چوہدری محمد علی ردولوی 375
تیسری جنس
مدی کا اصلی نام احمدی خانم ہے۔ تحصیل دار صاحب پیار سے مدی مدی کہتے تھے۔ وہی مشہور ہو گیا۔ مدی کا رنگ بنگال میں سو دو سو میں اور ہمارے صوبے میں ہزار میں ایک تھا۔جس طرح فیروزے کا رنگ مختلف روشنیوں میں بدلا کرتا ہے اسی طرح مدی کا رنگ تھا۔
تھی تو کھلتی ہوئی سانولی رنگت جس کو سبزہ کہتے ہیں۔مگر مختلف رنگ کے دوپٹُوں یا ساڑھیوں کے ساتھ مختلف رنگ پیدا ہوتا تھا۔ کسی ساتھ دمک اٹھتا تھا،کسی رنگ کے ساتھ تمتماہٹ پیدا کرتا تھا۔بعض اوقات جلد کی زردی میں سبزی ایسی جھلکتی تھی کہ دل چاہتا تھا،دیکھا ہی کرے۔شمع کی روشنی میں مدی کی رنگت غضب ہی ڈھاتی تھی۔ کبھی آپ نے دوسرے درجے کے مدقوق کو دیکھا ہے۔ اگر بیماری سے قطع نظر کیجیے تو رنگت کی نزاکت ویسے ہی تھی۔ آنکھیں بڑی نہ تھیں مگر جب نگاہ نیچے سے اُوپر کرتی تھی تو واہ واہ معلوم ہوتا تھا مندر کا دروازہ کھل گیا۔ دیبی جی کے درشن ہو گئے۔
مسکراہٹ میں نہ شوخی نہ شرارت،بنؤٹ کی شرم، لبھاوٹ کی کوشش ۔ لکڑی لوہےکے قلم کو کیسے موقلم کر دوں کہ آپ کے سامنے مسکراہٹ آجائے۔
بس یہ سمجھ لیجیے کہ خد ا نے جیسی مسکراہٹ اس کےلئے تجویز کی تھی وہی تھی۔ مدی اپنی طرف سے اس میں کوئی اضافہ نہیں کرتی تھی۔اس کے کسی انداز مین بنؤٹ نہ تھی۔ ہاتھ پاؤں،قد چہرے کے اعضا سب چھوٹے چھوٹے مگر واہ رے تناسب ۔آواز ،ہنسی،چال ڈھال ہر چیز ویسی ہی۔میں مدی سے بہت بےتکلف تھا۔ مگر عشاق میں کبھی نہ تھا،اور جہاں تک میں جانتا ہوں
کوئ اور بھی نہیں سنا گیا ۔ ایسی خوبصورت عورت بلا مرد کی حفاظت کے،زندگی بسر کرے اور عشاق نہ ہوں،بڑے تعجب کی بات ہے۔ مگر واقعہ ہے ،ایک دن میں نے کہا مدی اگر ہم جادوگر ہوتےتو فنِ شریف سے واقف کار حضرات جانتے ہیں کہ جو حربہ میں نے استعمال کیا تھا وہ کم خالی جانے والا تھا۔ مگر اس کے جواب میں وہی بے تکلف مسکراہٹ کی ڈھال جو تلوار کا منہ توڑ دے۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
اکثر خیال گزرتا ہے کہ یہ استغنا تحصیل دار مرحوم کی سفید داڑھی کے سائے میں پرورش پانے کا اثر ہے۔ مگر پھر عقل کہتی تھی کہ جوشِ حیات نے نہ معلوم کتنی سفید داڑھیوں میں پھونکا ڈالا ہے۔ وہ سفید داڑھی قبر میں پہنچ گئی اس کا اثر کہاں سے آیا۔بہرحال قصہ سنتے جائے اور رفتہ