حاتم راجپوت

لائبریرین
انسان کی free will یعنی ارادہ کا آزاد ہونا اور خدا کا تصور یا صفت علام الغیوب (as an omniscient) کئی جگہ پر ایک دوسرے سے تکرار کرتے نظر آتے ہیں۔

اس موضوع پر محفلین سے تبصرے اور آراء کی گزارش ہے۔ آپ کسی بھی مذہب کا حوالہ دے سکتے ہیں اور عقلی توجیہہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
یہاں پر مقصود کسی مذہب و مسئلک کو کاذب ثابت کرنا نہیں بلکہ مذاہب اور عقلِ انسانی کی بنیاد پر ایک صحت مند مباحثہ ہے۔ سو امید ہے کہ محفلین اپنی اپنی استعداد کے مطابق اس مسئلہ پر روشنی ڈالیں گے۔

قیصرانی
زیک
فاروق سرور خان
حسینی
مہوش علی
باقی جو محفلین اس موضوع میں دلچسپی محسوس کریں وہ یہاں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
اگر مذہب سے ہٹ کر بات کی جائے تو عقلی توجیہہ بچتی ہے جو کچھ ایسے ہے:
اگر خدا ہر چیز جانتا ہے، ہر کام کر سکتا ہے اور مثبت ہے تو پھر اسے علم ہونا چاہئے کہ برائی یا شر موجود ہے، اسے ختم کرنے کی صلاحیت بھی ہونی چاہئے اور برائی کو ختم بھی کرنا چاہئے۔ اگر خدا نے کچھ اصول ایسے بنائے ہیں کہ وہ خود بھی انہیں نہیں توڑ سکتا تو یہ خدائی کی صفت کے خلاف ہے (جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ خدا نے کافروں کو رزق دینا ہے، ظالم کی رسی دراز کرنی ہے وغیرہ وغیرہ)۔ دوسری جانب اگر خدا نے قوانین بنائے ہیں تو اکثر جگہوں پر کیوں ان پر عمل کرتا ہے اور کیوں بعض جگہوں پر ان سے گریز بھی کرتا ہے؟ کیا خدا اور ایک عام انسانی حکومت میں کوئی فرق نہیں، جہاں اپنے مفاد میں قوانین میں رد و بدل کیا جا سکتا ہے لیکن دوسروں کے فائدے کے لئے نہیں؟
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
اسی ضمن میں کچھ سوالات۔ کہ اگر تو خدا علام الغیوب ہے یعنی ماضی ،حال اور مستقبل کا علم رکھتا ہے توہمارے پاس ارادہ کس چیز کا ہوا، یعنی ہم وہ ہر کام کرتے ہیں تصور کرتے ہوئے کہ ہم کر رہے ہیں لیکن جب ہمارے اس کئے گئے کام کا علم خدا کو پہلے سے ہی ہے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ خدا کو ہمارے ہر عمل چاہے وہ اچھائی ہو یا برائی کا پہلے سے علم ہے کہ ہم یہی کام کریں گے۔ تو اس صورت میں جزا و سزا کا معاملہ کہاں سے در آیا؟
جب خدا کے پاس ہمارے اعمال پہلے ہی پری ڈیفائنڈ پڑے ہیں تو امتحان کس چیز کا لیا جا رہا ہے؟
مذاہب کے نزدیک خدا انصاف کرنے والا ہے تو اس ساری صورت حال کی کیا توجیہہ کی جا سکتی ہے؟ یا اگر صورت حال یہ نہیں تو پھر کیا ہے؟
 
