اندھی غلامی۔

arifkarim

معطل
خواجہ صاحب ۔۔۔۔ آپ نے جس بات کا ذکر کیا ہے ۔ یہ معاشرے میں عام ہے ۔ لڑکوں کو گھر میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان کو غسل یا استنجا کیسے کرنا ہے ۔ اس میں اخلاقی قدروں کے علاوہ کلچر اور روایتوں کا دخل ہے ۔ جس کی وجہ سے لڑکوں ( مردوں ) کو یہ سعادت عمرِ اوائل مٰیں نصیب ہو نہیں پاتی ۔ وقت اور مطالعہ سے مرد اس مقام پر پہنچتے ہیں کہ وہ طہارت کے تمام قاعدوں سے متعارف ہو سکیں ۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ معاملہ بلکل برعکس ہے ۔ اس میں مائیں اپنی بیٹوں کے بہت قریب ہوتیں ہیں ۔ ( جبکہ باپ اور بیٹے میں یہ فاصلہ بہت ہوتا ہے ) سو خواتین کو ہر بات کا علم کم عمری میں ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ مائیں ان کو ہر طرح سے بہت پہلے ہی گائیڈ کردیتیں ہیں ۔ جبکہ لڑکے ایک مخصوص عمر اور مطالعے سے اس منصب پر فائز ہوتے ہیں ۔
لہذا ایسا کہنا کہ غسل کے آداب صرف اس وجہ سے لڑکوں کو نہیں معلوم تھے کہ ان کے گھر میں اسلامی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں تھا ۔ یہ بلکل غلط نظریہ ہے ۔ میرا خیال ہے کہ کوئی بھی یہاں آکر اس بات کی تائید نہیں کرے گا انہیں ان کے گھر والوں نے بچپن یا لڑکپن میں ہی غسل کے آداب سیکھا دیئے گئے تھے ۔

بلا ضروری جھجھک کے نتیجہ میں اولاد وہ ضروری علوم سیکھنے سے قاصر ہو جاتی ہے جو انکو والدین کی طرف سے ملنے چاہئے تھے۔
 

dxbgraphics

محفلین
میں متفق نہیں ہوں ۔ میانہ روی کا فقدان ہے ۔ ایک طبقے کو نشانہ بناکر اس کا اطلاق سارے معاشرے پر کیا جا رہا ہے ۔ ہر کسی کو بنیادی اسلامی تعلیمات کا نہ صرف علم ہے بلکہ اس کا مطالعہ بھی کرتے ہیں ۔ یہ ایک رویہ ہے ۔ جو اس چیز پر باور کرتا ہے کہ ڈاکٹر ، سائنسدان ، انجینئر اور استاد پیدا نہیں ہونے چاہیئےتا کہ مغرب کے مدمقابل نہ کھڑا ہونے کی سکت نہیں رہے ۔ ہر گھر سے ملا پیدا کرنے کی رسم کی پیروی ہے ۔ جو ایک نیا اسلام پیدا کرے ۔ رہی اسلامی تعلمیات اور پھر اس میں اس حد تک جانا کہ انسان عالم یا ملا بن جائے تو میں ابھی اپنی آنکھ سے ملک کے ایک مشہور عالم (جو میرے جاننے والے بھی ہیں مگر ان کا نام لینا نہیں چاہتا ) کے صاحبزادے جو خود بھی ایک عالم ہیں ۔ ان کے بارے میں سنا کہ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں ۔ معلوم ہوا کہ موصوف کثرتِ شراب نوشی سے اس حال پر پہنچے ہیں ۔ لہذا اس نظریئے کا پرچار کرنا کہ او لیول اور دیگر سائنسی علوم چھوڑ کر صرف تصوف میں یا پھر ملائیت میں اپنی زندگی صرف کردو تو یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے ۔ جس سے مسلم امہ کو ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی سے دور رکھنا مقصود ہے اور کچھ بھی نہیں ۔

