محمد بلال اعظم
لائبریرین
بلا تبصرہ
یہ منظر دیکھ کر آنکھیں ہماری ڈُبڈبائی ہیں
وہ لکھنا چاہتے ہیں ذہن میں باتیں جو آئی ہیں
جو اب دِل کہہ رہا ہے ہم اُسے تحریر کرتے ہیں
قلم کو تیغ کرتے ہیں زباں کو تیر کرتے ہیں
وہ بیٹے کثرتِ دولت سے جن کے جسم اینٹھے ہیں
جو اپنا فرض اپنی ذمہ داری بھول بیٹھے ہیں
سبھی اُن بے حِسوں کا بُرا انجام ہونا ہے
اُنہیں تو زندگی میں ایک دن ناکام ہونا ہے
جو فطرت اُن کی ہےاُولاد میں بھی پائی جائے گی
کہانی ظلم کی اک بار پھر دہرائی جائے گی
حیا سے اُس گھڑی وہ لوگ اپنا سر جُھکا لیں گے
کہ جب اُن کے جواں بیٹے اُنہیں گھر سے نکالیں گے
یہ آخری چند لائنیں حاصلِ کلام ہیں اور انتہائی سبق آموز بھی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ کاش کہ ہم ان سے کچھ عبرت حاصل کریں
بہت شکریہ بہترین کلام کے انٹخاب کا اور ٹیگ کرنے کا عمراعظم بھائی جزاک اللہ
شکریہ سید زبیر بھائی۔لاجواب کلام ، عمر اعظم ، سدا خوش رہیں
بہت عمدہ شراکت
اللہ کریم ہمیں اس نظم سے عبرت پکڑنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
یہ نظم اپنے بلاگ پر بھی پوسٹ کر دی ہے!
بہت شکریہ جناب۔بہت عمدہ سرکار. بس موبائل سے اتنا ہی. بقیہ تبصرہ ادھار....
ایک تلخ حقیقت
جو ہمارے معاشرے میں بیت عام ہے
شریک محفل کر کے لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا شکریہ
اللہ آپ کو اپنی حفظ و آمان میں رکھے آمین