انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

198

ش

ہر جز و مد سے دست وبغل اُٹھتےہیں خروش
کس کا ہے راز بحر میں یارب کہ یے ہیں جوش

ابروے کج ہے موج، کوئی چشم ہے حباب
موتی کسی کی بات ہے، سیپی کسی کا گوش

ان مغ بچوں کے کُوچے ہی سے میں کیا سلام
کیا مجھ کو طوفِ کعبہ سے، میں رندِ دُرد نوش

حیرت سے ہووے پرتوِ مہ نور آئنہ
تو چاندنی میں نکلے اگر ہو سفید پوش

(ق)

کل ہم نے سیرِ باغ میں دل ہاتھ سے دیا
اک سادہ گُل فروش کا آکر سبد بدوش

جاتا رہا نگاہ سے جوں موسمِ بہار
آج اُس بغیر داغِ جگر ہیں سیاہ پوش

(ق)

شب اس دلِ گرفتہ کو وا کر بہ زورِ مے
بیٹھے تھے شیرہ خانے میں ہم کتنے ہرزہ کوش

آئی صدا کہ یار کرو دورِ رفتہ کو
عبرت بھی ہے ضرور ٹک اے جمع تیز ہوش

جمشید جس نے وضع کیا جام ، کیا ہوا
وے صحبتیں کہاں گئیں، کیدھر وے ناونوش

جُز لالہ اِس کے جام سے پاتے نہیں نشاں
ہے کوکنار اس کی جگہ اب سبو بدوش

جھومے ہے بید جائے جوانانِ مے گسار
بالائے خم ہے خشت سرِ پیرِ مے فروش

میر اس غزل کو خوب کہا تھا ضمیر نے
پر اے زباں دراز بہت ہوچکی ، خموش!

 
ط

سب سے آئینہ نمط رکھتے ہیں خوباں اختلاط
ہوتے ہیں یہ لوگ بھی کتنے پریشاں اختلاط

تنگ آگیا ہوں میں رشکِ تنگ پوشی سے تری
اس تنِ نازک سے یہ جامے کو چسپاں اختلاط​
 
203

غ

ہم اور تیری گلی سے سفر، دروغ دروغ
کہاں دماغ ہمیں اس قدر، دروغ دروغ

تم اور ہم سے محبت تمہیں، خلاف خلاف
ہم اور اُلفتِ خوبِ دگر، دروغ دروغ

غلط غلط کہ رہیں تم سے ہم تنک غافل
تم اور پوچھو ہماری خبر، دروغ دروغ

فروغ کچھ نہیں دعوے کو صبحِ صادق کے
شبِ فراق کو کب ہے سَحر ، دروغ دروغ

کسو کے کہنے سے مت بدگماں ہو میر سے تُو
وہ اور اُس کو کسو پر نظر، دروغ دروغ​
 
ف

آج کل کاہے کو بتلاتے ہو گستاخی معاف
راستی یہ ہے کہ وعدے ہیں تمہارے سب خلاف

شیخ مت رُوکش ہو مستوں کا تو اس جبے اُوپر
لیتے استنجے کا ڈھیلا تیری ٹل جاتی ہے ناف​
 
