ام الکتاب (مولانا ابولکلام آزاد)

مقدس

لائبریرین
181

کرنے کا تنہا ذریعہ اس کی پرانی شاعری ہے۔ جب ہم اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو عقیدے پراپر پس پردو کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مرنے کے بعد کی زندگی اور ایک سب سے بڑی اور سب پر چھائی ہوئی الوہیت!

آئیونی(Ionic) فلسفے نے جو یونانی مذاہب فلسفے میں سب سے سے زیادہ پرانا ہے، اجرام سماوی کی ان دیکھی روحوں کا اعتراف کیا تھا اور پھر ان روحوں کے اوپر کسی ایسی روح کا سراغ لگانا چاہا تھا جسے اصل کائنات قرار دیا جا سکے۔ پانچویں صدی قبل از مسیH فیثا غورس (Pythagoras) کا ظہور ہوا اور اس نے نئے نئے فکری عنصروں سے فلسفے کو آشنا کیا، فیثا غورس کے سفر ہند کی روایت صحیح ہو یا نہ ہو، لیکن اس میں شک نہیں کہ اس کے فلسفیانہ تصوروں میں ہنوستانی طریقق فکر کی مابہتیں پوری طرح نمایاں ہیں۔ تناسخ کا غیر مشتبہ عقیدہ، پانچویں آسمانی عنصر (Quintaessentia) کا اعتراف، نفس انسانی کی انفرادیت کا تصور، مکاشفاقی کا طریق ادراک کی جو جھلک اور سب سے زیادہ یہ کہ 'ایک طریق زندگی' کے ضابطے کا اہتمام ایسے مبادات ہیں جو ہمیں اپنشد کے دائرہ فکر و نظر سے بہت قریب کر دیتے ہیں۔ فیثا غورث کے انکا غورث (Anaxagoras) نے ان مبادیات کو کلیاتی تصورات (Abstracts)کی نوعیت کا جامہ پہنایا اور اس طرح یونانی فلسفے کی وہ بنیاد استوار ہوگئی جس پر آگے چل کر سقراط اور افلاطون اپنی اپنی کلیاتی تصورات کی عمراتیں کھڑی کرنے والے تھے۔
سقراط کی شخصیت میں یونان کے توحیدی اور تنزیہی اعتقاد کی سب سے بڑی نمود ہوئی۔ سقراط سے پہلے جو پہلے فلسفہ گذرے تھے انہوں نے قومی پرستش گاہوں کے دیوتاؤں سے کوئی تعرض نہیں کیا تھا کیونکہ خود ان کے دل و دماغ بھی ان کے اثرات سے خالی نہیں تھے، نفوس و فلکی کے تصورات کی اگر اصل حقیقت معلوم کی جائے تو اس سے زیادہ نہیں نکلے گی کہ یونان کے کواکبی دیوتاؤں نے علم و نظر کے حلقوں سے روشناد ہونے کے لیے ایک نیا فلسفیانہ نقاب اپنے چہروں پر ڈال لیا تھا اور اب ان کی ہستی صرف عوام ہی کو نہیں بلکہ فلسفیوں کو بھی تسکین دینے کے قابل بنا دی گئی تھی، یہ تقریباً سیسی ہی صورت حال تھی جو ابھی تھوڑی دیر ہوئی ہم ہنوستان کی قدیم تاریخ کے صفحوں پر دیکھ رہے تھے۔ لیکن فکری غور و
 

مقدس

لائبریرین
182

خوض کے نتائج ایک ایسی لچک دار صورت میں ابھرنے لگے کہ ایک طرف فلسیفانہ دماغوں کے تقاضوں کا بھی جواب دیا جا سکے دوسری طرف عوام کے قومی عقائد سے بھی تصادم نہ ہو۔ ہندوستان کی طرح یونان میں بھی خواص و عوام کے فکر و عمل نے باہم دگر سمجھوتا کر لیا تھا یعنی توحیدی اور اصناعی عقیدے ساتھ ساتھ چلنے لگے تھے۔
لیکن سقراط کا معنوی علو فکر اس عام سطح سے بہت بلند جا چکا تھا وہ وقت کے اصنامی عقائد سے کوئی سمجھوتا نہیں کر سکا اس کا توحیدی تصور تجسم اور تشبہ کی تمام آلودگیوں سے پاک ہو کر ابھرا، اس کی بتلوث خدا پرستی کا تصور اس درجہ بلند تھا کہ وقت کے عام مذہبی تصورات اسے سر اونچا کر کے بھی دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اس کی حقیقت شناس نگاہ میں یونان کی اصنامی خدا پرستی اس سے زیادہ کوئی اخلاقی بنیاد نہیں رکھتی تھی، ایک طرح کا دکان دارنہ لین دین تھا جو اپنے خود ساختہ معبدوں کے ساتھ چکایا جاتا تھا۔افلاطون یوئی فرا (Euthyphro)کے مکالمے میں ہمیں صاف صاف بتلانا ہے کہ یونان کے دینی تصورات و اعمال کی نسبت، سقراط کے بےلاگ فیصلے کیا تھے۔ سقراط پر مذہبی بےاحترامی کا الزام لگایا گیا تھا۔ وہ پوچھتا ہے کہ 'مذہبی احترام' کی حقیقت کیا ہے ؟ پھر جو جواب ملتا ہے وہ اسے اس نیتیجے پر پہنچاتا ہے کہ مذہبی احترام گویا مانگنے اور دینے کا ایک فن ہوا، دیوتاؤں سے وہ چیز مانگنی جس کی ہمیں خوائش ہے اور انہیں وہ چیز دے دینی جس کی انہیں احتیاج ہے۔ مختصر یہ ہے کہ تجارتی کاروبار کا ایک خاص ڈھنگ۔
ایسی بےپردہ تعلیم وقت کی داروگیر سے بچ نہیں سکتی تھی اور نہ بچی۔ لیکن سقاط کی اولوالعزم روح وقت کی کوتاہ انیشیعں سے مغلوب نہیں ہو سکتی تھی۔ اس نے ایک ایسے صبر و استقامت حق کے ساتھ جو صرف نبیوں اور شہیدوں ہی ان کے اندر گھر بنا سکتا ہے زہر کا جام اٹھایا اور بغیر کسی تلخ کلامی کے پی لیا:
تمنت سلیمی ان تموت بحبھا
واھون شئی عندنا ما تمنت

"اس نے مرنے سے پہلے آخری بات جو کہی تھی وہ یہ تھی: وہ ایک کمتر دنیا سے بہتر سنیا کی طرف جا رہا ہے۔"
 