آپ سمیت ایک دو سے اور درخواست ہے کہ میری پوری پوسٹ کو کم از کم ایک دفعہ پڑھنے کی زحمت گوارا کر لیا کریں ۔ یا پھر کسی اور سے میری باتیں سمجھنے کی کوشش کیا کریں ۔ اگر “ ایک طبقے “ والی بات سمجھ آگئی ہوتی تو آپ یہ پوسٹ نہیں لکھتے ۔
کوشش کیا کریں کہ میری بات سمجھا کریں ۔ ورنہ میری کسی پوسٹ سے اقتباس سے گریز کریں ۔ لکیر کا فقیر بن کر رہنا کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔

جناب آپ بھی تو لکیر کے فقیر ہیں۔ مولانا صاحب کی ساری آڈیو آپ نے بھی نہیں سنی بلکہ تھوڑا سا سن کریا سنے بغیر ہی اپنے دل کی بھڑاس نکال لی۔ معافی چاہتا ہوں آپ موڈریٹر ہیں لیکن آپ کا جارحانہ رویہ مجھ سے کم نہیں ہے۔ عورت کے بارے میں مولانا صاحب نے جو کچھ کہا آپ اس کی تردید ہی کر دیجئے۔ جہاں آپ نے کہا کہ ملائیت ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہے تو میں آپ سے پھر کہوں گا کہ آڈیو ایک بار پھر غور سے سن لیجئے۔ اور اپنے اردگرد نظر دوڑایئے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ صرف مغرب ہی اس کی لپیٹ میں ہے بلکہ عرب ممالک بھی ایسے حالات میں مغرب سے پیچھے نہیں۔ میرا مقصد بحث کرنا نہیں تھا ۔ میں تو بحیثیت ممبر آپ کو موڈریٹر جان کر اپنی رائے دینا حق سمجھ بیٹھا۔لیکن آپ برا مان گئے۔ لہذا معافی چاہتا ہوں۔
 

ظفری

لائبریرین
میرے ساتھ مسئلہ تو یہی ہے کہ میں برا تو مانتا ہی نہیں ۔۔۔۔ :)
ابھی تو رت جگہ کیا ہے ۔۔۔۔ یہاں صبح ہوچکی ہے ۔ آرام سے آپ کی بات کا جواب دوں گا ۔
 

dxbgraphics

محفلین
خواجہ صاحب ۔۔۔۔ آپ نے جس بات کا ذکر کیا ہے ۔ یہ معاشرے میں عام ہے ۔ لڑکوں کو گھر میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان کو غسل یا استنجا کیسے کرنا ہے ۔ اس میں اخلاقی قدروں کے علاوہ کلچر اور روایتوں کا دخل ہے ۔ جس کی وجہ سے لڑکوں ( مردوں ) کو یہ سعادت عمرِ اوائل مٰیں نصیب ہو نہیں پاتی ۔ وقت اور مطالعہ سے مرد اس مقام پر پہنچتے ہیں کہ وہ طہارت کے تمام قاعدوں سے متعارف ہو سکیں ۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ معاملہ بلکل برعکس ہے ۔ اس میں مائیں اپنی بیٹوں کے بہت قریب ہوتیں ہیں ۔ ( جبکہ باپ اور بیٹے میں یہ فاصلہ بہت ہوتا ہے ) سو خواتین کو ہر بات کا علم کم عمری میں ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ مائیں ان کو ہر طرح سے بہت پہلے ہی گائیڈ کردیتیں ہیں ۔ جبکہ لڑکے ایک مخصوص عمر اور مطالعے سے اس منصب پر فائز ہوتے ہیں ۔
لہذا ایسا کہنا کہ غسل کے آداب صرف اس وجہ سے لڑکوں کو نہیں معلوم تھے کہ ان کے گھر میں اسلامی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں تھا ۔ یہ بلکل غلط نظریہ ہے ۔ میرا خیال ہے کہ کوئی بھی یہاں آکر اس بات کی تائید نہیں کرے گا انہیں ان کے گھر والوں نے بچپن یا لڑکپن میں ہی غسل کے آداب سیکھا دیئے گئے تھے ۔