106

کن نے لیا ہے تم سے مچلکہ کہ داد دو
ٹک کان ہی رکھا کرو فریاد کر طرف

ہم نے پرفشانی نہ جانی کہ ایک بار
پرواز کی چمن سے، سو صیاد کی طرف

حیران کارِ عشق ہے شیریں کا نقش میر
کچھ یوں ہی دیکھتا نہیں فرہاد کی طرف​
 
107

جو دیکھو مرے شعرِ تر کی طرف
تو مائل نہ ہو پھر گہر کی طرف

کوئی دادِ دل آہ کس سے کرے
ہر اک ہے سو اُس فتنہ گر کی طرف

محبت نے شاید کہ دی دل میں آگ
دھواں سا ہے کچھ اس نگر کی طرف

لگی ہیں ہزاروں ہی آنکھیں اُدھر
اک آشوب ہے اُس کے گھر کی طرف

بہت رنگ ملتا ہے دیکھو کبھو
ہماری طرف سے سَحر کی طرف

کسے منزلِ دل کشِ دہر میں
نہیں میلِ خاطر سفر کی طرف​
 
ق
درد ہی خود ہے، خود دوا ہے عشق
شیخ کیا جانے تُو کہ کیا ہے عشق

تو نہ ہووے تو نظمِ کُل اٹھ جائے
سچے ہیں شاعراں، خدا ہے عشق​
 
109

ک
آسودگی جو چاہے تُو مرنے پہ دل کو رکھ
آشفتگیِ طبع بہت کم ہے زیرِ خاک

کیا آسماں پہ کھینچے کوئی میر آپ کو
جانا جہاں سے سب مُسلم ہے زیرِ خاک​
 
110

اب وہ نہیں کہ شورش رہتی تھی آسماں تک
آشوبِ نالہ اب تو پہنچا ہے لامکاں تک

تصویر کی سی شمعیں خاموشی جلتے ہیں ہم
سوزِ دروں ہمارا آتا نہیں زباں تک

روتے پھریں ہیں لوہو، اک عمر اس گلی میں
باغ و بہار ہی ہے جاوے نظر جہاں تک

بے لطف تیرے کیوں کر تجھ تک پہنچ سکیں ہم
ہیں سنگِ راہ اپنے کتنے یہاں سے واں تک

مانند طیرِ نو پر، اُٹھے جہاں گئے ہم
دشوار ہے ہمارا آنا پھر آشیاں تک

تن کام میں ہمارے دیتا نہیں وہی کچھ
حاضر ہیں میر ہم کو اپنی طرف سے جاں تک​
 
111

کب سے متحمل ہے جفاؤں کا دلِ راز
زنہار وفا ہو نہ سکی یار سے اب تک

وعدہ بھی قیامت کا بھلا کوئی ہے وعدہ
پر دل نہیں خالی غمِ دیدار سے اب تک

مدت ہوئی گھُٹ گھُٹ کے ہمیں شہر میں مرتے
واقف نہ ہوا کوئی اس اسرار سے اب تک

برسوں ہوئے دل سوختہ بلبل کو موئے لیک
اک درد سا اُٹھتا ہے چمن زار سے اب تک

کیا جانیے ہوتے ہیں سخن لطف کے کیسے
پوچھا نہیں اُن نے تو ہمیں پیار سے اب تک

اب باغ میں اغلب ہے کہ سرزد نہ ہوا ہو
یوں نالہ کسو مرغِ گرفتار سے اب تک
 
212

میر گم کردہ چمن زمزمہ پرواز ہے ایک
جس کی لَے دام سے تاگوش گل آواز ہے ایک

کچھ ہو اے مرغِ فقس، لطف نہ جاوے اُس سے
نوحہ یا نالہ، ہراک بات کا اندازہ ہے ایک

ناتوانی سے نہیں بال فشانی کا دماغ
ورنہ تا باغ قفس سے مری پرواز ہے ایک

گوش کو ہوش کے ٹک کھول کے سن شورِ جہاں
سب کی آواز کے پردے میں سخن ساز ہے ایک

چاہے جس شکل سے تمثال صفت اُس میں درآ
عالم آئینے کے مانند درِ باز ہے ایک​
 
213

بالیں پہ میری آوے گا تُو گھر سے جب تلک
کرجاؤں گا سفر میں دنیا سے تب تلک

اتنا دن اور دل سے تپش کرلے کاوشیں
یہ مجہلہ تمام ہی ہے آج شب تلک

نقاش کیوں کے کھینچ چکا تو شبیہہِ یار
کھنیچوں ہوں ایک ناز ہی اُس کا میں اب تلک​
 
214

شوق ہے، تو ہے اُس کا گھر نزدیک
دوریِ رہ ہے راہبر نزدیک

آہ کرنے میں دم کو سادھے رہ
کہتے ہیں دل سے ہے جگر نزدیک

دُور اب بیٹھتے ہیں مجلس میں
ہم جو تم سے تھے بیش تر نزدیک

خبر آتی ہے سو بھی دُور سے یاں
آؤ یک بار بے خبر نزدیک

دُور پھرنے کا ہم سے وقت گیا
پوچھ کچھ حال بیٹھ کر نزدیک

مر بھی رہ میر، شب بہت رویا
ہے مری جان، اب سَحر نزدیک​
 
215

کچھ اپنی آنکھ میں یاں کا نہ آیا
خَزَف سے لے کے دیکھا دُرِ تر تک

جسے شب آگ سا دیکھا سلگتے
اُسے پھر خاک ہی پایا سحَر تک

گلی تک تیری لایا تھا ہمیں شوق
کہاں طاقت کہ اب پھر جائیں گھر تک

دکھائی دیں گے ہم میت کے رنگوں
اگر رہ جائیں گے جیتے ، سَحر تک

کہاں پھر شور و شیون جب گیا میر
یہ ہنگامہ ہے اُس ہی نوحہ گر تک​
 
216

دست و پا مارے وقتِ بسمل تک
ہاتھ پہنچا نہ پائے قاتل تک

کعبے پہنچا تو کیا ہوا اے شیخ!
سعی کر ٹک پہنچ کس دل ٹک

نہ گیا میر اپنی کشتی سے
ایک بھی تختہ پارہ ساحل تک​
 
217

شاید کہ دیوے رخصتِ گلشن ہو بے قرار
میرے قفس کو لے تو چلو باغباں تلک

قیدِ قفس سے چُھوٹ کے دیکھا جلا ہوا
پہنچے نہ ہوتے کاش کے ہم آشیاں تلک

میں ترکِ عشقکرکے ہوا گوشہ گیر میر
ہوتا پھروں خراب جہاں میں کہاں تلک​
 
Top