مقدس

لائبریرین
183

افلاطون نے سقراط کے باحثانہ(Dialectic) افکار کو کو ایک معلم کے درم و املاء کی نوعیت رکھتے تھے ایک مکمل ضابطے کی شکل دے دی اور منطقی تخیل کے ذریعے انہیں کلیات و جوامع کی صورت میں مرتب کیا۔ اس نے اپنے تمام فلسفیانہ بحث و نظر کی بنیاد کلیات(Abstracts) پر رکھی اور حلومت سے لے کر خدا کی ہستی تک سب کو تصوریت (Idealism) کا جامہ پہنا دیا۔ اگر تصوریت محسوسات سے الگ ہستی رکھتی ہے تو 'ناؤس' (Nous) یعنی نفس ناطقہ بھی مادے سے الگ اپنی ہستی رکھتا ہے۔ اور اگر نفس، مادے سے الگ ہستی رکھتا ہے تو خدا کی ہستی بھی مادیات سے الگ اپنی نمود رکھتی ہے۔ اس نے انکسا غورث کے مسلک کے خلاف دو نفسوں میں امتیاز کیا ایک کو 'فانی' قرار دیا دوسرے کو 'لافانی'۔ فانی نفس خواہشیں رکھتا ہے اور وہی مجسم ایغو (Ego) ہے لیکن لافانی نفس کائنات کی اصل عاقلہ ہے اور جسمانی زندگی کی تمام آلائشوں سے ایک قلم منزہ۔ یہی نفس کلی کی وہ الہی چنگاری ہے جس نے انسان کے اندر قوت مدرکہ کی روشنی میں چراغ روشن کر دیا ہے۔ یہاں پہنچ کر نفس کلی کا تصور بھی ایک طرح سے وحدۃ الوجودی تصور کی نوعیت پیدا کر لیتا ہے۔ دراصل ہندو فلسفے 'آتما' اور یونانی فلسفے کا 'نفس' ایک ہی مسمٰی کے دو نام ہیں یہاں ' آتما' کے بعد 'پرماتما' نمودار ہوا تھا وہاں ' نفس' کے بعد 'نفس کلی' نمودار ہوا۔
سقراط نے خدا کی ہستی کے لیے 'اگاتھو' (Agatho) یعنی الخیر کا تصور قائم کیا تھا۔ وہ سرتا سر اچھائی اور حسن ہے۔ افلاطون وجود کی دنیاؤں سے بھی اوپر اڑا اور اس نے خیر بحث کا سراغ لگانا چاہا، لیکن سقراط کے صفاتی تصور پر کوئی اضافہ نہ کر سکا۔
ارسطو (Aristotle) جس نے فلسفے کو روحانی تصوروں سے خالص کر کے صرف مشاہدے و احساسات کے دائرے میں دیکھنا چاہا تھا اس سقراطی تصور کا ساتھ نہین دے سکتا تھا۔ اس نے عقل اول اور عقل فعال کا تصور قائم کیا جو ایک ابدی غیر متجزی اور بسیط بحت ہستی ہے۔ پس گویا سقراط اور افلاطون نے جس ذات کی صفت 'الخیر' میں دیکھی تھی ارسطو نے اسے 'العقل' میں دیکھا اور اس منزل پر پہنچ کر رک گیا۔ اس سے زیادہ جو کچھ مشائی فلسفے (Peripatetic Philosophy)میں ہمیں ملتا ہے وہ خود ارسطو کی تصریحات نہیں ہیں البتی یونانی اور عرب شارحوں کے اضافے ہیں
 

مقدس

لائبریرین
184
اس تمام تفصیل سے معلوم ہوا کہ 'الخیر' اور 'العقل'یونانی فلسفے کے تصورا الوہیت کا ماحصل ہے۔
سقراط کے صفاتی تصور کو وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ افلاطون کی جمہوریت (Republic)کا حسب ذیل مکاملہ پیش نظر رکھا جائے۔ اس مکالمے میں اس نے تعلیم کے مسئلے پر بحث کی ہے اور واضح کیا ہے کہ اس کے بنیادی اصول کیا ہونے چاہیں۔
اڈمنٹس (Adeimantus) نے سوال کیا کہ شاعروں کو خدا کا ذکر کرتے ہوئے کیا پیرابند بیان اختیار کرنا چاہیے؟
سقراط: ہر حال میں خدا کی توصیف ایسی کرنی چاہیے جیسا کہ وہ اپنیذات میں ہے، خواہ رزمی (Epic) شعر ہو خواہ غنائی (Lyric)۔ علاوہ بریں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا کی ذات صالح ہے۔ پس ضروری ہے اس کی صٍات بھی اصلاح پر مبنی ہوں۔
اڈمنٹس: درست ہے۔
سقراط: اور یہ بھی ظاہر ہے کہ کو وجود صالح ہو گا اس سے کوئی بات مضر صادر نہیں ہو سکتی اور جو ہستی غیر مضر ہوگی وہ کبھی شر کی صانع نہیں ہو سکتی، اسی طرح یہ بھی بات بھی ظاہر ہے کہ جو ذات صالح ہو گی ضروری ہے کہ نافع بھی ہو۔ پس معلوم ہوا کہ خدا صرف خیر کی علت ہے شر کی علت نہیں ہو سکتا۔
اڈمنٹس: درست ہے۔
سقراط: اور یہیں سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ خدا کا تمام حوادث کی علت ہو ناممکن نہیں جیسا کہ عام طور ہر خیال کیا جاتا ہے بلکہ وہ انسانی حالات کے بہت ہی تھوڑے حصے کی علت ہے، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں ہماری برائیاں بھلوئیوں سے کہیں زیادہ ہین اور برائیوں کی علت خدا کی صالح اور نافع ذات نہیں ہو سکتی پس چاہیے کہ صرف اچھائی ہی کو اس کی طرف نسبت دیں اور برائی کی علت کسی دوسری جگہ ڈھونڈیں۔
اڈمنٹس: میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ بات بالکل واضح ہے۔
سقراط: تو اب ضروری ہوا کہ ہم شاعروں کے ایسے خیالات سے متفق نہ ہوں جیسے ہومر (Homer) کے حسب ذیل شعروں میں ظاہر کیے گئے ہیں: "مشتری (Zeus) (تخت نشین ہستی) کی ڈیوڑھی میں دو پیالے رکھے ہیں، ایک خیر کا ہے ایک شرکا۔ اور وہی انسان کی بھلائی اور برائی کی تمام تر علت ہیں، جس انسان کے حصے میں خیر کے پیالے کی شرا
 