ظفر ی بھائی معذرت کیساتھ۔ لیکن اللہ شاہد ہے کہ بہت ہی کم عمری میں والد صاحب نے نماز ۔ غسل ۔ سلام و جواب و دیگر اہم مسائل سے روشناس کروادیا تھا۔ اور یہی کہا کرتے تھے کہ بیٹا ہر کسی نے اپنی قبر میں جانا ہے اور وہاں کی تیاری تمہیں خود کرنی ہے۔
 

حسن جاوید

محفلین
ظفری بھائی بات کو سمجھیں انسان زیادہ گھر کے باہر افراد سے سیکھتا ہے؎
میں یہی تو بتانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ کم از کم اسلامیات کے استاد کو ان باتوں سے شاگردوں کو آگاہ کرنا چاہیے۔
 

arifkarim

معطل
ماڈریٹر “صاحب“ سے بلاوجہ معافیاں مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے تمام ویڈیوز دیکھیں ہیں اور انمیں محض مغرب کے اخلاقی پہلوؤں اور ہماری انکی اندھی تقلید سے متعلق دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کیخلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا اور نہ ہی اسکو نہ سیکھنے کی ترغیب دی گئی ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ پہلے اچھے انسان تو بنو پھر بیشک ڈاکٹر انجینئر پروفیسر بن جانا ہے۔ حد ہو گئی بدظنی کی!
 

طالوت

محفلین
ان اچھے انسانوں میں جو اب تک ہزاروں کی تعداد میں بن چکے ہیں کتنے انجنیئر اور ڈاکٹر بنے ہیں ؟ ما سوائے کافر و مومن بنانے کے اگر ان کے کریڈٹ پر کچھ اور بھی ہو تو میرے علم مفید اضافہ ہو گا۔
ان کی اچھائی کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ان سے کوئی بیزار یا مخالف انھیں اچھی اچھی باتیں بتانے سے منع کرے تو یہ اخلاقیات کے وہ دریا بہاتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ آہو !
غسل و وضو کے فرائض سے یاد آیا کیا غسل ووضوکے فرائض و سنت پر امت کا اجماع ہو گیا ہے ؟
مسلمانوں کو “ری مسلم “کر کے جیو !
 

dxbgraphics

محفلین
ان اچھے انسانوں میں جو اب تک ہزاروں کی تعداد میں بن چکے ہیں کتنے انجنیئر اور ڈاکٹر بنے ہیں ؟ ما سوائے کافر و مومن بنانے کے اگر ان کے کریڈٹ پر کچھ اور بھی ہو تو میرے علم مفید اضافہ ہو گا۔
ان کی اچھائی کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ان سے کوئی بیزار یا مخالف انھیں اچھی اچھی باتیں بتانے سے منع کرے تو یہ اخلاقیات کے وہ دریا بہاتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ آہو !
غسل و وضو کے فرائض سے یاد آیا کیا غسل ووضوکے فرائض و سنت پر امت کا اجماع ہو گیا ہے ؟
مسلمانوں کو “ری مسلم “کر کے جیو !

درج بالا آڈیو سے آپ کی تحریر کا کوئی واسطہ نظر نہیں آیا ظہیر بھائی۔
 

عثمان

محفلین
واقعی سوچنے والی بات ہے کہ مغرب نے آزادی کے نام پر عورت کو گرل فرینڈ بنا کر اس کی زندگی برباد کر دی گئی ہے۔

