جاسمن
لائبریرین
435
تو پی چکے تھے اس کی خاطر سے ذری سی چکھ لی مگر وہ ادھے کا ادھا چڑھا گئی۔ اختلاط کی بے تکلفی میں ہماری واسکٹ میں دو ایک روپے اور ریزگاریاں تھیں پان مٹھائی کے نام سے پہلے اس نے وہ ایٹنھے نوٹ وغیرہ نیفے میں تھے اس پر ہاتھ نہیں ڈالا اس کے بعد نشانی کے نام سے انگوٹھیاں لے لیں۔ہم کو اس طرح کا اتفاق کاہے کو ہوا تھا مگر اس وقت حالت بھی کچھ ایسی ہی باتوں کی تھی بندھا خوب مار کھاتا ہے ہمار آنکھ قریب تین بجے کے کھلی۔گھوڑ دوڑ سے لے کر اس وقت تک کے تمام واقعات نگاہ کے سامنے آگئے اپنے اوپر غصہ، ان داڑھیوں کے اوپر غصہ کچھ اپنی حرکتوں کا انفعال لاحول ولا قوۃ مگر قسم قرآن کی سب سے زیادہ غصہ اس رنڈی پر تھا۔بھلا دیکھیے تو طئے کیا ہوا تھا اور لے کیا کچھ گئی۔انگلیاں خالی کر دیں چڑیل نے۔اور وہ فیروزہ بھی تو نہیں ہے،اماں کی نشانی تھی اور دہان فرنگ والی انگوٹھی بھی اینٹھ لی۔پھوپھی اماں مرحومہ کے پیٹ میں جب درد ہوتا تھا تو دھو دھو کر پلائی جاتی تھی۔حرام زادی قحبہ قطامہ شفتل غیبانی اور دیکھو تو کیسی میٹھی نیند سو رہی ہے۔رہ جاؤ ہم باقر کاہے کو جو اس کی کسر نہ نکالی ہو۔ بھیا میں اٹھا اور اس کا لوٹا پاندان گلاس پان کی ڈبیا سب میں نے سنبھالی۔ دل نے کہا باقر شراب تو پیتے ہی تھے رنڈی بازی بھی کر گذرے اب سب پر طرہ یہ کہ اچکا پن بھی کرو گے۔ اس خیال کے آتے ہی مجھ کو ہنسی کی گدگدی اٹھی۔ یہ گدگدی پیدا ہوتے ہی تمام رکاوٹیں کافور ہو گئیں۔بڑے آہستہ اہستہ میں زینے سے اترنے لگا۔ اب جو اندھیرے میں کنڈی چھوتا ہوں تو قفل دبا ہوا ہے۔ اس کے لوگوں کو چور اچکوں سے روز ہی سابقہ رہتا ہے۔ پاؤں سے سر تک ایک سناکا ہوا۔پنڈلیاں کانپنے لگیں۔پسینہ اگیا۔ سب چیزیں جہاں جہاں سے اٹھائی تھیں وہیں پر جما دیں اور مجبوراَََ اس کو جگاما چاہا کہ کنجی دو وہ اس وقت تک نشے میں انٹا غفیل تھی۔ اوں اوں کر کے کہنے لگی تکیے کے نیچے ہے اور پھر کروٹ لے کر خراٹوں کی سادھی۔ہم نے کہا اس میں کیا گیا۔ محمد علی قسم رسول ص مقبول کی میں نے پھر سب چیزیں اٹھائیں بغل میں پاندان ایک ہاتھ میں لوٹا گلاس دوسرے ہاتھ میں ڈبیا اور کنجی۔ قفل تو کسی نہ کسی طرح میں نے کھول لیا۔ اب جو کنڈی کھولتا ہوں تو بغل ڈھیلی پڑ گئی کھڑبڑکھڑبڑ کر کے زینے پر پاندان گرا۔ اسی گڑبڑ میں لوتا گلاس وغیرہ بھی میں نے پھینک دیا۔ اور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا۔ قسم قرآن کی اس وقت سمجھ میں آیا کہ چوری آسان کام نہیں۔ گلی میں سناٹا تھا۔ میرے پر لگ گئے تھے مگر قسم امام حسین کی معلوم ہوتا تھا کہ فوج پیچھے دھاوا کرتی چلی اتی ہے۔ایک دو ہی موڑیں میں نے پار کی ہوں گی اب چال بھی آہستہ کر دی تھی کہ ایک طرف سے آواز آئی"چائے گرما گرم" دل پر جیسے موگری سی پڑی آواز تو تھی چائے والے کی مگر قسم خدا کی مجھ کو معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی کہتا ہے وہ چوما جاتا ہے پکڑنا جانے نہ پاوے۔ اگر راستے میں کتا بھی ملتا تھا تو معلوم ہوتا تھا پولیس کے انسپکٹر جنرل ہی ا گئے۔خیر بھئی کسی نہ کسی طرح امین آباد پہنچے۔ قسم کلام پاک کی حواس اس وقت درست ہوئے۔ باقر چچا نے ٹھیک اندازہ کیا تھا۔یہ بات میں بھی ہضم نہ کر سکا اور یہ قصہ اچھا خاصا عام ہو گیا۔
