ابن سعید
خادم
اجی اب ان ٹیسٹروں کے مظالم کا کیا بیان۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے جب ہم ہندوستان میں تھے، ہمیں نیو یارک ڈیپارٹمنٹ آف ایجوکیشن کی جانب سے ایک عجیب سا کام ملا، اس میں کچھ امریکی گھروں کے پتے تھے جن کو امریکی اسکولوں کے پتوں سے ملا کر آس پاس کے اسکولوں کی شناخت کرنی تھی۔ یہ سن 2008 کی بات ہے، تب اتنی ساری اے پی آئیز اور ویب سروسیز بھی رواج میں نہیں تھیں اور کلائنٹ خارجی خدمات استعمال بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ تو یہ حل تجویز کیا گیا کہ پتے کے اجزا کو علیحدہ کر لیا جائے اور غیر ضروری چیزیں مثلاً اپارٹمنٹ نمبر وغیرہ کو ختم کر دیا جائے کیوں کہ ان سے اسکول سے فاصلہ معلوم کرنے میں کوئی خاص مدد نہیں ملنے والی تھی۔ اول تو ہمیں امریکی پتوں کا اندازہ بھی نہیں تھا کہ ان میں کون سا جزو کیا بتاتا ہے دوم یہ کہ اسٹریٹ، بلیوارڈ، اور روڈ وغیرہ کے لیے دو تین حرفی مخفف موجود ہیں ان کا بھی علم نہیں تھا لیکن ڈیٹا دیکھ کر کچھ کچھ اندازہ ہوا اور ان کی فہرست بنا لی۔ کچھ لوگ مخفف لکھتے ہوئے ڈاٹ لگاتے ہیں کچھ نہیں، کچھ پتے اپر کیس، کچھ لوور کیس اور کچھ مکسڈ کیس میں ہوتے تھے، خیر یہ تو آسان کام تھا نارملائز کرنا۔ بہر کیف یہ ساری معلومات جمع کر کے ہم نے اس پر کام کرنا شروع کیا، وہ بھی جاوا اسکرپٹ میں۔ اب ظاہر ہے کہ ہیورسٹک اپروچ میں صد فیصد درستگی کی تو توقع ہی فضول ہے۔ کئی سارے کارنر کیسیز ایسے نکل آتے تھے جن کو کسی اصول میں باندھنا مشکل ہو رہا تھا۔ ایسا ہی ایک کیس تھا جس میں اسٹریٹ اور سینٹ دونوں کا مخفف ایک جیسا استعمال ہوتا تھا۔ خیر ہم نے ایسے کارنر کیسیز کی ایک فہرست بنائی اور ٹیسٹنگ کے لیے نوٹس میں شامل کر دیا۔ ظالم ٹیسٹر نے اپنے نمبر بڑھانے کے لیے کیا کیا کہ انھیں کیسیز کو اپنی فیلیر رپورٹ میں لکھ دیا کہ فلاں فلاں جگہ فیل ہو رہا ہے۔ ہم تو جل بھن گئے اس بات سے۔ خیر ہم نے باس سے شکایت لگا دی کہ ایسے ٹیسٹنگ ہوگی پھر ہم اس ٹکٹ پر کام نہیں کر رہے۔ باس نے ساری بات سنی، ہمارا کام دیکھا تو انھوں نے کہا کہ جتنا آپ نے کیا ہے اس سے زیادہ ممکن بھی نہیں، یا تو کلائنٹ اضافی ڈیٹا فراہم کرے تو بہتری لائی جا سکتی ہے۔