آپ پہلے پوری ویڈیوز دیکھ لیں پھر بات کرتے ہیں ۔آپکی اس تحریر کا اس ویڈیو میں موجود دلائل سےکیا تعلق ہے؟
آپ پہلے پوری ویڈیوز دیکھ لیں پھر بات کرتے ہیں ۔آپکی اس تحریر کا اس ویڈیو میں موجود دلائل سےکیا تعلق ہے؟
خواجہ صاحب ۔۔۔۔ آپ نے جس بات کا ذکر کیا ہے ۔ یہ معاشرے میں عام ہے ۔ لڑکوں کو گھر میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان کو غسل یا استنجا کیسے کرنا ہے ۔ اس میں اخلاقی قدروں کے علاوہ کلچر اور روایتوں کا دخل ہے ۔ جس کی وجہ سے لڑکوں ( مردوں ) کو یہ سعادت عمرِ اوائل مٰیں نصیب ہو نہیں پاتی ۔ وقت اور مطالعہ سے مرد اس مقام پر پہنچتے ہیں کہ وہ طہارت کے تمام قاعدوں سے متعارف ہو سکیں ۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ معاملہ بلکل برعکس ہے ۔ اس میں مائیں اپنی بیٹوں کے بہت قریب ہوتیں ہیں ۔ ( جبکہ باپ اور بیٹے میں یہ فاصلہ بہت ہوتا ہے ) سو خواتین کو ہر بات کا علم کم عمری میں ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ مائیں ان کو ہر طرح سے بہت پہلے ہی گائیڈ کردیتیں ہیں ۔ جبکہ لڑکے ایک مخصوص عمر اور مطالعے سے اس منصب پر فائز ہوتے ہیں ۔
لہذا ایسا کہنا کہ غسل کے آداب صرف اس وجہ سے لڑکوں کو نہیں معلوم تھے کہ ان کے گھر میں اسلامی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں تھا ۔ یہ بلکل غلط نظریہ ہے ۔ میرا خیال ہے کہ کوئی بھی یہاں آکر اس بات کی تائید نہیں کرے گا انہیں ان کے گھر والوں نے بچپن یا لڑکپن میں ہی غسل کے آداب سیکھا دیئے گئے تھے ۔
میں متفق نہیں ہوں ۔ میانہ روی کا فقدان ہے ۔ ایک طبقے کو نشانہ بناکر اس کا اطلاق سارے معاشرے پر کیا جا رہا ہے ۔ ہر کسی کو بنیادی اسلامی تعلیمات کا نہ صرف علم ہے بلکہ اس کا مطالعہ بھی کرتے ہیں ۔ یہ ایک رویہ ہے ۔ جو اس چیز پر باور کرتا ہے کہ ڈاکٹر ، سائنسدان ، انجینئر اور استاد پیدا نہیں ہونے چاہیئےتا کہ مغرب کے مدمقابل نہ کھڑا ہونے کی سکت نہیں رہے ۔ ہر گھر سے ملا پیدا کرنے کی رسم کی پیروی ہے ۔ جو ایک نیا اسلام پیدا کرے ۔ رہی اسلامی تعلمیات اور پھر اس میں اس حد تک جانا کہ انسان عالم یا ملا بن جائے تو میں ابھی اپنی آنکھ سے ملک کے ایک مشہور عالم (جو میرے جاننے والے بھی ہیں مگر ان کا نام لینا نہیں چاہتا ) کے صاحبزادے جو خود بھی ایک عالم ہیں ۔ ان کے بارے میں سنا کہ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں ۔ معلوم ہوا کہ موصوف کثرتِ شراب نوشی سے اس حال پر پہنچے ہیں ۔ لہذا اس نظریئے کا پرچار کرنا کہ او لیول اور دیگر سائنسی علوم چھوڑ کر صرف تصوف میں یا پھر ملائیت میں اپنی زندگی صرف کردو تو یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے ۔ جس سے مسلم امہ کو ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی سے دور رکھنا مقصود ہے اور کچھ بھی نہیں ۔
آپ سمیت ایک دو سے اور درخواست ہے کہ میری پوری پوسٹ کو کم از کم ایک دفعہ پڑھنے کی زحمت گوارا کر لیا کریں ۔ یا پھر کسی اور سے میری باتیں سمجھنے کی کوشش کیا کریں ۔ اگر “ ایک طبقے “ والی بات سمجھ آگئی ہوتی تو آپ یہ پوسٹ نہیں لکھتے ۔
کوشش کیا کریں کہ میری بات سمجھا کریں ۔ ورنہ میری کسی پوسٹ سے اقتباس سے گریز کریں ۔ لکیر کا فقیر بن کر رہنا کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔
خواجہ صاحب ۔۔۔۔ آپ نے جس بات کا ذکر کیا ہے ۔ یہ معاشرے میں عام ہے ۔ لڑکوں کو گھر میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان کو غسل یا استنجا کیسے کرنا ہے ۔ اس میں اخلاقی قدروں کے علاوہ کلچر اور روایتوں کا دخل ہے ۔ جس کی وجہ سے لڑکوں ( مردوں ) کو یہ سعادت عمرِ اوائل مٰیں نصیب ہو نہیں پاتی ۔ وقت اور مطالعہ سے مرد اس مقام پر پہنچتے ہیں کہ وہ طہارت کے تمام قاعدوں سے متعارف ہو سکیں ۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ معاملہ بلکل برعکس ہے ۔ اس میں مائیں اپنی بیٹوں کے بہت قریب ہوتیں ہیں ۔ ( جبکہ باپ اور بیٹے میں یہ فاصلہ بہت ہوتا ہے ) سو خواتین کو ہر بات کا علم کم عمری میں ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ مائیں ان کو ہر طرح سے بہت پہلے ہی گائیڈ کردیتیں ہیں ۔ جبکہ لڑکے ایک مخصوص عمر اور مطالعے سے اس منصب پر فائز ہوتے ہیں ۔
لہذا ایسا کہنا کہ غسل کے آداب صرف اس وجہ سے لڑکوں کو نہیں معلوم تھے کہ ان کے گھر میں اسلامی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں تھا ۔ یہ بلکل غلط نظریہ ہے ۔ میرا خیال ہے کہ کوئی بھی یہاں آکر اس بات کی تائید نہیں کرے گا انہیں ان کے گھر والوں نے بچپن یا لڑکپن میں ہی غسل کے آداب سیکھا دیئے گئے تھے ۔
ان اچھے انسانوں میں جو اب تک ہزاروں کی تعداد میں بن چکے ہیں کتنے انجنیئر اور ڈاکٹر بنے ہیں ؟ ما سوائے کافر و مومن بنانے کے اگر ان کے کریڈٹ پر کچھ اور بھی ہو تو میرے علم مفید اضافہ ہو گا۔
ان کی اچھائی کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ان سے کوئی بیزار یا مخالف انھیں اچھی اچھی باتیں بتانے سے منع کرے تو یہ اخلاقیات کے وہ دریا بہاتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ آہو !
غسل و وضو کے فرائض سے یاد آیا کیا غسل ووضوکے فرائض و سنت پر امت کا اجماع ہو گیا ہے ؟
مسلمانوں کو “ری مسلم “کر کے جیو !
واقعی سوچنے والی بات ہے کہ مغرب نے آزادی کے نام پر عورت کو گرل فرینڈ بنا کر اس کی زندگی برباد کر دی گئی ہے۔
ظفری بھائی آپ ہر بات کا الٹا مطلب لیتے ہو۔۔
میرے کہنے کا مطلب تھا کہ کالج لائف میں کم از کم اساتزہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ایسی باتوں سے آگاہ کریں۔۔
کیونکہ بچے اس عمر میں استاد کی زیادہ سنتے ہیں۔
یہ آپ کے سوچنے کا انداز ہے۔ مغرب والوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے عورت کو آزادی اور چوائس دی ہے۔ عورت کو بحثیت ایک آزاد فرد خود یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ایک فاحشہ بنے گی۔۔۔یا ایک عزت دار۔ جہاں مغرب کی عورتوں نے کچھ معاملات میں برائی کمائی ہے وہاں بڑے بڑے کام کرکے نام و مقام بھی کمایا ہے۔ مغرب میں عورت کے اور بھی کئی روپ ہیں۔ براہ کرم فاحشہ کے روپ سے کچھ آگے بھی دیکھنا سیکھیں۔
ادھر مغرب کے لوگ بھی آپ کے متعلق کچھ اسی قسم کی بدفہمی اور بدظنی کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا اور سوچنا یہ ہے کہ آپ نے عورت کو مقید کرکے رکھ دیا ہے۔ اور اب مسلمان عورت کا کل انحصار معاشروں میں موجود مردوں پر ہے جو اس کی زندگی کے ہرچھوٹے بڑے معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مغرب والوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں نے عورت کی شخصیت اور آزادی صلب کرکے اس کی زندگی برباد کردی ہے۔
اب اگر آپ مغرب میں عورتوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر کرنا شروع کریں گے تو واضح رہے کہ ان کے پاس بھی ہمارے سیاہ کرتوں کی کافی لمبی فہرست ہے۔ دوسری تہذیبوں پہ کیچڑ اچھالنے سے پہلے دیکھ لینا چاہیے کہ ہماری تہذیب کس نہج پہ کھڑی ہے۔