یہ آپ کے سوچنے کا انداز ہے۔ مغرب والوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے عورت کو آزادی اور چوائس دی ہے۔ عورت کو بحثیت ایک آزاد فرد خود یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ایک فاحشہ بنے گی۔۔۔یا ایک عزت دار۔ جہاں مغرب کی عورتوں نے کچھ معاملات میں برائی کمائی ہے وہاں بڑے بڑے کام کرکے نام و مقام بھی کمایا ہے۔ مغرب میں عورت کے اور بھی کئی روپ ہیں۔ براہ کرم فاحشہ کے روپ سے کچھ آگے بھی دیکھنا سیکھیں۔
ادھر مغرب کے لوگ بھی آپ کے متعلق کچھ اسی قسم کی بدفہمی اور بدظنی کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا اور سوچنا یہ ہے کہ آپ نے عورت کو مقید کرکے رکھ دیا ہے۔ اور اب مسلمان عورت کا کل انحصار معاشروں میں موجود مردوں پر ہے جو اس کی زندگی کے ہرچھوٹے بڑے معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مغرب والوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں نے عورت کی شخصیت اور آزادی صلب کرکے اس کی زندگی برباد کردی ہے۔
اب اگر آپ مغرب میں عورتوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر کرنا شروع کریں گے تو واضح رہے کہ ان کے پاس بھی ہمارے سیاہ کرتوں کی کافی لمبی فہرست ہے۔ دوسری تہذیبوں پہ کیچڑ اچھالنے سے پہلے دیکھ لینا چاہیے کہ ہماری تہذیب کس نہج پہ کھڑی ہے۔
 

طالوت

محفلین
بالکل درست محمد صدیق ۔ یہ تو میں نے دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں جو میں اکثر ہی پھوڑتا رہتا ہوں ۔ مجھے طارق جمیل صاحب یا کسی اور سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں مگر مجھے افسوس ہوتا ہے جب ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں اراکین رکھنے والے حضرات چاہے مذہبی ہوں یا سیاسی ، یکطرفہ بات کر کے مسائل سلجھانے کی بجائے الجھاتے ہیں ۔ میری رائے میں یا تو آپ دو طرفہ بات کریں یا پھر اپنی فکر تک محدود رہتے ہوئے ہی بات کریں ۔ یہ تمام حضرات نہ تو ہماری دنیاوی زندگی کو سدھار پا رہے ہیں نہ اخروی زندگی کو ۔ ہمارے یہاں اکثر لوگ ایک طرف نمازیں پڑھتے صدقہ و خیرات کرتے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف بے ایمانی جھوٹ اور منافقت کو اپنائے ہوئے ۔ ہم تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام ہی وہ سچا مذہب ہے جو انسانی فلاح کی اہلیت رکھتا ہے ۔ اس کا نمونہ سیدنا رسول اللہ اور اصحاب رسول کی زندگیوں میں بڑا واضح ہے جسے اپنے بیگانے سب تسلیم کرتے ہیں ماسوائے تعصب زدہ لوگوں کے ۔ مگر کیا وجہ ہے کہ تمام تر واعظوں نصیحتوں کوششوں کے ہم اس منزل کو پانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں ؟ میں نے اپنی اس مختصر سی زندگی میں ایسا کوئی شخص نہیں دیکھا جو بحیثیت ایک عام اور معمولی علم رکھنے والے مجھ جیسے مسلمان کی درست راہ نمائی کر پایا ہو یا اس دن بدن قریب ہوتی دنیا سے میرے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا جواب فراہم کر سکے ۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ سوال کی نسبت یا میری اس سوال کے جواب کی نسبت سے مجھے لعن طعن کرنے کا کوئی موقع یہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔
مسواک کی فضیلت میں مسواک کرتے صحابہ کو کفار کے سامنے ایسے وحشی پیش کرنے والے جو دانت اسلئے تیز کر رہے ہیں کہ کفار چیر پھاڑ ڈالیں جیسے واقعات بیان کرنے والوں آج کے “ڈیجیٹل“ دور کے لوگوں وقتی ابال تو دے سکتے ہیں مگر مستقل راہ پر نہیں ڈال سکتے۔ بجائے اس کے کہ ہمارے مفکرین و معلمین ہر کج بحثی اور لعن طعن میں پڑے رہیں اور گھن گہیوں ساتھ ساتھ پیستے رہیں اچھائی کو اچھائی اور برائی کو برائی کے طور پر ہی پیش کریں اور عام مسلمانوں کے لئے بذات خود ایک نمونہ ثابت ہوں ۔ محض دو وقت کی روٹی کے لئے مشقت کرتے ایک ان پڑھ جاہل مسلمان کو ڈبل ڈور پک اپ میں سفر کرنے اور مرغن غذاؤں کو دستر خوانوں کی زینت بنانے اس کی بھوک کی موجودگی میں ہزاروں روپوں کی قربانیاں کرنے اور ترغیب دینے والوں کی باتوں میں کچھ کشش نہیں۔
(لیں اتنی مغز ماری اور افلاطونی تقریر میں تعلق پھر بھی کچھ نہیں:))
وسلام
 

