نوید صادق

محفلین
حرارہ جب مرا داغِ جنوں لاتا ہے صحرا میں
بگولے ڈھونڈتے پھرتے ہیں سایہ بیدِ مجنوں کا

میں شاعر ہوں مرا اے جان اس پر دم نکلتا ہے
بہت اعلیٰ ہے یہ مصرع تمہارے قدِ موزوں کا

فقیرِ مست ہیں ہر وقت کیفیت میں رہتے ہیں
کبھی طرہ ہے سبزے کا، کبھی گولا ہے افیوں کا

ملایا خاک میں گردوں میں کس کس نام آور کو
نشاں ملتا نہیں ہے قبرِ جمشید و فریدوں کا
 

نوید صادق

محفلین
اے صبا جذب پہ جس دم دلِ ناشاد آیا
اپنی آغوش میں اڑ کر وہ پری زاد آیا

چشمِ موسیٰ ہمہ تن بن گیا میں حیرت سے
دیکھا اک بت کا وہ عالم کہ خدا یاد آیا

عاشقوں سے نہ رہا کوئی زمانہ خالی
کبھی وامق، کبھی مجنوں ، کبھی فرہاد آیا

دل میں اک درد اُٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے
بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانئے کیا یاد آیا

بیتِ ہستی کے صبا ہو گئے معنی روشن
خواجہ آتش سا زمانے میں جو استاد آیا
 

نوید صادق

محفلین
اہلِ دولت سے کوئی نزع میں اتنا پوچھے
ساتھ کیا کیا لیا اس وقت میں، چھوڑا کیا کیا

