اسکین دستیاب انتخاب محمد علی ردولوی

سید فصیح احمد

لائبریرین
صفحہ 395

چودھری محمد علی ردولوی

ایک عمدہ کتاب

سر رضا علی کی کتاب اعمال نامہ پڑھی جا رہی تھی۔ اور ساتھ ہی ساتھ سرسری تنقید بھی ہوتی جاتی تھی۔

ایک دوست: " بھئی مجھ کو جو بات اس دال روٹی پوس کاٹ میں سب سے زیادہ پسند آئی وہ سچائی کی کھنک ہے۔ بے چارے نے اپنے دل کے دونوں کنواڑ کھول کر رکھ دیے ہیں کہ جو کچھ ہے دیکھ لو۔ کوئی پردہ نہیں ہے۔"

دوسرے دوست: " اب چاہے دال روٹی پوس کاٹ کہ کر ہنسیے چاہے اس کی صاف دلی کی داد دیجیے۔ "

تیسرے دوست: " دل کے دونوں کنواڑ کھول کر لکھ دینا کوئ معمولی بات نہیں ہے۔زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہ سکتے ہیں کہ انھوں نے اس کی کوشش کی ہے کامیاب بھی ہوئے یا نہیں یہ ذرا غور کے قابل ہے۔ اگر یہ فرمایے کہ زبان خوب کمائی ہوئی ہے تو میں ماننے کو تیار ہوں اگر یہ کہیے کہ انھوں نے تہذیب کو کہیں ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے تو یہ بھی درست ہے لیکن پوری بات کہہ جانا کارے دارو۔ "

دوسرے دوست: " میں مطلب نہیں سمجھا۔ بےچارے نے اپنے خانگی معاملات ساس بہو کی ان بن تک کہہ گذاری ہے۔ پھر اور کیا کرتا۔ بڑے بڑے بزرگوں کی خامیاں، کمزوریاں نہایت صفائی سے بیان کر دی ہیں اور کیا چاہیے۔

تیسرے دوست: " ہاں ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے۔ انھوں نے بھرپور اس کی کوشش کی ہے مگر ہر شخص روسو نہیں ہو سکتا۔ آپ تہذیب کا بھی دامن نہ چھوڑیں گے، قانونی گرفت بھی نہ آنے دیں گے، بزرگوں کی وکالت بھی کرتے جائیں گے اور سچائی کو بھی لیے رہنےکی کوشش کریں گے تو اللہ ہی نے کہا ہے کہ کہیں نہ کہیں ٹھوکر دھری ہے۔ غریب نے کتاب کو دلچسپ بنانے کے لیے نہ معلوم کتنے قصے عشق عاشقی کے بیان کر ڈالے ہیں کہ انسان کے مبارک گناہ' یعنی اس کی جنسی لغزشوں سے سب کو بچا لیا ہے۔ حضرت آدم و حوا کے پہلے گناہ سے ایسے ڈرے ہوئے ہیں کہ عملاً سب کچھ کریں گے مگر منھ سے نہ کہیں گے۔ اس طرح کی باتوں سے اور صداقت سے جس سے انسانیت پر روشنی پڑتی ہے کوسوں کی دوری ہے۔ اگر آپ کہیں کہ ہندو مسلمان اختلاف کی تاریخ اچھی بیان کی ہے، اردو ہندی کے جھگڑے کا بھانڈا خوب پھوڑا تو میں بھی تسلیم کرنے کو تیار ہوں۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
صفحہ 396

لیکن یہ کیوں کر مان لوں کہ کسی کو خفا بھی نہ کیجیے گا، قدیم تہزیب کے خلاف باتیں بھی نہ کہیے گا اور سچائی کو بھی ہاتھ سے نہ جانے دیجیے گا۔ تو یہ کیسے بنے گی۔ آپ کی جتنی ہیروئنیں ہیں وہ سب کی سب کنواری بیٹھی رہیں گی، آپ کے جتنے ہیرو ہیں وہ سب بسم اللہ کے گنبد کے پلے ہوں گے اور پھر بھی زندگی ویسے ہی اصلی دکھائی دے گی جیسی کہ ہوتی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ "

دوسرے دوست: " (ذرا گرمی کے ساتھ) کیا آپ کا مطلب ہے کہ سر رضا علی شر میں وہ کھلی ڈلی حماقتیں کرتے جن کی اجازت صرف نظم اور بندادین کی ٹھمریوں میں ہے۔"

تیسرے دوست: " (خفیف سی اونچی آواز میں) نظم اور بندادین کی ٹھمریاں تو میں جانتا نہیں لیکن حد سے زیادہ تہذیب برتنے میں کھیل بنتا ہی نہیں۔ محسن املک مرحوم کا حال لیجیے۔ مرحوم کا قصہ تو الگ رہا خود پڑھنے والے اس چکر میں پڑھاتے ہیں کہ جتنی نیک دلی اور در گزر سر رضا علی اپنے میں ظاہر کر رہے ہیں یہ فطرت میں بھی ہے یا نہیں۔ جو پھس پھسی ۔۔۔۔ عشق و محبت کی کہانیاں انھوں نے لکھی ہیں آیا دنیا میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے یا کہیں انسانیت جوش حیات سے دب بھی جاتی ہے۔

