوریا کا nodong میزائل تھا جو بالکل تیار حالت میں پاکستان منتقل کیا گیا تھا۔ اسی لئے جب اس کے پہلے تجربہ کا اعلان کیا گیا تو میزائل پورے کیمو فلاج میں تھا۔ تجرباتی میزائل سفید و سیاہ رنگ میں چلائے جاتے ہیں جیسا کہ شاہین میزائلوں کے سلسلہ میں رہا ہے۔ اس میزائل کی پاکستان آمد کے ایک گواہ خلد آشیانی ماموں جان تھے جو بتایا کرتے تھے کہ انہیں ٹرینوں اور ٹرکوں میں لوڈ کرکے بھیجا گیا تھا۔ ایک دفعہ این ایل سی کے ٹرالر کو صادق آباد سے ایک بہت بڑی ڈھکی ہوئی گول سلنڈر نما چیز لے جاتے دیکھ کر تو میں بھی کافی عرصہ حیران ہوتا رہا تھا کہ وہ کیا چیز تھی۔ شاہین میزائل کی کامیابی کے بعد پاکستان نے خود میزائل کی تیاری کی صلاحیت حاصل کرلی تھی سو غوری کے بعد کے ورژن پاکستان میں تیار کردہ ہیں لیکن ابتدائی کھیپ بنی بنائی آئی تھی اور ڈاکٹر صاحب نے بلے بلے کروائی تھی کہ شمالی کوریا سے تعلقات کا اعتراف سفارتی مصلحت کے خلاف تھا۔ اسی طرح اکثر چیزیں جو کے آر ایل بناتی تھی ان دنوں میں وہ چینی مال کا پاکستانی چھاپا ہوتی تھیں۔ وجہ وہی پرانی لیکن ڈاکٹر صاحب کی بلے بلے ہوتی تھی سو ہوتی رہی۔ ویسے بھی ڈاکٹر صاحب تو میٹیلرجی کے آدمی ہیں، ایٹم بم بنانا تو ان کا کام ہی نہیں۔ یورینیم کے ری ایکٹر کی ڈرائنگز وہ یقیناَ پاکستان لائے تھے اور بلاشبہ یہ بہت بڑا کام تھا لیکن انہیں کریڈٹ اس سے بہت زیادہ دیا جاتا رہا ہے صرف اس لئے کہ اصل کام کرنے والے صیغہ راز میں رہیں۔ نیس کام تو بہت بعد میں بنا لیکن اٹامک انرجی کمیشن یورینیم کی افزودگی کے لئے ساٹھ کی دہائی سے کام کر رہا تھا اور بم کی تیاری میں بھی نوے فیصد یا اس سے زائد ان کا کام تھا۔ جو بم ٹیسٹ کئے گئے تھے ان کی فائرنگ پن ڈیزائن کرنے والے تو میرے روم میٹ بھی رہے ہیں۔
بیٹے امریکی ٹھمری اس کالم میںنظر نہیں ائےگی مگر غور سے دیکھو گے توبہت سے لوگ اس میں مشغول نظر ائیںگے۔
جسے ابتداء میں غوری کہا جاتا تھا وہ شمالی کوریا کا Nodong میزائل تھا جو بالکل تیار حالت میں پاکستان منتقل کیا گیا تھا۔ اسی لئے جب اس کے پہلے تجربہ کا اعلان کیا گیا تو میزائل پورے کیمو فلاج میں تھا۔ تجرباتی میزائل سفید و سیاہ رنگ میں چلائے جاتے ہیں جیسا کہ شاہین میزائلوں کے سلسلہ میں رہا ہے۔ اس میزائل کی پاکستان آمد کے ایک گواہ خلد آشیانی ماموں جان تھے جو بتایا کرتے تھے کہ انہیں ٹرینوں اور ٹرکوں میں لوڈ کرکے بھیجا گیا تھا۔ ایک دفعہ این ایل سی کے ٹرالر کو صادق آباد سے ایک بہت بڑی ڈھکی ہوئی گول سلنڈر نما چیز لے جاتے دیکھ کر تو میں بھی کافی عرصہ حیران ہوتا رہا تھا کہ وہ کیا چیز تھی۔ شاہین میزائل کی کامیابی کے بعد پاکستان نے خود میزائل کی تیاری کی صلاحیت حاصل کرلی تھی سو غوری کے بعد کے ورژن پاکستان میں تیار کردہ ہیں لیکن ابتدائی کھیپ بنی بنائی آئی تھی اور ڈاکٹر صاحب نے بلے بلے کروائی تھی کہ شمالی کوریا سے تعلقات کا اعتراف سفارتی مصلحت کے خلاف تھا۔ اسی طرح اکثر چیزیں جو کے آر ایل بناتی تھی ان دنوں میں وہ چینی مال کا پاکستانی چھاپا ہوتی تھیں۔ وجہ وہی پرانی لیکن ڈاکٹر صاحب کی بلے بلے ہوتی تھی سو ہوتی رہی۔ ویسے بھی ڈاکٹر صاحب تو میٹیلرجی کے آدمی ہیں، ایٹم بم بنانا تو ان کا کام ہی نہیں۔ یورینیم کے ری ایکٹر کی ڈرائنگز وہ یقیناَ پاکستان لائے تھے اور بلاشبہ یہ بہت بڑا کام تھا لیکن انہیں کریڈٹ اس سے بہت زیادہ دیا جاتا رہا ہے صرف اس لئے کہ اصل کام کرنے والے صیغہ راز میں رہیں۔ نیس کام تو بہت بعد میں بنا لیکن اٹامک انرجی کمیشن یورینیم کی افزودگی کے لئے ساٹھ کی دہائی سے کام کر رہا تھا اور بم کی تیاری میں بھی نوے فیصد یا اس سے زائد ان کا کام تھا۔ جو بم ٹیسٹ کئے گئے تھے ان کی فائرنگ پن ڈیزائن کرنے والے تو میرے روم میٹ بھی رہے ہیں۔
ہمت علی نے ہر اس دھاگے سے فرار کر جانا ہوتا ہے جہاں کسی سوال کا جواب دینا ہو ۔ ۔ ۔ جب سوال کا جواب دینا ہو تو ہمت علی کی ہمت کو کچھ ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ پھر اس کے بعد یہ کسی دوسرے دھاگے پر پاکستان دشمنی میں مشغول !!
بھیا میں اس حق کی تو بات ہی نہیں کررہا۔ اس وقت میزائل لینے کا فیصلہ بالکل درست تھا اور وقت کی ضرورت تھی۔ میں تو صرف یہ عرض کرنا چاہ رہا تھا کہ حقیقت اور "بڑھک"میںکافی فرق ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا کام تھا "بڑھکیں"مارنا اور یہ ان کی ذمہ داری تھی۔ وہ کام انہوںنے کیا اور بہت اچھا کیا لیکن جس مقصد کے لئے ان سے بڑھکیں مروائی جاتی تھیں اسی مقصد کے لئے انہیں قربانی کا بکرا بھی بنایا گیا تو پھر اسے بھی ڈیل کا حصہ ہی سمجھنا چاہئے۔
ہمت علی نے ہر اس دھاگے سے فرار کر جانا ہوتا ہے جہاں کسی سوال کا جواب دینا ہو ۔ ۔ ۔ جب سوال کا جواب دینا ہو تو ہمت علی کی ہمت کو کچھ ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ پھر اس کے بعد یہ کسی دوسرے دھاگے پر پاکستان دشمنی میں مشغول !!
ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان کے لئے بہت کام کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انہیں مسلمان مان لیں۔ اپنی آخری عمر میں وہ خود بھی پاکستان کے بارے میں کوئی اچھے الفاظ نہیں استعمال کرتے تھے۔ ان کا نام تو تعلیمی نصاب میں پڑھایا جاتا تھا لیکن بہرحال وہ پہلے "مسلمان" نوبل انعام یافتہ نہیں تھے جیسا کہ کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ لکھا جائے پہلے پاکستانی ضرور تھے۔ اور یورینیم کو افزودہ کرنے کا کام آئی ایچ عثمانی نے شروع کیا تھا میری یادداشت کے مطابق لیکن بہرحال ویپن گریڈ یورینیم کی ٹیکنالوجی ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کی مرہون منت ہے۔پاک اٹامک کمیشن جو ایوب خان کے دور سے کام کر رہا ہے۔ اسکے شروع کرنے والے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام آج غداری و کفر کے فتوں میں لپٹے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے کسی تعلیمی نصاب میںانکا نام نہیں ہے۔ کیا یہی کافی نہیں ہے ثبوت کے طور پر کہ کرتا کوئی ہے لیکن بھرتا کوئی اور ہے!