انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

497

کوئی ہوا نہ رُو کش ٹک میری چشمِ تر سے
کیا کیا نہ ابر آ کر یاں زور زور برسے

اب جوں سرشک اُن سے پھرنے کی چشم مت رکھ
جو خاک میں ملے ہیں، گِر کر تری نظر سے

دیدار خواہ اُس کے کم ہوں تو شور کم ہو
ہر صبح اک قیامت اُٹھتی ہے اُس کے در سے

داغ ایک ہو جلا بھی، خوں ایک ہو بہا بھی
اب بحث کیا ہے دل سے ، کیا گفتگو جگر سے

دل کس طرح نے کھنچیں، اشعار ریختے کے
بہتر کیا ہے میں نے، اس عیب کے ہنر سے

انجام کار بلبل دیکھا ہم اپنی آنکھوں
آوارہ تھے چمن میں دو چار ٹوٹے پر سے

بے طاقتی نے دل کی آخر کو مار رکھا
آفت ہمارے جی کی آئی ہمارے گھر سے

دل کش یہ منزل آخر دیکھا جو راہ نکلی
سب یار جا چکے تھے، آئے جو ہم سفر سے

آوارہ میر شاید واں خاک ہوگیا ہے
اک گرد اُٹھ چلے ہے گاہ اُس کی راہ گزر سے​
 
498

وعدہ و عید پیارے کچھ تو قرار ہووے
دل کی معاملت سے کیا کوئی خوار ہووے

فتراک سے نہ باندھ ، دیکھ نہ تُو تڑپنا
کس آرزو پہ کوئی ترا شکار ہووے

ازبس لہو پیا ہے میں تیرے غم میں گُل رُو
تُربت سے میری شاید حشرِ بہار ہووے

میں مست مرگیا ہوں کرنا عجب نہ ساقی
گر سنگِ شیشہ میرا سنگِ مزار ہووے
 
499

نہ اُٹھ تو گھر سے اگر چاہتا ہے ہوں مشہور
نگیں جو بیٹھا ہے گڑ کر تو کیسا نامی ہے

ہوئی ہے فکریں پریشاں میر یاروں کی
حواسِ خمسہ کرے جمع، سو نظامی ہے​
 
500

انجامِ دلِ غم کش، کوئی عشق میں کیا جانے
کیا جانیے کیا ہوگا آخر کو، خدا جانے

ناصح کو خبر کیا ہے لذت سے غمِ دل کی
ہے حق بہ طرف اُس کے، چکھے تو مزا جانے

بے طاقتیِ دل نے ہم کو نہ کیا رسوا
ہے عشق سزا اُس کو جو کوئی چھپا نے

اُس مرتبہ ناسازی نبھتی ہے دِلا کوئی
کچھ خُلق بھی پیدا کر، تا خلق بھلا جانے

لے جائے یہ میر اُس کے دروازے کی مٹی بھی
اُس درد محبت کی جو کوئی دوا جانے​
 
501

ہنستے ہو، روتے دیکھ کر غم سے
چھیڑ رکھی ہے تم نے کیا ہم سے

تم جو دل خواہِ خلق ہو، ہم کو
دشمنی ہے تمام عالم سے

درہمی آگئی مزاجوں میں
آخر ان گیسوانِ درہم سے

مفت یوں ہاتھ سے نہ کھو ہم کو
کہیں پیدا بھی ہوتے ہیں ہم سے!

(ق)

کوئی بیگانہ گر نہیں موجود
منھ چھپانا یہ کیا ہے پھر ہم سے

وجہ پردے کی پوچھیے بارے
ملیے اُس کے کسو جو محرم ہے

درپئے خونِ میر ہی نہ رہو
ہو بھی جاتا ہے جُرم آدم ہے​
 
502

نالہء عجز نقصِ اُلفت ہے
رنج و محنت کمالِ راحت ہے

تا دمِ مرگ غم خوشی کا نہیں
دلِ آزردہ گر سلامت ہے

دل میں ناسور پھر جدھر چاہے
ہر طرف کوچہء جراحت ہے

رونا آتا ہے دم بدم شاید
کسو حسرت کی دل سے رخصت ہے

فتنے رہتے ہیں اس کے سائے میں
قد و قامت ترا قیامت ہے

نہ تجھے رحم، نَے اُسے ٹک صبر
دل پہ میرے عجب مصیبت ہے

(ق)

ترا شکوہ مجھے، نہ میرا تجھے
چاہیے یوں جو فی الحقیقت ہے

تجھ کو مسجد ہے ،مجھ کو مےخانہ
واعظا! اپنی اپنی قسمت ہے

کیا ہوا گر غزل قصیدہ ہوئی
عاقبت قصہء محبت ہے

(ق)

