انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

ماظق

محفلین
جہان نمو کی عجیب ہیں ادائیں
کہیں غم کے صحرا کہیں سکھ کی بانہیں

کہیں پھر نہ جائیں رُتیں چاہتوں کی
چلو کشت جاں پر محبت اگائیں

غموں کے تواتر کا اک سلسلہ ہے
کسے یاد رکھیں کسے بھول جائیں

جنہیں ہم نے جگنو سمجھ کر سمیٹا
وہ یادیں ہمارا ہی دامن جلائیں

اندھیری رتوں سے دلوں کو بچا کر
لہو سے سر شام دیپک جلائیں

سنا جب سے جنت میں حوریں ملیں گی
تہی دست دیکھیں حسینوں کی بانہیں

اڑانیں محبت کی دانش عجب ہیں
بلندی پہ لے جا کے نیچے گرائیں
 

ماظق

محفلین
نقشہ مرے نگر کا مقتل سا چار سو ہے
ہر مُشت خاک دیکھو کیسی لہو لہو ہے

اب کے برس بہاریں جانے کہاں گزاریں
ہر پھول کی زباں پر پیہم یہ گفتگو ہے

لیلٰی نے توڑ دالا جو کاسہء گدائی
پوشیدہ اس جنوں میں مجنوں کی آبرو ہے

بازی میں جان جاناں سب کچھ ہی ہار بیٹھا
اب آخرت کی پونجی بس ایک تو ہی تو ہے

ہر شام لوٹ آتی ہیں کربلا کی یادیں
دیکھو شفق کے چہرے پہ جابجا لہو ہے

ساگر میں روپ کے پھر ڈولے ہے دل کی کشتی
عہد شباب کیا ہے طوفان رنگ و بو کیا ہے

جنت نظیر دانش دنیا کی وسعتیں ہیں
خلوت کے باسیوں کی کچھ اور جستجو ہے
 

ماظق

محفلین
صحرا نوردیوں کا صِلہ بھی نہ مل سکا
خونِ جگر سے لالہء صحرا نہ کھِل سکا

آنکھوں میں وہ سجائےہےصدیوں سےمیکدے
یہ اور بات ہے اُسے میکش نہ مل سکا

چارہ گروں کے ہاتھ میں تھی سوزنِ حیات
پھر بھی ہماری زیست کا دامن نہ سِل سکا

یوں تو میرے مسیحا کے خنجر تھے تابدار
پاتالِ جاں میں درد کا کانٹا نہ مِل سکا

صبحِ اُمید ڈھل گئی دانش ہوئی ھے شام
نخلِ مراد پہ کوئی غُنچہ نہ کھِل سکا
 

ماظق

محفلین
دیکھوں فلک کے پار تو دوری کا ہو گماں
تیرے لئے تو ذرہ ہے دنیائے بیکراں

مقدور بھر تمام عناصر میں نُور ہے
ادراک تیرے نُور کا مخلوق کو کہاں

بچھڑا جو تُو تو اشک بھی ہونے لگے رواں
جیسے سمجھ لیا ہو تجھے میرِ کارواں

یہ جان کر کہ عالمِ ہستی ہے چار دن
کچھ اور بڑھ گئی ھے یہ رنگینئی جہاں

ہم سے ہوائے شام میں کب جل سکا چراغ
لوگوں سے زیر ہو گئیں پُرزور آندھیاں

اِک ہاتھ میں قلم ہے تو اِک میں لیے انا
یوں سوئے دار چل دیا دانش کشاں کشاں
 

ماظق

محفلین
ہجر میں بھی عجب سماں پایا
تجھ کو یادوں کے درمیاں پایا

چارہ گر نے تِرے حوالے سے
دِل کے داغوں کو جاوداں پایا

عِشق میں ہر مقام پر یارو
حُسنِ نازاں کو بدگماں پایا

کیا صفائی ھے دستِ قدرت میں
ایک ذرے میں بھی جہاں پایا

جب دُکھوں میں سکون تھا دانش
راحتوں کو وبالِ جاں پایا
 

ماظق

محفلین
فُرقت میں بازی لے گیا تُجھ سے تِرا خیال
میں ہوں تِرا خیال ہے کُچھ بھی نہیں ملال