اسی ضمن میں کچھ سوالات۔ کہ اگر تو خدا علام الغیوب ہے یعنی ماضی ،حال اور مستقبل کا علم رکھتا ہے توہمارے پاس ارادہ کس چیز کا ہوا، یعنی ہم وہ ہر کام کرتے ہیں تصور کرتے ہوئے کہ ہم کر رہے ہیں لیکن جب ہمارے اس کئے گئے کام کا علم خدا کو پہلے سے ہی ہے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ خدا کو ہمارے ہر عمل چاہے وہ اچھائی ہو یا برائی کا پہلے سے علم ہے کہ ہم یہی کام کریں گے۔ تو اس صورت میں جزا و سزا کا معاملہ کہاں سے در آیا؟
جب خدا کے پاس ہمارے اعمال پہلے ہی پری ڈیفائنڈ پڑے ہیں تو امتحان کس چیز کا لیا جا رہا ہے؟
مذاہب کے نزدیک خدا انصاف کرنے والا ہے تو اس ساری صورت حال کی کیا توجیہہ کی جا سکتی ہے؟ یا اگر صورت حال یہ نہیں تو پھر کیا ہے؟

اپ کو غلطی پڑی ہے
ارادہ ہمارے پاس اپنی ڈومین میں ہے۔ ہماری ڈومین میں ہمارے پاس لامحدود اپشنز ہیں۔
خالق ہمارے کام کا علم ہے پہلے ہی علم ہے۔ ہم کو نہیں ہے۔
جزا و سزا کا معاملہ ایسے اگیا کہ خالق جانتا ہے کہ ہم کو یہ سزا ملنی چاہیے۔ ہم کو نہیں معلوم کہ یہ سزا کیوں ملنی چاہیے۔ لہذا منصفانہ بات یہ ہے کہ خالق مخلوق کو یہ باور کرادے کہ یہ سزا درست ہے۔ باوجود کی ہمارے پاس لامحدود اپشنز ہیں ہم نے اپنے اختیارات سے وہی کیا جس کا علم خالق کے پاس ہے۔ لہذا جزا یا سزا درست ہے۔ البتہ خالق اپنے بنائے ہوئے اس نظام کا پابند نہیں ہے۔ بلکہ نظام بجائے خود اسکا پابند ہے۔ خالق مخلوق کی دل کی حالت جانتے ہوئے سزا کو جزا میں بدل دیتا ہے ۔ جبکہ عمل سزا کے مواقف ہو۔ اور اسکا علم بھی خالق ہو ہوتا ہے۔ مگر یہ کرم کی ایک کیفیت ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
اپ کو غلطی پڑی ہے
ارادہ ہمارے پاس اپنی ڈومین میں ہے۔ ہماری ڈومین میں ہمارے پاس لامحدود اپشنز ہیں۔
خالق ہمارے کام کا علم ہے پہلے ہی علم ہے۔ ہم کو نہیں ہے۔
جزا و سزا کا معاملہ ایسے اگیا کہ خالق جانتا ہے کہ ہم کو یہ سزا ملنی چاہیے۔ ہم کو نہیں معلوم کہ یہ سزا کیوں ملنی چاہیے۔ لہذا منصفانہ بات یہ ہے کہ خالق مخلوق کو یہ باور کرادے کہ یہ سزا درست ہے۔ باوجود کی ہمارے پاس لامحدود اپشنز ہیں ہم نے اپنے اختیارات سے وہی کیا جس کا علم خالق کے پاس ہے۔ لہذا جزا یا سزا درست ہے۔ البتہ خالق اپنے بنائے ہوئے اس نظام کا پابند نہیں ہے۔ بلکہ نظام بجائے خود اسکا پابند ہے۔ خالق مخلوق کی دل کی حالت جانتے ہوئے سزا کو جزا میں بدل دیتا ہے ۔ جبکہ عمل سزا کے مواقف ہو۔ اور اسکا علم بھی خالق ہو ہوتا ہے۔ مگر یہ کرم کی ایک کیفیت ہے
ہماری ڈومین کی ابتداء جب ہوتی ہے تو پیدائش ہماری مرضی کے بغیر ہے، ہماری ڈومین جہاں ختم ہوتی ہے، وہ بھی ہمارے بس سے باہر ہے کہ کب مرنا ہے، کس گھر میں پیدا ہونا ہے، لڑکا یا لڑکی بن کر پیدا ہونا ہے، کس ملک میں پیدا ہونا ہے، رہنے سہنے کے کیا مواقع ملیں گے؟ تعلیم و تربیت کس نوعیت کی ہوگی، یہ سب جب ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے تو پھر فری ول یا ارادے کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟
فری ول وہاں اہمیت رکھے گی جہاں ہر انسان کو ایک ہی طرح ایک ہی حالت میں پیدا کیا گیا ہو، پھر دیکھا جائے کہ کس نے کیا غلطی کی، پھر سزا اور جزاء کا حساب ہو
 
