انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

ماظق

محفلین
نواؤں میں طرب باقی نہیں ہے
اداسی بے سبب باقی نہیں ہے

مسل ڈالا کسی نے دل کو لے کر
کوئی ارمان اب باقی نہیں ہے

بڑی شوخی سے آئے میکدے میں
مگر مے کی طلب باقی نہیں ہے

کہوں کیسے کہ ہو گا پھر سویرا
بظاہر تو سبب باقی نہیں ہے

نگاہ شوق میں دانش تری اب
وہ پہلا سا ادب باقی نہیں ہے
 

ماظق

محفلین
زندگی زندگی ھی تب ھو گی _ شفیع حیدر دانش

زندگی زندگی ہی تب ہو گی
حاصلِ کائنات جب ہو گی

جھوٹ ہے جو سنا زمانے سے
بات وہ ہے جو زیر لب ہو گی

کچھ تو بولو تمہی شب ہجراں
میری تنہائی دور کب ہو گی

ہم ہیں اور انا کی زنجیریں
اپنی شہرت نہ بے سبب ہو گی

جو کہو سوچ کر کہو دانش
ورنہ ناقدریء ادب ہو گی
 

ماظق

محفلین
لو پھر سے ساتھ چھوٹا گُل ھائے خوشنما کا _ شفیع حیدر دانش

لو پھر سے ساتھ چھوٹا گُل ہائے خوشنما کا
یہ فصل گل بھی یارو جھونکا تھا اک ھوا کا

کیا میں بھی بیٹھ جاؤں سائے میں گیسوؤں کے
کیا شہر دل پہ ہو گا سایہ تری گھٹا کا

انداز گفتگو کا ہو جلترنگ جیسے
لہجے میں تیرے ایسا اک سوز تھا بلا کا

کلیاں نقاب اُلٹیں یا شاخ گل سجائیں
ہر رنگ روپ پر ھے دھوکہ تری ادا کا

یہ کون قہقہوں میں سُر گھولتا رہا ہے
آواز کے سفر میں ہونے لگا چھناکا

دشت وفا میں دل کو جو فرش راہ دیکھا
خونناب ہو رہا ہے ہر زخم نقش پا کا

آنکھوں پہ اس کی یارو ہم کو گماں ہوا ہے
جھیلوں کی دلکشی کا نرگس کی آتما کا

چہرہ ہوا گلابی اور ہونٹ ارغوانی
یہ شوخیء بہاراں یا رنگ ہے حنا کا

جب وہ حیات ہو گی بعد الممات دانش
ملنا ہمارا ہو گا تم سے وہاں سدا کا​
 

ماظق

محفلین
دھوپ کے سیلاب میں سایہ بھی اب بہنے لگا _ شفیع حیدر دانش

دھوپ کے سیلاب میں سایہ بھی اب بہنے لگا
نخل صحرائی کو شیشے کی قبا کہنے لگا

کس قدر سچائی سے شوق گریزاں تھا اسے
اپنے سائے کو بھی وہ اپنا خدا کہنے لگا

اس تواتر سے جگر پر چوٹ کھائی ہے کہ اب
ہر بھلے موسم میں یہ غمگین سا رہنے لگا

شدتِ جذباتِ غم میں کیا سے کیا ہوتا ہے وہ
خون۔ دل بھی اشک بن کر آنکھ سے بہنے لگا

جب سے دانش ہو گیا روزِ جزا پر اعتقاد
آدمی تب دشتِ جاں پر ہر ستم سہنے
 

ماظق

محفلین
کہاں ھے مری منزلوں کے مسافر _ شفیع حیدر دانش

کہاں ہے مری منزلوں کے مسافر
دل ناتواں ہے سمجھنے سے قاصر

شکستہ ملے راستے زندگی کے
بڑھے جس طرف بھی قدم تیری خاطر

چلو ہم بھی دامن امیدوں سے بھر لیں
بکھرنے کو ہیں زندگی کے عناصر

یہ مانا کہ دانش بہت مُستعد ہے
مگر اس سے بڑھ کے زمانہ ہے شاطر
 

ماظق

محفلین
دیکھی ھے جو تیرگی نظر میں _ شفیع حیدر دانش

دیکھی ہے جو تیرگی نظر میں
منزل کا بھی راستہ کہاں ہے

شائد کہ جلے ہیں زخم دل کے
سانسوں میں بسا ہوا دھواں ہے

اشکوں کی جھڑی لگی ہے ایسی
روتا ہوا جیسے آسماں ہے

پہلو میں کبھی تو دل کے دیکھو
چاہت کا یہ دشت بیکراں ہے