ہر شے فنا کی آگ میں یوں چیختی رہی
جِس ذات کو بقا ھے وہ ہے ربِ ذُوالجلال

کُچھ اِس طرح سجی ہے مِری چشمِ اشکبار
سب ہی رُتوں پہ چھا گئی ہو جیسے برشگال

کیا پھر کبھی سُنیں گے یہی سوچتے رہے
جیسی کہ دے گئے ھیں اذاں حضرتِ بلال

نظریں اٹھا کے دیکھنا دانش بجا نہیں
لازم ھے عشق کے لئے بھی حسنِ اعتدال
 

ماظق

محفلین
صُبح ڈُوبا تو ہر اِک شام اُبھر آتا ہے
چاند آنگن سے تِرے اور جلا پاتا ہے


تجھ سےبچھڑےتو یہ کچھ اور بھی ہوتا ہےمُہیب
دِل کے ویران جزیروں میں جو سناٹا ہے


کتنے کم ظرف ہیں بادل جو برس جاتے ہیں
اپنی آنکھوں میں تو سیلاب سمٹ آتا ہے


ڈُوبتا دیکھ کے , ساحِل بھی بہت دور ہوئے
کون کہتا ہے کہ ساگر ہی سِتم ڈھاتا ہے


لمحہ لمحہ نئے افکار جنم لیتے ہیں
پھر بھی دانش تیرے پیماں سے بہل جاتا ہے
 

ماظق

محفلین
اپنا وہ گِر نہیں ہے تو کیا غم ہے دوستو
خوابوں میں مِلنے آئے یہ کیا کم ہے دوستو

