انسان خلاء حقیقی یا مفروضہ

میرا آپ محفلین سے اپنے علم میں اضافے کے لیے ایک سوال ہے ،
کیا واقعی انسانی خلاء ایک حقیقت ہے یا صرف یہ صرف مفروضہ ہے یا انسان سے کی جانے والی امید یا محبت کی وجہ سے اس کی کمی یا خلاء کا احساس شعور میں بیدار ہوتا ہے ؟
اگر یہ خلاء حقیقی نہیں تو انسان اپنے سے جوڑے رشتوں کی بے رخی پر ماتم کناں کیوں ہوتا ہے ، کیا بےحسی کا جواب بے حسی سے دینا بہتر نہیں ہے ۔انسان کی جب دنیا میں آمد ہوتی ہے تو دنیا ہی اس کی استاد ہوتی ہے جو رشتوں اور دین و دنیاداری کے علم سے روشناس کرواتی ہے ۔ جب انسان دنیا داری کے معاملے میں ماہر ہوتا ہے تو موت اس کو دبوچتی کر راہ عدم کا مسافر بنا دیتی ہے ۔ مطلب جو دنیا میں رہتے ہوئے سکھا وہ دنیا میں ہی چھوڑ جاتا ہے تو پھر اس کا خلاء پیدا کیسے ہوا ؟
 

فاخر رضا

محفلین
اگر اس دنیا سے خلا ختم کردیں تو یہ ایک سیب کے برابر رہ جائے گی جس کی کثافت density لامتناہی ہوگی
اسی خلا کی وجہ سے ہم سب وجود میں آئے
 
ہم نے ایسا بھی سنا ہی کہ کسی کے جانے سے کوئی ایسا فرق نہیں پڑتا کہ جینا ہی چھوڑ دیا جائے ، انسان کے ہونے نا ہونے سے کوئی اتنا فرق نہیں پڑتا یہ زندگی کا کاروبار تو ہمیشہ محو رقص میں رہتا ہے ۔
 
اگر اس دنیا سے خلا ختم کردیں تو یہ ایک سیب کے برابر رہ جائے گی جس کی کثافت density لامتناہی ہوگی
اسی خلا کی وجہ سے ہم سب وجود میں آئے
فاخر بھائی آپ کی اس دلیل سے تو ہم سو فیصد متفق ہیں پر یہاں ذکر انسانی خلاء کے حوالے سے ہے ۔
 

ہادیہ

محفلین
ہم نے ایسا بھی سنا ہی کہ کسی کے جانے سے کوئی ایسا فرق نہیں پڑتا کہ جینا ہی چھوڑ دیا جائے ، انسان کے ہونے نا ہونے سے کوئی اتنا فرق نہیں پڑتا یہ زندگی کا کاروبار تو ہمیشہ محو رقص میں رہتا ہے ۔
صرف سنا؟ کبھی تجربہ نہیں ہوا؟
 
کہنے کو کافی باتیں ہیں، اور بہت سے رخ ہیں۔ ادھوری بات کرنا مناسب نہیں رہتا۔ دعا کریں، کچھ خیالات مجتمع کرنے کا موقع مل سکے، تو گزارشات پیش کروں گا۔
 

جاسمن

لائبریرین
اک خلا ہے جو پر نہیں ہوتا
جب کوئی درمیاں سے اٹھتا ہے
سید امین اشرف
اس خلا کاتجربہ تو شاید ہر شخص کو ہوتا ہے۔ کچھ حساس لوگ زیادہ محسوس کرتے ہیں اور کچھ کم۔ کچھ بالکل نہیں کرتے۔
اکثر اوقات تو کسی اپنے کا دنیا سے چلے جانا ہی اس کا سبب بنتا ہے۔ لیکن کچھ دوسروں کے غموں کو محسوس کرنے والے حساس لوگ تو اس خلا کے تجربے سے اب تب گذرتے ہی رہتے ہیں۔
بسا اوقات بلاوجہ ہی اندر سنّاٹا اور خلا پھیل جاتا ہے۔ ہم خود بھی وجہ تلاش کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔
لیکن ۔۔۔۔۔جب ہم اچھی طرح کھوج لگاتے ہیں تو لگتا ہے کہ خود ہماری وجہ سے اللہ اور بندے کے درمیان جو خلا پیدا ہوتا ہے۔۔۔۔اسی کا سلسلہ در سلسلہ ہے یہ۔
 
پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خلا پیدا ہونا کہتے کسے ہیں۔
عموماً یہ کسی شعبہ میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے والے کے جانے پر خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ اور اس وقت اس کے جانے سے وہ شعبہ ایک بڑے نام سے محروم ہ جاتا ہے، جس پر یہ کہا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے اور ہوتا بھی ہے کہ بعد میں آنے والا کوئی اور فرد اس شعبہ میں اس سے بڑا کام کر لے۔ مگر اس کارنامے کے سبب ان کا نام تاریخ کا حصہ ضرور بن جاتا ہے۔

اس کے علاوہ خلا کا پیدا ہونا فیملی تک ہی محدود ہوتا ہے۔

کسی بھی انسان کے جانے سے کوئی فرق پڑتا ہے یا نہیں پڑتا ہے؟ تو اس کے بھی دو پہلو ہیں۔
ایک تو یہ کہ میں یہ سوچوں کے میرے جانے سے کیا فرق پڑے گا؟
اور دوسرا یہ کہ کسی فرد کے جانے سے مجھے یا کسی دوسرے کو، یا معاشرے کو کیا فرق پڑے گا۔
مجھے سے مراد کوئی بھی انسان اسے ان دو پہلوؤں سے دیکھ سکتا ہے۔

پہلے ہم دوسرے پہلو کو لے لیتے ہیں۔
اس میں بنیادی بات تو یہ ہے کہ ہر فرد کا معاملہ مخلتف ہو سکتا ہے۔ یہ اس کے حالات، اس کی فیملی کے حالات اور معاشرے کے حالات کے زیرِ اثر مختلف ہوتا ہے۔ اور اس کے اتنے پہلو ہیں کہ سب کا احاطہ ممکن نہیں ہے، چیدہ چیدہ کا ذکر کیے دیتا ہوں۔

ایک فرد ایسا ہے کہ جو پہلے ہی حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہو کر معاشرے سے کٹ گیا ہے۔ فیملی ختم ہو چکی ہے، مفلس و نادار ہے۔ دوسرے لفظوں میں معاشرے میں کسی کا اس پر انحصار نہیں ہے۔ تو ایسے فرد کے جانے سے کسی کو فرق نہیں پڑتا۔ بہت حساس انسان بھی وقتی تاسف کے اظہار کے بعد بھلا دے گا۔
ایک ایسا فرد ہے جو بھرپور زندگی گزارنے کے بعد اور اپنی فیملی کی ذمہ داریاں ادا کر دینے کے بعد بڑھاپے میں طبعی موت کا شکار ہو کر رخصت ہوا ہو۔ اس کے گھر والے، رشتہ دار، دوست احباب وقتی دکھ کا شکار ہوں گے، اور دھیرے دھیرے واپس اپنی زندگی میں مگن ہو جائیں گے۔ زیادہ سے زیادہ اگر مرد تھا تو اس کی بیوی، یا عورت تھی تو اس کا شوہر اس دکھ کو بقیہ زندگی لے کر جیے گا۔
ایک ایسا فرد ہے جو کسی جان لیوا بیماری یا معذوری کا شکار ہو چکا ہے اور اس کے متعلقین اس بات کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں کہ زیادہ عرصہ بچنا مشکل ہے۔ تو اس کی موت کا اثر بھی دیرپا نہیں ہو گا۔

ایک اہم بات یہ کہ غم پھر کسی کو کم، کسی کو زیادہ یا کسی کو بہت زیادہ عرصہ تک رہ سکتا ہے۔ البتہ خلا پیدا ہونے کو غم سے زیادہ ان کے جانے سے پیدا ہونے والی کمی یا مشکل کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔

جیسے گھر کے ایسے بزرگ جو بہت عرصہ بسترِ علالت پر رہنے کے بعد رخصت ہو جاتے ہیں، ان کے جانے سے گھر میں بزرگ کی کمی اور خونی رشتوں کو غم تو ہوتا ہے، مگر غم کے علاوہ کوئی پریشانی یا زندگی کی مشکلات میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