تُربتِ میر پر ہیں اہلِ سخن
ہر طرف حرف ہے، حکایت ہے

تُو بھی تقریبِ فاتحہ سے چل
بہ خدا واجب الزیارت ہے
 
503

سچ پوچھو تو کب ہے گا اُس کا سا دہن غنچہ
تسکین کے لیے ہم نے اک بات بنالی ہے

دیہی کو نہ کچھ پوچھو اک بھرت کا ہے گڑوا
ترکیب سے کیا کہیے سانچے میں کہ ڈھائی ہے

عزت کی کوئی صورت دکھلائی نہیں دیتی
چپ رہیے تو چشمک ہے، کچھ کہیے تو گالی ہے

دو گام کے چلنے میں پامال ہوا عالم
کچھ ساری خدائی سے وہ چال نرالی ہے​
 
504

نازِ چمن وہی ہے بلبل سے ، گو خزاں ہے
ٹہنی جو زرد بھی ہے سو شاخِ زعفراں ہے

ہنگامِ جلوہ اُس کے مشکل ہے ٹھہرے رہنا
چتون ہے دل کی آفت، چشمک بلائے جاں ہے

ہرچند ضبط کریے، چھُپتا ہے عشق کوئی
گزرے ہے دل پہ جو کچھ چہرے ہی سے عیاں ہے

اس فن میں کوئی بے تہ، کیا ہو مرا معارض
اول تو میں سند ہوں، پھر یہ مری زباں ہے

از خویش رفتہ اُس بن رہتا ہے میر اکثر
کرتے ہو بات کس سے وہ آپ میں کہاں ہے​
 
506

اُس دل جلے کی تاب کے لانے کو عشق ہے
فانوس کی سی شمع جو پردے میں جل سکے

کہتا ہے کون تجھ کو کہ اے سینہ رک نہ جا
اتنا تو ہو کہ آہ جگر سے نکل سکے

گر دوپہر کو اُس کو نکلنے دے نازکی
حیرت سے آفتاب کی پھر دن نہ ڈھل سکے

کہتا ہے وہ تو ایک کی دس میر کم سخن
اُس کی زبان کے عہدے سے کیوں کر نکل سکے
 
507

ہم گرم رو ہیں راہِ فنا کے شرر صفت
ایسے نہ جائیں گے کہ کوئی کھوج پاسکے

میرا جو بس چلے تو منادی کیا کروں
تا اب سے دل نہ کوئی کسو سے لگا سکے

اس کاکمال چرخ پہ سر کھینچنا نہیں
اپنے تئیں جو خاک میں کوئی ملا سکے

(ق)

کیا دل فریب جائے ہے آفاق، ہم نشیں
وہ دن کو یاں جو آئے سو برسوں نہ جاسکے

مشعر ہے اُس پہ مردنِ دشوارِ رفتگاں
یعنی جہاں سے دل کو نہ آساں اُٹھا سکے
 
508

آتش کے شعلے سر سے ہمارے گزر گئے
بس اے تپِ فراق کہ گرمی میں مر چلے

ناصح نہ روویں کیوں کے محبت کے جی کو ہم
اے خانماں خراب ہمارے تو گھر گئے

(ق)

یہ راہ و رسم دل شدگاں گفتنی نہیں
جانے دے میر صاحب و قبلہ جدھر گئے

روز وداع اُس کی گلی تک تھے ہم بھی ساتھ
جب درد مند ہم کو وے معلوم کرگئے

کر یک نگاہ یاس کی ٹپ دے سے رو دیا
پھر ہم اِدھر کو آئے، میاں وے اُدھر گئے
 
509

دن کو نہیں ہے چین ، نہ ہے خواب شب مجھے
مرنا پڑا ضرور ترے غم میں اب مجھے

طوفاں بجائے اشک ٹپکتے تھے چشم سے
اے ابرِ تر دماغ تھا رونے کا جب مجھے

دو حرف اُس کے منھ کے تو لکھ بھیجیو شتاب
قاصد چلا ہے چھوڑ کے تُو جاں بہ لب مجھے

پوچھا تھا راہ جاتے کہیں اُن نے میر کو
آتا ہے اُس کی بات کا اب تک عجب مجھے​
 
511

مرے اس رک کے مرجانے سے وہ غافل ہے کیا جانے
گزرنا جان سے آساں بہت مشکل ہے کیا جانے

طرف ہونا مرا مشکل ہے میر اس شعر کے فن میں
یونہی سودا کبھو ہوتا ہے سو جاہل ہے کیا جانے​
 