پہلے دوست: "جناب مرزا صاحب آپ کچھ نہیں بولتے۔ "

مرزا صاحب: " جی سن رہا ہوں: ہوتا ہے تماشا شب و روز میرے آگے۔"

تیسرے دوست: " ہاں مرزا صاحب۔ آپ فرمائیں۔ ہم لوگوں کو جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے۔ فیصلہ آپ ہی کے ہاتھ ہے۔

دوسرے دوست: " مجھ کو کوئی عذر نہیں لیکن دونوں فریق کو جو کچھ کہنا ہے وہ پہلے سن لیں اس کے بعد حکم سنا دیں۔ "

مرزا صاحب: " فیصلے دوسرے کرتے ہوں گے میں تو اقبال جرم کرتا ہوں۔ سزا آپ حضرات خود تجویز کریں۔ (پہلے دوست کی طرف مخاطب ہو کر) اس دنیا میں بے عیب کون ہے۔جب ہمارے آپ کے ایسے لوگ اتفاق سے غلطی کر جاتے ہیں تو بے چارے سر رضا علی کی کتاب میں خامیاں ہوئیں تو کیا تعجب ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی کتاب خوب ہے۔ پالیٹیکس ان کا کام ہے وہ بہت اچھا کیا ہے۔ احباب کا ذکر اس انداز سے کیا ہے کہ جس میں احباب سے زیادہ خود ان کی نیک دلی اور اجلی روح کا پتہ چلتا ہے۔ آدمی یقیناً دل پھینک قسم کے واقع ہوئے ہیں اور ان لوگوںمیں معلوم ہوتے ہیں جو کر گزریں گےمگر کہہ نہ سکیں گے۔بقول سعدی کے۔ " جوانی میں اے ہم نشیں جیسی پڑی ہے تو بھی جانتا ہے۔ " معلوم ہوتا ہے کہ:

انھیں بھی آتشِ الفت جلا چکی اکبؔر
حرام ہو گئی دوزخ کی نار ان پر بھی​

مگر ساٹھ سے اوپر کے آدمی ہیں ۔ بےچارے صاف گوئی کی کوشش کرتے ہیں مگر کامیاب
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
صفحہ 397

نہیں ہوتے۔

دوسرے دوست: " بزرگوں میں تو آپ بھی ہیں۔"

مرزا صاحب: " اجی ہم سینگ کٹا کربچھڑوں میں داخل ہوئے ہیں ہمارا کیا کہنا۔ کتاب کی تنقید آپ حضرات کریں۔ ہم تو صرف اپنی تنقید کرتے ہیں جس میں بحیثیت انسان کے ہمارا آپ کا سر رضا علی اور ازاڈوراڈنکس سب کا حال ہے۔ یہ نہیں کہ کوئی سن لے گا، کوئی سمجھ جائے گا، کوئی غیر مہذب ٹھہرا دے گا۔ اس لیے تصویر ادھوری چھوڑ دی۔ اجی حضرت ہومرسے لے کے سعدی گئے اور مرزا محمد بادی رسوا کی پیروی میں اگر ہم وکٹورین پنچایت سے ٹاٹ باہر کر دیے جائیں گے تو ٹھینگے سے۔ لیجیے آپ بیتی سنیے۔ مگر پہلے ذرا کچھ گزارش کر لوں۔ ہم آپ کی نئی نئی باتوں پر نہیں ہنستے آپ ہماری پرانی باتوں پر کیوں ہنسیے۔ آدمی کی فطرت نہ بدل گئی ہے اور نہ آئندہ ہی اس کے خدانخواستہ فرشتہ ہو جانے کا ڈر ہے۔ پھر یہ نوجوانوں کا برتری کا گھمنڈ کس برتے پر؟ زمانے کے ساتھ کچھ رد و بدل ہو جاتا ہے، کچھ انداز میں فرق آجاتا ہے۔ بس لوگ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم پہلے والوں سے اچھے ہو گئے، ہم نے ترقی کر لی۔ مجھ کو جو بات اب نوجوانوں میں بھاتی ہے وہ یہی بھولا پن ہے۔ جنسی ہی معملات کو لے لیجیے، وہی عشق و محبت کی کہانیاں ہیں۔ وہی دماغ کی بے بسی ، وہی دل کی حکمرانیاں ہیں۔اگلے لوگ رنڈیاںنوکر رکھتے تھے اب گھر گرستوں کا راج ہے۔پہلے پیشہ ور تھے اب دل بہلاؤ کے لیے انیلی خوش باش ہیں۔ رنڈیوں کی لڑکیاں برابر اپنے پیشے کے لیے تیار کی جاتی تھیں، جو اپنے کام کی اونچ نیچ سے واقف ہوتی تھیں۔ ان کے سر پر ان کے بزرگ ہوتے تھےجو بے راہ چال سے انہیں روکتے رہتے تھے۔ اب ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی، اب جس چھوکری کو دیکھیے بن سانپ کا منتر جانے بل میں ہاتھ ڈالنے پر تلی ہے۔کہیں خودکشیاں ہیں، کہیں بدنامیاں ہیں۔ کاتا اور لے دوڑی اور چیز ہے۔ کرنے کی ودیا اور ہے۔ اچھا تو اب قصہ سنیے۔