تو پی چکے تھے اس کی خاطر سے ذری سی چکھ لی مگر وہ ادھے کا ادھا چڑھا گئی۔ اختلاط کی بے تکلفی میں ہماری واسکٹ میں دو ایک روپے اور ریزگاریاں تھیں پان مٹھائی کے نام سے پہلے اس نے وہ ایٹنھے نوٹ وغیرہ نیفے میں تھے اس پر ہاتھ نہیں ڈالا اس کے بعد نشانی کے نام سے انگوٹھیاں لے لیں۔ہم کو اس طرح کا اتفاق کاہے کو ہوا تھا مگر اس وقت حالت بھی کچھ ایسی ہی باتوں کی تھی بندھا خوب مار کھاتا ہے ہمار آنکھ قریب تین بجے کے کھلی۔گھوڑ دوڑ سے لے کر اس وقت تک کے تمام واقعات نگاہ کے سامنے آگئے اپنے اوپر غصہ، ان داڑھیوں کے اوپر غصہ کچھ اپنی حرکتوں کا انفعال لاحول ولا قوۃ مگر قسم قرآن کی سب سے زیادہ غصہ اس رنڈی پر تھا۔بھلا دیکھیے تو طئے کیا ہوا تھا اور لے کیا کچھ گئی۔انگلیاں خالی کر دیں چڑیل نے۔اور وہ فیروزہ بھی تو نہیں ہے،اماں کی نشانی تھی اور دہان فرنگ والی انگوٹھی بھی اینٹھ لی۔پھوپھی اماں مرحومہ کے پیٹ میں جب درد ہوتا تھا تو دھو دھو کر پلائی جاتی تھی۔حرام زادی قحبہ قطامہ شفتل غیبانی اور دیکھو تو کیسی میٹھی نیند سو رہی ہے۔رہ جاؤ ہم باقر کاہے کو جو اس کی کسر نہ نکالی ہو۔ بھیا میں اٹھا اور اس کا لوٹا پاندان گلاس پان کی ڈبیا سب میں نے سنبھالی۔ دل نے کہا باقر شراب تو پیتے ہی تھے رنڈی بازی بھی کر گذرے اب سب پر طرہ یہ کہ اچکا پن بھی کرو گے۔ اس خیال کے آتے ہی مجھ کو ہنسی کی گدگدی اٹھی۔ یہ گدگدی پیدا ہوتے ہی تمام رکاوٹیں کافور ہو گئیں۔بڑے آہستہ اہستہ میں زینے سے اترنے لگا۔ اب جو اندھیرے میں کنڈی چھوتا ہوں تو قفل دبا ہوا ہے۔ اس کے لوگوں کو چور اچکوں سے روز ہی سابقہ رہتا ہے۔ پاؤں سے سر تک ایک سناکا ہوا۔پنڈلیاں کانپنے لگیں۔پسینہ اگیا۔ سب چیزیں جہاں جہاں سے اٹھائی تھیں وہیں پر جما دیں اور مجبوراَََ اس کو جگاما چاہا کہ کنجی دو وہ اس وقت تک نشے میں انٹا غفیل تھی۔ اوں اوں کر کے کہنے لگی تکیے کے نیچے ہے اور پھر کروٹ لے کر خراٹوں کی سادھی۔ہم نے کہا اس میں کیا گیا۔ محمد علی قسم رسول ص مقبول کی میں نے پھر سب چیزیں اٹھائیں بغل میں پاندان ایک ہاتھ میں لوٹا گلاس دوسرے ہاتھ میں ڈبیا اور کنجی۔ قفل تو کسی نہ کسی طرح میں نے کھول لیا۔ اب جو کنڈی کھولتا ہوں تو بغل ڈھیلی پڑ گئی کھڑبڑکھڑبڑ کر کے زینے پر پاندان گرا۔ اسی گڑبڑ میں لوتا گلاس وغیرہ بھی میں نے پھینک دیا۔ اور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا۔ قسم قرآن کی اس وقت سمجھ میں آیا کہ چوری آسان کام نہیں۔ گلی میں سناٹا تھا۔ میرے پر لگ گئے تھے مگر قسم امام حسین کی معلوم ہوتا تھا کہ فوج پیچھے دھاوا کرتی چلی اتی ہے۔ایک دو ہی موڑیں میں نے پار کی ہوں گی اب چال بھی آہستہ کر دی تھی کہ ایک طرف سے آواز آئی"چائے گرما گرم" دل پر جیسے موگری سی پڑی آواز تو تھی چائے والے کی مگر قسم خدا کی مجھ کو معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی کہتا ہے وہ چوما جاتا ہے پکڑنا جانے نہ پاوے۔ اگر راستے میں کتا بھی ملتا تھا تو معلوم ہوتا تھا پولیس کے انسپکٹر جنرل ہی ا گئے۔خیر بھئی کسی نہ کسی طرح امین آباد پہنچے۔ قسم کلام پاک کی حواس اس وقت درست ہوئے۔ باقر چچا نے ٹھیک اندازہ کیا تھا۔یہ بات میں بھی ہضم نہ کر سکا اور یہ قصہ اچھا خاصا عام ہو گیا۔