انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

338

ہر دم شوخ دست بہ شمشیر کیوں نہ ہو
کچھ ہم نے کی ہے ایسی ہی تقصیر ، کیوں نہ ہو

اب تو جگر کو ہم نے بلا کا ہدف کیا
انداز اس نگاہ کا پھر تِیر کیوں نہ ہو

جوں گُل کسو شگفتہ طبیعت کا ہے نشاں
غنچہ بھی کوئی خاطرِ دل گیر کیوں نہ ہو

ہووے ہزار وحشت اسے تو بھی یار ہے
اغیار تیرے ساتھ جو ہوں، میر کیوں نہ ہو​
 
339

دیکھتا ہوں دھوپ ہی میں جلنے کے آثار کو
لے گئی ہیں دور تڑپیں سایہء دیوار کو

وے جو مستِ بے خودی ہیں عیش کرتے ہیں مدام
مے کدے میں دہر کے مشکل ہے ٹک ہشیار کو

کس قدر الجھیں ہیں میرے تار دامن کے کہ اب
پاؤں میں گڑ کر نہیں چُھبنے کی فرصت خار کو​
 
340

جو میں نہ ہوں تو کرو ترک ناز کرنے کو
کوئی تو چاہیے جی بھی نیاز کرنے کو

جو بے دماغی یہی ہے تو بن چکی اپنی
دماغ چاہیے ہر اک سے ساز کرنے کو

وہ گرمِ ناز ہو تو خلق پر ترحم کر
پکارے آپ اجل احتزار کرنے کو

جو آنسو آویں تو پی جا کہ تا رہے پردہ
بَلا ہے چشمِ تر افشائے راز کرنے کو

ہنوز لڑکے ہو تم ، قدر میری کیا جانو
شعور چاہیے ہے امتیاز کرنے کو

اگرچہ گُل بھی نمود اس کے رنگ کرتا ہے
ولیک چاہیے ہے منھ بھی ناز کرنے کو

زیادہ حد سے تھی تابوت میر پر کثرت
ہوا نہ وقتِ مساعد نماز کرنے کو​
 
342

حالِ دل میر کا اے اہل وفا مت پوچھو
اس ستم کشتہ پہ جو گزری جفا، مت پوچھو

صبح سے اور بھی پاتا ہوں اُسے شام کو تند
کام کرتی ہے جو کچھ میری دعا، مت پوچھو

ہوش و صبر و خرد و دین و حواس و دل و تاب
اس کے اک آنے میں کیا کیا نہ گیا، مت پوچھو

اشتعالک کی محبت نے کہ دربست پھُنکا
شہر دل کیا کہوں کس طور جلا، مت پوچھو


وقتِ قتل آرزوئے دل جو لگے پوچھنے لوگ
میں اشارت کی اُدھر ، اُن نے کہا مت پوچھو

خواہ مارا انھیں نے میر کو، خواہ آپ مُوا
جانے دو یارو! جو ہونا تھا ہوا، مت پوچھو
 
343

نالہء شب نے کیا ہے جو اثر، مت پوچھو
ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا ہے جگر، مت پوچھو

پوچھتے کیا ہو مرے دل کاتم احوال کہ ہے
جیسے بیمار اجل روز بتر، مت پوچھو

مرنے میں بند زباں ہونا، اشارت ہے ندیم
یعنی ہے دُور کا درپیش سفر، مت پوچھو

کیا پھرے وہ وطن آوارہ، گیا اب سو گیا
دلِ گم کردہ کی کچھ خیر خبر مت پوچھو

دل خراشی و جگر چاکی و سینہ کاوی
اپنے ناحق میں ہیں سب اور ہنر مت پوچھو

جوں توں کر حالِ دل اک بار تو میں عرض کروں
میر صاحب جی بس اب بارِ دگر مت پوچھو​
 
344

اس کی طرز نگاہ مت پوچھو
جی ہی جانے ہے آہ، مت پوچھو

کہیں پہنچو گے بے رہی میں بھی
گمرہاں یوں یہ راہ مت پوچھو

نو گرفتارِ دامِ زلف اُس کا
ہے یہی رُو سیاہ، مت پوچھو

(ق)