شمشاد

لائبریرین
ظفری بھائی آپ ہر بات کا الٹا مطلب لیتے ہو۔۔
میرے کہنے کا مطلب تھا کہ کالج لائف میں کم از کم اساتزہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ایسی باتوں سے آگاہ کریں۔۔
کیونکہ بچے اس عمر میں استاد کی زیادہ سنتے ہیں۔

کالج لائف سے پہلے یہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ایسی باتوں سے آگاہ کریں۔ ہر بات کے لیے اساتذہ پر انحصار نہ کریں۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
میں نے تھریڈ شروع کرتے ہوئے التجا کی تھی کہ مذہب یا جماعت سے قطع نظر ہوکر ویڈیوز میں بیان کیے جارہے دلائل کے سچائی بتائیے۔ غیر جانبداری کی بات صرف اس وجہ سے کہ ہم میں سے کچھ لوگ مذہبی جذبا تیت کا شکار ہوتے ہیں،اور کچھ لوگ بات بے بات اعتراض کے عادت میں مبتلا۔﴿یعنی دوسروں سے بدگمانی﴾
غلطی شاید میری ہے کہ اپنی بات صحیح سے پوچھ نہیں پا رہا ہوں۔اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ ایک بار پھر اپنے سوالات دوہرانے کی کوشش کرتا ہوں۔
جیسا کے تقریر کے شروع میں بتا جارہا ہے کہ کائنات خود بخود وجود میں آگئی تھی، تو اس سے متعلق پوچھنا تھا کہ یہ کس کے نظریات تھے،کب شروع ہوئے۔ اور پھر کچھ تحقیق کاروں کے نام بتا جارہےہیں جیسے کہ ایڈون ہیول اور کال ڈیوس﴿1725سے 1795کے درمیان﴾ جنہوں نے کائنات کے پھیلاو اور ایک دھماکے سے وجود میں آنے کے نظریات پیش کیے۔ جس کو بنیادبنا کر ہم انسانوں کی زندگی کو آزاد گزارنے کا نظریہ آیا ﴿تیسری ویڈیو کا اینڈ اور چوتھی کا شروع﴾ ان نظریات اور انکے اثرات متعلق جاننا چاہ رہا تھا
اسی طرح ایڈم سمتھ کے آزاد کاروباری نظام، عورت کی آزادی کا نظریہ،اس کے اثرات وغیرہ۔
گذارش ہے کہ پوری ویڈیوز سننے کے بعد غیر جانبداری سے رائے دیں۔ اگر ویڈیو سننے کا وقت نہیں ہے تو برائے مہربانی تبصرے نہ لکھیں۔
 