آیا جو آندھیوں کی زد پر
بکھرا ہوا اپنا آشیاں ہے

دانش کو نہ تم رقیب جانو
چاہت ہے وہاں پہ یہ جہاں ہے
 

ماظق

محفلین
دل کی روش روش میں تم کو بتائیں کیا تھا _ شفیع حیدر دانش

دل کی روش روش میں تم کو بتائیں کیا تھا
یادوں کی نسترن تھی قربت کا موتیا تھا

ساقی کو دیکھ کر ھی مدہوش ہو گئے تھے
اس درجہ ہم نے جام دیدار پی لیا تھا

کچھ تار اس نے نوچے کچھ موسم جنوں نے
ہم نے بھی چاک دامن بس نام کو سیا تھا

ان قربتوں کا یارو سودا برا نہ سمجھو
نخل وفا کے بدلے دل ان کو دے دیا تھا

وہ نور کی کرن تھی یا جگنوؤں کی مالا
بن حوصلے کے دانش کیوں سامنا کیا تھا
 

ماظق

محفلین
ملگجی شام پھر نہیں آئی _ شفیع حیدر دانش

ملگجی شام پھر نہیں آئی
لے کے دامن میں اپنے رسوائی

کھو چکے ہیں متاع جان و جگر
نزہت بزم کے تمنائی

ہے ہر اک روپ میں ترا پرتو
تُو تو نکلا بڑا ہی ہرجائی

تیرگی وہ ملی شب فرقت
جس سے نرگس بھی خوب شرمائی

یوں کھلے ہیں دریچے یادوں کے
بڑھ گیا اور شوق تنہائی

چھوڑ کر آج لالہ و گل کو
بوئے گلشن بھی کتنی پچھتائی

زیست کی پُرفریب راہوں پر
دل نے چاہی ہے پھر شناسائی

ہے اسیری جو شہر خاموشاں
ہم نے دانش نہ جاوداں پائی
 

ماظق

محفلین
برگد کے پرانے پیڑ تلے پھر دو سائے لہرائے ھیں _ شفیع حیدر دانش

برگد کے پرانے پیڑ تلے پھر دو سائے لہرائے ہیں
دنیا کی نگاہوں سے بچ کر پھر دو دل ملنے آئے ہیں

خوابوں میں خوشبو ہے تیری یادوں کے رنگ بھی دیکھ ذرا
اس دل کے افق پر اے جاناں کب چاند تیرے گہنائے ہیں

یہ دل یہ شام یہ خاموشی تا حد نظر ہے تاریکی
ہم دشت الم سے اے یارو اس پار نہ جانے پائے ہیں

دنیا کی نظر میں دانش کیوں ہم اہل جنوں کہلائے ہیں
ہر خار ملامت کے بدلے ہیں راحت جاں کے پھول ملے
 

ماظق

محفلین
وہ بے نیاز بیٹھے رہے دل لیے ہوئے
اپنی نگاہ ناز کا حاصل لیے ہوئے

یہ کون فاصلوں کو ہی مہمیز کر گیا
راہیں رواں دواں رہیں منزل لیے ہوئے

آزادئ جنوں کے وہ موسم گزر گئے
بکھری ھے زلف یار سلاسل لیے ہوئے

گھونگھٹ اٹھا رہی ہے جو دانش ردائے شام
بدلی کی اوٹ میں مہ کامل لیے ہوئے
 

الف عین

لائبریرین
یہ کون سے آتش ہیں؟ خواجہ حیدر علی کا تو کلام نہیں لگتا!!
ماظق، کلام تو اچھا ہے، لیکن آپ چھوٹی ہ کی جگہ ھ ٹائپ کر رہے ہیں‌ (اگر کاپی پیسٹ نیں کر رہے تو( ہ ‘اوُ کی کنجی پر ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہ کون سے آتش ہیں؟ خواجہ حیدر علی کا تو کلام نہیں لگتا!!
ماظق، کلام تو اچھا ہے، لیکن آپ چھوٹی ہ کی جگہ ھ ٹائپ کر رہے ہیں‌ (اگر کاپی پیسٹ نیں کر رہے تو( ہ ‘اوُ کی کنجی پر ہے

اعجاز صاحب یہ "آتش" نہیں "دانش" ہیں۔
 

mfdarvesh

محفلین
شکریہ اچھی کولیکشن ہے۔ برگد سے مجھے بھی ایک شعر یاد آرہا ہے
(معذرت سے
برگد کے پرانے درخت تلے ہم عشق لڑایا کرتے تھے
تم بھانڈے مانجھا کرتی تھی ہم مجھ نہوایا کرتے تھے
 