مگر ایک فرد اس حال میں رخصت ہوتا ہے کہ وہ گھر کا واحد کمانے والا ہو، بچے بہت چھوٹے ہوں، والدین کا واحد سہارا ہو۔ تو ایسے فرد کے جانے کے اثرات شدید ہو سکتے ہیں۔ اس کے لواحقین حالات کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، اگر رشتہ دار اچھے ہیں اور انھوں نے لواحقین کا ذمہ لے کر محبت والا برتاؤ اور توجہ دی، تو پھر اثرات کم رہ جاتے ہیں، ورنہ زندگی بہت تلخ گزرتی ہے۔ یہاں پر اور بھی عوامل ہیں جو الگ تفصیلی گفتگو کے متقاضی ہیں۔

اب آتے ہیں پہلے والے نکتہ پر۔
یعنی میں یہ سوچوں کے میرے جانے سے کیا فرق پڑے گا؟
تو یہاں انسان کو یہ سمجھ لینا چاہیے اور اسی کے حوالے سے تیاری اور منصوبہ بندی بھی کرنی چاہیے۔ کہ مجھے ایک مختصر وقت کے لیے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے، اور وقتِ مقررہ پر اٹھا لیا جاؤں گا۔ اب کیوں بھیجا گیا ہے؟ کیا ذمہ داریاں ہیں؟ اس کو سمجھوں اور اپنی ذمہ داریاں مکمل استطاعت اور استعداد کے مطابق ادا کروں۔
اس فکر میں غلطاں ہونے کے بجائے کہ میرے بعد کیا ہو گا، فکر و عمل کا محور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی رہے۔

غم ایک احساس ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو ودیعت کیا ہے۔ جن سے محبت زیادہ ہوتی ہے، ان کے جانے کا غم بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اگر کسی کا جانا ابتلاء و آزمائش میں مبتلا نہ کرے تو غم وقت کے ساتھ ساتھ جلد یا بدیر مندمل ہو جاتا ہے۔
عموماً اسی لیے ہمارے ہاں رواج ہے کہ فوتگی والے گھر میں تین دن کھانا نہیں پکتا اور محلہ دار یا رشتہ دار کھانے کا انتظام کرتے ہیں، تاکہ لواحقین کو غم کی کیفیت سے نکلنے کا وقت دیا جائے۔ افسوس کی بات ہے کہ اب یہ روایت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔
لواحقین غم کی جس کیفیت میں ہوتے ہیں، دوسرے اس سے کئی درجہ کم اس کیفیت میں ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ لوگ احساس کی کمی کے سبب لواحقین کے غم وغصہ میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔
کسی دوسرے کی بےحسی سے نبٹنے کا طریقہ یہی ہے کہ اسے اگنور کیا جائے، البتہ خود بےحس ہونے سے بچا جائے۔ بےحسی معاشرہ میں رچ بس چکی ہے، اس بات کو جتنا جلدی سمجھ لیا جائے، اتنا ہی اس حوالے سے برداشت میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔

اپنے قریبی مشاہدات میں ایسا بھی دیکھا کہ جواں سال بیٹے کی موت نے والدین کو اتنا نڈھال کیا کہ دونوں اسی کے غم میں بیمار ہوئے اور سال، دو سال کے وقفہ سے رخصت ہوئے۔
ایسا بھی دیکھا کہ حادثہ میں اکٹھے رخصت ہونے والے والدین کے چھوٹے بچوں کو والد کے چھوٹے بھائی نے اپنے بچوں سے بڑھ کر بھائی کے بچوں کو پیار دیا اور کسی آزمائش کا شکار نہ ہونے دیا۔
ایسا بھی دیکھا کہ چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر رخصت ہونے والے والد کے بعد والدہ نے خود کو مشقت میں ڈال کر بچوں کو والدہ کے ساتھ ساتھ والد بن کر بھی پالا، اور بچوں کو کسی آزمائش کا شکار نہ ہونے دیا۔