مقدس

لائبریرین
185
ب آ گئی اس کے لیے تمام تر خیر ہے، جس کے حصے میں شر کی آئی۔ اس کے لیے تمام تر شر ہے، اور پھر جس کسی کو دونوں پیالوں کا ملا جلا گھونٹ مل گیا اس کے حصے میں اچھائی بھی آگئی اور برائی بھی۔"
پھر اس کے بعد تجسم کے عقیدے پر بحث کی ہے اور اس سے انکار کیا ہے کہ خڈا ایک بازی گر ہے اور بہروپیے کی طرح کبھی ایک بھیس میں نمودار ہوتا ہے کبھی دوسرے بھیس میں۔

اسکندریہ کا مذہب افلاطون جدید

تیسری صدی مسیحی میں اسکندریہ کے فلسفہ تصوف نے مذہب افلاطون جدید (Neo-Platonism) کے نام سے ظہور کیا جس کا بانی امونیس سکاس (Ammonius Saccas) تھا، امونیس کا جانشین فلاطینس (Plotinus) ہوا اور فلاطینس کا شاگرد فورفوریوس (Porphyry) تھا جو اسکندر فرودیسی (Alexander of Aphrodisias) کے بعد ارسطو کا سب سے بڑا شارح تسلیم کیا گیا ہے اور جس نے افلاطونیہ جدیدہ کی مبادیات مشائی فلسفے میں مخلوط کر دیں۔ فلاطینس اور فورفوریوس کی تعلیم سر تا سر اسی اصل پر مبنی تھی جو ہندوستانی میں اپنشد کے مذہب نے اختیار کی ہے یعنی علم حق کا اصلی ذریعہ کشف ہے نہ کہ استدال اور معرفت کا کمال مرتبہ یہ ہے کہ جذب و فنا کا مقام حاصل ہو جائے۔
خدا کی ہستی کے بارے میں فلاطینس بھی اسی نتیجہ پر پہنچا جس پر اپنشد کے مصںف اس سے بہت پہلے پہنچ چکے تھے یعنی نئی صفات کا مسلک اس نے بھی اختیار کیا۔ذات مطلق ہمارے تصور و ادراک کی تمام تعبیرات سے ماوراء ہےاس لیے ہم اس بارے میں کوئی حکم نہیں لگا سکتے۔ "ذات مطلق ان چیزوں میں سے کوئی چیز بھی نہیں جو اس سے ظہور میں آئیں۔ ہم اس کی نسبت کوئی حککم نہیں لگا سکتے، ہم نہ تو اسے موجودیت سے تعبیر کر سکتے ہیں نہ جوہر سے نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ زندگی ہے۔ حقیقت ان تعبیروں سے وراء الورء ہے۔
سقراط اور افلاطون نے حقیقت کو الخیر سے تعبیر کیا تھا اسلئیے فلاطینس وہاں تک بڑھنے سے انکار نہ کر سکا لیکن اس سے آگے کی تمام راہیں بند کر دیں۔ جب تم نے کہا الخیر تو پس یہ
 

مقدس

لائبریرین
186

کہہ کر رک جاؤ اور اس پر کچھ بھی نہ بڑھاؤ۔ اگر تم کسی دوسرے خیال کا اضافہ کرو گے تو ہر اضافے کے ساتھ ایک نئے نقص کی اس سے تقریب کرتے جاو گے۔ ارسطو نے حقیقت کا سراغ عقول مجردہ کی راہ سے لگایا تھا اور علتہ العلل کو عقل اول سے تعبیر کیا گیا تھا مگر فلاطینس کا مطلق (Absolute)، اس تعبیر کی گرانی بھی برداشت نہیں کر سکتا: " یہ بھی مت کہو کہ وہ عقل ہے ت، اس طرح اسے منقسم کرنے لگو گے۔
لیکن اگر ہم عقل کا اطلاق اس پر نہیں کر سکتے تو پھر 'الوجود' اور 'الخیر' کیونکر کہہ سکتے ہیں؟ اگر پم اپنی متصوری صفتوں میں سے کوئی صفت بھی اس کے لیے نہیں بول سکتے تو پھر وجودیت اور خریت کی صفات بھی کیوں ممنوع نہ ہوں؟ اس سعتراض کا وہ خود جواب دیتا ہے:
"ہم نے اگر اسے 'الخیر' کہا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم کوئی باقاعدہ تصدیق کسی خآص وصف کی کرنی چاہتے ہیں جو اس کے اندر موجود ہے۔ ہم اس تعبیر کے ذریعے صرف یہ بات واضح کرنی چاہتے ہیں کہ وہ ایک مقصد اور منتہیٰ ہے جس پر تمام سلسے جا کر ختم ہا جاتے ہیں یہ گویا ایک اصطلاح ہوئی جو ایک خاص غرض کے لیے کام میں لائی گئی ہے۔ اسی طرح اگر ہم اس کی نسبت 'وجود' کا حکم لگاتے ہیں تو صرف اس لیے کہ عدم کے دائرے سے اسے باہر رکھیں۔ وہ تو ہر چیز سے ماورا ہے حتٰی کہ وجود کے اوصاف و خواص سے بھی۔"
اسکندریہ کے کلیمنٹ (Clement)نے اس مسلک کا خلاصہ چند لفظوں میں کہہ دیا:
اس کی شناخت اس سے نہیں کی جا سکتی کہ وہ کیا ہے؟ صرف اس سے کی جا سکتی ہے کہ وہ کیا کچھ نہیں ہے؟ یعنی یہاں صرف سلب و نفی کی راہ ملتی ہے ایجاب و اثبات کی راہیں بند ہیں:

سر لسان النطق عنہ اخرد!
(ایک ایسا راز اور چھپی ہوئی حقیقت کہ بیان میں آنہیں سکتی)
باب صفات میں یہ وہی بات ہوئی جو اپنشد کی "نیتی نیتی" میں ہم سن چکے ہیں اور جس پر شنجر نے اپنے مذہب کی مبادیات کی عمارتیں استوار کی ہیں۔
ازمنہ وسطٰی کے یہودی فلاسفہ نے بھی یہی مسلک اختیار کیا تھا۔ موسی بن میمون خدا کو الموجود کہنے سے بھی انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم جوں ہی موجود کا وصف بولتے ہیں ہمارے تصور پر مخلوق کے اوصاف وخواص کی پرچھائیں پڑنے لگتی ہیں اور خدا ان اوصاف سے منزہ ہے۔ اس نے اس سے بھی انکار کر دیا کہ خدا کو 'وحدہ لاشریک' کہا جائے کیونکہ
 

مقدس

لائبریرین
'وحدت' اور 'عدم شرکت' کے تصورات بھی اضافی نسبتوں سے خالی نہیں۔ ابن میمون کا یہ مسلک دراصل فلسفہ اسکندریہ ہی کی بازگشت تھی۔

