ام الکتاب ۔ تفسیر سورۃفاتحہ (مولانا ابولکلام آزاد)

نبیل

تکنیکی معاون
ایک اور موقع پر فطرت کے جمال و زیبائی کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسے “تخلیق بالحق“ سے تعبیر کیا ہے، یعنی فطرت کائنات میں تحسین و آرائش کا قانون کام کر رہا ہے جو چاہتا ہے جو کچھ بنے، ایسا بنے کہ اس میں حسن و جمال و خوبی اور کمال ہو۔

خلق السموات والارض بالحق و صورکم فاحسن صورکم (٦٤؛٣)

اس نے آسمانوں اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا اور تمہاری صورتیں بنائیں تو نہایت حسن و خوبی کے ساتھ بنائیں۔

اسی طرح وہ قانون مجازات پر (یعنی جزاء و سزا کے قانون پر) بھی اسی (تحقیق بالحق) سے استشہاد کرتا ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ دنیا میں ہر چیز کوئی نہ کوئی خاصہ اور نتیجہ رکھتی ہے اور تمام خواص اور نتائج لازمی اور اٹل ہیں۔ پھر کیونکر ممکن ہے کہ انسان کے اعمال میں بھی اچھے اور برے خواص اور نتائج نہ ہوں اور وہ قطعی اور اٹل نہ ہوں۔ جو قانون فطرت دنیا کی ہر چیز میں اچھے برے کا امتیاز رکھتا ہے، کیا انسان کے اعمال میں اس امتیاز سے غافل ہو جائے گا؟

ام حسب الذین اجترحو السیات ان نجعلہم کالذین آمنو و عملو الصلحت سواء محیاھم و مماتھم۔ ساء ما یحکمون و خلق اللہ السموت والارض بالحق و لتجزی کل نفس بما کسبت و ھم لایظلمون (٤٥؛٢١-٢٢)

جو لوگ برائیاں کرتے ہیں، کیا وہ سمجھتے ہیں ہم انہیں ان لوگوں جیسا کر دیں گے جو ایمان لائے اور جن کے اعمال اچھے ہیں، یعنی دونوں برابر ہو جائیں زندگی میں بھی اور موت میں بھی۔ (اگر ان لوگوں کے فہم و دانش کا فیصلہ یہی ہے تو) کیا ہی برا ان کا فیصلہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے آسمانوں کو اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس لیے پیدا کیا ہے کہ ہر جان اپنی کمائی کے مطابق بدلا پالے اور ایسا نہیں ہوگا کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہو۔

معاد، یعنی مرنے کے بعد کی زندگی پر بھی اس سے جا بجا استشہاد کیا ہے۔ کائنات میں ہر چیز کوئی نہ کوئی مقصد اور منتہی رکھتی ہے۔ پس ضروری ہے کہ انسانی وجود کے لیے بھی کوئی نہ کوئی مقصد اور منتہی ہو۔ یہی منتہی آخرت کی زندگی ہے، کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کائنات ارضی کی یہ بہترین مخلوق صرف اس لیے پیدا کی گئی ہو کہ پیدا ہو اور چند دن جی کر فنا ہو جائے۔

اولم یتفکرو فی انفسہم ما خلق اللہ لسموت والارض وما بینھما الا بالحق واجل مسمی وان کثیرا من الناس بلقاء ربھم لکفرون (٣٠؛٨)

کیا ان لوگوں نے کبھی اپنے دل میں اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، محض بےکار و عبث نہیں بنایا ہے۔ ضروری ہے کہ حکمت و مصلحت کے ساتھ بنایا ہو اور اس کے لیے ایک مقررہ وقت ٹھہرا دیا ہو۔ اصل یہ ہے کہ انسانوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے پروردگار کی ملاقات سے یک قلم منکر ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
معاد

یعنی مرنے کے بعد کی زندگی پر بھی اس سے جا بجا استشہاد کیا ہے۔ کائنات مین ہر چیز کوئی نہ کوئی مقصد اور منتہی رکھتی ہے، پس ضروری ہے کہ انسانی وجود کے لیے بھی کوئی نہ کوئی مقصد اور منتہی ہو۔ یہی منتہی آخرت کی زندگی ہے، کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کائنات ارضی کہ یہ بہترین مخلوق صرف اس لیے پیدا کی گئی ہو کہ پیدا ہو اور چند دن جی کر فنا ہو جائے:

کیا ان لوگوں نے کبھی اپنے دل میں اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، محض بے کار و عبث نہیں بنایا ہے۔ ضروری ہے حکمت و مصلحت کے ساتھ بنایا ہو اور اس کے لیے ایک مقررہ وقت ٹھیرا دیا ہو۔ اصل یہ ہے کہ انسانوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے پروردگار کی ملاقات سے یک قلم منکر ہیں۔

مبدء استدلال:

غرض کہ قرآن کا مبدءاستدلال یہ ہے کہ:
1) اس کے نزول کے وقت دینداری اور خدا پرستی کے جس قدر عام تصورات موجود تھے وہ نہ صرف عقل کی آمیزش سے خالی تھے، بلکہ بلکہ ان کی تمام تر بنیاد غیر عقلی عقائد پر آ کر ٹھیر ھئی تھی۔ لیکن اس نے خدا پرستی کے لیے عقلی تصور پیدا کیا۔
2) اس کی دعوت کی تمام بنیاد تعقل و تفکر پر ہے اور خصوصیت کے لے کائنات خلقت کے مطالعے و تفر کی دعوت دیتا ہے۔
3) وہ کہتاہے: کائنات خلقت کے مطالعہ و تفکر سے انسان پر تخلیق بالحق کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے، یعنی وہ دیکھتا ہے کہ اس کارخانہ ہستی کی کوئی چیز نہیں جو کسی تھیرائے ہوئے مقصد اور مصلحت سے خالی ہو اور کسی بالاتر قانون خلقت کے ماتحت ظہور میں نہ آئی ہو۔ یاں جو بھی اپنا وجود رکھتی ہے ایک خاص نظم و ترتیب کے ساتھ حکمتوں اورمصلحتوں کے عالم گیر سلسلے میں بندھی ہوئی ہے۔
4) وہ کہتا ہے: جب انسان ان مقاصد و مصالح پر غور کرے گا تو عرفان حقیقت کی راہ خود بخود اس پر کھل جائے گی اور جہل و کوری کی گمراہیوں سے نجات پا جائے گا۔

برھان ربوبیت

چنانچہ اس سلسلہ میں اس نے مظاہر کائنات کے جن مقاصد و مصالح سے استدلال کیا ہے ان میں سب سے زیادہ عام استدلال ”ربوبیت“ کا استدلال ہے اور اسی لیے ہم اسے برھان ربوبیت سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ وہ کہتا ہے: کائنات کے تمام اعمال و مظاہر کا اس طرح واقع ہونا کہ ہر چیز پرورش کرنے والی اور ہر تاثیر زندگی بخشنے والی ہے اور پھر ایک ایسے نظام ربوبیت کا موجود ہونا جو ہر حالت کی رعایت کرتا اور ہر ہر طرح کی مناسبت ملحوظ رکھتاہے، ہر انسان کو وجدانی طور پر یقین دلا دیتا ہے کہ ایک پرووردگار عالم ہستی موجود ہے اور ان تمام صفتوں سے متصف ہے جن کے بغیر نظام ربوبیت کا یہ کامل اور بے عیب کارخانہ وجود میں نہیں آ سکتا تھا۔

وہ کہتا ہے: کیا انسان کا وجدان یہ باور کر سکتا ہے کہ نظام ربوبیت کا یہ پورا کارخانہ خود بخود وجود میں آجائے اور کوئی زندگی، کوئی ارادہ، کوئی حکمت اس کے اندر کارفرما نہ ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اس کارخانہ ہستی کی ہر چیز میںایک بولتی ہوئی پروردگاری اور ایک ابھری ہوئی کارسازی موجود ہو، مگر کوئی پروردگار، کوئی کارساز موجود نہ ہو؟ پھر کیا یہ محض ایک اندھی بہری فطرت، بے جان مادہ اور بے حس الیکٹرون (Electron) کے خواص ہیں جن سے پروردگاری و کارسازی کا یہ پورا کارخانہ ظہور میں آ گیا ہے اور عقل اور ارادہ کھنے والی کوئی ہستی موجود نہیں! رحمت موجود ہے مگر کوئی رحیم نہیں! حکمت موجود ہے، مگر کوئی حکیم موجود نہیں! سب کچھ موجود ہے، مگر کوئی موجود نہیں! عمل بغیر کسی عامل ہے، نظم بغیر کسی ناظم کے، قیام بغیر کسی قیوم کے، عمارت بغیر کسی معمار کے، نقش بغیر کسی نقاش کے، سب کچھ بغیر کسی موجود کے! نہیں، انسان کی فطرت کبھی یہ باور نہیں کر سکتی۔ اس کا وجدان پکارتا ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اس کی فطرت اپنی بناوٹ میںB ایک ایسا سانچہ لے کر آئی ہے جس میں یقین و ایمان ہی ڈھل سکتا ہے، شک اور انکار کی اس میں سمائی نہیں!