ان مشاہدات نے یقین پختہ کیا کہ پالنے والی اللہ کی ذات ہے۔ اور اگر مشکلات ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہیں، جو ان پر پورا اترتا ہے، اس کو بسا اوقات دنیا میں بھی اس کا بہتر پھل ملتا ہے، اور آخرت کا اجر تو ہے ہی۔

بہت سی بکھری ہوئی باتوں کو کچھ شکل دینے کی کوشش کی ہے، کچھ باتیں مزید وضاحت طلب ہیں، مگر پھر موضوع سے ہٹ جاتی ہیں۔ بہرحال بےربط خیالات حاضر ہیں۔

میری مشاہدات اور آراء سے اختلاف ہو سکتا ہے، افراد اپنے علم، تجربہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر مختلف آراء رکھ سکتے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
1- رنج ہو یا خوشی ،قلب کی کیفیت نہ بدلے۔
یہ اسی صورت ممکن ہے جب آپ کے دل میں خیالِ غیر نہ ہو اور مخلوقِ خدا کی کسی معاوضہ ، صلہ کی تمنا کے بغیر خدمت کریں۔

1743471_742261815793789_1001141568_n.jpg


2-مخلوق کی بے رخی :
اس کا گلہ مت کریں ، مخلوق اپنے سب سے بڑے محسن کو فراموش کر سکتی ہے جو ہر لمحہ اس کا خیال رکھتا ہے۔
 

فہد اشرف

محفلین
ہم نے ایسا بھی سنا ہی کہ کسی کے جانے سے کوئی ایسا فرق نہیں پڑتا کہ جینا ہی چھوڑ دیا جائے ، انسان کے ہونے نا ہونے سے کوئی اتنا فرق نہیں پڑتا یہ زندگی کا کاروبار تو ہمیشہ محو رقص میں رہتا ہے ۔
کسی کے چلے جانے سے خلا تو پیدا ہوتا ہی ہے لیکن دائمی نہیں ہوتا ہے۔ رہی بات جینا چھوڑ دینے والی بات کی تو اس پہ فریدی کا ایک قول یاد آ رہا ہے، ابن صفی کے کسی ناول میں حمید کہتا ہے کہ ”اکثر محبت کرنے والے محبوب کی موت برداشت نہیں کر پاتے“ تو جواباً فریدی کہتا ہے ”کہانیاں ہیں فرزند۔۔۔۔۔ جب ایک ماں جوان بیٹے کی موت کے بعد زند رہ سکتی ہے تو یہ سب قطعی بکواس ہے“۔
 

ام اویس

محفلین
ہم نے ایسا بھی سنا ہی کہ کسی کے جانے سے کوئی ایسا فرق نہیں پڑتا کہ جینا ہی چھوڑ دیا جائے ، انسان کے ہونے نا ہونے سے کوئی اتنا فرق نہیں پڑتا یہ زندگی کا کاروبار تو ہمیشہ محو رقص میں رہتا ہے ۔

ہر شخص کا معاملہ مختلف ہے ۔ کچھ لوگوں کو فرق پڑتا ہے نا امیدی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ جینا ہی چھوڑ دیتے ہیں
 
پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خلا پیدا ہونا کہتے کسے ہیں۔
عموماً یہ کسی شعبہ میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے والے کے جانے پر خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ اور اس وقت اس کے جانے سے وہ شعبہ ایک بڑے نام سے محروم ہ جاتا ہے، جس پر یہ کہا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے اور ہوتا بھی ہے کہ بعد میں آنے والا کوئی اور فرد اس شعبہ میں اس سے بڑا کام کر لے۔ مگر اس کارنامے کے سبب ان کا نام تاریخ کا حصہ ضرور بن جاتا ہے۔

اس کے علاوہ خلا کا پیدا ہونا فیملی تک ہی محدود ہوتا ہے۔

کسی بھی انسان کے جانے سے کوئی فرق پڑتا ہے یا نہیں پڑتا ہے؟ تو اس کے بھی دو پہلو ہیں۔
ایک تو یہ کہ میں یہ سوچوں کے میرے جانے سے کیا فرق پڑے گا؟
اور دوسرا یہ کہ کسی فرد کے جانے سے مجھے یا کسی دوسرے کو، یا معاشرے کو کیا فرق پڑے گا۔
مجھے سے مراد کوئی بھی انسان اسے ان دو پہلوؤں سے دیکھ سکتا ہے۔

