انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

لیتے ہیں سانس یوں ہم جوں تار کھینچتے ہیں
اب دل گرفتگی سے آزار کھینچتے ہیں

بے طاقتی نے ہم کو چاروں طرف سے کھویا
تصدیع گھر میں بیٹھے ناچار کھینچتے ہیں

منصور کی حقیقت تم نے سنی ہی ہوگی
حق جو کہے ہے اُس کو یاں دار کھینچتے ہیں

شکوہ کروں تو کس سے کیا شیخ کیابرہمن
ناز اس بلائے جاں کے سب یار کھینچتے ہیں

ناوک سے میر اُس کے دل بستگی تھی مجھ کو
پیکاں جگر کا میرے دشوار کھینچتے ہیں​
 
298

سمجھا تنک نہ اپنے تو سود و زیاں کو میں
مانا کیا خدا کی طرح اِن بُتاں کو میں

گردش فلک کی کیا ہے جو دورِ قدح میں ہے
دیتا رہوں گا چرخِ مدام آسماں کو میں

عاشق ہے یا مریض ہے، پوچھو تو میر سے
پاتا ہوں زرد روز بہ روز اس جواں کو میں​
 
299

کر نالہ کشی کب تئیں اوقات گزاریں
فریاد کریں کس سے، کہاں جا کے پکاریں

ہر دم کا بگڑنا تو کچھ اب چھوٹا ہے اُن سے
شاید کسی ناکام کا بھی کام سنواریں

جس جاگہ خس و خار کے اب ڈھیر لگے ہیں
یاں ہم نے انھیں‌ آنکھوں سے دیکھی ہیں بہاریں

وے ہونٹ کہ ہے شور مسیحائی کا جن کی
دم لیویں نہ دوچار کو تا جی سے نہ ماریں

منظور ہے کب سے سرِ شوریدہ کا دینا
چڑھ جائے نظر کوئی تو یہ بوجھ اتاریں

ناچار ہو رخصت جو منگا بھیجی تو بولا
میں کیا کروں جو میر جی جاتے ہیں، سدھاریں​
 
یوں ہی حیران و خفا جوں غنچہء تصویر ہوں
عمر گزری پر نہ جانا میں کہ کیوں دل گیر ہوں

نَے فلک پر راہ مجھ کو، نے زمیں پر رو مجھے
ایسے کس محروم کامیں شورِ بے تاثیر ہوں

کھول کر دیوان میرا دیکھ قدرت مُدعی
گرچہ ہوں میں نوجواں پر شاعروں کا پیر ہوں

اس قدر بے ننگ خبطوں کو نصیحت شیخ جی!
باز آؤ ورنہ اپنے نام کا میں میر ہوں​
 
کہے ہے کوہ کن کر فکر میری خستہ حالی میں
الہٰی شکر کرتا ہوں تری درگاہِ عالی میں

میں وہ پژمردہ سبزہ ہوں کہ ہو کر خاک سے سرزد
یکایک آگیا اس آسماں کی پائمالی میں

نگاہِ چشمِ پُر خشمِ بُتاں پر مت نظر رکھنا
ملا ہے زہر اے دل اس شرابِ پُرتگالی میں

شرابِ خون بن تڑپوں سے دل لبریز رہتا ہے
بھرے ہیں سنگ ریزے میں نے اس مینائے خالی میں

خلاف ان اور خوباں کے سدا یہ جی میں رہتا ہے
یہی تو میر اک خوبی ہے معشوقِ ‌خیالی میں​
 