ہمارے مکتب میں ایک رئیس زادے تھے جو سن میں ہم سب سے بڑے تھے۔ قریب قریب باپ بیٹے کا فرق رہا ہو گا۔ان کی تعلیم ہم سے دس بارہ برس پہلے ختم ہوئی تھی۔ مگر بےچارے ایسے اچھے آدمی تھے کہ بزرگی کا خیال نہیں کرتے تھے اور ہم کو باوجود عمر کے فرق کے اپنی بے تکلف صحبت میں داخل کیے ہوئے تھے۔ ان کے پاس ایک نئی رنڈی نوکر ہوئی۔ نہایت خوب صورت، بڑی خوش مزاج اور اس فلسفے کی قائل تھی جس کا پہلا کلیہ یہ ہے کہ جوانی پھر لوٹ کر نہیں آتی۔ ہمارے دوست کا جو سن رہا ہو، ہم کوئی اٹھارہ انیس کے تھے۔ رنڈی کا سن ہمارے اور ان کے درمیان توازن قائم ی تھا۔ جس پاس بہر حال جوانی اور تجربہ دونوں تھے۔ ہم لوگ گنجیفہ کھیل رہے تھے۔مگر عجیب اتفاق کہ سوائے ہمارے دوست کےاور کسی سے کھیل بن ہی نہیں رہا تھا اس رنڈی کے ایک سو سوخت ہو گئے۔ اور ہم کھیل اعلیٰ کا دوسرا سر دینا بھول گئے
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
صفحہ 398

اور پھر بجائے سوختی ہونے کے ہنسی برابر چلی آ رہی ہے جیسے زمیں و آسمان کے بیچ میں گدگدی ہی گدگدی بھری ہو۔ ہمارے دوست الجھ الجھ کر رہتے ہیں کئی مرتبہ پتے بھی پھینک دیے کہ اس کھیلنے سے کیا فائدہ مگر ہم نے سنجیدگی کا وعدہ کیا اور پھر وہی کیا۔ہم ناکند بچھیرے ایک نیا لطف محسوس کرتے تھے۔ مگر یہ لطف کس وجہ سے تھا یہ نہ سمجھ میں آتا تھا نہ اس کے سمجھنے کا خیال ہی ہوتا تھا۔ معلوم نہیں ان دونوں کے دلوں میں کیا لہریں اٹھ رہی تھیں۔ اس رنڈی کی دل آویزی ہمارے دل میں جگہ قرار کرتی چلی جاتی تھی۔ جنسی خیالات بھی ابلے پڑتے تھے مگر ان خیالات کو عملی جامہ بھی کس طرح پہنایا جا سکتا ہے اس کی بابت کوئی امید افزا یا مایوس کن منصوبے نا تجربہ کاری کی بنا پر دل میں آ ہی نہیں رہے تھے۔جو کچھ تھا وہ ہی کیا کچھ کم مزے کا تھا جو اور زیادہ کی ہوس ہوتی ۔ کیوں کہ غریب آدمی کی دولت ناواقف کاری ہی میں ہے۔ اب برسوں کے بعد سمجھ میں آتا ہےکہ ہمارے تجربہ کار دوست کیوں الجھ رہے تھے۔ اور آزمودہ کار سپاہی کی طرح وہ رنڈی کیوں اطمینان سے کھیل رہی تھی۔اور ہنس بھی ہی تھی۔ عورت اس قسم کے ہر نئے موقع پر مرد سے کیوں کر اپنے کو زیادہ لیے دیے رہتی ہے اور کیوں کر زیادہ نڈری سے کام کرتی ہے ۔اس کو عورت کے نفسیات جاننے والے سمجھیں یا وہ سپاہی جو میدان میں صرف مورچہ ہی نہیں سر کر چکا ہے بلکہ شکست اٹھانے پر بھی جی نہیں ہارا ہے۔ اس کے بعد کئی موقعوں پر ہم تینو کا ساتھ رہا ہے لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے کوئی بات یاد رکھنے کے قابل نہیں ہوئی اور نہ کوئی خاص یگانگی ہی بڑھی۔ اس واقعے کو دو تین ہفتے ہو گئے اور ہم اس مختصر سی کائنات عیش و رنگ ہی کو بہت سمجھا کیے کہ اتنے میں ایک تار ملا۔ آٹھ بجے شام کی گاڑی پر ہم سے ملو۔ بھئی واہ یہ تو خوب ہوا ! بھلے کو رات کے آٹھ بجے گاڑی آتی ہے اگر دن کے آٹھ بجے گاڑی آتی تو بڑی گڑبڑ ہوتی۔ دیکھیں یار ملاقات میں کوئی کھنڈت تو نہیں پڑتی اور اگر اسٹیشن پر کوئی بزرگوں میں سے مل گیا تو کیا کریں گے! اونھ ہو گا کوئی دیکھ ہی لے گا تو کیا کرے گا۔ اور ہم اس سے کچھ تعلق کرنے تھوڑی جا رہے ہیں۔ خالی ملاقات میں کیا ہرج ہے۔