مقرر ایک مشہور مبلغ ہیں انہوں نے یورپ کے فلسفے اور سائنس کے ارتقاء کا مطالعہ کیا ہوا ہے اسلئے انکی تقریر مین ان باتوں کا حوالہ دیا گیا ہے اور درست ہی ہے، ہاں کہیں کہین جوش خطابت مین بات کو ذرا مبالغہ انگیزی میں لے گئے ہیں۔ ۔ خاص طور پر قرآن کی آیات کا حوالہ دیتے وقت ترجمے میں تبدیلی کر گذرے ہیں اور سیدھے رنگ میں کہی گئی بات کو چیلنج کے انداز میں پیش کردیا ہے۔:)
موسیقی کے حوالے سے بھی کافی زیادہ شدت کا مظاہرہ کیا ہے، حالانکہ اسلام میں موسیقی کے حوالے سے اتنا تشدد نہین ہے۔
لیکن ان باتوں سے قطع نظر، بلاشبہ بہت اچھا اور متاثر کن بیان تھا۔ ۔ ۔ ۔جزاک اللہ
 

dxbgraphics

محفلین
یہ آپ کے سوچنے کا انداز ہے۔ مغرب والوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے عورت کو آزادی اور چوائس دی ہے۔ عورت کو بحثیت ایک آزاد فرد خود یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ایک فاحشہ بنے گی۔۔۔یا ایک عزت دار۔ جہاں مغرب کی عورتوں نے کچھ معاملات میں برائی کمائی ہے وہاں بڑے بڑے کام کرکے نام و مقام بھی کمایا ہے۔ مغرب میں عورت کے اور بھی کئی روپ ہیں۔ براہ کرم فاحشہ کے روپ سے کچھ آگے بھی دیکھنا سیکھیں۔
ادھر مغرب کے لوگ بھی آپ کے متعلق کچھ اسی قسم کی بدفہمی اور بدظنی کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا اور سوچنا یہ ہے کہ آپ نے عورت کو مقید کرکے رکھ دیا ہے۔ اور اب مسلمان عورت کا کل انحصار معاشروں میں موجود مردوں پر ہے جو اس کی زندگی کے ہرچھوٹے بڑے معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مغرب والوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں نے عورت کی شخصیت اور آزادی صلب کرکے اس کی زندگی برباد کردی ہے۔
اب اگر آپ مغرب میں عورتوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر کرنا شروع کریں گے تو واضح رہے کہ ان کے پاس بھی ہمارے سیاہ کرتوں کی کافی لمبی فہرست ہے۔ دوسری تہذیبوں پہ کیچڑ اچھالنے سے پہلے دیکھ لینا چاہیے کہ ہماری تہذیب کس نہج پہ کھڑی ہے۔

مسلمانوں نے عورت کو ماں، بہن، بیٹی، بہو ، خالہ، چچی اور بہت سے درجے دیئے ہیں۔ اس کے لئے کسی وضاحت یا ثبوت کی ضرورت نہیں۔ عورت کو مقید نہیں کیا گیا بلکہ اس کو اسی کا احترام جو کہ شریعت دیتی ہے دیا ہے۔ مسلمان عورتوں کا کل انحصار بے شک مردوں پر ہے کہ وہ ان کے ذمہ دار اور کفیل ہیں۔مسلمان اپنی والدہ۔ ہمشیرہ، زوجہ کو سر بازار بغیر دوپٹے اور کسی مرد کے ساتھ تعلق رکھنے کا نہیں سوچ سکتا۔ اور مغرب یہی چیز عرب میں تو ایکسپورٹ کر چکا ہے لیکن یہی چیز پاکستان کو ایکسپورٹ کرنے میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔
جس طرح میں اپنی اہل و عیال کے لئے کوئی برائی۔ یا آزادی کے نام پر ننگے سر کم کپڑے برداشت نہیں کر سکتا ان کے لئے مخلوط طرز زندگی برداشنت نہیں کر سکتا اسی طرح میں ہر ماں بہن بیٹی اور بہو کے لئے بھی یہی چاہوں گا۔ مشرقی ممالک میں تقریبا ایک سربراہ کماتا ہے اور پورے خاندان کو کھلاتا ہے جس پر مغرب بوکھلا گیا ہے۔ اور مغرب کی طرح وہ بھی یہی چاہتا ہے کہ مشرق میں بھی ہر کوئی مرد ہو یا عورت سب کمائی میں مبتلا ہوجائیں۔
جہاں آپ نے مغربی عورتوں کے نام و مقام کمانے کا ذکر کیا ہے وہاں آپ نے چند مثالیں بھی اگر دے دیں تو وہ مغرب میں عورتوں کے ساتھ بدسلوکی اور ان کو گرل فرینڈ جیسی لعنت سے چھٹکارا نہیں دلا سکتاہے جو کہ اعشاریہ زیرہ ایک فیصد بھی نہیں ہے۔. عورت ماں ہے بہن ہے بیٹی ہے بہو ہے ۔ اور عورت کو اس کا صحیح مقام صرف اسلام نے دیا ہے۔ اور آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ مغرب بدفہمی اور بدظنی میں نہیں بلکہ مسلمانوں سے نفرت کا شکار ہے۔ اور وہ اسلام کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہشت گردی کی وارداتوں کے مقابلے میں معصوم شہریوں کی ہلاکت کا ثبوت آپ کو عراق افغانستان کی جنگ میں مل چکا ہے۔ آپ بھلے ہی اس پر مُصر ہوں کہ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے لیکن یہ اسلام کے خلاف نفرت ہے جس کو آپ بدظنی اور بدفہمی کا نام دے کر اپنے دل کو تسلی دے رہے ہیں۔
 