پہلے ہم دوسرے پہلو کو لے لیتے ہیں۔
اس میں بنیادی بات تو یہ ہے کہ ہر فرد کا معاملہ مخلتف ہو سکتا ہے۔ یہ اس کے حالات، اس کی فیملی کے حالات اور معاشرے کے حالات کے زیرِ اثر مختلف ہوتا ہے۔ اور اس کے اتنے پہلو ہیں کہ سب کا احاطہ ممکن نہیں ہے، چیدہ چیدہ کا ذکر کیے دیتا ہوں۔

ایک فرد ایسا ہے کہ جو پہلے ہی حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہو کر معاشرے سے کٹ گیا ہے۔ فیملی ختم ہو چکی ہے، مفلس و نادار ہے۔ دوسرے لفظوں میں معاشرے میں کسی کا اس پر انحصار نہیں ہے۔ تو ایسے فرد کے جانے سے کسی کو فرق نہیں پڑتا۔ بہت حساس انسان بھی وقتی تاسف کے اظہار کے بعد بھلا دے گا۔
ایک ایسا فرد ہے جو بھرپور زندگی گزارنے کے بعد اور اپنی فیملی کی ذمہ داریاں ادا کر دینے کے بعد بڑھاپے میں طبعی موت کا شکار ہو کر رخصت ہوا ہو۔ اس کے گھر والے، رشتہ دار، دوست احباب وقتی دکھ کا شکار ہوں گے، اور دھیرے دھیرے واپس اپنی زندگی میں مگن ہو جائیں گے۔ زیادہ سے زیادہ اگر مرد تھا تو اس کی بیوی، یا عورت تھی تو اس کا شوہر اس دکھ کو بقیہ زندگی لے کر جیے گا۔
ایک ایسا فرد ہے جو کسی جان لیوا بیماری یا معذوری کا شکار ہو چکا ہے اور اس کے متعلقین اس بات کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں کہ زیادہ عرصہ بچنا مشکل ہے۔ تو اس کی موت کا اثر بھی دیرپا نہیں ہو گا۔

ایک اہم بات یہ کہ غم پھر کسی کو کم، کسی کو زیادہ یا کسی کو بہت زیادہ عرصہ تک رہ سکتا ہے۔ البتہ خلا پیدا ہونے کو غم سے زیادہ ان کے جانے سے پیدا ہونے والی کمی یا مشکل کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔

جیسے گھر کے ایسے بزرگ جو بہت عرصہ بسترِ علالت پر رہنے کے بعد رخصت ہو جاتے ہیں، ان کے جانے سے گھر میں بزرگ کی کمی اور خونی رشتوں کو غم تو ہوتا ہے، مگر غم کے علاوہ کوئی پریشانی یا زندگی کی مشکلات میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

مگر ایک فرد اس حال میں رخصت ہوتا ہے کہ وہ گھر کا واحد کمانے والا ہو، بچے بہت چھوٹے ہوں، والدین کا واحد سہارا ہو۔ تو ایسے فرد کے جانے کے اثرات شدید ہو سکتے ہیں۔ اس کے لواحقین حالات کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، اگر رشتہ دار اچھے ہیں اور انھوں نے لواحقین کا ذمہ لے کر محبت والا برتاؤ اور توجہ دی، تو پھر اثرات کم رہ جاتے ہیں، ورنہ زندگی بہت تلخ گزرتی ہے۔ یہاں پر اور بھی عوامل ہیں جو الگ تفصیلی گفتگو کے متقاضی ہیں۔

اب آتے ہیں پہلے والے نکتہ پر۔
یعنی میں یہ سوچوں کے میرے جانے سے کیا فرق پڑے گا؟
تو یہاں انسان کو یہ سمجھ لینا چاہیے اور اسی کے حوالے سے تیاری اور منصوبہ بندی بھی کرنی چاہیے۔ کہ مجھے ایک مختصر وقت کے لیے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے، اور وقتِ مقررہ پر اٹھا لیا جاؤں گا۔ اب کیوں بھیجا گیا ہے؟ کیا ذمہ داریاں ہیں؟ اس کو سمجھوں اور اپنی ذمہ داریاں مکمل استطاعت اور استعداد کے مطابق ادا کروں۔
اس فکر میں غلطاں ہونے کے بجائے کہ میرے بعد کیا ہو گا، فکر و عمل کا محور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی رہے۔