302

آہ اور اشک ہی سدا ہے یاں
روز برسات کی ہوا ہے یاں

جس جگہ ہو زمین تفتہ، سمجھ
کہ کوئی دل جلا گڑا ہے یاں

ہے خبر شرط میر سنتا ہے
تجھ سے آگے یہ کچھ ہوا ہے یاں

موت مجنوں کو بھی یہیں آئی
کوہ کن کل ہی مرگیا ہے یاں​
 
303

جہاں اب خارزاریں ہوگئی ہیں
یہیں آگے بہاریں ہوگئی ہیں

جنوں میں خشک ہو رگ ہائے گردن
گریباں کی سی تاریں‌ ہو گئیں ہیں

سنا جاتا ہے شہرِ عشق کے گرد
مزاریں ہی مزاریں ہو گئی ہیں

اُسی دریائے خوبی کا ہے یہ شوق
کہ موجیں سب کناریں ہو گئی ہیں​
 
304

خوش نہ آئی تمہاری چال ہمیں
یوں نہ کرنا تھا پائمال ہمیں

حال کیا پوچھ پوچھ جاتے ہو
کبھو پاتے بھی ہو بحال ہمیں

ترک سبزانِ شہر کریے اب
بس بہت کر چکے نہال ہمیں

وجہ کیا ہے کہ میر منھ پہ ترے
نظر آتا ہے کچھ ملال ہمیں​
 
305

نہ کیوں کے شیخ توکل کو اختیار کریں
زمانہ ہووے مساعد تو روزگار کریں

گیا وہ زمزمہء صبحِ فصلِ گُل بلبل
دعا نہ پہنچے چمن تک ہم اب ہزار کریں

تمام صید سرِ تیر جمع ہیں لیکن
نصیب اُس کے کہ جس کو ترا شکار کرے

تسلی تو ہو دلِ بے قرار خوباں سے
یہ کاش ملنے نہ ملنے کا کچھ قرار کریں

ہمیں تو نزع میں شرمندہ آکے اُن نے کیا
رہا ہے ایک رمق جی سو کیا نثار کریں

رہی سہی بھی گئی عمر تیرے پیچھے یار
یہ کہہ کہ آہ ترا کب تک انتظار کریں

ہوا ہوں خاکِ رہ اس واسطے کہ خوباں میر
گزار گور پہ میری بھی ایک بار کریں​
 
306

یہ غلط کہ میں پیا ہوں قدحِ شراب تجھ بن
نہ گلے سے میرے اُترے کبھو قطرہ آب تجھ بن

میں لہو پیوں ہوں غم میں عوضِ شراب ساقی
شبِ مغ ہوگئی ہے شبِ ماہ تاب تجھ بن

سبھی آتشیں ہیں نالے، سبھی زمہریری آہیں
مری جان پر رہا ہے غرض اک عذاب تجھ بن

نہیں جیتے جی توممکن ہمیں تجھ بغیر سونا
مگر آں کہ مر کے کیجے تہِ خاک خواب تجھ بن

بُرے حال ہو کے مرتا جو درنگِ میر کرتا
یہ بھلا ہوا ستم گر کہ مُوا شتاب تجھ بن​
 
307

تنکا بھی اب رہا نہیں شرمندگی ہے جو
گر پڑ کے برق پاوے مرے آشیاں کے تئیں

سناہٹے میں باغ کے کچھ اُٹھتے ہیں نسیم
مرغِ چمن نے خوب متھا ہے فغاں کے تئیں

تُو اک زباں پہ چپکی نہیں رہتی عندلیب!
رکھتا ہے منھ میں غنچہء گُل سو زباں کے تئیں

ہم تو ہوئے تھے میر سے اُس دن ہی نا اُمید
جس دن سنا کہ ان نے دیا دل بُتاں کے تئیں​
 
308

موئے سہتے سہتے جفاکاریاں
کوئی ہم سے سیکھے وفاداریاں

ہماری تو گزری اسی طور عمر
یہی نالہ کرنا ، یہی زاریاں

فرشتہ جہاں کام کرتا نہ تھا
مری آہ نے برچھیاں ماریاں

گیا جان سے یک جہاں ایک شوخ
نہ تجھ سے گئیں یہ دل آزاریاں

کہاں تک یہ تکلیفِ مالا یطاق
ہوئی مدتوں ناز برداریاں

خط و کاکل و زلف و انداز و ناز
ہوئیں دام رہ صد گرفتاریاں

کیا درد و غم نے مجھے نا اُمید
کہ مجنوں کو یہ ہی تھیں بیماریاں

تری آشنائی سے ہی حد ہوئی
بہت کی تھیں دنیا میں‌ ہم یاریاں

نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں!
کھنچیں میر تجھ سے ہی یہ خواریاں
 
309

دن نہیں رات نہیں صبح نہیں شام نہیں
وقت ملنے کا مگر داخلِ ایام نہیں

مثلِ عنقا مجھے تم دُور سے سن لو ورنہ
ننگِ ہستی ہوں‌مری جائے بجز نام نہیں

راز پوشیِ محبت کے تئیں چاہیے ضبط
سو تو بے تابیِ دل بِن مجھے آرام نہیں

بے قراری جو کوئی دیکھے ہے سو کہتا ہے
کچھ تو ہے میر کہ اک دم تجھے آرام نہیں​
 
310

کیا ظلم کیا تعدی، کیا جور کیا جفائیں
اس چرخ نے کیاں ہیں ہم سے بہت ادائیں

اک رنگِ گُل نے رہنا یاں یوں نہیں‌کیا ہے
اس گلشنِ جہاں میں ہیں مختلف ہوائیں

شب نالہ آسماں تک جی سخت کرکے پہنچا
تھیں نیم کشتہء یاس اکثر مری دعائیں

رُو کش تو ہو ترا پر آئینے میں کہاں یہ
رعنائیاں ، ادائیں ، رنگینیاں، صفائیں

نازِ بتانِ سادہ اللہ اللہ اے میر
ہم خط سے مٹ گئے پر اُن کے نہیں ہے بھائیں​
 
311

آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں
تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں

برق کم حوصلہ ہے، ہم بھی تو
دلکِ بے قرار رکھتے ہیں

غیر ہی موردِ عنایت ہے
ہم بھی تو تم سے پیار رکھتے ہیں

نہ نگہ، نےَ پیام ، نَے وعدہ
نام کو ہم بھی یار رکھتے ہیں

ہم سے خوش زمزمہ کہاں، یوں تو
لب ولہجہ ہزار رکھتے ہیں

چوٹٹے دل کے ہیں بُتاں مشہور
بس یہی اعتبار رکھتے ہیں

پھر بھی کرتے ہیں میر صاحب عشق
ہیں جواں، اختیار رکھتے ہیں​
 
313

کسو چشمے پہ دریا کے و یا اوپر نظر رکھیے
ہماری دیدہء نم دیدہ، کیا کچھ کم ہیں یہ دونوں

لبِ جاں بخش اُس کے مار ہی رکھتے ہیں عاشق کو
اگرچہ آب حیواں ہیں ولیکن سم ہیں یہ دونوں

خدا جانے کہ دنیا میں ملیں اُس سے کہ عقبیٰ میں
مکاں تو میر صاحب شہرہء عالم ہیں یہ دونوں​
 
314

لب ترے لعلِ ناب ہیں دونوں
پر تمامی عتاب ہیں دونوں

رونا آنکھوں کا روئیے کب تک
پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں

ہے تکلف نقاب، وے رخسار
کیا چھپیں، آفتاب ہیں دونوں

تن کے معمورے میں یہی دل و چشم
گھر تھے دو، سو خراب ہیں دونوں

کچھ نہ پوچھو کہ آتشِ غم سے
جگر و دل کباب ہیں دونوں

سو جگہ اُس کی آنکھیں پڑتی ہیں
جیسے مستِ شراب ہیں دونوں

پاؤں میں وہ نشہ طلب کا نہیں
اب تو سرمستِ خواب ہیں دونوں

ایک سب آگ، ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں

آگے دریا تھا دیدہء تر میر
اب جو دیکھو سراب ہیں دونوں​
 
و



فلک نے گر کیا رخصت مجھے سیرِ بیاباں کو
نکالا سر سے میرے جائے مو خارِ مغیلاں کو

نہیں ہے بیدِ مجنوں گردشِ گردونِ گرداں نے
بنایا ہے شجر کیا جانیے کس مُو پریشاں کو

ہوئے تھے جیسے ، مرجاتے پر اب تو سخت حسرت ہے
کیا دشوار، نادانی سے ہم نے کارِ آساں کو

تجھے گر چشمِ عبرت ہے تو آندھی اور بگولے سے
تماشا کر غبار افشانیِ خاکِ عزیزاں کو

بنے ناواقفِ شادی اگر ہم بزمِ عشرت میں
دہانِ زخمِ دل سمجھے جو دیکھا روئے خنداں کو

نہیں ریگِ رواں مجنوں کے دل کی بےقراری نے
کیا ہے مضطرب ہر ذرہء گردِ بیاباں کو

غرورِ ناز قاتل کو لیے جا ہے کوئی پوچھے
چلا تو سونپ کر کس کے تئیں اس صیدِ بے جاں کو

ہوا ہوں غنچہء پژمردہ آخر فصل کا تجھ بِن
نہ دے برباد حسرت کشتہء سرور گریباں کو

غم و اندوہ و بیتابی، الم، بے طاقتی ، حرماں
کہوں اے ہم نشیں! تا چند غم ہائے فراواں کو

مزاج اس وقت ہے اک مطلعِ تازہ پہ کچھ مائل
کہ بے فکرِ سخن بنتی نہیں ہرگز سخن داں کو
 
316

نسیمِ مصر کب آئی سواد شہرِ کنعاں کو
کہ بھر جھولی نہ یاں سے لے گئی گل ہائے حرماں کو

زبانِ نوحہ گر ہوں میں قضا نے کیا ملایا تھا
مری طینت میں یارب سودہء دل ہائے نالاں کو

کوئی کانٹا سرِ رہ کا ہماری خاک پر بس ہے
گُلِ گلزار کیا درکار ہے گورِ غریباں کو

یہ کیا جانوں ہوا سینے میں کیا اس دل کواب ناصح
سحر خوں بستہ تو دیکھا تھا میں نے اپنی مژگاں کو

گُل و سنبل ہیں نیرنگِ قضا، مت سرسری گزرے
کہ بگڑی زلف و رخ کیا کیا بناتے اس گلستاں کو

صدائے آہ جیسی تِیر ، جی کے پار ہوتی ہے
کسو بے درد نے کھینچا کسو کے دل سے پیکاں کو

کریں بالِ ملک فرشِ رہ اس ساعت کہ محشر میں
لہو ڈوبا کفن لاویں شہیدِ نازِ خوباں کو

کیا سیر اس خرابے کا بہت اب چل کے سو رہیے
کسو دیوار کے سائے میں منھ پر لے کے داماں کو

تری ہی جستجو میں گم ہوا ہے کہہ کہاں کھویا
جگر خوں گشتہ، دل آزردہ، میر اُس خانہ ویراں کو

 
Top