ایک ساتھ کھیلے رازدار نوکر کو ساتھ لے کر اسٹیشن پہنچے۔ نوکر سے شرط کرنے لگے۔ سنو جی ! اسٹیشن پر آٹھ بجے آنے والی گاڑی کا میل ادھر سے آنے والی گاڑی سے اگلے اسٹیشن پر ہو گا اگر موقعہ ہوا تو ہم وہاں تک چلے جائیں گے اور زیادہ سے زیادہ ۳۵ منٹ میں واپسی آ جائیں گے۔ تم اسٹیشن ہی پر موجود رہنا۔ہاں اور سن لو جب ہم اشارہ کریں گے تب تم ٹکٹ لینا۔گاڑی آئی بہت سی خوشی تھوڑی سی وحشت سے ملاقات کی۔ بھلے کو درجہ بالکل خالی تھا اور سردی کی وجہ سے جھلملیاں چڑھی ہوئی تھیں یہ اچھا ہوا۔

" اگلے اسٹیشن تک چلیئےساتھ رہے گا۔ شروع کی کم ہمتی میدان خالی پا کر کھل کھیلی۔انیلے پن کو فطرت نے راہ دکھائی۔ پھر بھی جو کمی رہ گئی وہ استاد نے بتا دی۔ دبکی ہوئی تھی گربہ
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
صفحہ 399

صفت خواہش گناہ چمکارنے سے پھول گئی، شیر ہو گئی۔

بھئی اہاہا۔ زندگی میں کتنے بڑے بڑے راز پنہاں تھے۔ اور ہم آج تک بے خبر۔ خیراب سے آئے گھر سے آئے۔ کیسا اگلا اسٹیشن اور کیسا پچھلا اسٹیشن۔گاڑی پٹڑیوں پر چل رہی تھی اور ہم رنگ برنگ کے بادلوں میں سے ہوتے ہوئے چاند کے پاس پہنچ رہے تھے۔ پہلے دوسرے تیسرے نہ معلوم کس آسمان پر تھے کہ یک بارگی جو چیتے تو گھر سے تین سو میل دور ایک بڑے جنکشن کے اوپر کھڑے ہیں صرف چند ریزگاریاں اور چھ میل کا ٹکٹ جیب میں اور ٹکٹ چیکر کا سامنا ہے۔

ٹکٹ چیکر: یہ ٹکٹ تو صرف فلاں اسٹیشن سے فلاں اسٹیشن تک ہے۔

میں: ہاں آپ ہم کو ادھر کی گاڑی سے بھیج دیں۔جس قدر دام کہیے گا وہیں دیں گے۔

ٹکٹ چیکر: یہ کیسے ہو سکتا ہے۔

میں: تو آپ میری گھڑی اس وقت تک کے لیے رکھ سکتے ہیں جب تک میں روپے نہ دوں۔ یا میں تار بھیج کر روپے منگوا سکتا ہوں۔

ٹکٹ چیکر: اور وہ لیڈی کون تھیں جو آپ کو رخصت کر کےپھر گاڑی میں بیٹھ گئیں۔

میں: یہ آپ کیوں پوچھتے ہیں۔ یہ میں نہ بتاؤں گا۔ آپ کو روپے چاہیے وہ آپ میری گھڑی سے وصول کر سکتے ہیں۔

ٹکٹ چیکر: چلیئے اسٹیشن ماسٹر کے پاس۔ یہ وہی طے کریں گے۔

اسٹیشن ماسٹر نے ٹکٹ چیکر سے حال سنا ۔ پھر میری طرف مخاطب ہوئے اور تقریباً سب وہی باتیں پوچھیں جو اوپر آ چکی ہیں۔

اسٹیشن ماسٹر: اگر تار دیا جائے تو کہاں۔

میں: فلاں اسٹیشن کو۔

اسٹیشن ماسٹر: (دلچسپی سے) آپ کا نام کیا ہے۔

میں: (ایک ذرا رک کر) مُنٓے (جو میرا عرف ہے)

اسٹیشن ماسٹر: (اور زیادہ دلچسپی سے) آپ کے والد کا نام۔

میں: (باپ کا نام غلط بتانا حمیٓت کے خلاف، شرافت کے خلاف یہ تو غلط نہیں بتا سکتا) میں نے صحیح نام لے لیا۔

