انیس الرحمن
محفلین
اچھا منّے نہیں سکھاتا۔۔اتنا بڑا جھوٹ؟
انکل آپ کیا مجھ جیسے ننھے منھے چلبلے اور حساس بچوں کو یہ سب سکھا رہے ہیں۔
میں حوصلہ افزائی کروں گا آپ کی۔۔
اچھا منّے نہیں سکھاتا۔۔اتنا بڑا جھوٹ؟
انکل آپ کیا مجھ جیسے ننھے منھے چلبلے اور حساس بچوں کو یہ سب سکھا رہے ہیں۔
یہ دکان دین محمد قسائی حلال گوشت والے کی دکان کے عین سامنے ہے۔
یہاں مستقل رہنے والے پاکستانی بالعموم پاکستانی قسائیوں سے گوشت لیتے ہیں۔
یہاں قسائی کی دکان آئینہ خانہ ہوتی ہے۔
براہ مہربانی، اپنے الفاظ پر نظر ثانی کریں۔ یہ اردو کے ایک عظیم مزاح نگار کے شہ پارے ہیں، صاحب۔ایک شاعر کی خرافات۔۔
کردیا سر۔۔براہ مہربانی، اپنے الفاظ پر نظر ثانی کریں۔ یہ اردو کے ایک عظیم مزاح نگار کے شہ پارے ہیں، صاحب۔
کردیا سر۔۔
اب آپ نے جو اقتباس لیا ہے اس کی تصیح کی ذمہ داری آپ کی ہے۔۔
اتنی حساس تو اپنی عمر کے بارے میں لڑکیاں بھی نہیں ہوتیں۔ زنانہ مٹی سے بنے ہو کیاانیس انکل آپ کو بھی حوصلہ افزائی چاہیے۔
آپ تو اب انکل کے بھی اس درجے پہ ہیں، جہاں حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
ارے نہیں جناب۔کیا میں نے کچھ غلط لکھ دیا؟ ایک عمدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ابن انشاء ایک اعلیٰ پائے کے مزاح نگار بھی تو تھے۔
شکریہ نین بھائی۔۔زبردست انیس بھائی۔ کمال ہے یارا۔۔۔ جتنی بار مرضی پڑھو لطف میں کمی نہیں آتی۔
ایک شاعر کی خرافات۔۔
بشکریہ ابن انشاءکچھوا اور خرگوشایک تھا کچھوا، ایک تھا خرگوش۔ دونوں نے آپس میں دوڑ کی شرط لگی۔ کوئی کچھوے سے پوچھے کہ تو نے کیوں شرط لگائی؟ کیا سوچ کر لگائی۔ دنیا میں احمقوں کی کمی نہیں، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ طے یہ ہوا کہ دونوں میں سے جو نیم کے ٹیلے تک پہلے پہنچے، وہ مہیری سمجھا جائے۔ اسے اختیار ہے کہ ہارنے والے کے کان کاٹ لے۔
دوڑ شروع ہوئی۔ خرگوش تو یہ جا وہ جا۔ پلک جھپکنے میں خاصی دور نکل گیا۔ میاں کچھوے وضع داری کی چال چلتے منزل کی طرف رواں ہوئے۔ تھوڑی دور پہنچے تو سوچا بہت چل لیے اب آرام بھی کرنا چاہیے۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنے شاندار ماضی کی یادوں میں کھو گئے، جب اس دنیا میں کچھوے راج کرتے تھے۔ سائنس اور فنون لطیفہ میں بھی ان کا بڑا نام تھا۔ یوں ہی سوچتے سوچتے آنکھ لگ گئی۔ کیا دیکھتے ہیں خود تو تخت شاہی پر بیٹھے ہیں، باقی زمینی مخلوق شیر، چیتے، خرگوش، آدمی وغیرہ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں یا فرشی سلام کر رہے ہیں۔ آنکھ کھلی تو ابھی سستی باقی تھی۔ بولے، " ابھی کیا جلدی ہے۔ اس خرگوش کے بچے کی کیا اوقات ہے! میں بھی کتنے عظیم ورثے کا مالک ہوں۔ واہ بھئی وا میرے کیا کہنے!"
جانے کتنا زمانے سوئے رہے۔ جب جی بھر کر سستا لیے تو پھر ٹیلے کی طرف رواں ہوئے۔ وہاں پہنچے تو خرگوش کو نہ پایا۔ بہت خوش ہوئے۔ اپنے کو داد دی، واہ رے مستعدی میں پہلے پہنچ گیا۔ بھلا کوئی میرا مقابلہ کر سکتا ہے۔
اتنے میں ان کی نظر خرگوش کے ایک پلے پر پڑی جو ٹیلے کے دامن میں کھیل رہا تھا۔ کچھوے نے کہا، "اے برخوردار! تو خرگوش خاں کو جانتا ہے؟"
خرگوش کے بچے نے کہا، "جی ہاں جانتا ہوں۔ میرے ابّا حضور تھے۔ معلوم ہوتا ہے آپ ہیں وہ کچھوے میاں جنہوں نے باوا جان سے شرط لگائی تھی۔ وہ تو پانچ منٹ میں یہاں پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد مدّتوں آپ کا انتظار کرتے رہے، آخر انتقال کر گئے۔ جاتے ہوئے وصیت کر گئے تھے کہ کچھوے میاں آئیں تو ان کے کان کاٹ لینا۔ اب لائیے ادھر کان۔"
کچھوے نے فورا اپنے کان اور اپنی سری خول کے اندر کر لی۔ آج تک چھپائے پھرتا ہے۔
کیا یہاں بھی نیرنگ خیال بھائی کو بلانے کا ارادہ ہے آپ کا؟بشکریہ ابن انشاء
اتنی حساس تو اپنی عمر کے بارے میں لڑکیاں بھی نہیں ہوتیں۔ زنانہ مٹی سے بنے ہو کیا
شکریہ شمشاد بھائی۔۔زبردست شیئرنگ ہے۔
اور
اور یہ بلال کچھ زیادہ ہی چھوٹا نہیں ہوتا جا رہا۔
شکریہ عینی۔۔بہت مزہ آیا بھیا یہ سب ایک بار پھر پڑھ کر