تھا کرم پر اُسی کے شرب مدام
میرے اعمال ، آہ مت پوچھو

تم بھی اے مالکانِ روزِ جزا
بخش دو، اب گناہ مت پوچھو

میر عاشق کو کچھ کہے ہی بنے
خواہ وہ پوچھو، خواہ مت پوچھو​
 
345

محرماں بے دمی کا میری سبب مت پوچھو
ایک دم چھوڑ دو یوں ہی مجھے، اب مت پوچھو

گریہء شمع کا اے ہم نفساں میں تھا حریف
گزری ہے رات کی صحبت بھی عجب ،مت پوچھو

لب پہ شیون، مژہ پر خون و نگہ میں اک یاس
دن گیا ہجر کا جس ڈھنگ سے شب، مت پوچھو

میر صاحب نئی یہ طرز ہو اس کی تو کہوں
موجبِ آزردگی کا، وجہِ غضب مت پوچھو​
 
346

فرصت نہیں تنک بھی کہیں اضطراب کو
کیا آفت آ گئی مرے اس دل کی تاب کو

گزرے ہے شب خیال میں خوباں کے جاگتے
آنکھیں لگا کے اُن سے میں ترسوں ہوں خواب کو

خط آگیا ، پر اُس کا تغافل نہ کم ہوا
قاصد مرا خراب پھرے ہے جواب کو

تیور میں جب سے دیکھے ہیں ساقی خمار کے
پیتا ہوں رکھ کے آنکھوں پہ جامِ شراب کو

کہنے سے میر اور بھی ہوتا ہے مضطرب
سمجھاؤں کب تک اِس دلِ خانہ خراب کو​
 
347


لطف کیا آرزو ہو کر آپ سے ملنے کے بیچ
ٹک تری جانب سے جب تک عذر خواہی بھی نہ ہو

چاہتا ہے جی کہ ہم تُو ایک جا تنہا ملیں
ناز بے جا بھی نہ ہووے ، کم نگاہی بھی نہ ہو​
 
347

اُجرت میں نامے کی ہم دیتے ہیں جاں تلک تو
اب کارِ شوق اپنا پہنچا ہے یاں تلک تو

آغشتہ میرے خوں سے اے کاش جا کے پہنچے
کوئی پر شکستہ ٹک گلستاں تلک تو

واماندگی نے مارا اثنائے رہ میں ہم کو
معلوم ہے پہنچنا اب کارواں تلک تو

افسانہ غم کا لب تک آیا ہے مدتوں میں
سو جائیو نہ پیارے اس داستاں تلک تو​
 
348

ہ


سو ظلم کے رہتے ہیں سزاوار ہمیشہ
ہم بے گنہ اُس کے ہیں گنہ گار ہمیشہ

اک آن گزر جائے تو کہنے میں کچھ آوے
درپیش ہے یاں مُردنِ دشوار ہمیشہ

ہےدامنِ گُل چینِ چمن جیب ہمارا
دنیا میں رہے دیدہء خونبار ہمیشہ​
 
349

جگر لوہو کو ترسے ہے، میں سچ کہتا ہوں دل خستہ
دلیل اس کی نمایاں ہے، میری آنکھیں ہیں خوں بستہ

چمن میں دل خراش آواز آتی ہے چلی، شاید
پسِ دیوارِ گلشن نالہ کش ہے کوئی پر بستہ

ترے کوچے میں یکسر عاشقوں کے خارِ مژگاں ہیں
جو تُو گھر سے کبھو نکلے تو رکھیو پاؤں آہستہ

تعجب ہے مجھے یہ سرو کو آزاد کہتے ہیں
سراپا دل کی صورت جس کی ہو وہ کیا ہو وارستہ

تری گُل گشت کی خاطر بنا ہے باغ داغوں سے
پر طاؤس سینہ ہے تمام دس گُل دستہ

بجا ہے گر فلک پر فخر سے پھینکے کلاہ اپنی
کہے جو اُس زمیں میں میر یک مصراعِ برجستہ​
 