روتی رہیں فراق میں کلیاں تمام رات
صبحِ نشاط نے کہا شبنم ہے دوستو

پنچھی جو گیت گاتےہیں جھرنوں کےساز پر
دنیائے بیکراں کا یہ سرگم ہے دوستو

آنے لگی ہے دور سے پائل تری صدا
تنہائیوں کا شور بھی مدّہم ہے دوستو

رکھنا ذرا سا گردشِ دوراں کو تھام کر
اُن سے مِرے ملاپ کا موسم ہے دوستو

ٹکرا رہی ہیں آج جو پیڑوں کی ٹہنیاں
شاید خزاں کی جِیت کا ماتم ہے دوستو

راہِ وفا میں ہم نے سبھی کچھ لُٹا دیا
پھر بھی مزاج یار کا برہم ہے دوستو

رُوندے ہیں یوں تو پائے جُنوں نخل و ریگزار
اونچا جنونِ عشق کا پرچم ہے دوستو

دانش اُنہیں بھی آج ہوئی ہے تِری تلاش
احسان اُن کا اور یہ کیا کم ہے دوستو​
 

ماظق

محفلین
ستم ظریفیء اہلِ چمن کی بات کرو
گُلوں کی،خار کی،اور پیرھن کی بات کرو

دُھوئیں میں گِھر گئی یارو وفا کی ہر منزل
نہ بار بار سٌلگتے بدن کی بات کرو

گُماں میں آئے ہیں پھر ندرتِ جمالِ یار
ہر اِک جہت سے اُسی بانکپن کی بات کرو

غموں کے قافلے ہیں قحطِ اشک سے نالاں
وفور اشک کے ہر اِک جتن کی بات کرو

کھِلیں گے سوچ کی بگھیا میں پھر سمن دانش
ہر ایک رُت اُسی غُنچہ دھن کی بات کرو
 

ماظق

محفلین
صحرا نوردیوں میں گرفتار دیکھنا
ٹھوکر میں آئیں گے مِری گُلزار دیکھنا

اپنی تو روز و شب یہی عادت ہے دوستو
غم ہائے روزگار کے انبار دیکھنا

تنہائیوں کی شامِ غم روزگار بھی
یادوں کی ہو گی اور بھی یلغار دیکھنا

بے سود آئے ہیں وہ مسیحائی کے لئے
جانبر نہ ہو سکے گا یہ بیمار دیکھنا

دانش ہُوا جو آبلہ پا اور شکستہ دِل
چاہا ہے اِس طرح بھی رُخِ یار دیکھنا
 

ماظق

محفلین
تیغِ نظر سے دِل پہ کئی وار کر گئے
یوں زِندگی کو اور بھی دشوار کر گئے

بازو بھی اُس رقیب کے سفاک تھے بہت
میرے دِل و دماغ کو بیکار کر گئے

گُزرے دیارِ یار سے جتنے بھی قافلے
راہیں جنوں کی اور بھی ہموار کر گئے

وہ بھی سدا سےمنزلِ حق کی اساس تھے
بازی جو زِندگی کی یہاں ہار کر گئے

آئےوہ جب کبھی بھی مسیحا کےرُوپ میں
مجھ ناتواں کو اور بھی بیمار کر گئے

آزاد پنچھیوں کی ہے دانش کہاں اُڑان
وہ گیسوؤں میں اور گرفتار کر گئے
 

ماظق

محفلین
خواب غمِ حیات کی تعبیر دیکھئے
ہر اِک جہت سے موت کی تصویر دیکھئے

تنقیدِ دوستاں سے جو فُرصت مِلے کبھی
خود اپنی آنکھ میں پڑا شہتیر دیکھئے

لشکر کشی سے رنگِ حنا ھے ردائے شام
کرنیں لیے ہیں نیزہ و شمشیر دیکھئے

ہر برگِ گُل پہ لِکھا ہے بادل نے السّلام
قوسِ قزح کی شوخیء تحریر دیکھئے

چُپکےسےسر جُھکا کےوہ صحرا کو چل دیئے
دانش فرارِ غم کی یہ تدبیر دیکھئے
 

ماظق

محفلین
دریچے بہاروں کے وا ہو گئے یں
عنادل گُلوں پر فدا ہو گئے ہیں

چلو ہم نے معراج اُلفت کی پا لی
ملے بھی نہیں کہ جُدا ہو گئے ہیں

کسی نے انہیں کم نگاہی سِکھا دی
وہ غیروں سے کیوں آشنا ہو گئے ہیں

جو سر تیری دہلیز پر آ جھُکا ہے
مظالم اسی پر روا ہو گئے ہیں

بِتائے تھے ہم نے جو آنسو بہا کر
وہ لمحے بڑے جانفزا ہو گئے ہیں

ہے کیسا کرم تیری نظرِ کرم کا
رقیبِ کہن ہمنوا ہو گئے ہیں

قبائے جگر کو ، ذرا سی لو دانش
شگاف اس میں اب جا بجا ہو گئے ہیں
 

ماظق

محفلین
ہم نے تو تِری راہ میں نیناں بِچھا دیئے
درینہ آرزؤں کے دِیپک جلا دیئے

خونِ جگر سے سینچا ہے دشتِ حیات کو
ہم نے جہاں میں لالہ و گُل کھِلا دیئے

تیرہ بنوں میں جب گئی تنہائیوں کی رات
ہم نے تمہاری یاد کے دِیپک جلا دیئے

تاریکیوں میں جب بھی گھِرا دِل کا آسماں
سب نے دیے لہو کے سروں پر سجا دیئے

صبحِ ازل سے ہو ہی گئی شام ناتمام
سورج نے لاکھ نُور کے چشمے بہا دیئے

بستی بسانا کھیل نہیں یارِ خوش دیار
اہلِ جُنوں کو دیکھ کہ صحرا بسا دیئے

دیکھا جو تیرے رُُوپ کے ساگر کو موجزن
دانش نے تجھ پہ اشک کے موتی لُٹا دیئے
 

ماظق

محفلین
ابھی زخمِ دِل مندمل ہو نہ پائے
تری یاد نے پھر سے توشک لگائے

زمیں کے نظاروں کو تکنے لگی ہے
افق کی جبیں سے کِرن سر اُٹھائے

بہت مِل رہے ہیں مری چشمِ تر سے
گھنے شاخساروں کے نمناک سائے

فرِشتوں سے پوچھو کہ روزِ ازل سے
ہُنر بندگی کے ہمیں نے سکھائے

ہمیں تیرے کوچے کی شام و سحر سے
کہیں بڑھ کے دشتِ جُنوں راس آئے

ذرا اوڑھ لے تو جو پلکوں کی چادر
کِسے حوصلہ تابِ دیدار لائے

بہت تلخ و شیریں ہے دانش کا لہجہ
سُنیں ہم بھی جیون کتھا، وہ سُنائے
 

ماظق

محفلین
وہ آنسوؤں کی جھیل میں کھِلتے ہوئے کنول
تجھ پر نظر جمائے ہیں اے دِل ذرا سنبھل

ہم جستجوئے یار میں مفلوج کیا ہوئے
اب پیکرِ خیال بھی ہونے لگا ہے شل

آ جا کہ تیرے نام کروں یارِ خوش دیار
گنجینہء خیال میں اُبھری ھے جو غزل

دیکھو ذرا سنبھال کے اے دستِ ناشناس
اس شیشہء حیات کا کوئی نہیں بدل

ڈھونڈوں گا میں عروسِ چمن کو ہر ایک گام
دانش اِسی خیال میں گُم ہوں میں آج کل
 

ماظق

محفلین
جینا وبال کر دیا دِل کی پُکار نے
تھاما جو ہاتھ بھی مرا صبر و قرار نے

اتنا بڑھے کہ موجِ ملامت سے جا مِلے
رسوا ہمیں کیا ہے اُسی اختیار نے

تو کیا جُدا ہوا کہ نگاہیں ہوئیں اُداس
جھرنے بہا دیے ہیں دلِ بیقرار نے

دانش مسافتیں بھی ہوئیں دل کی ہم پہ شاق
راہِ وفا میں لُوٹ لیا رہگزار نے
 

ماظق

محفلین
پیار کے جزیرے میں خوشبؤں کی راہیں ہیں
چاہتوں کی نگری میں کیا عجب فضائیں ہیں

تجھ پہ جاں لُٹا بیٹھے قافلے بہاروں کے
پھول جیسا چہرہ ہے شاخِ گُل سی بانہیں ہیں

سُوندھی سُوندھی خوشبو ہے دیس کی ہواؤں میں
چشمِ بد نہ لگ جائے سب کی یہ دعائیں ہیں

خوف و یاس کا سورج آج بام و در پہ ہے
زندگی کی راہوں میں سینکڑوں بلائیں ہیں

بات اس مہ گُل کی کیا بتاؤں اے یارو
دلکشی ہے لہجے میں شوخ سی ادائیں ہیں

سائے میں تمدن کے وحشیوں کا ڈیرہ ہے
شہر اور بن میں اب ایک سی وبائیں ہیں
 
Top