نوید صادق

محفلین
شام سے حال عجب تا بہ سحر ہم نے کیا
کس خرابی سے شبِ غم کو بسر ہم نے کیا

تپشِ عشق سے گھر دل میں کیا اس بت کے
آگ کی طرح سے پتھر میں گذر ہم نے کیا
 

نوید صادق

محفلین
داغ لالے کو چمن میں دئے کیسے کیسے
شمع کو اس جلایا سرِ محفل کیا کیا

اے صبا جامہ دری دیکھنے کو مجنوں کی
چاک لیلیٰ نے کیا پردہء محمل کیا کیا
 

نوید صادق

محفلین
گہ آئینہ ہوا، گہ دیدہء پُر آب گھٹا
کبھی بڑھا کبھی دریائے اضطراب گھٹا

عزیز آئے نہ رونے کو میری تربت پر
بہا کے اشک ہوئی داخلِ ثواب گھٹا

تمہاری زلف نہ گردابِ ناف تک پہنچی
ہوئی نہ چشمہء حیواں سے فیض یاب گھٹا

فراقِ یار میں بے کار سب ہیں اے ساقی
پیالہ، شیشہ، گزک، میکدہ، شراب، گھٹا

کسی کو منہ تہہِ زلفِ سیاہ یاد آیا
کبھی جو آ گئ بالائے آفتاب گھٹا

تری کمر کی لچک پر تڑپتی ہے بجلی
ہوائے زلف میں کھاتی ہے پیچ و تاب گھٹا
 

نوید صادق

محفلین
کسی نے معرکہء عشق میں نہ ساتھ دیا
ہمارا سایہ رہا ہم سے تیر بھر بھٹکا

بغیرِ یار ہے پینا حرام اے ساقی
لنڈھا دے مار کے ٹھوکر شراب کا مٹکا

شرابِ عشق کدورت مآل ہوتی ہے
اخیر دور میں چلتا ہے جام تلچھٹ کا
 

نوید صادق

محفلین
جلوہ ہے ہر اک رنگ میں اے یار تمہارا
اک نور ہے کیا مختلف آثار تمہارا

ہوتا نہ یہ بندہ جو خریدار تمہارا
رونق نہ پکڑتا کبھی بازار تمہارا

اے منعمو! سامانِ سواری پہ نہ بھولو
اڑ جائے گا اک روز ہوادار تمہارا

تم قتل کرو گے جو مجھے تیغِ نگہ سے
منہ دیکھ کے رہ جائے گی تلوار تمہارا

بوسے لبِ شیریں کے عنایت نہیں ہوتے
پرہیز میں مر جائے گا بیمار تمہارا
 

نوید صادق

محفلین
فصلِ گل میں ہاتھ سے جاتا رہا اپنا مزاج
جوشِ سودا باعثِ بے اعتدالی ہو گیا

برطرف غم کر دیا دکھلا کے اس نے "صاد چشم"
چہرہء عشاق کو حکمِ بحالی ہو گیا
 

نوید صادق

محفلین
ہوائے یار میں کیا دل کو اضطراب رہا
چکور چاند کی خاطر بہت خراب رہا

ہمیشہ کوششِ دنیا میں اضطراب رہا
بہت خراب دلِ خانماں خراب رہا

نہ برشگال میں جب تک شراب پلوا لی
بلا کی طرح سے سر پر مرے سحاب رہا

ہم اپنے حال پہ روتے ہیں اب ضعیفی میں
خوشا وہ عہد کہ طفلی رہی، شباب رہا

وہ بادہ نوش تھے پیری میں بھی نہ توبہ کی
شراب خُم میں رہی، شیشی میں خضاب رہا

ہر اک مقام پہ نشوونما رہی دل کی
چمن میں پھول رہا، بحر میں حباب رہا

خط آ گیا ، نہ رہا عشقِ مصحفِ رخِ یار
نہ وہ کتاب رہی اور نہ وہ حساب رہا

ہمیشہ قلزمِ ہستی میں صورتیں بدلیں
کبھی تو موج رہا اور کبھی حباب رہا

یہ وہ فلک ہے کہ جس کے سبب سے عالم میں