350

ہم ہیں مجروح، ماجرا ہے یہ
وہ نمک چھڑکے ہے، مزا ہے یہ

آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک، انتہا ہے یہ

بودِ آدم نمودِ شبنم ہے
ایک دو دم میں پھر ہوا ہے یہ

شکر اُس کی جفا کا ہو نہ سکا
دل سے اپنے ہمیں گلا ہے یہ

شور ہے اپنے حشر ہے پر وہ
یوں نہیں جانتا کہ کیا ہے یہ

بس ہوا ناز ، ہوچکا اغماض
ہر گھڑی ہم سے کیا ادا ہے یہ

دیکھ بے دم مجھے لگا کہنے
ہے تو مردہ سا، پر بلا ہے یہ

ہے رے بیگانگی، کبھو ان نے
نہ کہا یہ کہ آشنا ہے یہ

تیغ پر ہاتھ دم بہ دم کب تک
اک لگا چُک کہ مدعا ہے یہ

میر کو کیوں نہ مغتنم جانے
اگلے لوگوں میں اک رہا ہے یہ​
 
351

دل پُر خوں ہے یہاں، تجھ کو گماں ہے شیشہ
شیخ کیوں مست ہوا ہے تُو ، کہاں ہے شیشہ

شیشہ بازی تو تنک دیکھنے آ، آنکھوں کی
ہر پلک پر مرے اشکوں سے رواں ہے شیشہ

منزل ہستی کو پہنچے ہے اُنھیں سے عالم
نشہء مے بلد و سنگ نشاں ہے شیشہ

درمیاں حلقہء مستاں کے شب اُس کی جا تھی
دور ساغر میں مگر پیر مغاں ہے شیشہ

(ق)

جا کے پوچھا جو میں یہ کارگہ مینا میں
دل کی صورت کا بھی اے شیشہ گراں ہے شیشہ!

کہنے لاگے کہ کدھر پھرتا ہے بہکا اے مست
ہر طرح کا جو تُو دیکھے ہے کہ یاں ہے شیشہ

دل ہی سارے تھے پہ اک وقت میں جو کرکے گداز
شکل شیشے کے بنائی ہے، کہاں ہے شیشہ

جھک گیا دیکھ کے میں میر اُسے مجلس میں
چشمِ بدور، طرح دار ، جواں ہے شیشہ​
 
352

جی چاہے مل کسو سے یا سب سے تُو جدا رہ
پر ہو سکے تو پیارے ٹک دل کا آشنا رہ

کل بے تکلفی میں لطف اُس بدن کا دیکھا
نکلا نہ کر قبا سے اے گُل بس اب ڈھپا رہ

عاشق غیور جی دے اوراُس طرف نہ دیکھے
وہ آنکھ جو چھپاوے تو تُو بھی ٹک کھنچا رہ

ہر مشتِ کاک یاں کی چاہے ہے اک تاء مل
بن سوچے راہ مت چل، ہر گام پر کھڑا رہ

شاید کہ سربلندی ہووے نصیب تیرے
جوں گردِ راہ سب کے پاؤں سے تُو لگا رہ

میں، تو ہیں وہم دونوں، کیا ہے خیال تجھ کو
جھاڑ آستین مجھ سے، ہاتھ آپ سے اٹھا رہ

دوڑے بہت ولیکن مطلب کو کون پہنچا
آئندہ تُو بھی ہم سا ہو کر شکستہ پا رہ

جب ہوش میں تُو آیا، اُودھر ہی جاتے پایا
اس سے تو میر چندے اُس کوچے ہی میں جا رہ​
 
353

اب حال اپنا اُس کے ہے دل خواب
کیا پوچھتے ہو، الحمد اللہ

مر جاؤ کوئی پروا نہیں ہے
کتنا ہے مغرور، اللہ اللہ

پیرِ مغاں سے بے اعتقادی
استغفر اللہ! ، استغفر اللہ!

کہتے ہیں اس کے تو منھ لگے گا
ہو یوں ہی یارب! جوں ہے یہ افواہ

مجرم ہوئے ہم دل دے کے ورنہ
کس کو کسو سے ہوتی نہیں چاہ

گزرے ہے دیکھیں کیوں کر ہماری
اُس بے وفا سے ، نَے رسم، نَے راہ

اُس پر کہ تھا وہ شہ رگ سے اقرب
ہر گز نہ پہنچا یہ دستِ کوتاہ

(ق)