قرآن کہتا ہے: یہ بات انسان کے وجدانی اذعان کے خلاف ہے کہ وہ نظام ربوبیت کا مطالعہ کرے اور ایک ”رب العالمین“ ہستی کا یقین اس کے اندر جاگ نہ اٹھے۔ وہ کہتا ہے: ایک انسان غفلت کی سرشاری اور سرکشی کے ہیجان میں ہر چیز سے انکار کر سکتا ہے، لیکن اپنی فطرت سے انکار نہیں کر سکتا، وہ ہر چیز کے خلاف جنگ کر سکتا ہے لیکن اپنی فطرت کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھا سکتا۔ وہ جب اپنے چاروں طرف زندگی اور پروردگاری کا ایک عالمگیر کارخانہ پھیلا ہوا دیکھتا ہے تو اس کی فطرت کی صدا کیا ہوتی ہے؟اس کے دل کے ایک ایک ریشے میں کون سا اعتقاد سمایا ہوتا ہے؟ کیا یہی نہیں ہوتا کہ ایک پروردگار ہستی موجود ہے اور یہ سب اسی کی کرشمہ سازیاں ہیں؟

یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کا اسلوب بیان یہ نہی'ں ہے کہ نظری مقدمات اور ذہنی مسلمات کی شکلیں ترتیب دے پھر اس پر بحث و تقریر کرکے مخاطب کو رد و تسلیم پر مجبور کرے۔ اس کا تمام تر کطاب انسان کے فطری وجدان و ذوق سے ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے: خدا پرستی کا جزبہ انسانی فطرت کا خمیر ہے۔ اگر ایک انسان اس سے انکار کرنے لگتا ہے تو یہ اس کی غفلت ہے اور ضروری ہے کہ اسے غفلت سے چونکا دینے کے لیے دلیلیں پیش کی جائیں۔ لیکن یہ دلیل ایسی نہیں ہونی چاہیے جو محض ذہن و دماغ میں کاوش پیدا کر دے، بلکہ ایسی ہونی چاہیے جو اس کے نہاں خانہ دل پر دستک دے دے اور اس کا فطری وجدان بیدار کر دے، اگر اس کا وجدان بیدار ہو گیا تو پھر اثبات مدعا کے لیے بحث و تقریر کی ضرورت نہ ہو گی ، خود اس کا وجدان ہی اسے مدعا تک پہنچا دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن خود انسان کی فطرت ہی سے انسان پر حجت لاتا ہے:

بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَ‌ةٌ ﴿١٤﴾ وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَ‌هُ ﴿١٥

بلکہ انسان کا وجود خود اس کے خلاف (یعنی اس کی کج اندیشیوں کے خلاف) حجت ہے، اگرچہ وہ (اپنے وجدان کے خلاف) کتنے ہی عذر بہانے تراش لیا کرے۔

اور اسی لیے وہ جابجا فطرت انسانی کو مخاطب کرتا ہے اور اس کی گہرائیوں سے جواب طلب کرتا ہے:

قُلْ مَن يَرْ‌زُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْ‌ضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ‌ وَمَن يُخْرِ‌جُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِ‌جُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ‌ الْأَمْرَ‌ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّ۔هُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴿٣١﴾ فَذَٰلِكُمُ اللَّ۔هُ رَ‌بُّكُمُ الْحَقُّ ۖ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَ‌فُونَ ﴿٣٢

(اے پیغمبر ان سے) کہو: وہ کون ہے جو آسمان (میں پھیلے ہوئے کارخانہ حیات) سے اور زمین (کی وسعت مین پیدا ہونے والے سامن رزق) سے تمہیں روزی بخش رہا ہے؟ وہ کون ہے جس کے قبضہ میں تمہارا سننا اور دیکھنا ہے؟ وہ کون ہے جو بے جان سے جان دار کو اور جان دار سے بے جان کو نکالتاہے، اور پھر وہ کون سی ہستی ہے جو یہ تمام کارخانہ خلقت اس نظم و نگرانی کے ساتھ چلا رہی ہے؟ (اے پیغمبر!) یقیناً وہ (بے اختیار) بول اٹھیں گے: اللہ ہے، (اس کے سوا کون ہو سکتا ہے؟) اچھا تم ان سے کہو؛ (جب تمہیں اس بات سے انکار نہیں تو) پھر یہ کیوں ہے کہ غفلت و سرکشی سے نہیں بچتے؟ ہاں بے شک یہ اللہ ہی ہے جو تمہارا پرودگار وبرحق ہے اور جب حق ہے تو حق کے ظہور کے بعد اسے نہ ماننا گمراہی نہیں تو اور کیا ہے؟
(افسوس تمہاری سمجھ پر!) تم (حقیقت سے منہ پھرائے) کہاں جا رہے ہو؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
ایک اور موقعے پر فرمایا:

أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَّا كَانَ لَكُمْ أَن تُنبِتُوا شَجَرَ‌هَا ۗ أَإِلَ۔ٰهٌ مَّعَ اللَّ۔هِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ ﴿٦٠﴾ أَمَّن جَعَلَ الْأَرْ‌ضَ قَرَ‌ارً‌ا وَجَعَلَ خِلَالَهَا أَنْهَارً‌ا وَجَعَلَ لَهَا رَ‌وَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَ‌يْنِ حَاجِزًا ۗ أَإِلَ۔ٰهٌ مَّعَ اللَّ۔هِ ۚ بَلْ أَكْثَرُ‌هُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٦١﴾ أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ‌ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْ‌ضِ ۗ أَإِلَ۔ٰهٌ مَّعَ اللَّ۔هِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُ‌ونَ ﴿٦٢﴾ أَمَّن يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ‌ وَالْبَحْرِ‌ وَمَن يُرْ‌سِلُ الرِّ‌يَاحَ بُشْرً‌ا بَيْنَ يَدَيْ رَ‌حْمَتِهِ ۗ أَإِلَ۔ٰهٌ مَّعَ اللَّ۔هِ ۚ تَعَالَى اللَّ۔هُ عَمَّا يُشْرِ‌كُونَ ﴿٦٣﴾ أَمَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَمَن يَرْ‌زُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْ‌ضِ ۗ أَإِلَ۔ٰهٌ مَّعَ اللَّ۔هِ ۚ قُلْ هَاتُوا بُرْ‌هَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٦٤

وہ کون ہے؟ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور جس نے آسمانوں سے تمہارے لیے پانی برسایا پھر اس آب پاشی سے خوش نما باغ اگا دیے، حالانکہ تمہارے بس کی یہ بات نہ تھی کہ ان باغوں کےدرخت اگاتے۔ کیا ان کاموں کا کرنے والا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی ہے؟ (افسوس ان لوگوں کی سمجھ پر! حقیقت حال کتنی ہی ظاہر ہو) مگر یہ وہ لوگ ہیں جن کا شیوہ ہی کج روی ہے۔ اچھا بتاؤ! اور کون ہے جس نے زمین کو (زندگی اور معیشت کا) ٹھکانا بنا دیا، اس کے درمیان نہریں جاری کر دیں، اس (کی درستگی ) کےلیے پہاڑ بلند کر دیے، دو دریاؤں میں (یعنی دریا اور سمندر میں ایسی) دیوار حائل کر دی (کہ دونوں اپنی اپنی جگہ محدود رہتے ہیں) کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا بھی ہے؟ (افسوس! کتنی واضح بات ہے) مگر ان لوگوں میں سے اکثر ایسے ہیں جو نہیں جانتے۔ اچھا بتلاؤ! وہ کون ہے جو بے قرار دلوں کی پکار سنتا ہے جب وہ (ہر طرف سے مایوس ہو کر) اسے پکارنے لگتے ہیں اور ان کا دکھ درد ٹال دیتا ہے، اور وہ کہ اس نے تمہیں زمین کا جانشین بنایا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا بھی ہے؟ (افسوس تمہاری غفلت پر!) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم نصیحت پذیر ہو! (اچھا بتاؤ) وہ کون ہے باران رحمت سے پہلے خوش خبری دینے والی ہوائیں چلاتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی ہے؟ (ہرگز نہیں) اللہ کی ذات اس ساجھے سے پاک و منزہ ہےجو یہ لوگ اس کی معبودیت میں ٹھیرا رہے ہیں۔ اچھا بتاؤ! وہ کون ہے جو مخلوقات کی پیدائش شروع کرتا ہے اور پھر اسے دہراتا ہے۔ اور وہ کون ہے جو آسمان و زمین کے کارخانہائے رزق سے تمہیں روزی دے رہا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی ہے؟ (اے پیغمر!) ان سے کہو اگر تم (اپنے رویے میں) سچے ہو (اور انسانی عقل و بصیرت کی اس عالمگیر شہادت کے خلاف تمہارے پاس کوئی دلیل ہے) تو اپنی دلیل پیش کرو۔