نہ ایک حال پہ دو روز ماہتاب رہا

خوشی وہ کون سی دی جس کے بعد غم نہ دیا
ہمیشہ سر پہ فلک بر سرِ حساب رہا

کمند لے کے وہیں موج ہو گئ موجود
جہاں ذرا سر اٹھائے ہوئے حباب رہا

برنگِ موجِ ہوا اے صبا ہوئے تھے خلق
رہے جہان میں جس دم تک اضطراب رہا
 

نوید صادق

محفلین
کیوں ان کی چال دیکھی جو یہ حال ہو گیا
میں آپ اہنے ہاتھ سے پامال ہو گیا

کچھ قیس سے بھی بڑھ کے مرا حال ہو گیا
کس قہر کا جنوں مجھے امسال ہو گیا

میں بدنصیب، غیر خوش اقبال ہو گیا
یہ آپ کے مزاج کا کیا حال ہو گیا

دریا بہا مرے عرقِ انفعال کا
کاغز کی ناؤ نامہء اعمال ہو گیا

ہم پِس گئے خرام پہ تو یار نے کہا
پاپوش سے اگر کوئی پامال ہو گیا

مجھ سے فضول خرچ کے ہتھے جو چڑھ گیا
دو دن میں آسمان بھی کنگال ہو گیا
 

نوید صادق

محفلین
نیا سوانگ لائے ہیں عشقِ صنم میں
ذرا کوئی دیکھے تماشا ہمارا

نکل جائے گی سب کجی آسماں کی
کبھی تو پھرے گا زمانا ہمارا

دلایا گیا فاتحہ جامِ مے پر
ہوا میکدے میں پیالا ہمارا

شبِ ہجر میں عرش تک ہل رہا ہے
بہت دور جاتا ہے نالا ہمارا

ترے ہاتھ سے واشدِ دل نہ ہو گی
کھلے گا نہ تجھ سے معما ہمارا

کدورت نہیں اپنی طبعِ رواں میں
بہت صاف بہتا ہے دریا ہمارا
 

نوید صادق

محفلین
واعظ کے، میں ضرور ڈرانے سے ڈر گیا
جامِ شراب لائے بھی، ساقی کدھر گیا

بلبل کہاں، بہار کہاں، باغباں کہاں
وہ دن گذر گئے، وہ زمانہ گذر گیا

جھوٹوں کا بادشاہ کہوں، اے صنم تجھے
یہ حال ہے کہ بات کہی اور مکر گیا

ایسی کفن کی قطع پسند آ گئ ہمیں
دل سے ہمارے جامہء ہستی اتر گیا

صورت ہمارے دیدہء حیراں کی دیکھ کر
آئینہ صاف ان کی نظر سے اتر گیا

اچھا ہوا جو ہو گئے وحدت پرست ہم
فتنہ گیا، فساد گیا، شور و شر گیا

کعبے کی سمت سجدہ کیا دل کو چھوڑ کر
تو کس طرف تھا، دھیان ہمارا کدھر گیا

مثلِ حباب بحرِ جہاں میں نہ دم لیا
اک موج تھا کہ میں اِدھر آیا، اُدھر گیا

پھر سیرِ لالہ زار کو ہم اے صبا چلے
آئی بہار، داغِ جنوں پھر ابھر گیا
 

نوید صادق

محفلین
بندہ کسی کی یاد میں جب چشم تر ہوا
گردوں کے ڈوبنے کا فرشتوں کا ڈر ہوا

پیدا ہوئے ہیں ہم مئے عرفاں کے واسطے
اس آفتاب کے لئے دورِ قمر ہوا

جنسِ وفا کی بو نہیں بازارِ دہر میں
بے وقت اپنا اس گذری میں گذر ہوا

آغازِ عشق ہی میں ہمیں موت آ گئ
آگاہ بھی نہ حال سے وہ بے خبر ہوا

نوعِ دگر کروں گا میں قشہ جہان کا
اب کے عدم کی سمت سے آنا اگر ہوا
 

نوید صادق

محفلین
کون ہو گا جو نہ محوِ رُخِ زیبا ہو گا؟
سیر کو آپ جو نکلیں گی، تماشا ہو گا

