زبیر مرزا
محفلین
میں بارگاہِ خداوندی کے جاہ و جلال کے تصور سے لرزتا ہوا اندر داخل ہوا۔ صحن میں پاؤں رکھتے ہی خانہ کعبہ پر نظر پڑی اور مجھے اچانک ایسا محسوس ہوا کہ اس کی چھت آسمان کو چھو رہی ہے۔ سینکڑوں آدمی وہاں طواف کر رہے تھے۔ کسی کو دوسرے کی طرف دیکھنا گوارا نہ تھا۔ جو طواف سے فارغ ہو چکے تھے، ان میں سے کوئی حطیم کے اندر نفل پڑھ رہا تھا اور کوئی غلافِ کعبہ تھام کر گریہ و زاری کر رہا تھا۔ کسی کو کسی سے سروکار نہ تھا۔ کسی کو کسی سے دلچسپی نہ تھی۔ دو تین چکر لگانے کے بعد مجھے خیال آیا کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی میری آواز بیٹھ گئی۔ میری قوت گویائی جواب دے گئی اور آنسوؤں کا سیلاب جو نہ جانے کب سے اس وقت کا منتظر تھا میری آنکھوں سے پھوٹ نکلا۔ یہ ایک ایسا مقام تھا جہاں بچے کی طرح سسکیاں لینا بھی مجھے معیوب معلوم نہیں ہوتا تھا۔ کسی نے میری طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، کسی نے یہ نہ پوچھا کہ تم کیا کر رہے ہو، ان کی بے اعتنائی اور بے توجہی ظاہر کر رہی تھی کہ ایک انسان کے آنسو اسی مقام کے لیے ہیں.
(اقتباس: نسیم حجازی کے سفرنامے "پاکستان سے دیارِ حرم تک" سے)
(اقتباس: نسیم حجازی کے سفرنامے "پاکستان سے دیارِ حرم تک" سے)