اسٹیشن ماسٹر ہاتھ پھیلا کر دوڑےاور مجھ کو گلے سے لگا لیا۔
اس کو حسن اتفاق کہتے ہیں۔ کہاں آپ اور کہاں یہ جگہ۔ آپ ہم کو کیا جانیں مگر ہم آپ کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہم نے آپ کو گودیوں میں کھلایا ہے۔ آپ کے والد سے اور ہم سے بڑے مراسم تھے۔ ہم وہاں سے برسوں ہوئے چلے آئے۔ ہمارے والد صاحب سید غلام حسین کو آپ
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
صفحہ 400

جانتے ہوں گے۔

اسٹیشن ماسٹر: جب انھوں نے دوسری شادی کر لی تو ہم لوگ اپنے نانہال چلے آئے۔ وہاں کا سلسلہ ہی چھوٹ گیا۔

میں : بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔

اسٹیشن ماسٹر: اس وقت جو حالت میرے قلب کی ہے وہ میں ہی جانتا ہوں۔ اس وقت وہ صحبتیں یاد آ گئیں۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا۔ مجھ کو آپ کی صورت دیکھتے ہی کچھ یاد سا آ رہا تھا۔ہنس کر۔ ہی ہی ہی اور یہ لیڈی کون تھیں۔

میں : اب اس کو کیا کیجیے گا پوچھ کر۔

اسٹیشن ماسٹر: ہی ہی ہی اچھا جانے دی جیئے۔ مگر ہی ہی ہی۔ ہمارا زمانہ بھی خوب تھا۔

==== OOOOOO ====

’’ دوا ‘‘ کا بقیہ:

نہ تھا، جو عورت اور مرد کی محبت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

رئیس صاحب پڑھے لکھے نیک دل آدمی تھے۔ یہ بیان اس صفائی سے سن کر دنگ رہ گئے اور بجائے نفرت کے عبرت سی ہوئی۔ میاں دائم خاں مسجد سے واپس ہوئے انہوں نے ہاں ناں کچھ نہ کہا اور بیوی کو ساتھ لیے گھر چلے آئے وہاں پہنچ کر کہنے لگے۔ سب کے سب سالے ہماری آبرو لینے پر لگے ہیں مگر تم کچھ پروا نہ کرو۔ لو مسجد سے یہ مٹھائی تمھارے لیے لائے ہیں کھا لو۔ تمہارا سحر گہی کا دودھ لا کر طاق پر رکھ دیا تھا تب مسجد گئے تھے دیکھنا بلی تو نہیں پی گئی۔

لیجیے صاحب قصہ ختم ہو گیا۔ میاں دائم خاں کے رقیب صاحب دوسرے دن غائب ہو گئے۔ دائم خاں کی بیوی کا کچھ خطرہ ٹل گیا اور تب ہی سے کچھ بہکی بہکی سی باتیں کرنے لگیں مگر اس حالت میں بھی میاں بیوی ایک دوسرے پر فدا ہی رہے بلکہ کچھ ایک دوسرے کا سہارا زیادہ ڈھونڈھنے لگے۔

==== OOOOOO ====​
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
اسکین صفحہ نمبر 28 تا 32

28.png


29.png

30.png

31.png

32.png


سید فصیح احمد بھائی
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
عائشہ عزیز ، بچے میں ٹائپ کر رہا ہوں صفحات مگر ایک بات کہنی تھی ، کئی صفحات ایسے ہوتے ہیں جو خستہ ہونے کی وجہ سے پڑھے نہیں جاتے ، گو کہ ہم لوگ اندازاً کچھ نہ کچھ لگا دیتے ہیں مگر کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ وہ جگہ پروُفنگ والوں کے لیئے کوئی علامت لکھ کر چھوڑ دی جائے ؟ ،، جیسے میرے پاس ابھی ایک صفحہ ہے جس میں ایک لفظ میری سمجھ سے باہر ہے تو میں نے اس کی جگہ ( !!! ) لکھ دیا تا کہ پروُفنگ والے کو خبر ہو جائے کہ یہ حرفِ تردید ہے !! ؟؟ سیدہ شگفتہ آپی آپ کا کیا خیال ہے ؟؟
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
عائشہ عزیز ، بچے میں ٹائپ کر رہا ہوں صفحات مگر ایک بات کہنی تھی ، کئی صفحات ایسے ہوتے ہیں جو خستہ ہونے کی وجہ سے پڑھے نہیں جاتے ، گو کہ ہم لوگ اندازاً کچھ نہ کچھ لگا دیتے ہیں مگر کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ وہ جگہ پروُفنگ والوں کے لیئے کوئی علامت لکھ کر چھوڑ دی جائے ؟ ،، جیسے میرے پاس ابھی ایک صفحہ ہے جس میں ایک لفظ میری سمجھ سے باہر ہے تو میں نے اس کی جگہ ( !!! ) لکھ دیا تا کہ پروُفنگ والے کو خبر ہو جائے کہ یہ حرفِ تردید ہے !! ؟؟ سیدہ شگفتہ آپی آپ کا کیا خیال ہے ؟؟
الف عین بابا جانی۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
عائشہ عزیز ، بچے میں ٹائپ کر رہا ہوں صفحات مگر ایک بات کہنی تھی ، کئی صفحات ایسے ہوتے ہیں جو خستہ ہونے کی وجہ سے پڑھے نہیں جاتے ، گو کہ ہم لوگ اندازاً کچھ نہ کچھ لگا دیتے ہیں مگر کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ وہ جگہ پروُفنگ والوں کے لیئے کوئی علامت لکھ کر چھوڑ دی جائے ؟ ،، جیسے میرے پاس ابھی ایک صفحہ ہے جس میں ایک لفظ میری سمجھ سے باہر ہے تو میں نے اس کی جگہ ( !!! ) لکھ دیا تا کہ پروُفنگ والے کو خبر ہو جائے کہ یہ حرفِ تردید ہے !! ؟؟ سیدہ شگفتہ آپی آپ کا کیا خیال ہے ؟؟

