وہ ہر مقام سے پہلے وہ ہر مقام کے بعد
سحر تھی شام سے پہلے سحر ہے شام کے بعد
مجھی پہ اتنی توجہ مجھی سے اتنا گریز
مرے سلام سے پہلے مرے سلام کے بعد
چرغِ بزمِ ستم ہیں ہمارا حال نہ پوچھ
جلے تھے شام سے پہلے بجھے ہیں شام کے بعد
یہ رات کچھ بھی نہیں تھی یہ رات سب کچھ ہے
طلوعِ جام سے پہلے طلوعِ جام کے بعد
رہِ طلب میں قدم لڑکھڑا ہی جاتے ہیں
کسی مقام سے پہلے کسی مقام کے بعد