کشتئ مے کی طرف دیکھ رہا ہے ساقی
لہر آئی ہے تو خیمہ لبِ دریا ہو گا

اے جنوں! بن گئیں پاؤں کی رگیں، زنجیریں
میں وہ لاغر ہوں کہ مجنوں بھی توانا ہو گا

دیکھ پچھتائے گا تو ، کیوں مجھے تڑپاتا ہے
آفت آئے گی، زمانہ تہہ و بالا ہو گا
 

نوید صادق

محفلین
بزمِ جہاں سے، عیش ہمارا، اُٹھا لیا
کیا قہر ہے، ہمیں نہ خدایا! اٹھا لیا؟

وہ مست ہیں، کہ مار لیا آسمان کو
جب ہاتھ میں، شراب کا شیشا اٹھا لیا

میرے جنوں کا حال جو لیلیٰ نے کہہ دیا
مجنوں نے دشت سے، عمل اپنا اٹھا لیا

آمد سنی جو باغ میں، اس بادہ خوار کی
گل نے پیالہ، سرو نے مینا، اٹھا لیا

روزِ ازل کھلا جو کتب خانہء بہار
سوسن نے دس ورق کا رسالا، اٹھا لیا

اب تو وفا کہیں بھی نہیں ہے جہان میں
وہ حرف اس ورق سے خدایا! اٹھا لیا؟

برباد جھونپڑا جو ہوا، مجھ غریب کا
اپنا بھی آسمان نے خیمہ اٹھا لیا

اب بھی کہو کہ خاک کشش عشق میں نہیں
کیوں بزمِ غیر سے تمہیں، کیسا اٹھا لیا؟

وہ رند ہیں ازل کو جو ہر شے نظر پڑی
ہم نے جھپٹ کے ساغرِ صہبا اٹھا لیا
 

نوید صادق

محفلین
آئی اے گلعذار کیا کہنا
خوب آئی بہار کیا کہنا

سختئ عشق جھیل لی، اے دل
واہ رے بردبار، کیا کہنا

یوں تو جو گُل ہے، خوب ہے لیکن
تیرا اے گل عذار ، کیا کہنا
 

نوید صادق

محفلین
نزع میں ہیں، نہ ادھر آئیے گا
ابھی کچھ سِن نہیں، ڈر جائیے گا

ساتھ چھوڑیں گے نہ سائے کی طرح
ہم بھی جائیں گے، جدھر جائیے گا

بے تکلف ہے، ملاقات کا لطف
کبھی تکلیف نہ فرمائیے گا

آپ کو غیر، بہت دیکھتے ہیں
ایک دن دیکھئیے، پچھتائیے گا

اے صبا، کوئی ہو، کعبہ ہو کہ دیر
دل جدھر جائے، اُدھر جائیے گا
 

نوید صادق

محفلین
لاکھ ہو وصل کا وعدہ، لیکن
وقت پر صاف نکل جائیے گا

کیا کیا عشق نے، کیوں حضرتِ دل؟
ہم نہ کہتے تھے کہ پچھتائیے گا

آپ چلتے تو ہیں اٹھکھیلیوں سے
کوئی آفت نہ کہیں لائیے گا
 

نوید صادق

محفلین
دل صاف ہوا، آئینہ رو نظر آیا
سب کچھ نظر آیا جو ہمیں تو نظر آیا

افعئ بلا یار کا گیسو، نظر آیا
آنکھوں میں جگایا ہوا جادو نظر آیا

گلشن میں، نہ جب ساقئ دلجو، نظر آیا
سروِ لبِ جو، آہ لبِ جو نظر آیا

حوروں کی طرف لاکھ ہو زاہد کی توجہ
کھل جائیں گی آنکھیں جو کبھی تو نظر آیا

چکرائیں گے افلاک، بہت ہم فقرا سے
جس دم اثرِ نعرہء "یا ہو" نظر آیا

اک خالِ سیہ بھی تری آنکھوں کے قریں ہے
اچھی رہی، ترکوں میں بھی ہندو نظر آیا

مر جائیں گے گھبرا کے، تری زلف کے وحشی
سودے میں، اگر فرق سرِ مو، نظر آیا

میکش مجھے ساقی کے نظارے نے بنایا
بجلی سی کمر، ابر سا گیسو، نظر آیا
 
Top