وہاب اعجاز خان
محفلین
497
کوئی ہوا نہ رُو کش ٹک میری چشمِ تر سے
کیا کیا نہ ابر آ کر یاں زور زور برسے
اب جوں سرشک اُن سے پھرنے کی چشم مت رکھ
جو خاک میں ملے ہیں، گِر کر تری نظر سے
دیدار خواہ اُس کے کم ہوں تو شور کم ہو
ہر صبح اک قیامت اُٹھتی ہے اُس کے در سے
داغ ایک ہو جلا بھی، خوں ایک ہو بہا بھی
اب بحث کیا ہے دل سے ، کیا گفتگو جگر سے
دل کس طرح نے کھنچیں، اشعار ریختے کے
بہتر کیا ہے میں نے، اس عیب کے ہنر سے
انجام کار بلبل دیکھا ہم اپنی آنکھوں
آوارہ تھے چمن میں دو چار ٹوٹے پر سے
بے طاقتی نے دل کی آخر کو مار رکھا
آفت ہمارے جی کی آئی ہمارے گھر سے
دل کش یہ منزل آخر دیکھا جو راہ نکلی
سب یار جا چکے تھے، آئے جو ہم سفر سے
آوارہ میر شاید واں خاک ہوگیا ہے
اک گرد اُٹھ چلے ہے گاہ اُس کی راہ گزر سے
کیا کیا نہ ابر آ کر یاں زور زور برسے
اب جوں سرشک اُن سے پھرنے کی چشم مت رکھ
جو خاک میں ملے ہیں، گِر کر تری نظر سے
دیدار خواہ اُس کے کم ہوں تو شور کم ہو
ہر صبح اک قیامت اُٹھتی ہے اُس کے در سے
داغ ایک ہو جلا بھی، خوں ایک ہو بہا بھی
اب بحث کیا ہے دل سے ، کیا گفتگو جگر سے
دل کس طرح نے کھنچیں، اشعار ریختے کے
بہتر کیا ہے میں نے، اس عیب کے ہنر سے
انجام کار بلبل دیکھا ہم اپنی آنکھوں
آوارہ تھے چمن میں دو چار ٹوٹے پر سے
بے طاقتی نے دل کی آخر کو مار رکھا
آفت ہمارے جی کی آئی ہمارے گھر سے
دل کش یہ منزل آخر دیکھا جو راہ نکلی
سب یار جا چکے تھے، آئے جو ہم سفر سے
آوارہ میر شاید واں خاک ہوگیا ہے
اک گرد اُٹھ چلے ہے گاہ اُس کی راہ گزر سے