انتخاب قابل اجمیری

نوید صادق

محفلین
شوق ہو راہنما تو کوئی مشکل نہ رہے
شوق مشکل سے مگر راہنما ہوتا ہے
رخصتِ دوست پہ قابل دلِ مایوس کو دیکھ
اک سفینہ ہے کہ ساحل سے جدا ہوتا ہے
 

نوید صادق

محفلین
ہمیشہ شمع بھڑکے گی، سدا پیمانہ چھلکے گا
تری محفل میں ہم چھوڑ آئے ہیں جوشِ بیاں اپنا
جمالِ دوست کو پیہم نکھرنا ہے، سنورنا ہے
محبت نے اٹھایا ہے ابھی پردہ کہاں اپنا
 

نوید صادق

محفلین
بہت ہیں میکدے میں لڑکھڑانے جھومنے والے
وقارِ لغزشِ پیرِ مغاں کچھ اور ہوتا ہے
بہت دلچسپ ہیں ناصح کی باتیں بھی مگر قابل
محبت ہو تو اندازِ بیاں کچھ اور ہوتا ہے
 

نوید صادق

محفلین
جانے کیا ہو پلک جھپکنے میں
زندگی جاگتی ہی رہتی ہے
جھوٹے وعدوں کی لذتیں مت پوچھ
آنکھ در سے لگی ہی رہتی ہے
 

نوید صادق

محفلین
دن نکلتا ہے کس تمنا میں
رات کس آسرے پہ آتی ہے
جب وہ گیسو بکھیر دیتے ہیں
زندگی راہ بھول جاتی ہے
 

نوید صادق

محفلین
وہ ہر مقام سے پہلے وہ ہر مقام کے بعد
سحر تھی شام سے پہلے سحر ہے شام کے بعد

مجھی پہ اتنی توجہ مجھی سے اتنا گریز
مرے سلام سے پہلے مرے سلام کے بعد

چرغِ بزمِ ستم ہیں ہمارا حال نہ پوچھ
جلے تھے شام سے پہلے بجھے ہیں شام کے بعد

یہ رات کچھ بھی نہیں تھی یہ رات سب کچھ ہے
طلوعِ جام سے پہلے طلوعِ جام کے بعد

رہِ طلب میں قدم لڑکھڑا ہی جاتے ہیں
کسی مقام سے پہلے کسی مقام کے بعد
 

نوید صادق

محفلین
رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبہ خاموشِ عشق
وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آ گئے

خود تمہیں چاکِ گریباں کا شعور آ جائے گا
تم وہاں تک آ تو جاؤ ہم جہاں تک آ گئے

آج قابل میکدے میں انقلاب آنے کو ہے
اہلِ دل اندیشۂ سود و زیاں تک آ گئے
 
Top