ان سوالات میں سے ہر سوال اپنی جگہ ایک مستقل دلیل ہے، کیونکہ ان میں سے ہر سوال کا صرف ایک ہی جواب ہو سکتا ہے اور وہ فطرت انسانی کا عالمگیر اور مسلمہ اذعان ہے۔ ہمارے متکلموں کی نظر اس پہلو پر نہ تھی، اس لیے قرآن کا اسلوب استدلال ان پر واضح نہ ہو سکا اور دور دراز گوشوں میں بھٹک گئے۔

بہرحال قرآن کے وہ بے شمار مقامات جن میں کائنات ہستی کے سروسامان پرورش اور نظام ربوبیت کی کارسازیوں کا ذکر کیا گیا ہے، دراصل اسی استدلال پر مبنی ہیں۔

فَلْيَنظُرِ‌ الْإِنسَانُ إِلَىٰ طَعَامِهِ ﴿٢٤﴾ أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا ﴿٢٥﴾ ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْ‌ضَ شَقًّا ﴿٢٦﴾ فَأَنبَتْنَا فِيهَا حَبًّا ﴿٢٧﴾ وَعِنَبًا وَقَضْبًا ﴿٢٨﴾ وَزَيْتُونًا وَنَخْلًا ﴿٢٩﴾ وَحَدَائِقَ غُلْبًا ﴿٣٠﴾ وَفَاكِهَةً وَأَبًّا ﴿٣١﴾ مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ ﴿٣٢

انسان اپنی غذا پر نظر ڈالے (جو شب و روز اس کے استعمال میں آتی رہتی ہے)۔ ہم پہلے زمین پر پانی برساتے ہیں، پھر اس کی سطح شق کر دیتے ہیں، پھر اس کی روئیدگی سے طرح طرح کی چیزیں پیدا کر دیتے ہیں۔ اناج کے دانے، انگور کی بیلیں، سبزی، ترکاری، زیتون کا تیل، کھجور کے خوشے، درختوں کے جھنڈ، قسم قسم کے میوے، طرح طرح کا چارہ، (اور یہ سب کچھ کس کے لیے لیے؟) تمہارے فائدے کے لیے اور تمہارے جانوروں کے لیے!

ان آیات میں ”فیلنظر الانسان“ کے زور پر غور کرو، انسان کتنا ہی غافل ہو جائے اور کتنا ہی اعراض کرے، لیکن دلائل حقیقت کی وسعت اور ہمہ گیری کا یہ حال ہے کہ کسی حال میں بھی اس سے اوجھل نہیں ہو سکتیں۔ ایک انسان تمام دنیا کی طرف سے آنکھیں بند کر لے، لیکن بہرحال اپنی شبو روز کی غذا کی طرف سے تو آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔ جو غذا اس کے سامنے پڑی ہے اسی پر نظر ڈالے۔ یہ کیا ہے؟ گیہوں کا دانہ ہے۔ اچھا! گیہوں کا ایک دانہ اپنی ہتھیلی پر رکھ لو اور اس کی پیدائش سے لے کر اس کی پختگی اور تکمیل تک تمام احوال و ظروف پر غور کرو۔ کیا یہ حقیر سا ایک دانہ بھی وجود میں آ سکتا تھا اگر تمام کارخانہ ہستی ایک خاص نظام و ترتیب کے ساتھ اس کی بناوٹ میں سرگرم نہ رہتا؟ اور اگر دنیا میں ایک ایسا نظام ربوبیت موجود ہے تو کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ربوبیت رکھنے والی ہستی موجود نہ ہو؟

سورہ نحل میں یہی استدالا ایک دوسرے پیرائے میں نمودار ہوا ہے:

وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَ‌ةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْ‌ثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِ‌بِينَ ﴿٦٦﴾ وَمِن ثَمَرَ‌اتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرً‌ا وَرِ‌زْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿٦٧﴾ وَأَوْحَىٰ رَ‌بُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ‌ وَمِمَّا يَعْرِ‌شُونَ ﴿٦٨﴾ ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَ‌اتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَ‌بِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُ‌جُ مِن بُطُونِهَا شَرَ‌ابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُ‌ونَ ﴿٦٩