سوزشِ دل سے ہے اُف اُف شبِ تنہائی میں
ہائے رہ رہ کے ٹپکتا ہے یہ پھوڑا کیا کیا

کیسا کیسا نہ کیا آ کے خزاں نے برباد
زرِ گل کا نہ ہوا باغ میں توڑا کیا کیا

مر گئے پر نہ دیا ان کو کفن گردوں نے
زندگی میں جو پہنتے رہے جوڑا کیا کیا

کیوں نہ ہو جائیں زمانے میں ہزاروں دریا
ہم نے رو رو کے ہے دامن کو نچوڑا کیا کیا

میکدے میں جو مجھے لے گئ قسمت بے یار
خشتِ خم سے سرِ شوریدہ کو پھوڑا کیا کیا

شرم سے سر نہ اٹھایا ترے رخ کے آگے
باغ میں گل کو صبا نے بھی جھنجھوڑا کیا کیا

دل کو برماتا ہوا صاف جگر سے گذرا
ایک تیرِ نگہِ یار نے توڑا کیا کیا

حلق زاہد کا جو روزے میں بہت خشک ہوا
دامنِ تر مرا لے لے کے نچوڑا کیا کیا

بارہا روحِ سکندر کو دئے ہیں صدمے
آئنے سے بھی ہے منہ یار نے موڑا کیا کیا

ہاتھ عنابِ لب و سیبِ ذقن تک پہنچا
ہم نے میوہ چمنِ حسن سے توڑا کیا کیا

اُس کے چھلے کو انگوٹھی سے نہ بدلا ہم نے
ہاتھ رکھ رکھ کے سلیماں نے مروڑا کیا کیا
 

نوید صادق

محفلین
آیا جو موسمِ گل تو یہ حساب ہو گا
ہم ہوں گے، یار ہو گا، جامِ شراب ہو گا

نالوں سے اپنے اک دن وہ انقلاب ہو گا
دم بھر میں آسماں کا عالم خراب ہو گا

دکھلائیں گے تجھے ہم داغِ جگر کا عالم
منہ اس طرف کبھی تو اے آفتاب ہو گا

اے زاہدِ ریائی دیکھی نماز تیری
نیت اگر یہی ہے تو کیا ثواب ہو گا

وہ ردِ خلق ہوں میں گر ڈوب کر مروں گا
مُردا مرا وبالِ دوشِ حباب ہو گا

وہ مست ہیں، ادھر تو رکھتے نہیں ہیں ساغر
مغرب سے ہاں نمایاں جب آفتاب ہو گا

اے زود رنج تجھ پر جو لوگ جان دیں گے
رہ رہ کے تربتوں میں ان پر عذاب ہو گا

تو نقدِ دل کو لے کر مُکرا تو ہے، ٹھہر جا
روزِ حساب، میرے تیرے حساب ہو گا

اللہ رے ان کا غصہ، اتنا نہیں سمجھتے
کیوں کر کوئی جئے گا، جب یوں عتاب ہو گا

داغِ جگر کو لے کر جائیں گے ہم جو اے دل
جنت میں حوریوں کو رہنا عذاب ہو گا

اے چرخِ پیر اب تو یہ حال ہے ستم کا
کیا ہو گا، جن دنوں میں تیرا شباب ہو گا

سر گشتگی میں میرا کیا ساتھ دے سکے گا
اے آسماں ٹھہر جا، ناحق خراب ہو گا

لکھے کی کیا خبر تھی، یہ کون جانتا تھا
لیلیٰ کے ساتھ پڑھ کر مجنوں خراب ہو گا
 

نوید صادق

محفلین
اُن کی رفتار سے دل کا عجب احوال ہوا
رندھ گیا، پس گیا، مٹی ہوا، پامال ہوا

دولتِ فقر ہو اے منعمو اور کملی ہو
فخر کیا ہے جو دوشالہ ہوا، رومال ہوا
 

نوید صادق

محفلین
جب رکاوٹ ہوئی آپس میں تو ہم رندوں نے
دستِ ساقی، طرفِ گردنِ مینا، کھینچا

کھینچی تصویر مصور نے جو مجھ گریاں کی
چشمِ پرآب کا نقشہ لبِ دریا کھینچا

کس قدر بزم میں اغیار سے مل کر بیٹھے
کیا شکنجے میں مجھے آپ نے بے جا کھینچا
 

نوید صادق

محفلین
عدوئے جاں بتِ بیباک نکلا
بڑا قاتل، بڑا سفاک نکلا

محبت سے کھلا، حالِ زمانہ
یہ دل لوحِ طلسمِ خاک نکلا

جنوں میں باغِ عالم کو جو دیکھا
عجب صحرائے وحشت ناک نکلا

ہماری سادہ لوحی کام آئی
حسابِ روزِ محشر پاک نکلا

بھرے لڑکوں نے دامن پتھروں سے
جہاں تیرا گریباں چاک نکلا

صبا! ہم حشر میں مجرم جو نکلے
شفاعت کو شہہِ لولاک نکلا
 

نوید صادق

محفلین
دیکھ کر اس بت کو سکتا ہو گیا
میں، بہت محوِ تماشا ہو گیا

دے دیا دل یار کو، مٹی کے مول
مفت، اس یوسف کا، سودا ہو گیا

ٹاٹ کا ٹکڑا لباسِ فقر میں
قاقم و سنجاب و دیبا ہو گیا

دید کے قابل مری حیرت ہوئی
یار بھی محوِ تماشا ہو گیا

چاندنی کی سیر، اور غیروں کے ساتھ
اے قمر! یہ کیا طریقا ہو گیا

کھینچ کر تصویر روئے یار کی
اور ہی مانی کا نقشا ہو گیا

روتے روتے چشم نابینا ہوئی
یہ کنواں ٹوٹا تو اندھا ہو گیا

ضعف کے بڑھنے سے ہم کو اے جنوں
خانہء زنجیر صحرا ہو گیا

جائے عبرت ہے جہانِ بے ثبات
دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا
 