قرآنی تصور

بہرحال چھٹی صدی مسیح میں دنیا کے خدا پرستانہ زندگی کے تصورات اس حد تک جا پہنچے تھے کہ قرآن کا نزول ہوا۔
اب غور کرو کہ قرآن کے تصور الہی کا کیا حال ہے؟ جب ہم ان تمام تصورات کے مطالعے لے بعد قرآن کے تصور پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف نظر آجاتا ہے کہ تصور الہٰی کی تمام تصویروں میں اس کی تصویر جامع اور بلند تر ہے۔ اس سلسلے مین حسب ذیل امور قابل غور ہیں۔

تنزیہ کی تکمیل

اولا: تجسم اور تنزیہ کے لحاظ سے قرآن کا تصور تنزیہ کی ایسی تکمیل ہے کس کی کوئی نمود اس وقت دنیا میں موجود نہیں تھی۔ قرآن سے پہلے تنزیہ کا بڑے سے بڑا مرتبہ جس کا ذہن انسانی متحمل ہو سکا تھا یہ تھا کہ اصنام پرستی کی جگہ ان دیکھے خدا کی پرستش کی جائے۔ لیکن جہاں تک صفات الہی کو تعلق ہے انسانی اوصاف و جذبات کی مشابہت اور جسم و ہیت کے تمثیل سے کوئی تصور بھی خالی نہ تھا، ہندوستان اور یونان کا حال ہم دیکھ چکے ہیں۔ یہودی تصور جس نے اصنام پرستی کیی کوئی شکل بھی جائز نہیں رکھی تھی وہ بھی اس طرح کے تشبہ و تمثیل سے یکسر آلودہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خدا ممرے لے بلوطوں میں دیکھنا،خدا کا حضرت یعقوب علیہ السلام سے کشتی لڑنا، کوہ طور پر شعلوں کے اندر نمودار ہونا، خدا کا جوش غضب میں آکر کوئی کام کر بیٹھنا اور پھر پچھتانا، بنی اسرائیل کو اپنی چہیتی بیوی بنا لینا اور پھر اس کی بد چلنی پر ماتم کرنا، ہیکل کی تباہی پر اس کا نوحہ، اس کی انتڑیوں میں درد کا اٹھنا اور کلیجے میں سوراخ پڑ جانا، تورات کا عام اسلوب بیان ہے۔

اصل یہ ہے کہ قرآن سے پہلے فکر انسانی اس درجہ بلند نہیں ہوا تھا کہ تمثیل کا پردو ہٹا کر صفات الہی کا جلوہ دیکھ لیتا اس لیے ہر تصور کی بنیاد تمام تر تمثیل و تشبہ ہی پر رکھنی پڑی، مثلاً
 

مقدس

لائبریرین
188

تورات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف زبور کے ترانوں اور یشنیا کی کتاب میں خدا کے لیے شایستہ صفات کا تخیل موجود ہے لیکن دوسری طرف خدا کا کوئی مخاطبہ ایسا نہیں جو سر تا سر انسانی اوصاف و جذبات کی تشببیہ سے مملو نہ ہو۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے جب چاہا کہ رحمت الہی کا عالمگیر تصور پیدا کریں تو وہ بھی مجبور ہوئے کہ خدا کے لیے باپ کی تشبیہ سے کام لیں۔ اسی تشبیہ سے ظاہر پرستوں نے ٹھوکر کھائی اور ابنیت مسیح کا عقیدہ پیدا کر لیا۔

لیکن ان تما تصورات کے بعد جب ہم قرآن کی طرف رخ کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اچانک فکر و تصور کی ایک نئی دنیا سامنے آ گئی۔ یہاں تمثیل و تشبیہ کے تمام پردے بی یک دفعہ اٹھ جاتے ہیں، انسانی اوصاف و جذبات کی مشابہت بہت مفقود ہو جاتی ہے، ہر گوشے میں مجاز کی جگہ حقیقت کا جلوہ نمایاں ہو جاتا ہے اور وہ تجسن کا شائبہ تک باقی نہیں رہتا۔
تنزیہ اس مرتبہ کمال تک پہنچ جاتی ہے:
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ (۱۱:۴۲)
اس کے مثل کوئی شے نہیں (کسی چیز ست بھی تم اسے مشاہد نہیں ٹھہرا سکتے)

لَّا تُدْرِ‌كُهُ الْأَبْصَارُ‌ وَهُوَ يُدْرِ‌كُ الْأَبْصَارَ‌ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ‌ ﴿١٠٣
انسان کی نگاہیں اسے نہیں پا سکتیں لیکن وہ انسان کی نگاہوں کو دیکھ رہا ہے۔ اور وہ بڑا پہ باریک بین (اور) باخبر ہے۔

قُلْ هُوَ اللَّ۔هُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّ۔هُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿٤
اللہ کی ذات یگانہ ہے، بے نیاز ہے، اسے کسی کی احتیاج نہیں نہ تو اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی ہستی اس کے درجے اور برابری کی ہوئی۔

تورات اور قرآن کے جو مقامات مشترک ہیں وقت نظر کے ساتھ ان کا مطالعہ کرو، تورات میں جہاں کہیں خدا کی براہ راست نمود کا ذکر کیا گیا ہے، قرآن وہاں خدا کی تجلی کا ذکر رکتا ہے۔ تورات میں جہاں یہ پاؤ کہ خدا متشکل ہو کر اتر، قرآن اس موقع کی یوں تعبیر کرے ھا کہ خدا کا فرشتہ متشکل ہو کر نمودار ہوا۔ بطور مثال کے صرف ایک مقام پر نظر ڈالی جائے۔ تورات میں ہے:
"خداواند نے کہا: اے موسٰی دیکھ! یہ جگہ میرے پاس ہے تو اس چٹان پر کھڑا رہ اور
 

مقدس

لائبریرین
189
یوں ہو گا کہ جب میرے جلال کا گزر ہو گا تو میں تجھے اس چٹان کی دراز میں رکھوں گا اور جب تک نہ گزر لوں تجھے اپنی ہتھیلی سے ڈھانپیں رکھوں گا۔ پھر ایسا ہو ھا کہ میں ہتھیلی اٹھالوں گا اور تو میرا پیچھا دیکھ لے گا لیکن تو میرا چہرہ نہیں دیکھ سکتا۔ (خروج 33-21-23)

تب خداواند بدلی کے ستون میں ہو کر اترا اور خیمے کے دروازے پر کھڑا رہا اس نے کہا کہ میرا بندہ موسیٰ اپنے خداوند کی شبیہ دیکھے گا۔ (گنتی 8-5:12)

اسی معاملے کی تعبیر قرآن نے یوں کی ہے:
قَالَ رَ‌بِّ أَرِ‌نِي أَنظُرْ‌ إِلَيْكَ ۚ قَالَ لَن تَرَ‌انِي وَلَ۔ٰكِنِ انظُرْ‌ إِلَى الْجَبَلِ (143:7)
موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے پرودگار! مجھے اپنا جلو دکھا تا کہ میں تیری نگاہ کر سکوں! فرمایا نہیں۔ تو کبھی مجھے نہیں دیکھے گا، لیکن اس پہاڑ کی طرف دیکھ!