ماظق

محفلین
راہیں غمِ حیات کی آساں ہیں دوستو
نظریں کسی پہ آج غزلخواں ہیں دوستو

دلدل میں تیرگی سے ملے نور کی ردا
شہروں کے گرد شہر خموشاں ہیں دوستو

نازاں ہیں جو شباب میں حسن و جمال پر
تجریدِ برگِ گُل پہ ہراساں ہیں دوستو

ارمان کی چتا پہ شرربار ہو کے وہ
خود سوزئ بہار پہ خنداں ہیں دوستو

ھر موجِ آب پہ گماں صحرا کی دھول کا
ھم اس نظر کی بھول پہ حیراں ھیں دوستو

ھر زخمِ دل سجاؤ پذیرائی کے لئے
غم ہائے لطفِ یار تو مہماں ہیں دوستو

جاتی ہوئی بہار بھی دامن نہ سی سکی
کب سے جنوں میں چاک گریباں ہیں دوستو

شعلہ بدن ہیں جس سے ہوئے لالہ و گلاب
ہم پہ بھی اس بہار کے احساں ہیں دوستو

دانش کو کس نے بخشے ہیں اس درجہ رتجگے
آنکھیں یہ کس کی راہ میں گریاں ہیں دوستو
 

ماظق

محفلین
اپنا تو ھے اتنا کہنا
ھر غم یارو ھنس کے سہنا

میل ملن کی رت آنے دو
تھم جائیں گے آنسو بہنا

قوس قزح کا ہار فلک نے
برکھا رت کے ہاتھوں پہنا

پھر سے پت جھڑ کے موسم نے
نوچ لیا پیڑوں کا گہنا

چاہت کے ہر غم کو سہہ کر
دانش تم خاموش ہی رہنا
 

ماظق

محفلین
دیا نام الفت کا آؤ جلا لیں
دلوں کی کدورت کو دل سے نکالیں

بڑے زور پر ہے سمندر وفا کا
بڑھیں اور موجیں گلے سے لگا لیں

ابھی تازہ دم ہے یہ بستی وفا کی
چلو آؤ چاہت کی کھیتی اگا لیں

کڑی دھوپ کا سامنا ہے جنوں کو
کہو ان سے کاکُل کا سایہ تو ڈالیں


گزر ہی گئیں منزلیں آگہی کی
خرد کی بلاؤں سے پیچھا چھڑا لیں


انہی کو مبارک فتوحات الفت
ستارے جفا کے بدن پر سجا لیں

جڑیں جسکی پہنچی ہیں پاتال جاں تک
وہ نخل وفا ہے خزاں سے بچا لیں


بچھڑنا مقدر سہی یہ بھی جانا
ملے ہیں تو آؤ گلے سے لگا لیں


اناڑی ہے دانش ابھی میکدے میں
قدم ڈگمگائے ہیں یارو سنبھالیں


نکالے جو دل سے غبار تمنا
اسی رسم الفت کو دانش نبھالیں
 

ماظق

محفلین
صحرا سے جنگلوں سے نکلتی چلی گئی
تنہائیوں کی رات گزرتی چلی گئی

کن راستوں سے ہو کے وہ یاد برھنہ پا
چپکے سے جان و دل میں اترتی چلی گئی

زخم جگر کی تازگی ٹھہری ندیم راہ
ہر رہگزار یاد نکھرتی چلی گئی

چرخ کہن کے شیشے پہ تصویر وہ بنی
دانش دل و نظر میں اترتی چلی گئی
 

ماظق

محفلین
میراث فصل گل ھے تیرا بانکپن تمام
افشا یہ راز کر گئی موج ہوائے شام

کس بےرخی سےیار نے شانے جھٹک دئیے
دوران گفتگو بھی جو آیا تمھارا نام

اک ربط مُستمر سے یہ پہچان تو ہوئی
خنداں ھے ہار کے بھی عشق نیک نام

محو طواف تھیں نظریں رقیب کی
وہ پھر بھی لے گئے مری آنکھوں کا پیام

لیلائے شب کو دیکھئیے گزری ہے اس طرح
جیسے عروس صبح کو ہو آحری سلام

سوئی نہیں فراق میں کلیاں تمام رات
گلشن میں ہم نے دیکھا ہےایسا بھی انتظام

یہ زندگی یہ موت یہ محشر کے سلسلے
دانش ملا ھے ہم کو یہ جیون بھی ناتمام
 

ماظق

محفلین
شاکی کچھ اس لئے بھی نہیں ہم نصیب کے
محفوظ بام و در بھی کہاں ہیں رقیب کے

دل کا دیا جلایا تو تنہائیاں بڑھیں
کچھ اور دور ہو گئے سائے قریب کے

کیا اپنے حرف سادہ کو خاطر میں لائے وہ
بیٹھا ہے جو سمجھ کے اشارے رقیب کے

بیمار عشق چل دیا حسرت لئے ہوئے
کتنے نرالے ہوتے ہیں درماں طبیب کے

اس شمع رو کے قرب کا اعجاز دیکھنا
کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے نصیب کے

دانش ہماری آہ و فغاں رائیگاں گئی
نالے مگر عزیز ہوئے عندلیب کے
 
Top