حاتم راجپوت بھائی آپ کا یہ دھاگہ علمی تو ہے لیکن خالصتاً مذہبی نوعیت کا ہے۔ اور وہ بھی عقائد کے بارے میں۔ مسلمانوں میں شروع کے فرقے جیسے معتزلہ، قدریہ ، جبریہ وغیرہ انہی معاملات کی بنیاد پر بنے تھے۔ اور خدا کے بارے میں سوالات کم علمی کی وجہ سے گمراہی کی جانب لے جاسکتے ہیں۔
حد درجہ احتیاط لازم ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
حاتم راجپوت بھائی آپ کا یہ دھاگہ علمی تو ہے لیکن خالصتاً مذہبی نوعیت کا ہے۔ اور وہ بھی عقائد کے بارے میں۔ مسلمانوں میں شروع کے فرقے جیسے معتزلہ، قدریہ ، جبریہ وغیرہ انہی معاملات کی بنیاد پر بنے تھے۔ اور خدا کے بارے میں سوالات کم علمی کی وجہ سے گمراہی کی جانب لے جاسکتے ہیں۔
حد درجہ احتیاط لازم ہے۔
اور بعد کے فرقے جناب؟ جیسا کہ دیوبندی، بریلوی، وغیرہ وغیرہ؟ :)
 
ہماری ڈومین کی ابتداء جب ہوتی ہے تو پیدائش ہماری مرضی کے بغیر ہے، ہماری ڈومین جہاں ختم ہوتی ہے، وہ بھی ہمارے بس سے باہر ہے کہ کب مرنا ہے، کس گھر میں پیدا ہونا ہے، لڑکا یا لڑکی بن کر پیدا ہونا ہے، کس ملک میں پیدا ہونا ہے، رہنے سہنے کے کیا مواقع ملیں گے؟ تعلیم و تربیت کس نوعیت کی ہوگی، یہ سب جب ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے تو پھر فری ول یا ارادے کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟
فری ول وہاں اہمیت رکھے گی جہاں ہر انسان کو ایک ہی طرح ایک ہی حالت میں پیدا کیا گیا ہو، پھر دیکھا جائے کہ کس نے کیا غلطی کی، پھر سزا اور جزاء کا حساب ہو

