گہ آئینہ ہوا، گہ دیدہء پُر آب گھٹا
کبھی بڑھا کبھی دریائے اضطراب گھٹا
عزیز آئے نہ رونے کو میری تربت پر
بہا کے اشک ہوئی داخلِ ثواب گھٹا
تمہاری زلف نہ گردابِ ناف تک پہنچی
ہوئی نہ چشمہء حیواں سے فیض یاب گھٹا
فراقِ یار میں بے کار سب ہیں اے ساقی
پیالہ، شیشہ، گزک، میکدہ، شراب، گھٹا
کسی کو منہ تہہِ زلفِ سیاہ یاد آیا
کبھی جو آ گئ بالائے آفتاب گھٹا
تری کمر کی لچک پر تڑپتی ہے بجلی
ہوائے زلف میں کھاتی ہے پیچ و تاب گھٹا