بالکل درست محمد صدیق ۔ یہ تو میں نے دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں جو میں اکثر ہی پھوڑتا رہتا ہوں ۔ مجھے طارق جمیل صاحب یا کسی اور سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں مگر مجھے افسوس ہوتا ہے جب ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں اراکین رکھنے والے حضرات چاہے مذہبی ہوں یا سیاسی ، یکطرفہ بات کر کے مسائل سلجھانے کی بجائے الجھاتے ہیں ۔ میری رائے میں یا تو آپ دو طرفہ بات کریں یا پھر اپنی فکر تک محدود رہتے ہوئے ہی بات کریں ۔ یہ تمام حضرات نہ تو ہماری دنیاوی زندگی کو سدھار پا رہے ہیں نہ اخروی زندگی کو ۔ ہمارے یہاں اکثر لوگ ایک طرف نمازیں پڑھتے صدقہ و خیرات کرتے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف بے ایمانی جھوٹ اور منافقت کو اپنائے ہوئے ۔ ہم تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام ہی وہ سچا مذہب ہے جو انسانی فلاح کی اہلیت رکھتا ہے ۔ اس کا نمونہ سیدنا رسول اللہ اور اصحاب رسول کی زندگیوں میں بڑا واضح ہے جسے اپنے بیگانے سب تسلیم کرتے ہیں ماسوائے تعصب زدہ لوگوں کے ۔ مگر کیا وجہ ہے کہ تمام تر واعظوں نصیحتوں کوششوں کے ہم اس منزل کو پانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں ؟ میں نے اپنی اس مختصر سی زندگی میں ایسا کوئی شخص نہیں دیکھا جو بحیثیت ایک عام اور معمولی علم رکھنے والے مجھ جیسے مسلمان کی درست راہ نمائی کر پایا ہو یا اس دن بدن قریب ہوتی دنیا سے میرے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا جواب فراہم کر سکے ۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ سوال کی نسبت یا میری اس سوال کے جواب کی نسبت سے مجھے لعن طعن کرنے کا کوئی موقع یہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔
مسواک کی فضیلت میں مسواک کرتے صحابہ کو کفار کے سامنے ایسے وحشی پیش کرنے والے جو دانت اسلئے تیز کر رہے ہیں کہ کفار چیر پھاڑ ڈالیں جیسے واقعات بیان کرنے والوں آج کے “ڈیجیٹل“ دور کے لوگوں وقتی ابال تو دے سکتے ہیں مگر مستقل راہ پر نہیں ڈال سکتے۔ بجائے اس کے کہ ہمارے مفکرین و معلمین ہر کج بحثی اور لعن طعن میں پڑے رہیں اور گھن گہیوں ساتھ ساتھ پیستے رہیں اچھائی کو اچھائی اور برائی کو برائی کے طور پر ہی پیش کریں اور عام مسلمانوں کے لئے بذات خود ایک نمونہ ثابت ہوں ۔ محض دو وقت کی روٹی کے لئے مشقت کرتے ایک ان پڑھ جاہل مسلمان کو ڈبل ڈور پک اپ میں سفر کرنے اور مرغن غذاؤں کو دستر خوانوں کی زینت بنانے اس کی بھوک کی موجودگی میں ہزاروں روپوں کی قربانیاں کرنے اور ترغیب دینے والوں کی باتوں میں کچھ کشش نہیں۔
(لیں اتنی مغز ماری اور افلاطونی تقریر میں تعلق پھر بھی کچھ نہیں)
وسلام
ناروے میں سٹا ہے، چوری ہے، جوا ہے، آبادی کم ہے، سود ہے۔۔۔ اسلئے غریب کم ہیں اور کم از کم بھوک کا مسئلہ نہیں ہے۔ رہائش اور سماجی مسائل ہزاروں ہیں
اور آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ مغرب بدفہمی اور بدظنی میں نہیں بلکہ مسلمانوں سے نفرت کا شکار ہے۔
اور ہاں میری باتوں سے یہ ہرگز نہ سمجھ بیٹھے کہ میں مغرب سے نفرت کرتا ہوں۔ یا ان کے خلاف ہوں۔ لیکن یہ بات اکید ہے کہ مغرب میں جہاں ایک فیصدی کام اچھے ہیں وہاں ۹۹ فیصدی کام غیر اخلاقی ہے۔ اب اعداد و شمار نہ مانگ لیجئے گا۔ تفصیلات آپ کے لئے گوگل جناب پر انگلیاں پھیر لیجئے گا۔