تنزیہ اور تعطیل کا فرق:

البتہ یاد رہے کہ تنزیہ اور تعطیل میں فرق ہے۔ تنزیہ سے مقصود یہ ہے کہ جہاں تک عقل بشری کی پہنچ ہے، صفات الہی کو مخلوقات کی مشابہت سے پاک اور بلند رکھا جائے، تعطیل کے معنی یہ ہیں کہ تنزیہ کے منع و نفی کو اس حد تک پہنچا دیا جائے کہ فکر انسانی کے تصور کے لیے کوئی بات باقی نہ رہے۔ قرآن کا تصور تنزیہ کی تکمیل ہے، تعطیل کی ابتدا نہیں ہے۔
بلاشبہ اپنشد تنزیہ کی 'نیتی نیتی' کو بہت دور تک لے گئے، لیکن عملا نتیجہ کیا نکلا؟ یہی نکلا کہ ذات مطلق (برھمان) کو ذات مشخص (ایشور) میں اتارے بغیر کام نہ چل سکا:
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
جس طرح اثبات صفات میں غلو، تشبیہ کی طرف لے جاتا ہے، اسی طرح نفی صفات میں غلو، تعطیل تک پہچا دیتا ہے اور دونوں میں تصور انسانی مے لیے ٹھوکر ہوئی۔، اگر تشبہ اسے حقیقت سے آشنا کردیتا ہے تو تعطل اسے عقیدے کئ روح سے محروم کر دیتا ہے، پس یہاں ضروری ہوا کہ افراط اور تفریط دونوں سے قدم روکے جائیں اور تشبہ اور تعطل دونوں کے درمیان راہ نکالی جائے، چنانچہ قرآن نے جو راہ اختیار کی ہے وہ دونوں راہوں کے درمیان جاتی ہے اور دونوں انتہائی سمتوں کے میلان سے بچتی ہوئی نکل گئی ہے۔
 

مقدس

لائبریرین
190
اگر خدا کے تصور کے لیے صفات و افعال کی کوئی صورت ایسی باقی نہ رہے جو فکر انسانی کی پکڑ میں آسکتی ہے تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ یہی نکلے گا کہ تنزیہ نے معنی نفی وجود کے ہو جائیں گے، یعنی اگر کہا جائے "ہم خدا کے لیے کوئی ایجابی صفت قرار نہیں دے سکتے، کیونکہ جو صفت بھی قرار دیں گے، اس میں مخلوق کے اوصاف سے مشابہت کی جھلک آجائے گی۔" تو ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں فکر انسانی کے لیے کوئی سر رشتہ تصور باقی نہیں رہے گا اور وہ کسی ایسی ذات کا تصور ہی نہیں کر سکے گا۔ اور جب تصور نہیں کر سکے گا تو ایسا عقیدہ اس کے اندر کوئی پکڑ اور لگاؤ بھی پیدا نہیں کر سکے گا، ایسا تصور اگرچہ اثبات وجود کی کوشش کرے، لیکن فی الحقیقت وہ نفی وجود کا تصور ہو گا، کیونکہ صرف سلبی کے ذریعے ہم ہستی کو نیستی سے جدا نہیں کر سکتے۔

خدا کی ہستی کا اعتقاد انسانی فطرت کے اندرونی تقاضوں کا جواب ہے۔ اسے حیواناتی سطح سے بلند ہونے اور انسانیت اعلی کے درجے تک پہنچانے کے لیے بلندی کے ایک نصب العین کی ضرورت ہے۔ اور اس نصب العین کی طلب بغیر کسی ایسے تصور کے پوری نہیں ہو سکتی جو کسی نہ کسی شکل میں اس کے سامنے آئے، لیکن مشکل یہ ہے کہ مطلق کا تصور سامنے نہیں آ سکتا۔ وہ جبھی آئے گا کہ ایجابی صفتوں کے تشخص کا کوئی نہ کوئی نقاب چہرے پر ڈال لے۔ چنانہ ہمیشہ اس نقاب ہی کے ذریعے جمال حقیقت کو دیکھنا پڑا، یہ کبھی بھاری ہوا، کبھی ہلکا۔ کبھی پرخوف رہا، کبھی دل آویز، مگر اترا کبھی نہیں۔

آہ ازان حوصلہ تنگ و ازان حسن بلند
کہ دلم را گلہ از حسرت دیدار تو نیست

جمال حقیقت بےنقاب ہے۔ مگر ہمارے نگاہوں میں یارائے دید نہیں۔ ہم اپنی نگاہوں پر نقاب ڈال کر اسے دیکھنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کے چہرے پر نقاب پڑ گیا:

ہرچہ ھست از قامت نا ساز و بی ندام ماست
ورنہ تشریف تو بر لا لای کس دشوار نیست

غیر صفاتی تصور کو انسان پکڑ نہیں سکتا اور طلب اسے ایسے مطلوب کی ہوئی جو اس کی پکڑ میں آسکے! وہ ایک ایسا جلوہ محبوبی چاہتا ہت جس کے عشق میں اس کا دل اٹک سکے، جس
 

مقدس

لائبریرین
191

کے حسن گریزاں کے پیچھے وہ والہانہ دوڑ سکے، جس کا دامن کبریائی پکڑنے کے لیے ہمیشہ اپنا دست عجز و نیاز بڑھاتا رہے، جو اگرچہ زیادہ سے زیادہ بلندی پر ہو، لیکن پھر بھی اسے ہر دم جھانک لگائے تاک رہا ہو کہ إِنَّ رَ‌بَّكَ لَبِالْمِرْ‌صَادِ ﴿١٤﴾ " یقیناً تمہارا پرودگار تمہیں گات لگائے تاک رہا ہے۔" وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِ‌يبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ " اور جب میرا بندہ تجھ سے میری نسبت سوال کرتا ہے تو اس سے کہدے کہ میں اس سے دور کب ہوں؟ میں تو بلکل اس کے پاس ہوں۔ اور جب پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا ہوں۔

