انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

ماظق

محفلین
گھروندے بھی تم نے بنائے تو ہوں
حسین خواب ان میں سجائے تو ہوں گے

چرا کے ترے شوخ آنچل کے سائے
بہاروں نے اکثر بچھائے تو ہوں گے

کبھی تیرگی غم کی چھائی جو ہو گی
دیئے چشم نم نے جلائے تو ہوں گے

مرے حرف سادہ کا پیغام پڑھ کر
وہ کچھ دیر تک مسکرائے تو ہوں گے

نہیں آئے دام محبت میں دانش
ہنر اس نے سب آزمائے تو ہوں گے
 

ماظق

محفلین
اشکوں کو خون دل سے سجاتے رہے ہیں ہم
اس حال میں بھی تجھ کو ہنساتے رہے ہیں ہم

تو بھی،تیرا خیال بھی اپنا نہ ہو سکا
گو شمع آرزو تو جلاتے رھے ہیں ہم

چرخ کہن نے دیکھی ہے خوداریء جنوں
تیغ سخن سے سر کو کٹاتے رہے ہیں ہم


ہاں عاصیوں کا حشر میں کچھ تو رہے خیال
قسمیں تیرے شعار کی کھاتے رہے ہیں ہم

یادوں کی داستاں بھی مرتب نہ ہو سکی
ہوش و حواس اپنے گنواتے رہے ہیں ہم

محو نشاط اب بھی ھے چاہت کی رہگزار
نیرنگئ جہاں کو بڑھاتے رہے ہیں ہم

موسم کے ہاتھ کر گئے پیڑوں کو بے لباس
تہذیب جانے کس کو سکھاتے رہے ہیں ہم

گزرے کبھی نہ پاس سے خوشیوں کے قافلے
دانش کو اشکبار ہی پاتے رہے ہیں ہم
 

ماظق

محفلین
اب کے تنہائی کیسے در آئی
دل کی دھلیز پر اُتر آئی

ہو پذیرائی جیسے یادوں کی
آنکھ میں یوں نمی اُتر آئی

جان اس زندگی کے درپن میں
تجھ سی صورت نہ پھر نظر آئی

روشنی جو بٹی ستاروں میں
تیرگی بن کے یوں اُبھر آئی

تجھ سے بچھڑا تو یوں ہوا دانش
ایک بے نام سی خبر آئی
 

ماظق

محفلین
ذرا روپ اپنا لٹاؤ تو جانیں
کبھی ہم کو مجنوں بناؤ تو جانیں

ہو تم کس قدر ھم سے چاھت کے طالب
فصیلِ انا کو گراؤ تو جانیں

جسے لے اڑی ھیں زمانے کی رسمیں
وھ چاہت کا نغمہ سناؤ تو جانیں

نشاط چمن ہے کلی کا تبسم
ہمیں کیا خبر،مسکراؤ تو جانیں

سنا ھے کہ قربت تمہاری حسیں ھے
کبھی دل کی دنیا بساؤ تو جانیں

ہے کس کے تصور میں مدہوش دانش
ذرا ہوش میں اس کو لاؤ تو جانیں
 

ماظق

محفلین
رخسار یار پر ھے غازہء گلاب
کیا خوب ھے بہار کا یہ حسن انتخاب

فرقت میں آہ و اشک بھی بیکار ھی گئے
کم ہو سکا نہ سینہء ہستی کا التہاب

نیندوں کو رت جگے کی قبا لپیٹ کر
آنکھوں میں آ بسے ھیں ہزاروں حسیں خواب

کچھ ہم بھی تیزگام نہ تھے راہ شوق میں
کچھ اپنے حال پہ رہا احباب کا عتاب

حیرت کے آبگینوں کو رکھنا سنبھال کر
کس لمحہ کون جانے وہ ہو جائے بے حجاب

الجھی ھے آسمان سے پھر مہر کی شعاع
پھر آسماں سے گرنے لگا سرخ رنگ آب

دانش دیار شوق میں ہم عمر بھر جیئے
کیا ہو گا روز حشر جو مانگے گا وہ حساب
 

ماظق

محفلین
لب ساتھ دیں گے پھر بھی کوئی بات نہ ھو گی
پلکوں سے آنسوؤں کی ملاقات نہ ھو گی

اشکوں سے تر بہ تر ہےوہ نرگس تو دیکھیئے
کہتے ہیں بن گھٹاؤں کے برسات نہ ہو گی

گُل گُو نہ ہو گی ڈولی، عروس بہار کی
گلہائے خونچکاں کی جو بارات نہ ہو گی

وہ مہ جبیں جو آئے سربام دیکھنا
ڈھل جائے آفتاب مگر رات نہ ہو گی

بے کیف سا لگے گا دانش کا بانکپن
شامل جواس کی ذات میں وہ ذات نہ ہو گی
 

ماظق

محفلین
اب کے برس بھی ساون ہم کو دیکھو خون رلائے گا
برسوں پہلے بچھڑا ساتھی رہ رہ کر یاد آئے گا