512

کب تلک جی رکے، خفا ہووے
آہ کریے کہ ٹک ہوا ہووے

جی ٹھہر جائے یا ہوا ہووے
دیکھیے ہوتے ہوتے کیا ہووے

کاہشِ دل کی کیجیے تدبیر
جان میں کچھ بھی جو رہا ہووے

چپ کا باعث ہے بے تمنائی
کہیے کچھ بھی تو مدعا ہووے

بے کلی مارے ڈالتی ہے نسیم
دیکھیے اب کے سال کیا ہووے

مر گئے ہم تو مر گئے ، تُو جیے
دل گرفتہ تری بَلا ہووے

عشق کیا ہے درست اے ناصح
جانے وہ جس کا دل لگا ہووے

نہ سنا رات ہم نے اک نالہ
غالباَ َ میر مر رہا ہووے​
 
513

کچھ تو کہہ، وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے
دن گزر جائیں ہیں پر بات چلی جاتی ہے

رہ گئے گاہ تبسم پہ، گہے بات ہی پر
بارے اے ہم نشیں اوقات چلی جاتی ہے

یاں تو آتی نہیں شطرنجِ زمانہ کی چال
اور واں بازی ہوئی مات چلی جاتی ہے

روز آنے پہ نہیں نسبتِ عشقی موقوف
عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے

خرقہ، مندیل و رِدا مست لیے جاتے ہیں
شیخ کی ساری کرامات چلی جاتی ہے

ایک ہم ہی سے تفاوت ہے سلوکوں میں میر
یوں تو اوروں کی مدارات چلی جاتی ہے​
 
514

منصف جو تُو ہے، کب تئیں یہ دکھ اُٹھائیے
کیا کیجے میری جان، اگر مر نہ جائیے

تم نے جو اپنے دل سے بھلایا ہمیں تو کیا
اپنے تئیں تو دل سے ہمارے بُھلائیے

فکرِ معاش یعنی غمِ زیست تا بہ کے
مر جائیے کہیں کہ ٹک آرام پائیے

جاتے ہیں کیسی کیسی لیے دل میں حسرتیں
ٹک دیکھنے کو جان بہ لبوں کے بھی آئیے

پہنچا تو ہوگا سمعِ مبارک میں حالِ میر
اُس پر بھی جی میں آوے تو دل کو لگائیے​
 
515

نہیں وسواس جی گنوانے کے
ہائے رے ذوق دل لگانے کے

میرے تغییرِ حال پر مت جا
اتفاقات ہیں زمانے کے

دمِ آخر ہی کیا نہ آنا تھا
اور بھی وقت تھے بہانے کے

اس کدورت کوہم سمجھتے ہیں
ڈھب ہیں یہ خاک میں ملانے کے

مرنے پر بیٹھے ہیں سنو صاحب
بندے ہیں اپنے جی چلانے کے

چشمِ نجم سہپر جھپکے ہے
صدقے اس انکھڑیاں لڑانے کے

دل و دیں، ہوش و صبر سب ہی گئے
آگے آگے تمہارے آنے کے​
 
516

کم فرصتی گُل جو کہیں کوئی نہ مانے
ایسے گئے ایامِ بہاراں کہ نہ جانے

ہمراہِ جوانی گئے ہنگامے اُٹھانے
اب ہم بھی نہیں وے رہے، نَے وے ہیں زمانے

ٹک آنکھ بھی کھولی نہ ز خود رفتہ نے ان کے
ہر چند کیا شور، قیامت نے سرھانے

لوہے کے توے ہیں جگرِ اہلِ محبت
رہتے ہیں تیرے تیرِ ستم ہی کے نشانے

کاہے کو یہ انداز تھا اعراضِ بُتا ں کا
ظاہر ہے کہ منھ پھیر لیا ہم سے خدا نے

ان میں چمنوں میں کہ جنھوں میں نہیں اب چھاؤں
کن کن روشوں ہم کو پھرایا ہے ہوا نے

کب کب مری عزت کے لیے بیٹھے ہو ٹک پاس
آئے بھی جو ہو تو مجھے مجلس سے اُٹھانے​
 
517

پہنچا نہیں کیا سمعِ مبارک میں مرا حال
یہ قصہ تو اِس شہر میں مشہور ہوا ہے

بے خوابی تری آنکھوں پہ دیکھوں ہوں مگر رات
افسانہ مرے حال کا مذکور ہوا ہے

اے رشکِ سحر بزم میں لے منھ پہ نقاب اب
اک شمع کا چہرہ ہے سو بے نور ہوا ہے​
 
Top