درپردہ و برھمہ کس پردہ می دری
باھر کسی وبا تو کسی را وصال نیست
(خود تو پردے میں ہے اور دوسروں پر بھی پردہ ڈالتا ہے تو تو سب کے ساتھ ہے لیکن تیرے ساتھ کس کو وصل نہیں)
غیر صفاتی تصور محض نفہ و سلب ہوتا ہے اور اس سے انسانی طلب کی پیاس نہیں بجھ سکتی۔ ایسا تصور ایک فلسیفانہ تخیل ضرور پیدا کر دے گا، لیکن دلوں کا زندہ اور سرگرم عقیدہ نہیں بن سکے گا۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جو راہ اختیار کی وہ ایک طرف تو تنزیہ کو اس کے کمال درجے تک پہنچا دیتی ہے، دوسری طرف تعطیل سےبھی تصور کو بچا لے جاتی ہے۔ وہ فرداً فرداً تمام صفات و افعال کا اثبات کرتا ہے، مگر زاتھ ہی مشابہت کی قطعی نفی بھی کرتا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے: "خدا حسن وخوبی کی ان ےمام صفتوں سے جو انسانی فکر میں آسکتی ہیں متصف ہے۔ وہ زندہ ہے، قدرت والا ہے، پالنے والا ہے، رحمت والا ہے، دیکھنے والا، سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ اور پھر اتنا ہی نہیں ، بلکہ انسان کی بول چال میں قدرت و اختیار اور ارادہ و فعل کی جتنی شائستہ تعبیرات ہیں، انہیں بھی بالاتامل استعمال کرتا ہے۔
مثلاً خدا کے ہاتھ تنگ نہیں: بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ(آیت نمبر 64 سورہ نمبر 5) اس کے تحت حکومت و کبریائی کے احاطے سے کوئی گوشہ نہیں: وَسِعَ كُرْ‌سِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ لیکن یہ بھی صاف صاف اور بےلچک لفظوں میں کہہ دیتا ہے کہ اس سے مشابہ کوئی چیز نہیں
 

مقدس

لائبریرین
192

جو تمھارے تصور میں آسکتی۔ وہ عدیم المثال ہے: لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ ۔ (سورہ 42: آیت 11) تمہاری نگاہ اسے پا ہی نہیں سکتی: لَّا تُدْرِ‌كُهُ الْأَبْصَارُ‌ (103:6) تم اس کے لیے اپنے تخیلا سے مثالیں نہ گھڑو: فَلَا تَضْرِ‌بُوا لِلَّ۔هِ الْأَمْثَالَ(16:74)
پس ظاہر ہے کہ اس کا زندہ ہونا ہمارے زندہ ہونے کی طرح نہیں ہو سکتا، اس کے پرودگاری ہماری پرودگاری کی طرح نہیں ہو سکتی، اس کا دیکھنا، سننا، جاننا ویسا نہیں ہو سکتا جس طرح کے دیکھنے، سننے اور جاننے کا ہم تصور کر سکتے ہیں۔ اس کی قدرت و بخشش کا ہاتھ اور جلال و احاطے کا عرش ضرور ہے، لیکن یقیناً اس کا مطلب وہ نہیں ہو سکتا جوان الفاظ کے مدلولات سے ہمارے ذہن میں متشکل ہونے لگتا ہے۔
قرآن کے تصور الہٰی کا یہ پہلو فی الحقیقت اس راہ کی تمام در ماندگیوں کا ایک ہی حل ہے اور ساری عمر کی سرگردانیوں کے بعد بالاآخر اسی منزل پر پہنچ کر دم لینا پڑتا ہے۔ انسانی فکر جتنی بھی کاوشیں کرے گا، اس کے سوا اور کوئی حل پیدا نہیں کر سکے گا، یہاں ایک طرف بام حقیقت کی بلندی اور فکر کوتاہ کی نارسائیاں ہوئیں، دوسری طرف ہماری فطرت کا اضطراب طلب اور ہمارے دل کا تقاضائے دید ہوا۔ بام اتنا بلند تصور تھک تھک کے رہ جاتی ہے۔ تقاضائے دید اتنا سخت کہ بغیر کسی کا جلوہ سامنے لائے چین نہیں پا سکتا:
نہ بہ اندازہ باز دست کمندم ھیمات
ورنہ با گوشہ بامیم سروکاری ھیست

ایک طرف کی اتنی دشواریاں، دوسری طرف طلب کی اتنی سہیل اندیشیاں! ولنعم ما قبل:

ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

اگر تنزیہ کی طرف زیادہ جھکتے ہیں تو تعطیل میں جا گرتے ہیں۔ اگر اثبات صفات کی صورت آرائیوں میں دور نکل جاتے ہیں تو تشبہ اور تجسم میں کھوئے جاتے ہیں۔ پس نجات کی راہ صرف یہی ہوئی کہ دونوں کے درمیان قدم سنبھالے رکھیں۔ اثبات کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹے، تنزیہ کی باگ بھی ڈھیلی نہ پڑ پائے، اژبات اس کی دل آویز صفتوں کا
 

مقدس

لائبریرین
193

مرقع کھینچے گا، تنزیہ تشبہ کی پرچھائیں بچھاتی رہے گی۔ ایک کا ہاتھ حسن مطلق کو صورت صفات میں جلوہ آرا کر دے گا، دوسرے کا ہاتھ اسے اتنی بلندی پر تھامے رہے گا کہ تشبی کا گردغبار اسے چھونے کی جرات نہیں کر سکے گا:
بر چہری حقیقت اگر ماند پدہ
جرم نگاہ دیدی صورت پرست ماست

اپنشد کے مصنفوں کا نفی صفات میں غلو معلوم ہے، لیکن مسلمانوں میں جب علم کلام کے مختلف مذاہب ا آرا پیدا ہوئے تو ان کی نظری کاوشیں اس میدان میں ان سے بھی آگے نکل گئیں اور صفات باری کا مسئلہ بحث و نظر کا ایک معرکتہ الآ راو مسئلہ بن گیا۔ جمیہ اور باطینہ قطعی انکار کی طرف گئے، معتزلہ نے انکار نہیں کیا، لیکن ان کا رخ رہا اسی طرف۔ امام ابوالحسن اشعری نے گوخود معتدل راہ اختیار کی تھی (جیسا کہ کتاب الابانہ سے ظاہے ہے)، لیکن ان کے پیروں کی کاوشیں تاویل صفات میں دور تک چلی گئیں اور بحث و نزاع سے غلو کا رنگ پیدا ہو گیا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی معاملے کی گتھی نہ سلجھا سکا۔ اگر گتھی سلجھی تو اس طریقے سے سلجھی جو قرآن نے اختیار کیا ہے۔ امام جوینی ئی اقرار کرتے ہوئے دنیا سے گئے کہ "و ھا انا ذا اموت علی عقیدۃ امی" (میری ماں نے جو عقیدہ سکھلایا تھا اس پر دنیا سے جا رہا ہوں)
اشاعرہ میں امام فخر الدین رازی سب سے زیادہ ان کاوشوں میں سرگرم رہے، لیکن بالآخر اپنی زندگی کی آخری تصنیف میں انھیں بھی اقرار کرنا پڑا تھا کہ:

لقد تاملت الطرق الکلمیۃ و المناھج الفسلفیۃ فما رایتھا تشفی علیلا ولا تروع غلیلا۔ و رایت اقرب الطرق طریق القرآن۔ اقرا فی الالبات "الرحمن علی العرش استوی" و فی النفی "لیس کمثلہ شئی" ومن جرب مثل تجربتی، عرف مثل معرفتی۔
(لقلہ ملا علی القاری فی شرح الفقہ الاکبر)
" میں نے علم کلام اور فلسفے کے تنان طریقوں کو خوب دیکھا بھالا، لیکن بالآخر معلوم ہوا کہ نہ تو ان میں کسی بیمار کے لیے شفا ہے، نہ کسی پیاسے کے لیے سیرابی! سب سے
 

مقدس

لائبریرین
194

بہتر اور حقیقت سے نزدیک تر راہ وہی ہے جو قرآن کی راہ ہے۔ اثبات صفات میں پڑھو " الرحمن علی العرش استوی" اور نفی تشبہ میں پڑھو "لیس کمثلہ شیء" یعنی اثبات اور نفی دونوں کا دامن تھامے رہو۔ اور جس کسی کو میری طرح اس معاملے کا تجربے کا موقع ملا ہوگا اسے میری طرح یہ حقیقت معلوم ہو گئی ہو گئی۔"
یہی وجہ ہے کہ اصحاب حدیث اور سلفیہ نے اس باب میں تفویض کا مسلک 98 اختیار کیا تھا اور تاویل صفات میں کاوشیں کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ اسی بنا پر انہوں نے جہمیہ کے انکار صفات کو تعطیل سے تعبیر کیا اور معتزلہ واشاعرہ کی تاویلوں میں بھی تعطل کی بو سونگھنے لگے۔ متکلمین نے ان پر تجسم اور تشبہ کا الزام لگایا، لیکن وہ کہتے تھے کہ تمہارے تعطل سے تو ہمارا نام نہاد تشبہ ہی بہتر ہے، کیونکہ یہاں عقیدے کے لیے ایک تصور تو باقی رہ جاتا ہے، تمہارے سلب و نفی کی کاوشوں کے بعد تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ متاخرین اصحاب حدیث میں امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد امام ابن قیم نے اس مسئلے کی گہرائیوں کو خوز سمجھا اور اسی لیے سلف کے مسلک سے ادھر ادھر ہونا گوارا نہیں کیا۔

آرائی اور سامی نقطہ خیال کا اختلاف

آریائی اور سامی تعلیموں کے مقطہ خیال کا اختلاف ہم اس معاملے میں پوری طرح دیکھ سکتے ہیں۔ آریائی حکومت نے فطرت انسانی کی جس صورت پرستی کے تقاضے کا جوان، مورتی پوجا کا دروازہ کھول کر دیا، قرآن نے اسے صرف صفات کی صورت آرائی سے پورا کر دیا اور پھر اس سے نیچے اترنے کی تمام راہیں بند کر دیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان تمام مفاسد کے کھلنے کے دروازے بند ہو گئے جو بت پرستی کی غیر عقلی زندگی سے پیدا ہو سکتے تھے اور ہندوستان میں پیدا ہوئے۔

محکمات اور متشابہات

قرآن نے ایسے مطالن کی دو بنیادی قسمیں قرار دی ہیں۔ ایک مو"محکمات" سے تعبیر کیا ہت، دوسری کو "متشابہات" سے۔ "محکمات" سے وہ باتیں مقصود ہیں جو صاف صاف
 

مقدس

لائبریرین
انسان کی سمجھ میں آجاتی ہیں اور اس کی عملی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں اور اس لیے ایک سے زیادہ معانی کا ان میں احتمال نہیں۔ "متشابہات" وہ ہیں جن کی حقیقت وہ پا نہیں سکتا اور اس کے سوا چارہ نہیں کہ ایک خاص حد تک جا کر رک جائے اور بے نتیجہ باریک بینیاں نہ کرے:

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ‌ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّ۔هُ ۗ وَالرَّ‌اسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَ‌بِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ‌ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿٧
(اے پیغمبر!) وہی (حی و قیوم ذات) ہے جس نے تم پر "الکتاب" نازل فرمائی ہے۔ اس میں ایک قسم تو محکم آیتوں کئ ہے (یعنی ایسی آیتوں کی جو اپنے ایک ہی معنی میں اٹل اور ظاہر ہیں) اور وہ کتاب کی اصل بنیاد ہیں، دوسری قسم متشابہات کی ہے (یعنی جن کا مطلب کھلا اور قطعی نہیں ہے)۔ تو جن لوگوں کے دل میں کجی ہے (اور سیدھے طریقے پر بات نہیں سمجھ سکتے) وہ (محکم آیتیں چھوڑ کر) ان آیتوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جو کتاب اللہ میں متشابہ ہیں، اس غرض سے کہ فتنہ پیدا کریں اور ان کی حقیقت معلوم کرلیں حالانکہ ان کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا (کیوں کہ ان کا تعلق اس عالم سے ہے جہاں تک انسان کا علم و حواس نہیں پہنچ سکتا) مگر جو لوگ علم کے پکے ہیں وہ (متشابہات کے پیچھے نہیں پڑتے، وہ) کہتے ہیں "ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں، کیوں کہ یہ سب کچھ ہمارے پرودگار کی طرف سے ہے"۔ اور حقیقت یہ ہے کہ (تعلیم حق سے) دانائی حاصل نہیں کرتے مگر وہی جو عقل و بصیرت رکھنے والے ہیں۔

صفات الہی کی حقیقت متشابہات میں داخل ہے۔ اس کے لیے قرآن کہتا ہے کہ اس باب میں فکری کاوشیں کچھ سودمند نہیں ہو سکتیں، بلکہ طرح طرح کی کج اندیشوںکا دروازہ کھول دیتی ہیں۔ یہاں بجز تفویض کے چارہ کار نہیں، پس وہ تمام فلسفیانہ کاوشیں جو ہمارے متکلموں نے کی ہیں فی الحقیقت قرآن کے معیار تعلیم کا ساتھ نہیں دے سکتیں۔
 