نوید صادق

محفلین
ہم نے تارِ نظرِ دیدہء وحدت بیں سے
کلیہ یہ ہے کہ شیرازہء اجزا باندھا

مجھ سے لاغر کو بنایا ہدفِ تیرِ نگاہ
یار نے بال سے باریک نشانا باندھا

جامہء یار کی پائی نہ صبا نے خوشبو
بقچہء غنچہ و گل، باغ میں کھولا، باندھا
 

نوید صادق

محفلین
یہ ہے نشان عشقِ کدورت مآل کا
تربت ہماری ڈھیر ہے گردِ ملال کا

عاشق ہزاروں یوں تو ہوئے صاد چشم کے
چہرہ مگر بحال رہا، خال خال کا

جمشید اپنے وقت کا ہوں، میں فقیرِ مست
جامِ جہاں نما ہے پیالہ سفال کا

آتی ہے کس کو نیند مری آنکھیں کھل گئیں
سن کر فسانہ یار کے حسن و جمال کا

مجھ مست کے ہیں حال پہ کیا کیا عنایتیں
ساقی کا میں غلام ہوں، بندہ کلال کا

شبنم جو گرتی ہے تو اٹھاتا ہے آفتاب
پُرساں نہیں وہ عاشقِ گریاں کے حال کا

میری فروتنی، مجھے معراج ہو گئ
حاصل ہوا زوال میں رتبہ کمال کا
 

نوید صادق

محفلین
عشق کا غم نہ گیا، حسن کا غمزہ نہ گیا
میرا رونا نہ گیا، آپ کا ہنسنا نہ گیا

کوئے جاناں میں رکھی ضعف نے ثابت قدمی
مثلِ نقشِ کفِ پا بیٹھ کے اٹھا نہ گیا

صحبت مے نہ رہی، عشرتِ وصلت نہ رہی
پاس سے یار گیا، ہاتھ سے پیمانہ گیا
 

نوید صادق

محفلین
قلقلِ شیشہ ہے، بلبل کی صدا سے پیدا
نشہ ہوتا ہے، گلستاں کی ہوا سے پیدا

گردِ غم ہے، سببِ حرص و ہوا سے پیدا
آندھیاں ہوتی ہیں، تحریکِ ہوا سے پیدا

سرخ پوشاک اتار اپنی گلے سے قاتل
خون ہوتا ہے، مزارِ شہدا سے پیدا

بار الفت کا سنبھالا نہیں جاتا مجھ سے
سرگرانی ہے مری لغزشِ پا سے پیدا

دہنِ یار کا مضمون نکالا ہم نے
واہ کیا بات ہوئی فکرِ رسا سے پیدا
 

نوید صادق

محفلین
گھر سے وحشت میں جو میں چاک گریباں نکلا
کوہ فرہاد سے، مجنوں سے بیاباں نکلا

میرے اشعار سے مضمونِ رُخِ یار کھلا
بے احادیث، نہیں مطلبِ قرآں نکلا

ڈھیر پھولوں کے چڑھے عاشقوں کی قبروں پر
جانبِ گورِ غریباں، جو وہ خنداں نکلا
 

نوید صادق

محفلین
عازمِ دشتِ جنوں ہو کے میں گھر سے اُٹھا
پھر بہار آئی، قدم پھر نئے سر سے اُٹھا

عمر بھر دل نہ مرا یار کے گھر سے اٹھا
بیٹھا دیوار کے نیچے جو میں در سے اٹھا

ہم نشیں ملکِ عدم کو گئے میلے کی طرح
جا کے پہنچا وہیں جو یار ادھر سے اٹھا
 

نوید صادق

محفلین
بچ کر کہاں میں ان کی نظر سے نکل گیا
اک تیر تھا کہ صاف جگر سے نکل گیا

خود رفتگی سے چشمِ حقیقت جو وا ہوئی
دروازہ کھل گیا تو میں گھر سے نکل گیا

رونے سے ہجرِ یار میں تسکین ہو گئ
دل کا بخار، دیدہء تر سے نکل گیا

جوبن سے ڈھل چلے ہیں کہاں اب لٹک کی چال
وہ پیچ، ان کے موئے کمر سے، نکل گیا
 

نوید صادق

محفلین
سرکش کوئی ہو کر کبھی برپا نہیں ہوتا
انجام برے کام کا اچھا نہیں ہوتا

معدوم ہوئے جاتے ہیں ہم فکر کے مارے
مضموں کمرِ یار کا پیدا نہیں ہوتا

گردش سے زمانہ کبھی خالی نہیں رہتا
کس دن تہہ و بالا یہ ہنڈولا نہیں ہوتا

کس طرح سے، ہم جان فدا کرتے ہیں تم پر
یہ دل نہیں ہوتا، یہ کلیجا نہیں ہوتا
 

نوید صادق

محفلین
دیکھئے آج وہ تشریف کہاں فرمائیں؟
ہم سے وعدہ ہے جدا، غیر سے اقرار جدا

ساتھ چھوڑوں میں تمہارا، یہ نہیں ممکن ہے
خیر مانگو، کہیں ہوتے ہیں وفادار جدا؟
 

نوید صادق

محفلین
غیر سے ہنستا ہے جاناں میرا
دیو سے خوش ہے سلیماں میرا

کون ہو جامہ دری کا مانع؟
ہاتھ میرا ہے، گریباں میرا

کیا بنایا ہے بتوں نے مجھ کو
نام رکھا ہے "مسلماں" میرا

بوسہ دے کر وہ صبا کہتی ہے
" یاد رکھئے گا یہ احساں میرا "
 
Top