جی فصیح بھائی درست کہا، بعض اوقات سیاق و سباق سے اندازہ کرنا ممکن ہوتا ہے کہ درست لفظ کیا ہو گا تاہم ایسا نہ ہونے کی صورت میں فی الحال وہاں سوالیہ نشان (؟؟) لگا دیں، ممکن ہے اعجاز انکل اس سے بہتر حل تجویز کر سکیں۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
جی فصیح بھائی درست کہا، بعض اوقات سیاق و سباق سے اندازہ کرنا ممکن ہوتا ہے کہ درست لفظ کیا ہو گا تاہم ایسا نہ ہونے کی صورت میں فی الحال وہاں سوالیہ نشان (؟؟) لگا دیں، ممکن ہے اعجاز انکل اس سے بہتر حل تجویز کر سکیں۔
آپی ابھی تو جو صفحات میں ٹائپ کر رہا تھا اُس میں یہی علامت لکھ دی ہے۔ آئندہ کے لیئے استادِمحترم الف عین صاحب جو بھی تجویز کریں۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
402صفحہ

کہاں آپ، کہاں یہ کہانی۔ بڑے مرزا صاحب کے ایسے ہزاروں سفر کر گئے، ہزاروں سفر کر رہے ہیں اور لاکھوں سفر کریں گے مگر ہر مسافر کی کہانی تھوڑے ہی لکھی جا سکتی ہے۔ داستان گو اور قدردانوں کو جمع کرنے والی وہی ہے جوبہلی کے بیچو بیچ میں بڑی حفاظت سے رکھی ہے۔ یہ مٹھائی کی ایک ٹوکری ہے جس میں کم سے کم دس بارہ سیر مٹھائی ہو گی۔ اس پر ایک پرانی چادر سلی ہوئی ہے اور انداز سے سوغات معلوم ہوتی ہے۔ تین دن دو راتوں کا سفر ہے۔خدا خدا کر کے پہلا دن کٹا۔ سرا کی صورت دکھائی دی۔ کمریں کھلیں۔ اسباب اتارا گیا۔ لالہ نے عرض کی کہ ان کےایک عزیز کا گھر سرائے سے تھوڑی ہی دور پر ہےاگر بڑے مرزا صاحب اجازت دیں تویہ وہیں سو رہیں۔ ضروری سامان مثل حقہ بچھونے کےکوٹھڑی میں اتارا گیا۔باقی بھتیاری کی سپردگی میں دیا گیا۔اتنے میں بھتیاری پان کھائے مکھ لال کیےمسکراتی سامنے آن کھڑی ہوئی۔ میاں مٹھائی میرے یہاں نہ رکھتے تو اچھا ہوتا۔ میرے لڑکے بہت شریر ہیں۔ کھانے پینے کی چیز رکھنے والا میرا گھر نہیں اگر نقصان ہو گیا تو میں کہاں پورا کروں گی۔ بڑے مرزا صاحب پریشان ہو گئے۔ بے ساختہ اپنے خدمت گار پر نگاہ جمائی اور پھر کارکن صاحب کی طرف بے بسی سے دیکھا اور زبان حال سے بولے کہ بتاؤ اب کیا کیا جائے جب کوئی کچھ نہ بولا تو فرمانے لگے کہ مٹھائی اس کوٹھڑی میں نہیں رہ سکتی۔ اپنے خدمت گار کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے کہ جب تک یہ مردود یہاں ہےمٹھائی کی ٹوکری اس کوٹھڑی میں نہیں رہ سکتی۔