مقدس

لائبریرین
اپنشد کا مرتبہ اطلاق اور مرتبہ تشخص

اس موقعے پر یہ بات بھی صاف ہو جانی چاہیے کہ ویدانیت سوتر اور اس کے سب سے بڑے شارح شنکرا چاریا نے نفی صفات پر جتنا زور دیا ہے، وہ حقیقت کے اس مرتبہ اطلاق سے تعلق رکھتا ہے جسے وہ "برہمن" سے تعبیر کرتے ہیں، یعنی ذات مطلق سے۔ لیکن اس سے انہیں بھی انکار نہیں کہ مرتبی اطلاق کے نیچے ایک اور مرتبہ بھی ہے جہاں تمام صفات ایجابی کی نقش آرائی ظہور میں آجاتی ہے اور انسان کے تمام عابدانی تصورات کا معبود وہی ذات متصف ہوتی ہے۔

اپ نشد کے نزدیک ذات مطلق "نیروپا دھیک ست" اور "نرگن" ہے، یعنی تمام مظاہرات سے منزہ اور عدیم التوصیف ہے، اگر کوئی ایجابی صفت اس کی نسبت سے کہی بھی جا سکتی ہے تو وہ اسی سلب کا ایجاب ہے، یعنی وہ "ترگنونی" ہے، عدیم الوصفی صفت ست متصف۔ "ہم اس کی نسبت کچھ نہیں کر سکتے، کیونکہ ہم جو کچھ کہیں گے اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ لامحدود کو محدود بنا دیں گے۔ اگر محدود لامحدود کا تصور کر سکتا ہے تو پھر یا تو محدود کو لامحدود ماننا پڑے گا، یا لامحدود کو محدود بن جانا پڑے گا۔" (شنکر بھاشیا، برہم سوتر باب3) ہم کسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو الفاظ بولتے ہیں وہ یا تو اس چیز کا تعلق کسی خاص نوع سے ظاہر کرتے ہیں، یا اس کے فعلی خواص بتلاتے ہیں۔ یا اس کی قسم کی خبر دیتے ہیں، یا کسی اور اضافی نوعیت کی وضاحت کرتے ہیں، لیکن برہمن کے لیے کوئی نوع نہیں ٹھیرائی جا سکتی، اس کی کوئی قسم نہیں، اس کے فعلی خواص بتلائے نہیں جا سکتے، اس کے لیے کوئی اضافت نہیں، ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ ایسا ہے، یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس طرح کا نہیں ہے، کیونکہ اس کے لیے کوئی مشابہت نہیں، اور چونکہ مشابہت نہیں۔ اس لیے اس کی عدم مشابہت اور غیریت بھی انسانی تصور میں نہیں کائی جا سکتی، مشابہت کی طرح ہماری نفی مشابہت بھی، اضافی رشتے رکھی ہے،" (ایضاً باب اول و ثانی)

غرض کہ حقیقت اپنے مرتبہ اطلاق میں ناممکن اتعریف ہے اور منطقی ماوارئیت سے بھی ماوراء ہے۔ اسی لیے ویدانیت سوتر نے بنیادی طور پر ہستی کے دو دائرے ٹھہرا دیے۔ ایک کو ممکن التصور کہا ہے، دوسرے کو ناممکن اتصور، ممکن التصور دائری ہر کرتی، عناصر، ذہن،
 

مقدس

لائبریرین
197

تعقل اور خودی کا ہے۔ناممکن التصور دائرہ، برہمن (ذات مطلق) کا۔ یہی مذہب اسکندریہ کے افلاطونیہ جدیدہ کا بھی تھا اور حکماء اسلام اور صوفیاء نے بھی یہی مسلک اختیار کیا، صوفیاء مرتبہ 'اطلاق کو مرتبہ' "احدیت" سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں: "احدیت" ناممکن العصور، ناممکن اعبیر اور تمام منطقی ماورائیوں سے بھی وراءالوراء ہے:

بنام آن کہ آں نامی نہ دارد
بہ ہر نامی کہ خوانی سربرآرد

لیکن پھر مرتبی اطلاق ایک ایسے مرتبے میں نزول کرتا ہے جس میں تمام ایجابی صفات کی صورت آرائی کا تشخص نمودار ہا جاتا ہے۔ اپ نشد نے اسے "ایشور" سے اور صوفیاء نے "وحدیت" سے تعبیر کیا ہے۔ ویدانت سوتر کے شارحوں میں شنکرنے سب سے زیادہ اپ نشد کے نفی صفات کے مسلک کو قائم رکھان چاہا ہے اور اس باب میں بڑی کاوش کی۔ تاہم اسے بھی "سگن برہمن" یعنی ذات مشخص و متصف کے مرتبے کا اعتراف کرنا پرا۔ نورکو اس مرتبے کے عرفان کو وہ "اپرم" یعنی فروتر ،رتبے کا عرفان قرار دیتا ہے، مگر ساتھ ہی تسلیم کرتا ہے کہ ایک معبود ہستی کا تصور بغیر اس کے ممکن نہیں اور انسانی ذہن وادراک کے لیے زیادہ سے زیادہ بلند پروازی جو یہاں ہو سکتی ہے وہ یہ ہے۔99

2۔ صفات رحمت و جمال

ثانیا۔ تنزیہ کی طرح صفات رحمت و جمال کے لحاظ ست بھی قرآن کے تصور پر نظر دالی جائے تو اس کی شان تکمیل نمایاں ہے۔ نزول قرآن کے وقت یہودی تصور میں قہر و غضب کا عنصر غالب تھا۔ مجوسی تصور نے نور وظلمت کی دو مساویانہ قوتیں الگ الگ بنالی تھیں۔ مسیحی تصور نے رحمت و محبت پر زور دیا تھا، لیکن جزا کی حقیقت مستور ہو گئی تھی۔ اسی طرح پیروان بدھ نے بھی صرف رحم و محبت پر زور دیا، عدالت نمایاں نہیں ہوئی۔ گویا جہاں تک رحمت و جمال کا تعلق ہے یا تو قہر و غضب کا عنصر غالب تھا، یا مساوی تھا، یا پھر رحمت و محبت آئی تھی تو اس طرح آئی تھی کہ عدالت کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہی تھی۔
لیکن قرآن نے ایک طرف تو رحمت و جمال کا ایک ایسا کامل تصور پیدا کر دیا کہ
 

محمد امین

لائبریرین
192

جو تمھارے تصور میں آسکتی۔ وہ عدیم المثال ہے: آیت مسنگ ہے یہاں تمہاری نگاہ اسے پا ہی نہیں سکتی


لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ ۔ (سورہ 42: آیت 11)

مقدس پچھلی والی آیت جو میں نے بتائی تھی اس میں آگے ریفرینس دے دو جو میں نے لکھا تھا۔۔۔
 
Top