dxbgraphics

محفلین
اور ہاں میری باتوں سے یہ ہرگز نہ سمجھ بیٹھے کہ میں مغرب سے نفرت کرتا ہوں۔ یا ان کے خلاف ہوں۔ لیکن یہ بات اکید ہے کہ مغرب میں جہاں ایک فیصدی کام اچھے ہیں وہاں ۹۹ فیصدی کام غیر اخلاقی ہے۔ اب اعداد و شمار نہ مانگ لیجئے گا۔ تفصیلات آپ کے لئے گوگل جناب پر انگلیاں پھیر لیجئے گا۔
 

dxbgraphics

محفلین
بالکل درست محمد صدیق ۔ یہ تو میں نے دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں جو میں اکثر ہی پھوڑتا رہتا ہوں ۔ مجھے طارق جمیل صاحب یا کسی اور سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں مگر مجھے افسوس ہوتا ہے جب ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں اراکین رکھنے والے حضرات چاہے مذہبی ہوں یا سیاسی ، یکطرفہ بات کر کے مسائل سلجھانے کی بجائے الجھاتے ہیں ۔ میری رائے میں یا تو آپ دو طرفہ بات کریں یا پھر اپنی فکر تک محدود رہتے ہوئے ہی بات کریں ۔ یہ تمام حضرات نہ تو ہماری دنیاوی زندگی کو سدھار پا رہے ہیں نہ اخروی زندگی کو ۔ ہمارے یہاں اکثر لوگ ایک طرف نمازیں پڑھتے صدقہ و خیرات کرتے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف بے ایمانی جھوٹ اور منافقت کو اپنائے ہوئے ۔ ہم تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام ہی وہ سچا مذہب ہے جو انسانی فلاح کی اہلیت رکھتا ہے ۔ اس کا نمونہ سیدنا رسول اللہ اور اصحاب رسول کی زندگیوں میں بڑا واضح ہے جسے اپنے بیگانے سب تسلیم کرتے ہیں ماسوائے تعصب زدہ لوگوں کے ۔ مگر کیا وجہ ہے کہ تمام تر واعظوں نصیحتوں کوششوں کے ہم اس منزل کو پانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں ؟ میں نے اپنی اس مختصر سی زندگی میں ایسا کوئی شخص نہیں دیکھا جو بحیثیت ایک عام اور معمولی علم رکھنے والے مجھ جیسے مسلمان کی درست راہ نمائی کر پایا ہو یا اس دن بدن قریب ہوتی دنیا سے میرے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا جواب فراہم کر سکے ۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ سوال کی نسبت یا میری اس سوال کے جواب کی نسبت سے مجھے لعن طعن کرنے کا کوئی موقع یہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔
مسواک کی فضیلت میں مسواک کرتے صحابہ کو کفار کے سامنے ایسے وحشی پیش کرنے والے جو دانت اسلئے تیز کر رہے ہیں کہ کفار چیر پھاڑ ڈالیں جیسے واقعات بیان کرنے والوں آج کے “ڈیجیٹل“ دور کے لوگوں وقتی ابال تو دے سکتے ہیں مگر مستقل راہ پر نہیں ڈال سکتے۔ بجائے اس کے کہ ہمارے مفکرین و معلمین ہر کج بحثی اور لعن طعن میں پڑے رہیں اور گھن گہیوں ساتھ ساتھ پیستے رہیں اچھائی کو اچھائی اور برائی کو برائی کے طور پر ہی پیش کریں اور عام مسلمانوں کے لئے بذات خود ایک نمونہ ثابت ہوں ۔ محض دو وقت کی روٹی کے لئے مشقت کرتے ایک ان پڑھ جاہل مسلمان کو ڈبل ڈور پک اپ میں سفر کرنے اور مرغن غذاؤں کو دستر خوانوں کی زینت بنانے اس کی بھوک کی موجودگی میں ہزاروں روپوں کی قربانیاں کرنے اور ترغیب دینے والوں کی باتوں میں کچھ کشش نہیں۔
(لیں اتنی مغز ماری اور افلاطونی تقریر میں تعلق پھر بھی کچھ نہیں:))
وسلام