دیوانے کے خرمن جاں سے خون کے جھرنے بہنے دو
صحراؤں کی دھول پہ اپنا نام تو لکھا جائے گا

یادوں کے سونے آنگن میں کب تو ملے گا یہ تو بتا
تیرے وعدوں کا سورج بھی آخر کو گہنائے گا

صحراؤں کے در پہ یارو درباں لاکھ بٹھاؤ مگر
دیوانہ، دیوانہ ٹھہرا ہر سو خاک اڑائے گا

گلشن گلشن مت جانا تم ان رنگین بہاروں میں
کومل کومل مکھڑا پا کر ہر اک گل شرمائے گا

اس دل کی وادی میں دانش جس کو آن بسایا تھا
ہم کو کیا معلوم تھا اس پر دل اتنا پچھتائے گا
 

ماظق

محفلین
رات آنکھوں میں ایک سپنا تھا
دور رہ کر بھی کوئی اپنا تھا

تیرے دیدار کی خبر پا کر
آج ہی چاند کو چمکنا تھا

قافلے دور تھے بہاروں کے
شاخ گل کو کہاں پنپنا تھا

تاب دیدار تھی کہاں دانش
بس کنکھیوں سے ان کو تکنا تھا
 

ماظق

محفلین
ہم کو گلا نہیں ہے دل بیقرار سے
کچھ ہے اگر تو قطرہء خوں کے شرار سے

موج ہوائے شام سے معلوم یہ ہوا
مرنا برا نہیں ھے تیرے انتظار سے

دست خزاں نے نوچ کے ناسور کر دیئے
وہ زخم نو جو پائے تھے فصل بہار سے

دل کے نگر میں وہ تری سانسوں کا ارتعاش
خوشبو لٹا رہا ہے قرب و جوار سے

ہر شاخ آرزو پہ ہیں چاہت کے گھونسلے
دل ڈر رھا ھے گردش لیل و نہار سے

دانش جہاں سے گزرا ہے ہستی کا قافلہ
کیوں نقش پا مٹاتے ہو اس رہگزار سے
 

ماظق

محفلین
موت جوں جوں قریب آتی ہے
عمر رفتہ بہت ستاتی ہے

چاند تاروں کی بزم حیرت میں
تیری صورت کسی کو بھاتی ہے

زندگی کے دوام کی خاطر
موت ہر اک بشر کو آتی ہے

کوئی نازک خرام ہو گزرا
وقت کی چال یہ بتاتی ہے

عشق بھی کھیل ہے عجیب دانش
دل کی دنیا لٹائی جاتی ہے
 

ماظق

محفلین
اس اجنبی کی چاہت میں کیا ملا بتائیں
دامن میں زندگی کے کچھ اشک اور آہیں

ہیں شام کے بدن پر بھیگی ہوئی قبائیں
پھر رات بھر چلیں گی یہ شبنمی ہوائیں

اب تُو نہیں تو جاناں کس کام کی یہ محفل
پھر سے حریم دل کو کس کے لیے سجائیں

ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہم بے نیاز گھومے
دیتی رہیں صدائیں پردیس کی ہوائیں

وہ رتجگے کی صورت آنکھوں میں بس گیا ھے
خوابوں میں کیسے دامن الفت کا ہم بچھائیں

دشت وفا کے راہی جانبر نہ ہو سکیں گے
برسے بنا جو گزریں اس زلف کی گھٹائیں

تنہائی کے کہر میں ڈوبی ھے رات دیکھو
یادوں کے جگنوؤں کو ہم کس جہت اڑائیں

روئے زمیں سجا ہے گلہائے رنگ و بو سے
آ دل کی ہر روش کو رشک چمن بنائیں

دانش حسین یادوں سے کب تلک مفر ہو
ہر جنبش قلم پر پابہ رکاب جائیں
 

ماظق

محفلین
ہم شش جہات گھومے پایا نہیں خدا سا
وہ ہے قرین جاں ،پر لگتا ہے ماورا سا

کس کام کی تشفی کس کام کا دلاسا
ہم کو ملا ہے یارو کچھ دل ہی منچلا سا

اب کے برس نہ دیکھی رنگینئ بہاراں
شاخیں خزاں رسیدہ ہر پھول ادھ کھلا سا

اپنا بھرم گنوایا کچھ ہاتھ بھی نہ آیا
صحرا بھی ہم سے برسوں کرتا رہا گلا سا

ان سے بچھڑ کے دانش یوں لگ رہا ہے جیسے
اپنا بھرے جہاں مین کوئی نہیں شناسا
 

ماظق

محفلین
موت جوں جوں قریب آتی ہے
عمر رفتہ بہت ستاتی ہے

چاند تاروں کی بزم حیرت میں
تیری صورت کسی کو بھاتی ہے

زندگی کے دوام کی خاطر
موت ہر اک بشر کو آتی ہے

کوئی نازک خرام ہو گزرا
وقت کی چال یہ بتاتی ہے

عشق بھی کھیل ہے عجیب دانش
دل کی دنیا لٹائی جاتی ہے
 

ماظق

محفلین
اس اجنبی کی چاہت میں کیا ملا بتائیں
دامن میں زندگی کے کچھ اشک اور آہیں

ہیں شام کے بدن پر بھیگی ہوئی قبائیں
پھر رات بھر چلیں گی یہ شبنمی ہوائیں

اب تُو نہیں تو جاناں کس کام کی یہ محفل
پھر سے حریم دل کو کس کے لیے سجائیں

ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ھم بے نیاز گھومے
دیتی رہیں صدائیں پردیس کی ہوائیں