ملازم: (نہایت بے باکی سے۔ جس میں گزشتہ اور موجودہ جھوٹے سچے الزامات کی شکایت بھی پائی جاتی تھی) ہم آپ کی کوٹھڑی کے پاس نہ جائیں گے۔ ایسی ایسی مٹھائی کی طرف ہم پھر کے بھی نہ دیکھیں گے۔ راستے میں چھوڑ کر چلے جانا نمک حرامی ہے مگر گھر پہنچ کر میاں ہمارا حساب ہو جائے۔پیچ پی ہزار نعمت کھائی۔ اب ہم نوکری نہ کریں گے۔چار آدمیوں کے بیچ میں جب دیکھو آپ ہم کو چوری لگاتے ہیں۔ہاتھ بیچا ہے کوئی ذات نہیں بیچی ہے۔ جب آبرو ہی نہ رہی تو نوکری کس کام کی۔اپنے گھر کے سوکھے ٹکڑے ہم کو بہت ہیں۔ جہاں کام کریں گے وہیں پیٹ پل جائے گا۔ بڑے مرزا صاحب نائب ساحب کی طرف اس طرح مخاطب ہوئے گویا انھوں نے ملازم کی باتیں سنی ہی نہیں اور کہنے لگے کہ شیخ جی یہ مٹھائی کہاں رکھوائی جائے۔

( ؟؟؟ ) ایسے بدتمیز، بد نیت نوکر کر دیکھنا مرزا صاحب ہی کا کام تھا۔ کیوں کہ بجائے ہمارے آپ کے مرزا صاحب ہی کا ہاتھ پتھر کے نیچے دبا تھا، گھر میں ایک نوجوان لڑکی رہتی تھی، اس سے اور بڑے مرزا صاحب سے کچھ لگا سگا ہو گیا تھا۔ بےچارے بھاری بھرکم، مہذب شائستہ،
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
403صفحہ

ذی عزت آدمی تھے مگر دل کے ہاتھوں مجبور ہو گئے۔ اور اس مقام پر پہنچ چکے تھے جہاں رذیل شریف سب میں مساوات ہو جاتی ہے۔

بندہ عشق شدی ترکِ نسب کن جامی
کاندریں راہ فلاں ابنِ فلاں چیزے نیست
چیز اچھی تھی جیسے گھورے کا گلاب، نہ پگڑی میں لگاتے بنے نہ توڑ کر پھینکتے بنے۔اس لیئے یہ ٹھہری تھی کہ ایک ٹٹی کی آڑ ضرور ہونی چاہیئےاور یہ ملازم صاحب وہی ٹٹی تھے جن کی آڑ میں شکار ہوتا تھا۔ چونکہ ان واقعات سے تینو ں فریق واقف تھےاس وھہ سے آپ ہی کہیے کہ اس تثلیث میں تفریق کیوں کر ہو سکتی تھی۔ رات کو لوگوں نے آرام کیا اور صبح اندھیرے منہ چلنے کا پاتراب ہوا۔ مگر منشی جی کو آنے میں کچھ دیر ہوئی۔ مرزا صاحب کا ملازم دوڑا گیا۔ منشی جی آئے تو مگر بہت پریشان اور شرمندہ۔

،نشی جی: حضور۔ ایک بڑی غلطی ہو گئی ہے۔ جو سزا دیجیے کم ہے۔ مجھ سے ایک چوک ہو گئی۔

مرزا صاحب: کیا چوک ہو گئی ہے۔

منشی جی: چوک حضور یہ ہو گئی ہے کہ جب آپ کا خدمت گار پہنچا تو میں نے اپنے عزیز سے کہا کہ مٹھائی اندر سے منگواؤ اور میں بیٹھ کر کرداتون کرنے لگا۔ اتنے میں ٹوکری میں کتے نے منہ ڈال دیا۔

بڑے مرزا صاحب: ایں یہ کیسے ہوا۔ (خدمت گار کی طرف اشارہ کر کے) اور یہ کہاں تھا۔

منشی جی: یہ بھی وہیں تھے۔ انہوں نے ہی دوت دوت کہا مگر وہ منہ ڈال چکا تھا۔

بڑے مرزا صاحب: اجی بالکل غلط۔ کتا وتا کچھ نہیں۔ یہ اسی بے ایمان کی حرکت ہے۔ تم منشی جی اس کو کیا جانو یہ بڑا حرام زادہ ہے۔ حرام خور، نمک حرام آدمی ہے۔

ملازم: آپ ہم ہی کو کہتے ہیں دیکھیے کپڑا دانت سے پھٹا ہے کہ نہیں اگر میں دوت دوت نہ کرتا تو سب کھا جاتا۔

بڑے مرزا صاحب: کچھ نہیں ایک ہی طرف تو خراب ہوئی ہے۔ اس نے کپڑا دانت سے سے پھاڑ ڈالا ہو گا اور پھِر دوت دوت چلایا ہو گا۔ اجی میں اس کے ہتھکنڈوں سے خوب واقف ہوں۔ بھٹیاری سے کہو جلدی سے اس کو سی دے یہ مٹھائی خراب وراب نہیں ہوئی ہے۔

لیجیے صاحب دوسرے دن کا سفر شروع ہوا۔ اور شام کو بجائے سرائے میں سونے کے میدان میں پڑاؤ ڈالنے کی ٹھہری۔چاندنی آدھی رات کے پہلے پہلے کھیت کر آئے گی۔ چپقلش سے یہ کھلے میدان کی ہوا کہیں خوش گوار ہے۔بہلی ایک طرف کھڑی کی گئی۔ اور بیل اور گھوڑا درختوں سے باندھے گئے۔گاڑی بان اور سائیس جانوروں کی حفاطت کے لیے نکل گئے۔ باقی
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
404صفحہ

