انتخابِ رام ریاض

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

آنکھیں بھی مری بند، مرے ہونٹ بھی لف ہیں
اس پر بھی کئی لوگ یہاں سنگ بکف ہیں

دنیا نے ترا میرا سکوں بانٹ لیا ہے
کچھ تیری حمایت میں ہیں، کچھ میری طرف ہیں
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

لوگ آرام سے کب ہوتے تھے
ہم ترے شہر میں جب ہوتے تھے

یاد کرتا ہوں تو اگلے ساتھی
یوں نظر آتا ہے، اب ہوتے تھے

کوئی روتا تھا، کوئی ہنستا تھا
ہم ہی اک مہر بلب ہوتے تھے
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

دیکھ کے اپنا حال کبھی تو ایسا بھی جی اُمڈا
جیسے سبز گھنے پیڑوں پر بادل ٹوٹ پڑے

آج تو دل کی دھڑکن سے آواز کچھ ایسی آئی
جیسے کوئی پھول کِھلے یا چھالا پھوٹ پڑے
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

جلتے دنوں میں جب بھی تری یاد آ گئی
ٹھنڈی ہوا چلی، کبھی بدلی سی چھا گئی

شامِ الم کے بعد ہمیں کچھ خبر نہیں
ہم جاگتے رہے کہ ہمیں نیند آ گئی

شہروں میں ہم کہاں ترے بس کے تھے اے اجل!
صحرا نگل گیا، ہمیں تنہائی کھا گئی
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

اس طرح بیٹھ رہے ہو خاموش
ساتھیو! یہ بھی کوئی بات ہوئی

تم اگر ایسے مجھے بھول گئے
گویا پھر میں نہ ہوا، بات ہوئی
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

دریا کی زندگی بھی گزارے کی رہ گئی
اب صرف ایک آس کنارے کی رہ گئی

جانے کہاں گروں تری باہوں کو چھوڑ کر
یہ پینگ ایک آدھ ہلارے کی رہ گئی
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

تجھ سا آئینہ کوئی پھر نہ ملا
دیکھ لیتے کبھی صورت اپنی

اتنے نزدیک نہ آنا یارو
اتنی اچھی نہیں حالت اپنی
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

سب اعتراض اُسے شیوہء وفا پر تھا
کہ اُس نے چھوڑ دیا، اختیار ہم نے کیا

سوائے صبر، ہمارے کچھ اور بس میں نہ تھا
سو جتنا ہو سکا، پروردگار! ہم نے کیا

رفاقتوں کا ہمارا وسیع تجربہ ہے
کہ ایک عمر یہی کاروبار ہم نے کیا

کہاں تھی پہلے ترے رُخ پہ سرخیِ تحریر
نگار تھا، تجھے جادو نگار ہم نے کیا

جو بات بیٹھ گئی رام دل میں بیٹھ گئی
نہیں گئی، اسے رخصت ہزار ہم نے کیا
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

میرا دریاؤں پر اجرہ نہیں
سارے اپنی خوشی سے اُترے ہیں

دن نکلنے میں رام وقفہ ہے
کئی چہرے ابھی سے اُترے ہیں
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

کسی کے بارے میں پھر سوچنا ہی چھوڑ دیا
کہ جب بھی سوچا ہےمیں نے، عجب ہی سوچا ہے
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

لوگوں کے ڈرے ہو تو مرے ساتھ چلے آؤ
اس راستے میں کوئی مکاں تک نہیں آتا

اس ضد پہ ترا ظلم گوارا کیا ہم نے
دیکھیں کہ تجھے رحم کہاں تک نہیں آتا

ایک ایک ستارہ مری آواز پہ بولا
میں اتنی بلندی سے وہاں تک نہیں آتا
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

اپنا بھی ہے دور کا رشتہ درباری نسلوں سے
ہم نے بھی غداری کی ہے اور انعام لیا ہے
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

شورِ محشر سے پتہ چلتا ہے
آدمی مہر بلب بھی ہو گا

رات بھر جاگنے والے ہو، تمہیں
کچھ تو اندازہء شب بھی ہو گا
 
Top