فری ول ہماری ڈومین میں ہی ہے۔ یہ دنیا ہی ہماری ڈومین ہے۔ پیدا کرنے کا اور مارنے کا اختیار ہماری ڈومین میں نہیں۔ یہ خالق کی ڈومین ہے۔
ہماری فری ول دراصل ہمارے دل کی کیفیت ہے۔ دل کی کیفیقت پر فیصلے ہوتے ہیں کہ یہ عمل درست ہے کہ نادرست۔ یعنی سزا ملے گی یا سزا کو جزا میں بدل دیا جائے گا جبکہ ہم خود باور ہوں کہ ہم کو سزا ملنی چاہیے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
فری ول ہماری ڈومین میں ہی ہے۔ یہ دنیا ہی ہماری ڈومین ہے۔ پیدا کرنے کا اور مارنے کا اختیار ہماری ڈومین میں نہیں۔ یہ خالق کی ڈومین ہے۔
ہماری فری ول دراصل ہمارے دل کی کیفیت ہے۔ دل کی کیفیقت پر فیصلے ہوتے ہیں کہ یہ عمل درست ہے کہ نادرست۔ یعنی سزا ملے گی یا سزا کو جزا میں بدل دیا جائے گا جبکہ ہم خود باور ہوں کہ ہم کو سزا ملنی چاہیے۔
دیکھئے برادرم، میرا نکتہ یہ ہے کہ بچے کی پیدائش سے لے کر اس کے بالغ ہونے تک، زیادہ تر امور اس کے بس سے باہر ہوتے ہیں بشمول تعلیم و تربیت کے۔ اور یہی وہ حالات ہیں جو اس کے مستقبل اور اس کی فری ول پر سب سے زیادہ اثر رکھتے ہیں۔ پھر بہت سارے معاشروں میں بیٹی ہونے کا مطلب ہی یہی ہے کہ اسے سیکنڈ کلاس شہری بنایا جائے اور بنایا جاتا ہے۔ جب آپ بچے (بچی اور بچے کے لئے عمومی لفظ) کی تعلیم، اس کی تربیت، اس کے احساسات، اس کی خواہشات، اس کی حسرتوں اور اس کے حالات کو یکساں نہیں بناتے تو پھر یہ کیا اعتراض کہ فلاں اچھا بن گیا اور فلاں برا؟
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
حاتم راجپوت بھائی آپ کا یہ دھاگہ علمی تو ہے لیکن خالصتاً مذہبی نوعیت کا ہے۔ اور وہ بھی عقائد کے بارے میں۔ مسلمانوں میں شروع کے فرقے جیسے معتزلہ، قدریہ ، جبریہ وغیرہ انہی معاملات کی بنیاد پر بنے تھے۔ اور خدا کے بارے میں سوالات کم علمی کی وجہ سے گمراہی کی جانب لے جاسکتے ہیں۔
حد درجہ احتیاط لازم ہے۔
درست لئیق بھائی۔ لیکن کم علمی سے ہی تو چھٹکارا مقصود ہے تبھی تو یہ لڑی شروع کی۔ دوسرا یہ کہ میں کسی کی رائے اور خیالات کو حرف آخر تصور نہیں کر لیتا اور مزید کی جستجو جاری رہتی ہے لہذا اس طرح کے کسی بھی فرقے میں الجھنے کا خطرہ کم ہی ہے مجھے۔ :)
 
درست لئیق بھائی۔ لیکن کم علمی سے ہی تو چھٹکارا مقصود ہے تبھی تو یہ لڑی شروع کی۔ دوسرا یہ کہ میں کسی کی رائے اور خیالات کو حرف آخر تصور نہیں کر لیتا اور مزید کی جستجو جاری رہتی ہے لہذا اس طرح کے کسی بھی فرقے میں الجھنے کا خطرہ کم ہی ہے مجھے۔ :)
اس سلسلے میں اگر آپ پہلے عقائد کی کتاب تکمیل الایمان تصنیف علامہ عبدالحق محدث دہلوی کا مطالعہ فرما لیں تو بہت مناسب رہے گا۔ یہ خالصتاً عقائد کی کتاب ہے اور اسی طرح کے سوالات کا بھی جامع احاطہ کرتی ہے۔ آپ کے اٹھائے گئے سوالات کو "قدر و جبر" کی کیٹگری میں شمار کیا جاتا ہے۔
 
فرقہ اور مسلک کا فرق بتائیے اور یہ بھی کہ ایک کس وجہ سے جائز ہے اور دوسرا کس وجہ سے ناجائز؟

فرقہ عقائد پر متفق ہونے والے گروہ کو کہتے ہیں
مسلک وہ طریقہ ہے جس پر ایک عقیدہ پر متفق لوگ عمل کرتے ہیںِ۔ یعنی ایک ہی فرقے کے لوگ مختلف طریقے سے عمل کرتے ہیں۔

جائز و ناجائز کی بحث الگ ہے۔ یہ علما کی بحث ہے۔
 
Top