لوگ مٹھائی کی رکھوالی کرنے لگے۔ بیچ میں مٹھائی اور اس کے ایک طرف بہ نفس نفیس خود مرزا صاحب کا بستر لگا۔ دوسری طرف نائب صاحب تیسری طرف منشی جی کا اور چوتھی جانب سپاہی تعینات ہوا۔ یہ دیکھ کر خدمت گار نے اپنے مختصر بچھونا بہت دور ہٹ کر لگایا۔ رات کو دو کا عمل رہا ہو گا کہ دور سے آواز آئی دوت، دوت۔مرزا صاحب اٹھ بیٹھے اور نائب صاحب سے کہنے لگے۔ شیخ جی دیکھتے ہیں آپ۔ کتا اسی سالے کو دکھائی دیا اور کسی کو نہیں۔

خدمت گار: میاں آپ گالی دے رہے ہیں۔ وہ دیکھیے کالا کالا جا رہا ہے۔ خیر رات کو بھاگتا ہوا کتا کسی کو کیا دکھائی دیا ہو گا۔ مگر ٹوکری کا کپڑا پھر اسی طرح پھٹا ہوا پایا گیا۔ اور کچھ مٹھائی بھی ادھر اُدھر پڑی ہوئی دیکھی گئی۔ کتے اور آدمی کا مسئلہ دوبارہ تازہ ہوا۔ آج بھٹیاری تو تھی نہیں لیکن سوئی دھاگا سپاہی کے بٹوے میں نکل آیا اور مرزا صاحب نے خود گانٹھ گونٹھ کر ٹوکری کو درست کیا اور شاموں شام بخیر و خوبی لکھنو پہنچ گئے۔

لکھنو سے دو چار کوس پہلے جب بڑے مرزا صاحب ایک خاص ضرورت سے اسھر کے کھیت کی طرف تشریف لے گئے تھے اور خدمت گار لوٹا لے کر ساتھ گیا تھا اس وقت منشی جی اور سپاہی میں مٹھائی کی باتیں چھڑیں تھیں۔ ان دونوں آدمیوں کو مٹھائی سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہو سکتا تھا اس لیے یہ لوگ بہتر رائے قائم کر سکتے تھے۔ منشی جی کا خیال تھا مرزا صاحب اتنے شوق سے مٹھائی کی سوغات لے کر چلے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ کتے والی بات ثابت ہو جائے۔ کیوں کہ پھر تو مٹھائی پھینک ہی دینا پڑے گی۔ سپاہی اس کے خلاف تھا مگر اس کی بھی رائے بدل چکی تھی کہ نائب صاحب کا ملازم آ گیا اور اس نے آہستہ سے کہا کہ خدمت گار نے مٹھائی کی دو ڈلیاں مجھ کو بھی دی ہیں۔ اب معاملہ صاف ہو گیا۔ مگر مرزا صاحب سے کسی نے نہیں کہا۔ بہر حال لکھنو پہنچ کر مٹھائی رات کو سرائے کی کوٹھڑی کے اندر قفل میں رکھی گئی۔ اور رات ہی سے صبح کو کچہری کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ منشی جی کسی اور کام سے بھیجے گئے اور خود مرزا صاحب مع نائب صاحب کے عدالت کو چلے۔ احتیاطاً خدمت گار علیہ ماعلیہ کو ساتھ لے لیا کہ مٹھائی اس کے دست برد سے بچی رہے۔ عدالت کے دروازے پر خدمت گار سے بستہ مانگا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ کوٹھڑی ہی میں رکھا ہے۔ مٹھائی کی تباہی اور نیزلذت تینوں آسمیوں کی نگاہوں میں پھر گئی مگر مرتا کیا نہ کرتا۔ وہی خدمت گار واپس بھیجا گیا اور سخت حکم دیا گیا کہ الٹے پاؤں واپس آئے۔ مٹھائی کا خیال بار بار آیا۔ مگر مجبوری تھی۔ اب مرزا صاحب کی الجھن نہ پوچھیے۔ بے چارے پریشان حال سراسیمہ ادھر ادھر ٹہل رہے ہیں۔ کیوں جی شیخ جی اگر پکار ہو گئی تو کیا ہو گا۔ مقدمہ تو خاک میں مل ہی چکا۔ غضب تو یہ ہے کہ جو کوئی سنے گا کیا کہے گا کہ گئے تھے مقدمہ لڑنے اور مسل گھر ہی چھوڑ آئے۔ ہمارے مد مقابل وطن پہنچ کر کیا کیا ہنسی اڑائیں گے، قصے کو کیسا کیسا مشہور کریں گے، نمک حرامی کی انتہا کر دی۔ اب گھر پہنچتے ہی اس مردود بے ایمان، مربی کش، محسن سوز، مار آستین کو نکال ہی دیں گے
 
Top