نبیل
تکنیکی معاون
ایک اور موقع پر فطرت کے جمال و زیبائی کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسے “تخلیق بالحق“ سے تعبیر کیا ہے، یعنی فطرت کائنات میں تحسین و آرائش کا قانون کام کر رہا ہے جو چاہتا ہے جو کچھ بنے، ایسا بنے کہ اس میں حسن و جمال و خوبی اور کمال ہو۔
خلق السموات والارض بالحق و صورکم فاحسن صورکم (٦٤؛٣)
اس نے آسمانوں اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا اور تمہاری صورتیں بنائیں تو نہایت حسن و خوبی کے ساتھ بنائیں۔
اسی طرح وہ قانون مجازات پر (یعنی جزاء و سزا کے قانون پر) بھی اسی (تحقیق بالحق) سے استشہاد کرتا ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ دنیا میں ہر چیز کوئی نہ کوئی خاصہ اور نتیجہ رکھتی ہے اور تمام خواص اور نتائج لازمی اور اٹل ہیں۔ پھر کیونکر ممکن ہے کہ انسان کے اعمال میں بھی اچھے اور برے خواص اور نتائج نہ ہوں اور وہ قطعی اور اٹل نہ ہوں۔ جو قانون فطرت دنیا کی ہر چیز میں اچھے برے کا امتیاز رکھتا ہے، کیا انسان کے اعمال میں اس امتیاز سے غافل ہو جائے گا؟
ام حسب الذین اجترحو السیات ان نجعلہم کالذین آمنو و عملو الصلحت سواء محیاھم و مماتھم۔ ساء ما یحکمون و خلق اللہ السموت والارض بالحق و لتجزی کل نفس بما کسبت و ھم لایظلمون (٤٥؛٢١-٢٢)
جو لوگ برائیاں کرتے ہیں، کیا وہ سمجھتے ہیں ہم انہیں ان لوگوں جیسا کر دیں گے جو ایمان لائے اور جن کے اعمال اچھے ہیں، یعنی دونوں برابر ہو جائیں زندگی میں بھی اور موت میں بھی۔ (اگر ان لوگوں کے فہم و دانش کا فیصلہ یہی ہے تو) کیا ہی برا ان کا فیصلہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے آسمانوں کو اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس لیے پیدا کیا ہے کہ ہر جان اپنی کمائی کے مطابق بدلا پالے اور ایسا نہیں ہوگا کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہو۔
معاد، یعنی مرنے کے بعد کی زندگی پر بھی اس سے جا بجا استشہاد کیا ہے۔ کائنات میں ہر چیز کوئی نہ کوئی مقصد اور منتہی رکھتی ہے۔ پس ضروری ہے کہ انسانی وجود کے لیے بھی کوئی نہ کوئی مقصد اور منتہی ہو۔ یہی منتہی آخرت کی زندگی ہے، کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کائنات ارضی کی یہ بہترین مخلوق صرف اس لیے پیدا کی گئی ہو کہ پیدا ہو اور چند دن جی کر فنا ہو جائے۔
اولم یتفکرو فی انفسہم ما خلق اللہ لسموت والارض وما بینھما الا بالحق واجل مسمی وان کثیرا من الناس بلقاء ربھم لکفرون (٣٠؛٨)
کیا ان لوگوں نے کبھی اپنے دل میں اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، محض بےکار و عبث نہیں بنایا ہے۔ ضروری ہے کہ حکمت و مصلحت کے ساتھ بنایا ہو اور اس کے لیے ایک مقررہ وقت ٹھہرا دیا ہو۔ اصل یہ ہے کہ انسانوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے پروردگار کی ملاقات سے یک قلم منکر ہیں۔
خلق السموات والارض بالحق و صورکم فاحسن صورکم (٦٤؛٣)
اس نے آسمانوں اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا اور تمہاری صورتیں بنائیں تو نہایت حسن و خوبی کے ساتھ بنائیں۔
اسی طرح وہ قانون مجازات پر (یعنی جزاء و سزا کے قانون پر) بھی اسی (تحقیق بالحق) سے استشہاد کرتا ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ دنیا میں ہر چیز کوئی نہ کوئی خاصہ اور نتیجہ رکھتی ہے اور تمام خواص اور نتائج لازمی اور اٹل ہیں۔ پھر کیونکر ممکن ہے کہ انسان کے اعمال میں بھی اچھے اور برے خواص اور نتائج نہ ہوں اور وہ قطعی اور اٹل نہ ہوں۔ جو قانون فطرت دنیا کی ہر چیز میں اچھے برے کا امتیاز رکھتا ہے، کیا انسان کے اعمال میں اس امتیاز سے غافل ہو جائے گا؟
ام حسب الذین اجترحو السیات ان نجعلہم کالذین آمنو و عملو الصلحت سواء محیاھم و مماتھم۔ ساء ما یحکمون و خلق اللہ السموت والارض بالحق و لتجزی کل نفس بما کسبت و ھم لایظلمون (٤٥؛٢١-٢٢)
جو لوگ برائیاں کرتے ہیں، کیا وہ سمجھتے ہیں ہم انہیں ان لوگوں جیسا کر دیں گے جو ایمان لائے اور جن کے اعمال اچھے ہیں، یعنی دونوں برابر ہو جائیں زندگی میں بھی اور موت میں بھی۔ (اگر ان لوگوں کے فہم و دانش کا فیصلہ یہی ہے تو) کیا ہی برا ان کا فیصلہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے آسمانوں کو اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس لیے پیدا کیا ہے کہ ہر جان اپنی کمائی کے مطابق بدلا پالے اور ایسا نہیں ہوگا کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہو۔
معاد، یعنی مرنے کے بعد کی زندگی پر بھی اس سے جا بجا استشہاد کیا ہے۔ کائنات میں ہر چیز کوئی نہ کوئی مقصد اور منتہی رکھتی ہے۔ پس ضروری ہے کہ انسانی وجود کے لیے بھی کوئی نہ کوئی مقصد اور منتہی ہو۔ یہی منتہی آخرت کی زندگی ہے، کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کائنات ارضی کی یہ بہترین مخلوق صرف اس لیے پیدا کی گئی ہو کہ پیدا ہو اور چند دن جی کر فنا ہو جائے۔
اولم یتفکرو فی انفسہم ما خلق اللہ لسموت والارض وما بینھما الا بالحق واجل مسمی وان کثیرا من الناس بلقاء ربھم لکفرون (٣٠؛٨)
کیا ان لوگوں نے کبھی اپنے دل میں اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، محض بےکار و عبث نہیں بنایا ہے۔ ضروری ہے کہ حکمت و مصلحت کے ساتھ بنایا ہو اور اس کے لیے ایک مقررہ وقت ٹھہرا دیا ہو۔ اصل یہ ہے کہ انسانوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے پروردگار کی ملاقات سے یک قلم منکر ہیں۔