غم ایک احساس ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو ودیعت کیا ہے۔ جن سے محبت زیادہ ہوتی ہے، ان کے جانے کا غم بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اگر کسی کا جانا ابتلاء و آزمائش میں مبتلا نہ کرے تو غم وقت کے ساتھ ساتھ جلد یا بدیر مندمل ہو جاتا ہے۔
عموماً اسی لیے ہمارے ہاں رواج ہے کہ فوتگی والے گھر میں تین دن کھانا نہیں پکتا اور محلہ دار یا رشتہ دار کھانے کا انتظام کرتے ہیں، تاکہ لواحقین کو غم کی کیفیت سے نکلنے کا وقت دیا جائے۔ افسوس کی بات ہے کہ اب یہ روایت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔
لواحقین غم کی جس کیفیت میں ہوتے ہیں، دوسرے اس سے کئی درجہ کم اس کیفیت میں ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ لوگ احساس کی کمی کے سبب لواحقین کے غم وغصہ میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔
کسی دوسرے کی بےحسی سے نبٹنے کا طریقہ یہی ہے کہ اسے اگنور کیا جائے، البتہ خود بےحس ہونے سے بچا جائے۔ بےحسی معاشرہ میں رچ بس چکی ہے، اس بات کو جتنا جلدی سمجھ لیا جائے، اتنا ہی اس حوالے سے برداشت میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔

اپنے قریبی مشاہدات میں ایسا بھی دیکھا کہ جواں سال بیٹے کی موت نے والدین کو اتنا نڈھال کیا کہ دونوں اسی کے غم میں بیمار ہوئے اور سال، دو سال کے وقفہ سے رخصت ہوئے۔
ایسا بھی دیکھا کہ حادثہ میں اکٹھے رخصت ہونے والے والدین کے چھوٹے بچوں کو والد کے چھوٹے بھائی نے اپنے بچوں سے بڑھ کر بھائی کے بچوں کو پیار دیا اور کسی آزمائش کا شکار نہ ہونے دیا۔
ایسا بھی دیکھا کہ چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر رخصت ہونے والے والد کے بعد والدہ نے خود کو مشقت میں ڈال کر بچوں کو والدہ کے ساتھ ساتھ والد بن کر بھی پالا، اور بچوں کو کسی آزمائش کا شکار نہ ہونے دیا۔

ان مشاہدات نے یقین پختہ کیا کہ پالنے والی اللہ کی ذات ہے۔ اور اگر مشکلات ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہیں، جو ان پر پورا اترتا ہے، اس کو بسا اوقات دنیا میں بھی اس کا بہتر پھل ملتا ہے، اور آخرت کا اجر تو ہے ہی۔

بہت سی بکھری ہوئی باتوں کو کچھ شکل دینے کی کوشش کی ہے، کچھ باتیں مزید وضاحت طلب ہیں، مگر پھر موضوع سے ہٹ جاتی ہیں۔ بہرحال بےربط خیالات حاضر ہیں۔

میری مشاہدات اور آراء سے اختلاف ہو سکتا ہے، افراد اپنے علم، تجربہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر مختلف آراء رکھ سکتے ہیں۔
آپ کا بہت شکریہ بھائی کہ آپ نےاپنے مشاہدات تفصیل سے پیش کیے ۔
 
ہر شخص کا معاملہ مختلف ہے ۔ کچھ لوگوں کو فرق پڑتا ہے نا امیدی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ جینا ہی چھوڑ دیتے ہیں
بہن جینا چھوڑ دینے سے مراد دنیا کی آسائش اور زیبائش سے منہ موڑ کر گوشہ نشین ہوجانا ہے ؟
ناامیدی تو گناہ کے زمرے میں آتی ہے ۔اللہ کریم پر توکل کرنا تو بہت ہی عمدہ کام ہے ۔ انسان کو کوشش کرتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
 