اور (دیکھو!) یہ چار پائے (جنہیں تم پالتے ہو) ان میں تمہارے لیے غور کرنے اور نتیجہ نکالنے کی کتنی عبرت ہے! ان کے جسم سے ہم خون و کثافت کے درمیان دودھ پیدا کر دیتے ہیں جو پینے والوں کے لیے بے غل و غش مشروب ہوتا ہے۔ (اسی طرح) کھجور اور انگور کے پھل ہیں جن سے نشہ کا عرق اور اچھی غذا دونوں طرح کی چیزیں حاصل کرتے ہو۔ بلاشبہ اس بات میں ارباب عقل کے لیے (ربوبیت الٰہی کی) بڑی ہی نشانی ہے! اور پھر دیکھو ! تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کی طبیعت میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ٹٹیوں میں جو اس غرض سے بلند کر دی جاتی ہیں، اپنے لیے گھر بنائے، پھر ہر طرح کے پھولوں سے رس چوسے، پھر اپنے پروردگار کے تھہرائے ہوئے طریقوں پر کامل فرمانبرداری کے ساتھ گامزن ہو (چنانچہ تم دیکھتے ہو کہ) اس کے جسم سے مختلف رنگتوں کا رس نکلتا ہے جس میں انسان کے لیے شفا ہے۔ بلاشبہ اس بات میں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں (ربوبیت الہی کی عجائب آفرینیوں کی) بڑی ہی نشانی ہے!

جس طرح اس نے جابجا خلقت سے استدلال کیا ہے؟ یعنی دنیا میں ہر چیز مخلوق ہے، اس لیے ضروری ہے کہ خالق بھی ہو، اسی طرح وہ ربوبیت سے بھی استدلال کرتا ہے، یعنی دنیا میں ہر چیز مربوب ہے، اس لیے ضروری ہے کہ کوئی رب بھی ہو، اور دنیا میں ربوبیت کامل اور بے داغ ہے، اس لیے ضروری ہے کہ وہ رب کامل اور بے عیب ہو۔

زیادہ واضح لفظوں میں اسے یوں ادا کیا جا سکتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں دنیا میں ہر چیز ایسی ہے کہ اسے پرورش کی احتیاج ہے اور اسے پرورش مل رہی ہے، پس ضروری ہے کہ کوئی پرورش کرنے والا بھی موجود ہو۔ یہ پرورش کرنے والا کون ہے؟ یقیناً وہ نہیں ہو سکتا جو خود پروردہ اور محتاج پروردگاری ہو۔ قرآن میں جہاں کہیں اس طرح کے مخاطبات ہیں، جیسا کہ سورہ واقعہ کی مندرجہ ذیل آیت میں ہے، وہ اسی استدالا پر مبنی ہے:

أَفَرَ‌أَيْتُم مَّا تَحْرُ‌ثُونَ ﴿٦٣﴾ أَأَنتُمْ تَزْرَ‌عُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِ‌عُونَ ﴿٦٤﴾ لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ ﴿٦٥﴾ إِنَّا لَمُغْرَ‌مُونَ ﴿٦٦﴾ بَلْ نَحْنُ مَحْرُ‌ومُونَ ﴿٦٧﴾ أَفَرَ‌أَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَ‌بُونَ ﴿٦٨﴾ أَأَنتُمْ أَنزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُونَ ﴿٦٩﴾ لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُ‌ونَ ﴿٧٠﴾ أَفَرَ‌أَيْتُمُ النَّارَ‌ الَّتِي تُورُ‌ونَ ﴿٧١﴾ أَأَنتُمْ أَنشَأْتُمْ شَجَرَ‌تَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنشِئُونَ ﴿٧٢﴾ نَحْنُ جَعَلْنَاهَا تَذْكِرَ‌ةً وَمَتَاعًا لِّلْمُقْوِينَ ﴿٧٣

اچھا! تم نے اس بات پر غور کیا ہے کہ جو کچھ تم کاشت کاری کرتے ہو اسے تم اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا کر دیں اور تم صرف یہ کہنے کے لیے رہ جاؤ کہ افسوس! ہمیں تو اس نقصان کا تاوان ہی دینا پڑے گا بلکہ ہم تو اپنی محنت کےسارے فائدوں ہی سے محروم ہو گئے ، اچھا تم نے یہ بات بھی دیکھی کہ یہ پانی جو تمہارے پینے میں آتا ہے اسے کون برساتا ہے؟ تم برساتے ہو یا ہم برساتے ہیں؟
 
Top