اس کے علاوہ زلزلوں میں بیگناہ افراد بھی مارے جاتے ہیں۔ اور کچھ لوگ تو پیدا ہی نابینا ہوتے ہیں یا پھر قوتِ سماعت سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ سب باتیں اس دنیا سے متعلق ہیں اور اس کو مجموعی طور پر
Problem of Evil کہا جاتا ہے۔ یعنی اللہ کے اختیار میں سب کچھ ہے تو اللہ کے اختیار میں یہ بھی ہے کہ برائی کو ختم کر دے۔ جو آیت اوپر بیان کی ہے اس کا تعلق آخرت میں سزا و جزا سے ہے۔ دنیا کے بارے میں ایک اور آیت ہے:
” اور کافر یہ گمان ہرگز نہ کریں کہ ہم جو انہیں مہلت دے رہے ہیں (یہ) ان کی جانوں کے لئے بہتر ہے، ہم تو (یہ) مہلت انہیں صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ وہ گناہ میں اور بڑھ جائیں، اور ان کے لئے (بالآخر) ذلّت انگیز عذاب ہے“
سورہ آل عمران آیت 178
القصہ یہ کہ دنیا کسی بھی طور پر انصاف سے بھرپور نہیں ہے اور یہ اسی وجہ سے ہے کہ اچھائی اور برائی میں تمیز ہو سکے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر میرا یہ ایمان ہے آخرت میں سب کو انصاف ملے گا تو دنیا کی برائیوں سے میں لاتعلق ہو جاوں اور اس کے بارے میں کچھ نہ کروں۔ برائی کے خاتمے کے لئے ہمیں حتیٰ الامکان کوشش کرنی چاہیے اور ساتھ میں یہ یقین بھی رکھنا چاہیے کہ اللہ سب سے بڑا منصف ہے۔
ظاہری بات ہے کہ ہٹلر، سٹالن اور صدام جیسے دیگر لوگ جنہوں نے ہزاروں اور لاکھوں بے گناہ لوگوں کا قتل کیا ہے ان کیساتھ دنیا میں انصاف نہیں ہو سکتا اگر ہم چاہیں بھی۔ ایک آدمی کا بدلہ تو چلو ہم ان کو قتل کر کے لے لیں گے لیکن باقی لاکھوں لوگوں کے قتل کا کیا بدلہ ہو گا؟ اسی لئے اس کا حل اللہ کا انصاف ہے جو کہ سب سے بڑا منصف ہے۔