کسی کے چلے جانے سے خلا تو پیدا ہوتا ہی ہے لیکن دائمی نہیں ہوتا ہے۔ رہی بات جینا چھوڑ دینے والی بات کی تو اس پہ فریدی کا ایک قول یاد آ رہا ہے، ابن صفی کے کسی ناول میں حمید کہتا ہے کہ ”اکثر محبت کرنے والے محبوب کی موت برداشت نہیں کر پاتے“ تو جواباً فریدی کہتا ہے ”کہانیاں ہیں فرزند۔۔۔۔۔ جب ایک ماں جوان بیٹے کی موت کے بعد زندہ رہ سکتی ہے تو یہ سب قطعی بکواس ہے“۔
یہ ایک جملہ ان لوگوں کے لیے بہترین مثال ہے جو اپنی زندگی کو روگ بنا ڈالتے ہیں ۔
 
مستشنیات ہر اصول اور قانون میں ہوتی ہیں ماسوائے الوہی قوانین کے جسے مالک کون و مکان اپنی صناعی میں اپنی مرضی کے مطابق استشناء عطا فرما دے۔ رشتے ۔ تعلق ۔ ناطے ۔ زندگی ۔ خلا ایسا موضوع ہے جس پر کتابیں سیاہ کی جا چکی ہیں۔ عشاق اپنے محبوب کی مدحت میں دیوان پر دیوان کالے کر گئے ۔ ماؤں کے لیئے بچے کی یاد آخری سہارا بچی۔ بیویوں کے لیئے انکے سرتاج کا دنیا سے جانا قیامت برپا کر گیا۔ بہنوں کو بھائی کی یاد نے دیوانہ کر دیا۔ یہ سب ایک حد اور ایک وقت تک اثر انداز ہوتے ہیں یقینا اور یہ خلا وقتی ہوتا ہے۔ مشہور ہے کہ مرنے والے پر صبر آجاتا ہے گم شدہ پر کوئی کیسے صبر کرے۔
یقینا یہ تمام رشتے ایسے ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں لیکن ذرا غور کریں تو گھومتے تو یہ سب آپ کے ہی گرد ہیں۔ میں ایک بھائی بیٹا باپ خاوند دوست بھانجا بھتیجا ہوں بالکل اسی طرح جیسے کوئی بہن بیوی ماں بیٹی بھانجی بھتیجی ہوتی ہے ہر رشتہ کسی دوسرے رشتے کو اپنے پہلو سے تکمیل فراہم کر رہا ہے اور یہی رشتوں کا حسن ہے اب بات سفاک لگتی ہے لیکن ایک رائے کے مطابق ہے حقیقت کہ خلا انسانوں کا پیدا نہیں ہوتا۔ ان سے وابستہ جذباتی اور مادی ملکیت کا پیدا ہوتا ہے۔ کسی بھی رشتے دار کی وفات پرہمیں جو احساس ملکیت اور تکمیل اس کی موجودگی میں مل رہا ہوتا ہے وہ اچانک چھن جاتا ہے یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی ہے جو ہماری دنیا (جسے ہم اپنی سمجھ کر اس پر ٹیڈی خدا بن کر بیٹھ گئے ہوتے ہیں اور تمام رشتے ناطے ہمارے اردگرد اکٹھے کر چکے ہوتے ہیں کہ وہ ہمیں خوش کریں) اتھل پتھل کر سکتا ہے اپنی بے بسی کا احساس ہوتا ہے ۔ اپنی خدائی ٹوٹنے پر ہمارے جیسا جعلی خدا بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ رشتوں سے بچھڑنے کا دکھ فطری ہے - لیکن ان رشتوں پر قائم بھرم۔مان۔انحصار ٹوٹنے پر ہم جتنا وقت اس بات کو سمجھنے میں لیتے ہیں کہ ہاں ہم بھی مخلوق ہیں اور ہمارے بس میں سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ تو ہے جو ہمارے بس میں ہرگز نہیں اور وہ سچائیوں میں سے ایک ایسی سچاِئی ہے جس کا ہم مشاہدہ ہر روز ہر فراق پر کرتے ہیں بس اتنا ہی خلا ہوتا ہے۔ جس دن سمجھ آگئی اس دن خلا ختم
 
Top