ہے ماسوا کیا، جو میر کہیے
آگاہ سارے اُس سے ہیں آگاہ

جلوے ہیں اُس کے، شانیں ہیں اُس کی
کیا روز ، کیا خور، کیا رات، کیا ماہ

ظاہر کہ باطن، اول کہ آخر
اللہ اللہ! اللہ اللہ!​
 
354

جو ہوشیار ہو، سو آج ہو شراب زدہ
زمین مے کدہ یک دست ہے گی آب زدہ

بنے یہ کیوں کے ملے تُو ہی ، یا ہمیں سمجھیں
ہم اضطراب زدہ ، اورتُو حجاب ذدہ

کرے ہے جس کو سلامت جہاں وہ میں ہی ہوں
اجل رسیدہ، جفا دیدہ، اضطراب زدہ

جدا ہو رخ سے تری زلف میں نہ کیوں دل جائے
پناہ لیتے ہیں سائے کی، آفتاب زدہ

لگا نہ ایک بھی میر اُس کی بیتِ ابرو کو
اگرچہ شعر تھے سب میرے انتخاب زدہ​
 
355

جز جرمِ عشق کوئی بھی ثابت کیا گناہ
ناحق ہماری جان لی، اچھے ہو، واہ واہ!

اب کیسا چاک چاک ہو دل، اس کے ہجر میں
گھتواں تو لختِ دل سے نکلتی ہے میری آہ

بے تابیوں کو سونپ نہ دینا کہیں مجھے
اے صبر میں نے آن کے لیے ہے تری پناہ

خوں بستہ بارے رہنے لگی اب تو یہ مژہ
آنسو کی بوند جس سے ٹپکتی تھی گاہ گاہ

ناحق الجھ پڑا ہے یہ مجھ سے طریقِ عشق
جاتا تھا میر میں تو چلا اپنی راہ راہ


کہتے ہیں اُڑ بھی گئے جل کے پرِ پروانہ
کچھ سنی سوختگاں تم خبرِ پروانہ

سعی اتنی یہ ضروری ہے اُٹھے بزم سلگ
اے جگر تفتگیِ بے اثرِ پروانہ

کس گنہ کا ہے پس از مرگ یہ عذرِ جاں سوز
پاؤں پر شمع کے پاتے ہیں سرِ پروانہ

بزمِ دنیا کی تو دل سوزی سنی ہوگی میر
کس طرح شام ہوئی یاں سحرِ پروانہ​
 
356

ہم سے کچھ آگے زمانے میں ہوا کیا کیا کچھ
تو بھی ہم غافلوں نے آکے کیا، کیا کیا کچھ

کیا کہوں تجھ سے کہ کیا دیکھا ہے تجھ میں مَیں نے
عشوہ ، غمزہ و انداز و ادا ، کیا کیا کچھ

دل گیا، ہوش گیا، صبر گیا، جی بھی گیا
شغل میں غم کے ترے ہم سے گیا کیا کیا کچھ

آہ مت پوچھ ستم گار کہ تجھ سے تھی ہمیں
چشمِ لطف و کرم و مہر و وفا ، کیا کیا کچھ

(ق)

نام ہیں خستہ و آوارہ و بدنام مرے
ایک عالم نے غرض مجھ کو کہا، کیا کیا کچھ

طرفہ صحبت ہے کہ سنتا نہیں تُو ایک مری
واسطے تیرے سنا، میں نے سنا کیا کیا کچھ

حسرتِ وصل و غم ہجر و خیال ِ رخِ دوست
مرگیا میں پہ مرے جی میں رہا کیا کیا کچھ

دردِ دل، زخمِ جگر ، کلفتِ غم، داغِ فراق
آہ عالم سے مرے ساتھ چلا، کیا کیا کچھ

چشمِ نم ناک و دلِ پُر ، جگرِ صد پارہ
دولتِ عشق سے ہم پاس بھی تھا کیا کیا کچھ

تجھ کو کیا بننے بگڑنے سے زمانے کے کہ یاں
خاک گن گن کے ہوئی صرف، بنا کیا کیا کچھ

(ق)

قبلہ و کعبہ ، خداوند و ملاذ و مشفق
مضطرب ہو کے اُسے میں نے لکھا کیا کیا کچھ

پر کہوں کیا رقم شوق کی اپنے تاثیر
ہر سر حرف پہ وہ کہنے لگا کیا کیا کچھ

ایک محروم چلے میر ہمیں عالم سے
ورنہ عالم کو زمانے نے دیا کیا کیا کچھ​
 
Top