معذرت کیساتھ ظہیر بھائی آپ کے جواب سے میں مطمئن نہیں ہوں۔ بات وہی آئے گی کہ علما کو لعن طعن کا نشانہ بنایا تو جاتا ہے لیکن ان کو شریک اقتدار کرنے شرعی معاملات کے لئے قانون سازی کی بجائے جب لارڈ میکالے کے کالے قانون کو تھوپا جائے گا تو ایسے حالات میں ذمہ دار علما تو نہیں سکتے۔
 

dxbgraphics

محفلین
جہاں شریعت میں ایک غریب کو مفت انصاف مہیا کیا جاتا ہے وہیں اس کے برعکس ایک غریب اپنی جمع پونجی وکیل کے اخراجات کی مد میں صرف کر کے بالآخر انصاف سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اور پیسہ دار طبقہ انصاف خرید کر لے جاتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ انصاف میں اتنی دیری نہ کرو کہ مدعی اپنے مقدمے سے پیچھے ہٹ جائے۔

معافی چاہتا ہوں کہ بات موضوع سے ہٹ رہی ہے لہذا اسی پر بس کر لیتا ہوں۔
 

عثمان

محفلین
اور آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ مغرب بدفہمی اور بدظنی میں نہیں بلکہ مسلمانوں سے نفرت کا شکار ہے۔


اور ہاں میری باتوں سے یہ ہرگز نہ سمجھ بیٹھے کہ میں مغرب سے نفرت کرتا ہوں۔ یا ان کے خلاف ہوں۔ لیکن یہ بات اکید ہے کہ مغرب میں جہاں ایک فیصدی کام اچھے ہیں وہاں ۹۹ فیصدی کام غیر اخلاقی ہے۔ اب اعداد و شمار نہ مانگ لیجئے گا۔ تفصیلات آپ کے لئے گوگل جناب پر انگلیاں پھیر لیجئے گا۔

اب آپ کی اس محض جذباتی تقریر کا میں کیا جواب دوں۔ :)
مغرب کے متعلق حقائق جاننے کے لئے مجھے گوگل پر انگلیاں پھیرنے کی ضرورت نہیں کہ میں خود ان لوگوں کے درمیان رہتا ہوں۔ انھیں میں سے کچھ لوگ اسی طرح گوگل پر انگلیاں پھیرنے سے آپ کے خلاف بدفہمی اور بدظنی کا شکار ہوئے ہیں۔ جس طرح آپ گوگل پر انگلیاں پھیرنے سے ان کے خلاف ہوچکے ہیں۔ :)
 
Top