وہ رتجگے کی صورت آنکھوں میں بس گیا ھے
خوابوں میں کیسے دامن الفت کا ہم بچھائیں

دشت وفا کے راہی جانبر نہ ہو سکیں گے
برسے بنا جو گزریں اس زلف کی گھٹائیں

تنہائی کے کہر میں ڈوبی ہے رات دیکھو
یادوں کے جگنوؤں کو ہم کس جہت اڑائیں

روئے زمیں سجا ہے گلہائے رنگ و بو سے
آ دل کی ہر روش کو رشک چمن بنائیں

دانش حسین یادوں سے کب تلک مفر ہو
ہر جنبش قلم پر پابہ رکاب جائیں
 

ماظق

محفلین
ہر رت گزر گئی ہے مگر دل اداس ہے
موسم ترے ملاپ کا بس اس کو راس ہے

احساس کی قبا کو لہو میں ڈبو لیا
ساماں ترے نشاط کا سب میرے پاس ہے

تہذیب نو پہ آ گئے پت جھڑ کے سلسلے
مثل شجر ہر ایک یہاں بے لباس ہے

شاید متاع دل انہی راہوں پہ کھو گئی
پچھلے پہر کے چاند کا چہرہ اداس ہے

مرنے کی آرزو بھی ہمیں سے ہوئی ہے عام
دانش ہمارا دل تو سدا سے اداس ہے
 

ماظق

محفلین
دل اس کی قربتوں کا طلب گار بھی نہیں
اس کی گلی میں جانے سے انکار بھی نہیں

رنگینئ جہان فقط ترے دم سے تھی
سونی فضا میں اب کوئی جھنکار بھی نہیں

کیوں آ رہا ہے وہ ترے گیسو سنوارنے
تو اس کی چاہتوں میں گرفتار بھی نہیں

اچھا ہے دل کا حال نگاہوں سے کہہ دیا
ہاں ان لبوں کو عادت گفتار بھی نہیں

منزل پہ قافلے تو پہنچ جائیں گے مگر
راہیں جنون شوق کی ہموار بھی نہیں

کہتے سنا ہے ان سے یہ غیروں کے روبرو
دانش سا اور کوئی مرا یار بھی نہیں
 

ماظق

محفلین
دل جسے کہتے ہو یارو کوچہ تنہائی ہے
اور فروغ غم کی خاطر تیرگی در آئی ہے

اک زمانہ تھا کہ ہر سو تھیں تری مہ تابیاں
اب شب فرقت میں تیری یاد بھی گہنائی ہے

تیری صورت بھی تو طفلان چمن میں بٹ گئی
ہم سر بازار آ بیٹھے ہیں تو ہرجائی ہے

کیسا سناٹا ہے یہ گوش ملامت کچھ بتا
اب کہاں وہ گیت ہیں اور اب کہاں شہنائی ہے

ہم کو دانش راس آئے ہیں جنوں کے سلسلے
رسم الفت کو نبھانے میں بڑی رسوائی ہے
 

ماظق

محفلین
مجھے سکھاؤ نہ یارو چلن ستاروں کے
بتاؤ معنی و مطلب حسیں اشاروں کے

پیام صبح تو اے ہم قفس نہیں آیا
فلک پہ گل ہیں ہوئے دیپ بھی ستاروں کے

ترے فراق میں ہم گرچہ جان سے گزرے
ہیں شہر دل پہ نشاں پھر بھی رہگزاروں کے

بہت عروج پہ ہے شدت جمال ترا
دھڑک رہے ہیں یہ سینے جو فن کے پاروں کے

غریق آب ہوئے تھے فریب ساحل پر
بڑھے نہ جانب دریا قدم کناروں کے

ہوائے شام کو سمجھاؤ کچھ تمہی دانش
اڑائے پھرتی ہے آنچل یہ پردہ داروں کے
 

ماظق

محفلین
اکھیوں کی جھیل کے کنارے
اشکوں نے دن بہت گزارے

لمحوں پہ ہے بس کہاں بشر کا
اُس عمر کو کس طرح پکارے

نوچی ہیں پتیاں شجر کی
موسم نے دلگی کے مارے

اپنی آرزدگی کا موجب
تیری محبوبیاں ہیں پیارے

بھولے سے کہکشاں زمیں پر
کرنوں کے تھال تو اتارے

پھیلے ہیں تیرگی کے جنگل
جیسے ہوں دشت جاں ہمارے

تھوڑا رک جا میرے مسافر
بکھرے ہیں ریت پر شرارے

سورج کے کھلتے شکم میں
دانش ہیں نام کو حرارے
 
Top