انشا پارے

تلمیذ

لائبریرین
یہ دکان دین محمد قسائی حلال گوشت والے کی دکان کے عین سامنے ہے۔
یہاں مستقل رہنے والے پاکستانی بالعموم پاکستانی قسائیوں سے گوشت لیتے ہیں۔
یہاں قسائی کی دکان آئینہ خانہ ہوتی ہے۔

ملاحظہ کریں لفظ 'قسائی'۔ یہ اس لفظ کی درست املا ہے۔ جبکہ ہم اسےغلط العام کے طور پر 'قصائی' لکھتے ہیں۔
 
کیا میں نے کچھ غلط لکھ دیا؟ ایک عمدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ابن انشاء ایک اعلیٰ پائے کے مزاح نگار بھی تو تھے۔
ارے نہیں جناب۔
میرا مطلب تھا آپ نے جو میرے پیغام کا اقتباس لیا ہے اس میں اب بھی "خرافات" لکھا آرہا ہے۔
جسے میں نے اصل پیغام حذف کردیا ہے۔:)
 

قیصرانی

لائبریرین
کچھوا اور خرگوش
ایک تھا کچھوا، ایک تھا خرگوش۔ دونوں نے آپس میں دوڑ کی شرط لگی۔ کوئی کچھوے سے پوچھے کہ تو نے کیوں شرط لگائی؟ کیا سوچ کر لگائی۔ دنیا میں احمقوں کی کمی نہیں، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ طے یہ ہوا کہ دونوں میں سے جو نیم کے ٹیلے تک پہلے پہنچے، وہ مہیری سمجھا جائے۔ اسے اختیار ہے کہ ہارنے والے کے کان کاٹ لے۔
دوڑ شروع ہوئی۔ خرگوش تو یہ جا وہ جا۔ پلک جھپکنے میں خاصی دور نکل گیا۔ میاں کچھوے وضع داری کی چال چلتے منزل کی طرف رواں ہوئے۔ تھوڑی دور پہنچے تو سوچا بہت چل لیے اب آرام بھی کرنا چاہیے۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنے شاندار ماضی کی یادوں میں کھو گئے، جب اس دنیا میں کچھوے راج کرتے تھے۔ سائنس اور فنون لطیفہ میں بھی ان کا بڑا نام تھا۔ یوں ہی سوچتے سوچتے آنکھ لگ گئی۔ کیا دیکھتے ہیں خود تو تخت شاہی پر بیٹھے ہیں، باقی زمینی مخلوق شیر، چیتے، خرگوش، آدمی وغیرہ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں یا فرشی سلام کر رہے ہیں۔ آنکھ کھلی تو ابھی سستی باقی تھی۔ بولے، " ابھی کیا جلدی ہے۔ اس خرگوش کے بچے کی کیا اوقات ہے! میں بھی کتنے عظیم ورثے کا مالک ہوں۔ واہ بھئی وا میرے کیا کہنے!"
جانے کتنا زمانے سوئے رہے۔ جب جی بھر کر سستا لیے تو پھر ٹیلے کی طرف رواں ہوئے۔ وہاں پہنچے تو خرگوش کو نہ پایا۔ بہت خوش ہوئے۔ اپنے کو داد دی، واہ رے مستعدی میں پہلے پہنچ گیا۔ بھلا کوئی میرا مقابلہ کر سکتا ہے۔
اتنے میں ان کی نظر خرگوش کے ایک پلے پر پڑی جو ٹیلے کے دامن میں کھیل رہا تھا۔ کچھوے نے کہا، "اے برخوردار! تو خرگوش خاں کو جانتا ہے؟"
خرگوش کے بچے نے کہا، "جی ہاں جانتا ہوں۔ میرے ابّا حضور تھے۔ معلوم ہوتا ہے آپ ہیں وہ کچھوے میاں جنہوں نے باوا جان سے شرط لگائی تھی۔ وہ تو پانچ منٹ میں یہاں پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد مدّتوں آپ کا انتظار کرتے رہے، آخر انتقال کر گئے۔ جاتے ہوئے وصیت کر گئے تھے کہ کچھوے میاں آئیں تو ان کے کان کاٹ لینا۔ اب لائیے ادھر کان۔"
کچھوے نے فورا اپنے کان اور اپنی سری خول کے اندر کر لی۔ آج تک چھپائے پھرتا ہے۔
بشکریہ ابن انشاء :)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اتنی حساس تو اپنی عمر کے بارے میں لڑکیاں بھی نہیں ہوتیں۔ زنانہ مٹی سے بنے ہو کیا:laugh:

اک جام تو پی لے دے اے نیرنگ خیال
پھر تجھ کو بتاتا ہوں میں کون ہوں کیا ہوں:grin:

دنیا نے تڑپ کر میرے شانوں کو جھنجھوڑا
لیکن مرا احساس غمِ ذات میں گم تھا:lol:
آتی رہیں کانوں میں المناک پکاریں
لیکن مرا دل جام و مے و مینا و خرابات میں گم تھا:p
 
Top