مقدس
لائبریرین
181
کرنے کا تنہا ذریعہ اس کی پرانی شاعری ہے۔ جب ہم اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو عقیدے پراپر پس پردو کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مرنے کے بعد کی زندگی اور ایک سب سے بڑی اور سب پر چھائی ہوئی الوہیت!
آئیونی(Ionic) فلسفے نے جو یونانی مذاہب فلسفے میں سب سے سے زیادہ پرانا ہے، اجرام سماوی کی ان دیکھی روحوں کا اعتراف کیا تھا اور پھر ان روحوں کے اوپر کسی ایسی روح کا سراغ لگانا چاہا تھا جسے اصل کائنات قرار دیا جا سکے۔ پانچویں صدی قبل از مسیH فیثا غورس (Pythagoras) کا ظہور ہوا اور اس نے نئے نئے فکری عنصروں سے فلسفے کو آشنا کیا، فیثا غورس کے سفر ہند کی روایت صحیح ہو یا نہ ہو، لیکن اس میں شک نہیں کہ اس کے فلسفیانہ تصوروں میں ہنوستانی طریقق فکر کی مابہتیں پوری طرح نمایاں ہیں۔ تناسخ کا غیر مشتبہ عقیدہ، پانچویں آسمانی عنصر (Quintaessentia) کا اعتراف، نفس انسانی کی انفرادیت کا تصور، مکاشفاقی کا طریق ادراک کی جو جھلک اور سب سے زیادہ یہ کہ 'ایک طریق زندگی' کے ضابطے کا اہتمام ایسے مبادات ہیں جو ہمیں اپنشد کے دائرہ فکر و نظر سے بہت قریب کر دیتے ہیں۔ فیثا غورث کے انکا غورث (Anaxagoras) نے ان مبادیات کو کلیاتی تصورات (Abstracts)کی نوعیت کا جامہ پہنایا اور اس طرح یونانی فلسفے کی وہ بنیاد استوار ہوگئی جس پر آگے چل کر سقراط اور افلاطون اپنی اپنی کلیاتی تصورات کی عمراتیں کھڑی کرنے والے تھے۔
سقراط کی شخصیت میں یونان کے توحیدی اور تنزیہی اعتقاد کی سب سے بڑی نمود ہوئی۔ سقراط سے پہلے جو پہلے فلسفہ گذرے تھے انہوں نے قومی پرستش گاہوں کے دیوتاؤں سے کوئی تعرض نہیں کیا تھا کیونکہ خود ان کے دل و دماغ بھی ان کے اثرات سے خالی نہیں تھے، نفوس و فلکی کے تصورات کی اگر اصل حقیقت معلوم کی جائے تو اس سے زیادہ نہیں نکلے گی کہ یونان کے کواکبی دیوتاؤں نے علم و نظر کے حلقوں سے روشناد ہونے کے لیے ایک نیا فلسفیانہ نقاب اپنے چہروں پر ڈال لیا تھا اور اب ان کی ہستی صرف عوام ہی کو نہیں بلکہ فلسفیوں کو بھی تسکین دینے کے قابل بنا دی گئی تھی، یہ تقریباً سیسی ہی صورت حال تھی جو ابھی تھوڑی دیر ہوئی ہم ہنوستان کی قدیم تاریخ کے صفحوں پر دیکھ رہے تھے۔ لیکن فکری غور و
کرنے کا تنہا ذریعہ اس کی پرانی شاعری ہے۔ جب ہم اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو عقیدے پراپر پس پردو کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مرنے کے بعد کی زندگی اور ایک سب سے بڑی اور سب پر چھائی ہوئی الوہیت!
آئیونی(Ionic) فلسفے نے جو یونانی مذاہب فلسفے میں سب سے سے زیادہ پرانا ہے، اجرام سماوی کی ان دیکھی روحوں کا اعتراف کیا تھا اور پھر ان روحوں کے اوپر کسی ایسی روح کا سراغ لگانا چاہا تھا جسے اصل کائنات قرار دیا جا سکے۔ پانچویں صدی قبل از مسیH فیثا غورس (Pythagoras) کا ظہور ہوا اور اس نے نئے نئے فکری عنصروں سے فلسفے کو آشنا کیا، فیثا غورس کے سفر ہند کی روایت صحیح ہو یا نہ ہو، لیکن اس میں شک نہیں کہ اس کے فلسفیانہ تصوروں میں ہنوستانی طریقق فکر کی مابہتیں پوری طرح نمایاں ہیں۔ تناسخ کا غیر مشتبہ عقیدہ، پانچویں آسمانی عنصر (Quintaessentia) کا اعتراف، نفس انسانی کی انفرادیت کا تصور، مکاشفاقی کا طریق ادراک کی جو جھلک اور سب سے زیادہ یہ کہ 'ایک طریق زندگی' کے ضابطے کا اہتمام ایسے مبادات ہیں جو ہمیں اپنشد کے دائرہ فکر و نظر سے بہت قریب کر دیتے ہیں۔ فیثا غورث کے انکا غورث (Anaxagoras) نے ان مبادیات کو کلیاتی تصورات (Abstracts)کی نوعیت کا جامہ پہنایا اور اس طرح یونانی فلسفے کی وہ بنیاد استوار ہوگئی جس پر آگے چل کر سقراط اور افلاطون اپنی اپنی کلیاتی تصورات کی عمراتیں کھڑی کرنے والے تھے۔
سقراط کی شخصیت میں یونان کے توحیدی اور تنزیہی اعتقاد کی سب سے بڑی نمود ہوئی۔ سقراط سے پہلے جو پہلے فلسفہ گذرے تھے انہوں نے قومی پرستش گاہوں کے دیوتاؤں سے کوئی تعرض نہیں کیا تھا کیونکہ خود ان کے دل و دماغ بھی ان کے اثرات سے خالی نہیں تھے، نفوس و فلکی کے تصورات کی اگر اصل حقیقت معلوم کی جائے تو اس سے زیادہ نہیں نکلے گی کہ یونان کے کواکبی دیوتاؤں نے علم و نظر کے حلقوں سے روشناد ہونے کے لیے ایک نیا فلسفیانہ نقاب اپنے چہروں پر ڈال لیا تھا اور اب ان کی ہستی صرف عوام ہی کو نہیں بلکہ فلسفیوں کو بھی تسکین دینے کے قابل بنا دی گئی تھی، یہ تقریباً سیسی ہی صورت حال تھی جو ابھی تھوڑی دیر ہوئی ہم ہنوستان کی قدیم تاریخ کے صفحوں پر دیکھ رہے تھے۔ لیکن فکری غور و